Tag: Covid-19

  • کیا اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ کی جگہ لے سکتا ہے؟

    کیا اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ کی جگہ لے سکتا ہے؟

    ہارورڈ میڈیکل اسکول میں مختلف ویرینٹس کو مانیٹر کرنے والے ڈاکٹر جیکب لیمیوکس کا کہنا ہے کہ کرونا کا اومیکرون ویرینٹ دنیا بھر میں پھیلے ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے جنوبی افریقی ممالک میں پھیلنے اور دنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد، سائنس دان بے چینی سے ایک ایسی جنگ کو دیکھ رہے ہیں جو وبائی مرض کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔

    سائنس دان اب اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا اومیکرون ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے، کچھ سائنس دان جنوبی افریقا اور برطانیہ کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اومیکرون ایسا کر سکتا ہے۔

    ڈاکٹر جیکب لیمیوکس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی ابتدائی دن ہیں لیکن اعداد و شمار میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر سب جگہوں پر نہیں تو اومیکرون بہت سے مقامات پر ڈیلٹا سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

    لیکن دوسرے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ مؤثر طریقے سے پھیلے گا، میو کلینک میں کلینیکل وائرولوجی کے ڈائریکٹر میتھیو بنیکر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ڈیلٹا میں نمایاں اضافہ ہوا، کیا اومی کرون اس کی جگہ لے لے گا، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تقریباً دو ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا۔

    فی الوقت اومیکرون کے بارے میں بہت سے اہم سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے ہیں، کہ کیا وائرس ہلکی یا زیادہ شدید بیماری کا سبب بنتا ہے، اور یہ ماضی میں کرونا سے بیمار ہونے والوں یا ویکسین لگوانے والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

  • نیویارک: کام پر جانا ہے تو ویکسین لگوانی ہوگی

    نیویارک: کام پر جانا ہے تو ویکسین لگوانی ہوگی

    نیویارک: امریکی شہر میں نجی شعبوں کے ملازمین کے لیے ویکسین لازمی قرار دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک شہر کے میئر نے اعلان کیا ہے کہ اگر نیویارک کے باشندے کام پر جانا چاہتے ہیں تو انھیں ویکسین لگوانے کی ضرورت ہوگی۔

    نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو نے کہا کہ نیویارک میں نجی شعبوں کے ملازمین کے لیے کرونا ویکسینیشن لازمی کر رہے ہیں، شہر میں فیصلے کا اطلاق 27 دسمبر سے ہوگا۔

    بل ڈی بلاسیو نے میڈیا کو بتایا کہ پبلک سیکٹر کے ملازمین کے لیے پہلے ہی ویکسینیشن لازمی کی گئی تھی، لیکن اس مینڈیٹ کو اب نجی شعبے کے تمام ملازمین تک بڑھا دیا گیا ہے۔

    انھوں نے کرونا ویکسینیشن کی ضرورت کے حوالے سے چند وجوہ کا بھی ذکر کیا، میئر نے کہا ہمیں اب ایک نئے ویرینٹ کے طور پر اومیکرون کا سامنا ہے، ہمارے پاس ٹھنڈا موسم بھی ہے جو واقعی ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ نئے چیلنجز پیدا کرنے والا ہے، اور ہمارے پاس چھٹیوں کے اجتماعات بھی ہیں۔

    میئر کا کہنا تھا کہ نیویارک پہلا امریکی شہر ہوگا جس نے نجی شعبے کے کارکنوں کے لیے ویکسین کا حکم دیا ہے جس سے تقریباً ایک لاکھ 84 ہزار کاروبار متاثر ہوں گے۔

    واضح رہے کہ پبلک سیکٹر کے کارکنوں کے لیے ویکسین مینڈیٹ کو، جو اس موسم خزاں کے شروع میں نافذ ہوا تھا، مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور کچھ ملازمین نے اپنی ملازمتیں بھی چھوڑیں، تاہم پالیسی کے جواب میں ویکسینیشن کی شرح بڑھ گئی ہے۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • پاکستان میں کورونا کیسز کی یومیہ شرح میں کمی کا سلسلہ جاری، 10 اموات اور 336 کیسز ریکارڈ

