Tag: Corona virus

  • کرونا وائرس : ملک بھر میں 27اموات : مثبت ٹیسٹ کی شرح 2.84 فیصد

    کرونا وائرس : ملک بھر میں 27اموات : مثبت ٹیسٹ کی شرح 2.84 فیصد

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز اور اموات میں بتدریج کمی کا سلسلہ جاری ہے ، 24 گھنٹوں میں ایک ہزار 490نئے کورونا کیسز سامنے آئے جبکہ 27مریض انتقال کرگئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کی جانب سے ملک میں جاری کورونا وبا کے تازہ اعداد و شمار جاری کردیئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹوں دوران کورونا میں مبتلا مزید27 مریض انتقال کر گئے، جس کے بعد کورونا سے اموات کی مجموعی تعداد 27 ہزار893 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا تھا کہ گزشتہ24 گھنٹے میں 52ہزار415 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جس میں سے1ہزار490 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، اس دوران کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 2.84 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈآپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک میں اس وقت کورونا کے تشویشناک کیسزکی تعداد3ہزار407 ہے جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد12 لاکھ51ہزار348 ہوگئی ہے۔

    صوبوں میں کورونا کیسز کے اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد 4 لاکھ 60 ہزار111 ، پنجاب میں 4 لاکھ 33 ہزار286 ، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 74 ہزار 671 اور بلوچستان میں32 ہزار981 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 5 ہزار733 ، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 332، اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار 234کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • سیکیورٹی خدشات : پاکستان نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز منسوخ

    سیکیورٹی خدشات : پاکستان نیوزی لینڈ کرکٹ سیریز منسوخ

    راولپنڈی : پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان  کرکٹ سیریز منسوخ کردی گئی ہے، کیوی ٹیم جلد ہی وطن واپس روانہ ہوجائے گی ۔

    اس حوالے سے پی سی بی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث پاک نیوزی لینڈ سیریز منسوخ کی گئی ہے، ان خدشات کا اظہار نیوزی لینڈ کی جانب سے کیا گیا ہے پی سی بی کا کہنا ہے کہ یہ نیوزی لینڈ کی حکومت کا یکطرفہ فیصلہ ہے۔

    اس حوالے سے نیوزی لینڈ چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ کا کہنا ہے کہ پی سی بی نے سیریز کیلئے بہت اچھے انتظامات کئے تھے، سیکورٹی الرٹ کی وجہ سےدورہ جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔

    ڈیوڈ وائٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ کرکٹ سیریز کی منسوخی پی سی بی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے، کھلاڑیوں کی سیکورٹی ہماری اولین ترجیح ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ ٹیم کے کھلاڑی محفوظ ہیں، حکومت کے سیکورٹی الرٹ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔

    پی سی بی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت پاکستان نے مہمان ٹیم کی سکیورٹی کے لیے فول پروف انتظامات کر رکھے تھے۔

    بیان کے مطابق پی سی بی نے نیوزی کرکٹ بورڈ کو بھی یہی یقین دہانی کرائی تھی اور وزیر اعظم نے ذاتی طور پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو رابطہ کر کے انھیں اس حوالے سے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی انٹیلیجنس دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ہے اور مہمان ٹیم کو کوئی سکیورٹی خطرہ نہیں ہے۔

    بیان کے مطابق نیوزی لینڈ ٹیم کے حکام نے حکومت پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی سکیورٹی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا۔

  • کون سی غذا کورونا وائرس کے حملے محفوظ رکھ سکتی ہے، نئی تحقیق

    کون سی غذا کورونا وائرس کے حملے محفوظ رکھ سکتی ہے، نئی تحقیق

    لندن : ویسے تو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سے اکثر نسخے دیسی ہوتے ہیں اور بہت سارے لوگ اس کو استعمال بھی کرتے ہیں۔

    لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرنے میں بہترین مددگار ہماری غذا ہے جو بیماری بچاؤ کیلئے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صحت کے لیے فائدہ مند غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد میں کوویڈ19 سے متاثر ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    کنگز کالج لندن اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں زوئی کوویڈ اسٹڈی ایپ کے لگ بھگ 6 لاکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ان افراد کو فروری 2020 کے دوران غذائی عادات کے حوالے سے ایک سروے حصہ بنایا گیا تھا جب ان ممالک میں کورونا کی وبا پھیلنا شروع نہیں ہوئی تھی بعد ازاں ان میں سے 19 فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد صحت کے لیے فائدہ غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں ان میں غیر معیاری خوراک کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ 10 فیصد اور کووڈ ہونے کی صورت میں سنگین بیماری کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    یہ پہلی طویل المعیاد تحقیق ہے جس میں غذا اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا اور ثابت ہوا کہ صحت بخش غذا سے بیماری سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ مخصوص غذائیں یا اجزا کی بجائے اس سروے میں وسیع غذائی رجحانات کو جاننے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

    تحقیق کے مطابق پھلوں، سبزیوں، اناج، چربی والی مچھلی پر مشتمل غذا صحت کے لیے بہت زیادہ مفید جبکہ پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال نقصان ہودہ ہوتا ہے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صحت کے لیے بہترین غذا کا استعمال عادت بناتے ہیں ان میں کووڈ کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تمام تر عناصر جیسے جسمانی وزن، عمر ، تمباکو نوشی، جسمانی سرگرمیوں اور پہلے سے مختلف بیماریوں کو مدنظر رکھنے پر بھی غذا کے معیار اور کووڈ کے خطرے کے درمیان تعلق برقرار رہا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب علاقوں کے رہائشی اور غیر معیاری غذا کا استعمال کرتے ہیں ان میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    ان نتائج کی بنیاد پر محققین نے تخمینہ لگایا کہ کووڈ کے لگ بھگ ایک چوتھائی کیسز کی روک تھام ممکن ہے اگر غذا کے معیار اور سماجی حیثیت کو بہتر بنا دیا جائے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل گٹ میں شائع ہوئے۔

  • نیوزی لینڈ میں چھ ماہ بعد کرونا سے پہلی ہلاکت، وزیراعظم کی وارننگ

    نیوزی لینڈ میں چھ ماہ بعد کرونا سے پہلی ہلاکت، وزیراعظم کی وارننگ

    آکلینڈ: نیوزی لینڈ میں چھ ماہ بعد کرونا سے ایک شخص کی ہلاکت پر جیسنڈا آرڈرن نے اہم ترین بیان جاری کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں کے مطابق آکلینڈ میں نوے سالہ خاتون کرونا کے باعث چل بسی، تاہم متاثرہ خاتون کو دیگر بیماریاں بھی لاحق تھیں، نیوزی لینڈ میں چھ ماہ کے دوران کورونا سے ہونے والی یہ پہلی ہلاکت ہے، اس سے قبل رواں سال سولہ فروری کو کرونا سے ہلاکت رپورٹ ہوئی تھی۔

    اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ خاتون کی ہلاکت ایک افسوسناک یاد دہانی ہے کہ حفاظتی اقدامات اختیار کرنا کیوں انتہائی اہم ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی عمر رسیدہ آبادی اور وہ افراد جو دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں، انہیں وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ: فائزر ویکسین لگوانے کے بعد خاتون ہلاک

    چھ ماہ کے وقفے سے اگست کے وسط میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا، اس کے بعد سے سات سو بیاسی کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر آکلینڈ شہر میں سامنے آئے تھے۔

    آکلینڈ میں کرونا سے نمٹنے کے لئے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے جبکہ دیگر شہروں میں پابندیوں میں نرمی کردی گئی ہے، صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے نئے ڈیلٹا ویریئنٹ پر قابو پایا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں کرونا وائرس کے تین ہزار 748 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ دو ہزار 971 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں جبکہ ستائیس افراد اس وبا کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

  • کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس صحت یاب ہونے والے افراد کی جان نہیں چھوڑتا بلکہ ایک سال بعد بھی دوبارہ حملہ آور ہوسکتا ہے اس بات کا انکشاف تحقیق کے بعد ہوا۔

    اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد مریضوں کو ایک سال بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ کوویڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کورونا وائرس کی وبا سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اس نئی تحقیق میں وہاں اس بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 12 سو میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بیماری کے ایک سال بعد بھی مختلف علامات کا سامنا تھا۔

    بیجنگ اور ووہان کے ہسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے چین کے صوبے ہوبئی کے مریضوں پر توجہ مرکوز کی تھی جس کے شہر ووہان میں 2019 کے آخر میں کووڈ کے اولین کیسز سامنے آئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 20 فیصد مریض 12 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے تھکاوٹ یا مسلز کی کمزوری کا سامنا کر رہے تھے۔

    اسی طرح 17 فیصد کو نیند کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ 11 فیصد کو بالوں سے محرومی کی علامت نے پریشان کیا۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ متعدد مریض صحتیاب ہوگئے ہیں مگر کچھ کی علامات کا تسلسل برقرار رہا بالخصوص ان افراد کو جو کوود سے بہت زیادہ بیمار ہوئے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مکمل صحتیاب نہیں ہوپاتے اور ایسے افراد کے لیے طویل المعیاد طبی نگہداشت کی سہولیات کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے ایسے مریضوں پر اب تک سب سے بڑے سروے تھا جو ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 1276 افراد کو شامل کیا گیا تھا جو جنوری سے مئی 2020 کے دوران  ووہان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔

    تحقیق میں شامل مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان کی صحتیابی کے 6 ماہ اور 12 ماہ مکمل ہونے پر طبی معائنے، لیبارٹری ٹیسٹ اور 6 منٹ کی چہل قدمی کے ٹیسٹ ک ذریعے صھت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ایک سال مکمل ہونے پر 6 ماہ کے مقابلے میں بہت کم افراد نے علامات کے تسلسل کو رپورٹ کیا، جبکہ 88 فیصد بیماری سے قبل کی ملازمتوں پر واپس لوٹ گئے۔

    تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر یہ مریض ووہان کے ان افراد کے مقابلے میں کم صحت مند ثابت ہوئے جن کو کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ ہر 10 میں سے 3 افرد کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ ان کو کسی حد تک ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کا بھی سامنا تھا۔4 فیصد مریضوں کو سونگھنے کے مسائل کا سامنا ریکوری کے ایک سال بعد بھی تھا۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایک سال بعد بیماری کی متعدل شدت کا سامنا کرنے والے 20 سے 30 فیصد مریضوں کو خون میں آکسیجن گزرنے کے مسئلے کا بھی سامنا تھا جبکہ وینٹی لیٹر سپورٹ پر رہنے والے 54 فیصد مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا تھا۔

    محققین نے کہا کہ کووڈ کے طویل المعیاد نتائج کو سمجھنے کے لیے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک مکمل طور پر نفسیاتی علامات جیسے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے جن کی شرح 6 ماہ کے مقابلے میں ایک سال بعد کچھ زیادہ تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس سے ہونے والی بیماری کے حیاتیاتی عمعل کا حصہ بھی ہوسکتا ہے یا جسمانی مدافعتی ردعمل اس کے پیچھے ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

  • گھر کے اندر ماسک پہننے کی ضرورت ہے یا نہیں؟؟

    گھر کے اندر ماسک پہننے کی ضرورت ہے یا نہیں؟؟

    عالمی وبا کورونا وائرس نے اب تک لاکھوں لوگوں کو زندگی سے محروم کرچکا ہے اور اب اس کئ دیگر اقسام بھی سامنے آرہی ہیں جو پچھلے وائرس سے زیادہ جان لیوا ہیں۔

    کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا بے حد ضروری ہے جس میں چہرے پر ماسک پہننا سب سے اہم ہے جو انسانوں کو کورونا سے بچاؤ  کیلئے مؤثر اور کارآمد ہے ۔

    اس حوالے سے کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھر یا کسی بھی چاردیواری کے اندر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے بہتر فیس ماسک کا استعمال زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

    واٹر لو یونیورسٹی کی تحقیق میں پتلوں کو استعمال کرکے فیس ماسک کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔ تحقیق میں دیکھا گیا کہ کسی بڑے کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کے سانس لینے سے فیس ماسک پہنے لوگوں سے بیماری پھیلنے کا خطرہ کتنا ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں ثابت ہوا کہ سانس لینے سے بہت ننھے ذرات یا ایروسول ڈراپلیٹس کا اجتماع فضا میں ہونے والے لگتا ہے چاہے عام کپڑے کے ماسک اور سرجیکل ماسکس کا استعمال ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ یہ ننھے ذرات ہوا میں معلق اور سفر کرسکتے ہیں اور لوگوں میں بیماری کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قسم کا فیس ماسک استعمال کرنا کسی کمرے میں لوگوں کے قریب یا دور ہونے پر کووڈ سے تحفظ کے حوالے فائدہ مند ہوتا ہے مگر مختلف اقسام کے ماسکس کی افادیت میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے بالخصوص ایروسولز کو کنٹرول کرنے کرنے کے حوالے سے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ سے متاثرہ افراد کی جانب سے خارج کیے گئے ننھے وائرل ذرات بیماری کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ عام استعمال فیس ماسکس (کپڑے کے ماسک) منہ سے خارج ہونے والے 10 فیصد ننھے ذرات کو فلٹر کرپاتے ہیں جس کی وجہ ان کے فٹنگ کے مسائل ہیں، جبکہ باقی ذرات ماسک کے اوپری حصے سے فلٹر ہوئے بغیر باہر نکل جاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں زیادہ مہنگے این 95 اور کے این 95 ماسکس 50 فیصد سے زیادہ ایروسول ذرات کو فلٹر کرتے ہیں اور باقی چاردیواری کے اندر جمع ہوکر سانس لینے سے لوگوں میں کووڈ کا باعث بن سکتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ کھلی فضا میں کپڑے کے ماسک اور سرجیکل ماسکس کا استعمال ٹھیک ہے مگر چاردیواری کے اندر جیسے اسکول یا دفتر وغیرہ میں جس حد تک ممکن ہو این 95 اور کے این 95 ماسکس کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ طبی عملہ این 95 ماسکس کا استعمال کرتا ہے جو زیادہ بہتر کام کرتے ہیں اور اس خیال کو ہمارے نتائج نے ٹھوس اعدادوشمار و تجزیے نے درست ثابت کیا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل فزکس آف فلوئیڈز میں شائع ہوئے۔

    تحقیق میں کسی جگہ میں ہوا کی نکاسی کے نظام کے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا اور دریافت ہوا کہ کسی مقام میں ہوا کی نکاسی کی معتدل شرح بھی وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنے کے لیے مؤثر ہے۔

  • وہ علامات جو ڈیلٹا ویریئنٹ کا سبب بنتی ہیں

    وہ علامات جو ڈیلٹا ویریئنٹ کا سبب بنتی ہیں

    کئی ممالک میں اب کرونا وائرس کے زیادہ تر انفیکشن ڈیلٹا ویریئنٹ کے ہیں، فرانس میں اسی فیصد سے زیادہ کووڈ ٹیسٹ ڈیلٹا ویریئنٹ کے مثبت تھے، ڈیلٹا اکثر کووڈ نائٹین کی جدید شکل کے مقابلے میں ہلکی علامات کے ساتھ ہوتا ہے، یہ کی علامات کیا ہیں؟۔

    ڈیلٹا کی عام علامات
    برطانیہ میں ’زو کووڈ اسٹڈی‘ کے لیے ایک ایپ بنائی گئی جہاں مریض اپنی علامات کی اطلاع دیتے تھے، اس تجربے سےمعلوم ہوا کہ زیادہ تر کیسز میں علامات کافی ہلکی دکھائی دیتی ہیں، سب سےعام علامات یہ ہیں

    گلے کی سوزش
    بخار
    سر درد
    ناک کا بہنا

    الفا ویریئنٹ اور اصل کووڈ نائنٹین کے برعکس ڈیلٹا ویرینئٹ کے ساتھ کھانسی کم دکھائی دیتی ہے، یہی معاملہ ذائقہ اور بو کے ختم ہونے کا ہے جو برطانوی مریضوں نے پانچویں نمبر پر رپورٹ کیا تھا۔

    الفا ویریئنٹ کی علامات
    الفا میوٹیٹر کی سب سے عام علامات جن پر آپ کو توجہ دینی چاہیے، وہ یہ ہیں

    سردی کے ساتھ 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر بخار
    خشک یا مرطوب کھانسی
    ناک کا بہنا
    سانس میں تنگی کی علامات جیسے کھانسی، جکڑن یا سینے میں درد اور بعض اوقات سانس لینے میں دشواری۔
    درد (پٹھوں کا درد)
    بو کے احساس کا ختم ہونا یا ذائقے کا فقدان۔
    سر درد
    نظام انہضام کی مشکلات(اسہال)
    غیر معمولی تھکاوٹ (آستینیا)

    دیگر غیر معمولی علامات میں آشوبِ چشم، خارش یا منہ کے زخم کی نشاندہی کی گئی ہے جو کرونا والے شخص میں ہوسکتے ہیں۔

    اسی طرح اگر سانس میں تنگی شروع ہوجائے، تیز یا آہستہ سانس یا سوتے ہوئے سانس لینے میں تکلیف وغیرہ تو وہ بھی کرونا کی علامت میں شامل ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:کرونا مریض ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں، ماہرین کی تنبیہ

    اس کے علاوہ کرونا وائرس کی بہت سی شکلیں بغیر علامات کے ہوتی ہیں، مطلب یہ ہے کہ وہ علامات ظاہر نہیں کرتیں، ایسے غیرعلامتی کیسز کی تعداد خاص طور پر بچوں میں زیادہ ہوسکتی ہے۔

    کرونا وائرس علامات ظاہر ہونے سے پہلے متعدی ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ایک متاثرہ شخص جو علامات محسوس نہیں کرتا وہ دوسروں کو متاثر کر سکتا ہے تاہم ایک صحت مند کیریئر(شخص) کم متعدی ہے کیونکہ وہ کھانسی نہیں کرتا (وائرس کھانسی اور چھینکنے کے دوران پھیلنے والی بوندوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے)۔

  • کورونا سے متاثرہ بچوں میں کیا علامات ہوتی ہیں ؟ نئی تحقیق

    کورونا سے متاثرہ بچوں میں کیا علامات ہوتی ہیں ؟ نئی تحقیق

    عالمی وبا کورونا وائرس سے دنیا بھر میں بڑوں کے ساتھ بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے اور ان میں سے کچھ کو پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں میں اکثر بیماری کی کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ ایک تخمینے کے مطابق کوویڈ 19 کے شکار ایک تہائی افراد میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    یالے اسکول آف میڈیکل ہیلتھ کی اس تحقیق میں اپریل2021 تک شائع ہونے والی 350 سے زیادہ تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا منظم تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمر افراد یا پہلے سے کسی بیماری سے متاثر لوگوں کے مقابلے میں بچوں میں کوویڈ کی بغیر علامات والی بیماری زیادہ عام ہوتی ہے۔

    تحقیقی ٹیم کے تخمینے کے مطابق 46.7 فیصد مریض بچوں میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ محققین نے بتایا کہ یہ نتائج اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہیں کیونکہ بچے کسی محدود جگہ پر اپنی عمر کے بہت زیادہ بچوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں قریب رہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی انتظامیہ اگر علامات کی مانیٹرنگ تک محدود رہتی ہے تو بغیر علامات والے مریض بچوں سے کوویڈ 19 کے سپر اسپریڈر ایونٹس کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بغیر علامات والے مریض بھی وائرس کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں جس کے باعث فیس ماسک کا استعمال بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے، بالخصوص تعلیمی اداروں کے کھلنے پر۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پی اے این ایس میں شائع ہوئے، مذکورہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب اگست 2021 کے آغاز میں ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کوویڈ سے متاثر بچے اس وائرس کو اپنے گھر میں دیگر افراد میں منتقل کرسکتے ہیں۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں گزشتہ سال موسم گرما میں امریکی ریاست جارجیا میں ایک سلیپ اوے کیمپ میں شریک کرنے والے بچوں سے ان کے گھروں میں کورونا کے پھیلاؤ کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کیمپ میں شریک بچوں نے گھر واپسی پر کووڈ کو گھر والوں تک منتقل کردیا۔ محققین نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اسکول جانے کی عمر کے بچوں سے گھر کے افراد میں کورونا بہت آسانی سے پھیل سکتا ہے اور بالغ افراد کو بیماری کے باعث ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑ سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن گھروں میں بچوں سے لوگوں تک بیماری منتقل ہوئی وہاں گھر کے آدھے افراد اس بیماری کے شکار ہوئے۔ محققین نے کہا کہ بچوں سے وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال سےکم کیا جاسکتا ہے۔

  • کورونا کا "بیٹا ویریئنٹ” کتنی تیزی سے حملہ کرتا ہے؟

    کورونا کا "بیٹا ویریئنٹ” کتنی تیزی سے حملہ کرتا ہے؟

    دوحا : قطر میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی خاص قسم "بیٹا” (جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی تھی) سے متاثرہ افراد میں کوویڈ کی شدت سنگین ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    عالمی وبا کورونا وائرس کی قسم بیٹا کو بی 1351 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو سال 2020 کے آخر میں جنوبی افریقہ کے ایک ملک میں دریافت ہوئی تھی۔

    کچھ شواہد سے عندیہ ملا تھا کہ کورونا کی اس قسم کے باعث جنوبی افریقہ میں وبا کی دوسری لہر کے دوران کوویڈ کے سنگین کیسز کی تعداد پہلی لہر کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔

    اس قسم سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں یا نہیں، اسی بات کا تعین کرنے کے لیے قطر کے ویل کارنل میڈیسن کی جانب اس ملک میں 2021 کے اوائل میں کوویڈ سے بیمار ہونے والے افراد پر تحقیق کی گئی، اس وقت قطر میں بیٹا اور ایلفا زیادہ گردش کرنے والی کورونا اقسام تھیں۔

    ایلفا قسم سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی تھی جبکہ تحقیقی ٹیم نے بیٹا کے اثرات کا موازنہ ڈیلٹا قسم سے نہیں کیا، جس کو بھی بیماری کی شدت میں اضافے سے منسلک کیا جارہا ہے کیونکہ وہ اس وقت قطر میں پھیل نہیں رہی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کورونا کی قسم بیٹا سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں ایلفا سے بیمار افراد کے مقابلے میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین ہونے امکان 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بیٹا کے مریضوں کے لیے آئی سی یو نگہداشت کا امکان 50 فیصد اور موت کا خطرہ 57 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ یہ مشاہدات وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئے، یعنی قطر میں جیسے جیسے بیٹا قسم پھیلنا شروع ہوئی تو ہسپتال میں داخلے کی شرح دگنا بڑھ گئی جبکہ آئی سی یو میں داخلے اور اموات کی شرح 4 گنا بڑھ گئی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ہم کورونا کی ایک زیادہ خطرناک قسم کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ تحقیق کا دائرہ زیادہ بڑا نہیں تھا مگر نتائج اس لیے اہم ہیں کیونکہ تحقیق میں کورونا کی مختلف اقسام سے متاثر افراد پر مرتب نتائج کا موازنہ انتہائی احتیاط سے کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل جولائی میں جنوبی افریقہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ اس ملک میں وبا کی دوسری لہر کے دوران ہسپتال میں داخلے کے بعد اموات کی شرح میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا۔

    اس وقت جب کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا پھیل رہی ہے، تو بیشتر ممالک بشمول جنوبی افریقہ اور قطر میں بیٹا قسم کا پھیلاؤ کم ہوگیا ہے۔

    مگر تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ بیٹا ویکسینز اور بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف دیگر اقسام بشمول ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ قسم ایک بار پھر تباہی پھیلا سکتی ہے اور ہمیں بیٹا کے اثرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ انہیں پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔

  • کرونا وائرس موبائل اسکرین پر کتنے عرصے زندہ رہتا ہے؟ جانئے اہم حقائق

    کرونا وائرس موبائل اسکرین پر کتنے عرصے زندہ رہتا ہے؟ جانئے اہم حقائق

    عالمی وبا کرونا کے آغاز کے ساتھ ہی سائنسدان اس کھوج میں لگے کہ یہ وائرس مخلتف اشیا پر کتنے دن تک زندہ رہ سکتا ہے؟ تحقیق کے دوران اختلاف رائے بھی پیدا ہوا مگر تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ ہاتھوں کو بار بار دھونے سے وبا سے بچا جاسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کی نیشنل سائنس ایجنسی (سی ایس آئی آر او) کے سائنس دانوں کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق بیس ڈگری سیلسیئس تک کے درجہ حرات والے ماحول میں کرونا کی بیماری کا سبب بننے والا سارس کو ٹو وائرس کرنسی نوٹ اور موبائل فون کی اسکرین کی شیشے جیسی چکنی سطحوں پر اٹھائیس دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔

    وائرولوجی نامی جریدے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے مقابلے میں انفلونزا اے کا وائرس اسی طرح کی چکنی سطحوں پر صرف سترہ دنوں تک ہی زندہ رہ پاتا ہے۔

    اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر شین ریڈل کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہاتھوں کو دھونے اور جہاں ممکن ہو اس جگہ کو سینیٹائز کرنے اور وائرس کے ربط میں آنے والے سطحوں کو صاف کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

    محققین کے نزدیک کرونا وائرس کم درجہ حرارت پر کھردری یا ناہموار سطح میں کم وقت تک زندہ رہ پاتا ہے، تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کپڑے جیسی کھردری سطح پر یہ وائرس چودہ دنوں کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔اس سے قبل تجربہ گاہوں میں کیے گئے تجربات سے پتہ چلا تھا کہ کرنسی نوٹ اور شیشے پر کورونا وائرس دو یا تین دنوں تک ہی زندہ رہ سکتا ہے جب کہ پلاسٹک اور اسٹین لیس اسٹیل کی سطح پر یہ چھ دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔

    کارڈف یونیورسٹی کے کامن کولڈ سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ران ایکسل نے اس تحقیق پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وائرس اٹھائیس دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے، اس سے لوگوں میں غیرضروری خوف پیدا ہوا۔

    یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    ڈاکٹر ایکسل کے مطابق یہ وائرس کھانسی یاچھینکنے کی وجہ سے باریک ذرات اور گندے ہاتھوں سے پھیلتا ہے لیکن اس تحقیق میں وائرس پھیلنے کے سبب کے طور پر انسان کے تازہ بلغم کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔

    انسان کے تازہ بلغم میں بڑی تعداد میں ایسے وائٹ سیل ہوتے ہیں جو وائرس کو ختم کرنے کے لیے انزائم بناتے ہیں، بلغم میں وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے اینٹی باڈی اور کیمیکل بھی ہوسکتے ہیں۔