Tag: Covid-19

  • اومیکرون کا خوف: بھارت میں کرفیو نافذ

    اومیکرون کا خوف: بھارت میں کرفیو نافذ

    نئی دہلی: کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر بھارت کے کئی علاقوں میں کرفیو لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں ایک ہی دن میں 37 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد پنجاب اور مرکز کے زیر انتظام دہلی کی ریاستوں نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات نافذ کر دیے ہیں۔

    دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے منگل کو قومی دارالحکومت میں ویک اینڈ کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کرفیو کے دوران صرف ضروری نقل و حرکت کی اجازت ہوگی، تمام سرکاری دفاتر میں گھر سے کام کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ نجی دفاتر کو 50 فی صد حاضری پر کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

    اس دوران پنجاب حکومت نے بھی ضروری سروسز کو چھوڑ کر رات 10 بجے سے صبح 5 بجے تک ریاست میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے، تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے، ج بکہ آن لائن کلاسز جاری رہیں گی۔

    بھارت میں کرونا کا پھیلاؤ تیز، وزیراعلیٰ نئی دہلی بھی متاثر

    مزید برآں، بارز، سینما ہالز، مالز، ریسٹونٹس اور اسپاز کو 50 فی صد حاضری کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہوگی، اس کے ساتھ عملے کی مکمل ویکسینیشن بھی کی جائے گی۔

    ریاست تلنگانہ میں 8 اور 16 جنوری کے درمیان ریاست بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے ہندو مکر سکرنتی تہوار کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے، ممبئی میں بھی اسکول بند کر دیے گئے ہیں،۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست بہار میں 3 دن میں 168 ڈاکٹرز میں کرونا کی تشخیص ہو چکی ہے، بھارت میں ممبئی سے گوا جانے والے کروز جہاز کے تمام مسافروں کو بھی واپس بھیج دیا گیا ہے، جس میں 2 ہزار مسافروں میں سے 66 میں کرونا کی تشخیص ہوئی تھی۔

  • کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    واشنگٹن: جسمانی وزن میں اضافہ کووڈ 19 کے لیے سازگار عنصر قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ زیادہ وزن کرونا وائرس کی سنگینیوں میں اضافہ کرسکتا ہے جبکہ کم وزن والے افراد میں یہ خطرہ کم ہے، اب اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر وزن میں کمی لاکر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں نمایاں کمی لانا کووڈ 19 سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسمانی وزن میں کمی لاتے ہیں تو بیماری کی پیچیدگیوں کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے قبل سرجری کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانے والے افراد میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر اپنے جسمانی وزن کو کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل کم کرلیتے ہیں تو سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ٹھوس شواہد فراہم ہوتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے مگر اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    تحقیق میں شامل 20 ہزار سے زیادہ افراد میں سے 5 ہزار نے اپنا جسمانی وزن سرجری کے ذریعے 2004 سے 2017 کے دوران کم کیا تھا اور ان کا موازنہ باقی 15 ہزار افراد پر مشتمل کنٹرول گروپ سے کیا گیا۔

    کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد ان افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح، اسپتال میں داخلے، آکسیجن کی ضرورت اور سنگین پیچیدگیوں کو دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح دونوں گروپس میں ملتی جلتی تھی مگر جسمانی وزن کم کروانے والی سرجری کے عمل سے گزرنے والے افراد میں بیماری کے بعد کے نتائج دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ وزن کم کرنے والے مریضوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ 49 فیصد، آکسیجن کی ضرورت کا امکان 63 فیصد اور بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ جسمانی وزن میں کمی لانا کووڈ کے مریضوں کو جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران جسمانی وزن میں کمی کو عوامی صحت کی حکمت عملی بنا کر بہتری لاسکتے ہیں۔

  • اسرائیل میں کرونا وائرس نے ایک اور شکل اختیار کر لی

    اسرائیل میں کرونا وائرس نے ایک اور شکل اختیار کر لی

    تل ابیب: اسرائیل میں کرونا وائرس نے ایک اور شکل اختیار کر لی ہے جو کووِڈ نائٹین اور عام فلو کے وائرس کے امتزاج سے سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب دنیا کرونا کی مختلف اقسام ڈیلٹا اور اومیکرون سے نبرد آزما ہے، اسرائیل میں کرونا وائرس اور فلو انفیکشن کے پہلے مشترکہ ‘فلورونا’ کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    ڈیلٹا اور اومیکرون کے امتزاج کو ‘ڈیلمیکرون’ کہا جاتا ہے، اس کے کیسز بھی اسرائیل میں سامنے آئے، جب کہ اسرائیل میں سامنے آنے والے کرونا وائرس اور فلو انفیکشن کے امتزاج کو ‘فلورونا’ کا نام دیا گیا ہے۔

    اسرائیلی میڈیا کے مطابق پہلا ‘فلورونا’ وائرس ایک خاتون میں پایا گیا، جس نے حال ہی میں وسطی اسرائیل کے شہر پیتاہ تکوا کے ایک اسپتال میں بچے کو جنم دیا تھا۔

    نوجوان خاتون کو ویکسین نہیں لگائی گئی تھی اور اسپتال کی رپورٹس میں فلو اور کرونا وائرس دونوں پیتھوجینز کی مشترکہ موجودگی کا پتا چلا ہے۔

    خاتون میں بیماری کی نسبتاً ہلکی علامات ہیں اور اسے جلد ہی ڈسچارج کر دیا جائے گا۔

  • کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس کسی جسم پر حملہ آور ہونے کے بعد جہاں اسے مختلف نقصانات پہنچاتا ہے وہیں اس حوالے سے ایک اور اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس جسم میں ایسے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے جو بیماری اور ریکوری کے بعد بھی برقرار رہتا ہے اور ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جب لوگ کسی وائرس یا دیگر جراثیموں سے بییمار ہوتے ہیں تو ان کا جسم اینٹی باڈیز نامی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے تاکہ حملے کو روکا جاسکے، مگر کچھ کیسز میں لوگوں میں آٹو اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ جسم کے اپنے اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر رہنے والے افراد میں متعدد اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز مکمل صحت یابی کے 6 ماہ بعد بھی موجود ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق سے قبل محققین کو معلوم تھا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر اتنا زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ آٹو اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ معمولی بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں بھی آٹو اینٹی باڈیز کی سطح وقت کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیز کووڈ 19 کو ایک منفرد بیماری بناتی ہے، مدافعتی نظام کے افعال متاثر ہونے کے ایسے رجحانات طویل المعیاد علامات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں جس کو لانگ کووڈ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 177 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ماضی میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی تھی۔

    ان افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ ایسے صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا گیا جن کو وبا سے قبل جمع کیا گیا۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے متاثر تمام افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ ہوچکا تھا اور ان میں سے کچھ آٹو اینٹی باڈیز ایسے افراد میں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے آٹو اینٹی باڈی سرگرمیوں کے سگنلز کو دریافت کیا جو عموماً دائمی ورم سے جڑے ہوتے ہہیں اور اعضا کے مخصوص نظاموں اور ٹشوز جیسے جوڑوں، جلد اور اعصابی نظام میں انجری کا باعث بنتے ہیں۔

    اب وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کون سی اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والی افراد میں موجود ہوتی ہیں۔

    چونکہ اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ویکسینز کی تیاری سے قبل کووڈ سے متاثر ہوئے تھے تو اب محققین ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔

  • کیا کرونا ویکسین چھوٹے بچوں میں محفوظ اور مؤثر ہیں؟

    کیا کرونا ویکسین چھوٹے بچوں میں محفوظ اور مؤثر ہیں؟

    واشنگٹن: امریکی ادارے سی ڈی سی نے مختلف تحقیقی رپورٹس میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین مختلف عمر کے بچوں کے لیے محفوظ اور بیماری سے بچاؤ میں مؤثر ہیں۔

    اس حوالے سے امریکی ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر تین ریسرچ رپورٹس جاری کی ہیں، یہ رپورٹس مختلف عمر کے بچوں کے حوالے سے ہیں، جو 5 سے 11 سال، 12 سے 17 سال اور 5 سے 17 سال کی عمر کے بریکٹس پر مشتمل ہیں۔

    5 سے 11 سال کی عمر کے 42 ہزار سے زیادہ ایسے بچوں میں جو ویکسینیشن کروا چکے تھے، فائزر ویکسین کے محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی، اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد نظر آنے والے مضر اثرات اکثر معمولی اور عارضی ہوتے ہیں اور دل کے پٹھوں کے ورم کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔

    دوسری تحقیق میں 12 سے 17 سال کی عمر کے 243 بچوں میں فائزر ویکسین کے مؤثر ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی، معلوم ہوا کہ یہ ویکسین بیماری سے بچانے کے لیے 92 فی صد تک مؤثر ہے۔

    یہ تحقیق جولائی سے دسمبر 2021 کے دوران ہوئی جب امریکا میں ڈیلٹا قسم کے کیسز زیادہ تھے، جب کہ اس عمر کے بچوں میں کرونا کی شرح بہت کم تھی، تیسری تحقیق بھی اس وقت ہوئی جب ڈیلٹا کا غلبہ تھا۔

    اس تحقیق میں 5 سے 17 سال کی عمر کے ان بچوں کو شامل کیا گیا جو کرونا انفیکشن کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہے تھے اور ان میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے بچوں کی شرح ایک فی صد سے بھی کم تھی۔

    بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر جان براؤنسٹین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں ان رپورٹس سے تصدیق ہوتی ہے کہ ویکسین بہت زیادہ محفوظ اور مؤثر ہیں، ویکسین سے مضر اثرات کا خطرہ بہت کم ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں نومبر سے 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں میں فائزر ویکسین کا استعمال کرایا جا رہا ہے، جب کہ مئی 2021 میں 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کے لیے اس کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی، اگست میں 16 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے بھی فائزر ویکسین کے استعمال کی مکمل منظوری دی گئی تھی۔

  • اومیکرون: امریکا میں کیسز کا ریکارڈ ٹوٹ گیا

    اومیکرون: امریکا میں کیسز کا ریکارڈ ٹوٹ گیا

    واشنگٹن: کرونا وائرس کے سب سے زیادہ متعدی ویرینٹ اومیکرون کے بعد امریکا میں کیسز کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اومیکرون کے پھیلاؤ کے باعث دنیا بھر میں کرونا وبا شدت اختیار کر گئی ہے، امریکا میں کیسز کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، ایک دن میں 5 لاکھ 72 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔

    امریکا میں کرونا وائرس انفیکشن کی وجہ سے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک ہزار 362 مریض ہلاک ہو گئے ہیں۔

    امریکا میں اب تک کرونا وائرس سے 8 لاکھ 45 ہزار 7 سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ وائرس سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 5 کروڑ 52 لاکھ 52 ہزار سے زائد ہے۔

    ادھر برطانیہ میں مسلسل دوسرے روز بھی ایک لاکھ 89 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں، جب کہ 332 افراد جان سے گئے، جس کے بعد برطانیہ میں مجموعی اموات 1 لاکھ 48 ہزار ہو گئی ہیں۔

    فرانس میں مسلسل دوسرے روز 2 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، کینیڈا کے شہر کیوبک میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، ترکی میں ریکارڈ 37 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ 7 یورپی ممالک نے ترک مسافروں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

    دوسری طرف جنوبی افریقہ نے اومیکرون ویرینٹ پر قابو پا نے کا دعویٰ کر دیا ہے، کہا گیا کہ ملک میں وبا کی چوتھی لہر گزر چکی ہے۔

  • پاکستان میں اومیکرون کیسز کی تعداد کتنی؟

    پاکستان میں اومیکرون کیسز کی تعداد کتنی؟

    اسلام آباد: پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب تک اومیکرون کے 75 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارۂ صحت نے کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں کیسز کی تعداد پچھتر ہو چکی ہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق اومیکرون ویرینٹ کا پہلا کیس 13 دسمبر کو کراچی میں سامنے آیا تھا، جب کہ شہر قائد سے اب تک اومیکرون ویرینٹ کے 33 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    قومی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سے اب تک اومیکرون ویرینٹ کے 17 کیسز، لاہور سے 13 کیسز سامنے آ چکے ہیں، جب کہ سامنے آنے والے 12 کیسز کی بیرون ملک ٹریولنگ ہسٹری ہے۔

    اومیکرون موجودہ ویکسینز کی افادیت کے لیے خطرہ، مزید شواہد مل گئے

    این آئی ایچ کے مطابق وفاقی اور صوبائی صحت حکام اومیکرون کے حوالے سے صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور اومیکرون سے متاثرہ افراد کو فوری آئیسولیٹ کیا جا چکا ہے۔

    ملک میں اومیکرون کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہنگامی ٹریسنگ اور ٹیسٹنگ کا عمل بھی جاری ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز سیکریٹری ہیلتھ سکندر بلوچ نے بتایا تھا کہ لاہور میں اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی ہے، جب کہ مزید 12 مشتبہ افراد کے سیمپل ٹیسٹ کے لیے بھجوائے گئے ہیں۔

