واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مالی بوجھ ترقی یافتہ ممالک برداشت کریں۔
عرب نیوز کے مطابق جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی بوجھ برداشت کرنا چاہیے۔
جان کیری نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا گلوبل وارمنگ میں سب سے کم حصہ ہے، لیکن ان میں سے اکثریت ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔
جو بائیڈن کے نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں، ان کی وجہ وہ 20 ممالک ہیں جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں، جب کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 17 ممالک براعظم افریقہ میں موجود ہیں، اور افریقی ممالک دنیا بھر میں ہونے والے کاربن اخراج میں سے صرف تین فیصد کے لیے ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے اگلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ28 کے عرب امارات میں انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا صدر شیخ محمد بن زاید کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
جان کیری نے کہا کاربن کے اخراج میں اضافے کی سائنسی حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس اخراج کو قابو کرنا ہوگا۔ ترقی پذیر ممالک کے خدشات سے نمٹنے کے لیے امریکا کی جانب سے 12 ارب ڈالر کی امداد مختص کی گئی ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاری سے 32 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، سیلاب کی وجہ سے متعدد اضلاع مکمل تباہ ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان واٹر ویک 2022 کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں، پانی کی قلت اور ہیٹ ویوز کا سامنا ہے، یہ تمام تبدیلیاں پاکستان کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاری سے 32 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ متعدد اضلاع سیلاب کی وجہ سے مکمل تباہ ہوگئے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ملک ہے، ملک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات پر بھی شدت سے پڑرہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد پرندوں کی اقسام کے معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
تیزی سے بدلنے والے موسمی حالات کی وجہ سے پرندوں کی رہائش کے مقامات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں مساکن کی تبدیلی سے پرندوں کی کئی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔
اس ماحول میں بعض جنگلی جانوروں کی آبادی تو بڑھ رہی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کی افزائش میں نمایاں کمی بھی آرہی ہے جب کہ چڑیا گھروں میں رکھے گئے جانوروں اور پرندوں کے انڈے اور بچے دینے کے سیزن میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے جانوروں پر کیا اثر مرتب ہوتے ہیں؟ یہ جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے ماہرحیوانیات ڈاکٹر صالحہ رحمان نے جانوروں اور پرندوں کے بدلتے ہوئے حالات پر روشنی ڈالی۔
اے آر وائئ ڈیجیٹل کے نمائندے دانیال الرحمان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ یہ جانور ایسی جگہ رہنا پسند کرتے ہیں جہاں خوراک اور رہائش ایک ساتھ میسر ہوں جب درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے تو وہ اپنا مقام تبدیل کرکے کسی ٹھنڈے مقام کا رخ کرلیتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز کے سینئر استاد اور محقق ڈاکٹر ظفر اقبال شمس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم شہر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ درخت لگانے کے بجائے یہاں موجود درختوں کا بھی خاتمہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اس اقدام سے پرندے بھی ہجرت پر مجبورہوجاتے ہیں چونکہ بہت سے پرندوں کی خوراک کا انحصار درختوں میں موجود کیڑوں پر ہوتا ہے، اس لیے درختوں کو کاٹنے کا عمل ان کی خوراک کا ذریعہ بھی ختم کردیتا ہے۔
کبوترں کو دانہ ڈالنا خطرے کی علامت ہے
ڈاکٹر شمس کا کہنا تھا کہ شہر بھر کے متعدد چوک چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ باقاعدہ کثرت سے جنگلی کبوتر کو دانہ ڈالتے ہیں اور اس کام کو انتہائی بہترین عمل سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس بات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ عمل کئی طریقوں سے حفظان صحت کے بہت سے سنگین مسائل کا سبب بھی بنتا ہے، شہر کے قرب و جوار میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جو کبوتروں کی آبادی کو بڑھانے میں بھرپور مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان پرندوں کی بہتات کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں، کچھ بیماریاں ان کی بیٹ (پاخانہ) کے اخراج کے ساتھ براہ راست یا سانس کے ذریعے منتقل ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ماہر حیوانات روحی کنول کا کہنا تھا کہ کبوتر ایک کیڑے کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں جو دیگر پرندوں کے لیے بری خبر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلی کبوتروں کی بے تحاشا افزائش میں انسانوں کا بڑا عمل دخل ہے جس نے ان کے پھیلاؤ کے اس مسئلے میں اضافہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ جانور خاص طور پر پرندے ایسے ہوتے ہیں جو موسم کی تبدیلی سے اپنی جگہ بدل لیتے ہیں لیکن بہت سے جانور ایسے ہیں جو صرف چند مخصوص جگہوں پر پائے جاتے ہیں اور اپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتے۔
