Tag: Climate Change

  • گلوبل وارمنگ کا خوف ، آسٹریلوی جوڑوں کا بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ

    گلوبل وارمنگ کا خوف ، آسٹریلوی جوڑوں کا بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ

    کینبرا : آسٹریلوی جوڑوں کاگلوبل وارمنگ کے باعث بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں خوف ہے کہ موسمیاتی تغیر سے ان کے بچوں کو غیر محفوظ مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    وسمیاتی تبدیلی کی تنظیم ون ملین ویمن اور آسٹریلین کنزرویشن فاونڈیشن کا سروے،جوڑوں نے اپنی رائے کا اظہارکیا
    کینبرا (این این آئی)آسڑیلوی جوڑے گوبل وارمنگ کے باعث بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کررہے ہیںکیونکہ انہیں خوف ہے کہ موسمیاتی تغیر سے ان کے بچوں کو غیر محفوظ مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی تنظیم ون ملین ویمن اور آسٹریلین کنزرویشن فاونڈیشن کی جانب سے ایک سروے کیا گیا جس میں انہوں نے ہزاروں خواتین کو شامل کیا اور ان سے گلوبل وارمنگ سے متعلق بات چیت کی تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ان کے کیا خیالات ہیں۔

    چھ ہزار پانچ سو خواتین پر مشتمل سروے میں تقریبا 33 اعشاریہ 4 فیصد خواتین ایسی ہیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان ہیں اور اسی لیے انہوں نے اپنی فیملی نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں زیادہ تعداد ان خواتین کی ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہے۔

    ایک 28 سالہ آسڑیلوی خاتون نے بتایا کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث انسان میں پیدا ہونے والے اثرات کے لیے کافی فکرمند ہیں اور اب وہ اپنی زندگی کے اس اسٹیج پر ہیں ، جہاں لوگ ان سے بچوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں لیکن گوبل وارمنگ کی وجہ سے انہوں نے اب تک اس حوالے سے نہیں سوچا ہے۔.

    خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اکثر اس بات پر غور کرتی ہیں کہ گوبل وارمنگ کے باعث انہیں اب تک کتنے نقصان کا سامنا ہوچکا ہے اور آگے کتنا اور ہونے والا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بچوں کی وجہ سے بہت پریشانی ہے ، حالانکہ مجھے لگتا ہے کہ میں ایک بہت اچھی ماں بن سکتی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں۔

    خیال رہے موسمیاتی تبدیلی کی تنظیم ون ملین ویمن ایک نتالے اسسکس نامی خاتون کی جانب سے بنائی گئی ہے جس کا مقصد خواتین میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اس پر قابو پانے کے لیے گزشتہ روز دنیا بھر میں ماحول کو بہتر بنانے کا عالمی دن منایا گیا تھا۔

  • ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے!

    کیا آپ اکثر و بیشتر فضائی سفر کرنے کے عادی ہیں؟ تو پھر آپ کو شرم آنی چاہیئے کیونکہ شہر کے اس قیامت خیز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ایک ذمہ دار آپ کا فضائی سفر بھی ہے۔

    ایوی ایشن انڈسٹری یعنی ہوا بازی کی صنعت اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہوائی جہازوں کی آمد و رفت سے جتنا کاربن اور دیگر زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سفر میں نہیں ہوتا۔

    ایک ہوائی جہاز اوسطاً ایک میل کے سفر میں 53 پاؤنڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتا ہے اور اس وقت جن انسانی سرگرمیوں نے عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) میں اضافہ کیا ہے، ہوا بازی کی صنعت کا اس میں 2 فیصد حصہ ہے۔

    تو پھر جب ہم تحفظ ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمیں اپنے فضائی سفر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    فلائٹ شیم کی تحریک

    فضائی سفر کرنے پر شرمندہ کرنے یعنی فلائٹ شیم کی تحریک کا آغاز سنہ 2017 میں سوئیڈن سے ہوا جب سوئیڈش گلوکار اسٹافن لنڈبرگ نے فضائی سفر کے ماحول پر بدترین اثرات دیکھتے ہوئے، آئندہ کبھی فضائی سفر نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    ملک کی دیگر کئی معروف شخصیات نے بھی اسٹافن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، جن میں ایک کلائمٹ چینج کی 16 سالہ سرگرم کارکن گریٹا تھنبرگ کی والدہ اور معروف اوپرا سنگر میلینا ارنمن بھی شامل تھیں۔

