Tag: coup

  • کانگو میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو سزائے موت

    کانگو میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو سزائے موت

    کنشاسا: کانگو کی فوجی عدالت نے بغاوت کے الزام میں امریکی اور برطانویوں سمیت 37 افراد کو موت کی سزا سنا دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے صدر کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزام میں جمعہ کو فوجی عدالت نے سینتیس افراد کو سزائے موت سنا دی ہے، جن میں ایک برطانوی، ایک کینیڈین، ایک بیلجیئم شہری اور 3 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔

    امریکی شہریوں میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے سیاست دان کرسچن ملنگا کا بیٹا مارسیل ملنگا، مارسیل کا دوست ٹائلر تھامسن (جو یوٹاہ میں اس کے ساتھ ہائی اسکول فٹ بال کھیلتا تھا، اور دونوں کی عمر 20 سال ہے)، اور بنجمن زلمان پولون (کرسچن ملنگا کا کاروباری ساتھی) شامل ہیں۔

    ان افراد پر الزام تھا کہ انھوں نے مئی میں صدارتی محل اور صدر کے ایک اتحادی سیاست دان کے گھر پر حملہ کیا تھا، فوجی عدالت نے 14 افراد کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ کانگو میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش 19 مئی کو کی گئی تھی۔

    انیس مئی کو حزب اختلاف کے ایک رکن کرسچن ملنگا کی زیر قیادت بغاوت کی یہ کوشش ناکام ہو گئی تھی، اور اس دوران 6 افراد مارے گئے تھے، بغاوت کی کوشش کے دوران صدارتی محل اور صدر فیلکس شیسیکیڈی کے قریبی ساتھی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    ملنگا امریکا سے تعلق رکھنے والے کانگو کے سیاست دان تھے، جنھوں نے مسلح افراد کے ساتھ مل کر پہلے کنشاسا میں پارلیمانی اسپیکر وائٹل کامرے کے گھر پر حملہ کیا، پھر ایوان صدر کے دفتر پر قبضہ کر لیا، تاہم اس دوران ملنگا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔

    کانگو کی فوج نے کہا کہ جیسے ہی سوشل میڈیا پر حملے کو براہ راست نشر کیا گیا، اس کے فوراً بعد ملنگا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم ان کی جانب سے مزاحمت پر انھیں گولی مار دی گئی۔

    سزائے موت پانے والے افراد پر بغاوت کی کوشش، دہشت گردی اور مجرمانہ اتحاد کے الزامات شامل ہیں، جب کہ ان کے پاس ان الزامات پر فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے پانچ دن کا وقت ہے۔ چھ غیر ملکیوں کا دفاع کرنے والے وکیل رچرڈ بونڈو نے سزائے موت پر اختلاف کیا کہ اگرچہ رواں سال کے آغاز میں موت کی سزا بحال کی گئی ہے تاہم ابھی یہ نافذ نہیں کی جا سکتی، انھوں نے کہا ہم اپیل پر اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

  • وینزویلا بحران، صدر نکولاس مادورو کا تختہ الٹنے کی کوشش

    وینزویلا بحران، صدر نکولاس مادورو کا تختہ الٹنے کی کوشش

    کراکس: وینزویلا میں سیاسی بحران تاحال برقرار ہے، ملکی صدر نکولاس مودورو کا ایک بار پھر تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وینزویلا کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے اس نے اپنا تختہ الٹے جانے کی ایک کوشش کو ناکام بناتے ہوئے چھ مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مسلح منصوبے پر گزشتہ اتوار یا پیر کے روز عمل کیا جانا تھا اور اب تک چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

    وینزویلا کے اپوزیشن رہنما جون گائیڈو نے اس حکومتی دعوے کی تردید کی ہے جبکہ وینزویلا حکومت نے جون گائیڈو پر اس مبینہ سازش میں شامل ہونے کا الزام نہیں لگایا ہے۔

