Tag: Climate Change

  • خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    دنیا بھر میں بدلتا ہوا موسم اور عالمی حدت زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ایسے میں ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    ایک طویل عرصے سے ماہرین اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہورہی ہیں، تاہم بدقسمتی سے ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے خواتین کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    تاریخ میں دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی کسی خطے میں جنگ ہوتی ہے تو خواتین اس کے بدترین نقصانات سے متاثر ہونے والا پہلا شکار ہوتی ہیں۔

    خواتین سے زیادتی اور ان پر تشدد کو جنگوں میں ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک خواتین مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے بدترین ظلم کا شکار یزیدی خاتون

    اب جبکہ ہم خود ہی اپنے ماحول کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ چکے ہیں تو اس بگاڑ سے بھی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے جب بھی کوئی آفت آتی ہے جیسے زلزلہ یا سیلاب، تو ایسے میں خواتین حفاظتی اقدامات سے بے خبر ہونے کے باعث خطرے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    ایسے حالات میں خواتین کبھی بھی اکیلے اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ساتھ بچوں اور دیگر افراد کی بھی جان بچانے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں گاؤں دیہات پانی کی سہولت سے محروم ہیں، وہاں خواتین ہی گھر کی ضروریات کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ گھر سے میلوں دور سفر کرنا اور پانی بھر کر لانا ایک اذیت ناک داستان ہے جس کا مرکزی کردار صرف خواتین ہیں۔

    ایسے میں کلائمٹ چینج اور پانی کی عدم دستیابی ان خواتین کی تکلیف میں مزید اضافہ کردے گی۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کیڑے مار زہریلی ادویات سے نہ صرف خود بھی متاثر ہوتی ہیں، بلکہ ایسے میں حاملہ خواتین کے وہ بچے جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے وہ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق میں کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے دودھ میں بھی زہریلی کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے گئے جو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ماحول کے حوالے سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی جائے تو اس میں خواتین کو شامل رکھا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے، اس طرح ہم ان نقصانات کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں گے جو نہایت نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور جس سے ایک گھریلو خاتون متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہ عمل آگے چل کر اس منصوبہ بندی اور پالیسی کو کئی نسلوں تک قابل عمل اور کارآمد بناسکتا ہے۔

  • چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    چوہوں کی یلغار کے لیے تیار ہوجائیں!

    دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت جہاں ایک طرف تو بے شمار مسائل کھڑے کر رہا ہے وہیں چوہوں کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافے کا خطرہ ہے۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق دنیا بھر میں مختلف شہروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت انہیں چوہوں کی افزائش کے لیے ایک آئیڈیل مقام بنا سکتا ہے۔

    اس وقت بے شمار امریکی شہر جیسے نیویارک، شکاگو اور بوسٹن چوہوں میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان سے نجات پانے کی مہمات پر لاکھوں ڈالر کی رقم خرچ کر رہے ہیں۔

    کارنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق ایک چوہیا اپنی پیدائش کے صرف ایک ماہ کے بعد بچے پیدا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے، جبکہ اس کے حمل کا عرصہ 14 دن ہوتا ہے۔ یعنی ایک چوہیا سال بھر میں 15 ہزار سے 18 ہزار چوہے پیدا کر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ کو چوہوں سے ڈر لگتا ہے؟

    ایک سروے کے مطابق بوسٹن میں پانی کے ہر ذخیرے میں 25 سے 30 چوہے موجود ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی بڑی تعداد ہاؤسنگ کمیونٹیز اور مختلف عمارتوں میں رہائش پذیر ہے۔

    بوسٹن کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے چوہوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ انسانوں سے ڈر کر بھاگنا بند کردیتے ہیں کیونکہ یہ ان سے مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ ’یہ خوفناک بات ہے کہ وہ انسانوں سے ڈرتے بھی نہیں‘۔

    امریکا کے ایک پیسٹ کنٹرول ادارے کے مطابق صرف گزشتہ برس چوہوں کی آبادی میں شکاگو میں 61 فیصد، بوسٹن میں 67 فیصد، سان فرانسسکو میں 174 فیصد، نیویارک میں 129 فیصد اور واشنگٹن میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کی آبادی میں اس بڑے اضافے سے پرندوں کو بھی خطرہ لاحق ہے جو آسانی سے بڑے چوہوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

  • سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    سیلاب سے تحفظ دینے والا پارک

    بنکاک: تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں ایسا پارک بنایا گیا ہے جو کسی متوقع سیلاب کی صورت میں شہر کو کم سے کم نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنوب مشرقی ایشائی شہروں میں خطرناک بارشوں کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں بھی خوفناک زلزلہ آیا جس کے بعد سونامی نے بھی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    بنکاک میں قائم اس پارک میں ایسے زمین دوز ٹینک بنائے گئے ہیں جن میں بارشوں کا اضافی پانی محفوظ ہوسکتا ہے۔ یہ ٹینک 38 لاکھ لیٹر پانی محفوظ کر سکتے ہیں۔

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سنہ 2040 تک عالمی درجہ حرارت میں 2 فیصد اضافہ نہ بھی ہوا تب بھی سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوجائے گا جس سے دنیا کے ہر خطے میں سیلابوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلابی پانی سے بھرے ہوئے شہر ایک معمول کی صورتحال بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

    دوسری جانب بنکاک کے غرق آب ہوجانے کا خدشہ بھی ہے جس کی وجہ سطح سمندر میں اضافے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے زیر زمین پانی کا استعمال کیا جانا بھی ہے جس سے شہر کے دھنسنے کے امکانات ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق سنہ 2050 تک بنکاک میں سیلاب کا خطرہ 4 گنا بڑھ جائے گا۔

  • شدید گرمی کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    شدید گرمی کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بار پھر سورج سوا نیزے پر جا پہنچا۔ آج (ہفتے کے روز) زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ڈگری رہنے کا امکان ہے جبکہ سورج کی تیز شعاعوں نے شہریوں کے لیے زندگی مشکل بنادی ہے۔

    شدید گرمیوں کے اس موسم میں احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ لو لگنے یا ہیٹ اسٹروک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں مریض کو فوری طور طبی امداد نہ دینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھوپ میں لو لگنے سے موت کیوں ہوتی ہے؟

    یہاں ہم آپ کو ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہیٹ اسٹروک ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں۔


    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات

    گرم اور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیے بغیر محنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا


    ہیٹ اسٹروک کی علامات

    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج رک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا


    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    اگر آپ اپنے ارد گرد کسی شخص میں مندرجہ بالا علامات دیکھیں تو جان جائیں کہ وہ شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوا ہے اور فوری طور پر اس کی مدد کی کوشش کریں۔

    مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔

    ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں۔

    مریض کو پنکھے کے قریب کر دیں، یا کسی چیز سے پنکھا جھلیں۔

    مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔


    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

    مندرجہ ذیل تدابیر اپنا کر آپ شدید گرمی کے موسم میں اپنے آپ کو کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کریں۔ روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی لازمی پیئیں۔ پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھیں۔

    مائع اشیا کا استعمال

    طبی ماہرین کے مطابق اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس اور دیگر مائع اشیا کا استعمال کریں۔

    چائے کافی سے پرہیز

    شدید گرم موسم میں گرم اشیا، چائے، کافی کا استعمال کم کریں۔ الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔

    کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    سخت گرمیوں میں ڈھیلے لیکن مکمل اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کا استعمال کریں۔ ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے۔

    تیز دھوپ میں نکلتے ہوئے آپ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہونا چاہیئے ورنہ دھوپ براہ راست اس حصے پر پڑ کر جلد کو سرخ کر سکتی ہے۔

    کیا کھائیں؟

    گرمی کے موسم میں مائع اشیا جیسے خالص جوسز، سلاد، ہلکے پھلکے کھانے خاص طور پر سبزیاں کھائیں۔

    اپنا شیڈول ترتیب دیں

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    باہر نکلتے ہوئے احتیاط کریں

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ بعد پانی پیئیں۔

    عرق گلاب یا پیپر منٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملاا ہوا اسپرے بھی ساتھ ہونا چاہیئے جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    سخت گرمیوں میں باہر کی تیل سے بھرپور اشیا، تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دیں۔ اس کی جگہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔

    خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھائیں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، کینو، خربوزہ وغیرہ۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز

    گرمیوں کے موسم میں گرم پانی سے نہانے سے بھی پرہیز کریں۔ یہ آپ کے دوران خون پر منفی اثرات ڈال کر شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

    بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

  • اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    ناروے کے برفانی علاقے میں ایک برفانی ریچھ کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جب اس نے وہاں آنے والے ایک سیاحتی بحری جہاز کے گارڈ کو زخمی کردیا۔

    ریسکیو ادارے کا کہنا ہے کہ واقعہ قطب شمالی اور ناروے کے درمیانی حصے میں پیش آیا۔ یہ علاقہ اپنے گلیشیئرز، برفانی ریچھوں اور قطبی ہرنوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

    ادارے کے مطابق یہاں کی مقامی حیات کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں کی کشش کا مرکز ہے اور واقعے کا باعث بننے والا جہاز بھی سیاحوں کو ہی لے کر آیا تھا۔

    دوسری جانب جہاز کی انتظامیہ نے وضاحت پیش کی ہے کہ ریچھ نے ایک گارڈ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دوسرے گارڈ نے دفاع میں گولی چلائی۔

    گارڈ کی گولی سے برفانی ریچھ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

    تاہم سوشل میڈیا پر انتظامیہ کی اس وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا اور لوگوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔

    ایک ٹویٹر صارف نے کہا کہ، ’پہلے آپ ان ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہ میں ان کے بہت قریب چلے جائیں، اور جب وہ آپ کے قریب آئیں تو انہیں مار ڈالیں‘۔

    برفانی ریچھ کی موت کو ماحولیات اور جنگلی حیات پر کام کرنے والے حلقوں میں بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: لاغر بھالو نے دنیا کے خوفناک مستقبل کی جھلک دکھا دی

    اپنے گھروں کو لاحق خطرات کی وجہ سے برفانی ریچھ کو معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔

    ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔


    کراچی کے تیمر تباہی کی زد میں

    پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تیمر اب تباہی کی زد میں ہے۔

    سندھ کی بے لگام ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے تیمر کے ان جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

    ان مینگرووز کو تباہ کرنے والی وجوہات میں قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب بھی ہیں۔

    ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیمر اب اپنی ڈھال کی حیثیت کھو چکا ہے، اور اب اگر کسی منہ زور طوفان یا سونامی نے کراچی کا رخ کیا، تو اس شہر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

    اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی جنگلات کس طرح خوفناک سمندری طوفانوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    4 میل طویل برفانی تودہ ٹوٹنے کی حیران کن ویڈیو

    ہماری زمین پر موجود برفانی علاقے جنہیں قطبین (قطب شمالی اور قطب جنوبی) کہا جاتا ہے دنیا کے سرد ترین برف سے ڈھکے ہوئے مقامات ہیں۔

    عموماً منفی 57 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے یہ علاقے زمین کے درجہ حرارت کو بھی اعتدال میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    تاہم دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی گلوبل وارمنگ نے ان علاقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان مقامات کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

    حال ہی میں چند سائنسدانوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 4 میل طویل ایک برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا اور سمندر پر بہنے لگا۔

    برفانی تودہ ٹوٹنے کی یہ ویڈیو بحر منجمد شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ملک گرین لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔

    گرین لینڈ کا ایک گاؤں انارسٹ پہلے ہی ایک بلند و بالا برفانی تودے کے آگے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

    300 فٹ بلند اور ایک کروڑ ٹن وزن کا حامل ایک برفانی تودہ اس گاؤں کے بالکل سامنے موجود ہے اور اس میں سے مسلسل برف ٹوٹ کر سمندر میں گر رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ آئس برگ پوری طرح ٹوٹ کر پانی میں شامل ہوگیا تو بحر اوقیانوس کے مذکورہ حصے میں بھونچال آجائے گا اور پانی کی بلند و بالا لہریں سونامی کی شکل میں باہر نکل کر اس گاؤں کا نام و نشان تک مٹا دیں گی۔

    یہ تودہ قطب شمالی سے ٹوٹ کر تیرتا ہوا اس گاؤں تک آپہنچا ہے اور ساحل یعنی گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 3 کھرب درخت موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے، صرف وہاں رہنے والے مقامی افراد ہی ان درختوں سے واقف ہیں جو جدید سہولیات سے عاری زندگی جی رہے ہیں۔

    ان میں سے کئی درخت ایسے ہیں جو اپنے اندر نہایت انوکھی کہانیاں سموئے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کوئی درخت کئی صدیوں سے موجود ہے، اور وقت کی اونچ نیچ کا گواہ بھی، کچھ درختوں نے بڑی بڑی آفتیں، سیلاب، زلزلے، طوفان، ایٹمی دھماکے سہے لیکن پھر بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    سنہ 1999 میں بیتھ مون نامی ایک فوٹوگرافر نے ایسے ہی نایاب لیکن گمنام درختوں کی تصاویر کھینچ کر انہیں دنیا کے سامنے لانے کا سوچا۔

    اس نے ایسے درختوں کی تلاش شروع کردی جو تاریخی یا جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے۔

    ان درختوں کی تلاش کے لیے اس نے طویل تحقیق کی، ملکوں ملکوں کی سیاحت کرنے والوں سے گفتگو کی، لوگوں سے پوچھا۔

    بالآخر اس نے اپنے منفرد سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں وہ پہلے برطانیہ گئی، پھر امریکا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا سفر کیا جہاں اس نے دور دراز علاقوں میں موجود قدیم اور انوکھے درختوں کی تصاویر کھینچی۔

    یہ درخت طویل عرصے تک موجودگی کے باعث مقامی قوم کے لیے ثقافتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے درختوں کی کئی اقسام خطرے کا شکار اقسام کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: طویل ترین درختوں کی کلوننگ

    بیتھ مون نے ان درختوں کی تصاویر کو ’ قدیم درخت: وقت کی تصویر‘ کے نام سے پیش کیا۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر درخت کی اپنی الگ ’زندگی‘ ہے۔ ہر درخت کئی عشروں سے موجود ہے اور اس نے وقت کے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان نایاب اور انوکھے درختوں سے ملتے ہیں۔


    ڈریگن بلڈ ٹری

    یمن کے جزیرہ سکوترا میں پائے جانے اس درخت کی عمر 500 سال ہے۔ یہ درخت ہر قسم کے حالات اور موسموں سے لڑنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    شاخ در شاخ پھیلا ہوا یہ درخت ایک چھتری جیسا ہے جو بے شمار زندگیوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔

    سال میں 2 بار گاؤں والوں کو ان درختوں کے تنے کا کچھ حصہ کاٹنے کی اجازت ہے جس سے یہ سرخ رنگ کا قیمتی محلول حاصل کرتے ہیں جو نہایت بیش قیمت ہوتا ہے اور دوائیں بنانے کے کام آتا ہے۔


    صحرا کا پھول

    ڈیزرٹ روز نامی یہ درخت بھی جزیرہ سکوترا میں ہی واقع ہیں۔ انہیں بوتل نما درخت بھی کہا جاتا ہے۔

    جس مقام پر یہ درخت موجود ہیں وہ علاقہ اپنے منفرد اور انوکھے پس منظر کی وجہ سے اس دنیا سے الگ ہی کوئی مقام معلوم ہوتا ہے۔


    اڈنسونیا گرنڈیڈر

    مشرقی افریقی ملک مڈغا سکر کے ساحلی شہر مورندوا میں پائے جانے والے ان درختوں کی لمبائی 100 فٹ تک ہوتی ہے۔ ان درختوں کو جنگل کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔

    ان درختوں کی اوسط عمر 800 سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے درختوں کی یہ نایاب ترین قسم اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اس قسم کے صرف 20 درخت باقی رہ گئے ہیں۔

    صرف مڈغا سکر میں پائے جانے والے ان درختوں کا یہاں پورا جنگل موجود تھا۔


    کاپوک درخت

    امریکی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ پر پایا جانے والا کاپوک درخت دیکھنے میں نہایت منفرد ہیئت کا حامل ہے۔

    فوٹوگرافر نے اس درخت کو سنہ 1940 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں دیکھا تھا۔ ’60 سال میں یہ درخت عظیم بن چکا ہے‘۔

    اس درخت کی جڑیں زمین کے اوپر 12 فٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔


    افٹی ٹی پاٹ

    مڈغاسکر میں ہی موجود یہ درخت چائے دان جیسا ہے لہٰذا مقامی افراد نے اسے یہی نام دے ڈالا۔

    یہ درخت 12 سو سال قدیم مانا جاتا ہے۔ اس کا تنا 45 فٹ کے پھیلاؤ پر مشتمل ہے اور اس کے اندر 31 ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔


    تیر کے ترکش

    جنوبی افریقی ملک نمیبیا میں پائے جانے والے درختوں کی اس قسم کو زمین پر موجود تمام درختوں میں نایاب اور غیر معمولی ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درخت صدیوں پرانے ہوسکتے ہیں۔