    جی ہاں وہی گریٹا تھنبرگ جس نے ایک سال تک ہر جمعے کو سوئیڈش پارلیمنٹ کے باہر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور جس کی یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں اشکبار تقریروں نے دنیا بھر کے بااثر افراد کو مجبور کیا کہ وہ اب کلائمٹ چینج کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔

    گریٹا کی انہی کوششوں کی وجہ سے اب ہر جمعے کو دنیا بھر میں کلائمٹ اسٹرائیک کی جاتی ہے۔ خود گریٹا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی تو اس نے فضائی سفر کے بجائے 14 روز کے بحری سفر کو ترجیح دی۔

    متبادل کیا ہے؟

    اس تحریک سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ فضائی سفر نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دنیا نہ گھومیں یا سفر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرا ذریعہ سفر اپنائیں جیسے ٹرین کا سفر۔

    ٹرین سے جتنا کاربن اخراج ہوتا ہے وہ فضائی سفر کے کاربن اخراج کا صرف دسواں حصہ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ممالک میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین نئی ماحول دوست ٹرینیں بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جو عام ٹرین کے کاربن اخراج سے 80 فیصد کم کاربن کا اخراج کرتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ٹرین سے سفر کرنا نہایت پرلطف تجربہ ہے، اس سفر میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو فضائی سفر کے دوران ہرگز نظر نہیں آسکتے۔

    ذاتی کاربن بجٹ

    اقوام متحدہ کی جانب سے ہر شخص کا ایک ذاتی کاربن بجٹ مختص کیا گیا ہے، یعنی کسی شخص کے لیے جب مختلف ذرائع سے کاربن اخراج ہوتا ہے، یعنی رہائش، سفر، غذا اور دیگر سہولیات تو اس کاربن کی مقدار 2 سے ڈیڑھ ٹن سالانہ ہونی چاہیئے۔

    لیکن جب آپ فضائی سفر کرتے ہیں تو آپ کا یہ کاربن بجٹ ایک جھٹکے میں بہت سا استعمال ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر لندن سے ماسکو کی فلائٹ لی جائے جس کا فاصلہ 2 ہزار 540 کلومیٹر اور دورانیہ ساڑھے 3 گھنٹے ہے، تو آپ اس فلائٹ میں اپنے کاربن بجٹ کا پانچواں حصہ استعمال کرلیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس تحریک میں شیم کا لفظ تو منفی ہے تاہم اس کا مقصد اس سے مثبت نتائج حاصل کرنا ہے۔ آپ جتنا زیادہ ماحولیاتی نقصانات کے بارے میں سوچیں گے، فضائی سفر کرتے ہوئے اتنی ہی زیادہ شرمندگی محسوس کریں گے۔

    سوئیڈن کے تحفظ ماحولیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف سوئیڈن کے مطابق یہ تحریک اتنی پراثر ثابت ہورہی ہے کہ سنہ 2018 میں سوئیڈن میں فضائی سفر کرنے والوں کی تعداد میں 23 فیصد کمی آئی۔ یہ تحریک اب کینیڈا، بیلجیئم، فرانس اور برطانیہ میں بھی زور پکڑ رہی ہے۔

    کیا آپ اس تحریک کا حصہ بننا چاہیں گے؟

  • "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    لندن: ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف دنیا بھر میں‌ مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہروں کا محرک ایک سولہ سالا سویڈش طالبہ ہے، جو ماحول کے تحفظ کی توانا ترین آواز بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج  دنیا کے سو بڑوں شہروں میں ہونے والا  احتجاج بین الاقوامی تحریک ’فرائیڈے فار فیوچر‘ کی اپیل پر کی جارہا ہے۔  اس منفرد تحریک کی بنیاد سویڈن کی ٹین ایجر گریٹا تھون برگ نے رکھی.

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز اپنے نام کرنے والی اس بچی کی جدوجہد اور کہانی ٹائم میگزین کے سرورق کی بھی زینت بن چکی ہے۔

    گریٹا تھون برگ کی شہرت کی ابتدا اگست 2018 میں اسٹاک ہولم میں سویڈش پارلیمان کے باہر  ہر جمعے کو  کیے جانے والے احتجاج سے ہوئی، جو وہ اکیلے کیا کرتی تھی۔

    دھیرے دھیرے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے، کاررواں بنتا گیا اور آج سو سے زاید شہروں میں ماحول کو بچانے کے لیے احتجاج جاری ہے۔ 

    احتجاج کا سلسلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے مظاہروں سے شروع ہوا، بعد ازاں برطانیہ میں‌ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بینر اٹھائے سڑکوں پر نکلے.

    یہ مظاہرے ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکی براعظموں کے تمام بڑے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔

    اس مہم کے تحت دنیا کے سو دس سے زائد بڑے شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے، اس وقت بھی مختلف خطوں میں ریلیاں جاری ہیں۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    کلائمٹ چینج کے باعث پگھلنے والے گلیشیئر کی آخری رسومات

    یورپی ملک آئس لینڈ میں ایک 700 سال قدیم گلیشیئر پگھل کر مکمل طور پر ختم ہوگیا، اس موقع پر مقامی افراد کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوئی اور افسوس کا اظہار کیا جس کے بعد یہ اجتماع گلیشیئر کی آخری رسومات میں تبدیل ہوگیا۔

    یہ گلیشیئر جسے ’اوکجوکل‘ کا نام دیا گیا تھا 700 برس قدیم تھا اور ایک طویل عرصے سے مقامی افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا کر رہا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں کمی دیکھی جارہی تھی تاہم چند روز قبل یہ گلیشیئر مکمل طور پر پگھل کر ختم ہوگیا جسےالوداع کہنے کے لیے سینکڑوں لوگ امڈ آئے۔

    گلیشیئر کے خاتمے پر مقامی انتظامیہ نے اس کا باقاعدہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جبکہ اس مقام پر ایک یادگار بھی بنا دی گئی ہے۔

    اس موقع پر جمع ہونے والے شرکا نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں کلائمٹ چینج سے نمٹنے اور زمین سے محبت کرنے کے اقوال درج تھے۔ شرکا نے گلیشیئر کی موت پر چند منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مزید 400 گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آئس لینڈ سمیت دنیا بھر میں واقع گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اگر ان کے پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 200 برس میں آئس لینڈ کے تمام گلیشیئرز ختم ہوجائیں گے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ایک اور برفانی علاقے گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف بھی نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    دوسری جانب قطب شمالی کے برفانی رقبہ میں بھی 6 لاکھ 20 ہزار میل اسکوائر کی کمی واقع ہوچکی ہے۔

  • شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    شدید گرمی سے یورپ کے برفانی پہاڑوں میں جھیل نمودار ہوگئی

    جنوبی وسطی یورپ کے اہم پہاڑی سلسلے الپس کی بلندیوں پر ایک جھیل دریافت کی گئی ہے جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    یہ جھیل برائن میسٹر نامی ایک کوہ پیما نے دریافت کی، جھیل الپس پہاڑی سلسلے کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ بلانک پر دیکھی گئی اور یہ سطح سمندر سے 11 ہزار 100 فٹ بلند ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جھیل کی تشکیل اس ہیٹ ویو کی وجہ سے ہوئی جس نے گزشتہ ماہ پورے یورپ کو بری طرح متاثر کیا۔ کوہ پیما میسٹر کا کہنا تھا کہ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔ صرف 10 دن کی شدید گرمی نے برفانی پہاڑ کو پگھلا کر ایک جھیل تشکیل دے دی۔

    میسٹر کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے اس سے صرف 10 دن قبل ہی ایک اور کوہ پیما اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اس وقت یہ حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور یہاں کسی جھیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ صرف 10 دن میں یہاں ایک جھیل نمودار ہوگئی۔

     

    View this post on Instagram

     

    Time to sound the alarm… The problem here? These two pictures were taken only 10 days apart… It was taken earlier on June 28th, the second one was shared by Paul Todhunter. Only 10 days of extreme heat were enough to collapse, melt and form a lake at the base of the Dent du Géant and the Aiguilles Marbrées That I know, this is the first time anything like that as ever happened. Southern Europe and the Alps have been struck by a massive heatwave with temperature ranging from 40 to 50 degrees, the below 0 freezing altitude was as high as 4,700m (15,400ft) and during the day temperatures as high as 10 degrees Celsius (50 F) were felt on top of Mont Blanc 4,810m (15,780ft)… This is truly alarming glaciers all over the world are melting at an exponential speed… My interview with @mblivetv can be found here! https://montblanclive.com/radiomontblanc/article/massif-du-mont-blanc-un-petit-lac-se-forme-a-plus-de-3000-m-daltitude-48453 #climbing #climber #climb #frenchalps #savoie #savoiemontblanc #hautesavoie #outdoors #globalwarming #mountaineering #mountains #mountain #montagne #montaña #montagna #montanhismo #mountaineer #alpinist #alpinism #alpinisme #alpinismo #alpi #alps #environment #savetheplanet #climatechange #montblanc @patagonia @beal.official @millet_mountain @blueiceclimbing

    A post shared by Bryan Mestre (@bryanthealpinist) on

    انہوں نے کہا کہ یہ اس قدر بلند حصہ ہے کہ یہاں پر صرف برف کی موجودگی ممکن ہے، ’جب ہم یہاں جاتے ہیں تو ہماری بوتلوں میں موجود پانی جم جاتا ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یورپ میں آنے والی ہیٹ ویو کے دوران کئی شہروں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شدید گرمی کے باعث کئی افراد کی ہلاکتیں بھی سامنے آئیں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والی شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پر جھیلیں دیکھی جارہی ہیں۔ ماہرین اس سے قبل برفانی خطے انٹارکٹیکا میں بھی جھیلیں بننے کی تصدیق کر چکے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی تھی کہ قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2000 سے انٹارکٹیکا کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں یہاں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

  • ملک میں کلائمٹ ایمرجنسی نافذ کی جائے، بھارتیوں شہریوں کا مطالبہ

    ملک میں کلائمٹ ایمرجنسی نافذ کی جائے، بھارتیوں شہریوں کا مطالبہ

    نئی دہلی : بھارت میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر کلائمٹ ایمرجنسی نافذ کرنے کےلیے ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد نے دو مختلف پٹیشنوں پر دستخط کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد افراد نے دو مختلف پٹیشنوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں کلائمٹ ایمرجنسی نافذ کریں۔

    بھارتی ٹی وی کے مطابق سولہ سالہ طالب علم امن شرما نے رواں سال مئی میں انٹرنیٹ پر ایک پٹیشن لانچ کی، جس پر اب تک ایک لاکھ ستر ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دوسری پٹیشن ممبئی کے انسٹاگرامر جیتندرا شرما نے لانچ کی جس کی تین لاکھ لوگ حمایت کر چکے ہیں۔

    بھارتی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ ان پٹیشنز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت پیرس معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کرے اور ملک میں ہرے بھرے، سر سبز علاقے بڑھائے جائیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارت موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے اور اسی سبب ملک کو پانی کی بھی شدید قلت کا سامنا ہے۔

  • بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    بجٹ 20-2019: کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص

    اسلام آباد: رواں برس پیش کیے جانے والے 70 کھرب 22 ارب کے بجٹ 20-2019 میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے ساڑھے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بجٹ 20-2019 میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت کلائمٹ چینج ڈویژن کے لیے 7 ارب 57 کروڑ 90 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو ملک میں جاری مختلف اسکیمز اور منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    اس رقم میں سے 7 ارب 51 کروڑ کی رقم نئے منصوبوں کے لیے رکھی گئی ہے جبکہ 6 کروڑ کی رقم پہلے سے جاری منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق وزارت کلائمٹ چینج میں ڈیڑھ کروڑ کی لاگت سے کلائمٹ چینج رپورٹنگ یونٹ قائم کیا جائے گا جبکہ ساڑھے 7 کروڑ روپے کی رقم دس ارب درخت منصوبے کے لیے رکھی گئی ہے۔

    2 کروڑ روپے ماحولیات سے مطابقت رکھنے والی اربن ہیومن سیٹل منٹس کے لیے، 32 لاکھ روپے جیومیٹک سینٹر فار کلائمٹ چینج کے قیام کے لیے اور 1 کروڑ 60 لاکھ روپے پاکستان واش اسٹریٹجک پلاننگ اینڈ کوآرڈینیشن سیل کے قیام کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    زمین کو صحرا زدگی سے روکنے کے لیے سسٹین ایبل لینڈ میجمنٹ پروجیکٹ کے لیے بھی ڈھائی کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ 2 روز قبل پیش کیے جانے والے بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے ہے۔

    بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560 ارب روپے ہوگا۔

  • کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر کی تہہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سمندر کی تہہ کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود زیادہ تر کاربن سمندر کی تہہ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ سمندر کی تہہ میں کیلشیئم کاربونیٹ موجود ہوتی ہے اور یہ دونوں گیسیں مل کر سمندر میں کاربن کو توازن میں رکھتے ہیں۔