اور اگر اس جگہ کی آب و ہوا اچانک تبدیل ہونے لگے اور انہیں اپنی خوراک نہ مل رہی ہو تو اس جانور کی نسل آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگتی ہے۔
ڈاکٹرصالحہ نے کہا کہ موسم کی زبردست تبدیلی کچھ جانوروں کی افزائش کے عمل کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے اور ان کی آبادی میں کمی آنے لگتی ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست کے مطابق 41ہزار سے زائد پرندوں اور جانوروں کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ دنیا اگر سال 2030 تک گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرلے تو خشک سالی، سیلاب اور بڑے پیمانے پر جانوروں کی معدوم ہوتی نسلوں کو ختم ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے کلائمٹ چینج کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے نیشنل پلان بنانے کی ہدایت کردی، انہوں نے ہدایت کی کہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے اور بروقت تیاری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کی بحالی،موسمی خطرات سے بچاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نیشنل پلان بنانے کی ہدایت کردی۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے حامل گھر اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر نیشنل پلان کا حصہ ہیں۔
وزیر اعظم کی موسمیاتی تبدیلی کونسل کو مکمل فعال ادارہ بنانے کی ہدایات کردی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق تعمیرات کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے اور بروقت تیاری کے لیے اقدامات کیے جائیں، وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کا اشتراک عمل تیار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں موسمیاتی خطرات کی نشاندہی اور قومی سطح پر جامع منصوبہ تیار کیا جائے۔
وزیر اعظم نے جامع پلان کی تیاری کے لیے بہترین ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا بھی حکم دیا، انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں تباہ کن رہی ہیں، سندھ اور بلوچستان میں تباہی تازہ مثال ہے، اس تباہی کو ہمیں بھول نہیں جانا، متاثرین کی بحالی کے ساتھ مستقبل کی تیاری کرنی ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کونسل مرکزی کردار ادا کرے، خطرات کی نشاندہی، وسائل کی فراہمی اور نقصان کا اندازہ لگانے کی صلاحیت بہتر بنانے پر توجہ دیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ خطرات سے کیسے بچا جائے، انتظامیہ کی کیا تربیت ہونی چاہیئے، اس پر ٹھوس کام کریں، پاکستان کو شدید خشک سالی کے خطرے سے بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے صوبہ سندھ کا ڈیلٹا کا علاقہ خشک ہوگیا ہے، ماہرین کی رائے کی روشنی میں اقدامات تجویز کریں، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات سے بچاؤ کی تدابیر اور 3 گنا زیادہ گلیشیئر پگھلنے اور مون سون بارشوں کی شدت سے بچاؤ کے لیے بھی تجاویز تیار کریں۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر میں انسانی تباہی کو جنم دے رہا ہے، شدید گرمی کی لہریں خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہیں۔
عالمی فلاحی ادارے ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور ( او سی ایچ اے) کی جانب سے مشترکہ طور پر شائع ہونے والی دستاویز میں ہولناک انکشاف کیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرمی کی شدید لہروں سے افریقا کے ساحلی خطے جنوبی ایشیا اور خاص طور سے جنوب مشرقی ایشیا میں بعض علاقوں کے عملی طور پر غیر آباد ہونے کا خطرہ ہے جبکہ شدید موسم غریب ممالک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
دستاویز کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر میں انسانی تباہی کو جنم دے رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی شدید گرمی کی لہریں آنے والی دہائیوں میں دنیا کے کچھ علاقوں کو عملی طور پر ناقابل رہائش بناسکتی ہیں، دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہریں خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہیں۔
گرمی کی شدید لہروں سے افریقا کے ساحلی خطے، جنوبی ایشیا اورخاص طور سے جنوب مشرقی ایشیاء میں بعض علاقوں کے عملی طور پر غیر آباد ہونے کا خطرہ ہے جبکہ شدید موسم غریب ممالک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
