Tag: court verdict

  • عدالتی فیصلے سے حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا لگا: وزیر اعظم

    عدالتی فیصلے سے حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا لگا: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قانون دان برادری، سائلین، میڈیا اور عوام کی حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا لگا ہے۔

    وزیر اعظم نے لکھا عدلیہ کی ساکھ کا تقاضا اور قرین انصاف یہی تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا، جس سے انصاف نہ صرف ہوتا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا۔

    ٹویٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ آئین نے ریاستی اختیار پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کیے ہیں، آئین نے سب اداروں کو متعین حدود میں کام کرنے کا پابند کیا ہے، کوئی ادارہ کسی دوسرے کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے دی تھی، جس کے بعد حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ نہیں رہے اور چوہدری پرویز الہٰی نئے وزیر اعلیٰ پنجاب قرار پائے۔

    ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار، پرویز الہٰی نئے وزیراعلیٰ‌ پنجاب ہوں‌گے

    سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔

    سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویزالہٰی کی درخواستوں پر 3 روز تک سماعت جاری رہی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔

  • آصف زرداری کو جیل میں سہولیات فراہمی سے متعلق درخواست پر کارروائی کل تک ملتوی

    آصف زرداری کو جیل میں سہولیات فراہمی سے متعلق درخواست پر کارروائی کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت اسلام آباد نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل میں سہولیات فراہمی سے متعلق درخواست پر کارروائی کل تک ملتوی کردی۔۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل میں سہولیات فراہمی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    سابق صدر آصف علی زرداری کی میڈیکل رپورٹ سے متعلق درخواست پر سماعت بھی کل کی جائے گی۔

    وکیل فاروق ایچ نائیک نے ابوبکرکی زرداری سے ملاقات کی درخواست دائر کی ، جس پر عدالت نے جیل حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور درخواست پر سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

    یاد رہے 5ستمبر کو احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری کو جیل میں اے سی سمیت دیگر لگژری سہولیات فراہم کرنے کے معاملے پر محفوظ فیصلہ کیا تھا۔

    گذشتہ سماعت میں وکیل آصف زر داری لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کو جیل میں اے کی سہولت نہ دے کر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی، جس پر جج نے آصف زر داری سے استفار کیا کہ اسی جیل میں آپ کو اے سی کی سہولت دی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں: آصف زرداری اورفریال تالپور کوجیل میں اے کلاس دینے کی درخواستیں مسترد

    جس پر آصف علی زر داری نے کہا تھا کہ اس عدالت اور تمام عدالتوں میں یہ سہولتیں دی گئی تھیں جبکہ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے باوجود اے سی اور فریج کی سہولت نہیں دی گئی۔

    یاد رہے 20 اگست کو احتساب عدالت نے سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکوجیل میں اے کلاس دینے کی درخواستیں مسترد کردیں تھیں اور اضافی سہولتیں دینے کی منظوری دیتے ہوئے ہفتے میں 2 دفعہ اہل خانہ سےملاقات کی اجازت دی تھی۔

  • ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    آج سے 40 سال قبل ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ سزا کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی اور یہ قتل کا مقدمہ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا تھا۔

    گیارہ نومبر 1974ء کو رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے والد نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوگئے۔

    احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ ان پر فائرنگ بھٹو کے کہنے پر کی گئی، بھٹو نے ایک بار قومی اسمبلی میں مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب خاموش ہوجاؤ تمہیں بہت برداشت کرلیا اب تمہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔

    قصوری نے ایف آئی آر درج کرائی، وہ مارشل لا کے نفاذ تک چپ رہے لیکن مارشل لا لگتے ہی انہوں نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھادیا۔بالآخر 24 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ جاپہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس ہائی کورٹ تھے۔

    مولوی مشتاق حسین سنہ 1965 میں ذوالفقار علی بھٹو کے فارن سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور ان کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات سب کے سامنے تھے۔ دوسری جانب جنرل ضیا سے ان کی قربت بھی مشہور تھی، دونوں ایک ہی علاقے کے رہنے والے بھی تھے۔

    مقدمے میں تحقیقات کے دوران چار شریک ملزمان کو بھی شامل کیا گیا جنہوں نے اقبالِ جرم کیا تھا تاہم ان میں سے ایک عدالت میں آکر اپنے بیان سے پھر گیا کہ اس سے یہ بیان تشدد کے ذور پر لیا گیا تھا۔

    18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی جس کے بعد بھٹو کے وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جس میں سے چار نے سزا برقرار رکھی اور تین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    اس دوران کئی عالمی سربراہان مملکت نے جنرل ضیا الحق سے درخواست کی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے تاہم انہوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ لیبیا کے صدر قذافی نے اپنے وزیر اعظم کو خصوصی طیارے کے ہمراہ اسلام آباد بھیجا جہاں انہوں نے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں اور درخواست کی کہ بھٹو کو ملک بدر کردیا جائے اور لیبیا انہیں اپنے پاس رکھ لے گا، لیبیا کے وزیر اعظم جالود ایک ہفتے تک اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے طیارے کے ہمراہ موجود رہے تاہم انہیں بھی انکار کردیا گیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن ان کے ارادے دیکھتے ہوئے انہوں نے اپیل دائر نہیں کی اور انکار کردیا جس کے بعد چار اپریل کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

  • نواز شریف کو جتنا دباؤ گے اتنا عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گا، ہم آج بھی سُرخرو ہیں: خواجہ آصف

    نواز شریف کو جتنا دباؤ گے اتنا عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گا، ہم آج بھی سُرخرو ہیں: خواجہ آصف

    اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم آج بھی سُرخرو ہیں، نواز شریف کو جتنا دباؤ گے اتنا عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گا، عوام کے ووٹ کی حرمت تک انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آج سے 20 سال پہلے بھی نواز شریف کو نا اہل کیا گیا تھا، پہلے بھی نوازشریف کو قید کی سزا سنائی گئی تھی، انہیں ایک بار نہیں کئی بار آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو تاحیات نا اہل کر دیا مگر لوگوں کے دلوں سے کیسے نکالو گے، عوام نواز شریف سے محبت کرتے ہیں ان محبتوں کو کیسے ختم کرو گے، جب تک خلق خدا کے ووٹ کی حرمت قائم نہیں ہوگی ہم اسی طرح بھٹکتے رہیں گے، 70 سال میں خطے میں ایک بھی ایسا حکمران نہیں جو 3 بار وزیر اعظم بنا ہو۔

    سپریم کورٹ نے نوازشریف اور جہانگیرترین کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا

    وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ آج 30 سال بعد بھی نواز شریف کا سکہ چلتا ہے کسی اور کا نہیں، یہ وقت گزر جائے گا مگر خلق خدا کی آواز بلند رہے گی، الیکشن آنے والے ہیں تیاری ہورہی ہے کہ عوام کی آواز کو دبا دیا جائے، عام انتخابات میں عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

    خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ لوگ رخصت ہوگئے مگر نواز شریف آج بھی دلوں میں حکمرانی کر رہا ہے، یہ لازوال محبت پاکستان میں نوازشریف کے سوا کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی، ان پر اللہ ہمیشہ مہربان رہا ہے اللہ اب بھی مہربان ہے اور ہمیشہ رہے گا، نوازشریف کی صورت میں ان کی بیٹی قیادت کرنے آئی ہے۔

    نوازشریف کو وزیراعظم بن کراتنی مقبولیت نہیں ملی جتنی اب ملی، خواجہ آصف

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام زندہ ہیں اور اپنے حق کی حفاظت کرنا جانتے ہیں، ہم کٹ جائیں گے مگر ہتھیار نہیں ڈالیں گے، نوازشریف سے آزمائشیں لینے والے ماضی کا حصہ بن گئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے: والدہ مشعال خان

    جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے: والدہ مشعال خان

    مردان: مشعال خان کی والدہ نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، ہم انصاف کے لئے آخری حد تک جائیں گے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں‌ نے مشعال کیس میں‌ فیصلہ آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا.

    یاد رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ آج ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا. واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے مشعال کی والدہ نے کہا کہ جو ملزمان بچ گئے، ان کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے، مشعال قتل میں عدالت سے کیسے ان کو رہائی ملی.

    مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

    انھوں‌ نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس قسم کے قتل کا ہول ناک واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، مشعال کا قتل کیمرے کے سامنے ہوا، پھر ہمیں انصاف کیوں نہیں مل رہا.

    انھوں‌ نے سوال اٹھایا کہ یہ کون سا انصاف ہے، کیا انصاف ایسے ہوتا ہے جو ملزمان بچ گئے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے.

    اس موقع پر مشعال کے بھائی نے کہا کہ سزاسب کوملنی چاہئے تھی، کیوں‌ کہ سب واقعےمیں ملوث تھے.

    یاد رہے کہ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔ عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

    واضح رہے کہ مشال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