Tag: Corona patients

  • ملک بھر میں کورونا کے کتنے مریض زیرعلاج ہیں؟

    ملک بھر میں کورونا کے کتنے مریض زیرعلاج ہیں؟

    کراچی : ملک بھر میں کورونا وائرس کے زیرعلاج و مریضوں کی تفصیلات اے آر وائی نیوزکو مل گئیں، ملک بھر میں کورونا کے34513 مریض قرنطینہ میں ہیں۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں کورونا کے 22864، کے پی 6027 مریض جبکہ پنجاب میں کورونا کے 4614، بلوچستان 61 مریض قرنطینہ ہیں۔

    اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا کے 470 مریض اور آزاد کشمیر میں کورونا کے327، جی بی میں150 مریض قرنطینہ میں ہیں۔

    ذرائع کے مطابق ملک بھر میں کورونا کے1010 مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، پنجاب میں کورونا کے484،کے پی 228 مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

    سندھ میں کورونا کے177، اسلام آباد91 مریض اسپتالوں میں زیرعلاج جبکہ آزاد کشمیر میں کورونا کے18، گلگت بلتستان7 مریض اور بلوچستان میں کورونا کے5 مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کورونا کے5 مریض اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، ملک بھر میں کورونا کے118 مریض وینٹی لیٹر پر زیرعلاج ہیں۔

    پنجاب میں کورونا کے 85، کے پی میں 14 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں، سندھ میں کورونا کے 13، اسلام آباد میں 6مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان، آزادکشمیر، جی بی میں کوئی کورونا مریض وینٹی لیٹر پر نہیں، ملک بھر میں357 مریض لو فلو، 506 ہائی فلو آکسیجن پر زیرعلاج ہیں۔

  • کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وبا سے شفایاب ہونے والے کئی مریضوں میں ایک نئی کیفیت سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی دماغی حالت مکمل طور پر بہتر نہیں ہوتی۔

    امریکا اور یورپ میں 37 فیصد لانگ کوویڈ کے مریض زیادہ ہیں۔37فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو کورونا سے شفایاب ہونے کے باوجود مہینوں اور سال تک اس کے ضمنی منفی اثرات کے شکار رہتے ہیں۔

    ان علامات میں بھول جانا، دماغ ماؤف ہونا، یادداشت کی کمزوری، مصروفیت کے وقت جلد باز ہوکر بے عمل ہونے کی کیفیات شدت سے سامنے آتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اسے برین فوگ کا نام دیا ہے۔

    دنیا بھر میں کوویڈ19 کے شکار ہونے اور اس سے شفایاب ہونے والے مریض ایک کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں جسے دماغی دھند یا برین فوگ کا نام دیا گیا ہے، اب ایک نئے طریقے سے دماغی دھند کا علاج کیا جاسکتا ہے یا اس کیفیت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اب روچیسٹر میں واقع مایو کلینک سے وابستہ ماہر ڈاکٹر ٹام برگ کوئسٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے دماغی لچک یا نیوروپلاسٹیسٹی کو اس ضمن میں بہت مفید قرار دیا ہے۔ اس عمل میں کئی ایک مشقیں کرواکے دماغی لچک کو بحال کیا جاسکتا ہے جس کے بعض مریضوں پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف البامہ کے سائنسدانوں نے بھی ایک تھراپی پیش کی ہے جسے “شیپنگ” کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں اسی بات پر زور دیا جاتا ہے جس میں دماغ کمزور ہوتا ہے مثلاً لوگ گھریلو امور میں سے کوئی ایک بھول جاتے ہیں۔

    اس طرح ایک کلینک میں رہتے ہوئے ہفتوں اس کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس طرح دماغی سرکٹ اور یادداشت سے وابستہ اعصابی نظام دھیرے دھیرے مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اب تک اس تھراپی کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب فلیش کارڈ ، کمپیوٹر گیمز اور دیگر ٹیکنالوجی سے بھی کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی دماغی دھند کو دور کرنے کے تجربات کئے جارہے ہیں۔

  • پوری دنیا میں کورونا مریضوں کی تعداد 24کروڑ سے تجاوز کرگئی

    پوری دنیا میں کورونا مریضوں کی تعداد 24کروڑ سے تجاوز کرگئی

    بیجنگ : دنیا بھرمیں کوروناوائرس سے شدید متاثرہ ممالک میں مصدقہ کیسز کے حوالے سے جانز ہوپکنز یونیورسٹی کے سسٹمز سائنس وانجینئرنگ مرکز نے تازہ ترین اعداد وشمار جاری کئے ہیں۔

    مذکورہ نتائج27اکتوبر2021 کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح دس بجے کے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں نوول کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 24کروڑ44لاکھ 95ہزار116ہوگئی ہے۔

    مصدقہ نتائج کے مطابق امریکہ 4کروڑ56 لاکھ 9ہزار21مصدقہ کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ بھارت3کروڑ42لاکھ2ہزار202 مصدقہ کیسز کے ساتھ دوسرے اور برازیل 2کروڑ17لاکھ 48ہزار984 مصدقہ کیسز کے ساتھ تیسرےنمبر پر ہے۔

    برطانیہ میں مصدقہ کیسز کی تعداد 88لاکھ94ہزار843، روس میں 81لاکھ 85ہزار400، ترکی میں 79لاکھ9ہزار81 اور فرانس میں 72لاکھ35ہزار100تک پہنچ گئی ہے۔

    ایران میں مصدقہ کیسز کی تعداد 58لاکھ77ہزار456اور ارجنٹائن میں مصدقہ کیسز کی تعداد 52لاکھ83ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

  • کورونا مریض کے جسم پر عجیب سے نشانات کیوں پڑتے ہیں؟

    کورونا مریض کے جسم پر عجیب سے نشانات کیوں پڑتے ہیں؟

    کوویڈ19 کے مریضوں میں جلد کا ایک عام مسئلہ ممکنہ طور پر وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔

    متاثرہ مریض کے ہاتھوں اور پیروں پر سرخ اور سوجن کی شکار (کوویڈ ٹو) جلد کے ایسے حصے ہوتے ہیں جن میں خارش محسوس ہوتی ہے اور کئی بار یہ مسئلہ مہینوں تک برقرار رہتا ہے۔

    عام طور پر یہ نشانی کوویڈ سے متاثر ہونے کے بعد ایک سے چار ہفتوں کے دوران ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں یا ان کی رنگت بدل جاتی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کوویڈ کے مریضوں کی اس علامت کی وجہ کیا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق پر اس کی وجہ سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے برٹش جرنل آف ڈرماٹولوجی میں شائع تحقیق میں اس مسئلے کے شکار 50 مریضوں کے ساتھ اس وبا سے قبل اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے13 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس مسئلے کے پیچھے جسم کا مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جس کے دوران بہت زیادہ مقدار میں مخصوص اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وائرس کے ساتھ ساتھ مریض کے خلیات اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کی شریانوں میں موجود مدافعتی خلیات کوویڈ ٹو میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ محققین نے کہا کہ کوویڈ کے مریضوں کے اس مسئلے کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا مگر ہماری تحقیق میں نئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

    اس سے پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کوویڈ کی غیر تصدیق شدہ علامات میں سے ایک ہے جس کے شکار افراد کے ہاتھوں یا پیروں میں سرخ یا جامنی رنگ کے نشانات ابھر آتے ہیں۔

    مگر اب محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اور پیروں میں یہ نشانات اکثر بغیر علامات والے مریض بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسئلے کی وجہ معلوم ہونے کے بعد اس کے علاج کے لیے زیادہ مؤثر حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس سے قبل مئی میں نگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا تھا کہ ناخنوں میں عجیب نشان بن جانا کچھ عرصے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ انہوں نے نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں صحت یابی کے بعد چند ماہ کے اندر ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں پر افقی لکیریں ابھر سکتی ہیں۔

    پروفیسر ٹم نے بتایا کہ انہیں متعدد افراد سے کوویڈ نیلز کی رپورٹس زوئی کوویڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ میں موصول ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناخنوں پر اس طرح کے اثرات غیرمعمولی نہیں کیونکہ دیگر بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کسی بیماری کے خلاف نگ کے دوران پیدا ہونے والا تناؤ ناخنوں پر اس طرح کی لکیروں کا باعث بنتا ہے۔ اس عرصے میں ناخن بڑھتے نہیں اور پروفیسر ٹم کے مطابق یہ نشان ایک درخت کی طرح کسی ایونٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔

    برٹش ایسوسی آف ڈرماٹولوجسٹ کی صدر ڈاکٹر تانیہ بیکر نے بتایا کہ جلدی امراض کے ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ناخنوں میں افقی لکیروں کو دیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی بار یہ تمام ناخنوں میں ہوتی ہے اور کئی بار یہ اثر صرف پیروں کے انگوٹھوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طرح کی لکیریں بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتیں اور عموماً بیماری کے کئی ماہ بعد ابھرتی ہیں۔ پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ یہ تو واضح نہیں کہ ناخنوں میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق بیماری کی شدت سے ہے۔

    عموماً دیگر امراض میں بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے، ناخنوں پر نشان کا امکان اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ناخنوں میں تبدیلیاں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا اشارہ ہوں، مگر ابھی کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ناخنوں کی تبدیلیاں ماضی میں کورونا سے متاثر ہونے کی نشانی ہے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ لوگ ماضی میں اس بیماری کا شکار ہوئے تھے یا نہیں۔

  • عالمی ادارہ صحت نے کورونا مریضوں کو کون سی دوا دینے کی سفارش کی؟

    عالمی ادارہ صحت نے کورونا مریضوں کو کون سی دوا دینے کی سفارش کی؟

    جنیوا : کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں اب تک مریضوں کیلئے حتمی طور پر کوئی مخصوص دوا تاحال تجویا نہیں کی گئی ہے لیکن عالمی ادارہ صحت نے کورونا مریضوں کو ایک خاص دوا دینے کی سفارش کی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے سفارش کی ہے کہ کورونا وائرس کے شدید بیمار مریضوں کو دیگر دواؤں کے ساتھ گٹھیا کے علاج کی دوائیں بھی دی جائیں۔

    عالمی ادارے نے گزشتہ روز برٹش یونیورسٹی کے محققین اور دیگر کے ساتھ کورونا وائرس کے تقریباً 10 ہزار مریضوں پر طبی آزمائش کی رپورٹ جاری کی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سنگین نوعیت والے مریضوں کو ڈیکسامیتھاسون وغیرہ جیسے اسٹیروئیڈز کے ساتھ گٹھیا کی کوئی دوا مثلاً ایکٹی مرا یا ٹوسیلی زُوماب یا پھر اس سے ملتے جلتے اثرات کی حامل ساری لُماب وغیرہ دینے سے ان مریضوں میں موت کے امکانات سادہ علاج کے مقابلے میں کم ہوگئے۔

    عالمی ادارہ صحت پہلے کہہ چکا ہے کہ سنگین نوعیت والے مریضوں کے لیے اسٹیروئیڈز کارآمد ہیں۔ طبی آزمائش کے بعد ادارے نے مریضوں کے علاج کی گائیڈ لائنز میں گٹھیا کے علاج کی دوائیں بھی شامل کرنے کا کہا ہے۔

    ایکٹیمرا نامی دوا جاپان میں اوساکا یونیورسٹی کے ایک خصوصی تقرر کردہ پروفیسر کِشی موتو تادامِتسُو کی زیر قیادت ٹیم اور دوا ساز کمپنی چُوگائی نےتیار کی تھی۔ یہ دوا مدافعتی نظام کے ضرورت سے زیادہ فعال ہوجانے کے باعث ہونے والی سوجن کو کم کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔

  • کورونا متاثرہ کچھ مریضوں میں شدت کم کیوں ہوتی ہے ؟ ممکنہ وجہ سامنے آگئی

    کورونا متاثرہ کچھ مریضوں میں شدت کم کیوں ہوتی ہے ؟ ممکنہ وجہ سامنے آگئی

    واشنگٹن : ماہرین صحت نے ان وجوہات کا پتہ لگا لیا ہے جس کی وجہ سے کورونا سے متاثرہ کچھ مریضوں میں وائرس کی شدت کم ہوتی ہے یا بہت معمولی علامات نظر آتی ہیں۔

    کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ19 کے حوالے سے ایک پہلو وبا کے آغاز سے ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ آخر کچھ افراد

    میں اس کی شدت زیادہ کیوں ہوتی ہے جبکہ بیشتر میں علامات معمولی یا ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔ اب ایک نئی تحقیق میں اس معمے کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے۔

    امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد میں کوویڈ کی شدت معمولی ہوتی ہے، اس کی وجہ ماضی میں دیگر اقسام کے سیزنل کورونا وائرسز کا سامنا ہے۔

    یعنی وہ کورونا وائرسز جو زیادہ تر بچوں میں عام نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور مدافعتی نظام کے مخصوص خلیات ان کو ‘یاد’ رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مدافعتی خلیات بہت تیزی سے سارس کووو 2 (کووڈ کا باعث بننے والا وائرس) کے خلاف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب ان کا سامنا دیگر کورونا وائرسز سے ہوچکا ہو۔

    اس دریافت سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کچھ افراد بالخصوص بچوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے پر علامات معمولی کیوں ہوتی ہیں۔

    یہ مدافعتی خلیات جن کو ٹی سیلز کہا جاتا ہے، خون اور لمفی نظام میں گھومتے ہیں اور جراثیم کے میزبان بننے والے خلیات کے خلاف آپریشن کرتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے خلاف مدافعت کے لیے اکثر اینٹی باڈیز پروٹینز کی بات کی جاتی ہے جو وائرس کو کمزور خلیات کو متاثر کرنے سے قبل روکتے ہیں، مگر اینٹی باڈیز کو آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جراثیم تیزی سے ارتقائی مراحل سے گزر کر اینٹی باڈیز کے انتہائی اہم خصوصیات سے بچنا سیکھتے ہیں، مگر ٹی سیلز جراثیموں کو مختلف طریقے سے شناخت کرتے ہیں اور انہیں دھوکا دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    ہمارے خلیات رئیل ٹائم میں رپورٹس جاری کرتے ہوئے اندرونی حالت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور ہر پروٹین کے نمونے ایک دوسرے سے بدلتے ہیں جبکہ ٹی سیلز ان کی سطھ پر موجود اجزا کا معائنہ کرتے ہیں۔

    جب ٹی سیلز ریسیپٹر کسی ایسے جز کو دیکھتا ہے جس کا وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو وہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور بہت تیزی سے اپنی تعداد کو بڑھا کر اس جز پر حملہ آور ہوکر ان اجزا والے خلیات کو تاہ کردیتےہ یں۔

    یہ میموری ٹی سیلز بہت زیادہ حساس اور ان کی عمر متاثرکن حد تک طویل ہوتی ہے جو مسلسل خون اور لمفی نظام میں دہائیوں تک موجود رہ سکتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کورونا کی وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ متعدد افراد کووڈ سے بہت زیادہ بیمار یا ہلاک ہوگئے جبکہ دیگر کو بیماری کا علم بھی نہیں ہوا، اس کی وجہ کیا ہے؟

    اسی سوال کو جاننے کے لیے تحقیق کی گئی جس میں دریافت کیا گیا کہ نئے کورونا وائرس کا جینیاتی سیکونس نزلہ زکام کا باعث بننے والے 4 کورونا وائرس اقسام سے حیران کن حد تک مماثلت رکھتا ہے۔

    انہوں نے 24 مختلف سیکونسز کے نمونے کو اکٹھا کیا جو کورونا وائرس یا اس سے ملتے جلتے دیگر کورونا وائرسز کا تھا۔

    محققین مے کورونا کی وبا سے قبل حاصل کیے گئے صحت مند افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا جو دیگر کورونا وائرسز کا سامنا تو کرچکے تھے مگر نئے کورونا وائرس سے اس وقت تک محفوظ تھے۔

    ان نمونوں میں ٹی سیلز کی تعداد کا تعین کیا گیا اور دریافت ہوا کہ ان افراد میں موجود ٹی سیلز کورونا وائرس کے زرات کو ہدف بنارہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر ٹی سیلز کا میموری موڈ متحرک تھا اور ایسے خلیات وبائی مرض کے خلاف زیادہ سرگرم اور دفاع کرتے ہیں۔

    محققین نے یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جن افراد میں سابقہ کورونا وائرسز کے خلاف ٹی سیلز متحرک تھے ان میں کووڈ کی شدت بھی معمولی تھی جبکہ زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے ٹی سیلز کے لیے کورونا وائرس ایک منفرد جراثیم تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں دیگر کورونا وائرسز سے متاثر نہیں ہوئے یا کم از کم حال ہی میں ان سے بیمار نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے ان میں نئے کورونا وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرنےوالے ٹی سیلز موجود نہیں تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچے زندگی کے ابتدائی برسوں میں مختلف وائرسز کی زد میں آتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں کورونا کی شدت عام طور پر بہت کم ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جریدے سائنس امیونولوجی کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔

  • کورونا سے صحتیاب افراد کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ جانیے

    کورونا سے صحتیاب افراد کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ جانیے

    نیو یارک : کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کے بارے میں دنیا بھر میں تیزی سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔ ایسے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    اب امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کورونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔

    اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کرانا پڑا۔

    ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔

    دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیااں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔ تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم ریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس تحققیق میں جن مریضوں کے ریکارڈ کو دیکاھ گیا تھا ان میں کووڈ کی تشخیص فروری سے دسمبر 2020 میں ہوئی تھی اور ان کی مانیٹرنگ فروری 2021 تک کی گئی۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ 4 لاکھ 54 ہزار 477 افراد نے بیماری کے 30 دن یا اس کے بعد ڈاکٹروں سے مختلف علامات کی وجہ سے رجوع کیا۔ اس تحقیق کے نتائج کو کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ ایک ویب سائٹ پر جاری کیے گئے۔

     

  • کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ تحقیق

    کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ19 کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی” دماغی دھند” کے تسلسل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کوویڈ19کی ان طویل المعیاد علامات کا جائزہ لیا گیا جن کا سامنا کورونا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اس حوالے سے محققین نے بتایا ہے کہ یہ طویل المعیاد علامات وائرس سے متاثر ہونے کے 3 ماہ بعد بھی برقرار رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں لانگ کوویڈ کے شکار 278 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے علامات کے بارے میں صحت یابی کے 2 ماہ اور پھر 6 ماہ بعد پوچھا گیا۔

    ان افراد نے 6 ماہ کے بعد دماغی علامات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا، ان کے لیے جملے بنانا، توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا تاہم یہ علامات شدید تھکاوٹ جیسی کوویڈ کی طویل المعیاد علامات کے مقابلے کم سنگین قرار دی گئیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل، مدافعتی نظام سے متعلق مسائل، تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی علامات کو سمجھ نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ 1 کے 10 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    مئی 2021 کے آغاز میں پری پرنٹ سرور میڈ آرکسیو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یاد داشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زیادہ کوویڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    محققین کے خیال میں کوویڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کوویڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

    واضح رہے کہ یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کوویڈ19 کے نتیجے میں زیادہ بیمار تو نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

  • کورونا سے صحتیاب افراد سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف

    کورونا سے صحتیاب افراد سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف

    کورونا وائرس کی نئی قسم کوویڈ 19سے متاثر ہوکر صحت یاب ہونے والے افراد کئی ماہ تک اس بیماری کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وائرس کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ سکتا ہے، جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔

    تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کوویڈ 19 سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے، جس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا، بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی علامت کے 11 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا، یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی باڈیز بناتے ہیں، جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافعتی خلیات بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور

    اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں، بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔

    اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے 77 افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔

    پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر 3، تین ماہ کے وقفے سے ایسا کیا گیا۔ تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ نہیں تھی اور صرف 6 کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

    محققین نے 18 ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے یا ابتدائی بیماری کو 9 ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ موازنے کے لیے محققین نے ایسے 11 افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو کبھی کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

    توقع کے مطابق کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی، تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے 11 ماہ بعد بھی موجود تھیں۔

    کووڈ 19 کے شکار 15 افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود تھے، یہ خلیات 4 ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں موجود تھے۔

    تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس بیماری کے 2 سے 3 ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے، تو ان میں بیماری کے 7 یا 11 ماہ بعد متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا۔

    یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے ہیں، یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت تک ایسا کرتے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے، تاہم اس حوالے سے وہ مزید تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط مدافعتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔

  • پشاور ایئرپورٹ : سراغ رساں کتوں نے کورونا مریض کی نشاندہی کرلی

    پشاور ایئرپورٹ : سراغ رساں کتوں نے کورونا مریض کی نشاندہی کرلی

    کراچی : پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دو سراغ رساں کتے پہنچا دیئے گئے ہیں، پاک فوج کے کینائن سینٹر کے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے کورونا مریضوں کی نشاندہی شروع کردی گئی ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلیے متعدد حکومتی اقدامات کیے جارہے ہیں، جس کا مقصد عوام کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

    اس سلسے میں پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر انتظامیہ کی جانب سے دو سراغ رساں کتوں کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت ایئرپورٹ پر دو سراغ رساں کتے پہنچا دیئے گئے۔

    پشاور ایئرپورٹ پر تربیت یافتہ دو سراغ رساں کتوں نے ایک کورونا مریض کی نشاندہی کرلی، مذکورہ مسافر نجی ایئرلائن کی پرواز پی اے611کے ذریعے177مسافر دبئی سے پشاور پہنچا تھا۔

    سراغ رساں کتوں کو آج ہی کورونا مریضوں کی نشاندہی کیلئے پہنچایا گیا تھا، کتے مسافروں کا سوائب سونگھ کر کورونا موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    ائیر پورٹ مینجر کے مطابق پشاور ایئرپورٹ پر کورونا خصوصی ہیلتھ ڈیسک بھی قائم کردی گئی ہے ، اے سی سی کی ٹیم محکمہ صحت کی ٹیم کی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے، سراغ رساں کتوں کو کورونا مریضوں کی نشاندہی کے لیے استعمال شروع کردیا گیا ہے۔

    مذکورہ ہیلتھ ڈیسک پشاور ایئرپورٹ کے بین الاقوامی آمد لاؤنج میں بنایا گیا ہے، بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے سویپ ٹیسٹ کو سراغ رساں کتوں نےآج سے ہی چیک کرنا شروع کردیا ہے۔

    سراغ رساں کتوں کو این سی اوسی کی ہدایت پر پشاور ایئرپورٹ پر لایا گیا یے، نجی ایئرلائن کی پرواز پی اے 611کے ذریعے177 مسافر دبئی سے پشاور پہنچے تھے، ایک مسافر کا ٹیسٹ مثبت نکلا، سراغ رساں کتے نےسو ئیپ ٹیسٹ کو چیک کیا تھا۔