Tag: Constitutional amendment

  • اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا، شہباز شریف

    اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا، شہباز شریف

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج تاریخی دن ہے، اب کسی وزیر اعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا۔

    26ویں آئینی ترمیم کی دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ آج نیا سورج طلوع ہوگا جس کی روشنی پورے ملک میں ہوگی، پہلے منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جاتا تھا جو اب نہیں ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آج لاکھوں لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں اس ترمیم سے انصاف کا حصول آسان ہوگا، یہ قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی ہے۔

    آج میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، میثاق جمہوریت پر دستخط 2006میں لندن میں ہوئے تھے، جس پر قائد نوازشریف، شہید بینظیر بھٹو اور مولانافضل الرحمان نے بھی دستخط کئے تھے۔

    ،وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ آئینی ترمیم کا حصہ بننے والی تمام جماعتوں کے ممبران کا شکریہ ادا کرتا ہوں، بلاول بھٹو نے خلوص دل سے بےپناہ محنت کی۔ اپنی ناراضی اور زوردار دلائل کے بعد مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنا اہم کردار ادا کیا، کاش پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔

    واضح رہے کہ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 26ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی، ترمیم پیش کرنے کے حق میں 225 جبکہ مخالفت میں 12 اراکین نے ووٹ دیا۔

    قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کی تحریک وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔ جس کے بعد اسپیکر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ 225 اراکین نے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں ووٹ دیئے جبکہ تحریک کی مخالفت میں12ووٹ آئے۔

  • آئینی ترمیم کا عمل جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے، عمر ایوب

    آئینی ترمیم کا عمل جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے، عمر ایوب

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ یہ آئینی ترمیم زبردستی لائی جارہی ہے جو جمہوریت دفن کرنے کی کوشش ہے۔

    یہ بات انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، 26ویں آئینی ترمیم کے عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینی ترمیم وفاق کو کمزور کرنے کی علامت ہوگی، یہ آئینی ترمیم پاکستانی عوام کی ترجمانی نہیں کرتی۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے بحیثیت اپوزیشن ممبر جو مثبت کردار کیا اس کو سراہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ کہا ہم نے اپنے ایم این ایز کو ہدایت دی ہے کہ اس عمل کا حصہ نہیں بننا۔

    اپوزیشن لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کا یہ عمل آزاد عدلیہ کا گلہ گھوٹنے کا عمل ہے جو اختتام پذیر ہورہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے بالکل ٹھیک کہا کہ یہ کالا تھیلہ تھا یا کالا سانپ تھا، ترمیم منظور کرنے کی اتنی جلدی کس بات کی ہے کیا ملک جام ہوجانا تھا؟ تیز گام لگائی ہوئی ہے، آج 21اکتوبر ہوگئی یہ اجلاس 22کو یا 31تاریخ کو کیوں نہیں ہوسکتا تھا۔

    عمر ایوب نے متنبہ کیا کہ ایم این ایز نے پارلیمانی پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کی تو قانونی کارروائی کی جائے گی ،پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم اس کا حصہ نہیں بنے گی۔

    پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا اسپیکر سے مطالبہ ہے کہ ہمارے لوگ آج جو نمودار ہو رہے ہیں ان کو اس عمل کا حصہ نہ بنایا جائے، ہمارےارکان کو ان کی نشستوں پر واپس بھیجا جائے۔

    عمرایوب نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم کا حصہ نہ بن کر ہم تاریخ میں سرخرو ہونگے، ناپاک عزائم کیلئے آئینی ترمیم کو جنم دینے والوں کو تاریخ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کریگی۔

    قبل ازیں سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ حکومت نے دو تہائی اکثریت سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظورکرالی۔ پہلی شق میں چار ووٹ مخالفت میں آئے۔

    بقیہ تمام شقیں65 ووٹوں کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی گئیں، آئینی ترمیم منظوری کے وقت ایوان میں ن لیگ پی پی،جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان موجود رہے۔

    بی این پی کے دو سینیٹرز بھی اجلاس میں آئے۔ بیرسٹرعلی ظفر ،عون عباس، حامد خان اور راجہ ناصر عباس نے بل کی مخالفت کی۔

  • آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس

    آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس

    26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کیلئے اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔

    وزیراعظم شہباز شریف، نوازشریف، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، بیرسٹر گوہر اور دیگر سیاسی رہنما ایوان میں موجود تھے۔

    قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے224ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت اور جے یو آئی کے ووٹ221ہیں حکومت کو اپوزیشن سے5  ووٹ ملنے کا یقین ہے۔

    قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخ ساز دن ہے، میثاق جمہوریت کا ادھورا ایجنڈا آگے بڑھایا جارہا ہے، آئینی بینچز بنائے جارہے ہیں، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدلا جارہا ہے۔

    اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے۔

    اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے، 12رکنی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں اپوزیشن اور حکومتی لوگ ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی معیاد 3 سال ہوگی، ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس کی معیاد 6 سے 7سال تھی۔

    چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے دو سینئرجج ممبر ہونگے، جوڈیشل کونسل میں 2ممبر ہائیکورٹ کےچیف جسٹس ہونگے۔

    چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پارلیمان اور آئین کیلئے کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔ کالے سانپ نے ایک نہیں بلکہ کئی وزرائے اعظم کو فارغ کرایا۔ وردی میں صدر کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔

    ہم نے اٹھاون ٹوبی ختم کیا تو عدالت نے صادق اور امین کے ذریعے وہ اختیار اپنے پاس رکھا۔ کالے کوٹ والے کو وزیراعظم کو ہٹانے کی اجازت ہے لیکن اس ایوان کے پاس اختیار نہیں۔

    قبل ازیں سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ حکومت نے دو تہائی اکثریت سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظورکرالی۔ پہلی شق میں چار ووٹ مخالفت میں آئے۔

    بقیہ تمام شقیں65 ووٹوں کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی گئیں، آئینی ترمیم منظوری کے وقت ایوان میں ن لیگ پی پی،جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان موجود رہے۔

    بی این پی کے دو سینیٹرز بھی اجلاس میں آئے۔ بیرسٹرعلی ظفر ،عون عباس، حامد خان اور راجہ ناصر عباس نے بل کی مخالفت کی۔

  • مولانا فضل الرحمان کی آئینی ترمیم کل پیش کرنے کی تجویز، ذرائع

    مولانا فضل الرحمان کی آئینی ترمیم کل پیش کرنے کی تجویز، ذرائع

    اسلام آباد : جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم آج بروز اتوار پیش کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق حکومتی اراکین کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوششیں جاری ہیں۔

    اس حوالے سے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر جاکر ان سے ملاقات کی۔

    آخری اطلاعات تک اسحاق ڈار، محسن نقوی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سے واپس روانہ ہوچکے ہیں ،وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سےچلے گئے۔

    جے یو آئی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس صبح تک ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے، جس کے بعد ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈاراور وزیرداخلہ محسن نقوی مشاورت کے لئے روانہ ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر موجود ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول مولانا کو راضی کرکے آئینی ترامیم کی حمایت کا اعلان کرانا چاہتے ہیں۔

    مولانافضل الرحمان اور بلاول بھٹو کچھ دیربعد میڈیاسےمشترکہ گفتگو کرینگے، بلاول بھٹو کے سیکیورٹی اسٹاف نے میڈیا گفتگو سے متعلق صحافیوں کو آگاہ کیا ہے۔

  • آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    آئینی ترمیم پر حکومت، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کا مسودہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے سمیت پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نکات بالآخر سامنے آگئے۔

    حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولا سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کر دیا۔ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی، اس ضمن میں حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماری میمن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور حکومت سمیت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مسودوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

    مجوزہ ترمیم کے حوالے سے حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے۔

    مجوزہ ترمیم نے کہا کہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا جبکہ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو دو ارکان لئے جائیں گے۔

    صوبائی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرِ قانون، بار کونسل کے نمائندے پر مشتمل ہو گی، جج کی اہلیت رکھنے والے کے لئے نام پر مشاورت کے بعد وزیرِ اعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے۔

    مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیرِ اعظم کو دیے جائیں گے۔

     آئینی ترمیم

    مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کے لئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔

    مجوزہ ترمیم کا کہنا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہو گا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔

    مولانا فضل الرحمان

    جمیعت علماء اسلام (ف) کا آئینی مسودہ

    وفاقی آئینی عدالت کے قیام کیلئے جے یو آئی (ف) نے 24 ترامیم تجویز کی ہیں، جس کے تحت آرٹیکل 175اے میں ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دینے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 5 سینئر ججز پر مشتمل بینچ اور ہائیکورٹس میں چیف جسٹس سمیت 3 سینئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ کی تجویز دی۔

    جے یو آئی (ف) نے 175 اے میں ترمیم، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی، آرٹیکل 38، 203 اور 243 میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔

    مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ کو آئینی تنازعات یا تشریح کا اختیار ہوگا، صوبائی آئینی بینچ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ہوگی، صدر کی جانب سے بھیجے گئے سوال کی سماعت آئینی بینچ میں ہوگی۔

    جے یو آئی (ف) نے مجوزہ مسودہ میں تجویز دی ہے کہ سرکاری و نجی سطح پر یکم جنوری 2028سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے جبکہ ملک میں اسلامی مانیٹری سسٹم متعارف کروایا جائے۔

     بلاول بھٹو زرداری

    پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ

    پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دی کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔

    پیپلز پارٹی کے آئینی مسودے میں آرٹیکل 175اے میں ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو 5 ججز پر مشتمل ہوگی، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اس کی سربراہی کریں گے۔

    پی پی مسودے کے مطابق ہر صوبے سے باری کی بنیاد پر آئینی عدالت کے چیف مقرر ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس کی اپنی مدت 3سال ہوگی جو روٹیشن پالیسی کی بنیاد پر ہوگی۔

    اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا اور کسی بھی فورم پر اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ چار صوبائی آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس صوبائی آئینی عدالت ہوں گے اور باقی ججز کا تعین حکومت قانون کے مطابق کرے گی۔

    صوبائی آئینی عدالت کا فیصلہ وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہوسکے گا، پیپلز پارٹی کے مسودے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس ججز کی تقرری کیلیے آئینی کمیشن آف پاکستان کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔

    آئینی کمیشن میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس 2 سینئر ججز، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون ، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ اور قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے دو ارکان میں سے ایک حکومت کا اور دوسرا اپوزیشن کا ہوگا، جن کی نامزدگی اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے اور اسی طرح سینیٹ سے ایک رکن حکومت اور ایک اپوزیشن کا ہوگا۔

  • مولانا فضل الرحمان سے رات گئے اہم شخصیات کی ملاقاتیں

    مولانا فضل الرحمان سے رات گئے اہم شخصیات کی ملاقاتیں

    اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر اہم سیاسی شخصیات کی آمد و رفت رات گئے تک جاری رہی۔

    گزشتہ رات عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے۔ ان کے بعد سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی مولانا کی رہائش گاہ پہنچے۔

    تمام شخصیات نے مولانا فضل الرحمان سے مجوزہ آئینی ترامیم پر تفصیلی گفتگو کی، جے یو آئی کے عبدالغفور حیدری اور کامران مرتضیٰ بھی ملاقات کے موقع پر شریک رہے۔

    مذکوزہ مجوزہ آئینی ترامیم کی اسمبلی سے منظوری کیلیے حکومت مقررہ نمبرز پورا کرنے کیلئے ہر ممکن کوششیں کررہی ہے۔

    اے آر وائی کو ذرائع نے بتایا کہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان اور حکومت کے درمیان معاملات طے نہیں ہوپائے ہیں جبکہ سربراہ جے یو آئی (ف) کے ساتھ پی ٹی آئی نے بھی رابطہ کیا ہے۔

  • ایم کیو ایم آئینی ترامیم کی حمایت کرے گی یا نہیں؟

    ایم کیو ایم آئینی ترامیم کی حمایت کرے گی یا نہیں؟

    حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کی پارلیمان سے منظوری کی تیاری کرلی گئی ہے آج اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کی جائے گی۔

    اس حوالے سے حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے مطلوبہ 224اراکین کی تعداد سے متعلق مشکلات درپیش ہیں جس کیلئے حکومتی وزراء اور لیگی قائدین سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔

    اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیوایم) کے اراکین کی حمایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس کیلیے ایم کیوایم پاکستان کی پارلیمانی پارٹی میں مشاورت کی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم کی حمایت کی جائے یا نہیں؟۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ایم کیوایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کے چیمبر میں ہونے والے اجلاس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی شریک ہوئے۔

    دونوں رہنماؤں نے ایم کیوایم ارکان کو مجوزہ ترمیمی بل پر بریفنگ دی جس کے بعد ایم کیوایم رہنماؤں نے فیصلے سے پہلے مزید مشاورت کا فیصلہ کیا۔

    حکومتی وفد کی روانگی کے بعد ایم کیوایم نے مشاورتی اجلاس میں آئینی ترامیم کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے ایم کیو ایم کی جانب سےآئینی ترمیم کی حمایت کرنے کا امکان ہے تاہم وہ حکومتی اجلاس میں ترامیم سے متعلق اپنے کچھ نکات رکھے گی۔

  • آئینی ترامیم کی منظوری سے عدلیہ کا جنازہ اٹھ جائے گا، عابد زبیری

    آئینی ترامیم کی منظوری سے عدلیہ کا جنازہ اٹھ جائے گا، عابد زبیری

    اسلام آباد : ممتاز ماہر قانون عابد زبیری نے کہا ہے کہ اگر مجوزہ آئینی ترامیم منظور ہوئیں تو آزاد عدلیہ کا جنازہ اٹھ جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم میں 2کورٹس بنانے کا کہا جارہا ہے، یعنی دو چیف جسٹس ہوں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ابھی آئینی ترامیم کا مسودہ سامنے نہیں آیا مفروضوں پر باتیں کی جارہی ہیں، سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت پینل سے چیف جسٹس بنائے گی۔

    آئینی ترامیم ہوئیں تو ہمیں معلوم ہےحکومت کس کو چیف جسٹس بنائےگی، حکومت کا مقصد ہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ کو چیف جسٹس نہ بنایا جائے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ آرٹیکل 175 اے میں حکومت کیا ترمیم لا رہی ہے، آئینی ترمیم کے بعد حکومت کا جوڈیشری پر مکمل کنٹرول ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت ترامیم سے سپریم کورٹ کی آئینی حیثیت ختم کرنا چاہتی ہے، آئینی عدالت کی مجوزہ ترامیم سے سپریم کورٹ کا کیا ہوگا؟

    آئینی ترامیم میں کہا جارہا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کا تبادلہ ہوگا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز نے ہی مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا، حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8ججز میں سے ان 6کا تبادلہ کرے گی۔

    اس موقع پر سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی حکومت آئینی ترامیم لا کر کیوں متنازع کام کررہی ہے۔

    لگ رہا ہے حکومت نے خود کو ختم کرنے کا سوچ لیا ہے، عدلیہ کی آزادی کے لیے وکیل پہلے بھی سڑکوں پر نکلے تھے، اب پھر نکلیں گے۔

  • پاکستان بار کونسل کا خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم پیش کرنے پر اظہار تشویش

    پاکستان بار کونسل کا خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم پیش کرنے پر اظہار تشویش

    اسلام آباد : پاکستان بار کونسل نے حکومت کی جانب سے خفیہ انداز میں مجوزہ آئینی ترمیم متعارف کرانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، بیان میں اراکین نے شدید نکتہ چینی کی۔

    پاکستان بار کونسل کے 6 ارکان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مجوزہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے، ان کامقصد عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔

    پاکستان بارکونسل ارکان نے کہا کہ مذکورہ ترامیم قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں، ترامیم بغیر کسی بحث کے آئین کو ختم کرنے کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ پوری مشق ربڑ اسٹیمپنگ کی مشق معلوم ہوتی ہے، غلط مقاصد کے لیے ایک متبادل عدالتی نظام بنانے کے لیےمشق کی جارہی ہے۔

    پی بی سے کے چھ اراکین نے اپنے جاری بیان میں مزید کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں، اور وکلاء سمیت قانونی برادری کو اس موقع پر متحد ہونا چاہیے۔

    مذکورہ چھ ارکان میں محمود چوہان، عابد شاہد زبیری، اشتیاق اے خان، شہاب سرکی، طاہرفراز اور منیر کاکڑ شامل ہیں۔