  • مصر میں کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے بری خبر

    مصر میں کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے بری خبر

    قاہرہ: مصر میں کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے بری خبر ہے، ایسے افراد سرکاری خدمات سے محروم رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کی وزارت صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک میں رہنے والے تمام بالغ افراد کو کرونا ویکسین کی ڈوز ہر صورت میں لینا ہوگی۔

    وزارت صحت نے خبردار کیا کہ ویکسینیشن نہ کروانے والوں کو صحت اور تعلیم کے میدان میں سروسز کے حق سے محروم ہونا پڑے گا، ترجمان وزارت صحت حسام عبدالغفار نے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے کا اطلاق 18 سال سے زائد عمرکے تمام شہریوں پر ہوگا۔

    مصری یونیورسٹیز کی سپریم کونسل نے تصدیق کی ہے کہ کرونا ویکسین کی ڈوز نہ لینے والے طلبہ کو کسی بھی قسم کا امتحان دینے کے لیے یونیورسٹی کے کیمپس میں داخلے سے روک دیا جائے گا۔ جب کہ طبی بنیادوں پر کرونا ویکسین سے استثنیٰ لینے والے افراد کو ہر تین دن بعد پی سی آر ٹیسٹ کرانا پڑے گا۔

    اس سے قبل سرکاری محکموں میں ملازمین کو دفاتر میں جانے سے روک دیا گیا تھا اور انھیں کہا گیا تھا کہ کرونا ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لینے والے ہی دفاتر میں داخل ہو سکتے ہیں۔

    مصری وزارت صحت کے مطابق ملک میں کرونا ویکسین کی 118 ملین ڈوز کا انتظام کیا جا چکا ہے جب کہ ابھی 55 ملین افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے۔

  • اومیکرون موجودہ ویکسینز کی افادیت کے لیے خطرہ، مزید شواہد مل گئے

    اومیکرون موجودہ ویکسینز کی افادیت کے لیے خطرہ، مزید شواہد مل گئے

    کولمبیا: کرونا وائرس کی نئی قِسم اومیکرون موجودہ ویکسینز کی افادیت کے لیے خطرہ ہے، طبی محققین کو اس امر کے مزید شواہد مل گئے ہیں۔

    طبی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے مزید شواہد سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا کے اومیکرون ویرینٹ سابقہ بیماری اور ویکسینیشن سے پیدا ہونے والے مدافعتی تحفظ پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔

    کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کولمبیا کے محققین نے ہانگ کانگ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر ایسے مزید شواہد کا اضافہ کیا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ ویکسین اور قدرتی انفیکشن کے ذریعے فراہم کردہ مدافعتی تحفظ سے بچ سکتا ہے، اور اس سے نئی ویکسین کی تیاری اور علاج کی ضرورت سامنے آئی ہے، اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وائرس کس طرح جلد ہی اپنی اصل حالت سے ایک پیچیدہ صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کی ایک نمایاں خصوصیت وائرس کے اسپائک پروٹین میں تبدیلیوں کی خطرناک تعداد ہے جو موجودہ ویکسین اور علاج کے اینٹی باڈیز کی تاثیر کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

    اس نئی تحقیق میں لیبارٹری تجزیوں میں اومیکرون ویرینٹ کو بے اثر کرنے کے لیے ویکسینیشن کے ذریعے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی صلاحیت کو ٹیسٹ کیا گیا، یہ اینٹی باڈیز زندہ وائرسز کے خلاف بھی اور لیب میں تیار کردہ اومیکرون کی نقل وائرسز کے خلاف بھی تیار ہوتی ہیں، تحقیق کے دوران ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے ذریعے اومیکرون نیوٹرلائزیشن میں بڑی کمی دیکھی گئی۔

    سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چار میں سے (موڈرنا، فائزر، آسٹرازینیکا، جانسن اینڈ جانسن) کسی بھی ویکسین کے ساتھ دوہرے ٹیکے لگوانے والے لوگوں کی اینٹی باڈیز ابتدائی وائرس کے مقابلے میں اومیکرون ویرینٹ کو بے اثر کرنے میں نمایاں طور پر کم مؤثر تھیں۔ پہلے سے متاثرہ افراد کی اینٹی باڈیز کے اومیکرون کو بے اثر کرنے کا امکان بھی کم دیکھا گیا۔

    جن افراد کو دونوں ایم آر این اے ویکسینز میں سے کسی ایک کا بوسٹر شاٹ ملا، ان میں بہتر تحفظ کا امکان دیکھا گیا، حالاں کہ ان کے اینٹی باڈیز نے بھی اومیکرون کو غیر مؤثر کرنے والی سرگرمی کا کم اظہار کیا۔

    تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ ہَو کا کہنا تھا کہ ان نئے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ پہلے سے متاثرہ افراد اور مکمل طور پر ویکسین شدہ افراد کو اومیکرون ویرینٹ سے انفیکشن کا خطرہ موجود ہے، یہاں تک کہ ایک تیسرا بوسٹر شاٹ بھی اومیکرون انفیکشن کے خلاف مناسب طور پر حفاظت فراہم نہیں کر سکتا، لیکن یہ بوسٹر شاٹ لینا ضرور چاہیے، کیوں کہ اس سے پھر بھی کچھ امیونٹی حاصل ہوگی۔

    یہ نتائج دیگر تحقیقی مطالعات کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے ابتدائی وبائی امراض کے اعداد و شمار سے بھی مطابقت رکھتے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا کی علامات والی بیماری کے خلاف ویکسین کی 2 ڈوز کی افادیت اومیکرون ویرینٹ کے خلاف نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔

    دیگر طریقہ ہائے علاج کے سلسلے میں محققین نے یہ بھی کہا کہ جب مونوکلونل اینٹی باڈیز کرونا انفیکشن کی ابتدا میں دی جائیں تو اس سے لوگوں میں شدید کرونا انفیکشن رک جاتا ہے، لیکن اس نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت استعمال ہونے والے تمام علاج اور جن کی تیاری پر ابھی کام جاری ہے، اومیکرون کے خلاف بہت کم مؤثر ہیں۔

    تحقیق میں اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں 4 نئی میوٹیشنز کو بھی شناخت کیا گیا جو وائرس کو اینٹی باڈیز پر حملہ آور ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں، محققین کے مطابق یہ تفصیلات اس نئی قسم سے مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی کو ڈیزائن کرنے میں مدد فراہم کر سکے گی۔

  • جاپان: امریکی کمپنی کی کرونا ٹیبلٹ استعمال کے لیے منظور

    جاپان: امریکی کمپنی کی کرونا ٹیبلٹ استعمال کے لیے منظور

    ٹوکیو: جاپان میں امریکی کمپنی کی کرونا ٹیبلٹ کو ہنگامی استعمال کی منظوری مل گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جمعے کو جاپان کے ہیلتھ پینل نے امریکی دوا ساز کمپنی مرک کی کرونا انفیکشن کے لیے تیار کردہ اینٹی وائرل گولی مولنوپراویر (Molnupiravir) کے استعمال کی منظوری دے دی۔

    جاپانی وزارت صحت کے پینل کی جانب سے یہ منظوری جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا کے اس سال کے آخر تک نئے طریقہ علاج کے شروع کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے، کیوں کہ اومیکرون ویرینٹ کے بارے میں خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    ہیلتھ پینل کے اس فیصلے نے اس ہفتے کے آخر سے ملک بھر میں 2 لاکھ خوراکوں کی ترسیل کے مرحلے کے لیے راہ ہموار کر دی ہے، جس سے متعلق وزیر اعظم کشیدا کی طرف سے اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔

    امریکا میں کرونا کے علاج کے لیے ایک اور ٹیبلٹ منظور

    جاپان کے وزیر صحت شیگیوکی گوٹو نے میڈیا کو بتایا کہ اس دوا کی تقسیم ہماری قوم کے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، کچھ طبی ادارے اور فارمیسیاں اگلے پیر تک یہ گولیاں وصول کرنا شروع کر دیں گے۔

    جاپانی حکومت نے گزشتہ ماہ مرک کمپنی کو ان کی دوائی مولنوپِراویر کے 16 لاکھ کورسز کے لیے تقریباً 1.2 ارب ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

    جاپان کرونا کے سنگین انفیکشن اور اس سے اموات کی شرح کو ختم کرنے کے لیے منہ کے ذریعے کھائی جانے والی دوا پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، کیوں کہ کرونا وبا کی چھٹی لہر کا خدشہ سر پر ہے۔

    مزید برآں، وزیر اعظم کشیدا نے گزشتہ ہفتے فائزر کی تیار کردہ ایک الگ اینٹی وائرل گولی کی 20 لاکھ خوراکیں خریدنے کے معاہدے کا بھی اعلان کیا تھا، توقع ہے کہ جاپان کی شیونوگی کمپنی جلد ہی اپنی تیار کردہ دوا کی منظوری کے لیے درخواست دے گی، اور اگلے سال کے اوائل تک مزید 1 ملین خوراکیں فراہم کرے گی۔