یہ بات ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور ( او سی ایچ اے) کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع ہونے والی دستاویز میں بتائی گئی ہے۔
دستاویز کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر میں انسانی تباہی کو جنم دے رہا ہےموسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی شدید گرمی کی لہریں آنے والی دہائیوں میں دنیا کے کچھ علاقوں کو عملی طور پر ناقابل رہائش بنا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہریں خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہیں۔
ان کے اثرات میں بڑے پیمانے پر آفات، جانوں کا ضیاع، آبادی کی نقل و حرکت اور عدم مساوات میں اضافہ شامل ہیں۔ اس حوالے سے زیادہ آبادی والے شہر سب سے زیادہ خطرناک علاقوں میں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے2050 کی دہائی تک انتہائی گرمی کے حالات میں رہنے والے شہری غریب لوگوں کی تعداد میں 700فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا ہے۔
دستاویز کے مطابق سخت گرمی سے مستقبل میں ہونے والی اموات کی متوقع شرح حیران کن حد تک زیادہ ہوسکتی ہے جو صدی کے آخر تک کینسر یا تمام متعدی بیماریوں سے ہونے والی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
اوسط درجہ حرارت میں اضافے اور بار بار گرمی کی لہروں سے زراعت اور مویشیوں کے نظام کو نقصان قدرتی وسائل کی تباہی، بنیادی ڈھانچے کو نقصان اور نقل مکانی میں اضافے کا بھی اندیشہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ شدید گرم موسم کے باعث دنیا بھر میں2030 تک معاشی نقصانات 24 کھرب ڈالر سے تجاوز کر سکتے ہیں۔
شدید گرمی کی لہریں 2003 میں یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات اور 2010 میں روس میں 55 ہزار سے زیادہ اموات کا باعث بن چکی ہیں۔
دستاویز کے مطابق اس حوالے سے بدترین نتائج سے بچنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت جن کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار سست کرنا اور انہیں روکنا،شدید گرمی کی لہر کے بارے میں بروقت معلومات فراہم کرنا اور گرمی کو کم کرنے والے رہائشی منصوبوں میں سرمایہ کاری سرفہرست ہونے چاہییں۔
جنیوا : اقوام متحدہ کے ماہرین موسمیات نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہونے پر دو ممالک مالدیپ اور توالو غرق ہوجانے کا شدید خطرہ درپیش ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ماہرین موسمیات نے جنوبی ایشیا میں واقع جزیرہ نما ریاست مالدیپ اور جنوبی بحرالکاہل میں آزاد جزیرہ نما ملک تووالو سے متعلق خطرناک پیش گوئی کی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے نے عالمی ادارے کے ماہرین موسمیات کی تازہ ترین رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ عالمی حدت میں اضافے کے باعث دنیا کے کئی مقامات پر سطح سمندر بلند ہورہی ہے،1900 سے اب تک اس میں 15سے 25 سینٹی میٹر (6 سے 10 انچ) اضافہ ہوچکا ہے اور اس کی رفتار تیز ہورہی ہے۔
ماہرین کے مطابق حدت کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک بحرالکاہل اور بحر ہند کے جزیروں کے ارد گرد سطح سمندر 1 میٹر (39 انچ )تک بڑھ سکتی ہے جو یقیناً خطرے کا باعث ہے۔
،اس کے علاوہ آئے روز کے سمندری طوفان اور دیگر ارضیاتی مسائل بھی ان علاقوں کے وجود کو ختم کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کے حوالے سے ایک مطالعے کے مطابق پانچ ممالک (مالدیپ، تووالو، مارشل جزائر، ناورو اور کریباتی) 2100 تک غیر آباد ہوسکتے ہیں جس سے قریباً چھ لاکھ افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جنگوں سے ریاستوں کا وجود یقیناً مٹتا رہا لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں کہ ریاستوں کا وجود سطح سمندر کی بلندی یا موسمی حالات کے نتیجے میں معدوم ہوا ہو۔
بھارت میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد مختلف شہروں میں سیلاب آنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہنگامی حالت کا اعلان کردیا گیا، تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم جاری کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے تمام اضلاع میں بارش کی وجہ سے حالات اتنے کشیدہ ہوگئے ہیں کہ ندیوں میں طغیانی اور پانی کی سطح بلند ہونے سے کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
