Tag: conflicts

  • دنیا بھر میں جاری تنازعات کے دوران 12ہزار بچوں کی ریکارڈ ہلاکتیں

    دنیا بھر میں جاری تنازعات کے دوران 12ہزار بچوں کی ریکارڈ ہلاکتیں

    واشنگٹن:اقوام متحدہ کے ادارے چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ نے سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2018 میں دنیا بھر میں تنازعات کے دوران 12 ہزار سے زائد بچے ہلاک و زخمی ہوگئے جو ایک ریکارڈ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ کے سیکریٹری جنرل کی سالانہ خصوصی رپورٹ میں کہاگیاکہ 2018 میں 20 تنازعات کی نگرانی کی گئی جس میں 12 ہزار سے زائد بچوں کو ہلاک و زخمی کرنے کی رپورٹس آئیں۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ ’میں خاص کر بچوں کے خلاف ہونے والے سنگین جرائم کے اعداد وشمار پر دل برداشتہ ہوں‘۔

    رپورٹ کے مطابق صومالیہ، نائیجیریا اور شام میں بچوں کو لڑائیوں کے لیے بطور سپاہی استعمال کیا گیا اور 2018 میں دنیا بھر میں کم ازکم 7 ہزار بچوں کو جنگ کے لیے اگلے مواچوں میں بھیجا گیا۔

    اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی بدستور جاری رہیں تاکہ انہیں خانہ جنگی یا جنسی درندگی کے لیے استعمال کیا جاسکے اس حوالے سے نصف سے زائد واقعات صومالیہ میں پیش آئے جہاں ڈھائی ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے 933 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن یہ اندازے سے کم ہیں کیونکہ تمام متاثرہ بچوں تک پہنچنے کے لیے رکاوٹیں موجود تھیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ 2018 میں اسکولوں اور ہسپتالوں میں حملوں کے واقعات میں کسی قدر کمی آئی لیکن بعض تنازعات کے موقع پر تیزی بھی آئی ہے جس میں افغانستان اور شام شامل ہیں جہاں اس طرح کے واقعات سب سے زیادہ پیش آئے۔

    رپورٹ کے مطابق مالی میں بچوں کی تعلیم تک رسائی کا مسئلہ سنگین تر ہے جہاں فوج اپنے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دیتی ہے، مالی میں دسمبر 2018 کے اختتام تک 827 اسکول بند ہوئے اور 24 ہزار 400 بچوں کو تعلیم دینے سے روک دیا گیا۔

    تنازعات اور بچوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خانہ جنگی سے متاثرہ ملکوں میں بچے متاثر ہورہے ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہے جہاں انہیں مار دیا جاتا ہے یا اغوا کیا جاتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بچوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے افغانستان پہلے نمبر پر رہا جہاں 2018 میں 3 ہزار 62 بچوں کو نشانہ بنایا گیا جو ملک میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں کا 28 فیصد ہے،شام میں فضائی کارروائی اور لڑائیوں میں ایک ہزار 854 بچے ہلاک و زخمی ہوئے، اسی طرح یمن میں لڑائی میں ایک ہزار 689 بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تصادم کے دوران اسرائیلی کارروائیوں میں 2014 سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں میں 2018 میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جہاں 59 فلسطینی بچے جاں بحق اور 2 ہزار 756 زخمی ہوئے۔

  • چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی ر ہے ہیں جہاں کسی بھی خبر کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں چند منٹ لگتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ہی گھنٹوں میں اس سے متعلق مثبت اور منفی تبصرے زبان  ِزدِ عام ہوتے ہیں ۔ مگر0 5برس قبل جب امریکہ نے اپنا پہلاانسانی مشن چاند کی جانب بھیجا اور نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر خود کو تاریخ میں امر کیا ، اس وقت آج کی طرح نہ تیز تر مواصلاتی ذرا ئع تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا مو جود تھا ۔لہذا ابتدا میں اس مشن کے متعلق جو چہ مگوئیاں ہوئیں اور شکوک وشبہات اٹھائے گئے وہ اخبارات کی سرخیوں تک محدود رہے جن میں بغیر ثبوت کے صرف سنی سنائی باتوں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم اصلی نہیں بلکہ کسی سٹوڈیو میں فلمائی گئی ایک فلم تھی۔