    پاکستان میں کورونا کیسز کی یومیہ شرح میں کمی کا سلسلہ جاری، 10 اموات اور 336 کیسز ریکارڈ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز کی یومیہ شرح میں کمی کا سلسلہ جاری ہے ، 24 گھنٹے میں مزید 10 اموات اور 336 کیسز سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ ترین اعدادو شمار جاری کردیئے ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 24گھنٹےمیں کورونا سے مزید 10 افراد انتقال کر گئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات 28ہزار 777 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں 42ہزار944 کورونا ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے 336 افراد میں کورونا مثبت نکلا ، اس دوران کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 0.78 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا کے 862 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 87 ہزار 161 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 76 ہزار 830، پنجاب میں 4 لاکھ 43 ہزار519، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 80 ہزار 383 اور بلوچستان میں 33 ہزار507 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 7 ہزار 930، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 413 اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار579 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    خیال رہے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان نے سے بوسٹر ڈوز لگانے کا فیصلہ کیا ہے ، بوسٹر ڈوز مرحلہ وار لگائی جائے گی، پہلے ہیلتھ کیئرورکرز اور 50سال سے زائد عمر والوں کو ڈوز لگائی جائے گی۔

  • روسی ماہرین کا اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان

    روسی ماہرین کا اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان

    ماسکو: روسی ماہرین نے کرونا وائرس کی نئی قِسم اومیکرون کے حوالے سے دنیا سے بالکل مختلف بیان جاری کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نئی کرونا وائرس قِسم وبا کے خاتمے کی پہلی علامت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی ماہرین نے نئے ویرینٹ اومیکرون کے سامنے آنے کو کرونا وبا کے خاتمے کی پہلی علامت قرار دے دیا ہے۔

    روسی فیڈرل میڈیکل بائیولوجیکل ایجنسی کے متعدی امراض کے چیف ماہر ولادی میر نیکوفوروف کا کہنا ہے کہ کووِڈ 19 کے اومیکرون ویرینٹ کا پھوٹنا اس بات کا پہلا اشارہ ہو سکتا ہے کہ کرونا وبا اپنے خاتمے کے قریب ہے۔

    اومیکرون نے خود کو بدلنے کے لیے عام نزلے کے وائرس کے ساتھ کیا کیا؟

    وائرس کی نئی قِسم جس کی ابتدا جنوبی افریقا میں ہوئی اور جو زیادہ متعدی ہے، سے متعلق انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اعداد و شمار موجود ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ وائرس کم خطرناک ہے اور اس وائرس سے متاثر ہونے کے بعد علامات انتہائی کم ہیں۔

    ولادی میر نیکوفوروف نے کہا کہ یہ نیا ویرینٹ پھیپھڑوں کو شدید نقصان نہیں پہنچاتا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ اس ڈراؤنے خواب کے اختتام کا آغاز ہو سکتا ہے۔

    وبائی امراض کے ماہر کا کہنا تھا کہ وہ اس ویرینٹ کو وبا کے خاتمے کی پہلی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، کیوں کہ وائرس کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔

    انھوں نے ایک اہم نکتہ یہ بھی بتایا کہ وائرس کی نئی قِسم کی وجہ سے کرونا وائرس ایک عام موسمی سانس کا انفیکشن بن سکتا ہے۔

  • کرونا سے بچ جانے والوں‌ میں‌ ایک سال بعد موت کا خطرہ

    کرونا سے بچ جانے والوں‌ میں‌ ایک سال بعد موت کا خطرہ

    فلوریڈا: امریکی سائنس دانوں نے تحقیقاتی مطالعوں کے بعد تشویش ظاہر کی ہے کہ انفیکشن کے 12 ماہ بعد کرونا وائرس سے بچ جانے والوں میں موت کا خطرہ موجود ہے۔

    امریکی جریدے فرنٹیئرز اِن میڈیسن میں شائع ہونے والے نتائج میں دکھایا گیا ہے کہ، 65 سال سے کم عمر کے لوگوں میں، جو کووِڈ 19 کے ساتھ اسپتال میں داخل تھے، انفیکشن کے بعد 12 مہینوں میں موت کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں 233 فی صد زیادہ تھا، جنھیں کرونا لاحق نہیں تھا۔

    تحقیقی مطالعے کے مطابق وہ لوگ جو گزشتہ بارہ ماہ میں کرونا سے صحت یاب ہو چکے تھے، ان میں ہونے والی 80 فی صد اموات امراضِ قلب (کارڈیوویسکولر) یا سانس کی بیماریوں سے نہیں ہوئی، یہ نتائج بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس کے اثرات نہ صرف سخت بلکہ بہت وسیع ہیں، حتیٰ کہ انفیکشن سے مقابلہ بھی ہو چکا ہوتا ہے۔