    ملکی وزیر مواصلات خورگے روڈریگیز نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کے کئی افسران نے امریکا، کولمبیا اور چلی کی حکومتوں کی مدد سے صدر نکولاس مادورو پر مسلح حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا، جو ناکام بنا دیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس مسلح منصوبے پر گزشتہ اتوار یا پیر کے روز عمل کیا جانا تھا اور اب تک چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

    وینزویلا کے اپوزیشن رہنما جون گائیڈو نے اس حکومتی دعوے کی تردید کی ہے، وینزویلاحکومت نے جون گائیڈو پر اس مبینہ سازش میں شامل ہونے کا الزام نہیں لگایا۔

    وینزویلا: جون گائیڈو کی بغاوت کی کوشش ناکام بنادی، وزیردفاع

    حال ہی میں وینزویلا میں بغاوت کے الزام میں حکومت نے سات ارکان پارلیمان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے گرفتاری کا بھی عندیہ دیا تھا۔

    قبل ازیں وینزویلا کے وزیردفاع ولادی میرپادرینو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر جون گائیڈو نے ملک میں بغاوت کی کوشش کی جسے ناکام بنا دی گئی۔

    وینزویلا میں اپوزیشن لیڈر جون گائیڈو نے خود ساختہ طور پر ملکی صدر کا اعلان کیا تھا، بعد ازاں سینکڑوں افراد نکولاس مادورو کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

    یاد رہے کہ وینزویلا میں 23 جنوری کو اپوزیشن لیڈر اور پارلیمنٹ کے اسپیکر جون گائیڈو نے خود کو عبوری صدر قرار دیا تھا جس کے بعد امریکا اور بعض دوسرے علاقائی ممالک نے صدر نکولاس مادورو کی جگہ گائیڈو کو ملک کا عبوری صدر تسلیم کرلیا ہے۔

  • ترکی: دو برس قبل نافذ ہونے والی ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان

    ترکی: دو برس قبل نافذ ہونے والی ایمرجنسی کے خاتمے کا اعلان

    انقرہ : ترکی کے صدر طیب اردوگان نے دو برس قبل ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد نافذ ہونے والی ایمرجنسی آج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کی حکومت نے ملک بھر میں ایمرجنسی ختم کردی ہے، ملک بھر میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی دو برس قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے فوجی بغاوت کے ناکام ہونے کے بعد نافذ کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے سنہ 2016 میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ کرکے ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    ترکی میں دو سال سے نافذ ایمرجنسی کو صدر طیب اردوگان نے دوبارہ مملکت کا صدر منتخب ہونے کے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی میں آج دو سال بعد مذکورہ ایمرجنسی کو ختم کیا گیا ہے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

    اس پيش رفت کے چند روز بعد صدر اردگان نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر ديا تھا، عموماً ہنگامی حالت کا نفاذ تين ماہ تک جاری رہتا ہے ليکن اس ميں سات مرتبہ توسيع کی گئی۔

    ایک جانب ایمرجنسی کا خاتمہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب فوجی بغاوت میں ملوث لوگوں کا ٹرائل بھی جاری ہے اور اب تک فوجیوں اور صحافیوں کے علاوہ دیگر ملوث افراد کو سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔

    خیال رہے کہ اب تک 1 لاکھ 7 ہزار افراد کو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کے شبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد عوامی ملازمتوں سے جبراً دستبردار کردیا تھا، جن میں سے 50 ہزار افراد کو ٹرائل کے بعد جیل منتقل کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ 18 جولائی 2016 کو ترکی میں فوج کے باغی گروہ نے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کی تھی جسے عوام نے ناکام بنادیا تھا، اس دوران عوام سڑکوں پر نکل کر آئے اور فوجی ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے جس کے بعد ترک فوج کے باغی ٹولے نے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست تسلیم کی تھی اور پھر انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ترکی:عدالت نے 13صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنادی

    ترکی:عدالت نے 13صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنادی

    انقرہ : ترکی کی عدالت عالیہ نے دہشت گرد گروہوں سے رابط اور سنہ 2016 میں باغیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں 13 صحافیوں کو سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا.

