Tag: Corona virus

  • کرونا سے متاثرہ بھارتی بچے نئے اور خطرناک مرض میں مبتلا

    کرونا سے متاثرہ بھارتی بچے نئے اور خطرناک مرض میں مبتلا

     رواں ماہ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں چار بچوں کو سانس لینے میں تکلیف اور بلڈ پریشر کم ہونے کی علامات کے ساتھ ایک ہسپتال لایا گیا۔ ان کی ماں کو ایک مہینہ پہلے کووِڈ-19 ہوا تھا۔ بچوں میں اس مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    شیواگرام کے کستوربا ہسپتال میں ان نو عمر بچوں میں البتہ اینٹی باڈیز کا ضرور پتہ چلایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ماضی میں کووِڈ ہو چکا ہے۔

    اب وہ ایک نایاب اور ممکنہ طور پر زندگی کے لیے خطرناک multi-system inflammatory syndrome یا مختصراً MIS-C نامی ایک مرض سے لڑ رہے ہیں۔ یہ حالت عموماً کووِڈ-19 سے صحت یابی کے بعد چار سے چھ ہفتوں میں بچوں اور نو عمر افراد میں ہوتی ہے۔

    کستوربا ہسپتال میں ان میں سے دو بچوں کی صحت تو بحال ہو چکی ہیں لیکن باقی دو اب بھی انتہائی نگہداشت میں ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں کہ یہ مسئلہ کتنا شدید ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بھارت میں اس مرض کے حوالے سے اعداد و شمار بھی موجود نہیں۔

    ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کرونا وائرس کی دوسری خطرناک لہر کمزور پڑ رہی ہے، بھارت بھر میں بچوں کے امراض کے معالج اس نایاب لیکن سنگین مرض کا سامنا کرنے والے کئی بچوں کی اطلاع دے رہے ہیں۔ فی الحال اندازہ نہیں کہ بھارت میں اب تک کتنے بچے اس سے متاثر ہو چکے ہیں لیکن امریکا میں ایسے 4,000 سے زیادہ کیس سامنے آئے اور اب تک 36 کی اموات ہو چکی ہیں۔

    دلّی کے گنگا رام ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بچوں کے معالج ڈاکٹر دھیرن گپتا مارچ سے اب تک 4 سے 15 سال کے ایسے 75 سے زیادہ مریض دیکھ چکے ہیں۔ ان کے ہسپتال نے 18 بستروں پر مشتمل ایم آئی ایس – سی  وارڈ تشکیل دیا ہے۔ ان کے خیال میں دارالحکومت اور اس کے مضافات میں ایسے 500 سے زیادہ مریض ہیں۔

    تقریباً 1,500 کلومیٹرز دور مغربی شہر پونے میں میں سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر آرتی کنیکر نے اپریل سے اب تک ایسے 30 کیس دیکھے ہیں۔ بیمار بچوں میں سے 13، جن کی عمریں 4 سے 12 سال تھیں، اب بھی ہسپتال میں داخل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر myocarditis سے دوچار ہیں، جو ایسا مرض ہے جس میں دل کے پٹھے میں ورم آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر آرتی کے مطابق کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد اس کے مریضوں کی تعداد کافی بڑھی ہے۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پٹھوں میں ورم آنے عارضہ دراصل وائرس کے خلاف جسم میں مدافعت کے نظام کے شدید ترین رد عمل کی وجہ سے ہوتا ہے، جس سے اہم ترین اعضا میں ورم پیدا ہو جاتا ہے۔

    اس کی علامات ابتداء میں دوسری بیماریوں جیسی ہوتی ہیں، مثلاً تیز یا مستقل بخار، جسم پر لال دانے، پیٹ میں درد، بلڈ پریشر کا کم ہونا، جسم میں درد اور غنودگی طاری ہونا ہیں۔ چند علامات ‘کاواساکی مرض’ جیسی ہیں جو خود ایک نایاب مرض ہے جو پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔

    دلّی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز  میں پیڈیاٹرکس یعنی بچوں کے امراض کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جھوما سنکر کے مطابق یہ مرض واقعی درمیانی شدت کے کاواساکی سے لےکر متعدد اعضا کے کام کرنا چھوڑ دینے جیسی مختلف علامات کا مرکب ہے۔

    ڈاکٹروں کے مطابق ورم بڑھنے سے خطرناک نتائچ نکل سکتے ہیں، مثلاً نظامِ تنفس یعنی سانس لینے کے نظام کا خراب ہو جانا اور دل، گردوں اور جگر جیسے متعدد اعضا کا متاثر ہونا۔ اس مرض کے حامل بچوں میں عصبیاتی مسائل بھی ظاہر ہوتے ہیں۔

  • کورونا کی چوتھی قسم ڈیلٹا : ماہرین نے بڑے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کورونا کی چوتھی قسم ڈیلٹا : ماہرین نے بڑے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    برسلز : یورپی طبی ماہرین نے دنیا کو ڈیلٹا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے خبردار کردیا ان کا کہنا ہے کہ آنے والی گرمیوں کی چھٹیوں میں وائرس کے دوبارہ پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

    یورپ میں بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے مرکز کی خاتون سربراہ آندریا آمون نے اپنے بیان میں کہا کہ اگست کے آخر تک یورپی یونین کے رکن ممالک میں کورونا کے 90فیصد کیسوں میں نئی قسم ڈیلٹا وائرس کارفرما ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ڈیلٹا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کا قوی امکان ہے، خاص طور پر ان نوجوانوں میں، جنہیں ابھی تک کورونا ویکسین نہیں لگائی گئی ہے۔

    کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا جسے بی 1617.2 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دسمبر2020 میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی اور اب تک یہ وائرس ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی جان لے چکا ہے۔

    اب یہ قسم بھارت اور برطانیہ میں سب سے زیادہ کیسز کا باعث بننے والی قسم ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں بھی جلد اس کا غلبہ ہوگا۔

    واضح رہے کہ کورونا وائرس کی چوتھی قسم ڈیلٹا نے بھارت میں خوفناک تباہی مچائی تھی جس میں یومیہ چار ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے تھے، وائرس کے تیزی سے پھیلنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یومیہ لاکھوں افراد اس کا شکار ہوتے تھے۔

  • کورونا وائرس اس پہلے دنیا میں کب آیا؟  نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف

    کورونا وائرس اس پہلے دنیا میں کب آیا؟ نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف

    عالمی وبا کورونا وائرس سال 2020 کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو متاثر کرچکا ہے جبکہ لاکھوں افراد کی موت کی وجہ بن چکا ہے اور ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس سے قبل کورونا وائرس ہزاروں سال پہلے بھی دنیا میں پھیل چکا ہے۔

    سال2002میں چین میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی پہلی وبا کو سارس (سیویر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم) کا نام دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 8 ہزار افراد متاثر جبکہ 800 ہلاک ہوئے تھے۔

    جس کے چار سال بعد مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم نامی (ایم ای آر ایس) کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں 2400 افراد متاثر جبکہ 850سے زائد ہلاک ہوئے تھے اور ان دنوں دنیا کو "کو سار-کو وی-ٹو” کی متعدد اقسام کا سامنا ہے جو کوویڈ-19 نامی بیماری کی وجہ بن رہی ہیں۔

    اس حوالے سے آسٹریلیا اور امریکی سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم نے یہ دریافت کیا ہے کہ لگ بھگ 25 ہزار سال قبل مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کی ایک وبا پھوٹ پڑی تھی جو 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

    کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اس انکشاف کے شواہد خطے کے موجودہ لوگوں کے جینوم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

