Tag: CONSTANTINOPLE

  • قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    آج حدیثِ رسول ﷺ کی تکمیل کرنے والی عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح کا یومِ ولادت ہے، محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرکے قدیم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا، اور یورپ میں خلافت ِعثمانیہ کے لیے شاندارِ فتوحات کی تھیں۔

    محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ ہما خاتون تھیں۔ 11 سال کی عمر میں محمد ثانی کو اماسیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ اگست 1444ء میں مراد ثانی اناطولیہ میں امارت کرمان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد 12 سالہ محمد ثانی کے حق میں سلطنت سے دستبردار ہو گئے تھے ۔

    اب سے 566 سال قبل سلطان محمد نے 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ کو فتح کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوایا تھا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔

    سلطنت عثمانیہ کے دورکے قسطنطنیہ کی سیرکریں

    یہاں یہ بات بھی خاص طور ملحوضِ خاطررہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے بادشاہ کے لیے حدیثِ رسول ﷺ بھی ہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘‘۔ اسی حدیث کے سبب قسطنطنیہ کی فتح کی خواہش ہر مسلم فاتح کے دل میں کروٹ لیتی رہی تھی۔

    یاد رہے کہ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

    مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔

    محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

    مغل افواج کو شکست دینے والا مرہٹہ پیشوا باجی راؤ

    عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔

    دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

    سنہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے ایک اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔

    قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ لہذا قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا جو 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔

    اناطولیہ اور قسطنطنیہ کی فتوحات اور اسے اپنا دار الحکومت قرار دینے کے بعدمحمد ثانی نے یورپ میں پیش قدمی کی۔ وہ سابق رومی سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے لانا چاہتا تھا جس کے لیے انہوں نے 1480ء میں اٹلی پر حملہ کیا جس کا مقصد روم پرحملہ کر کے 751ء کے بعد پہلی مرتبہ رومی سلطنت کو دوبارہ یکجا کرنا تھا ۔

    صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی

    پہلے مرحلے میں انہوں نے 1480ء میں اوٹرانٹو فتح کر لیا۔ لیکن 1443ء اور 1468ء کے بعد 1480ء میں تیسری مرتبہ البانیا میں سکندر بیگ کی بغاوت نے افواج کے رابطے کو منقطع کر دیا جس کی بدولت پوپ سکسٹس چہارم نے ایک زبردست فوج لے کر 1481ء میں اوٹرانٹو کو مسلمانوں سے چھین لیا۔

    دوسری جانب محمد ثانی نے بلقان کی تمام چھوٹی ریاستوں کو فتح کر لیا اور مشرقی یورپ میں بلغراد تک پہنچ گیا جہاں 1456ء میں بلغراد کا محاصرہ کیا لیکن جون ہونیاڈے کے خلاف کامیاب نہ ہو سکا۔ 1462ء میں اس کا افلاق کے شہزاد ولیڈ سوم ڈریکولا سے بھی تصادم ہوا۔ 1475ء میں عثمانیوں کو جنگ ویسلوئی میں مالدووا کے اسٹیفن اعظم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند شکستوں کے باوجود محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بھی سرپرست تھا۔ اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا اور مسلم سائنس دان اور ہنرمند بھی اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس نے قسطنطنیہ میں ایک جامعہ قائم کی اور فاتح مسجد سمیت کئی مساجد، نہریں اور توپ کاپی محل تعمیر کرایا۔محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظام ِسلطنت اور اپنی حیرت انگیز قابلیت کے باعث بھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ کے لیے باقاعدہ قوانین مرتب کیے ۔

    مسلم دنیا کے یہ عظیم حکمران سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے ۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والا دوسرے پل کو انہی کے نام پر’سلطان محمد فاتح پل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

  • سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    

    سلطنت عثمانیہ سنہ 1299 سے 1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔

    سنہ 1453 سے 1922 تک اس عظیم سلطنت کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جسے آج استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    تاہم اس شہر کی پہچان صرف یہی نہیں۔ قسطنطنیہ سنہ 330 سے 395 تک رومی سلطنت اور 395 سے 1453 تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔

    اس شہر بے مثال کی بنیاد 667 قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے ابتدائی ایام میں ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین کی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔

    قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حضور اکرم ﷺ نے دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘۔

    حضور اکرم ﷺ کی اس بشارت کے باعث قسطنطنیہ کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی۔

    قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی جنگی مہمات کا آغاز حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے سے ہوا تھا تاہم ان میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔

    بالآخر ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کے نکلا اور کام کو ممکن کر دکھایا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنا دیا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔

    فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    آج ہم تاریخ کے صفحات سے آپ کو قسطنطنیہ کی کچھ نادر تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔ یہ تصاویر سلطنت عثمانیہ کے بالکل آخری ادوار کی ہیں جنہیں بہت حفاظت کے ساتھ بحال کر کے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔


    قسطنطنیہ کی ایک گلی


    بندرگاہ کے مناظر


    دریائے باسفورس


    فوارہ سلطان احمد


    مسجد یلدرم بایزید


    مسجد ینی کیمی جو سلطان کے والد سے منسوب ہے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • رومی سلطنت کا مرکزقسطنطنیہ آج سے 564 سال قبل فتح ہوا

    رومی سلطنت کا مرکزقسطنطنیہ آج سے 564 سال قبل فتح ہوا

    آج سے 564 سال قسطنطنیہ 29 مئی 1453ء کو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔

    سلطان محمد فاتح نے اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔

    قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ لہذا قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا جو 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔

    رومی شہنشاہ Palaeologus XI کی مدد کیلئے ہنگری کی تیاریوں اور وینس کی بحریہ کی روانگی کی خبریں آچکی تھیں۔ سلطان محمد فاتح نے حملے کا حکم دیا۔ عثمانی بحری بیڑے کی مداخلت روکنے کے لئے دشمن نے قسطنطنیہ کے ساحل پر بھاری زنجیر لگادی جس سے عثمانی جہاز بندرگاہ میں داخل ہونے سے قاصر ہوگئے۔

    فتح قسطنطنیہ 


    سلطان محمد نے اپنے جہازوں کو شہر کی دوسری جانب لے جانے کا حکم دیا اوران کی افواج صحرا کے ذریعے جوکہ اب تک ناقابل رسائی تصور کیا جاتا تھا اپنے جہازوں سمیت قسطنطنیہ کے پچھلے دروازوں پر پہنچ گئیں۔

    یوں بالاخر قسطنطنیہ فتح ہوگیا یونانیوں کو قسطنطنیہ واپس آنے کی اجازت دی گئی جو فتح کے بعد ہرجانہ اداکرنے لگے اور انھیں ایک خاص مدت کیلئے محاصل سے چھوٹ دی گئی۔

    فتح کے اگلے روز قسطنطنیہ کے بڑے وزیر چینڈرلے کو برطرف کرکے گرفتار کرلیاگیا اور اس کی جگہ اسکے حریف زاگانوز کو تعینات کردیا گیا قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنادیا۔

    یہاں یہ بات بھی خاص طور ملحوضِ خاطررہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے بادشاہ کے لیے حدیثِ رسول ﷺ بھی ہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘‘۔

    یاد رہے کہ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

    مسلمانوں کے محاصرے


    مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔

    دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

    عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔

    دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

    سنہ 1453ءمیں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہرکو فتح کرلیا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