Tag: Corona epidemic

  • لاک ڈاؤن میں برطانوی خواتین کا ایک اور ہنر سامنے آگیا

    لاک ڈاؤن میں برطانوی خواتین کا ایک اور ہنر سامنے آگیا

    برطانیہ میں جب کورونا وبا نے پنجے گاڑے اور لاک ڈاؤن نے لوگوں کو گھروں میں مقید کیا تو گھر میں بیٹھی خواتین نے سلائی کڑھائی شروع کردی۔

    سلائی  کڑھائی اور خواتین کا نام ذہن میں آتے ہی مشرقی خواتین ذہن میں آتی ہیں جو نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ گھروں میں بھی اپنا ہنر آزماتی ہیں اکثر خواتین خاندان میں مالی معاونت کیلیے یہ کام کرتی ہیں تو کئی خواتین کو اپنے ہاتھ کے سلے ہوئے کپڑے پہننا ہی اچھے لگتے ہیں۔

    لیکن ہم بات کریں یورپی اور مغربی ممالک کی تو وہاں  گھروں میں کپڑوں کی سلائی کا  رجحان نہ ہونے کے برابر ہے لیکن کورونا وبا نے جب لوگوں کو گھروں میں قید کیا تو برطانوی خواتین نے  اپنی مصروفیت سلائی کڑھائی جیسے کام میں ڈھونڈ لی۔

    کئی برطانوی خواتین بالخصوص نوعمر لڑکیاں جو ریڈی میڈ کپڑوں کی دلداہ تھیں جب سلائی مشین پر بیٹھیں تو اپنے ہاتھ سے سلے کپڑوں کا ایسا چسکا لگا کہ انہوں نے ریڈی میڈ کپڑوں کی خریداری ہی ترک کردی۔

    ایسی ہی ایک طالبہ لیا بیکر ہے جس نے لاک ڈاؤن کے فارغ وقت میں بوریت دور کرنے کیلیے چھوٹے بیگ بنانا شروع کیے جس کے بعد آہستہ آہستہ کپڑوں کی سلائی شروع کردی۔

    اس حوالے سے لیا نے بتایا کہ جب سلائی شروع کی تو مجھے اچھا لگا کیونکہ میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اب پہننے کے لیے تیار کپڑے نہیں خریدوں کیونکہ میں نت نئے فیشن کو سپورٹ نہیں کرتی اور میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ مجھے کپڑے اچھی طرح فٹ آئیں۔

    دوسری جانب برطانوی خواتین میں گھروں میں سلائی کے بڑھتے رجحان پر ڈیزائنر تارا ویگو نے کہا کہ سلائی کڑھائی کو پہلے پرانا اور محض وقت گزارنے کا مشغلہ سمجھا جاتا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی نے بہت سے لوگوں کیلیے اسے کرنا ممکن بنا دیا ہے۔

    تارا ویگو نے کہا کہ سوشل میڈیا کے دور میں خواتین گھر میں بنائے گئے کپڑوں کے ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن شیئر کرتی ہیں جو گھر بیٹھے سلائی کڑھائی کے بڑھتے ٹرینڈ کی عکاسی کرتا ہے۔

  • کرونا وبا کے خلاف ایک اور بڑی کامیابی مل گئی

    کرونا وبا کے خلاف ایک اور بڑی کامیابی مل گئی

    کرونا وبا کے خلاف ایک اور پیش رفت، سائنسدانوں نے کووڈ اور اس کی اقسام کے خلاف نئی اینٹی باڈی شناخت کرلی۔

    کرونا وبا کے آغاز سے ہی طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل تحقیق جاری ہے، ان تحقیقات کے حوصلہ افزا نتائج آئے روز خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں، اب طبی ماہرین ایک ایسی اینٹی باڈی کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے جو کرونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام سے ہونے والی بیماری کی شدت کو محدود رکھ سکتی ہے۔

    امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی اور نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کے ماہرین نے اس اینٹی باڈی کو شناخت کیا اور اس کی آزمائش جانوروں پر کی اور اب اس تحقیق کے نتائج جاری کئے۔

    محققین پُر امید ہے کہ اینٹی باڈی کے باعث موجودہ وبا کے دوران اس بیماری کا علاج ہوسکتا ہے اور یہ مستقبل کی وباؤں کے لیے بھی کارآمد ہوسکے گی۔

    یہ بھی پڑھیں: کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    تحقیقی ٹیم نے یہ اینٹی باڈی دو ایسے مریضوں کے خون کے تجزیے کے دوران شناخت کی تھی جن میں سے ایک 2000 کی دہائی میں سارس کوو 1 وائرس سے متاثر ہوا تھا اور دوسرا اب کووڈ 19 کا شکار ہوا۔

    ان دونوں مریضوں میں موجود 17 سو اینٹی باڈیز میں سے محققین نے 50 اینٹی باڈیز کو دریافت کیا جو سارس کوو 1 اور سارس کوو 2 وائرسز کو جکڑ سکتی ہیں۔

    مزید تجزیے سے دریافت ہوا کہ ان سب میں سے ایک اینٹی باڈی انسانوں میں پائے جانے والے کرونا وائرسز کے ساتھ ساتھ جانوروں میں موجود متعدد کرونا وائرسز کو جکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    محققین نے بتایا کہ یہ اینٹی باڈی کورونا وائرس کو ایسے مقام پر جکڑتی ہے جو متعدد میوٹیشنز اور اقسام کی گزرگاہ ہے۔

    جانوروں پر اس اینٹی باڈی پر آزمائش کے دوران دیکھا گیا کہ یہ مؤثر طریقے سے بیماری کو بلاک کرسکتی ہے یا بیماری کے اثر کو کم کر سکتی ہے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ یہ اینٹی باڈی دونوں ایسا کرسکتی ہے، یعنی جب جانوروں کو بیمار ہونے والے یہ اینٹی باڈی دی گئی تو اس سے انہیں کووڈ کی مختلف اقسام سے تحفظ ملا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس دریافت سے یونیورسل ویکسین کی تیاری میں مدد مل سکے گی، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسین میں شائع ہوئے۔

  • کرونا کی ‘بوسٹر خوراک’ سے متعلق وہ حقائق جو آپ نہیں جانتے

    کرونا کی ‘بوسٹر خوراک’ سے متعلق وہ حقائق جو آپ نہیں جانتے

    امریکا، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو کرونا وبا سے بچانے کے لئے ‘ بوسٹر خوراک’ دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس عمل پر کڑی تنقید کی ہے۔

    فائزر بائیو ٹیک امریکا میں پہلی ویکسین بن گئی ہے، جسے بوسٹر رول آوٹ کے لئے ہنگامی منظوری ملی ہے، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بوسٹر شاٹس کیوں ضروری ہے اور کون سے افراد اس کے اہل ہیں؟، ان سوالات کے جوابات کچھ اس طرح پیش کئے گئے ہیں۔

    بوسٹر شاٹ کے لیے کون اہل ہے؟

    امریکا میں فائرز کو بطور بوسٹر خوراک کی منظوری سولہ سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لئے مانگی گئی تھی، مگر امریکی حکام نے صرف 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لئے اس کی منظوری دی، حکام کا کہنا ہے کہ اس عمر کے افراد کو کرونا سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

    حکام کے مطابق اٹھارہ سال سے لیکر 64 سال کے عمر کے افراد کو اس وائرس سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے باعث ان میں کرونا کا امکان زیادہ ہے۔

    فائزر حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام اپنے اگلے قدم کے طور پر تمام امریکیوں کو بوسٹر ڈوز لگانے کی سفارش کرینگے۔

    بوسٹر شاٹ کب دیا جائے؟

    واچ ڈاگ یوایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے ) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تیسرا شاٹ کم از کم چھ ماہ بعد دیا جانا چاہیے جب ایک فرد کو دو خوراکوں دی جاچکی ہوں۔

    بوسٹر ویکسین کیوں ضروری ہے؟

    فائزر کے مطابق اب جو بوسٹر شاٹ منظور کیا گیا ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے بنیادی ویکسینیشن کرانے کے بعد کرونا سے کافی تحفظ حاصل کیا، لیکن مدافعت کے ختم ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ان کی حفاظت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

    بوسٹر ڈوز سے حفاظت کیسے حاصل ہوگی؟

    حکام کا کہنا ہے کہ فائزر ویکسین کے تیسرے شاٹ میں فارمولے اور خوراک کی طاقت ایک جیسی ہوگی یہ ان افراد کے لئے ہوگی جو اپنی دو خوراکیں مکمل کرچکے ہیں۔

    دوسری جانب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بوسٹر شاٹس متعارف کرانے کے اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وبائی مرض کے خاتمے کے لیے وقت کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں جتنی جلدی ممکن ہو لوگوں کو ویکسین فراہم کی جائے کیونکہ غریب ممالک اب بھی اپنی بیشتر آبادی کو پہلا شاٹ دینے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

  • کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے سندھ حکومت کا اہم فیصلہ

    کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے سندھ حکومت کا اہم فیصلہ

    کراچی: صوبائی حکومت نے کرونا کے بڑھتے کیسز کے باعث اندورن ملک سے سندھ آنے والے مسافروں پر کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادرشاہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں سے سندھ آنے والے مسافروں کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ دوران سفر اپنے کرونا سرٹیفیکٹ ساتھ رکھیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں مسافر کرونا ویکسی نیشن کےساتھ ہی سفر کرسکتےہیں۔

    اویس قادرشاہ نے ڈرائیورز،کنڈیکٹرز کو بھی کرونا سرٹیفکیٹ ساتھ رکھنےکی ہدایت کرتے ہوئے شہریوں اور ٹرانسپورٹرز سےدرخواست کی ہے کہ فوری طور پر کرونا ویکسین کرائیں،اس سلسلے میں سندھ کے تمام ریجنل ٹرانسپورٹ سیکریٹریزکو احکامات جاری کردیئےگئے۔

    وزیرٹرانسپورٹ سندھ کی جانب سے جاری بیان میں سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ بس مالکان کرونا سرٹیفکیٹ کےبغیر مسافروں کی ٹکٹس بک نہ کریں، اویس قادر شاہ کا کہنا تھا کہ شہریوں کےتعاون سےہی ہم کرونا کی وبا کےپھیلاؤ کو روک سکتےہیں۔

    گذشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کرونا وائرس کی صورتحال پر بیان میں کہا کہ آج کرونا وائرس کے باعث مزید 14 مریض انتقال کرگئے، جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوراں 920 نئے کیسز سامنے آئے۔

    وزیراعلیٰ نے کہا کہ کرونا کے باعث انتقال کرنے والوں کی مجموعی تعداد 5566 ہوگئی ہے، اس وقت 22359 مریض زیرعلاج ہیں اور 21590 مریض گھروں اور 65 مریض آئسولیشن سینٹرز پر زیرعلاج ہیں۔

    مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ مختلف اسپتالوں میں 704مریض زیرعلاج ہیں اور کرونا سے متاثرہ 648 مریضوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے
    ، اس وقت کورونا کے 55 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

  • کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کراچی : ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں،  محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے دوران کورونا متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے، ویکسین لگوانے سے بچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا, ترجیحی بنیادوں پر  ویکسین لگائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کے زیراہتما م آگہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ، جس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے انفیکشن ڈیزیز کی پروفیسر اسما نسیم ، سول اسپتال کراچی گائنی وارڈ کی پروفیسر ڈاکٹر نازلی حسین اور پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر ڈائریکٹر پروفیسر سارا قاضی نے شرکت کی۔

    ماہرین صحت نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام آراگ آڈیٹوریم میں "کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے” کے عنوان سے آگہی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کورونا سے متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات کی مصدقہ معلومات ابھی دستیاب نہیں تاہم محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے مطابق کورو ناکی پیچیدگیوں کے باعث حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہونے کے بجائے حاملہ خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر کورونا ویکسین لگائی جائے، اس سےجنم لینے والےبچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جب کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے بچوں کے جسم میں دودھ کے ذریعے اینٹی باڈی منتقل ہو جائیں گے۔

    آگہی پروگرام میں ماہرین کے پینل نے شرکاء کے سوالوں کے جواب بھی دیئے، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران خواتین کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں نمونیہ اور انفلوئنزا سمیت مختلف بیماریاں حملہ آور ہو سکتی ہیں، کورونا سے پہلے بھی خواتین کو انفلوئنزا سمیت دیگر ویکسین لگائی جاتی تھیں ۔

    آگہی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اسماء نسیم نے کہا کہ کورونا پاکستان کی حاملہ خواتین میں بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے، حمل کے دوران خواتین مختلف قسم کے خطرات میں گھری ہوتی ہیں، اس لئے لازم ہے کہ ویکسین لگوائی جائے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ہیں، اس موقع پر انہوں نے پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین کے بنانے کے طریقے کار اس کے مثبت اثرات اور تاثیر کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کورونا سے پہلے دنیا میں آر این اے ویکسین نہیں بنائی گئی، کورونا کے دوران دنیا میں پہلی مرتبہ آر این اے ویکسین بنائی گئی ہے، ابیولا کے وقت تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آر این اے ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ ان ایکٹیویٹڈ وائرس( یعنی وائرس کو غیر فعال کرنے) کےطریقے سے ویکسین بنانے کے لیے طویل تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، اس لئے کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہوئے بغیرکورونا کی ویکسین لگوائی جائے۔

    انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے تمام ویکسین کے مؤثر ہونے کی شرح بھی بتائی ہے، اکثر ویکسین 50 فیصد سے زیادہ مؤثر ہیں بالفرض کوئی ویکسین پچاس فیصد بھی موثر ہے تو وہ لگوائی جاسکتی ہے کورونا سے کم از کم پچاس فیصد تو تحفظ کرے گی ایسی صورت میں جب حاملہ خواتین رسک پر ہو ں تو مزید رسک نہ لیا جائے۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نازلی حسین نے کہا کہ حاملہ خواتین میں کورونا کی شرح اموات کے حوالے سے پاکستان میں مصدقہ اعداد و شمار تودستیاب نہیں لیکن ایران میں اس موضوع پر تحقیق ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں واضح ہوا ہے کہ کورونا سے متاثرہ خواتین میں قبل از وقت بچوں کی پیدائش، ماں کے پیٹ کے اندر بچوں کی موت اور آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ گئی ہے۔

    نازلی حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں محدود پیمانے پر جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق زچگی کے دوران متاثرہ خواتین میں کورونا کی پیچیدگیوں کے باعث موت کی شرح آٹھ فیصد ہیں اسے روکنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گائنی وارڈز میں مریض کے ساتھ ڈاکٹر بھی سب سے زیادہ خطرے میں ہیں کیونکہ ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے ، پی سی آر کی رپورٹ کا انتظار نہیں کیا جاسکتا ، ڈاکٹر کو فوری اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں ڈاکٹرز کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کورونا ویکسین لگوانے کے باوجود حفاظتی لباس اور احتیاط لازمی ہے۔

    پروفیسر سارہ قاضی کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے آ گہی پروگرام کا مقصد لوگوں زندگی کے تحفظ کا شعور پیدا کرنا ہے۔

  • کرونا وبا: سفر کے لئے محفوظ ممالک کی فہرست جاری

    کرونا وبا: سفر کے لئے محفوظ ممالک کی فہرست جاری

    ریاض: معروف ٹریول ویب سائٹ نے عالمی وبا کے دوران دنیا کے محفوظ ترین ملکوں کی فہرست جاری کی ہے، فہرست میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب بھی شامل ہے۔

    ویگو ٹریول ویب سائٹ کے مطابق کرونا وبائی امراض کے دوران سفر کے لیے عالمی محفوظ مقامات میں آسٹریلیا پہلے نمبر پر ہے، دوسرے پر نیوزی لینڈ، تیسرے نمبر پر سنگاپور، چوتھے پر زیمبیا، پانچویں پر کیوبا اور یورپی یونین کے سفری معیار پر مبنی درجہ بندی میں سعودی عرب چھٹے نمبر ہے۔

    درجہ بندی کا طریقہ کار

    عکاظ اخبار کے مطابق درجہ بندی کا طریقہ کار تین مراحل پر مشتمل تھا۔

    پہلا طریقہ کار: وبائی امراض کو جانچنے کی فوری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان پر قابو پانے کے اقدامات اور اس دوران ملکی استحکام کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لانا۔دوسرا طریقہ کار : صحت کی سہولیات جس میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز، مریضوں کی دیکھ بھال، مناسب طبی عملہ اور مریضوں کے لیے بستروں کی گنجائش کی دستیابی شامل تھی۔

    تیسرا طریقہ کار:  کرونا وائرس کے پھیلنے کے دوران لوگوں کی دیکھ بھال، قرنطینہ سینٹرز بنانے اور زیادہ کیسزز کے دوران ان کی مانیٹرنگ کرنے کی اہلیت کا اعتبار۔ویگو کے مطابق اس بات کا اندازہ ان ملکوں میں کرونا وائرس کے لیے کئے جانے والے ٹیسٹ اور ان میں سے مثبت آنے والے نتائج کی بنیاد پر کیا گیا، جس میں آسٹریلیا سرفہرست تھا جہاں دس لاکھ افراد میں سے 1.933 فیصد کے ٹیسٹ مثبت آئے، اسی طرح نیوزی لینڈ کے دس لاکھ میں سے صرف ایک ہزار 865 ٹیسٹ مثبت آئے۔

    سعودی عرب نے کررونا وائرس کے لیے 15 لاکھ سے زیادہ لیبارٹری ٹیسٹ کرائے ہیں ، جن میں سے 0.6 فیصد ٹیسٹ مثبت آئے۔

  • کرونا وبا: ماہر ڈاکٹر نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    کرونا وبا: ماہر ڈاکٹر نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    واشنگٹن: متعدی امراض میں امریکا کے سب سے بڑے ماہر خیال کئے جانے والے ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کرونا وبا سے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے الرجی اور متعدی امراض کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فاوچی نے کہا کہ امریکا میں کرونا کے باعث بہت مشکل صورت حال ہے اور یہ کافی پریشان کن ہے۔sdfڈاکٹر فاوچی نے کہا کہ چار ماہ قبل کانگریس کے سامنے کہا تھا کہ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو ایک دن میں ایک لاکھ انفیکشن تک پہنچ سکتے ہیں، لوگوں کا خیال تھا کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں، آج حقیقت سامنے آرہی ہے اب دیکھو کیا ہو رہا ہے، یہ ہمارے بُری خبر ہے، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے یہ باتیں کئی بار عوامی سطح پر کہی ، جس کا مطلب لوگوں کو ڈرانے کے لئے نہیں، بلکہ حقیقت کا جائزہ لینے کے لیے کہ صحیح صورتحال کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کورونا ویکسین : ڈونلڈ ٹرمپ نے فائزر پر الزامات عائد کردیئے

    ڈاکٹر فاوچی کے مطابق امریکا میں دس ملین کرونا متاثرین ہیں، تقریبا ڈھائی لاکھ افراد ہلاک اور 60 ہزار ہسپتال میں داخل ہیں۔

    ڈاکٹر فاؤچی کا مزید کہنا تھا کہ میں مانتا ہوں کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحت عامہ کے اقدامات، ملک میں لاک ڈاؤن کے بجائے ماسک پہننا، سماجی فاصلہ ، بھیڑ والی جگہوں پر اجتماع سے گریز اور گھر کے اندر رہ کر ہاتھ دھونا، یہ آسان عمل ہے اور یہی وبا کا رخ موڑ سکتا ہے اور ہمیں بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ ڈاکٹر فاؤچی وائٹ ہاؤس میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن ہیں۔