Tag: Climate Change

  • ماحولیاتی تبدیلی، پاکستان  اپنی آنے والی نسلوں کے بہترمستقبل کیلئے سوچ رہا ہے، وزیراعظم

    ماحولیاتی تبدیلی، پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے بہترمستقبل کیلئے سوچ رہا ہے، وزیراعظم

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تغیرات کے خلاف اپنے حصے سے زیادہ کام کر رہا اور اپنی آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ماحولیاتی تبدیلی کے لئے بجٹ کا گزشتہ حکومتوں سے موازنہ پیش کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کیلئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہترمستقبل کیلئے اقدام کررہاہے ، ماحولیاتی تبدیلوں سےنمٹنے کیلئےبجٹ میں ساڑھے14.5 ارب مختص کیے۔

    یاد رہے گذشتہ ہفتے پاکستان کی میزبانی میں عالمی یوم ماحولیات کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ترقی یافتہ ممالک سے کہا تھا کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو عالمی حدت سے نمٹنے اور ماحولیاتی نظام کی بہتری کیلئے فنڈز فراہم کریں۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دنیا میں کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہایت معمولی ہے ،قدرتی ماحول میں کاربن اور زہریلی گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج کے ذمہ دار امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو وافر فنڈز فراہم کریں۔

    وزیر اعظم نے ترقی یافتہ ملکوں کو مسلسل اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے اور ماحول کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ممالک کی مدد کرنے پر اقوام متحدہ کے کردار کی تعریف کی۔

  • امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستانی کوششوں کا معترف

    امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستانی کوششوں کا معترف

    واشنگٹن : امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن لی نے کہا کہ پاکستان نے 2023 تک اربوں درخت لگانے کےعزم کا اظہار کیا ہے، امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستانی کوششوں کا معترف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن لی نے موسمیاتی تبدیلی پرعالمی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت پرخوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستانی کوششوں کامعترف ہے۔

    شیلا جیکسن لی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 2023 تک اربوں درخت لگانے کےعزم کا اظہار کیا ہے، پاکستان کا اربوں درخت لگانےکاعزم دنیا کیلئے ایک چیلنج اور مثال ثابت ہوگا، موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستانی اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    خیال رہے ڈیموکریٹ رکن کانگریس شیلا جیکسن لی پاکستان کاکس کی چیئرپرسن بھی ہیں ۔

    پاکستانی اقدامات کوسراہنے پر مشیربرائےماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے اظہارتشکر کرتے ہوئے کہا پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کامقابلہ کرنےکیلئے پُرعزم ہے۔

  • 40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    40 سال میں ہماری زمین کتنی بدل چکی ہے؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے کچھ ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دہائیوں کے دوران ہماری زمین میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا اور گوگل نے اشتراک کیا ہے جس کا مقصد زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانوں کے مرتب کردہ اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔

    گوگل ارتھ میں اب دیکھا جاسکتا ہے کہ زمین میں گزرے برسوں کے دوران کتنی تبدیلی آئی ہے، اسے گوگل نے گوگل ارتھ کی تاریخ کی سب سے بڑی اپ ڈیٹ بھی قرار دیا ہے۔

    ناسا، یو ایس جیولوجیکل سروے، ورلڈز فرسٹ سویلین ارتھ آبزرویشن پروگرام اور یورپین یونین کے سیٹلائٹس کی مدد سے 1984 سے اب تک کی 2 کروڑ تصاویر کو استعمال کرکے گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس ویڈیوز تیار کی گئی ہیں۔

    ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں کیسی ارضیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، یعنی جنگلات کیسے ختم ہوئے، شہر کیسے پھیلے وغیرہ وغیرہ۔

    گوگل کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہمارے سیارے میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں جس کی مثال انسانی تاریخ کے کسی اور عہد میں نہیں ملتی۔

    کمپنی کے مطابق گوگل ارتھ میں ٹائم لیپس کے ذریعے ہم اپنے بدلتے سیارے کی واضح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جس سے نہ صرف مسائل بلکہ اس کے حل بھی سامنے آسکیں گے۔