    تحقیق کے شریک مصنف اور کوئنز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں حیاتیاتی ماہر کیریل الیگزینڈرو نے کہا کہ اس وائرس نے آبادی میں ایک بڑی تباہی پھیلائی تھی اور اہم جینیاتی داغ بھی چھوڑا۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ کسی درخت پر موجود دائروں کی طرح ہمارا جینیٹک کوڈ بھی ہمارے قدیم ماضی کی داستان سناسکتا ہے۔ ہمارے جینز میں ہونی والی میوٹیشنز کا مطلب ہے کچھ لوگ فطری طور پر وائرسز سے جلدی متاثر ہوسکتے ہیں یا ان میں بیماری کی سنگین علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

    ڈاکٹر سولیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی ماضی قدیم میں بھی انسان کورونا وائرسز کا شکار ہوئے تھے یا نہیں اور یہ چیز ہمارے جینوم کے ذریعے سامنے آسکتی ہے۔

    لہٰذا انہوں نے دنیا بھر سے ہزاروں انسانوں کے جینومز کا سروے کیا اور اسے1000 جینوم پروجیکٹ ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا۔

    ویتنام، چین اور جاپان سے تعلق رکھنے والے افراد میں کورونا وائرس سے تعلق رکھنے والی جینیاتی علامات پائی گئیں تاہم یہ علامات دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کے جینز میں ظاہر نہیں ہوئی۔

    ڈاکٹر سولیمی نے کہا کہ یہ علامات ظاہر ہونے کے بعد ہم نے یہ جاننے کے لیے مختلف ٹولز استعمال کیے کہ اس خطے کے لوگوں میں یہ جینیاتی تبدیلیاں کتنا عرصہ پرانی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تبدیلیاں لگ بھگ 25 ہزار سال قبل رونما ہونا شروع ہوئیں۔

    محقیقین کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ وائرس نے پانچ ہزار سال قبل جینومز پر ارتقائی دباؤ ڈالنا چھوڑدیا تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ وبا 20 ہزار سال تک جاری رہی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک وائرس یا وائرسز کی سیریز بھی ہوسکتا ہے جنہوں نے ایک ہی مالیکیولر مشینری استعمال کی کیونکہ ایک اور تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ "سارس-کووی-ٹو” کی وائرل فیملی تقریبا 23 ہزار سال پہلے سامنے آئی تھی۔

  • پڑوسی کی شکایت پر خاتون نے بیٹے سمیت خود کشی کیوں کی

    پڑوسی کی شکایت پر خاتون نے بیٹے سمیت خود کشی کیوں کی

    ممبئی : بھارت میں اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے، محض پڑوسی کی شکایت کرنے پر بیوہ خاتون نے اپنے چھوٹے بیٹے سمیت بارہویں منزل کود کر خود کشی کرلی، خاتون کے ساس سسر بھی کچھ روز قبل کورونا سے ہلاک ہوگئے تھے۔

    عالمی وبا کورونا وائرس نے اب تک لاکھوں افراد کی جان لے لی تو بے شمار لوگوں کو دنیا میں بالکل اکیلا کردیا، ایک ایسا ہی واقعہ ممبئی اندھیری کے چاندیولی علاقہ میں رہنے والے ایک خاندان کے  ساتھ پیش آیا۔

    مذکورہ علاقے کے ایک فلیٹ میں ریشما تینترل نامی خاتون رہائش پذیرتھیں جس میں ان کے شوہر اور بیٹے کے علاوہ ساس، سسر بھی رہتے تھے، گزشتہ دنوں اپریل کے مہینے میں کورونا سے ان کے ساس اور سسر کا انتقال ہوگیا اور پھر اس کے بعد ان کے شوہر شرد کا 23 مئی کو انتقال ہو گیا۔

    اس دن کے بعد سے ریشما اور ان کا بیٹا گروڑ گھر میں اکیلے رہ گئے تھے لیکن اچانک 21 جون کو ریشما نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے فلیٹ کی12ویں منزل سے کود کر خود کشی کرلی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مقامی پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس کو ان کے گھر سے ایک خود کشی کا نوٹ ملاہے جس میں ریشما نے لکھا ہے کہ ان کی بلڈنگ میں گیارہویں منزل پر رہنے والے ان کے پڑوسی نے ان کو پریشان کر رکھا تھا جس کی وجہ سے  تنگ آکر خود کشی کررہی ہوں۔

    پولیس کے مطابق ریشما کا بیٹا کھیلتا تھا تو نیچے فلیٹ والوں کو شور سھے پریشانی ہوتی تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں نے کئی مرتبہ سوسائٹی آفس اور تھانے میں بھی شکایت کی تھی۔ سوسائٹی کے ذمہ داران نے ریشما اور ان کے پڑوسی ایوب خان سے بات چیت کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کے لئے کہا تھا اس بار بار کی شکایت کی وجہ سے ریشما نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ خودکشی کے نوٹ کی بنیاد پر ایوب خان اور اس کے گھر والوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے ایوب خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ باقی ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ مقتولہ کی لاش ان کے بھائی کی بیرون ملک آمد کے بعد حوالے کردی جائے گی۔

    واضح رہے کہ متوفیہ ریشما صحافی رہ چکی تھی اور اب وہ صرف ایک گھریلو خاتون تھیں جبکہ ان کے شوہر ایک آن لائن ٹریڈنگ کمپنی میں چیف بزنس افسر تھے۔ ریشما نے 30 مئی کو ایک بہت جذباتی پوسٹ فیس بک پر تحریر کی تھی جس میں انہوں نے اپنے شوہر، اپنے تعلقات اور اپنی زندگی کے بارے میں بہت جذباتی انداز میں لکھا تھا۔

  • کورونا کے مزید44 مریض جاں بحق، ملک بھر میں ویکسی نیشن جاری

    کورونا کے مزید44 مریض جاں بحق، ملک بھر میں ویکسی نیشن جاری

    اسلام آباد : پاکستان میں مزید 44 کورونا کے مریض جاں بحق ہوگئے جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 22 ہزار 152 ہوگئی، ملک بھر میں ایک ہزار52 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے کورونا کیسز کےتازہ ترین اعداد وشمارجاری کردیئے گئے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ 24 گھنٹے میں مزید 44 کورونا کے مریض جاں بحق ہوئے جس کے بعد مجموعی اموات کی تعداد 22ہزار152 ہوگئی جبکہ ملک بھر میں کورونا کے 2ہزار29 کیسز تشویشناک نوعیت کے ہیں۔

    ملک بھرمیں 24 گھنٹے کے دوران 45ہزار924 ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے ایک ہزار52افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی مجموعی تعداد 9 لاکھ52 ہزار 907 تک جا پہنچی۔

    این سی او سی کا کہنا ہے کہ ملک میں 24گھنٹے میں کوروناوائرس کے ٹیسٹ مثبت آنےکی شرح 2.29 فیصد ہوگئی جبکہ کورونا کے 8لاکھ 97ہزار834 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

    جاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں 3 لاکھ34 ہزار 453، پنجاب میں 3 لاکھ 42 ہزار 498، خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 37ہزار 484، بلوچستان میں 26 ہزار 893 ، اسلام آباد میں 82 ہزار 502، آزاد کشمیر میں 20 ہزار 121 اور گلگت بلتستان میں 5 ہزار 908 افراد کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔

  • جوان افراد کورونا وائرس سے انتہائی محتاط رہیں، تحقیق میں انکشاف

    جوان افراد کورونا وائرس سے انتہائی محتاط رہیں، تحقیق میں انکشاف

    ناروے میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ19 کو شکست دینے والے 50 فیصد سے زیادہ جوان افراد میں بیماری کی طویل المعیاد علامات موجود ہوتی ہیں۔

    برجن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 16 سے 30 سال کے ایسے 312 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

    یہ افراد ناروے میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے 247 کو گھر میں رکھ کر علاج کیا گیا جبکہ 65 کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد 61 فیصد افراد میں علامات کا تسلسل برقرار تھا جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    ان افراد میں 6 ماہ بعد موجود علامات میں سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور یادداشت کے مسائل سب سے عام تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ 30 سال کی عمر تک کے جوان افراد میں معمولی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی علامات موجود تھیں۔

    انہوں نے کہا کہ گھروں میں آئسولیٹ ہونے والے ان مریضوں میں اینٹی باڈیز کی زیادہ سطح اور علامات کے تسلسل کا تعلق موجود تھا، علامات کا خطرہ بڑھانے والے دیگر عناصر میں دمہ یا پھیپھڑوں کی کوئی دائمی بیماری قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ گھروں میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 30 فیصد مریضوں میں تھکاوٹ کی علامت س سے عام تھی۔16سال سے کم عمر بچوں میں بالغ افراد کے مقابلے میں طویل المعیاد علامات کی تعداد بہت کم تھی۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ یادداشت متاثر ہونے اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کالجوں یا یونیورسٹی میں زیرتعلیم نوجوانوں کے لیے تشویشناک علامات ہیں۔

    انہوں نے کہ اس سے کووڈ 19 سے شکار ہوکر صحت پر مرتب ہونے والے طویل المعیاد منفی اثرات کی روک تھام کے لیے ویکسینیشن کی اہمیت کا بھی عندیہ ملتا ہے۔

  • کورونا وائرس کن لوگوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے؟؟ ہوشربا تحقیق

    کورونا وائرس کن لوگوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے؟؟ ہوشربا تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند کی کمی جسمانی صحت کے لیے تو تباہ کن ثابت ہوتی ہی ہے مگر اس کے نتیجے میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ رات کو نیند کا دورانیہ، نیند کے مسائل اور ملازمت سے جڑا تناؤ یا دیگر مسائل ممکنہ طور پر وائرل امراض جیسے کوویڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہوسکتے ہیں۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ایک طویل المعیاد یوکے بینک اسٹڈی کے 46 ہزار افرد کے سروے میں جوابات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 8 ہزار 422 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    ان افراد سے 2006 سے 2010 کے دوران نیند کے دورانیے، دن کے وقت غنودگی، بے خوابی اور جسمانی گھڑی سے متعلق سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے۔

    اس نئی تحقیق کے لیے محققین نے ناقص نیند سے جڑی عادات کے حوالے سے ان افراد کو اسکور دیئے۔ نتائج سے عندیہ ملا کہ نیند کے مسائل کے نتیجے میں کووڈ 19 کے شکار افراد میں موت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد جن میں نیند کے حوالے سے نقصان دہ محض 2 یا ایک عادت بھی موجود ہوتی ہے تو بھی ان میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ فرق بہت اعدادوشمار کے حوالے سے زیادہ بہت زیادہ نہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کی تصدیق کی جاسکے۔

    مگر یہ بات طبی سائنس پہلے ہی دریافت کرچکی ہے کہ ناقص نیند مدافعتی نظام کو متاثر اور بلڈ کلاٹس کا خطرہ بڑھاتی ہے، یہ دونوں ہی کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

    محققین نے کہا کہ یند کے رویوں پر نظر رکھنا مکمنہ طور پر اہم ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے کووڈ کے نتیجے میں اموات اور ہسپتال میں داخلے کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس تحقیق کے تنائج طبی جریدے جرنل کلینکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔

    اس سے قبل اپریل 2021 میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ اچھی نیند کا مزہ لینے والے اور اپنی ملامتوں سے مطمئن افراد میں کووڈ 19 کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں 2844 ہیلتھ ورکرز کو شامل کی گیا تھا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ رات کو نیند کا ہر اضافی گھنٹہ کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ 12 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ملازمت سے متعلق تھکاوٹ یا جسمانی توانائی میں کمی کے مسئلے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں کووڈ 19کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 2.6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت ایسے افراد میں کووڈ 19 کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اورر انہیں زیادہ سنگین علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کورونا وائرس : عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو بڑے خطرے سے آگاہ کردیا

    کورونا وائرس : عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو بڑے خطرے سے آگاہ کردیا

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا سریع الحرکت اور اب تک کی ایسی قسم ہے جو کمزور افراد کو تلاش کرکے ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    گزشتہ روز کی جانےوالی نیوز کانفرنس کے دوران عالمی ادارے کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان نے کہا کہ ڈیلٹا مزید جان لیوا ہوسکتی ہے کیونکہ انسانوں کے درمیان اس کی منتقلی بہت زیادہ مؤثر طریقے سے ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈیلٹا قسم بتدریج ایسے کمزور افراد تلاش کرلے گی جو بہت زیادہ بیمار ہوجائیں گے، ہسپتال میں داخل ہوگے اور ان کی ہلاکت کا خطرہ ہوگا۔

    انہوں نے کہا ‘کورونا کی یہ مخصوص قسم سریع الحرکت اور حالات سے مطابقت پیدا کرنے والی ہے، جو سابقہ اقسام کے مقابلے میں کمزور افراد کو زیادہ افادیت سے منتخب کرتی ہے اور اگر لوگوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو وہ مستقبل میں خطرے کی زد میں ہوں گے’۔

    عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈیلٹا کے پھیلاؤ کی رفتار کو سست کرنے کے لیے غریب ممالک کو مزید ویکسینز عطیہ کریں۔ ڈبلیو ایچ او کی کووڈ 19 کی ٹیکنیکل ٹیم کی سربراہ ماریہ وان کرکوف نے کہا کہ ڈیلٹا قسم اب تک 92 ممالک تک پہنچ چکی ہے۔

    انہوں نے کہا ‘بدقسمتی سے ہم اب تک درست مقامات پر لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ویکسینز فراہم نہیں کرسکے۔

    خیال رہے کہ کورونا کی یہ قسم سب سے پہلے بھارت میں سامنے آئی تھی جس کے نتیجے میں وہاں دوسری لہر کے دوران ریکارڈ کیسز اور اموات ہوئی تھیں۔

    عالمی ادارے کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا جلد عامی سطح پر کورونا کی بالادست قسم ہوگی، جس نے برطانیہ میں ایلفا قسم کو پیچھے چھچوڑ دیا ہے اور جلد امریکا میں بھی غلبہ حاصل کرنے والی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے کچھ عرصے قبل باعث تشویش قسم قرار دیا تھا، یعنی یہ زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، زیادہ جان لیوا اور ویکسینز کے خلاف زیادہ مزاحم کرتی ہے۔

    ڈیلٹا قسم ایلفا کے مقابلے میں بظاہر 60 فیصد زیادہ متعدی ہے جو پہلے ہی دیگر اوریجنل وائرس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی قرار دی گئی ہے۔

    برطانوی ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا سے متاثر افراد میں ہسپتال داخلے کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ ویکسین کی پہلی خوراک کے استعمال سے اس نئی قسم سے زیادہ تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ فائزر یا ایسٹرا ینیکا ویکسینز کی پہلی خوراک سے ڈیلٹا کی علامات والی بیماری سے محض 33 فیصد تحفظ ملتا ہے، تاہم 2 خوراکوں سے تیہ شرح کافی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

  • کورونا وائرس کی شدت مریض پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    کورونا وائرس کی شدت مریض پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    امریکا میں ہونے والی ایک تازہ طبی تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کی 2 اقسام زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہیں مگر ان کے شکار افراد میں سابقہ اقسام سے متاثر مریضوں کے مقابلے میں زیادہ وائرل لوڈ نہیں ہوتا۔

    جونز ہوپکنز اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں کورونا وائرس کی 2 اقسام ایلفا (جو سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی) اور بیٹا (جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی تھی) پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    محققین نے مریضوں میں دیکھا کہ ان اقسام کے متاثرہ افراد میں وائرل لوڈ کتنا ہوتا ہوتا ہے اور وائرس کے جھڑنے اور ایک سے دوسرے میں منتقلی کا تسلسل کب زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین نے اس مقصد کے لیے ان اقسام کے مکمل جینوم سیکونس تیار کیے اور اس مققصد کے لیے برطانیہ میں اپریل 2021 تک جمع کیے جانے والے وائرس کے نمونوں کو حاصل کیا گیا۔

    محققین نے اقسام سے متاثر 134 مریضوں کے کے نمونوں کا موازنہ 126 کنٹرول گروپ کے افراد کے نمونے سے کیا۔تمام نمونوں کے اضافی ٹیسٹ کرکے وائرل لوڈ کا تعین کیا گیا۔

    یہ تفصیلات بیماری کی علامات کے آغاز کے کچھ دن بعد سے جمع کی گئی تھیں تاکہ گروپس کے درمیان وائرس جھڑنے کا عمل شفاف ہوسکے۔

    محققین نے بتایا کہ یہ اقسام زیادہ تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں، اس کی وجہ تو ابھی تک واضح نہیں، تاہم نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اقسام سے متاثر افراد میں علامات ظاہر نہ ہونے کا امکان کنٹرول گروپ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان اقسام سے متاثر افراد میں موت یا آئی سی یو میں داخلے کا خطرہ کنٹرول گروپ سے زیادہ نہیں ہوتا، مگر ان کا ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

     

  • ابوظبی کورونا وائرس کی نئی دوا حاصل کرنے والا پہلا شہر بن گیا

    ابوظبی کورونا وائرس کی نئی دوا حاصل کرنے والا پہلا شہر بن گیا

    یو اے ای : کورونا وائرس کی عالمی وباء کی روک تھام اور عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے ابوظبی حکومت نے بڑا قدم اٹھا لیا، کورونا وائرس کی دوا کی پہلی کھیپ ابو ظبی پہنچ گئی۔

    امریکی اور برطانوی کمپنیوں کے اشتراک سے تیار ہونے والی کورونا وائرس کی نئی دوا سوتر ویماب وی آئی آر 783 کی پہلی شپمنٹ ابوظبی پہنچ گئی ہے۔ ابوظبی کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی نئی دوا حاصل کرنے والا پہلا شہر ہے۔

    عرب نیوز کے مطابق امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ وزارت صحت نے ایمرجنسی کی صورتحال میں دوا استعمال کرنے کی اجازت مئی کے مہینے میں دی تھی۔

    وزارت کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی دوا سے کورونا بیماری کی شدت سے بچا جا سکتا ہے اور جن کورونا مریضوں کا ابتدائی مراحل میں علاج ہوا ان میں سے 85 فیصد کی موت واقع نہیں ہوئی۔

    کورونا وائرس کی دوا برطانوی دواساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن اور امریکی بائیو ٹیک کمپنی وی آئی آر بائیو ٹیکنالوجی کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔

    کورونا وائرس کی ہلکی اور معتدل علامات کے علاج کے لیے اس مونوکلونل اینٹی باڈی کی ایک ہی خوراک لی جاتی ہے۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایف ڈی اے) نے مئی میں اس دوا کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی تھی۔

    ایف ڈی اے نے کہا تھا کہ اس کے انجیکشن میں لیب میں تیار کردہ پروٹین کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کی طرح کورونا وائرس جیسے نقصان دہ اینٹی جنز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یاد رہے کہ کویت اور بحرین نے کورونا وائرس کے علاج کے طور پر سوترویماب دوا کے استعمال کی منظوری رواں ماہ کے شروع میں دی تھی۔ گزشتہ چند ہفتوں میں متحدہ عرب امارات میں روزانہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے کیسز کی تعداد میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔

    اماراتی نیشنل ایمرجنسی کرائسز اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بدھ کے روز دو ہزار 11 نئے کورونا کے کیسز سامنے آئے تھے جبکہ چار افراد کی موات واقع ہوئی ہے۔