موسم کی خرابی کے پیش نظر نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا، مراد آباد، بجنور، کانپور، آگرہ، بلند شہر وغیرہ سمیت کئی اضلاع میں اسکولوں میں چھٹیوں کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ دو دنوں سے جاری موسلادھار بارشوں کی وجہ سے دہلی، این سی آر اور مغربی یوپی میں صورتحال مزید خراب ہوگئی، گلیاں پانی سے بھری ہوئی ہیں۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات نے مزید تباہ کن بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اتر پردیش میں آج یعنی 10 اکتوبر کو بھی بارش جاری رہے گی۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری بارش کے الرٹ کے پیش نظر یوپی کے کئی اضلاع میں آج اسکول بند رہیں گے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے ریاست کے کئی حصوں میں موسلادھار بارش کے باعث جہاں پانی جمع ہونے کی صورتحال ہے وہیں دوسری جانب کئی علاقوں میں بارش کی وجہ سے حادثات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے ساتھ بھارت میں جنگلات کی کٹائی اور ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بھی انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) حکام نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب سے 945 افراد جاں بحق ہوئے اور 67 ہزار سے زائد گھر تباہ ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس منعقد ہوا، وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن نے اجلاس کو بریفنگ دی۔
وفاقی وزیر نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ بارشوں اور سیلاب سے سندھ اور بلوچستان کا برا حال ہے، اب تک 11 سو ملی میٹر بارش بھی ریکارڈ ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی کمیونیکشن لائنز بھی کٹ گئی ہیں، بلوچستان کو مدد نہیں پہنچ رہی، انٹرنیٹ پر بھی رابطہ نہیں ہو رہا۔
اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) حکام نے سیلاب کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب سے 945 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ 13 سو 56 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ اموات 306 صوبہ سندھ میں ہوئیں، بلوچستان میں 234، خیبر پختونخواہ میں 193 اور پنجاب میں 165 افراد جاں بحق ہوئے۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ سیلاب سے 145 پل تباہ ہوئے، 3 ہزار 82 کلو میٹر شاہراہوں کو سیلاب سے نقصان پہنچا، 67 ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہوئے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق سیلابی ریلوں میں 7 لاکھ 93 ہزار مویشی بہہ گئے۔ سیلاب سے بلوچستان کے 31 اضلاع، سندھ کے 23 اضلاع، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے 9، 9 اور پنجاب کے 3 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔
چترال: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے اپر چترال میں گلیشیئر پھٹنے اور سیلاب کا خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق گلیشیئر پھٹنے اور ممکنہ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر اپر چترال کے اسکولوں کو بند رکھنے کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم نے سیلاب کے خطرے کے باعث ابتدائی طور پر اسکول 10 دن بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے اپرچترال کے زیادہ تر علاقے پہلے ہی سے شدید متاثر ہیں، محکمہ تعلیم اپرچترال کے مطابق ممکنہ سیلاب اور گلیشیئر پھٹنے کے باعث مزید نقصان سے بچنے کے لیے اسکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار چترال اپر کے متاثرہ علاقہ کھوژ مستوج کے متاثرہ خاندانوں کو امدادی سامان پہنچا رہے ہیں
اعلامیے کے مطابق اپرچترال کے ریشن، چوئنج، کھوژ، دزگ، اوی اور یونین کونسل یارخون کے تمام اسکول دس دن بند رہے گے۔
واضح رہے کہ چترال میں مون سون بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، بالخصوص اپر چترال بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہے، تاہم دوسری طرف صوبائی حکومت کی جانب سے ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود بھی متاثرین بے یار و مددگار ہیں۔
علاقہ مکینوں کے مطابق اپر چترال میں کھوژ گاؤں میں 18 گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں، بریپ، ریشن، چوئنج، کھوژ، دزگ، اوی اور یونین کونسل یارخون میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پاور کے علاقے میں ابھی تک امدادی کارروائیاں شروع نہیں ہوئیں۔
ادھر پی ڈی ایم اے نے صوبے میں مزید بارشوں کا امکان ظاہر کر کے الرٹ جاری کیا ہے، جس کے بعد ممکنہ سیلاب کے خطرے کے باعث محکمہ تعلیم اپر چترال نے متاثرہ علاقوں میں اسکول بند کرنے کا اعلامیہ جاری کیا۔
دنیا بھر میں ہونے والی موسمی تبدیلیاں یا کلائمٹ چینج اسکن کینسر (جلد کے سرطان) کا سبب بن سکتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ شمالی ممالک میں سورج تلے طویل وقت گزارنے سے کینسر کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل میں کلائمٹ سائنسز کے پروفیسر ڈین مچل نے توجہ مبذول کروائی ہے کہ برطانیہ اور شمال کے دیگر ممالک میں لوگ گرم دنوں میں زیادہ باہر نکلتے ہیں، جنہیں الٹرا وائلٹ شعاعوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں کینسر کا ایک عنصر تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی خاص ہیٹ ویو کسی خاص کینسر کا سبب بنا۔ مچل نے نشاندہی کی کہ کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے کا تعلق موسمیاتی تبدیلی اور بلند درجہ حرارت سے ہے۔