    تاہم فضا میں کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے یہ توازن خراب ہورہا ہے۔

    اب سمندر کی تہہ میں کاربن کی مقدار زیادہ اور کیلشیئم کاربونیٹ کی کم ہوگئی ہے جس سے سمندر کی تہہ میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی آبی حیات و نباتات کے لیے سخت خطرناک ہے۔

    سمندر میں بڑھنے والی تیزابیت سے مونگے کی چٹانیں بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ ان چٹانوں پر انحصار کرنے والی آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری زمین پر موجود سمندر کی تہہ کا مکمل جائزہ لینا تو مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق سمندر کی 40 فیصد زمین کاربن کے اس اضافے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

  • برطانیہ میں موحالیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج، مظاہرین سڑک پر لیٹ گئے

    برطانیہ میں موحالیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج، مظاہرین سڑک پر لیٹ گئے

    لندن: برطانیہ میں موحالیاتی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے انوکھا انداز اپنایا اور بیچ سڑک پر لیٹ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحومت لندن میں موحولیاتی تبدیلوں کے خلاف احتجاج جاری ہے، ہزاروں مظاہرین نے ہائیڈپارک کے سامنے سڑک پر لیٹ کر احتجاج کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس انوکھے انداز اور مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کے پیش نظر انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری طلب کرلی۔

    مظاہرین دنیا میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے شہریوں میں شعور اجاگر کرنے اور مقتدر اداروں کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر شدید احتجاج کررہے ہیں۔

    موحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات کو بھی خطرات کا سامنا ہے، جبکہ پہاڑوں پر برف بھی آہستہ آہستہ پگھل کر ختم ہورہی ہے۔

    لندن میں احتجاج کے منتظمین کا کہنا ہے کہ نو دن تک جاری رہنے والے اس مظاہرے کا آج آخری دن ہے، جبکہ پارلیمنٹ کے اطراف بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز برطانوی پولیس نے وسطی لندن نے وہ گلابی کشتی ہٹا دی جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

    موحولیاتی آلودگی، برطانوی پولیس نے احتجاج کی علامت کشتی کے ساتھ کیا کیا

    واضح رہے کہ میٹروپولیٹن پولیس پیر سے اب تک 6 سو سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے چکی ہے جبکہ جمعے کے روز بھی پولیس نے 106 افراد کو گرفتار کیا تھا جو موسمیاتی تبدیلی خلاف احتجاج کررہے تھے۔

  • برطانیہ میں‌ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مظاہرے، 300 افراد گرفتار

    برطانیہ میں‌ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مظاہرے، 300 افراد گرفتار

    لندن : برطانوی پولیس نے موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں جاری مظاہرے کے دوران سڑک بلاک کر نے والے 300 مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن میں موسمیاتی تبدیلی کےلیے کام کرنے والے رضاکاروں کا دنیا میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تیسرے روز بھی احتجاج جاری ہے، مظاہرین لندن احتجاج کے دوران دارالحکومت کو بند کرنا چاہتے ہیں۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ مظاہرین نے 55 سے بس راستوں کو بند کردیا جس کی وجہ سے پانچ لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ مظاہرین نے ماربل آرچ، واٹرلوپُل، پارلیمنٹ اسکوائر اور آکسفورڈ کرکس پیر سے بند پڑا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مظاہرین کی گرفتاری ماربل پارک تک اپنے مظاہرے کو محدود کرنے کی خلاف ورزی پر کی گئی، لندن پولس کے چیف سپرنٹنڈنٹ کولن ونگرو نے بتایا کہ مظاہرے کی وجہ سے پبلک گاڑیوں کی آمدورفت، مقامی تاجروں اور لندن کے رہنے والے شہریوں کے لئے سنگین مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پورے وسائل ہیں۔

    برطانوی دارالحکومت لندن کے میئر صادق خان نے مظاہرین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹیوب سروس بند کرنے سے متعلق دوبارہ سوچیں، آپ لندن کے شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں‘۔

    ٹویٹر پر پوسٹ کردہ اپنے پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال پر ، پیدل چلنے اور سائیکل چلانے پر راغب کرنا یقیناً ایک مشکل امر ہے، اور اسی کے ذریعے اس موسمیاتی ایمرجنسی کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ لندن کے لاکھوں باشندے اپنے معمولاتِ زندگی انجام دینے کے لیے روز مرہ کی بنیاد پر انڈر گراؤنڈ نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