    اس مقالے کے مصنف پروفیسر آرک مینَوس کا کہنا تھا کہ سائنسی برادری میں بہت زیادہ دل چسپی اس بات پر مرکوز ہے کہ کرونا وائرس لاحق ہونے کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ‘طویل کووِڈ’ یا دماغی دھند یا بو کی کمی جیسی مستقل علامات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، لیکن ہمیں کرونا سے بحالی کے بعد موت کے سخت نتائج میں دل چسپی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ کرونا وائرس کا اثر اتنا ضرور ہوگا کہ بحالی کے بعد بھی انسانی جسم میں پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی، اور یہ کہ اس کا نفسیاتی اور جسمانی صدمہ اتنا ہوگا کہ دیرپا نقصان کے لیے کافی ہوگا۔

    اس تناظر میں فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین نے صحت پر کرونا وائرس کے طویل مدتی اثرات کی پیمائش کرنے کے لیے فلوریڈا یونیورسٹی کے دو شہروں میں موجود ہیلتھ سسٹم میں موجود ان لوگوں کا الیکٹرانک ہیلتھ کیئر ریکارڈ دیکھا، جن کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے تھے، اور ٹیسٹ کے بعد 30 دنوں میں مرنے والوں کو اس تجزیے سے خارج کیا گیا۔

    1 جنوری سے 30 جون 2020 کے درمیان 13,638 لوگوں کا کرونا ٹیسٹ کیا گیا تھا، ان میں سے 424 لوگوں میں کرونا وائرس پایا گیا تھا۔ ان میں سے صرف 178 افراد کرونا کے شدید انفیکشن میں مبتلا ہوئے۔

    اس کے بعد محققین نے پہلے پی سی آر ٹیسٹ کے بعد 365 دنوں تک ان لوگوں کے الیکٹرانک ہیلتھ کیئر ریکارڈز کا جائزہ لیا، انھوں نے پایا کہ گروہ میں شامل 2,686 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    طبی ٹیم نے اس کے بعد ان افراد میں موت کی وجہ کا تعین کرنے کے لیے ہیلتھ کیئر ریکارڈز کا تجزیہ کیا، اور کرونا مثبت اور کرونا منفی ٹیسٹ والے لوگوں میں موت کے خطرے کا موازنہ کیا۔ انھوں نے پایا کہ جنھیں کرونا لاحق ہوا تھا، ان میں زیادہ تر اموات یعنی 5 میں سے تقریباً 4 اموات کی وجہ امراض قلب یا سانس کی بیماری نہیں تھی، حالاں کہ ان دونوں سسٹمز پر کرونا کے واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    محققین نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ COVID-19 کا اثر اس سے زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے جس کی ہم نے پہلے توقع کی تھی۔

    لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پروفیسر مینَوس نے کہا اگرچہ اس بارے میں کئی طرح کے نظریات گردش کر رہے ہیں کہ کرونا انفیکشن کے بعد کی شدید پیچیدگیاں کیوں نمودار ہوتی ہیں، تاہم یقینی طور پر میکانزم قائم کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جسم میں شدید سوزش جسم کے متعدد حصوں کو متاثر کرتا ہے۔

  • کرونا ویکسین کی دوسری ڈوز میں تاخیر سے متعلق چونکا دینے والی تحقیق

    کرونا ویکسین کی دوسری ڈوز میں تاخیر سے متعلق چونکا دینے والی تحقیق

    ٹورانٹو: محققین نے ایک نئی تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسینز کی دوسری ڈوز لینے میں تاخیر کے نتائج بہتر نکلتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈین حکومت کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے نتائج نے کووِڈ ویکسینز کی پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان بتائے گئے وقفے سے متعلق نیا حیران کن زاویہ پیش کر دیا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووِڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ایم آر این اے ویکسین کی دوسری ڈوز، مجوزہ مدت کے بھی تین سے چار ہفتوں بعد لگانا زیادہ بہتر رہتا ہے، اس اضافی مدت کے دوران جسم میں پہلی ڈوز لگنے کے بعد کرونا وائرس کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے جو دوسری ڈوز سے اور مضبوط ہو جاتی ہے۔

    کرونا وائرس کے خلاف 2 ایم آر این اے ویکسینز دستیاب ہیں، جن میں سے ایک فائزر/ بایو این ٹیک نے جب کہ دوسری موڈرنا نے تیار کی ہے، ان دونوں کا مکمل کورس 2 ڈوزز پر مشتمل ہے، امریکی ادارے ’سی ڈی سی‘ کی تجویز ہے کہ فائزر کی پہلی ڈوز کے 21 دن بعد، اور موڈرنا کی پہلی ڈوز کے 28 دن بعد دوسری ڈوز لگانی چاہیے۔

    تاہم آکسفورڈ اکیڈمک کے ریسرچ جرنل ’کلینیکل انفیکشئس ڈزیز‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ تحقیق میں کینیڈین ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں ویکسینز کی پہلی ڈوز کے 42 سے 49 دن (6 سے 7 ہفتے) بعد دوسری ڈوز لگائی جائے تو وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

