Tag: Covid-19

  • یورپ نے فائزر کی کووِڈ ٹیبلٹ کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی

    یورپ نے فائزر کی کووِڈ ٹیبلٹ کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی

    برسلز: یورپی یونین کے ڈرگ ریگولیٹر نے فائزر کی تیار کر دہ کرونا گولی کے ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی فائزر کی کرونا کی دوا کو یورپی یونین ڈرگ ریگولیٹر نے ایمرجنسی استعمال کے لیے منظوری فراہم کر دی ہے۔

    امریکی فارما کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ دوا اومیکرون ویرینٹ سے نمٹنے کے لیے ایک نئے طرح کا علاج ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس دوا کے ذریعے مریضوں میں اسپتال میں داخل ہونے اور موت کے خطرے کو تقریباً 90 فی صد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

    یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کے مطابق فائزر کی گولی ابھی تک یورپی یونین میں منظور شدہ نہیں ہے، تاہم اسے کرونا کے ایسے بالغ مریضوں کے علاج کے لیے ہنگامی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جنھیں اضافی آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔

    فائزر کی اس دوا کا نام پیکس لووڈ (Paxlovid) ہے اور یہ ایک نئے مالیکیول PF-07321332 اور ایچ آئی وی اینٹی وائرل ریٹینویر کا مرکب ہے۔

    استعمال کے حوالے سے یورپی میڈیسن ایجنسی نے کہا کہ پیکس لووڈ کو کووڈ-19 کی تشخیص کے بعد اور علامات کے شروع ہونے کے 5 دنوں کے اندر استعمال کرنا چاہیے، اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور یہ گولیاں پانچ دن تک کھانی چاہیئں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ فائزر کی اس گولی کے کچھ مضر اثرات بھی ممکن ہیں، جیسا کہ ذائقے میں کمی محسوس ہونا، اسہال اور متلی۔ استعمال کے دوران احتیاط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حاملہ خواتین کو اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے اور اسے لیتے وقت دودھ پلانا بند کر دینا چاہیے۔

  • کرونا کے مریضوں کے لیے خوشخبری، فائزر کی گولی حتمی نتیجے میں 90 فیصد مؤثر ثابت

    کرونا کے مریضوں کے لیے خوشخبری، فائزر کی گولی حتمی نتیجے میں 90 فیصد مؤثر ثابت

    نیویارک: کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے خوشخبری ہے کہ فائزر کی گولی حتمی نتیجے میں 90 فیصد مؤثر ثابت ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فائزر کی تیار کردہ کرونا وائرس گولی کے حتمی تجزیے کا نتیجہ آ گیا، فائزر کمپنی کا کہنا ہے کہ حتمی تجزیے میں COVID-19 کی گولی 90 فی صد کے قریب مؤثر ہے۔

    فائزر کمپنی نے منگل کے روز کہا کہ اس کی اینٹی وائرل کووِڈ گولی کے حتمی تجزیے میں اب بھی زیادہ خطرے والے مریضوں میں اسپتال میں داخل ہونے اور اموات کو روکنے میں 90 فی صد کے قریب افادیت ظاہر ہوئی ہے، اور لیب کے حالیہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ دوا کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے والے Omicron ویرینٹ کے خلاف اپنی تاثیر کو برقرار رکھے گی۔

    امریکی دوا ساز کمپنی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ تقریباً 1,200 افراد کے عبوری نتائج کی بنیاد پر پلیسبو کے مقابلے میں منہ کے ذریعے کھائی جانے والی دوا اسپتال میں داخل ہونے یا اموات کو روکنے میں 89 فی صد کے قریب مؤثر ہے۔ منگل کو جو اعداد و شمار بتائے گئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرائلز میں مزید 1,000 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    ٹرائل کے دوران پلیسبو وصول کرنے والوں میں 12 اموات کے مقابلے میں فائزر کی گولی کھانے والوں میں کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔

    فائزر کی نئی گولی کا طریقہ استعمال

    کرونا وائرس کے خلاف فائزر کی یہ گولیاں پرانی اینٹی وائرل دوا ریٹوناویر (ritonavir) کے ساتھ ہر 12 گھنٹے بعد 5 دنوں تک لی جاتی ہیں۔ اور اس کا علاج بیماری کی علامات کے شروع ہونے کے فوراً بعد سے شروع ہوتا ہے۔

    اگر متعلقہ حکام کی جانب سے اس گولی کے استعمال کی اجازت مل گئی تو اس گولی کو Paxlovid کے نام سے فروخت کیا جائے گا۔

    منگل کے اعلان میں، فائزر نے کہا کہ اگر علامات شروع ہونے کے تین دنوں کے اندر یہ گولی دی جائے تو اسپتال میں داخل ہونے اور موت کے خطرے کو 89 فی صد تک کم کر دیتی ہے۔ اگر پانچ دنوں کے اندر دیا جائے تو خطرہ تقریباً اتنا ہی کم ہو کر 88 فی صد ہو جاتا ہے۔

    فائزر نے کہا کہ پیکسلووِڈ گولی حاصل کرنے والے مریضوں میں سے صرف 0.7 فی صد ٹرائل میں داخل ہونے کے 28 دنوں کے اندر اسپتال میں داخل ہوئے، اور کوئی بھی نہیں مرا۔ اس کے برعکس، 6.5 فی صد مریض جنھوں نے پلیسبو حاصل کیا وہ اسپتال میں داخل ہوئے یا مر گئے۔

    واضح رہے کہ فائزر نے دوسرے کلینیکل ٹرائل سے ابتدائی ڈیٹا بھی جاری کیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ اس علاج نے تقریباً 600 معیاری رسک والے بالغان میں اسپتال میں داخل ہونے میں تقریباً 70 فی صد کمی کی۔

    نئے علاج کے حتمی نتیجے سے متعلق فائزر کے چیف سائنٹیفک آفیسر میکائیل ڈولسٹن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ ایک شان دار نتیجہ ہے، یہ علاج حیرت انگیز تعداد میں جان بچانے اور اسپتال میں داخل ہونے کے کیسز روکنے سے متعلق ہے، اور یقیناً، اگر آپ انفیکشن کے فوری بعد اس کا استعمال شروع کرتے ہیں تو، ہم ممکنہ طور پر وبا کے پھیلاؤ کو ڈرامائی طور پر کم کر دیں گے۔

  • چین میں 5 لاکھ افراد قرنطینہ

    چین میں 5 لاکھ افراد قرنطینہ

    ژی جیانگ: چین کے صوبے ژی جیانگ میں 5 لاکھ سے زائد افراد کو قرنطینہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں ایک بار پھر کرونا وائرس کے نئے کیسز سامنے آئے ہیں، تعداد میں یہ اتنے کیسز نہیں ہیں لیکن چین کی پالیسی کرونا وبا کنٹرول کے حوالے سے سخت ہونے کی وجہ سے ایک بڑی آبادی کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔

    چینی میڈیا کے مطابق صوبے ژی جیانگ میں کرونا کیسز کی وجہ سے 5 لاکھ سے زائد افراد قرنطینہ کر دیے گئے ہیں، ژی جیانگ ملک کے مشرقی ساحل پر واقع ایک بڑا صنعتی اور برآمدی مرکز ہے، جہاں مقامی طور پر 44 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    صوبہ ژی جیانگ میں مجموعی طور پر کرونا وائرس متاثرین کی تعداد 200 ہو گئی ہے، دوسری طرف انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے 5 لاکھ 40 ہزار لوگوں کو قرنطینہ کیا ہے۔

    حکام کی جانب سے کرونا وبا کی روک تھام کا حالیہ اقدام گزشتہ روز صوبے میں اومیکرون کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے، غیر ملکی میڈیا نے آج چین کے شہر گوانگ زو میں اومیکرون کے دوسرے کیس کی تصدیق کی خبر بھی شائع کی ہے، یہ کیس دو ہفتے قبل باہر سے آیا تھا۔

    میڈیا کے مطابق اومیکرون سے متاثرہ پہلا شخص 9 دسمبر کو بیرون ملک سے آیا تھا، متاثرہ شخص کو اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔

    صوبے کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر ہانگژو میں کئی کمپنیوں نے پروڈکشن کا کام معطل کر دیا ہے۔ فلائٹ ٹریکر ویری فلائٹ کے ڈیٹا کے مطابق ہانگزو کی کئی پروازیں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔

  • کرونا ویکسین دن میں کس وقت لگوانا زیادہ مفید ہے؟

    کرونا ویکسین دن میں کس وقت لگوانا زیادہ مفید ہے؟

    سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف ویکسین اگر دوپہر کے بعد لگوائی جائے تو یہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ریسرچ اسٹڈی میں معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ 19 ویکسین سے جسم میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈی کی سطح دوپہر کے وقت ٹیکے لگائے جانے والوں میں زیادہ دیکھی گئی۔

    اس نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دن کے وقت اگر کوئی شخص اپنی کووِڈ ویکسین حاصل کرتا ہے تو اس کا اثر جسم کے مدافعتی ردعمل پر اچھا پڑ سکتا ہے، اس حوالے سے سائنس دانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ بعد از دوپہر لگائی جانے والی ویکسین انسانی جسم میں زیادہ مقدار میں اینٹی باڈیز پیدا کرتی ہے۔

    ہفتے کو بائیولوجیکل ردھمز نامی جریدے میں شائد شدہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی اس تحقیق میں، برطانیہ میں کرونا ویکسین لگوانے والے 2,190 ہیلتھ کیئر ورکرز کے اینٹی باڈیز ڈیٹا کا مشاہدہ کیا گیا۔

    محققین نے پایا کہ اُن لوگوں میں اینٹی باڈی ردعمل سب سے زیادہ تھا جنھیں 3 بجے دن اور رات 9 بجے کے درمیان ویکسین لگائی گئی تھی۔ ان افراد کا موازنہ ان لوگوں سے کیا گیا تھا جنھوں نے ویکسین دن کے شروع میں لگوائی تھی۔

    اس تحقیق کی شریک مصنف پروفیسر ایلزبتھ کلرمین نے کہا ہمارے مشاہداتی مطالعے میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جس وقت کرونا کی ویکسینیشن دی جاتی ہے اس سے مدافعتی نظام کس طرح متاثر ہوتا ہے، یہ نتائج ہمیں ویکسین کی تاثیر کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ تحقیق کے لیے جن ہیلتھ ورکرز کا ڈیٹا شامل کیا گیا تھا، انھوں نے ویکسین کی پہلی ڈوز دسمبر 2020 اور فروری 2021 کے درمیان لی تھی، اور یا تو انھوں نے فائزر یا آسٹرازینیکا کی ویکسین لگوائی تھی۔

  • پاکستان میں کورونا سے مزید 6 اموات اور 244 کیسز رپورٹ

    پاکستان میں کورونا سے مزید 6 اموات اور 244 کیسز رپورٹ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز کی مثبت شرح میں کمی کا سلسلہ جاری ہے ، گذ شتہ 24 گھنٹے میں 6 اموات اور 244 کیسز سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ ترین اعدادو شمار جاری کردیئے ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 24 گھنٹےمیں کورونا سے مزید 6 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات 28ہزار836 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں 39ہزار387 کورونا ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے 244 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 0.61 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا کے 731 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 89 ہزار 293 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 78 ہزار 017 ، پنجاب میں 4 لاکھ 43 ہزار 886 ، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 80 ہزار696 اور بلوچستان میں 33 ہزار532 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 8 ہزار 128 ، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 426 اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار608 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • بوسٹر شاٹ سے اومیکرون کے خلاف کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے؟

    بوسٹر شاٹ سے اومیکرون کے خلاف کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے؟

    لندن: برطانوی طبی ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسینز کے بوسٹر شاٹ سے کم شدت کے اومیکرون کے خلاف 70 سے 75 فی صد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریضوں پر براہ راست آزمائے جانے کے بعد ابتدائی طور پر جو اعداد و شمار سے حاصل ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ کرونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون ویرینٹ سے ہونے والی ہلکی بیماری سے بچاتی ہے۔

    لیب اسٹڈیز سے باہر کی جانے والی اس ریسرچ کے ابتدائی اعدا و شمار جمعہ کو جاری کیے گئے ہیں۔

    ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ، جب کہ اومیکرون ویرینٹ ابتدائی 2 ڈوزز کے ویکسینیشن کورس سے ہلکی بیماری کے خلاف تحفظ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے، تاہم بوسٹرز ڈوز نے اس تحفظ کو ایک حد تک پھر بحال کیا۔

    برطانوی ادارے میں حفاظتی ٹیکوں کی سربراہ میری رامسے نے کہا کہ ان ابتدائی تخمینوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے، کیوں کہ یہ اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ دوسری ڈوز کے چند ماہ بعد، ڈیلٹا اسٹرین کے مقابلے میں اومیکرون ویرینٹ کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شدید بیماری کے خلاف تحفظ زیادہ رہنے کی امید کی گئی تھی۔

    میری رامسے نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بوسٹر ویکسین کے بعد یہ خطرہ نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے، اس لیے میں ہر کسی سے گزارش کرتی ہوں کہ جب اہل ہوں تو اپنا بوسٹر ضرور لگوائیں۔

    اس ریسرچ اسٹڈی کے لیے اومیکرون کے تصدیق شدہ 581 کیسز کا تجزیہ کیا گیا، ان افراد کو اومیکرون ویرینٹ کی علامات بھی ظاہر ہو گئی تھیں، انھیں آسٹرازینیکا اور فائزر ویکسینز کی 2 ڈوز لگائی گئیں، دیکھا گیا کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں دو ڈوز سے انفیکشن کے خلاف تحفظ کی بہت کم سطح فراہم ہوئی۔

    تاہم جب فائزر ویکسین کی بوسٹر ڈوز دی گئی تو، ابتدائی طور پر آسٹرازینیکا دو ڈوز لگوانے والے لوگوں کے لیے علامات والے انفیکشن کے خلاف تقریباً 70 فی صد تحفظ پایا گیا، جب کہ فائزر کی دو ڈوز حاصل کرنے والوں کے لیے تحفظ کو تقریباً 75 فیصد پایا گیا۔ ڈیلٹا سے اس کا موازنہ کیا جائے تو بوسٹر ڈوز کے بعد ڈیلٹا میں تقریباً 90 فیصد تحفظ پایا گیا۔

    ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ سائنس دان نہیں جانتے کہ اومیکرون سے ہونے والے شدید انفیکشن میں یہ ویکسینز کس حد تک کارآمد ہوں گی، تاہم یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہلکے انفیکشن کے مقابلے میں شدید انفیکشن کے خلاف یہ زیادہ مؤثر ہوں گی۔

  • کرونا وائرس کی وبا کب ختم ہوگی؟ بل گیٹس نے بتا دیا

    کرونا وائرس کی وبا کب ختم ہوگی؟ بل گیٹس نے بتا دیا

    ایک عرصے تک دنیا کے سب سے متمول رہنے والے شخص اور مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ کووِڈ 19 کی عالم گیر وبا کا خطرناک مرحلہ 2022 میں‌ ختم ہو جائے گا۔

    یہ بات انھوں نے اپنے بلاگ ‘گیٹس نوٹس’ میں کہی ہے، اس سے قبل بھی انھوں نے کرونا کی وبا کے خاتمے سے متعلق پیش گوئی کی تھی، اس حوالے سے انھوں نے لکھا کہ ایک اور پیش گوئی کرنا احمقانہ محسوس ہوگا لیکن میرا خیال ہے کہ وبا کا خطرناک مرحلہ اگلے برس میں کسی وقت ختم ہو جائے گا۔

    ایک ایسے وقت میں جب کہ کرونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون سے دنیا بھر میں تشویش پھیلی ہوئی ہے، بل گیٹس نے وبا کے خاتمے کی توقع کیوں ظاہر کی؟ اس سلسلے میں انھوں نے ویکسینز اور اینٹی وائرل ادویات کی تیاری کی رفتار کا ذکر کیا، اور کہا کہ اب جلد ہی کرونا ایک عام وبا یا مقامی مرض بن کر رہ جائے گا۔

    بل گیٹس نے لکھا کہ وبا کا اب کوئی بھی مرحلہ ہو، دنیا وائرس کی خطرناک اقسام سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہو چکی ہے، ضرورت پڑنے پر اب ہم اپ ڈیٹڈ ویکسینز تیار کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔

    اس سے قبل دسمبر 2020 میں ایک انٹرویو میں بل گیٹس نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ وائرس دنیا میں موجود رہے گا اور دنیا کے ہر کونے سے وائرس کے خاتمے کے بعد ہی وبا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا، اور حالات 2022 کی پہلی ششماہی سے قبل معمول پر نہیں آ سکیں گے۔

    بل گیٹس نے لکھا کہ ویکسینز اور اینٹی وائرل ادویہ کی وجہ سے مستقبل میں کووِڈ 19 کے جان لیوا ہونے کی شرح میں کمی آ جائے گی، کبھی کبھار کسی جگہ پر کرونا کی لہر ابھرے گی لیکن بیش تر کیسز میں گھر میں علاج کے لیے نئی ادویات دستیاب ہوں گی۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا میں زندگی کے معمولات رواں سال موسم خزاں تک بحال ہو سکتے ہیں، مگر قانون سازوں کی جانب سے عالمی سطح پر ویکسینیشن کی ناکافی کوششوں کے باعث مکمل بحالی 2022 کے آخر تک ہی ممکن ہو سکے گی۔

    یاد رہے کہ 2015 میں بل گیٹس نے کرونا جیسی وبا کی پیش گوئی کی تھی۔

  • پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کا رحجان برقرار، 10 اموات ریکارڈ

    پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کا رحجان برقرار، 10 اموات ریکارڈ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کا رحجان برقرار ہے ، گذشتہ 24 گھنٹے میں 10 اموات اور 350 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ ترین اعدادو شمار جاری کردیئے ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 24 گھنٹےمیں کورونا سے مزید 10 مریض جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات 28 ہزار 803 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں 46ہزار697 کورونا ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے 350 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 0.74 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا کے 771 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 88 ہزار 053 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 77ہزار 299 ، پنجاب میں 4 لاکھ 43 ہزار 682 ، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 80 ہزار 514 اور بلوچستان میں 33 ہزار519 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 8 ہزار 022 ، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 422 اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار595 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    فکرمندی اور خوف کی وجہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟

    کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

    دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہوتے ہیں، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں، اس لیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آ جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں، جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں، اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

    خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

    جس سے خوشی محسوس ہو

    چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے، یہ کام آپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کر سکتا ہے۔

    دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے

    انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے، جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے، گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے لاک ڈاؤن میں اکیلا پن زیادہ محسوس کیا، خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکھتی ہے، ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

    غذائیت سے بھرپور خوراک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے انجام دینے، اور حتیٰ کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو نیوٹرینٹس موجود ہوں، طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔

    مائیکرو نیوٹرینٹس ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہے، ان میں وٹامنز, اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی پیداوار، مدافعتی افعال، خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں، جب کہ معدنیات نشوونما، ہڈی کی صحت، مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جب کہ میکرونیوٹرینٹس میں کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین شامل ہیں، یہ وہ چیزیں جو بہت استعمال ہوتی ہیں، یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں۔

  • کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    دنیا کووِڈ 19 کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے، جو نئے ویرینٹ اومیکرون کی صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔

    ماہرین ایک طرف 50 تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا یہ 2 تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی ثابت ہوگا، یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے، یعنی کم زور ہو گیا ہے۔

    دوسری طرف، جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ لوگ پُرامید ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔

    ایسے میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائیکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس لائف کے ہیلپ لائن پر صرف ماہِ اگست ماہ میں روزانہ اوسطاً 3 ہزار 505 کالز کی گئیں، یہ کالیں مختلف پریشانیوں میں مبتلا شہریوں نے کیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94 ہزار 4 سو پریشان آسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا۔

    جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلا پن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