Tag: Corona patient

  • کیا صحتیاب کورونا مریض خود کو خطرے سے محفوظ سمجھ سکتا ہے؟

    کیا صحتیاب کورونا مریض خود کو خطرے سے محفوظ سمجھ سکتا ہے؟

    ریاض : سعودی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کورونا سے شفایاب ہونے والے اکے دوبارہ کورونا میں مبتلا ہونے کے حوالے سے طبی بنیادوں پر تحقیق جاری ہے۔

    اس حوالے سے تاحال حتمی بات کہنا قبل ازوقت ہے، کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کے جسم میں اس وائرس کے خلاف کتنی مدت تک کے لیے قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اس کا ابھی حتمی تعین نہیں کیا جا سکا۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک شخص کی جانب سے وزارت صحت کے ٹوئٹر پر دریافت کیا گیا کہ کورونا سے شفایاب ہونے والے کے جسم میں اس وائرس کے خلاف پیدا ہونے والی قوت مدافعت کتنےعرصے تک رہتی ہے آیا صحت یاب ہونے والا دوبارہ اس وائرس کا شکار ہو سکتا ہے؟

    سوال کا جواب دیتے ہوئے وزارت صحت کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے تمام افراد جو کورونا وائرس سے شفایاب ہوچکے ہیں ان کے جسم میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت کتنی مدت تک کے لیے برقرار رہتی ہے تاہم وائرس کے خلاف جسمانی قوت مدافعت کے حوالے سے طبی تحقیق جاری ہے۔

    کورونا ویکسین کے حوالے سے وزارت صحت کا مزید کہناتھا کہ مملکت میں لگائی جانے والی کورونا ویکسین مکمل طورپرمحفوظ ہیں اور یہ وائرس کےحملے کی شدت کو کافی حد تک کم کرتی ہیں، ویکسین لگوانے والے کے جسم میں اس مرض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔

  • کورونا سے صحتیاب مریضوں کو نئی مشکل کا سامنا، تحقیق میں انکشاف

    کورونا سے صحتیاب مریضوں کو نئی مشکل کا سامنا، تحقیق میں انکشاف

    نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 نظام تنفس کو متاثر کرتی ہے جس کے دوران اکثر مریضوں کو خشک کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کے ساتھ بخار کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسپتال میں علاج یا قرنطینہ میں رہنے کے دوران ہونے والے علاج کے بعد بھی متاثرہ مریض کو آنے والے وقت میں مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    اس حوالے سے بیلجیئم میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کوویڈ کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کوویڈ سے متاثر افراد کے دل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ اس صورت میں بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ی ہخطرہ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب جسمانی سرگرمیوں کے باعث ان کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا بیماری کے ایک سال بعد بھی ہوتا ہو۔

    یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

    یونیورسٹی ہاسپٹل برسلز کی تحقیق میں میڈیکل اسکینز سے دریافت ہوا کہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے کووڈ مریضوں میں دل کی شریانوں سے جڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، چاہے ان میں اس کی کوئی تاریخ نہ بھی ہو۔

    تحقیق میںاس بات کی تصدیق کی گئی ہےکہ لانگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے اور صحت یاب ہونے والے  افراد کے دل کو نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کیوں ہوتا ہے اور کیوں دل کی کارکردگی یا افعال میں کمی آتی ہے۔

    اس تحقیق میں محققین نے کووڈ کے 66 ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی جن میں دل یا پھیپھڑوں کے امراض کی تاریخ نہیں ہوئی تھی، یہ سب مریض مارچ اور اپریل 2020 میں کووڈ کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہے تھے۔

    ان مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال اور طویل المعیاد علامات کا جائزہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد ایک خصوصی ایکسرے آلے کے ذریعے لیا گیا۔

    ان مریضوں کی دل کی صحت کی جانچ پڑتال کے لیے الٹرا ساؤنڈز اور ایک زیادہ جدید امیجنگ تیکنیک کی مدد لی گئی، ایسے مریض جن کو بیماری کے ایک سال بعد بھی سانس کے مسائل کا سامنا تھا، ان کے اسکینز میں دل کو پہنچنے والے نقصان کا علم ہوا۔

    محققین نے بتایا ہے کہ مذکورہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کوویڈ کے ایک تہائی سے زیادہ ایسے مریض جن میں دل یا پھیپھڑوں کے امراض کی تاریخ نہیں تھی، ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کارڈک الٹرا ساؤنڈ میں ان افراد کے دل کے افعال گہرائی میں جاکر جائزہ لینے پر ہم نے نمایاں نقصان کا مشاہدہ کیا، جس سے سانس کے مسائل کے تسلسل کی ممکنہ وضاحت ہوتی ہے۔

    ایک تخمینے کے مطابق کووڈ کو شکست دینے والے 10 سے 30 فیصد مریضوں کو بیماری کے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق نئی امیجنگ تیکنیکس سے لانگ کووڈ کے مریضوں میں دل کے افعال میں خرابیوں کی جلد شناخت کرنے مین مدد مل سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی مختلف اقسام اور ویکسینیشن کے اثرات پر مزید تحقیق سے ہمارے نتائج کو جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ مریضوں کو زیادہ بہتر علاج فراہم کیا جاسکے۔ اس تحقیق کے نتائج یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کے یورو ایکو 2021 اجلاس میں پیش کیے گئے۔

  • کراچی ایئر پورٹ کے قرنطینہ سے کورونا زدہ مسافر فرار، انتظامیہ پریشان

    کراچی ایئر پورٹ کے قرنطینہ سے کورونا زدہ مسافر فرار، انتظامیہ پریشان

    کراچی : سعودی عرب سے پاکستان آنے والا کورونا زدہ مسافر کراچی پہنچنے پر قرنطینہ سے فرار ہوگیا، خبر ملتے ہی انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب سے کراچی پہنچنے والا کورونا متاثرہ مسافر ائیرپورٹ پر قرنطینہ مرکز سے فرار ہوگیا۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ سوات کا رہائشی متاثرہ شخص نیاز علی سعودی ائیرلائن کی پرواز ایس وی 708کے ذریعے ریاض سے کراچی پہنچا تھا۔

    ذرائع کے مطابق سعودی عرب سے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آنے والی ایک پرواز کے مسافر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، کورونا مثبت آنے والے مسافر کو ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوٹل میں بنائے گئے قرنطینہ میں منتقل کیا گیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق مسافر نیاز علی کا ائیرپورٹ پر ہی ریپڈ ٹیسٹ کیا گیا تو کورونا مثبت آیا، ایف آئی اے کی مبینہ غفلت کے سبب مسافر ائیرپورٹ کے قرنطینہ ایریا سے فرار ہوا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی مدد لی گئی لیکن مسافر کو ڈھونڈا نہ جاسکا۔

  • کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اس کے باوجود وہ بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں معمولی علامات نظر آتی ہیں۔

    ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس صورتحال کی وجہ جاننے کیلئے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور تحقیق کے بعد اس کا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب پونے دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر  اس کے حوالے سے بہت کچھ ایسا ہے جس کا علم اب تک نہیں ہوسکا۔

    اس وبائی بیماری کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ کچھ افراد اس سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور کچھ میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

    یعنی مریضوں میں مدافعتی ردعمل مختلف ہوتا ہے جس کا نتیجہ بھی مختلف شکلوں میں نکلتا ہے جیسے کچھ میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ متعدد ہلاک ہوجاتے ہیں مگر اب طبی ماہرین نے اس کا ممکنہ جواب دیا ہے۔

    امریکا کے انسٹیٹوٹ فار سسٹمز بائیولوجی کی تحقیق میں بیماری کے ردعمل میں مدافعتی خلیات کو ریگولیٹ کرنے والی میٹابولک تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ ہمیں کووڈ 19 کے حوالے سے متعدد اقسام کے مدافعتی ردعمل کا عم تھا مگر اس حیاتیاتی عمل کو اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد میٹابولک راستے کے ان ہزاروں حیاتیاتی مارکرز کا تجزیہ کیا جو مدافعتی نظام  پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مدافعتی۔ میٹابولک تبدیلیوں کے کچھ سراغ دریافت کیے جو ممکنہ طور پر بیماری کی سنگین شدت کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ مدافعتی افعال کے ان مشاہدات سے کووڈ 19 کے خلاف جسم کے دیگر ردعمل کو جاننے میں ملے گی۔ محققین نے بتایا کہ اس بارے میں سمجھنے سے ممکنہ طور پر بہتر علاج کی دریافت کا راستہ مل سکے گا جو مسائل کا باعث بننے والی مدافعتی یا میٹابولک تبدیلیوں کو ہدف بناسکے گا۔

    اس تحقیق میں خون کے 374 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو مریضوں میں کووڈ کی تشخیص کے پہلے کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے۔ پھر ان نمونوں میں پلازما اور سنگل مدافعتی خلیات کا تجزیہ کیا گیا، اس تجزیے میں 1387 جینز میٹابولک کے راستے اور 1050 پازما میٹابولائٹس سے منسلک تھے۔

    پلازما کے نمونوں میں ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت میں اضافہ میٹابولک تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے سنگل خلیے کے سیکونسنگ کے ذریعے یہ بھی دریافت کیا کہ مدافعتی خیات کی ہر اہم قسم کا اپنا مخصوص میٹابولک انداز ہوتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ میٹابولک ری پروگرامنگ مدافعتی خلیات کی اقسام سے مخصوص ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کی پیچیدہ میٹابولک ری پروگرامنگ پلازما میٹابولوم سے منسلک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہر مریض میں بیمای کی شدت اور موت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقی کام سے کووڈ کے خلاف زیادہ مؤثر علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی، مریضوں سے حاصل کیے گئے متعدد ڈیٹا سیٹس سے بیماری کے متعدد مختلف پہلوؤں کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچ بائیو ٹیکنالوجی میں شائع ہوئے۔

  • لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے والے کورونا مریض کوعدالت نے سزا سنا دی

    لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے والے کورونا مریض کوعدالت نے سزا سنا دی

    ہنوئے : دنیا بھر میں کورونا وائرس پوری طرح پھیل چکا ہے جس کے نتیجے میں مختلف ممالک کی معیشت اور عوامی صحت کے معاملات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

    وباء کو بڑھنے سے روکنے کیلئے ویتنام کی عدالت نے پھیلاؤ کے ذمہ داران کو سخت سزا دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک شخص کو 5 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ویتنام کے شہری 28 سالہ لی وان ٹری نے گھر میں قرنطینہ کرنے کے قانون کی خلاف ورزی کی جس کے بعد اسے لوگوں میں خطرناک بیماریاں پھیلانے کے جرم میں سزا سنائی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق لی وان ٹری نے ملک میں کورونا وائرس کے گڑھ ہو چی من سٹی سے اپنے آبائی صوبےکاماؤ گیا، جس کی وجہ سے وہ کورونا وائرس مزید پھیلنے کی وجہ بنا۔

    کاماؤ میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ہو چی من سٹی کے مقابلے میں کم ہے اور صوبے میں 21 دن تک گھر میں قرنطینہ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے تاہم مذکورہ شخص نے اس قانون کی خلاف ورزی کی۔ لی وان ٹری میں کورونا وائرس کی تصدیق 7 جولائی کو ہوئی تھی۔

    عدالتی رپورٹ کے مطابق لی وان ٹری نے گھر میں قرنطینہ کرنے کے طبی قانون کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے کئی لوگ کورونا وائرس کا شکار ہوئے جس کے باعث 7 اگست2021 کو ایک شخص کا انتقال بھی ہوا۔

    سرکاری میڈیا کے مطابق لی وان ٹری کی وجہ سے 8 لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ واضح رہے کہ ویتنام میں کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث دارالحکومت ہنوئے اور ہوچی من سٹی میں گذشتہ کئی مہینوں سے سخت لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے۔

  • کورونا ویکسینیشن کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کتنی فائدہ مند ہے؟ جانیے

    کورونا ویکسینیشن کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کتنی فائدہ مند ہے؟ جانیے

    لندن : برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے والے افراد میں دیگر کے مقابلے میں کوویڈ سے متاثر ہونے یا تشخیص کا امکان3گنا کم ہوتا ہے۔

    امپرئیل کالج کے زیرتحت ہونے والی ری ایکٹ 1 تحقیق کے نتائج 24 جون سے 12 جولائی کے درمیان انگلینڈ میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد کے سواب ٹیسٹوں پر مبنی تھے۔ اس عرصے کے دوران 0.63 فیصد افراد کووڈ سے متاثر ہوئے یعنی ہر 158 میں سے ایک فرد اس کا شکار ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ ویکسینیشن مکمل کرانے والے چند افراد کووڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر نتائج سے سابقہ ڈیٹا کی تصدیق ہوتی ہے جن کے مطابق ویکسین سے بیماری کے خلاف مضبوط تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ویکسینیشن کے بعد جن افراد میں کووڈ کی تصدیق ہوئی، ان میں سے اکثر ڈیلٹا قسم کا شکار ہوئے تھے۔

    ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے محققین کا تخمینہ ہے کہ مکمل ویکسینیشن کے بعد لوگوں میں ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ 50 سے 60 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد اگر کوئی کووڈ سے متاثر ہوتا ہے تو اس سے وائرس کا دیگر تک پھیلاؤ کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ کوئی ویکسین 100 فیصد مؤثر نہیں اور بیماری کا خطرہ برقرار رہتا ہے تو ویکسینیشن کے بعد بھی لوگوں کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

    اس سے قبل سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد اگر کووڈ کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہو جائیں تو بھی ان میں بیماری کی معتدل یا سنگین شدت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے بریک تھرو انفیکشنز (ویکسینیشن کے بعد کووڈ سے متاثر ہونے والے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح) کی صورت میں کووڈ سے منسلک ورم کا خطرہ کم ہوتا ہے، علامات کم نظر آتی ہیں بلکہ بغیر علامات والی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور کلینکل نتائج بہتر رہتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے 218 افراد کا تجزیہ کیا گیا تھا جو ڈیلٹا قسم سے بیمار ہوئے تھے اور انہیں 5 ہسپتالوں یا طبی مراکز میں داخل کرایا گیا۔

    ان میں سے 84 افراد کو کووڈ سے بچاؤ کے لیے ایم آر این اے ویکسینز استعمال کرائی گئی تھی اور 71 کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی۔

    130مریضوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی جبکہ باقی 4 کو دیگر ویکسینز استعمال کرائی گئی تھیں۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے اور ویکسینیشن کے مرحلے سے گزرنے والے ڈیلٹا کے مریضوں میں ابتدا میں وائرل لوڈ کی شرح ملتی جلتی تھی۔

    تاہم سنگاپور کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسنیشن والے مریضوں میں وائرل لوڈ بہت تیزی سے کلیئر ہوتا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسنیشن سے مریضوں سے دیگر افراد میں وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کورونا سے صحتیاب مریض کی آنکھیں خطرے کو کیسے ظاہر کرتی ہیں؟

    کورونا سے صحتیاب مریض کی آنکھیں خطرے کو کیسے ظاہر کرتی ہیں؟

    کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے متعدد مریضوں میں صحتیابی کے بعد کچھ ایسی علامات پائی جاتی ہیں کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی وائرس سے متاثر ہے۔

    کوویڈ19کے متعدد مریضوں کو بیماری سے صحتیابی کے بعد بھی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے، ایسے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    ترکی میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ لانگ کوویڈ کے شواہد ممکنہ طور پر صحتیاب مریض کی آنکھوں میں موجود ہوسکتے ہیں۔

    نیکمیٹن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آنکھوں کے قرنیے میں اعصاب کی کمزوری اور مخصوص مدافعتی خلیات کی تعداد بڑھنے سے لانگ کوویڈ کی شناخت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    تحقیق میں 40 ایسے کوویڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو بیمار ہونے کے بعد چکھنے یا سونگھنے کی حسوں سے محرومی، سر چکرانے، اعضا سن ہونے یا اعصابی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہوا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مریضوں میں لانگ کووڈ کو آنکھوں کے مسائل سے شناخت کرسکتے ہیں اور اس سے ایسی تھراپیز تک رسائی کا ذریعہ کھل جائے گا جو اعصاب کی مرمت میں مددگار ثابت ہوگی۔

    ایک تخمینے کے مطابق کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے، جو بیماری کو شکست دینے کے بعد 4 ہفتوں سے زیادہ تک مختلف علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اعصابی کو پہنچنے والا نقصان ممکنہ طور پر لانگ کووڈ میں کردار ادا کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں اسی خیال کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ہائی ریزولوشن امیجنگ لیزر تیکنیک کی مدد لی گئی اور آنکھوں کے قرینے میں اعصاب کو پہچنے والے نقصان اور مدافعتی خلیات کی تعداد کا جائزہ لیا گیا۔ یہ خلیات مدافعتی نظام کے اہم ترین ردعمل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ کووڈ سے جسم کے متعدد حصے متاثر ہوسکتے ہیں، تو یہ حیران کن نہیں کہ اس سے آنکھوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس تیکنیک کے ذریعے آنکھوں کا معائنہ کرنا ان تفصیلات کے ایک ٹکڑے طور پر استعمال کیا جاسکے گا جو لوگوں میں لانگ کووڈ کی تشخیص میں معاون ہوں گی۔ تاہم فی الحال ان نتائج سے حتمی نتیجہ نکالا نہیں جاسکتا۔

    محققین کے مطابق ہماری تیکنیک صرف لانگ کوویڈ کے لیے مخصوص نہیں چونکہ یہ اعصاب کو نقصان کو پکڑا جاتا ہے تو یہ متعدد امراض کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے تاہم اگر اعصاب کو دیگر وجوہات کے باعث نقصان نہیں پہنچا تو ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لانگ کووڈ کا نتیجہ ہے۔

    اس تیکنیک کو ذیابیطس سے بینائی میں آنے والی پیچیدگیوں کی تشخیص کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

    یہ نئی تحقیق چند پہلوؤں سے محدود تھی، اس میں شامل افراد کی تعداد بہت کم تھی جبکہ اعصابی مسائل کی دت کے تعین کے لیے مختلف پیمانوں کی بجائے سوالنامے سے مد لی گئی تھی، محققین کے مطابق اس حوالے سے زیادہ تعداد میں مریضوں پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

    تحقیق میں شامل مریض کو کووڈ کو شکست دیئے ایک سے 6 ماہ ہوچکے تھے اور انہوں نے لانگ کووڈ کی علامات کا اظہار 28 سوالوں پر مشتمل فارم میں کیا۔ ان 40 افراد میں سے 22 کو 4 سے 12 ہفتے تک اعصابی علامات کا سامنا ہوا۔

    اعصابی علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے آنکھوں کے معائنے میں اعصاب کے نقصان کو دریافت کیا گیا جبکہ مخصوص مدافعتی خلیات کی تعداد میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا۔

    وہ افراد جن کو اعصابی علامات کا سامنا نہیں تھا ان میں بھی کسی حد تک آنکھوں کے اعصاب کو زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا مگر مدافعتی خلیات کی تعداد صحت مندد افراد کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

  • کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد بڑی مشکل میں پڑ سکتے ہیں، محققین کا کہنا ہے کہ متعدد مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    اس سے قبل اگست 2020 میں امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔

    اب طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کوویڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ایک ماہر نے خبردار کیا کہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔

    ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔

    کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک ہسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا۔

    ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر ہسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا۔

    ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔

    محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔

    کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حواے سے زیادہ بڑی تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کروڑوں افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، جس سے ذیابیطس کے شکار آبادی میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔

    یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ کووڈ ذیابیطس کا باعث کیوں بن سکتا ہے، مگر ایک ممکنہ وضاحت لبلبے میں ایس 2 ریسیپٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہونا ہے، جس کو کورونا وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعتمال کرتا ہے۔

    اسی طرح کورونا وائرس کے مریضوں میں مدافعتی نظام کے باعث متحرک ہونے والا ورم بھی لبلبلے کو نقصان پہنچا کستا ہے جس سے اس کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

  • کورونا متاثرہ کتنے مریض اسپتالوں میں داخل ہیں، این آئی ایچ نے رپورٹ جاری کردی

    کورونا متاثرہ کتنے مریض اسپتالوں میں داخل ہیں، این آئی ایچ نے رپورٹ جاری کردی

    اسلام آباد : ملک بھر میں کورونا وائرس کے حملے جاری ہیں، اس وقت کوویڈ قرنطینہ مراکز میں 51ہزار سے زائد کورونا مریض زیر علاج ہیں جن میں سے متعدد مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

    اس حوالے سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں51262کورونا مریض قرنطینہ میں ہیں اور2860زیر علاج ہیں۔

    ذرائع کے مطابق سندھ میں کورونا کے33687مریض قرنطینہ مرکز میں ہیں، پنجاب میں کورونا کے9738،کے پی2058مریض قرنطینہ ہیں، اسلام آباد میں کورونا کے2055 اور بلوچستان میں1408مریض قرنطینہ ہیں۔

    اس کے علاوہ آزاد کشمیرمیں کورونا کے1718مریض، گلگت بلتستان598قرنطینہ ہیں، سندھ میں کورونا کے1203مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، پنجاب میں کورونا کے963،کے پی376مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

    اسلام آباد میں173،بلوچستان میں29کورونا کےمریض زیرعلاج ہیں، آزادکشمیر45، گلگت بلتستان میں71مریض مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ ملک بھرمیں کورونا کے زیرعلاج309مریضوں کی حالت بہتر بتائی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے834مریض لو فلو آکسیجن پر اور1450کورونا مریض ہائی فلو آکسیجن پر زیرعلاج ہیں جبکہ ملک بھر میں267کورونا مریض وینٹی لیٹرز  پر زیر علاج ہیں۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب میں وینٹی لیٹر پر140،سندھ میں76مریض زیرعلاج ہیں، اسلام آباد میں وینٹی لیٹر پر31، کے پی19،آزاد کشمیر میں1مریض ہیں جبکہ بلوچستان،گلگت بلتستان میں کوئی کورونا مریض وینٹیلیٹر پرنہیں ہے۔

  • 72سالہ ضعیف شخص نے کورونا کو 43 مرتبہ کیسے شکست دی ؟ ڈاکٹرز حیران

    72سالہ ضعیف شخص نے کورونا کو 43 مرتبہ کیسے شکست دی ؟ ڈاکٹرز حیران

    لندن : دنیا میں کوویڈ 19 سے اب تک سب سے زیادہ عرصے تک متاثر رہنے والے شخص میں 290 دن تک کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا اور وہ بیماری کے باعث 7 بار ہسپتال میں زیرعلاج رہ چکا ہے۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ ڈیو اسمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک 43 بار اس کا کوویڈ ٹیسٹ مثبت آچکا ہے اور ایک بار تو وہ مسلسل5 گھنٹے تک کھانستا رہا تھا۔

    اس کی بیماری کو اب تک طویل ترین متحرک کووڈ کیس قرار دیا جارہا ہے۔ اس عرصے کے دوران ڈیو اسمتھ کا وزن 63 کلو سے زیادہ کم ہوچکا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اتنے زیادہ ٹیسٹ مثبت رہنے کے بعد وہ ہار ماننے اور مرنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کو بھی کہا کہ مجھے جانے دو، میں خلا میں معلق ہوں مگر حال بہت خراب ہے۔

    ڈیو اسمتھ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی اہلیہ نے 5مرتبہ تدفین کے انتظامات پر بھی کام شروع کردیا تھا۔ ان کی اہلیہ لنڈا نے بتایا کہ انہیں بھی لگتا تھا کہ ان کا شوہر کورونا کے باعث ہلاک ہوجائے گا۔

    رپورٹ کے مطابق ڈیو اسمتھ میں بیماری کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ماضی میں خون کے سرطان کی وجہ سے انہیں کیموتھراپی دی گئی تھی۔

    ان کا علاج دوا ساز کمپنی ری جینرون کی تیار کردہ اینٹی وائرل ادویات سے کیا گیا اور اب سائنسدانوں کی جانب سے تحقیق کی جارہی ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ وائرس میں کس طرح میوٹیشنز ہوتی ہیں۔

    اسی اینٹی وائرل کاک ٹیل کے نتیجے میں وہ اب کورونا وائرس بار بار کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    اس سے قبل جون 2021 کے شروع میں ایک اور کیس کی رپورٹ سامنے آئی تھی جو ایچ آئی وی سے متاثر 36 سالہ خاتون کا تھا۔ اس خاتون میں کورونا وائرس 216 دن سے موجود تھا اور اس عرصے میں وائرس میں 30 سے زیادہ میوٹیشنز ہوئیں۔

    ڈیو اسمتھ برطانیہ میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کوویڈ کا شکار ہوئے تھے اور لانگ کوویڈ کے بیشتر مریضوں کے برعکس جن کو علامات کو تو سامنا تھا مگر وائرس جسم سے کلیئر ہوچکا تھا، ڈیو اسمتھ کو جب سے ہی مسلسل بیماری کا سامنا تھا۔