    یہ تحقیق انھوں نے طبّی عملے کے 186 افراد پر کی ہے جن میں سے دو تہائی نے فائزر کی، جب کہ باقی ایک تہائی نے موڈرنا کی ایم آر این اے ویکسین لگوائی تھی۔ ان لوگوں نے تجویز کردہ وقفے (21 اور 28 دن) کی بجائے 42 سے 49 دن بعد ان ویکسینز کی دوسری ڈوز لگوائی تھی۔

    ویکسینیشن مکمل ہونے کے چند روز بعد جب ان افراد سے خون کے نمونے لے کر تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں کرونا وائرس کا خاتمہ کرنے والی اینٹی باڈیز کی مقدار، مجوزہ وقفے کے بعد ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانے والوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔

  • پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح میں مسلسل کمی، 391 کیسز رپورٹ

    پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح میں مسلسل کمی، 391 کیسز رپورٹ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے ، ایک دن میں مزید8 اموات اور 391 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ اعدادو شمار جاری کردیئے ہیں ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 24گھنٹےمیں کورونا سے مزید 8 افراد جاں بحق ہوگئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات 28ہزار753 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں 46 ہزار457 کورونا ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے 391 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 0.84 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا کے 895 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 85 ہزار 631 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 76 ہزار017، پنجاب میں 4 لاکھ 43 ہزار240، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 80 ہزار146 اور بلوچستان میں 33 ہزار488 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 7 ہزار 765، گلگت بلتستان میں 10 ہزار412 اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار563 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    خیال رہے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان نے سے بوسٹر ڈوز  لگانے کا فیصلہ کیا ہے ، بوسٹر ڈوز مرحلہ وار لگائی جائے گی، پہلے ہیلتھ کیئرورکرز اور 50سال سے زائد عمر والوں کو ڈوز لگائی جائے گی۔

  • پاکستان میں کورونا مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم پر برقرار، 414 کیسز رپورٹ

    پاکستان میں کورونا مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم پر برقرار، 414 کیسز رپورٹ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم پر برقرار ہے، ایک دن میں مزید 9 اموات اور 414کیسز رپورٹ کئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ اعدادو شمار جاری کردیئے ہیں ، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 24گھنٹےمیں کورونا سے مزید 9 افراد انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات 28 ہزار 737 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں 42ہزار381 کورونا ٹیسٹ کئے گئے ، جس میں سے 414 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 0.97 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا کے 896 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 85 ہزار 254 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 75 ہزار820 ، پنجاب میں 4 لاکھ 43 ہزار 185، خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 79 ہزار 075 اور بلوچستان میں 33 ہزار484 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 7 ہزار 722، گلگت بلتستان میں 10 ہزار412 اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار556 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

    خیال رہے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان نے آج سے بوسٹر ڈوز آج سے لگانے کا فیصلہ کیا ہے ، بوسٹر ڈوز مرحلہ وار لگائی جائے گی، پہلے ہیلتھ کیئرورکرز اور 50سال سے زائد عمر والوں کو ڈوز لگائی جائے گی۔

  • اومیکرون وائرس 19 ممالک تک پھیل گیا

    اومیکرون وائرس 19 ممالک تک پھیل گیا

    کرونا وائرس کا نیا ویرینٹ اومیکرون 19 ممالک تک پھیل گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی تبدیل شدہ شکل جسے عالمی ادارۂ صحت نے اومیکرون کا نام دیا ہے، تیزی سے دنیا بھر میں پھیلتی جا رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووِڈ 19 کا نیا ویرینٹ B.1.1.529 یعنی اومیکرون سے بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہے، اور یہ تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک پھیل رہا ہے۔

    اب تک اومیکرون وائرس انیس سے زائد ممالک میں پنجے گاڑ چکا ہے، جنوبی افریقا میں 77، بوٹسوانا میں 77، نیدرلینڈ اور پرتگال میں 13،13 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    جرمنی، ہانگ کانگ میں 3 کیسز، آسٹریلیا، ڈنمارک میں 2 کیسز رپورٹ ہوئے، آسٹریا، بیلجیم، چیک ری پبلک، اٹلی، جاپان، اور اسرائیل میں بھی اومیکرون کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اومیکرون نے انھیں حیران کر دیا ہے، اس میں 50 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں، اومیکرون میں موجود مخصوص اسپائک پروٹین میں 30 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

    خیال رہے کہ ویکسین اسی اسپائک پروٹین کو نشانہ بناتی ہے، جب کہ انسانی جسم پر سب سے پہلے اثر انداز ہونے والے حصے کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