Tag: Covid-19

  • 6 ہفتوں بعد لاش میں کووڈ 19 کی تصدیق

    6 ہفتوں بعد لاش میں کووڈ 19 کی تصدیق

    اٹلی میں ایک شخص میں موت کے بعد کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی اور حیران کن طور پر 6 ہفتوں اور 28 ٹیسٹس کے بعد بھی نتیجہ مثبت آتا رہا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ستمبر 2021 میں اٹلی کے علاقے کیتی میں یوکرین سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ سمندر کی سیر پر گیا اور وہاں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ واقعہ افسوسناک تو تھا لیکن موت کے بعد جو ہوا اس نے طبی ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا، لاش کا موت کے بعد لگ بھگ 6 ہفتوں تک کم از کم 28 بار کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیا گیا اور ہر بار لاش کا ٹیسٹ مثبت رہا۔

    اس سے بھی زیادہ حیران کن حقیقت یہ تھی کہ موت کے وقت اس شخص میں کووڈ کی علامات بالکل بھی نہیں تھی اور ممکنہ طور پر اگر وائرس اس کے اندر موجود ہوگا بھی تو وائرل لوڈ کی مقدار بہت کم ہوگی۔

    طبی جریدے بی ایم سی جرنل آف میڈیکل کیس رپورٹس میں اس کیس پر تحقیق کے نتائج شائع ہوئے اور کہا گیا کہ تمام افراد کے پوسٹ مارٹم کے دوران سواب ٹیسٹ ہونے چاہیئں چاہے وہ موت کووڈ سے جڑی ہوئی ہو یا نہ ہو۔

    اگرچہ اس شخص (اس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) کے بارے میں تصدیق ہوچکی تھی کہ وہ ڈوب کر مرا ہے مگر اٹلی کے قوانین کے تحت موت کی وجہ جو بھی ہو ایک کووڈ ٹیسٹ لازمی کیا جاتا ہے۔

    پوسٹ مارٹم کے دوران جب کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا تو لاش کو مقامی مردہ خانے میں جراثیم سے پاک واٹر پروف بیگ میں بند کرکے منتقل کردیا گیا، مگر تدفین کی اجازت میں تاخیر کے باعث وہ لاش مردہ خانے میں 41 دن تک موجود رہی۔

    تحقیق کے مطابق اس عرصے کے دوران 28 بار کووڈ ٹیسٹ کیے گئے اور ہر بار ٹیسٹ کو ایک ہی ٹیم نے کیا اور اس دوران عالمی قوانین کو مدنظر رکھا گیا۔ یہ وہی روایتی کووڈ ٹیسٹ ہے جس میں ناک سے مواد کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور ہر بار ٹیسٹ مثبت رہا۔

    یہاں تک کہ تحقیقی ٹیم کو شبہ ہوا تو انہوں نے اسی ٹیسٹنگ کٹس سے ایک دوسرے کے ٹیسٹ بھی کیے۔

    نہ صرف موت کے لگ بھگ 6 ہفتوں بعد تک لاش میں کووڈ کے وائرل ذرات دریافت ہوتے رہے بلکہ ٹیسٹنگ کے اختتام پر صرف وہی قابل شناخت ذرات رہ گئے تھے۔

    ماہرین کی جانب سے کووڈ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ہر بار ایک کنٹرول ٹیسٹ بھی کیا جاتا تھا جس کا مقصد انسانی خلیاتی آر این اے کو جانچنا ہوتا تھا۔

    موت کے 41 دن کے دوران ٹیسٹوں میں انسانی آر این اے نظر آنا بند ہوگیا تھا مگر کووڈ ٹیسٹ بدستور مثبت آرہے تھے حالانکہ انسانی خلیات دریافت نہیں ہورہے تھے۔

    ماہرین نے کہا کہ زندہ انسانی جسموں اور ان کے ماحول میں وائرس کے رویوں کے بارے میں تو اب تک اچھی خاصی تحقیق ہوچکی ہے مگر مردہ جسموں اور ان کے متعدی ہونے کے بارے میں ڈیٹا موجود نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے افراد کے پوسٹ مارٹم کا حصہ بننے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ ہوسکتا ہے مگر اس حوالے سے تحقیق کے بعد ہی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ کرونا وائرس زیادہ تر منہ یا ناک سے خارج ہونے والے بڑے ذرات کے باعث ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے مگر یہی واحد ذریعہ نہیں بلکہ آلودہ اشیا، فضا وغیرہ بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔

    ماہرین نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیق محدود تھی اور اس حوالے سے تحقیقی کام کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کیونکہ اخلاقی طور پر مردہ افراد پر اس طرح کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر انہوں نے توقع ظاہر کی کہ نتائج سے مستقبل میں تحقیق کا راستہ کھل جائے گا۔

  • ملکہ برطانیہ کے حوالے سے اہم خبر آ گئی

    ملکہ برطانیہ کے حوالے سے اہم خبر آ گئی

    لندن: ملکہ برطانیہ کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا ہے۔

    بکنگھم پیلس سے جاری بیان کے مطابق ملکہ الزبتھ کو معمولی علامات نمودار ہوئی ہیں، جب ان کا ٹیسٹ کیا گیا تو کرونا پازیٹو آ گیا۔

    بیان کے مطابق 95 سالہ ملکہ الزبتھ (اپریل میں وہ 96 برس کی ہو جائیں گی) کو ‘ہلکی سردی جیسی علامات’ کا سامنا ہے، تاہم توقع ہے کہ وہ ونڈسرکاسل میں رواں ہفتے ہلکے پھلکے فرائض کی انجام دہی جاری رکھیں گی۔

    بکنگھم پیلس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملکہ طبی امداد حاصل کرتی رہیں گی، اور تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہیں گی، واضح رہے کہ ملکہ اپنے بڑے بیٹے اور وارث، پرنس آف ویلز کے ساتھ رابطے میں تھیں، جن کا کرونا ٹیسٹ گزشتہ ہفتے مثبت آیا تھا۔

    بتایا جاتا ہے کہ ونڈسر کیسل میں جہاں ملکہ رہائش پذیر ہیں، بہت سے افراد کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

    خیال رہے کہ 6 فروری کو ملکہ الزبتھ نے اپنی حکمرانی کی 70 سالہ پلاٹینم جوبلی منائی تھی، وہ برطانیہ پر سب طویل عرصے کے لیے حکمرانی کرنے والی ملکہ بن گئی ہیں۔

    انھوں نے اس موقع پر تین ماہ سے زیادہ عرصے بعد اپنی پہلی بڑی عوامی سرگرمی انجام دی تھی، اور سینڈرنگھم ہاؤس میں خیراتی کارکنوں سے ملاقات کی تھی۔

  • کیا کرونا ویکسینز کے استعمال سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے؟ نئی تحقیق

    کیا کرونا ویکسینز کے استعمال سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے؟ نئی تحقیق

    واشنگٹن: امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا ویکسینز کا استعمال ذہنی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔

    امریکن جرنل آف پریونٹیو میڈیسین میں شایع شدہ مقالے کے مطابق نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کی تحقیق میں محققین نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانا لوگوں کی ذہنی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق ویکسینز کے استعمال سے چوں کہ بیماری سے متاثر ہونے اور اسپتال اور موت کے خطرے میں کمی آتی ہے، تو اس کا مثبت اثر ذہن پر بھی مرتب ہوتا ہے، اور کووڈ 19 سے تحفظ کا احساس ذہنی صحت اور معیار زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باعث عالمی سطح پر ذہنی بے چینی اور نفسیاتی مسائل کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہوا، جس کی متعدد وجوہ ہیں جیسے ملازمتوں اور آمدنی سے محرومی، سماجی طور پر تنہا ہو جانا وغیرہ۔

    محققین اس سلسلے میں 8 ہزار بالغ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی، ویکسینیشن سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے ان سے مارچ 2020 سے جون 2021 کے دوران کئی بار انٹرویو کیے گئے، نتائج کے مطابق دسمبر 2020 سے جون 2021 کے دوران کرونا ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لینے والے بالغ افراد کے ذہنی دباؤ میں 7 فیصد کمی آئی، مکمل ویکسینیشن پر یہ شرح 25 فیصد تک گھٹ گئی۔

    محققین کے مطابق اس کی وجہ ویکسینیشن کے بعد بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرے میں کمی تھی، محققین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے ویکسینیشن کے ذہنی صحت کے لیے فوائد کا اظہار ہوتا ہے جو اس کا ایک اضافی فائدہ ہے۔

    اس سے قبل ستمبر 2021 میں امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی ایک عام عادت

    کووڈ 19 سے بچانے والی ایک عام عادت

    کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے مضبوط قوت مدافعت اہم ڈھال ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچانے والے ایک اور عنصر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنے کی عادت فلو اور کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ان کے اینٹی باڈی ردعمل کو بڑھاتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ویکسی نیشن کے بعد ورزش کرنے سے مضر اثرات کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، تحقیق میں ویکسی نیشن کروانے کے فوری بعد 90 منٹ تک ورزش کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں ویکسی نیشن کے 4 ہفتوں بعد سیرم اینٹی باڈی کا تسلسل بڑھ گیا۔ اسی طرح جو بالغ افراد ورزش کو معمول کے مطابق جاری رکھتے ہیں ان میں فلو یا کووڈ ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل تھے مگر ورزش کے دوران انہوں نے دھڑکن کی رفتار صحت مند سطح پر برقرار رکھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت ورزش کرنے کی عادت صرف ویکسینز کی افادیت میں ہی اضافہ نہیں کرتی بلکہ ویکسی نیشن نہ کرانے پر بھی کووڈ سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہوئے۔

  • کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس جسم کے تقریباً تمام اعضا کو متاثر کرتا ہے، کچھ افراد میں یہ اثرات بہت کم اور کچھ میں شدید ہوتے ہیں، ماہرین نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن نے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ اس بیماری کو جلد شکست دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کے مدافعتی ردعمل میں کیا مختلف ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے مریضوں کے خون کے خلیات کی جانچ پڑتال کی، انہوں نے ہر مریض سے خون کے خلیات کو وائرس کی پیشرفت کو 2 مختلف مراحل میں حاصل کیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی نظام کے 2 بنیادی پہلوؤں میں ربط کی کمی تھی۔

    مدافعتی نظام کا ایک پہلو وائرل انفیکشن کے خلاف پہلے دفاعی میکنزم کا کام کرتا ہے، جو برق رفتار ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایسا خاص مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو مخصوص وائرس کو ہی ہدف بناتا ہے اور یہ زیادہ طاقتور دفاع فراہم کرتا ہے۔

    ان دونوں میں ربط کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں ایسے مخصوص مدافعتی خلیات مونو سائٹس متحرک ہوتے ہیں جن کے دوسرے مرحلے کے مدافعتی ردعمل کے اینٹی جینز موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں مونو سائٹس میں ٹی سیلز کے اینٹی جینز زیادہ مؤثر نہیں ہوتے بلکہ پھر بھی دوسرے مرحلے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے۔

    اس کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے ورم پھیلنے کا عمل حرکت میں آتا ہے جو جسم کے دیگر ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ٹائپ 1 انٹر فیرون نامی پروٹین کی زیادہ مقدار متاثرہ خلیات سے خارج ہوتی ہے جس سے بھی مدافعتی ردعمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ مونو سائٹس اور ٹی سیلز کے تعلق کو ہدف بنائے جانے کی ضرورت ہے جس سے کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر سائنسدان مدافعتی ردعمل کے پہلے یا دوسرے پہلو کو بدلنے کے قابل ہوجائیں تو اس سے مریضوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا تعلق موسم سے ہے: نئی تحقیق

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا تعلق موسم سے ہے: نئی تحقیق

    کرونا وائرس کا پھیلاؤ موسم پر بھی انحصار کرتا ہے، اور حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق نے ایک بار پھر اس کی تصدیق کی ہے۔

    فلوریڈا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ٹھنڈے مقامات جیسے امریکا کی شمال مشرقی ریاستوں کو موسم سرما کے دوران زیادہ کیسز کا سامنا ہوسکتا ہے جبکہ گرم علاقوں جیسے جنوبی ریاستوں میں ایسا موسم گرما میں ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح معتدل درجہ حرارت والے خطوں کو کووڈ کی 2 لہروں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے خیال میں کووڈ اینڈیمک بن سکتا ہے، مطلب یہ انسانی آبادیوں میں برقرار رہے گا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درجہ حرارت اور نمی میں مخصوص اضافہ یا کمی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں مین کووڈ کیسز میں اضافہ ہوا۔

    مثال کے طور پر کیسز میں اس وقت اضافہ ہوا جب درجہ حرارت 17 سینٹی گریڈ سے گھٹ گیا یا 24 سینٹی گریڈ سے زیادہ بڑھ گیا، اسی طرح وائرس خشک ماحول میں نمی والے علاقوں میں زیادہ دیر تک فضا میں زندہ رہتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمیں اپنے رہائشی علاقوں کے ماحول کے مطابق وبا کی روک تھام کی حکمت عملیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فلوریڈا، افریقہ اور بھارت گرم خطے ہیں مگر وہاں بھی کووڈ لہروں کا سامنا ہوا، مگر وہاں کیسز میں اضافے کا وقت زیادہ ٹھنڈے علاقوں کی لہروں سے مختلف تھا۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ کیسز کی تعداد میں شدید سردی یا ہیٹ ویوز کے دوران بھی اضافہ ہوسکتا ہے، مگر ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب درجہ حرارت اوسطاً 14 دن تک برقرار رہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسی علاقے کا درجہ حرارت اور نمی وائرل ذرات کے حجم میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ اس سے ذرات کی فضا میں زندگی کا تعین ہوتا ہے۔

    سرد خطوں کا خشک موسم وائرل ذرات سے پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیتا ہے اور ان کا حجم سکڑ جاتا ہے جس کے باعث وہ ہوا میں زیادہ وقت تک تیر سکتے ہیں۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ سرد علاقوں میں لوگ چاردیواری کے اندر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہاں وائرل ذرات کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں زیادہ نمی والے گرم علاقوں کی فضا میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس سے وائرل ذرات بڑے ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے فرش پر گرجاتے ہیں۔

    مگر اس کے ساتھ ساتھ لوگ باہر کی گرمی سے بچنے کے لیے چاردیواری کے اندر زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہونے پر کووڈ کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ انسانی رویے وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بہت اہم عنصر ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 16 سے 23 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں کیسز کی کم تعداد نظر آتی ہے، یہ وہ درجہ حرارت ہے جس کو لوگ قابل برداشت تصور کرکے باہر وقت گزارتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ تحقیق سے کم درجہ حرارت اور نمی کے کووڈ سے تعلق کے سابقہ نتائج کی تصدیق ہوتی ہے، اس سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ گرم موسم میں بھی وائرس کیسے پھیلتا ہے۔

    ماہرین نے ہوا کی مناسب نکاسی اور فلٹریشن جیسے ماسک کے استعمال پر زور دیا جو بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اہم اقدامات ہیں۔

  • کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    کورونا سے شفا یاب مریضوں کو نئی مشکل آن پڑی

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وبا سے شفایاب ہونے والے کئی مریضوں میں ایک نئی کیفیت سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی دماغی حالت مکمل طور پر بہتر نہیں ہوتی۔

    امریکا اور یورپ میں 37 فیصد لانگ کوویڈ کے مریض زیادہ ہیں۔37فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو کورونا سے شفایاب ہونے کے باوجود مہینوں اور سال تک اس کے ضمنی منفی اثرات کے شکار رہتے ہیں۔

    ان علامات میں بھول جانا، دماغ ماؤف ہونا، یادداشت کی کمزوری، مصروفیت کے وقت جلد باز ہوکر بے عمل ہونے کی کیفیات شدت سے سامنے آتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اسے برین فوگ کا نام دیا ہے۔

    دنیا بھر میں کوویڈ19 کے شکار ہونے اور اس سے شفایاب ہونے والے مریض ایک کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں جسے دماغی دھند یا برین فوگ کا نام دیا گیا ہے، اب ایک نئے طریقے سے دماغی دھند کا علاج کیا جاسکتا ہے یا اس کیفیت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اب روچیسٹر میں واقع مایو کلینک سے وابستہ ماہر ڈاکٹر ٹام برگ کوئسٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے دماغی لچک یا نیوروپلاسٹیسٹی کو اس ضمن میں بہت مفید قرار دیا ہے۔ اس عمل میں کئی ایک مشقیں کرواکے دماغی لچک کو بحال کیا جاسکتا ہے جس کے بعض مریضوں پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف البامہ کے سائنسدانوں نے بھی ایک تھراپی پیش کی ہے جسے “شیپنگ” کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں اسی بات پر زور دیا جاتا ہے جس میں دماغ کمزور ہوتا ہے مثلاً لوگ گھریلو امور میں سے کوئی ایک بھول جاتے ہیں۔

    اس طرح ایک کلینک میں رہتے ہوئے ہفتوں اس کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس طرح دماغی سرکٹ اور یادداشت سے وابستہ اعصابی نظام دھیرے دھیرے مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اب تک اس تھراپی کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں۔

    دوسری جانب فلیش کارڈ ، کمپیوٹر گیمز اور دیگر ٹیکنالوجی سے بھی کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی دماغی دھند کو دور کرنے کے تجربات کئے جارہے ہیں۔

  • کرونا دنیا کی آخری وبا، لیکن کیسے؟ بل گیٹس نے کتاب میں بتا دیا

    کرونا دنیا کی آخری وبا، لیکن کیسے؟ بل گیٹس نے کتاب میں بتا دیا

    جیسا کہ بل گیٹس طویل عرصے سے ایک عالمی وبا کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں، اسی طرح اب انھوں نے کووِڈ 19 کی وبا کو دنیا کی آخری وبا بنانے کے لیے ایک کتاب لکھ لی ہے، جو مئی 2022 میں چھپ کر مارکیٹ میں آئے گی۔

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس پُر امید ہیں کہ کرونا دنیا کی آخری وبا ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں انھوں نے ایک کتاب لکھ لی ہے جس میں انھوں نے اس حوالے سے کئی اہم نکات پر گفتگو کی ہے۔

    اپنی اس نئی کتاب کے بارے میں انھوں نے اپنے بلاگ گیٹس نوٹس پر بتایا، انھوں نے کہا اگرچہ ابھی ہم وبا کے اختتام کے قریب نہیں پہنچے، مگر ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے کہ آئندہ اس طرح کی وبا کو پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

    کتاب میں ایسے مخصوص اقدامات بتائے جائیں گے جن کی مدد سے معاشرہ مستقبل کی وباؤں کی روک تھام کر سکے گا۔ انھوں نے بلاگ میں لکھا یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں میں ایک طویل عرصے سے سوچ رہا ہوں، اور کووِڈ نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ وبائی امراض انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہیں اور دنیا کو ان کے خاتمے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

    اس کتاب میں اہم طبی عہدے داران جیسے امریکی صدر کے چیف میڈیکل ایڈوائرزر انتھونی فاؤچی اور عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ سے کی جانے والی بات چیت سے سیکھے جانے والے اسباق بھی شامل ہوں گے۔

    بل گیٹس نے لکھا میں اس وبا کے ابتدائی دنوں ہی سے کرونا کا جائزہ لیتا آ رہا ہوں، اس پر گیٹس فاؤنڈیشن کے اندر اور باہر کے بڑے ماہرین کے ساتھ مسلسل کام کیا، میں نے اس عمل میں بہت کچھ سیکھا ہے، یہ کہ ہم اگلی وبا کو کیسے روک سکتے ہیں، اور میں نے جو کچھ سنا ہے اسے لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا میں نے اس بارے میں ایک کتاب لکھنا شروع کی کہ ہم اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوبارہ وبائی مرض کا شکار نہ ہو۔

    گیٹس نے بتایا کہ اس کتاب کا نام How to Prevent the Next Pandemic (اگلی عالمگیر وبا کو کیسے روکا جائے؟) ہے، اور آپ اسے 3 مئی 2022 کو پڑھ سکیں گے، یہ کتاب امریکا میں Knopf اور بین الاقوامی سطح پر Penguin Random House کے تحت شائع کی جا رہی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے درست اقدامات اٹھائیں اور اس سلسلے میں مخصوص سرمایہ کاری کریں، تو ہم کووڈ 19 کو دنیا کی آخری عالمی وبا بنا سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ویکسینز کے لیے حمایت کرنے پر بل گیٹس سازشی خیالات کا ہدف بھی بنتے رہے ہیں، اور مائیکرو چپ کی افواہیں پھیلائی گئیں۔

  • فریڈم کانوائے احتجاج نے کینیڈا میں حالات کو بدل کر رکھ دیا

    فریڈم کانوائے احتجاج نے کینیڈا میں حالات کو بدل کر رکھ دیا

    اوٹاوا: کرونا ویکسینیشن کے خلاف فریڈم کانوائے احتجاج نے کینیڈا میں حالات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں گزشتہ 10 دن سے جاری ٹرک ڈرائیوروں کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کی مزید پابندیاں نافذ کر دی گئیں۔

    حکام نے ٹرک ڈرائیوروں کے احتجاج کو پسپا کرنے کے لیے ایندھن فراہمی بھی روک دی ہے، تاہم اوٹاوا سمیت کینیڈا کے دیگر شہروں میں صورت حال مکمل طور پر کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے۔

    کرونا پابندیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کا سلسلہ کینیڈا بھر میں پھیل چکا ہے، ہزاروں ٹرکوں نے اوٹاوا کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے ہیں۔

    کانوائے فریڈم تحریک کراس بارڈر ٹرک ڈرائیوروں کے لیے ویکسین لازمی قرار دیے جانے کے خلاف شروع ہوئی تھی، لیکن پھر اس نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی صحت پالیسی کی مخالفت شروع کر دی۔

    اس وقت اوٹاوا میں کاروبار ِ زندگی معطل ہے، مقامی لوگوں نے ٹرک ڈرائیوروں کے خلاف نو اعشاریہ آٹھ ملین ہرجانے کا مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔ سرحد کے آر پار جانے والے ٹرکوں کے لیے لازمی قرار دیے گئے مینڈیٹ کے خلاف احتجاج میں ٹرک ڈرائیور شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہارن بجا رہے ہیں، جس کی وجہ سے رہائشی محلوں کے لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

    میئر جم واٹسن نے میڈیا کو بتایا کہ ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان اس لیے کیا گیا ہے، کیوں کہ اس سے پولیس اور شہر کے عملے کو تیزی سے مطلوبہ وسائل حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

  • کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    مختلف جسمانی بیماریاں اور جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی کووڈ 19 کا آسان شکار بنا سکتی ہے، حال ہی میں وٹامن ڈی کی کمی کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شامل تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی کرونا وائرس کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    اس تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 کی شدت اور موت کے خطرے کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی، اس مقصد کے لیے اپریل 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے طبی ریکارڈز کو حاصل کیا گیا۔

    ریکارڈ میں دیکھا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے 2 سال قبل ان کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کیا تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں کووڈ سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی مناسب سطح والے مریضوں میں کووڈ سے اموات کی شرح 2.3 فیصد تھی جبکہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار گروپ میں 25.6 فیصد ریکارڈ ہوئی۔

    تحقیق میں عمر، جنس، موسم (گرمی یا سردی)، دائمی امراض کو مدنظر رکھنے پر بھی یہی نتائج سامنے آئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح کو برقرار رکھنا کرونا وائرس کی وبا کے دوران فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، ڈاکٹر کے مشورے پر وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال معمول بنایا جانا چاہیئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا کے دوران مناسب مقدار میں وٹامن ڈی سے اس وبائی مرض کے خلاف زیادہ بہتر مدافعتی ردعمل کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسے شواہد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ مریض میں وٹامن ڈی کی کمی کووڈ 19 کے سنگین اثرات کی پیشگوئی ہوسکتی ہے۔