    ایسی ایک ویڈیو میں برازیل کے ایمیزون جنگلات میں آنے والی تبدیلیوں کو دکھایا گیا ہے جو بہت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

    اسی طرح دبئی کے پھیلاؤ کی ویڈیو بھی دکھائی گئی ہے کہ کس طرح گزشتہ 37 برسوں میں یہ شہر پھیلا ہے اور صحرا نے شہر کا روپ اختیار کرلیا، جبکہ مصنوعی ساحلوں کو بنتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    قطر کے دارالحکومت دوحا میں بھی صحرا کو شہر میں بدلنے کا مسحور کن نظارہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح انسان صحرا میں پھیل گئے۔

    ایک ویڈیو میں زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات سے انٹارکٹیکا کے ایک گلیشیئر کو پگھلتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

  • آئیں مل کر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے بچائیں، بل گیٹس کو وزیراعظم کا خط

    آئیں مل کر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے بچائیں، بل گیٹس کو وزیراعظم کا خط

    سلام آباد: وزیراعظم کی کلائمٹ چینج سےمتعلق عالمی رہنماؤں سےخط وخطابت جاری، وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد کےبعدبل گیٹس کوبھی خط لکھ دیا ہے۔

    بلین ٹری سونامی منصوبہ وزیراعظم عمران خان کی بڑی ترجیح بن گیا ہے، وزیراعظم عالمی اور ملکی فورم پر بلین ٹری سونامی منصوبے اور کلائمیٹ چینج سے متعلق اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔

    وزیراعظم کلائمیٹ چینج سے متعلق عالمی رہنماؤں سےخط وخطابت جاری رکھے ہوئے ہیں، چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے سعودی عرب کے’ گرین انیشی ایٹو‘ منصوبے پر خوشی کا اظہار کیا اور’ گرین مڈل ایسٹ انیشی ایٹو‘ کی تعریف کی تھی۔

    سعودی ولی عہد سے خط وکتابت کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بل گیٹس کوبھی خط لکھا ہے، خط میں وزیراعظم عمران خان نے کلائمیٹ چینج کےخطرات پر کتاب لکھنے پر بل گیٹس کو خراج تحسین کیا۔

    خط میں وزیراعظم نے لکھا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہےجہاں موسمیاتی تبدیلی کےخطرات ہیں، پاکستان کو کلیشیئر پگھلنا،مون سون سمیت کئی طرح کے موسمی خطرات کاسامنا ہے، پاکستان بھی موسمی خطرات سے نمٹنے اور بچاؤ کےاقدامات اٹھارہاہے، آئیں مل کر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کےخطرات سےبچائیں۔

    وزیراعظم کی جانب سے بل گیٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ پاکستان نے بلین ٹری سونامی، نیشنل پارکس،کلین گرین ،ویسٹ مینجمنٹ پروگرام شروع کئے اور اب پاکستان کاربن کی کمی کےلئے متبادل توانائی کے منصوبے شروع کررہا ہے، کلائمنٹ چینج کے لئے پاکستان نے گرین جابز دیں، 10لاکھ ایکڑجنگلات کو محفوظ بنایا۔

    وزیراعظم نے خط کے زریعے مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ چینج سےمتعلق آپ کی کتاب پاکستان کےبلین ٹری منصوبےکی عکاس ہے، آپ نے کتاب میں جو نشاندہی کی دنیا کو اسےسمجھناچاہئے، کرہ ارض کو موسمیاتی نقصان سے بچانے کےلیے آپ کی کتاب بہترین کاوش ہے۔

    اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کےخطرات کم کرنےکےلیےتعاون کرنے کو تیار ہے، دنیا کو بھی موسمیاتی خطرات کوبھانپتےہوئےہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ نئی نسل کوکلین گرین اور پرفضاماحول فراہم کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

  • وزیراعظم کا ماحولیاتی کانفرنس کو معاشی معاہدوں سے جوڑنے کا مطالبہ

    وزیراعظم کا ماحولیاتی کانفرنس کو معاشی معاہدوں سے جوڑنے کا مطالبہ

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان ماحولیاتی نظام کی بہتری کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں، پاکستان میں بلین ٹری سونامی اور کلین اینڈ گرین مہم کی زبردست کامیابی ان کے ویژن کی عکاسی کرتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کا ماحولیاتی تبدیلی پر آرٹیکل برطانوی اخبار کی زینت بنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا ماحولیاتی تبدیلی پر آرٹیکل برطانوی اخبار میں شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے نہایت مفصل انداز میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنےکیلئے اپنی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔

    وزیراعظم عمران خان نے آرٹیکل میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل کو اجاگر کیا، وزیراعظم نے بتایا کہ گزشتہ سال گرمیوں میں پاکستان نے صدی کی بدترین بارش کا سامنا کیا جہاں مون سون بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

    اپنے آرٹیکل میں وزیراعظم نے لکھا کہ کراچی میں بارش سے جانی اور مالی نقصان ہوا اور ہزاروں افراد بے گھر جبکہ 100سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

    برطانوی اخبار میں شائع آرٹیکل میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی کانفرنس’’کاپ 26‘‘ کو معاشی معاہدے کےبغیر ناکام دیکھ رہاہوں، میرے نزدیک ماحولیاتی کانفرنس کو معاشی معاہدوں سے جوڑا جائے۔

    وزیراعظم نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ گلوبل کلائمنٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان کا آٹھواں نمبر پر ہے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ بیس سالوں کے دوران ایک سو باون مواقع پر پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سےبراہ راست متاثر ہوا۔

    وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ سال دو ہزار سے اب تک ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نو ہزار 989 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    برطانوی اخبار میں شائع اپنے مفصل آرٹیکل میں وزیراعظم نے لکھا کہ عالمی سطح پر تبدیل آب وہوا میں پاکستان کا حصہ زیادہ نہیں ہے، پاکستان عالمی کاربن کےاخراج کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتا ہے، ہم اپنی بڑھتی معیشت کو سبز،کم کاربن والا صاف ماحول بنا کر عالمی حل کا حصہ بننے کیلئے پرعزم ہیں، میری حکومت کاہدف ہے کہ 2030تک ساٹھ فیصد ہماری توانائی کاربن فری ہوجائے۔

    وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے2023 تک دس ارب درخت لگانےکا منصوبہ بنایا، کاربن جذب کرنیوالے ایک لاکھ ہیکٹر جنگلات کی بحالی کا ہمارا ہدف ہے، اس کے علاوہ 2023تک محفوظ علاقوں کی کوریج کو 15فیصداراضی رقبے تک بڑھایاجانا شامل ہے، 2023تک محفوظ علاقوں کی کوریج کو10فیصد سمندری رقبے تک بڑھایا جانا شامل ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپریل 22-23 کو ایک ورچوئل سمٹ کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں 40 عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔

    یہ سمٹ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکہ دوبارہ پیرس معاہدے میں شامل ہوا ہے اور رواں سال نومبر کے دوران اسی موضوع پر گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔

  • مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    مشتری ہوشیار باش! وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھلنے کو ہے

    پہلا منظر: یہ سنہ 1901 کی ایک اداس سی شام ہے، دلی کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوں دبکے پڑے ہیں جیسے نامعلوم سمت سے آتی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ باہر جانا گویا اس موت سے گلے ملنے جیسا ہے۔

    ہندوستان میں پھیلی طاعون کی وبا نے لوگوں کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ یہ وبا کتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گی اور کتنے زندہ بچیں گے۔

    دوسرا منظر: جولائی 2020 کا ایک دن، جب کرونا وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اب تک دنیا بھر میں 5 لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ایسے میں چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کے مصدقہ کیس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ حکام نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے تحت اس خطرناک مرض کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بیکٹیریا سے پھیلنے والی یہ بیماری ہر صدی میں وقفے وقفے سے ظاہر ہوتی رہی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اسے دوبارہ سر اٹھانے والی بیماری قرار دیا ہے۔


    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانے زمانوں میں سرد علاقوں میں رہنے والے لوگ وبائی امراض کا شکار اپنے پیاروں اور جانوروں کو برف کے نیچے دفن کردیتے تھے، ہم نہیں جانتے کہ ہزاروں سال پہلے کس دور میں، کس وائرس نے انسانوں پر حملہ کیا اور انہیں کن امراض کا شکار بنایا۔

    چنانچہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ڈھیروں برف کے نیچے کیا کیا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے؟

    وائرس کو جگانے کے تجربات

    اگر برف کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لاکھوں سال قدیم وائرس اور جراثیم پھر سے زندہ ہوگئے تو وہ کس حد تک فعال ہوں گے؟ آیا وہ پہلے کی نسبت کمزور ہوچکے ہوں گے یا پھر ماحول کے مطابق خود کو مزید طاقتور بنا لیں گے؟

    یہ جاننے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین وائرسز پر مختلف تجربات کر چکے ہیں۔

    سنہ 2014 میں ایک تجربے کے تحت امریکی ماہرین برف میں دبے 30 ہزار سال قدیم ایسے وائرس کو جگانے میں کامیاب رہے جس کی خاص بات یہ تھی کہ عام وائرسز کے برعکس یہ اتنا بڑا تھا کہ ایک عام مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جاسکتا تھا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جیسے ہی وائرس حیات نو حاصل کرتا ہے، وہ اسی لمحے سے فعال ہوجاتا ہے اور خود کو ملٹی پلائی کرنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی نئی زندگی کے اگلے لمحے سے ہی وہ اپنے میزبان (انسان یا جانور) کو بیماری کا شکار بنا دینے کے قابل ہوتا ہے۔

    سنہ 2005 میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی لیبارٹری میں الاسکا کی برفوں میں دبے ایسے جرثوموں کو جگایا گیا جو اندازاً اس وقت فعال تھے جب زمین پر فیل پیکر (میمتھ) رہا کرتے تھے۔ ہاتھی جیسے قوی الجثہ یہ جانور اب سے 1 لاکھ 20 ہزار سال قبل موجود تھے اور ان کی آخری نسل اب سے 4 ہزار سال قبل تک موجود رہی۔

    فیل پیکر

    اس کے 2 سال بعد یعنی سنہ 2007 میں انہی سائنسدانوں نے 80 لاکھ سال قدیم ایسے جراثیم کو حیات نو دی جو انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز میں دبے ہوئے تھے۔ جس برف سے ان جراثیم کو حاصل کیا گیا وہ برف بھی 1 لاکھ سال قدیم تھی۔

    فروری 2017 میں ناسا کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی میکسیکو میں کرسٹل کے ایک غار میں انہیں 10 سے 50 ہزار سال قدیم جرثومے ملے ہیں۔

    شمالی میکسیکو کا غار

    یہ جرثومے کرسٹل کے اندر موجود اس کے مائع میں تھے تاہم جیسے ہی انہیں مائع سے الگ کیا گیا اور انہیں سازگار ماحول ملا، یہ خود کو ضرب دینا شروع ہوگئے۔ یہ غار ایسا تھا جہاں ہزاروں سال سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چناچہ یہ جرثومے جوں کے توں موجود رہے۔

    بیماریوں کا پنڈورا بکس

    فرنچ نیشنل ریسرچ سینٹر سے تعلق رکھنے والے جین مائیکل کلیویئر کا کہنا ہے کہ برفانی خطے میں بسنے والے اولین انسان (جن کی زندگی کے قدیم ترین معلوم آثار 30 سے 40 ہزار سال قدیم ہیں) بھی جن وائرسز سے متاثر ہوئے، وہ وائرس اب بھی وہیں برف میں موجود ہوسکتے ہیں اور اگر یہی صورتحال رہی تو وہ قدیم وائرس بھی زندہ ہوسکتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ فلاں وائرس زمین سے ختم ہوچکا، ایک گمراہ کن بات ہے اور یہ گمراہ کن بیان ہمیں ایک جھوٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    مائیکل کلیویئر کے مطابق صرف ایک کلائمٹ چینج ہی نہیں، کان کنی اور تیل و گیس کی تلاش کے لیے زمین میں کی جانے والی گہری کھدائیاں بھی سوئے ہوئے جراثیم کو پھر سے سطح پر لا کر انہیں جگا سکتی ہیں۔ البتہ گلوبل وارمنگ کا مستقل عمل مختلف بیماریوں کا پنڈورا بکس کھول دے گا۔

    کرونا وائرس سے نڈھال پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    پاکستان واٹر پارٹنر شپ پروگرام سے منسلک کلائمٹ چینج سائنٹسٹ ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا کو سائنسی طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں اسے سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق جب ہم آگے آنے والے خطرات کو دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کی ضرورت کو محسوس کرلینا چاہیئے کہ ہمیں سائنسی شعبے میں اپنی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق کاربن اخراج کو کم کرنا اور ایسے ماحول دوست اقدامات اٹھانا جن سے کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات میں کمی ہو، یہ تو طویل المدتی منصوبے ہیں تاہم تب تک ان خطرات کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پرانے وائرسز کے جاگنے کا خطرہ ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں سائنسی بنیادوں پر سخت نگرانی اور ریسرچ کی جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کو ابتدا میں ہی پکڑا جاسکے اور اس کا سدباب کیا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانے وائرسز کے جاگنے سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوں گے، بلکہ یہ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو ہمارے آبی ذخائر کو متاثر کریں، ہماری نباتات کو نقصان پہنچائیں یا پھر ہمارے مویشیوں کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ایسے میں لائیو اسٹاک اور ماہی گیری سے منسلک پاکستان کی ایک بڑی آبادی خطرے میں ہوگی بلکہ ہمارے پانی کے ذخائر بھی غیر محفوظ ہوں گے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی وباؤں کے دور میں ماہرین طب اور سائنسدانوں کی تجاویز کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ بالا منظر نامے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک میں میڈیکل سائنس اور ماحولیات کا شعبہ مشترکہ طور پر سائنسی بنیادوں پر کام کرے اور اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرے۔

  • عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، ماہرین کے مطابق موسموں میں تیزی سے رونما ہوتا تغیر یعنی کلائمٹ چینج پانی کی قلت کی وجہ بنے گا۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’پانی اور کلائمٹ چینج‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • دنیا کے امیر ترین شخص نے 10 ارب ڈالرز کس مقصد کے لیے عطیہ کیے؟

    دنیا کے امیر ترین شخص نے 10 ارب ڈالرز کس مقصد کے لیے عطیہ کیے؟

    دنیا کے امیر ترین شخص اور ای کامرس کمپنی ایمیزون کے مالک جیف بیزوس نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے اقدامات کے لیے 10 ارب ڈالرز عطیہ کرنے کا اعلان کردیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے جیف بیزوس کا کہنا تھا کہ وہ بیزوس ارتھ فنڈ کا اجرا کر رہے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    Today, I’m thrilled to announce I am launching the Bezos Earth Fund.⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ Climate change is the biggest threat to our planet. I want to work alongside others both to amplify known ways and to explore new ways of fighting the devastating impact of climate change on this planet we all share. This global initiative will fund scientists, activists, NGOs — any effort that offers a real possibility to help preserve and protect the natural world. We can save Earth. It’s going to take collective action from big companies, small companies, nation states, global organizations, and individuals. ⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ I’m committing $10 billion to start and will begin issuing grants this summer. Earth is the one thing we all have in common — let’s protect it, together.⁣⁣⁣ ⁣⁣⁣ – Jeff

    A post shared by Jeff Bezos (@jeffbezos) on

    انہوں نے کہا کہ ان کی فاؤنڈیشن سائنس دانوں، ماحولیاتی کارکنوں، غیر سرکاری تنظیموں اور کوئی بھی ایسی کوشش جس سے دنیا کے قدرتی ماحول کو تحفظ دیا جا سکے، کی مالی امداد کرے گی۔

    بیزوس کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہمارے سیارے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے طریقوں کی تلاش میں لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔

    ایک امریکی اخبار کے مطابق اپنی دولت میں سے 10 ارب ڈالر عطیہ کردینے کے باوجود جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین انسان ہی رہیں گے۔

    گزشتہ برس ان کے اثاثوں کی مالیت میں ایک ارب 120 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی تھی جبکہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کے اثاثے 12 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بڑھ گئے۔ اس کے باوجود جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین افراد میں سرفہرست ہیں۔

  • پاک بھارت پانی کے مسائل کو بات چیت سے حل ہونا چاہیئے: انتونیو گتریس

    پاک بھارت پانی کے مسائل کو بات چیت سے حل ہونا چاہیئے: انتونیو گتریس

    اسلام آباد: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس کا کہنا ہے کہ پاک بھارت پانی تقسیم کے مسائل بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں، پانی کو وجہ تنازع نہیں ہونا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں کلائمٹ چینج سے متعلق تقریب منعقد ہوئی جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ تقریب میں وزیر مملکت برائے کلائمٹ چینج زرتاج گل اور وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم بھی شریک ہوئے۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں پر خطاب میرے لیے اعزاز ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا بڑا ملک ہے، پائیدار ترقی کے اہداف انسانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

    انتونیو گتریس کا کہنا تھا کہ مختلف آفات سے متاثر ہونے والے افراد سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں، ہمارا مشترکہ وژن موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف انسانی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ غربت کا خاتمہ پاکستان کی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے، تعلیم، معیشت اور برابری ترقی کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے کاوشیں کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب کے لیے صحت اور سہولت فراہمی کے وژن سے متاثر ہوں۔ پاکستان کو صحت سمیت مختلف شعبوں میں چیلنجز درپیش ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں۔ سیلاب و قدرتی آفات سے پاکستان بہت متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلی سے خطرات لاحق ہیں۔ عالمی قائدین موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔

    سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت میں پانی کے استعمال کا معاہدہ موجود ہے، دونوں ممالک میں عالمی بینک کے تحت پانی کے استعمال کا معاہدہ ہے۔ پانی کو تنازعے کی وجہ نہیں بلکہ حل ہوناچاہیئے۔

  • کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اسکولوں میں موسموں میں ہونے والے تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کے حوالے سے تعلیم دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    یہ اقدام وزارت برائے کلائمٹ چینج اور وزارت تعلیم کی مشترکہ کوششوں سے اٹھایا جارہا ہے جس میں انہیں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور کلائمٹ چینج ماہرین کی معاونت حاصل ہے۔

    منصوبے کے تحت وفاقی دارالحکومت کے 400 اسکولوں میں کلائمٹ چینج کے حوالے سے تعلیم دی جائے گی جبکہ مختلف تربیتی ورکشاپس اور ٹریننگز کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔

    ترجمان برائے محکمہ کلائمٹ چینج محمد سلیم کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے انسانی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب سے بہترین جگہ اسکول ہیں جہاں سے اس تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

    محمد سلیم کے مطابق یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے شروع کیے گئے پروگرام کلین گرین پاکستان موومنٹ کا حصہ ہے۔

    مذکورہ پروگرام کے تحت وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسکولوں میں کلائمٹ چینج، تحفظ ماحولیات، پانی کے بچاؤ اور صفائی ستھرائی کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ اس پروگرام سے ایک لاکھ کے قریب بچے کلائمٹ چینج کے بارے میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

    ترجمان کے مطابق مذکورہ پروگرام کو بہت جلد پورے ملک میں شروع کیا جائے گا اور ملک کے تمام اسکولوں میں کلائمٹ چینج کی تعلیم دی جائے گی۔