    یہ درخت 33 فٹ بلندی تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان درختوں کی کھوکھلی شاخیں کاٹ کر ان سے تیروں کے ترکش بناتے ہیں۔

    سنہ 1995 میں ان درختوں کے جنگل کو نمیبیا کی قومی یادگار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔


    رلکیز بائیون

    کمبوڈیا میں موجود 12 ویں صدی کے ایک بودھ مندر میں موجود یہ درخت کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کا ہی حصہ لگتا ہے۔ درخت کی شاخیں اور مندر کے در و دیوار آپس میں پیوست ہیں۔

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدیم وجود کو سہارا دیے کھڑے ہیں اور صرف مندر کو گرانا یا درخت کو کاٹنا نا ممکن لگتا ہے۔

    مندر کے پیچھے ان درختوں کا جنگل موجود ہے جس نے انسانوں کی جانب سے اس مندر کو ترک کیے جانے کے بعد اس پر ’قبضہ‘ کرلیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔

    دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔

    ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔

    ایمازون کے خاتمے کی وجہ

    جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔

    ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔

    یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔

    مویشیوں کی ضروریات

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔

    رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔

    مویشیوں کی خوراک

    مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    بدترین نقصان

    اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔

    ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔

    یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔

    ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟

    ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔

    قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔

  • ارتھ آور: دنیا کی ہزاروں اہم عمارتوں کی روشنیا ں گل کردی گئیں

    ارتھ آور: دنیا کی ہزاروں اہم عمارتوں کی روشنیا ں گل کردی گئیں

    زمین کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے گذشتہ شب پیرس کے ایفل ٹاور، لندن میں بگ بین اور پیکّاڈلی سرکس کی لائٹیں گل کر کے ارتھ آور ٓمنایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق زمین کو ماحولیاتی خطرات سے بچانے اور اس پر توانائی کے بے تحاشہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے گذشتہ شب اسلام آباد،پیرس، لندن، برلن، اسکوٹ لینڈ، ماسکو، نئی دہلی، کوالالمپور، سڈنی سمیت دنیا کے 5000 سے زائد شہروں میں علامتی طور پر ارتھ آور منایا گیا۔

    ارتھ آور کے موقع پر پاکستانی پارلیمنٹ کی برقی روشنیاں گل کرنے شمعیں جلائی گئی

    دنیا کے 180 ممالک میں 24 مارچ کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے منایا جانے والا ارتھ آور 2007 میں سڈنی کے اوپیرا ہاوس کی روشنیوں کو بجھا کر منایا گیا تھا جس میں ایک کروڑ سے زائد شہریوں نے شرکت کرکے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔

    ارتھ آور کے موقع پر پیرس کے ایفل ٹاور لائٹس بند ہیں

    فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ناظم اینی ہیڈالگو کہتے ہیں کہ ایفل ٹاور سمیت شہر کی 300عمارتوں میں اندھیرا کر کے فرانس کی عوام نے ’عالمگیر پیغام‘ دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب بھارت کے وزیر ماحولیات ہرش وردہان کا کہنا تھا کہ ارتھ آور کہ یہ ساٹھ منٹ ہمارے لیے رویوں اور ثقافت میں تبدیلی کا بہترین موقع ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی دہلی میں واقع پہلی عالمی جنگ کی یادگار پر ہزاروں کی تعداد میں شہری کھانے پینے کی اشیاء لے کر جمع تھے لیکن ارتھ آور کے ایک گھنٹے میں تمام شہریوں نے مکمل اندھیرا کرکے ماحولیاتی تبدیلی کا پیغام دیا۔

    جبکہ اردن کی رائل سوسائٹی نے عمان کے پہاڑوں پر 11،440 موم بتیاں جلا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ اردن کی انتظامیہ نے موم بتیوں سے ارتھ آور کا نشان بنایا تاہم تیزہواؤں کے باعث کچھ ہی دیرمیں بیشتر شمعیں گل ہوگئیں۔

    دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا ہی جارہا ہے جس کے سبب ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ارتھ آور کا اہم مقصد ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ارتھ آور کا آغاز سڈنی میں ہوا تھا جہاں زمین سے محبت کرنے والے ایک کروڑ سے زائد افراد نے اوپیرا ہاوس کی رضا کارانہ طور پر بتیاں بجھا دیں، انٹرنیشنل ارتھ آور منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں