Tag: Corona virus

  • میرپور آزاد کشمیر : 3 بچوں میں  کورونا وائرس کی تصدیق

    میرپور آزاد کشمیر : 3 بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق

    میرپور : آزاد کشمیر میں لاک ڈاؤن کے بعد تعلیمی ادارے کھلتے ہی 3 بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، کوروناوائرس کے شکار بچوں کی عمریں 10 سے 13 سال کے درمیان ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق میرپور آزاد کشمیر میں 2 ہفتے لاک ڈاؤن کے بعد تعلیمی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ کھل گئے، تعلیمی اداروں میں کوروناایس اوپیزپرعمل کیاجارہا ہے جبکہ شادی ہال، سیاسی ومذہبی اجتماع پر مزید 15دن کیلئے پابندی برقرار رہے گی۔

    دوسری جانب میرپورآزاد کشمیر میں3بچوں میں کوروناوائرس کی تصدیق ہوگئی ہے ،ڈی ایچ او کیو اسپتال کا کہنا ہے کہ کوروناوائرس کے شکار بچوں کی عمریں 10 سے 13سال کے درمیان ہیں۔

    ڈی ایچ او کیو اسپتال نے میرپور میں 27 اور بھمبر میں 18 افراد میں کوروناوائرس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوروناسے100سے زائد افرادجاں بحق ہوچکےہیں جبکہ 200سے زائد افرادکو گھروں میں قرنطینہ کیاگیاہے۔

    یاد رہے یکم مارچ کو کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر نے ضلع بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا،

    ڈپٹی کمشنر بدر منیر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران میرپور آزاد کشمیر کے تمام تعلیمی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہےگی، شادی ہالز بھی ایک ماہ کے لیے بند رکھنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق میرپور آزاد کشمیر میں تمام پبلک پارکس اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ کرونا کے ٹیسٹ مثبت نکلنے کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جس پر کمشنر نے دو ہفتے قبل انتظامیہ کو ایس او پیز پر سختی سے عمل کرانے کی ہدایت جاری کی تھی، کمشنر نے ہدایت کی تھی کہ بیرون ملک سے آئے افراد کا گھروں میں قرنطینہ یقینی بنایا جائے، کاروباری مراکز رات 10 بجے بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔

  • کورونا وائرس : کویت میں صورتحال تشویشناک، حکومت نے اہم فیصلے کرلیے

    کورونا وائرس : کویت میں صورتحال تشویشناک، حکومت نے اہم فیصلے کرلیے

    کویت سٹی : کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تباہی کے پیش نظر کویتی حکومت نے اہم فیصلے کرلیے، وزیر صحت کی جانب سے پیش کی گئی نئی رپورٹ کے بعد ہنگامی اقدامات ناگزیر ہوگئے۔

    کویت کے باخبر ذرائع کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شیخ صباح الخالد کی سربراہی میں وزراء کی کونسل کا ہفتہ وار اجلاس طلب کیا گیا۔

    اجلاس میں وزیر صحت نے کابینہ کو صحت سے متعلق اہم رپورٹ پیش کردی، کابینہ نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کورونا وائرس سے متعلق تازہ ترین پیشرفت کے بارے میں کویت وزیر صحت کی جانب سے فراہم کردہ وضاحت کو بغور سنا۔

    اس کے علاوہ کورونا اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک میں صحت کی صورتحال کی پیشرفت کے علاوہ انفیکشن، اموات اور شدید نگہداشت میں زیر علاج مریضوں اور ان کی صحتیابی کی شرح میں کمی کے ساتھ معاملات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک میں کورونا وائرس کے مثبت نتائج کی فیصد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو ایک خطرناک صورتحال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری کا پھیلاؤ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔

    وزراء کونسل نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن مہم کے نتائج کا بھی نوٹس لیا، سسٹم میں رجسٹرڈ تمام افراد 65سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہریوں اور رہائشیوں کو ویکسین دی جا چکی ہے اور ان لوگوں کو ویکسین دینےکے بعد ریاست کویت میں ویکسین حاصل کرنے والے افراد کی کل تعداد 322،000 تک جا پہنچی ہے۔

    کابینہ نے تمام شہریوں اور رہائشیوں سے تعاون جاری رکھنے اور صحت کے تقاضوں اور احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا تاکہ اس آزمائش سے بہترین نتائج کے ساتھ نکل سکیں۔

    اس کے علاوہ کابینہ نے کورونا وائرس کی ہنگامی صورتحال کے لئے وزارتی کمیٹی کی سفارشات کا بھی مطالعہ کیا اور ان سے متعلق متعدد فیصلے کیے۔

  • کورونا وائرس نے سینکڑوں کمپنیاں دیوالیہ کردیں، عوام بے روزگار

    کورونا وائرس نے سینکڑوں کمپنیاں دیوالیہ کردیں، عوام بے روزگار

    ٹوکیو : کورونا وائرس نے جاپان میں عوام کی صحت کے ساتھ معیشت کو بھی تباہ کردیا، ملک کی گیارہ سو سے زائد کمپنیاں دیوالیہ ہوکر بند ہوگئیں۔

    اس حوالے سے مالیاتی حیثیت کا جائزہ لینے والی ایک کمپنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال فروری سے اب تک جاپان میں گیارہ سو کمپنیاں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سبب دیوالیہ ہو گئی ہیں۔

    تیئکوکُو ڈیٹا بینک کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب بدھ کی صبح تک گیارہ سو کمپنیاں یا تو دیوالیہ پن کی قانونی کارروائی مکمل کر چکی تھیں یا اس کی تیاری کر رہی تھیں۔

    اس فہرست میں شراب خانے اور ریستوران 172 کی تعداد کے ساتھ پہلے، تعمیراتی کمپنیاں92 کے ساتھ دوسرے اور ہوٹل اور سرائے 79 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

    تیئکوکُو ڈیٹا بینک کے مطابق ٹوکیو سے 264، اوساکا پریفیکچر سے 108، اور کاناگاوا پریفیکچر سے 64 کمپنیاں دیوالیہ ہوئی ہیں، کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے سبب بے روزگاری  کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

    تحقیقی ادارے نے نشاندہی کی ہے کہ وہ شہری علاقے جو مرکزی حکومت کے ہنگامی حالت کے نفاذ کے تحت ہیں، وہاں شراب خانوں اور ریستورانوں کے دیوالیہ پن میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔

    بینک کا کہنا ہے کہ اگر ٹوکیو اور اس کے تین ہمسایہ پریفیکچروں میں ہنگامی حالت میں توسیع کی گئی تو ذاتی صَرف میں طویل مدتی کمی سے بچنا ناممکن ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں مزید کمپنیاں دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔

  • کورونا وائرس : روسی سائنسدان کی عالمی وبا سے متعلق بڑی پیش گوئی

    کورونا وائرس : روسی سائنسدان کی عالمی وبا سے متعلق بڑی پیش گوئی

    ماسکو : عالمی وبا کورونا وائرس سے متعلق روس کے سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ وبا ایک سے سال میں اپنی شدت کو کم کردے گی اور اس کی کیفیت ایک موسمی بیماری جیسی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق روسی سنٹرل سائنسی تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی میں کلینیکل اور تجزیاتی کام کی ڈپٹی ڈائریکٹر نتالیہ سینیچنایا نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کا انفیکشن ایک یا دو سال میں ایک موسمی بیماری بن سکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ شاید اگلے ایک سے دو سال میں یہ بیماری موسمی زکام میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نے اب کسی موسمی بیماری کے آثار دکھانا شروع کردیئے ہیں جبکہ2020 کے موسم خزاں میں کورونا انفیکشن میں اضافہ اس کا ثبوت ہوسکتا ہے۔

    روسی ماہر کے مطابق موسمی امراض کے معاملات عام طور پر موسم خزاں اور بہار کے موسم میں بڑھ جاتے ہیں لہٰذا ان موسموں کے دوران کوویڈ 19کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ آئندہ ایک موسمی بیماری بن کر رہ جائے گی۔

  • کورونا وائرس شوگر کے مریضوں کیلئے کتنا خطرناک ہے؟؟

    کورونا وائرس شوگر کے مریضوں کیلئے کتنا خطرناک ہے؟؟

    پیرس : فرانسیسی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو شوگر کے مریض تھے۔

    ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی خبر کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے ہر پانچ کورونا مریضوں میں سے ایک مریض موت کے منہ میں گیا ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ذیابیطس میں مبتلا کورونا مریض کو موت کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کیوں کہ مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے اور ذیابیطس ٹائپ ون میں بھی امیون سسٹم ہی  لبلبہ کے اُن سیلز کو ختم کردیتا ہے جو انسولین بناتے ہیں اور انسولین نہ بننے کی وجہ سے شوگر ہضم ہونے کے بجائے جسم میں ہی موجود رہتی ہے۔

    ماہرین صحت نے ہدایت کی ہے کہ گھر سے نکلتے وقت سماجی فاصلہ قائم رکھیں، مصافحہ نہ کریں۔ اجتماعات سے دور رہیں، سامان کو غیر ضروری نہ چھوئیں، ماسک کا استعمال لازمی کریں، دستانے پہنیں اور ہاتھوں کو اچھی طرح سے جراثیم سے پاک کرتے رہیں۔

  • کورونا وائرس : کویتی حکام نے کرفیو سے متعلق اہم اعلان کردیا

    کورونا وائرس : کویتی حکام نے کرفیو سے متعلق اہم اعلان کردیا

    کویت سٹی : عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سدباب کیلئے کویت حکومت نے فی الوقت جزوی یا کل کرفیو کے بارے میں عوام کو آگاہ کردیا۔

    اس حوالے سے حکومتی ترجمان طارق المزرم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام آپشنز صحت حکام کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

    حکومتی مواصلات مرکز کے سربراہ اور حکومت کویت کے سرکاری ترجمان طارق المزرم نے کوویڈ 19 وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں زیادہ سے زیادہ حد تک اضافے کے امکانات کا اشارہ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ فی الوقت جزوی یا کل کرفیو کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔

    طارق المزرم نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کوویڈ 19 وائرس کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام آپشنز صحت کے حکام کی میز پر موجود ہیں۔

    ایک پریس بیان میں المزرم نے افواہوں سے دور رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کو صحت کی ضروریات پر عمل پیرا ہونے اور سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر ہی انحصار کرنا چاہئے۔

    اس سلسلے میں قابل اعتماد ذرائع نے 23 فروری بروز منگل شام 7 بجے سے صبح 7 بجے تک 21 دن کی مدت کے لئے ملک بھر میں جزوی کرفیو نافذ کرنے کے ارادے کے بارے میں بھی اشارہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے مختلف اداروں اور ایجنسیوں سے خطاب کیا جن کی کرفیو کے اوقات میں ضرورت ہوتی ہے اور وہ کرفیو کے اوقات میں موجود رہتے ہیں۔

    انہوں مطالبہ کیا کہ وہ اجازت نامے جاری کرنے کے خواہشمند افراد کے نام فراہم کریں تاکہ ان کے لئے اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ اسی کے ساتھ ذرائع نے اشارہ کیا کہ جو اجازت نامے پہلے جاری کیے گئے تھے ان کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کرفیو کی مدت کے آغاز سے نواصیب باڈر کو بند کرنے اور صرف دونوں بندرگاہوں میں طبی معائنے کے ضروری طریقہ کار اور قرنطینہ کے عمل کو انجام دینے کے لئے مناسب طبی عملے کی کمی کے پیش نظر صرف سالمی بارڈر کے داخلے کو کھلا چھوڑنے کے امکان کا عندیہ دیا۔

  • بھارت : کورونا وائرس  کے نئے اعداد و شمار ، ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گئے

    بھارت : کورونا وائرس کے نئے اعداد و شمار ، ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گئے

    نئی دہلی : بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاﺅکی شرح میں ناقابل یقین حد تک کمی نے ماہرین کو بھی حیران کرکے رکھ دیا۔

    میل آن لائن کے مطابق ایک وقت میں بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کی صورتحال ایسی تھی کہ لگ رہا تھا کہ بھارت اس معاملے میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائے گا اور کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔

    اس وقت بھارت میں روزانہ 1لاکھ تک نئے کیسز سامنے آ رہے تھے تاہم اب یہ شرح صرف 11ہزار روزانہ تک گر گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارت میں کورونا کے نئے کیسز کی شرح میں اس قدر کمی پر سائنسدان ورطہ حیرت میں مبتلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت یا تو ’ہرڈ امیونٹی‘ کے لیول تک پہنچ چکا ہے، یا پھر بھارتی شہریوں کے جسموں میں پہلے سے کوئی ایسی چیز موجود ہے جو انہیں کورونا وائرس سے بچا رہی ہے۔

    ایک حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 65فیصد لوگوں میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز موجود ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج سے سائنسدانوں کی اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ بھارت ہرڈ امیونٹی کے لیول تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے اب وہاں نئے کیسز کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے۔

  • کورونا وائرس : کویت میں مکمل لاک ڈاؤن کا خدشہ

    کورونا وائرس : کویت میں مکمل لاک ڈاؤن کا خدشہ

    کویت سٹی : کورونا وائرس نے کویت میں ایک بار پھر حالات کو سنگین بنا دیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ وبا کی روک تھام کیلئے نہ صرف کرفیو بلکہ مکمل لاک ڈاؤن بھی لگایا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کویتی وزیر صحت ڈاکٹر باسل الصباح نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا وبا کی صورتحال سنگین  ہوچکی ہے، اس سلسلے میں تمام تر احتیاطی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    کویتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر صحت نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ میرے فیصلوں میں ٹھہراؤ نہیں۔ چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی شخص میرے کسی ایک نامناسب فیصلے کی نشاندہی کرکے بتائے۔

    کویتی وزیر صحت نے اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی اور ان کے منفی اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کاروبار ہم نے نہیں بلکہ عالمی ادارہ صحت نے بند کرائے ہیں۔

    ڈاکٹر باسل الصباح کا کہنا تھا کہ تغیر پذیر کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت نہ صرف کرفیو بلکہ مکمل لاک ڈاؤن پر بھی مجبور ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے زیادہ تر متاثرین کی عمریں 18 سے 40 برس کے درمیان ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں میں تخفیف ایسے اوقات کے لیے کی گئی ہے جب لوگوں کا میل ملاپ نسبتاً کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے بعض ممالک کے باشندوں پر لگائے جانے والے اس الزام کا جس میں کہا جارہا تھا کہ ان ہی کی وجہ سے کویت میں کورونا آیا ہے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام غلط ہے۔

    کویتی وزیر صحت نے وبا کی سنگینی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وبا کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اس سے بچاؤ کا واحد راستہ ویکسین ہی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ تمام بچوں کو کورونا ویکسین نہیں دی جاسکتی البتہ انہیں وبا سے بچانے کے لیے دیگر اقدامات کرنا ہوں گے۔

    یاد رہے کہ کویتی حکومت نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں غیر ہنگامی آپریشن تا اطلاع ثانی معطل کر دیے گئے۔

    یہ فیصلہ کورونا سے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں جنرل وارڈز اور انتہائی نگہداشت کے بیشتر بیڈز کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کر دیئے گئے ہیں۔

  • کورونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    کورونا وائرس کا آغاز کیسے ہوا؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    جنیوا : عالمی وبا کورونا وائرس کے آغاز سے متعلق ہونے والی تحقیقات میں سائنسدان ابھی تک اس بات کا کھوج نہیں لگا  سکے کہ یہ وبا کیسے اور کیوں پھیلی۔

    عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے آغاز کے بارے میں چھان بین کے لیے چینی شہر وُوہان بھیجی گئی ماہرین کی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ آئندہ ہفتے ایک مختصر رپورٹ جاری کر دے گی۔

    ادارے کے سربراہ ٹیڈروس ادہانم گیبریسس نے مزید کہا کہ تمام مفروضات بدستور قائم ہیں اور مزید جائزوں اور چھان بین کی ضرورت ہے۔

    وہ گزشتہ روز چینی شہر وُوہان جانے والی ٹیم کے سربراہ پیٹر بین ایمبارک کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

     ایمبارک نے کہا کہ دسمبر2019 میں وبا کے ابتدائی دنوں میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں انہیں اب کہیں بہتر آگاہی حاصل ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اب بھی کورونا وائرس کے منبع کا سراغ لگانے سے کوسوں دور ہیں۔

    ماہرین نے 29 جنوری سے 10 فروری تک وُوہان کا دورہ کیا۔ انہوں نے سمندری خوراک کی ایک مارکیٹ کی چھان بین کی جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ وبا کا نقطہٴ آغاز تھی۔

    عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے وُوہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کا دورہ بھی کیا۔ یہ ادارہ چمگادڑوں میں کورونا وائرسوں پر ہونے والی تحقیق کے لیے معروف ہے۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر اسی ادارے سے باہر نکلا۔

  • کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کیلیفورنیا : امریکی محققین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسداد کوویڈ 19ویکیسن لگوانے کے بعد انسان کی قوت مدافعت کافی عرصے تک وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    کورونا ویکسین کے حوالے سے کی گئی ایک تحقیق کے بعد امریکی محققین نے بتایا ہے کہ انسداد کورونا ویکسین کی خوراک لینے والے یا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی قوت مدافعت میں وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت طویل عرصے تک موجود رہتی ہے۔

    تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد انسانی جسم میں کم از کم 8ماہ تک اس کے خلاف بہتر مدافعت قائم رہتی ہے جس کے باعث وائرس کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

    محققین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت مکمل طور پر ختم ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے کرونا وائرس کی ویکسین بار بار لگوانے کی مزيد ضرورت نہیں رہے گی اور وبا پر جلد قابو پانا بھی ممکن ہوگا۔

    اس تحقیق کے شریک مصنف، کیلیفورنیا میں واقع لاجولا انسٹی ٹیوٹ فار امیونولوجی کے ریسرچر شین کروٹی کہتے ہيں کہ شروع میں ہمیں ڈر تھا کہ اس مرض کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہے گی تاہم اس تحقیق کے نتائج سے ہمارا خوف کچھ حد تک کم ہوگیا ہے۔

    اس سے قبل ماضی میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کوویڈ19 کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، جس کے نتیجے میں اس مرض کے شکار لاکھوں افراد کا دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کا امکان بہت زيادہ تھا۔

    اس کے علاوہ دوسرے کرونا وائرسز کے خلاف مدافعت بھی زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، اسی لیے سائنسدانوں کو زيادہ حیرت نہيں ہوئی۔ تاہم جریدہ سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق جن افراد میں انفیکشن یا ویکسی نیشن کے بعد مدافعت پیدا ہوئی ہو، ان میں کوویڈ19 کا دوبارہ شکار ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

    یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ امکان بہت کم ہے لیکن صفر نہیں ہے تاہم ویکسینیشن کے ذریعے اجتماعی مدافعت پیدا کرکے اس مرض کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہے۔

    اس نئی تحقیق میں کوویڈ19 کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والے 185 افراد (جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شامل تھے) سے حاصل کردہ خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا تھا۔

    ان میں سے زیادہ تر افراد کو معمولی انفیکیشن ہوا تھا، لیکن سات فیصد افراد کو کچھ روز کے لیے ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔

    ان میں سے ہر ایک شخص نے ابتدائی علامات سامنے آنے کے بعد ریسرچ ٹیم کو چھ روز اور آٹھ مہینے کے عرصے کے دوران کم از کم ایک خون کا نمونہ فراہم کیا۔ ان میں سے 43 نمونے چھ مہینوں کے بعد حاصل کیے گئے۔

    ریسرچ ٹیم نے ان نمونوں میں قوت مدافعت کے ان عناصر کی پیمائش کی جن کی بدولت دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کے امکانات میں کمی ممکن ہے یعنی اینٹی باڈیز (جو کسی بیماری کی وجہ بننے والے پیتھوجن کی نشاندہی

    کرتے ہيں تاکہ نظام مدافعت اس پر حملہ آور ہوسکے)، بی سیلز (جو اینٹی باڈیز بناتے ہيں) اور ٹی سیلز (جو انفیکشن کا شکار ہونے والے سیلز کا خاتمہ کرتے ہیں)۔

    ریسرچرز کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آٹھ مہینوں کے بعد ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز میں کچھ حد تک کمی ہوتی ہے لیکن ہر ایک شخص میں اس کمی کی شرح مختلف ہوتی ہے۔

    ٹی سیلز کی تعداد میں بھی صرف کچھ حد تک کمی ہوتی ہے تاہم بی سیلز کی تعداد بعض دفعہ برقرار رہتی ہے اور بعض دفعہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈیز کی تعداد میں کمی کے باوجود ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے خلاف دوبارہ اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے جس کے باعث دوبارہ انفیکشن کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہيں۔

    شین کروٹی کے مطابق ان نتائج کی بنیاد پر توقع رکھی جاسکتی ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس تحقیق سے یہ امید ضرور پیدا ہوتی ہے کہ اگر ویکسینیشن کی مہم کامیاب ہوجائے تو اس وبا کا جلد خاتمہ ممکن ہوگا۔