Tag: court decision

  • جب تک تین دو کا فیصلہ ختم نہیں ہوتا ہم اسے بندوق کی نوک سمجھیں گے: بلاول بھٹو

    جب تک تین دو کا فیصلہ ختم نہیں ہوتا ہم اسے بندوق کی نوک سمجھیں گے: بلاول بھٹو

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی فیصلے کو بندوق کی نوک کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک تین دو کا فیصلہ ختم نہیں ہوتا ہم اسے بندوق کی نوک سمجھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں لیکن آج جو صورت حال ہے اس میں 90 دن کی خلاف ورزی ہم نے نہیں کسی اور نے کی ہے، ہم ایک دن ملک بھر میں انتخابات کرانے کے حامی ہیں۔

    انھوں نے واضح کیا کہ اکثریت ثابت کر کے اقلیت کا فیصلہ مسلط کرنے کے فیصلے کو بندوق کی نوک سمجھتے ہیں، مسائل کا حل نہیں نکالیں گے تو جمہوریت اور وفاق کو سنگین خطرہ ہے۔

    بلاول نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات میں ایک دو چیزوں پر اتفاق رائے مشکل ہوگا، کسی اور ادارے میں پنچائت بنانے پر ہمیں اتحادیوں کو منانے میں مشکلات ہیں، اتحادیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ گن پوائنٹ پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    پی پی چیئرمین نے کہا زبردستی پنجاب کے الیکشن کرانے کی سازش پر پی پی نے مؤقف قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، ہم کل بھی ون یونٹ کے خلاف تھے آج بھی اس کے خلاف ہیں، چند عناصر کی ضد پر پنجاب میں الیکشن پہلے کرائے جائیں تو سیاست، ملکی مفاد اور باقی تین صوبوں پر منفی اثر پڑے گا۔

    انھوں نے مزید کہا سیاسی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ بیک ڈور سے ون یونٹ سازش ہو رہی ہے، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اپنے اتحادیوں کو مذاکرات کے لیے ایک پیج پر لے کر آئیں، سیاسی مخالفین سے بھی ڈائیلاگ کرنا پڑے تو بھی کرنے چاہئیں۔

    ہم سب سیاسی صورت حال میں پھنسے ہیں جس میں نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے،ملک بھر میں ایک دن میں الیکشن پر اتفاق رائے چاہتے ہیں، جہاں تک عمل درآمد کی بات ہے ہم 4 کی اکثریت والے فیصلے پر عمل در آمد کر دیں گے۔

    بلاول نے کہا اس چیز پر اتفاق رائے ناممکن ہے کہ سپریم کورٹ کی زیر نگرانی مذاکرات کیے جائیں، زور بازو پر کسی صورت مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں، تاریخ پچھلے چیف جسٹس صاحبان کو کس طرح یاد کرتی ہے یہ سب جانتے ہیں، عید کے بعد سربراہ اجلاس میں اس معاملے کو حتمی شکل دیں گے۔

  • مرضی کا فیصلہ کیوں نہیں دیا؟ وکیلوں نے جج پر چڑھائی کردی

    مرضی کا فیصلہ کیوں نہیں دیا؟ وکیلوں نے جج پر چڑھائی کردی

    لاہور : مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر وکلاء نے سول جج سے بدتمیزی کی، مشتعل وکیلوں نے جج سے فائل چھین کر پھاڑنے کی کوشش کی۔ ماتحت عدالتوں میں ججوں نے احتجاجاً کام بند کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی سول عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت کے موقع پر وکلاء گردی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا، مرضی کافیصلہ نہ ملنے پر وکلا کی جانب سے سول جج سےبدتمیزی کی گئی۔

    وکلاء نے سول عدالت میں ہنگامہ آرائی کی، وکیلوں کی جانب سے سول جج کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مشتعل وکلاء نے جج سے کیس کی فائل لے کر پھاڑنے کی بھی کوشش کی۔

    واقعے کے بعد سیشن جج نے وکلاء کے رویے کےخلاف ہائی کورٹ کو شکایت بھجوادی ہے، دوسری جانب وکلاء کی بدتمیزی کے خلاف ماتحت عدالتوں میں ججوں نے احتجاجاً کام بند کردیا۔

  • کمیشن بنے گا یا وزیراعظم نااہل؟ پاناما کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    کمیشن بنے گا یا وزیراعظم نااہل؟ پاناما کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت آج ہوگی، فریقین کو نوٹسز اور دیگر کو پاسز جاری کردیے گئے، وزیراعظم نے کارکنوں کو سپریم کورٹ جانے سے روک دیا، سیکیورٹی اداروں نے سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی انتہائی سخت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی سماعت آج دوپہر دو بجے ہوگی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کرے گا۔بینچ نے 23 فروری کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو کہ آج 57 روز سنائے گا۔

    سیکیورٹی اداروں نے سپریم کورٹ کے گرد سیکیورٹی سخت کردی ہے جب کہ سپریم کورٹ کے جاری کردہ پاسز کی بنیاد پر ہی فریقین سپریم کورٹ میں داخل ہوسکتے ہیں۔

    اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے 13، پی ٹی آئی نے 22، جماعت اسلامی نے 25، عوامی مسلم لیگ نے 21 پاسز کے لیے درخواستیں دی ہیں۔

    فریق جماعتوں کو 15 سے زائد پاس نہ دینے کا حکم

    سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نے ہدایت دی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو 15 سے زائد سیکیورٹی پاس جاری نہ کیے جائیں۔

    مقدمے کی سماعت سننے کے لیے ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس کے وکلا نے بھی پاسز کے لیے ر جوع کر لیا جس پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ پاسز کی تعداد محدود رکھی جائے، سپریم کورٹ کے وکلا کو پاس جاری کیے جائیں۔

    ان ہدایات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے 15 رہنما کو انٹری پاسز جاری کردیے گئے۔

    ان رہنماؤں میں عمران خان،شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین،شفقت محمود،علیم خان،اسد عمر،شیریں مزاری اعجاز چوہدری،نعیم بخاری، فواد چوہدری، اور سرور خان شامل ہیں۔

    کارکنان سپریم کورٹ نہ جائیں، نواز شریف

     

    دریں اثنا وزیراعظم نواز شریف نے ن لیگ کے کارکنوں کو سپریم کورٹ جانے سے روک دیا اور کہا ہے کہ کسی غیر متعلقہ فرد کو سپریم کورٹ نہیں جانا چاہیے۔

    سپریم کورٹ کی سیکیورٹی سخت، رینجرز کو معاونت کا حکم

    مقدمے کے فیصلے کے بعد کسی بھی رد عمل کے پیش نظر وزیر داخلہ نے آئی جی پنجاب اور چیف کمشنر کو رجسٹرار سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔

    وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اور اردگرد فول پروف سیکیورٹی کی جائے، پولیس اور رینجرز کی نفری پر مشتمل سیکیورٹی تشکیل دی جائے۔

    وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ جنہیں پاسز دیں صرف انہیں ہی سپریم کورٹ آنے دیا جائے ساتھ ہی خصوصی اجازت نامہ رکھنے والوں کو بھی عدالت میں داخل ہونے دیا جائے۔

    ہدایات میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے قریب سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے،سیکیورٹی کے لیے رینجرز پولیس کی معاونت کرے۔

    یہ پڑھیں: پاناما کیس کا فیصلہ : پنجاب بھر میں ہائی الرٹ، پولیس کو ہدایات جاری

    اس کیس کے فیصلے کے بعد کسی بھی ممکنہ رد عمل کے نتیجے میں پنجاب بھر میں سیکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے، پنجاب رینجرز کو پولیس کی معاونت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس کیس کا فریق جماعتوں سمیت عوام کو بھی بہت بے چینی سے انتظار ہے اور اس بے چینی میں اضافہ اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے بیان دیا کہ اس کیس میں ایسا فیصلہ دیں گے کہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات کو ایک سال اور کچھ دن کا عرصہ گزر چکا ہے،4 اپریل 2016ء کو  پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کا نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو  بیرونِ ملک قائم  بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرونی ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل ہے۔

    ان انکشافات کے بعد پاکستانی سیاست میں کھلبلی مچ گئی اور ہرطرف حکمران خاندان کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔

    پانامہ لیکس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم صفدرکا نام بھی شامل تھا۔

    وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان کا نام پاناما پیپرز میں آیا تو ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی، وفاقی وزرا حکمران خاندان کے دفاع میں بیانات دینے لگے جبکہ اپوزیشن نے بھی معاملے پر بھرپور جواب دیا۔

    وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں دائر کی گئیں جنہیں سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔

    کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بینچ ختم ہوگیا اور چیف جسٹس نے تمام سماعتوں کی کارروائی بند کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس کے لیے مقدمہ چھوڑ دیا۔

    نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بنے جنہوں نے کیس کی از سر نو سماعت کی اور 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا جو کہ آج 20 اپریل کو 57 روز بعد سنایا جارہا ہے۔

    مزید جاننے کے لیے یہ پڑھیں: پانامہ لیکس کو ایک سال کاعرصہ بیت گیا