Tag: contempt of court case

  • توہین عدالت کیس : فواد چوہدری کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار

    توہین عدالت کیس : فواد چوہدری کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار

    اسلام آباد : عدالت نے عدلیہ مخالف بیانات دینے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی، درخواست گزار وکیل سلیم اللہ خان ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے اور درخواست پیش کی

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست کے ساتھ فواد چوہدری کے بیانات کا ٹرانسکرپٹ منسلک ہے پڑھنا چاہوں گا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف توہین آمیز بیان دیا، فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو توہین عدالت میں سزا ممکن نہیں کیونکہ وہ ایک پاپولر لیڈر ہیں۔

    وکیل کے مطابق فواد چوہدری کے بیانات صرف کسی جج کے حوالے سے نہیں بلکہ چیف جسٹس سمیت تمام عدلیہ کے خلاف بیانات دئیے گئے تھے۔

    رخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ فواد چوہدری کے خلاف توہین آمیز بیانات کی وجہ سے توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کیخلاف کس قسم کی توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے؟ جس کے جواب میں وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔

    جج نے کہا کہ دو قسم کے بیانات ہیں جس پر توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے، سیاسی بیانات سے فیصلوں پر تنقید سے توہین عدالت نہیں ہوتی۔

    اگر ہم اس قسم کے بیانات پر توہین عدالت کی کاروائیاں کریں گے تو ہمارے پاس کوئی اور کام نہیں رہے گا، سارا دن یہی کام کرتے رہیں گے۔

    جس کیس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں پہلے سے وہ کیس لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت ہے، بعد ازاں عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔

  • توہین عدالت کیس میں  غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    توہین عدالت کیس میں غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا غلام سرورکہاں ہیں؟ جس پر وکیل غلام سرور نے بتایا غلام سرورعدالتی حکم پرساڑھے10بجےتک پہنچیں گے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا فردوس عاشق اعوان کے کیس کو بھی ساتھ سنیں گے۔

    جس کے بعد فردوس عاشق اعوان اور غلام سرورخان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے توہین عدالت کا فیصلہ سناتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، فردوس عاشق اعوان نے بھی معافی نامہ تحریری طورپر لکھ کر دیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا آپ دونوں اہم عہدوں پرہیں، آپ لوگوں کی باتوں سےلوگوں کاعدلیہ پراعتماداٹھ جاتا ہے، سیاسی لوگوں کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد خراب ہو جاتا ہے، غلام سرور خان نے کہا میرا بیان سیاسی تھا، اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا اچھا نہیں لگتا، ہماری ذات پر کچھ بھی کہیں ،کوئی مسئلہ نہیں، سیاسی بیان بازی سےلوگوں کے اعتماد کو کنورٹ نہ کریں ، آپ کی بیان بازی بالکل توہین عدالت ہے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا غلام سروراور فردوس عاشق کیخلاف عدالتی نوٹس واپس لیتےہیں، فیصلہ خلاف آنے پرعدالتوں پر تنقید شروع ہوجاتی ہے ، وزیراعظم نے وزرا کی پریس کانفرنس کا نوٹس لیا، وفاقی وزیر غلام سرور نے کہا میں عدالت کا شکر گزار ہوں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا لپ شکر گزار ہونے کی ضرورت نہیں، عدالتیں آئین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں۔

    یاد رہے 14 نومبر کو توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی، جس پر عدالت نے غلام سرور کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور آئندہ سماعت پرفردوس عاشق اعوان، غلام سرور ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    دوران سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا میڈیکل بورڈکی بنیادپرنوازشریف کوضمانت دی گئی، آپ کوابھی تک احساس نہیں کہ آپ نے کیا کہا تو غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر شک کا اظہارکیاتھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کی حکومت ہے آپ شک کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو وزیر اعظم پر بھی شک ہے، آپ منتخب حکومت کے وزیر ہیں، آپ شک پیدا کررہے ہیں۔

    یاد رہے اس سے قبل سماعت میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ڈیل سے متعلق بیان پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرلیا تھا، اور کہا تھا کہ فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست احکامات کے ساتھ نمٹادی، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم عدولی پر درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

    وکیل نے بتایا عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل در آمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناعہ جاری کیا تھا ، جس پر جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا ایکسل لوڈ کے معاملے پر قانون پر عمل کیا جائے، جس کے بعد عدالت نے احکامات کے ساتھ درخواستیں نمٹادیں۔

    فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی ، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل درآمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا، فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹ میں کہاکہ وزیراعظم نے ایم نائن موٹروے پر ایکسل لوڈ پر عمل درآمد روک دیا، ان کی ٹویٹ عدالتی حکم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت کی حکم عدولی کرنے پر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

    مزید پڑھیں : فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا،عدالت

    یاد رہے اس سے قبل بھی توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرایا تھا ، جس میں پھر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے، نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

    جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ان کے خلاف کیس وفاقی وزیر غلام سرور کیس کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔

    خیال رہے  اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو  نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آبادہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس کردیا اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف کیس وفاقی وزیر کے کیس کے ساتھ منسلک کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئیں ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی۔

    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

    وکیل شائستہ تبسم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو ٹی وی شو میں ڈیل کے تحت نوازشریف، مریم کی رہائی کاذکرہوا، وفاقی وزیر نےحکومت اور ن لیگ ڈیل میں دیگراداروں کا ذکر کیا، جس پر عدالت نے کہا اگر ڈیل ہوئی ہےتو حکومت کو فیصلہ کرنے دیں۔

    جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کوئی وفاقی وزیر اس طرح کے بیان نہیں دے سکتا،عدالت پیمرا سے ٹرانسکرپٹ منگوا لے، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا یہ حساس معاملہ ہے، کابینہ کے رکن اس طرح بیان دے؟سمجھ نہیں آتا۔

    جہانگیرجدون ایڈووکیٹ نے کہا وفاقی وزیر نے میڈیکل بورڈ کے رپورٹ پر تنقید کی ، جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر اس طرح تنقید کرتے رہتے ہیں، میڈیکل بورڈ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا زیر سماعت کیسز پر کوئی بحث نہیں کر سکتا، تو فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج ہی وزیر اعظم کو متعلقہ ویڈیو کلپ سنا دوں گی، چیف جسٹس ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ حکومت کا ہے اور حکومت تنقید کرے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا، جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا آپ میرےکیس کوالگ سنیں ،مجھے چوہدری سرور سے کیا لینا دینا۔

    بعد ازاں عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت چودہ نومبرتک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے عدالت نےتوہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کوطلب کررکھا ہے ، فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم پرہفتے کو تحریری معافی نامہ جمع کرایا تھا، عدالت ان کے معافی نامے کا جائزہ لے گی۔

    یاد رہے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب میں ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادیا

    معاون خصوصی برائے اطلاعات کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، مقدمے پر اثر انداز ہونے کا تاثر ملا ہے تو اس پر بھی معافی مانگتی ہوں، عدالت یا مقدمے پر اثر انداز ہونے کی نیت نہیں تھی۔

    گذشتہ سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا، جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس  ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان  کی معافی قبول کرلی

    توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، کیس کی سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کی۔

    عدالتی حکم پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا آپ وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ جوکہیں گی وہ  مطلب رکھتاہے، الیکٹڈ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ہیں، میری ذات پرجو کچھ کہا جائے میں جواب نہیں دوں گا، آپ نے زیر سماعت کیس پر تبصرہ کیا ہے۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا جی میں کچھ کہناچاہتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کچھ نہیں کہیں، آپ نے کہا کاش کسی چھوٹے  لوگوں کو انصاف ملتا، آپ سیاست سے عدالت کودور رکھیں۔

    عدالت نے ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے رول پڑھنے کا کہہ دیا اور جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ضلعی عدالتوں نےدکانوں میں کورٹ بنارکھے ہیں، ہائی کورٹ میں صرف 4 ججز ہیں اور ڈسپوزل دیکھ لیں، سول ججز بہادر ہیں ان کے پاس واش روم تک کی سہولت نہیں، سول ججز پھر بھی کام کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف پریس کانفرنس ، فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم انصاف کرتے ہیں، کوئی وکیل گھر آئے توبھی ان کو سن لیتا ہوں، جس پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا مجھے بولنے دیں تو جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ خاموش  رہیں، آپ پالیمنٹ کی ترجمان ہیں۔

    ڈاکٹر  فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آپ نے تفصیل سےمجھےبتادیا، آپ کوذاتی طور پر جانتی ہوں، عدالتی نظام سے زیادہ واقفیت نہیں ، میں غیر مشروط  مانگتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کوئی ڈیل کی خبر چلاتا ہے۔

    عدالت نے  فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی، ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان دو معاملے پرشوکاز نوٹس جاری کیا تھا ، عدالت کو بد نام اورعدالت پر حاوی ہونے پر2نوٹس جاری ہوئے تھے۔

    عدالت نے کہا فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی اور کریمنل پراسیڈنگ سے متعلق فردوس عاشق اعوان کو نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو کہنا ہے عدالت میں تحریری طور پر جواب جمع کرائیں اور کیس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی کردی۔

    جس پر ڈاکٹرفردوس عاشق نے کہا 5نومبرکو کابینہ کا اجلاس ہے، تاریخ آگے کرلیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں اب کریمنل پراسیس ہوچکا، تاریخ آگے  نہیں جاسکتی، میں چاہتا ہوں ایک اجلاس ہائی کورٹ کے حوالے سے کریں، عدالتوں کے معاملات بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔

    عدالت نے حکم دیا آئندہ سماعت سے پہلے آپ کو ڈسٹرکٹ کورٹ کا دورہ کرنا ہے ، سماعت سے پہلے کریمنل کارروائی اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے دورے کا جواب دیں۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ عدالت سےغیرمشروط معافی  مانگنے کافیصلہ کیاہے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور یکم نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کے نوٹس کے بعد قانونی مشورے کیلئےعلی بخاری کی خدمات حاصل کرلیں تھیں۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےشیخ رشیدکےخلاف توہین عدالت کیس میں کمشنر اورڈپٹی کمشنرراولپنڈی کوکل طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیئے ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا،ایک فیتہ کاٹنا تھا، جس کیلئےدیواریں گرادی گئیں،درخت کاٹ دیئےگئے، کیا پنجاب حکومت قبضہ گروپ بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

    دور ان سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پنجاب حکومت کیا قبضہ گروپ بن گئی ہے؟حکمنامہ تھا کہ کوئی قبضہ نہیں کرےگا، وہاں دیواریں گرا دی گئیں اور درخت کاٹ دئیے گئے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ 24 گھنٹے میں اس حوالے سے ہدایات لیں، ہمیں دو حکم امتناع دینے کی ضرورت نہیں،اس حکمنامے پر عمل یقینی بنائیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیوار گرنے سے گرلز گائیڈ کی عمارت عیاں ہوگئی ہے،گرلز گائیڈ کی عمارت میں بچیاں ہیں اور ان کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہمارے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،ہمارے حفاظت کیلئے پھر کسی اور کو کہنا پڑےگا، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا امید ہے بات یہاں تک نہیں پہنچے گی۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائےگی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ جو بھی نقصان ہوا آج سے اس کی مرمت شروع کرا دیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا اس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے،وہاں اور کچھ بھی جاتا ہے ایک فیتہ کاٹنا تھا جس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے۔

    عدالت عظمیٰ نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو (آج) بدھ کو طلب کر لیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب کو 24 گھنٹے میں ہدایات لینے کا حکم دیا ۔بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔

  • وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر

    وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہا گیا سعید غنی نے تجاوزات پر سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف بیانات دیئے، لہذا ان کے خلاف آرٹیکل دو سو چار کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی، درخواست گزارمحمود اختر نقوی نے موقف اختیار کیا ہے کہ سعید غنی میڈیا پرعدالت کی تضحیک کےمرتکب ہوئے ہیں، تجاوزات پر سپریم کورٹ کورٹ کے حکم کے خلاف بیانات دیئے۔ لہذا ان کے خلاف آرٹیکل دو سو چار کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ معزز عدالت سعید غنی کےخلاف کارروائی کر کےتا حیات نااہل قرار دے۔

    یاد رہے گزشتہ روز صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن عمارتوں میں لوگ رہتے ہیں وہ ہم سے نہیں ٹوٹیں گی، جہاں انسانی المیہ جنم لینے کا امکان ہوگا ہم وہ کام کرنے سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کرلیں گے۔

    سعید غنی کا کہنا تھا کہ دس منسٹر دس چیف منسٹرتبدیل کردیں کوئی شخص یہ کام نہیں کرسکتا شادی ہال نہیں ٹوٹیں گے جو ہال غلط بھی ہیں انہیں تیس سے پینتالیس دن کا وقت دیا جائے۔

    مزید پڑھیں : عدالتی فیصلوں پرکوئی اعتراض نہیں، جہاں عوام کا مسئلہ آیا تو عدالت سے ہاتھ جوڑ کر کہیں گے یہ ہم نہیں کرسکتے، سعید غنی

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ججز کی نیت پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے وہ کراچی کی بہتری اور اس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، کراچی کے لئے سوچنے والے ججز کے ساتھ ہیں، جنہوں نے غیر قانونی کام کیا،ان کے کیے کی سزا کسی اور کو نہیں دے سکتے۔

    صوبائی وزیر بلدیات نے مزید کہا تھا کہ عدالتی فیصلوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، عوام کا جہاں مسئلہ آیا تو عدالت سے ہاتھ جوڑ کر کہیں گے یہ ہم نہیں کرسکتے، ایس بی سی اے کے نوٹس کی وجہ سے کراچی میں بے چینی پھیلی، سندھ حکومت نے ایس بی سی اے کے نوٹس کو معطل کردیا ہے۔

    خیال رہے سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

    واضح رہے سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سےغیر قانونی تعمیرات کےخاتمےسےمتعلق دو ہفتے میں رپورٹ طلب کی تھی اور کہا تھا کراچی کی صورتحال پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ،لائنزایریا گرا کرملٹی اسٹوریزبلڈنگز بنائیں اور لوگوں کو آباد کریں، غیرقانونی تعمیرات کےپیچھےکوئی بھی ہوآپ کوسب گراناہوگا ،کراچی کواصل شکل میں بحال کریں۔

    مزید پڑھیں : کراچی میں ہرقسم کی غیرقانونی تجاوزات فوری گرادی جائیں، سپریم کورٹ کا بڑاحکم

    اس سے قبل 22جنوری کو سپریم کورٹ نے بڑا حکم دیتے ہوئے کہا تھا غیرقانونی شادی ہال ہو یاشاپنگ مال اورپلازہ، کراچی میں ہرقسم کی غیرقانونی تجاوزات فوری گرادی جائیں اور حکام کو کہا بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں، عدالتی فیصلے پر ہر حال میں عمل کریں۔

  • توہین عدالت کیس، رکن قومی  اسمبلی عامرلیاقت پر فردِ جرم عائد

    توہین عدالت کیس، رکن قومی اسمبلی عامرلیاقت پر فردِ جرم عائد

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں رکن قومی اسمبلی پی ٹی آئی عامر لیاقت پر فرد جرم عائد کردی گئی، جس کے بعد عامر لیاقت نے عدالت سے ایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عامر لیاقت کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں رکن قومی اسمبلی پی ٹی آئی عامر لیاقت پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    وکیل نے کہا عامر لیاقت عدالت سےایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگتے ہیں، انہوں نے پروگرام کیا اس میں توہین عدالت کا کوئی ارادہ نہیں تھا، پروگرام کے کونٹینٹ سے کوئی ایسا تاثر پیدا ہوا ہو تو معافی مانگتے ہیں۔

    جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا آپ نے گزشتہ تاریخ پر بھی معافی مانگی تھی، مؤقف سنا آج کی تاریخ فرد جرم عائد کرنے کے لئے مقررکی تھی، مقدمے کی کارروائی میں مناسب وقت پر معافی پر غور کریں گے۔

    عدالت نے کہا توہین عدالت کی شق 204تھری کے تحت الزام عائدکیا جاتا ہے، کیا آپ الزام قبول کرتے ہے، جس پر عامرلیاقت نے فردجرم کی صحت سے انکار کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کی معافی کی استدعا مسترد کردی تھی اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عامرلیاقت پرفردجرم آج ہی عائد کی جائے گی۔

    بعد ازاں وقت کی کمی کے باعث عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی تھی۔

    یاد رہے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور 27 ستمبر تک فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ کیا ہم یہاں تذلیل کرانے کے لئے بیٹھےہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں توہین عدالت کرکے معافی مانگ لی جائے۔

    چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ کیا فرد جرم عائد ہونے کے بعد عامر لیاقت رکن قومی اسمبلی رہ سکتے ہیں؟ جس پرعامر لیاقت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہ سکتے۔ خیال رہے کہ عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے عامر لیاقت کی معافی مسترد کردی

    واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پرعامر لیاقت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن میں جواب طلب کیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ کیوں نہ عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں کہ پبلک فورم پر کیسے بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہے۔

    اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے خطاب کے کلپس طلب کرلئے تھے اور کہا تھا کہ ہرکوئی خود کو عالم، ڈاکٹر اور فلسفی سمجھتا ہے جبکہ عدم حاضری پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کیوں نہیں آئے یہ توہین عدالت کا کیس ہے، کیوں نہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیں۔

  • توہین عدالت کیس، عامرلیاقت پر آج فرد جرم عائد کی جائے گی

    توہین عدالت کیس، عامرلیاقت پر آج فرد جرم عائد کی جائے گی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامرلیاقت پرنااہلی کی تلوار لٹکنے لگی، توہین عدالت کیس میں عامرلیاقت پر آج فرد جرم عائد کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین پر فرد جرم آج عائد کی جائے گی، سپریم کورٹ نے عامر لیاقت حسین کی معافی مسترد کردی تھی۔

    یاد رہے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور 27 ستمبر تک فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ کیا ہم یہاں تذلیل کرانے کے لئے بیٹھےہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں توہین عدالت کرکے معافی مانگ لی جائے۔

    چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ کیا فرد جرم عائد ہونے کے بعد عامر لیاقت رکن قومی اسمبلی رہ سکتے ہیں؟ جس پر عامر لیاقت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہ سکتے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے عامر لیاقت کی معافی مسترد کردی

    خیال رہے عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔

    واضح رہے چیف جسٹس ثاقب نثار نے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پر عامر لیاقت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 دن میں جواب طلب کیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ کیوں نہ عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں کہ پبلک فورم پر کیسے بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہے۔

    اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے خطاب کے کلپس طلب کرلئے تھے اور کہا تھا کہ ہرکوئی خود کو عالم، ڈاکٹر اور فلسفی سمجھتا ہے جبکہ عدم حاضری پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کیوں نہیں آئے یہ توہین عدالت کا کیس ہے، کیوں نہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیں۔

  • عدلیہ مخالف تقاریر،  نوازشریف اور مریم نواز سے15مارچ تک جواب طلب

    عدلیہ مخالف تقاریر، نوازشریف اور مریم نواز سے15مارچ تک جواب طلب

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریرکے خلاف درخواست پر نوازشریف، مریم نواز اورپیمرا سے پندرہ مارچ تک جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے آمنہ ملک کی عدلیہ مخالف تقاریر پر نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    سماعت میں درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ نواز شریف اور مریم نواز مسلسل توہین عدالت کی مرتکب ہو رہے ہیں اور پانامہ فیصلے کے بعد دونوں باپ بیٹی مسلسل اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ نوازشریف عدلیہ کیخلاف بغاوت کا اعلان کرکے ملک میں انتشارپھیلارہے ہیں،عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے سے روکنے کے لیے پیمرا کچھ نہیں کررہا۔

    درخواست گزار نے نوازشریف اور مریم نوازسمیت دیگرسیاست دانوں کی عدلیہ مخالف تقاریر پرپابندی عائد کرنے کی استدعا کی۔

    جس کے بعد لاہورہائیکورٹ نے نوازشریف، مریم نواز اور پیمرا سے 15مارچ تک جواب طلب کرلیا ہے۔


    مزید پڑھیں : آج 70 سال کی پالیسیوں کے خلاف اعلان بغاوت کرتا ہوں، نوازشریف


    یاد رہے کہ بہاولپور میں‌ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 70 سال میں ہم نے بہت ٹھوکریں کھائی ہیں، اب 70 سال کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کااعلان کرتا ہوں، ہم اپنا حق مانگیں، ملتا نہیں توچھینیں لیں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ہمیں اپنے پیروں تلے روندے، کسی کو اپنے ووٹ بینک پرڈاکا ڈالنے نہیں دیں گے۔

    واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کیخلاف توہین عدالت کے کیسز زیر سماعت ہیں ، رہنماؤں میں وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر ریلوے سعد رفیق ، وزیر مملکت طلال چوہدری اور وزیر برائے نجکاری دانیال عزيز شامل ہیں۔

    اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی توہین عدالت کیس میں 1 ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا کاٹ چکے ہیں جبکہ ایک بار پھر نہال ہاشمی کیخلاف توہین عدالت کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور 26 مارچ کو ان پر دوبارہ فردِ جرم عائد کی جائے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