Tag: connection

  • چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کسی ملک کا کوئی شہری نوبل انعام حاصل کرنے میں کیوں کامیاب رہتا ہے؟ تو یقیناً آپ کے پاس بہت سے جواب ہوں گے جیسے کہ انفرادی طور پر اس شخص کی محنت، قابلیت، ذہانت علاوہ ازیں اس شخص کو ملک کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات و مراعات۔

    تاہم نوبل انعام سے جڑا ایک عنصر ایسا ہے جو انکشاف کی صورت میں سامنے آیا اور دنیا کو حیران کر گیا۔

    کچھ عرصہ قبل ایک تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا گیا کہ جن مالک میں چاکلیٹ کھانے کا رجحان زیادہ ہے، ان ممالک میں نوبل انعام پانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    جی ہاں، یعنی کہ جن ممالک کے شہریوں میں چاکلیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے ان ممالک کے شہریوں میں نوبل انعام حاصل کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    یہ تحقیقی مقالہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوا تھا جسے سوئٹزر لینڈ کے ایک پروفیسر آف میڈیسن فرانز ایچ مزرلی نے تحریر کیا تھا۔

    پروفیسر فرانز نے لکھا کہ چونکہ کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چاکلیٹ دماغی استعداد اور کارکردگی بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ذہنی صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، تو میں نے نوبل انعام اور چاکلیٹ میں تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔

    ان کے مطابق اس حوالے سے انہیں کوئی باقاعدہ ڈیٹا تو نہیں مل سکا، تاہم جب انہوں نے مختلف ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح اور ان ممالک کے نوبل انعامات کا جائزہ لیا تو ان کے خیال کی تصدیق ہوگئی۔

    فرانز کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح زیادہ تھی، یہ وہی ممالک تھی جن کے متعدد شہری نوبل انعام حاصل کر چکے تھے۔

    ان کے مطابق اس تحقیق نے انہیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    پروفیسر فرانز کا یہ تحقیقی مقالہ باقاعدہ کسی دستاویز یا تحقیق کے نتائج کی صورت میں نہیں پیش کیا جاسکتا، ان کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقت تو ہیں تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ کیا واقعی یہ دو عوامل ایک دوسرے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا چاکلیٹ کا استعمال کسی شخص کو نوبل انعام حاصل کرنے جتنا ذہین بنا دیتا ہے یا پھر ذہین اور تخلیقی افراد میں قدرتی طور پر چاکلیٹ کھانے کا شوق موجود ہوتا ہے۔

    چونکہ چاکلیٹ کا زیادہ استعمال فائدے کی جگہ نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے لہٰذا یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد کتنی مقدار میں چاکلیٹ استعمال کرتے تھے، اور جن ممالک کا مقالے میں ذکر کیا گیا وہاں فی کس چاکلیٹ کے استعمال کی شرح فوائد کا سبب بن رہی تھی یا نقصان کا۔

    اس مقالے کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اس کے معتبر ہونے کے بارے میں طے کیا جاسکے گا۔

    لیکن چاکلیٹ میں ایسے کیا اجزا شامل ہیں؟

    چاکلیٹ کا جزو خاص یعنی کوکوا اپنے اندر بے شمار فائدہ مند اجزا رکھتا ہے۔ اس میں فائبر، آئرن، میگنیشیئم، کاپر اور پوٹاشیئم وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام اجزا دماغی صحت کے لیے بہترین ہیں۔

    ایک امریکی طبی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو باقاعدگی سے چاکلیٹ کھاتے ہیں ان کی یادداشت ان افراد سے بہتر ہوتی ہے جو چاکلیٹ نہیں کھاتے۔

    چاکلیٹ کھانے والے افراد دماغی طور پر بھی زیادہ حاضر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق چاکلیٹ دماغ میں خون کی روانی بہتر کرتی ہے جس سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، یوں ہمارے دماغ کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔

    چاکلیٹ دماغ میں سیروٹونین نامی مادہ پیدا کرتی ہے جس سے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے نجات ملتی ہے اور موڈ میں فوراً ہی خوشگوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ یہ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں 70 فیصد تک کمی کرسکتی ہے۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • شمالی آئرلینڈ میں خاتون صحافی کو فائرنگ کرکے قتل کرنیوالے دونوجوان گرفتار

    شمالی آئرلینڈ میں خاتون صحافی کو فائرنگ کرکے قتل کرنیوالے دونوجوان گرفتار

    ڈبلن : شمالی آئرلینڈ کے علاقے لندن ڈیری میں مظاہرین نے دوران فسادات خاتون صحافی کو گولی مار قتل کرنے کے والے 2 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی آئرلینڈ کی پولیس سروس نے کہا کہ 18 اور 19 سالہ نوجوانوں کو انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت لنڈن ڈیری سے گرفتار کرکے تفتیش کے لیے بیلفاسٹ منتقل کردیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 29 سالہ صحافی لیرا میکی نیو آئرش ریپلکن آرمی کی پولیس سے جھڑپ کے دوران سر پر گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھیں، ان کی ساتھی سارا کیننگ نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہترین صحافی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔

    شمالی آئرلینڈ کی مرکزی سیاسی جماعت، جو 2 سال سے زائد عرصے سے علاقائی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہی، نے قتل کے واقعے کی مذمت کردی۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق گولی چلانے والے شخص کی تلاش کرنے والے تفتیش کاروں نے لندن ڈیری میں ہونے والی جھڑپ کی سی سی ٹی وی فوٹیج اس امید کے ساتھ جاری کردی کہ مقامی افراد قاتلوں کی شناخت میں ان کی مدد کریں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ فوٹیج میں مبینہ مسلح شخص کے علاوہ میکی کو دیگر صحافیوں کے ہمراہ پولیس کی گاڑی کے نزدیک کھڑا دیکھا گیا۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل تصاویر میں ایک گاڑی اور ایک وین نظر آتش دیکھی گئی اور متعدد افراد کو پولیس کی گاڑیوں کی جانب پیٹرول بم پھینکتے دیکھا گیا۔

    پولیس سربراہ مارک ہیملٹن کا کہنا تھا کہ ایک مسلح شخص نے شہر کے رہائشی علاقے میں گولی چلائی جس کی وجہ سے میکی زخمی ہوئیں۔

    انہوں نے بتایا کہ نیو آئرش ری پبلکن آرمی اس سب کے پیچھے ہے اور تفتیش کاروں نے قتل کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    شمالی آئرلینڈ میں پُرتشدد مظاہرے، خاتون صحافی گولی لگنے سے ہلاک

    مظاہروں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو اطلاعات ملی تھیں کہ ڈیری کے علاقے ملروئے پارک اور کلیاگاہ میں حملوں کی تیاری کی جارہی ہے، جس پر جمعرات 18 اپریل کی رات پولیس نے مختلف علاقوں میں ممنوعہ ہتھیاروں اور بارودی مواد برآمد کرنے کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ سرچ آپریشن کے دوران پرتشدد ہنگاموں کو آغاز ہوگیا اور پولیس پر 50 سے زائد پیٹرول بم پھینکے گئے جبکہ پولیس کی دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔

  • جرمنی: داعش سے تعلق کے شبے میں خاتون گرفتار

    جرمنی: داعش سے تعلق کے شبے میں خاتون گرفتار

    برلن : دہشت گرد تنظیم داعش کے تعلقات اور  شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں جرمن پولیس نے ایک خاتون کو گرفتار  کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے شہر کارلسرؤے میں پولیس نے جمعرات کے روز خفیہ اطلاعات پر کارروائی کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی ایک خاتون رکن کو گرفتار کیا ہے جو شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی تھی۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے حراست میں لی جانے والی 31 سالہ خاتون پر شبہ ہے کہ وہ شام میں شدت پسندانہ کارروائیاں کرکے واپس آئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی حکام نے مذکورہ خاتون کو تفیش کے سلسلے میں دوسری مرتبہ طلب کیا تھا، جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا۔

    عدالت دستاویزات کے مطابق رواں برس پولیس نے گرفتار خاتون کی حراست میں لینے کے لیے عدالت سے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے پولیس کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ محض ’شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں رہائش کی بنیاد پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا‘۔

    عدالتی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ عدالت نے درخواست خارج ہونے کے بعد بھی پولیس کی تحقیقات جاری رہی، جس میں پتہ چلا کہ خاتون سنہ 2013 میں جرمنی سے شام گئی تھی جہاں اس نے داعش کے ایک دہشت گرد سے شادی بھی کرلی لی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اسی برس خاتون کا شوہر شدت پسندانہ کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ خاتون نے شوہر کی ہلاکت کے بعد ایک اور شادی کی تھی اور داعش کی جانب سے کیے جانے والے خودکش حملوں میں بھی ملوث تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن پولیس نے ان ثبوتوں اور معلومات کی بنیاد پر عدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری کروائے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں