Tag: Conservation

  • جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    لندن: ملکہ برطانیہ کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ گزشتہ روز 99 برس کی عمر میں چل بسے، شہزادہ فلپ نے ساری عمر ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیوانہ وار کام کیا۔

    گزشتہ روز شاہی خاندان کو سوگوار چھوڑ جانے والے شہزادہ فلپ فطرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اس کی حفاظت کا جنون تھا۔

    انہوں نے تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے اس وقت بات کی جب کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا، شہزادے نے دنیا بھر کے دورے کیے جن کا مقصد دنیا کو وہاں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی اور شکار کی وجہ سے جانوروں کو لاحق خطرات کی طرف متوجہ کرنا تھا۔

    شہزادے نے ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحفظ ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی افریقہ میں ہاتھیوں کو کھانا کھلاتی، چین میں پانڈا کے ساتھ وقت گزارتی اور انٹارکٹیکا میں پانی کی بلی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی تصاویر جنگلی حیات سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    سنہ 1961 میں جب ماحولیات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) قائم کی گئی تو شہزادہ فلپ کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا۔ اس تنظیم کے ساتھ انہوں نے دنیا بھر میں دورے کیے اور جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا۔

    لیکن اسی سال ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا، شہزادہ فلپ نے ملکہ برطانیہ کے ساتھ نیپال کا دورہ کیا جہاں دونوں نے ہاتھیوں پر بیٹھ کر گینڈے اور شیر کے شکار میں حصہ لیا۔

    اسی سال موسم گرما میں شاہی جوڑے نے بھارت کا دورہ بھی کیا جہاں شہزادہ فلپ نے ایک ٹائیگر کا شکار کیا، ٹائیگر کے مردہ جسم کے ساتھ فخریہ کھڑے ان کی تصویر نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

    دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ان کے قول و فعل کے تضاد پر چیخ اٹھی، لیکن اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ان کے خیال میں جانوروں کا شکار کرنا دراصل اس جانور کا وجود قائم رکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی جانور کا شکار کرتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ اگلے سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسان اپنی فصل کو کاٹ ڈالے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ اگے، ہاں لیکن وہ اس فصل کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرے گا جو کہ خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ان کی یہ توجیہہ کسی حد تک اس لیے بھی قابل قبول خیال کی گئی کیونکہ اس وقت ٹائیگر آج کی طرح معدومی کے خطرے کا شکار نہیں تھا، اور اس کی تعداد مستحکم تھی۔

    بعد ازاں برطانیہ میں لومڑی کے شکار پر پابندی کی بحث چلی تو شہزادے نے شکار کرنے والوں کا دفاع کیا، اس پر بھی تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے ان سے خاصے ناراض ہوئے۔

    شہزادہ فلپ 1982 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، لیکن وہ ذاتی طور پر طویل عرصے تک ادارے کی کئی مہمات کا حصہ بنے رہے۔ وہ پانڈا کو بچانے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مہم میں ایک سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔

    علاوہ ازیں انہوں نے سمندری آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے خلاف مہمات کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف مواقع پر اس پر بات کرتے نظر آئے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں آنجہانی شہزادے نے کہا تھا، ’یہ ایک بہت خوبصورت بات ہے کہ ہماری زمین پر مختلف نوع کی حیات موجود ہے اور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کے پاس دوسری حیات کو زندگی بخشنے یا ان کی جان لینے، انہیں معدوم کرنے یا انہیں بچا لینے کی طاقت ہے، تو ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اخلاقی حس کو کام میں لانا چاہیئے‘۔

  • سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔

    ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔


    کراچی کے تیمر تباہی کی زد میں

    پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تیمر اب تباہی کی زد میں ہے۔

    سندھ کی بے لگام ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے تیمر کے ان جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

    ان مینگرووز کو تباہ کرنے والی وجوہات میں قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب بھی ہیں۔

    ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیمر اب اپنی ڈھال کی حیثیت کھو چکا ہے، اور اب اگر کسی منہ زور طوفان یا سونامی نے کراچی کا رخ کیا، تو اس شہر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

    اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی جنگلات کس طرح خوفناک سمندری طوفانوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو معدومی سے بچانے سے قاصر

    قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔

    معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر

    وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔

    کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟

    کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔

    کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔

    سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔

    کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

    کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔

    دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

    لیکن خطرہ کیا ہے؟

    تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔

    مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔

    وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

    کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔

    جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔

    مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے

    اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔

    چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک خطرہ جان

    صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔

    اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔

    کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔

    گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہ چلتن نامی پہاڑ بھی شامل ہے جو دلکش مناظر کے ساتھ پہاڑی بکروں کی ایک نایاب نسل کا خوبصورت مسکن ہے۔

    وادی کوئٹہ کے جنوب مغرب میں واقع کوہ چلتن میں 100 سے زائد اقسام کے نایاب جنگلی جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جن کے تحفظ کے لیے 27 ہزار سے زائد ایکڑ پر محیط اس پہاڑی سلسلے کو سنہ 1980 میں ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔

    اس پہاڑی سلسلے میں مارخور کی ایک نایاب نسل بھی موجود ہے جو پاکستان کے قومی جانور سلیمان مارخور اور بلوچستان کے جنگلی بکرے کے اختلاط (کراس بریڈ) سے وجود میں آیا ہے۔

    چلتن مارخور

    مقامی افراد اسے چلتن مار خور کے نام سے جانتے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چلتن مارخور دنیا بھر میں معدومی کے خطرے کا شکار ہے تاہم پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے سرکاری و انفرادی دونوں سطحوں پر کام کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ دونوں اقسام کے مارخوروں میں سینگوں کا فرق ہے۔ قومی جانور سلیمان مارخور کے سینگ بل کھاتے ہوئے ہیں جبکہ چلتن مارخور کے سینگ سیدھے ہیں۔

    پاکستان کا قومی جانور ۔ سلیمان مارخور

    کوہ چلتن ۔ قدرت کا شاہکار

    کوہ چلتن کی خوبصورتی چاروں موسموں میں بے مثال ہے۔

    یہاں بسنے والے لومڑی، بھیڑیے، خرگوش اور پہاڑی بکرے اس مقام کو ایک خوبصورت مقام میں تبدیل کردیتے ہیں جہاں فطرت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

    یہاں موجود جنگلی انجیر، دیگر پھلوں کے درخت اور مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اس مقام کے حسن کو مزید دوبالا اور ماحول کو معطر کیے رکھتی ہیں جبکہ جنگلی پرندوں کی چہچاہٹ دلوں کو خوشی سے بھردیتی ہے۔

    کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے بلند پہاڑوں میں ہوتا ہے جو کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔

    بلوچستان کے لوک گیتوں میں بہادری اورخوبصورتی کے لیے چلتن کے نام کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس پہاڑ سے مختلف کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ یہ ایک حسین تحفہ ہے جو قدرت نے اس سرزمین کو نوازا ہے۔

    خصوصی رپورٹ: منظور احمد رپورٹر کوئٹہ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