    پچاس برس قبل عوام کے پاس تیز تر مواصلاتی ذرائع نہیں تھے لہذاٰاس دور میں مستند معلومات کا حصول محض کتابوں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ چاند کے سفر کے بارے میں شکوک و شبہات پہلی دفعہ 1974 میں بل کیسنگ کی کتاب ‘ وی نیور وینٹ ٹو مون” یا "انسان کبھی چاندپر نہیں گیا ” میں منظر ِ عام پر آئے۔ اگرچہ بل کیسنگ 1950 میں راکٹ ڈائن سے باحیثیت تکنیکی لکھاری وابستہ تھے اور اس حوالے سے کافی معلومات رکھتے تھے مگر پھر بھی انھوں نے کتاب میں سر سری حوالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اپولو الیون دراصل ایریا الیون نامی پروڈکشن سٹو ڈیو کی تیار کردہ ایک فلم تھی جسے ناسا نے لائیو نشریات کے طور پر دکھایا۔ کتاب کے جلد ہی مشہور ہوجانے کے بعد جب کیسنگ کو اس حوالے سے بحث کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اعتراف کیا کہ انکی نا صرف اپولو مشن بلکہ راکٹ کا بارے میں بھی معلومات سرسری ہیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی کتاب میں برملا لکھا کہ اس مشن کے حقیقت ہونے کے امکانات محض 0.0017 فیصد ہیں ۔

    کیسنگ کی کتاب شائع ہوتے ہی اپولو مشن کو جعلی ریکارڈنگ سمجھنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی کیونکہ اس دور میں ویت نام کی جنگ اور واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے امریکی حکومت عوام کا اعتبار پہلی ہی کھو چکی تھی۔ 1971میں نائٹ نیوز پیپر کی جانب سے ایک سروے کراوا یا گیا تو مون لینڈنگ پر یقین کرنے والے امریکیوں کی تعداد 30 فیصد تھی۔ جبکہ 1976 میں کیئے جانے والے ایک مستند پول میں یہ تعداد 28فیصد تھی۔ یعنی اس دوران ناسا یا امریکی حکومت کی جانب سے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں تھیں اور عوام ہنوز اسے متنا زع سمجھتے تھے۔

    اس کے کچھ عرصے بعد اپولو مشن ایک دفعہ پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا جب فلیٹ ارتھ سوسائٹی کی جانب سے لینڈنگ پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لینڈنگ کی جو فلم ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی وہ والٹ ڈزنی کے مالی تعاون سے تیار کی گئی تھی جس کا سکرپٹ آرتھر سی کلارک نے لکھا تھا۔ واضح رہے کہ فلیٹ ارتھ سوسائٹی ایسے اراکین پر مشتمل ہے جو زمین کے گول ہونے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا دعویٰ ہے کہ زمین ہموار ہے۔اس شدید تنقید کی ایک بڑی وجہ 1978 میں منظرِ عام پر آنے والی مریخ کے سفر پر بنائی گئی فلم "کیپریکون ون ” تھی جس میں دانستہ ایسے مناظر فلمائے گئے جو اپولو لینڈنگ سے کافی زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ اس فلم کو امریکی حکومت کی مخالف لابی نے سپانسر کر کے بنوایا تھا تا کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کو کچھ اور زیادہ بڑھایا جا سکے ۔ یعنی وہ عوام کی فلاح کے لیئے کام کرنے کے بجائے اس طرح کے جعلی لینڈنگ مشن دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہذا ایسے افرراد جو زیادہ سا ئنسی معلومات نہیں رکھتے تھے وہ اپولو الیون مشن کو جعلی سمجھنے لگے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا چلا گیا۔

    اپولو الیون مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے سوویت یونین کی جانب سے ایک باقاعدہ منظم مہم بھی چلائی گئی جس میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت سائنسدانوں نے اپولو مشن کو جعلی قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس مقصد کے لیئے مشن کی جاری کی جانے والی ویڈیو پر بے شمار تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے جیسے امریکی جھنڈے کا ہوا میں لہرا نا ، تصاویر میں آسمان پر ستاروں کی عدم موجودگی اور نیل آرم سٹرانگ کی سپیس واک میں تکنیکی نقائص شامل ہیں ۔ صرف اپولو الیون ہی نہیں اس کے بعد چاند کی جانب بھیجے جانے والے اپولو سلسلے کے تمام مشنز کو بھی جعلی قرار دیا گیا اگرچہ عوام امریکہ اور روس کے درمیان عشروں سے جاری سپیس وار سے ناواقف نہیں تھے اور سائنسی معلومات رکھنے والے افراد جانتے تھے کہ سپیس ٹیکنالوجی میں روس امریکہ سے کافی آگے تھا۔ اور اپولو الیون سے پہلے چاند پر انسان بردار مشن بھیجنے کے لیئے پوری طرح پر عزم بھی مگر حیرت کی بات ہے کہ اس کے بعد روس نے چاند کی جانب اپنا مشن خود ہی ختم کر دیا مگر وہ امریکہ کے چاند مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے ہمیشہ لابنگ کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    دنیا بھر میں عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس مشن کو جعلی ہی سمجھتی اور پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک میں یہ آج بھی ہاٹ تاپک سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں سائنس میں بے رغبتی اور ملکی میڈیا کی جانب سے سائنسی خبروں کو اہمیت نہ دینے کے باعث اس طرح کی متنازع خبریں ہر دور میں پھیلتی رہی ہیں اور تعلیم یافتہ حلقوں کے انھیں رد کرنے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جاتی ۔ حالانکہ ہمارا ہمسایہ اور حریف ملک بھارت 22 جولائی کو اپنا مشن "چندریان2″چاند کی جانب روانہ کرنے وا لا ہے اور چین نے بھی اسی برس چاند کی تاریک ترین سطح پر اپنا خلائی مشن بھیجا ہے مگر ہماری عوام آج بھی اپولو الیون کو جعلی قرار دینے میں جتی ہوئی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ پاکستان کا خلائی پروگرام مضبوط بنیادوں پر شروع کرے۔جس سے عوام میں بھی سائنسی شعور بیدار ہوگا اور و روزمرہ زندگی میں خلائی سائنس کی اہمیت کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔

  • امریکا کی غیر متعلقہ امور پر گفتگو سے بداعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوگا: ایران

    امریکا کی غیر متعلقہ امور پر گفتگو سے بداعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوگا: ایران

    تہران: ایران نے امریکا کی جوہری معاہدے سے ہٹ کر غیر متعلقہ امور پر گفتگو کو بداعتمادی کی فضا میں اضافے کی وجہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے سے ہٹ کر غیر متعلقہ امور کی بات کرنا اس معاہدے کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ اس سے فریقین کے درمیان بد اعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوگا۔

    میڈیارپورٹس کے مطابق ایران کے دفترخارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے فرانسیسی صدر کے حالیہ بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر کی جانب سے فرانسیسی صدر کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ایران کے خلاف کئے گئے دعووں کو مسترد کردیا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران مخالف پرانے دعوے کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ موسوی کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے سے امریکا کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد یورپی فریق نے سیاسی بیانات کے علاوہ اب تک کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جن سے ایران کو اس معاہدے کے ثمرات مل سکیں۔

    انہوں نے یہ تجویز دی کہ جوہری معاہدے سے ہٹ کر غیرمتعلقہ امور پر بات کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ایسے بیانات سے امریکا کو اپنے یکطرفہ اقدامات کو جواز دینے کے لئے فائدہ حاصل ہوگا۔

    جنگ اور بات چیت کا کوئی باہمی میل نہیں، ایران کا امریکا کو جواب

    قبل ازیں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ جنگ اور بات چیت کا کوئی باہمی میل نہیں، امریکی پابندیاں درحقیقت ایران کے اخلاف اقتصادی دہشت گردی ہے۔

  • سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے: امریکا کا دعویٰ

    سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے: امریکا کا دعویٰ

    ابوظہبی: امریکا کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے مشیر قومی سلامتی کا کہنا ہے کہ اس بات میں تقریباً کوئی شک نہیں رہا کہ امریکا کو تیل فراہمی پر مامور سعودی بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے، خلیج عمان میں سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر نامعلوم سمت سے حملے کی تحقیقات کے لیے 5 ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسی سلسلے میں وہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں وہ امیر ابوظہبی سمیت اہم حکام سے ملاقات کریں گے۔ امریکا کے مشیر قومی سلامتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قابل اعتماد ساتھی جان بولٹن نے ابوظہبی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خلیج عمان میں سعودی عرب کے تیل بردار بحری جہازوں کو ایران کی بحری آبدوزوں نے نشانہ بنایا۔

    مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے مزید کہا کہ تیل بردار سعودی بحری جہازوں پر حملہ آور ملک کے حوالے سے امریکا میں کسی کے زہن میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ حملہ نیپال نے کیا ہو؟ اور اس کا جواب ہوگا ہرگز نہیں۔

    انہوں نے کہاکہ خلیج عمان میں سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر نامعلوم سمت سے حملے کی تحقیقات کے لیے 5 ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے اور اسی سلسلے میں وہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں وہ امیر ابوظہبی سمیت اہم حکام سے ملاقات کریں گے۔

    امریکا نے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے 12 شرائط عائد کر دیں

    واضح رہے کہ ایران کے جوہری توانائی معاہدے کی بعض شقوں سے دستبردار ہونے اور خلیجی ممالک سے تیل کی سپلائی روکنے کی دھمکی دینے کے بعد 12 مئی کو خلیج عمان میں 4 تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا تھا جن میں سے دو سعودی جہاز تھے تاہم ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