    تفصیلات کے مطابق ترکی کی اعلیٰ عدالیہ نے گذشتہ روز صدر رجب طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف مؤقف اختیار کرنے والے تیرہ صحافیوں کو دہشت گردی کے الزام میں سزا سنا دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ترکی کی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد دنیا بھر میں آزادی صحافت کے حوالے سے غضے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    عدالت سے سزا پانے والے تمام صحافیوں کا تعلق ترکی کے مقامی اخبار سے تھا جنہوں نےترکی کی موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد میں سے تین صحافیوں کو عدالت نے بری کردیا ہے، جبکہ سزا یافتہ صحافی فی الحال آزاد ہیں اور وہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

    ترک میڈیا کا کہنا تھا کہ مذکورہ صحافیوں کو سیکیورٹی اداروں نے سنہ 2016 میں رجب طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف ناکام ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

    ترکی کے حکومتی عہدے داران نے ترکی کے مقامی اخبار کے عملے پر کردستان ورکر پارٹی، انتہائی بائیں بازو کی جماعت پیپلز لبریشن پارٹی فرنٹ، فتح اللہ گولن سمیت دیگر دہشت گرد ملوث گروپ کی حمایت الزام عائد کیا ہے۔

     

    واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کو انقرہ میں بغاوت کرنے والے گروپ کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، گولن خود ساختہ جلاوطنی کے بعد سے امریکا میں ہی مقیم ہیں۔

    ترک حکام نے امریکی حکومت کو درخواست دی تھی کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے لیکن امریکا نے گولن کو ترکی بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔

    طیب اردوگان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد 50 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ باغیوں کی حمایت کرنے اور تحریک میں حصّہ لینے کے شبے میں ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو نوکریوں سے برطرف اور معطل کردیا گیا تھا۔

    ترک حکومت کی جانب سے برطرف اور معطل کیے جانے والے افراد میں صحافی، پولیس اور فوجی اہلکار و افسران سمیت بڑی تعداد میں اساتید شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سزا پانے والے صحافیوں میں ترکی کے معروف مبصرین جن میں مقامی اخبار کے ایڈیٹر انچیف مراد سابونچو، مشہور کارٹون نگار موسیٰ کارٹ اور نامور کالم نویس قادری گرسیل شامل ہیں۔

    ترک عدالت نے بغاوت میں شامل ہونے کے شبے میں اخبار کے مالک آکِن اتالے کو بھی سات سال قید کی سزا سنائی ہے، جبکہ آکِن 500 پہلے ہی جیل میں گزار چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ ترکی مذکورہ اخبار نے سنہ 1924 میں صحافی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کی تھیں، ترک میڈیا میں سرکاری مداخلت کے باوجود مذکورہ اخبار نے آزادنہ مؤقف اپنایا جو صدر طیب اردوگان کو ناپسند تھا۔۔

    ترکی عالیٰ عدلیہ کا فیصلہ آنے کے قبل اخبار نے پہلے صفحے پر لکھا تھا کہ ’بس بہت ہوگیا ظلم‘ اور عدالتی فیصلے کے بعد اخبار نے اپنی ویب سایٹ لکھا کہ ہپر ’تمہیں تاریخ میں بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

    یاد رہے کہ صدر طیب اردوگان نے آزادی صحافت پرحملے کرنے کا الزام عائد ہے، گذشتہ ماہ بھی 25 صحافیوں کو فتح اللہ گولن سے رابط کے جرم میں جیل بھیجا گیا ہے۔

    گذشتہ روز عدالتی فیصلے کو دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی ترکی کی حکومت پر میڈیا پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔

    صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کمیٹی برائے تحفظ صحافی (سی پی جے) نے بھی عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے سزا یافتہ صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

    سی پی جے کی ترجمان نینا اوگنیا نوا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ترک حکومت صحافیوں اور دہشت گردوں میں برابری کرنا چھوڑ دے، اور گرفتار کیے گئے تمام صحافیوں کو رہا کرکے نوکریوں پر بحال کرے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں