Tag: Coronavirus Variant

  • اومیکرون وائرس: امریکا میں پنجے گاڑھنے لگا

    اومیکرون وائرس: امریکا میں پنجے گاڑھنے لگا

    واشنگٹن: امریکا میں کرونا کی نئی قسم ‘اومیکرون’ قیامت کے ڈھانے لگی ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا میں کرونا کی نئی قسم اومیکرون کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے، چند روز قبل دو چار ریاستوں میں کیسز رپورٹ ہوئے تھے تاہم اب اس نئے وائرس نے امریکا کی 19 ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صف ریاست ٹیکساس، میساچوسٹس میں ایک لاکھ سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوچکے۔

    ادھر امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اومیکرون وائر س پر فائز ر ویکسین کے نئے تجربات میں کامیابی ملی ہے، فائزر کی تین خوراکیں اومیکرون کیخلاف کچھ تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

    فائزر انتظامیہ کا موقف ہے کہ بوسٹر شاٹس کے بغیر اومیکرون وائرس سے تحفظ بظاہرمشکل ہے۔

    واضح رہے کہ چار کروڑ سے زیادہ امریکی شہری ویکسین کو بوسٹر شاٹ لگوا چکے ہیں لیکن امریکی صدر کا کہنا ہے کہ تقریباً دس کروڑ اس کے اہل ہیں لیکن انھوں نے ابھی تک ویکسین کی اضافی خوراک نہیں لگوائی۔

  • کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک قسم ایم یو پر کی جانے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ قسم اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک قسم کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مو یعنی ایم یو قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ تحقیق جاپان میں کی گئی۔

    ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا گیا۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات کا موازنہ ایسے 18 افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا، جن کی ویکسی نیشن ہوچکی تھی یا وہ کووڈ 19 کا شکار رہ چکے تھے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ کرونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر تمام اقسام بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔ بیٹا کرونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار دیا جاتا ہے۔

    مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔

    دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18 افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسی نیشن کروانے والوں یا اس بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف 7.6 گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

  • جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت کی گئی ہے جو اب تک کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں متعدد تشویشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔

    سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی 1.2 نامی اس نئی قسم کو سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے 2 صوبوں ماپو مالانگا اور خاؤٹنگ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    کرونا کی یہ قسم اب تک افریقہ، اوشیانا، ایشیا اور یورپ کے 7 دیگر ممالک میں بھی دریافت کی جا چکی ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ کرونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت جیسی صلاحیتوں سے منسلک ہیں، یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی ہے۔

    کرونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، جو اب دنیا بھر میں بالا دست قسم بنتی جارہی ہے۔

    عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

    اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام میں شامل کردیا جاتا ہے، سی 1.2 جنوبی افریقہ میں 2020 کی وسط میں کرونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی قسم سی 1 میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔

    کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کمیونیکل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔

  • فلپائن میں بھی کرونا وائرس کی نئی قسم رپورٹ

    فلپائن میں بھی کرونا وائرس کی نئی قسم رپورٹ

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے کے بعد اب فلپائن میں ایک اور نئی قسم کا انکشاف ہوا ہے، ماہرین اس نئی قسم کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    فلپائن میں محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ نئی قسم کا پتہ تب چلا جب طبی اہلکاروں نے کرونا وائرس کے 85 نئے کیسز کا جائزہ لیا۔

    محکمہ صحت کے مطابق کرونا وائرس کی اس نئی قسم کا نام پی 3 ہے اور پورے فلپائن میں ابھی تک اس نئی قسم کے 98 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی قسم کے پھیلنے اور اس سے ہونے والی اموات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ فلپائن میں اب تک کرونا وائرس کے 6 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ اب تک 13 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس کی نئی قسم کے لیے بچے آسان ہدف ہیں؟

    کیا کرونا وائرس کی نئی قسم کے لیے بچے آسان ہدف ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم بچوں کو زیادہ آسانی سے متاثر کرسکتی ہے، کرونا وائرس بچوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے زیادہ مؤثر نہیں رہا تھا تاہم اب کرونا وائرس کی نئی قسم اس سے مختلف نظر آرہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بچوں کو زیادہ آسانی سے متاثر کر سکتی ہے۔ ماہرین نے اب تک کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

    برطانیہ کے امپریئل کالج لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساؤتھ ایسٹ لندن میں اس نئی قسم کے کیسز کا ڈیٹا دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں یہ بچوں کو زیادہ بیمار کر رہی ہے۔

    ان کے مطابق برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے بچوں میں وائرس کے حوالےسے عمر کی تقسیم کو دیکھا تھا، یہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بالغ افراد کی سرگرمیاں محدود کی گئی ہیں مگر تعلیمی ادارے ابھی کھلے ہیں، ہم نے 5 یا 6 ہفتوں کے دوران 15 سال سے کم عمر بچوں میں اس نئی قسم کے تسلسل کو دیکھا ہے۔

    برطانوی حکومت کے نیو اینڈ ایمرجنگ ریسپیٹری وائرس تھریٹ ایڈوائزری گروپ کی رکن پروفیسر وینڈی بارسلے کا کہنا ہے کہ ہم شروع سے دیکھتے آرہے ہیں کرونا وائرس بچوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے زیادہ مؤثر نہیں ہے تاہم اب کرونا وائرس کی نئی قسم اس سے مختلف نظر آرہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایک خیال یہ ہے کہ نئی قسم بچوں میں ان خلیات کو متاثر کرنے میں زیادہ کامیاب ثابت ہورہی ہے، جس میں پرانی اقسام کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔

    سائنسدانوں کی جانب سے اس نئی قسم پر تحقیق کر کے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مجوزہ ویکسینز اس کی روک تھام میں کس حد تک مؤثر ہوں گی۔