Tag: Covid-19

  • کرونا وبا کے دوران بچوں کے ساتھ کیا ہوا؟ تشویشناک انکشاف

    کرونا وبا کے دوران بچوں کے ساتھ کیا ہوا؟ تشویشناک انکشاف

    لندن: بچپن کا موٹاپا وبائی مرض کرونا سے پہلے بھی ایک تشویش ناک مسئلہ تھا، لیکن نئے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وبا کے بعد اب یہ خطرناک حد تک بدتر ہو گیا ہے۔

    برطانیہ اور امریکا میں کی گئی تحقیقات کے مطابق کرونا وبا کے بعد بچوں کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے، کووِڈ۔19 وبا کے دوران بچوں میں موٹاپے کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے، طبی ماہرین نے اسے اہم اور تشویش ناک قرار دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران مستقل بیٹھے رہنے اور غیر صحت مندانہ خوراک کے استعمال نے بچوں میں موٹاپے کی بیماری میں اضافہ کیا ہے۔

    اس سلسلے میں برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے جاری ڈیجیٹل ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ برطانیہ جہاں پرائمری اسکول شروع کرتے وقت عموماً تقریباً 7 میں سے ایک بچہ موٹاپے کا شکار ہوتا ہے، کرونا وبا کے دوران، 4 اور 5 سال کی عمر کے بچوں میں موٹاپے کی شرح 2019-2020 کے تعلیمی سال کے دوران 9.9 فی صد سے بڑھ کر 2020-2021 میں 14.4 فی صد ہو گئی۔

    پرائمری اسکول کے آخری سال میں، جب بچوں کی عمریں 10 اور 11 سال تھیں، ایک سال کی مدت میں موٹے بچوں کی شرح 21 فی صد سے بڑھ کر 25.5 فی صد ہو گئی۔

    دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، برطانیہ میں موٹاپے کی شرح میں ایک سال میں یہ اضافہ سب سے زیادہ ہے، جب سے قومی ادارۂ صحت نے 15 سال قبل ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا ہے۔

    امریکا میں بھی بچپن کے موٹاپے میں تیزی آئی ہے، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے ایک تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ امریکا میں بچوں اور نوعمروں میں موٹاپے شرح وبائی مرض سے قبل کے 19 فی صد سے بڑھ کر 22 فی صد ہو گئی ہے۔

    سی ڈی سی مطالعے کے مصنفین نے کہا کہ اسکولوں کی بندش، معمولات میں خلل، بڑھتا ہوا تناؤ اور جسمانی سرگرمی اور مناسب غذائیت کے لیے کم مواقع وزن میں اضافے کے ممکنہ اہم عوامل تھے۔

    NHS ڈیجیٹل ڈیٹا کے مطابق، برطانیہ کے غریب علاقوں میں رہنے والے بچوں میں امیر محلوں میں رہنے والے بچوں کے مقابلے میں موٹاپے کا امکان دوگنا تھا۔

    ماہرین کے مطابق موٹاپے کی وجوہ میں وبا کے دوران لاک ڈاؤن سرفہرست وجہ ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے دور میں بچوں کی حرکات و سکنات محدود ہو گئیں اور بچے اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ کمپیوٹر کے سامنے گزارنے لگے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے پینے میں بھی معمول کی صحت مند اور سادہ خوراک کی جگہ بازاری پیکٹ اشیا کے استعمال میں اضافہ ہو گیا جس کے نتیجے میں بچوں میں موٹاپے کی شرح نارمل سے 2 گنا زیادہ ہو گئی۔

  • کرونا وائرس کی مؤثر دوا، فائزر نے اہم قدم اٹھا لیا

    کرونا وائرس کی مؤثر دوا، فائزر نے اہم قدم اٹھا لیا

    واشنگٹن: امریکی کمپنی فائزر نے کرونا وائرس کی دوا کے امریکا میں استعمال کے لیے درخواست دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق فائزر نے امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو درخواست دی ہے کہ اس کی اینٹی وائرل کووَڈ 19 دوا کے ہنگامی استعمال کی اجازت دی جائے۔

    منگل کے روز فائزر نے اعلان کیا کہ کمپنی نے کرونا وائرس کے ایسے بالغ مریضوں کے علاج میں اس دوا کے استعمال کی منظوری کے لیے درخواست دی ہے، جن میں مرض کی علامات معمولی یا درمیانے درجے کی ہوں۔

    فائزر کے اعلامیے کے مطابق یہ ایک اینٹی وائرل دوا ہے، جو وائرس کی افزائش روکنے کی غرض سے تیار کی گئی ہے، اور یہ ایچ آئی وی کی دوا رِیٹوناوِر کے ساتھ دی جائے گی۔

    اس دوا کی طبی آزمائش کے نتائج فائزر کی جانب سے 5 نومبر کو جاری کیے گئے تھے، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا پازیٹو افراد میں اس کے استعمال سے اسپتال داخل ہونے یا شدید کووڈ سے موت واقع ہو جانے کے امکانات میں 89 فی صد کمی دیکھی گئی۔

    واضح رہے کہ ایک اور امریکی دوا ساز کمپنی مرک بھی امریکی ادارے ایف ڈی اے سے مولنُوپِیراوِر نامی منہ سے لی جانے والی اینٹی وائرل دوا کے ہنگامی استعمال کی منظوری مانگ چکی ہے۔

    مرک کمپنی کی اس دوا کو استعمال کے لیے برطانیہ میں 4 نومبر کو اجازت دی جا چکی ہے، یہ دوا بھی کرونا کے مریضوں میں علامات کو شدید ہونے سے روکتی ہے۔

  • سعودی عرب: شہری کرونا کا شکار کیوں ہوئے؟

    سعودی عرب: شہری کرونا کا شکار کیوں ہوئے؟

    ریاض: مملکت سعودی عرب میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے 97 فی صد افراد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے کرونا ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزارت صحت نے کہا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے 97 فی صد افراد نے ویکسین نہیں لگوائی یا ایک ڈوز لگوائی ہے۔

    وزارت کے مطابق یہ اعداد و شمار گزشتہ دو ماہ کے ہیں، مملکت میں کرونا کا شکار ہونے والے ایسے مریض جنھوں نے ویکسین کی دو ڈوز لگوائی ہیں، ان کی تعداد صرف 3 فی صد ہے۔

    وزارت نے بتایا کہ ایسے مریض جو کرونا کا شکار ہوئے اور ابھی تک ویکسین کی ایک ڈوز لگوا چکے ہیں، ان کی تعداد 32 فی صد ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں کرونا وائرس کے یومیہ کیسز میں کمی کا سلسلہ برقرار ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بھی کووِڈ 19 کے صرف 42 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کرونا ویکسین بنانے والی 3 کمپنیاں ہر سیکنڈ میں کتنے ڈالر کما رہی ہیں؟

    کرونا ویکسین بنانے والی 3 کمپنیاں ہر سیکنڈ میں کتنے ڈالر کما رہی ہیں؟

    کرونا وائرس کے خلاف ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے جہاں ایک طرف وبا کے آگے بندھ باندھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہاں پیپلز ویکسین الائنس کے مطابق تین کمپنیاں ہر ایک سیکنڈ میں 1 ہزار ڈالر کما رہی ہیں۔

    کرونا ویکسین تک سب کی رسائی کے لیے مہم چلانے والے اتحاد پیپلز ویکسین الائنس کا کہنا ہے کہ تین کمپنیاں فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا اپنی کامیاب کرونا ویکسین کی وجہ سے مجموعی طور پر ہر منٹ میں 65 ہزار ڈالر کا منافع کما رہی ہیں۔

    ادھر الائنس کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ پس ماندہ مملک میں عوام کا بڑا حصہ اب بھی ویکسین سے محروم ہے، کیوں کہ مذکورہ کمپنیوں نے اپنی ڈوزز کی زیادہ تر کھیپ امیر ممالک کو فروخت کی ہے، اس وجہ سے کم آمدن والے ممالک پیچھے رہ گئے ہیں۔

    الائنس کے اندازوں کے مطابق یہ تینوں کمپنیاں رواں برس ٹیکس سے قبل 34 ارب ڈالر کا منافع کما لیں گی، اس حساب سے ایک سیکنڈ کا منافع ایک ہزار ڈالر، ایک منٹ کا 65 ہزار ڈالر اور ایک دن کا نو کروڑ 35 لاکھ ڈالر بنے گا۔

    الائنس کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ صرف کچھ کمپنیاں ہر گھنٹے لاکھوں ڈالر کا منافع کما رہی ہیں، جب کہ کم آمدن والے ممالک میں صرف 2 فی صد افراد کرونا وائرس کے خلاف مکمل طور پر ویکسین شدہ ہیں۔

    پیپلز ویکسین الائنس کے مطابق فائزر اور بائیو این ٹک نے اپنی کُل سپلائز میں سے ایک فی صد سے بھی کم، کم آمدن والے ممالک کو فراہم کیا ہے جب کہ موڈرنا نے صرف 0.2 فی صد دیا ہے۔

  • پاکستان میں کورونا کیسز میں مسلسل کمی ، یومیہ شرح ایک فیصد پر آگئی

    پاکستان میں کورونا کیسز میں مسلسل کمی ، یومیہ شرح ایک فیصد پر آگئی

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کیسز میں مسلسل کمی کے بعد شرح 1.01 پر آگئی ، ایک دن میں مزید 9 اموات اور391 کیسز ریکارڈ کئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ اعدادو شمار جاری کردیئے گئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹے میں کورونا کے مزید 9 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28ہزار584 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ ملک میں 24 گھنٹوں کے دوران 38ہزار524 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جس میں سے 391 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران کورونا ٹیسٹ مثبت نکلنے کی شرح 1.01 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کورونا سے متاثرہ ایک ہزار 158 زیرعلاج مریضوں کی حالت تشویشناک ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 79 ہزار 142  تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 73ہزار 052  ، پنجاب میں 4 لاکھ 41 ہزار631 ،خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 78 ہزار926 اور بلوچستان میں 33 ہزار 383 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 7 ہزار 151، گلگت بلتستان میں 10 ہزار400 ، اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار 501کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    معمر افراد کووڈ 19 کے زیادہ خطرے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے معمر افراد کو اس بیماری سے شدید خطرہ رہا ہے، اب ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ دریافت کرلیا ہے۔

    امریکا کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ان خلیاتی اور مالیکیولر سرگرمیوں کی وضاحت کی گئی جن کے باعث معمر افراد میں کووڈ 19 لاحق ہونے اور اس سے سنگین طور پر بیمار ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایک پروٹین کی سطح میں عمر بڑھنے اور دائمی امراض میں مبتلا ہونے پر اضافہ ہوتا ہے، اس پروٹین کی سطح جتنی زیادہ ہوتی ہے ان میں کووڈ سے متاثر ہونے اور سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ اتنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے نہ صرف کرونا وائرس کے پیچیدہ میکنزمز کے جواب ملے ہیں بلکہ اس سے وائرل انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے علاج کی تشکیل میں مدد بھی مل سکے گی۔

    تحقیقی ٹیم کی جانب سے انزائمے اور انزائم جیسے مالیکیولز اور اس جیسے پروٹینز پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ٹیم کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کافی عرصے سے اس جین فیملی پر تحقیق کر رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ متعدد حیاتیاتی اثرات مرتب کرتا ہے، یہ صحت اور امراض کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس پروٹین کی سطح انفیکشن کے دوران بڑھ جاتی ہے بالخصوص ایسے امراض کے دوران جو ورم اور ٹشوز میں تبدیلیاں لاتے ہیں، یہ سب کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھی قدرتی طور پر اس پروٹین کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث ان میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ پروٹین ایس 2 ریسیپٹر کو بھی متحرک کرتا ہے جس کو کرونا وائرس خلیوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    اس دریافت کے بعد ماہرین نے ایک مونوکلونل اینٹی باڈی ایف آر جی کو تیار کیا جو مخصوص حصے میں اس پروٹین کو ہدف بناتی۔ ماہرین کے مطابق یہ اینٹی باڈی اور ایک مالیکیول ایس 2 ریسیپٹر کو بلاک کرنے میں مؤثر ثابت ہوئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس طرح وائرس میزبان کے نظام میں داخل نہیں ہو پاتا جس کے نتیجے میں بیماری کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ اب یہ تحقیقی ٹیم یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اینٹی باڈیز اور مالیکیولز کرونا وائرس کی مختلف اقسام پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت

    برطانوی ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے والا جین دریافت کیا ہے، یہ جین 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے انسانی جسم کے اندر ایک ایسے جین کو دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے مریضوں کی موت اور پھیپھڑوں کے افعال فیل ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کیوں کچھ افراد میں دیگر کے مقابلے میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جین کا یہ ورژن کروموسوم کے خطے میں ہوتا ہے جو 60 سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مخصوص جین ایل زی ٹی ایف ایل 1 دیگر جینز کی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور وائرسز کے خلاف پھیپھڑوں کے خلیات کے ردعمل کے عمل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔

    جین کی یہ قسم سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیات میں وائرس کو جکڑنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جین مدافعتی نظام پر اثرات مرتب نہیں کرتا جو بیماریوں سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کا کام کرتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں ویکسینز کا ردعمل معمول کا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خلاف پھیپھڑوں کا ردعمل انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر طریقہ علاج میں وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل بدلنے میں توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر راغب علی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر ہیں مگر جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں بیماری سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر سائمن بیڈی نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں اس جین کے ممکنہ کردار کے حوالے سے مناسب شواہد دیے گئے ہیں مگر اس دریافت کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • کوویڈ19 سے جڑا راز کھل گیا ، ماہرین کو بڑی کامیابی مل گئی

    کوویڈ19 سے جڑا راز کھل گیا ، ماہرین کو بڑی کامیابی مل گئی

    کورونا وائرس کی عالمی وبا کو آئے ہوئے لگ بھگ دو سال کا عرصہ ہوچکا ہے جس کے دوران لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے مگر یہ اب تک معمہ ہے کہ اس وائرس کے کون سے پروٹینز ہوتے ہیں جو شریانوں کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں دل کا دورہ یا فالج کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

    مگر اب پہلی بار طبی ماہرین اس وائرس کے29 میں سے5 ایسے پروٹینز کو شناخت کرنے کے قابل ہوگئے ہیں جو خون کی شریانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، یہ انکشاف ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا جس کے نتائج طبی جریدے ای لائف میں شائع ہوئے۔

    محققین کو توقع ہے کہ ان پروٹینز کی شناخت سے ایسی ادویات کو تیار کرنا ممکن ہوسکے گا کہ جن سے شریانوں کو پہنچنے والا نقصان کم کرنے میں مدد ملے گی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے وبا کے دوران لوگوں میں خون کی شریانوں اور بلڈ کلاٹس کے بہت زیادہ کیسز دیکھے،مثال کے طور پر کووڈ کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک اور فالج وغیرہ۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ خیال تھا کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا امکان 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ تمام شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس خون کی شریانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، اسی وجہ سے ہم جاننا چاہتے تھے کہ وائرس میں موجود کونسے پروٹینز اس نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ کورونا وائرس (کوویڈ19)کافی حد تک سادہ وائرس ہے جو 29 مختلف پروٹٰنز پر مشتمل ہوتا ہے۔

    محققین نے کوویڈ19 کے ہر پروٹین کا آر این اے کو استعمال کیا ہر آر این اے سیکونس کو انسانی خون کے خلیات میں داخل ہونے پر ردعمل کی جانچ پڑتال کی۔ اس طرح وہ 5 کورونا وائرس پروٹینز کو شناخت کرنے کے قابل ہوگئے جو خون کی شریانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب کورونا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ 29 پروٹین بنا کر ایک نئے وائرس کو تشکیل دیتا ہے، یہ وائرس 29 نئے پروٹینز تیار کرتا ہے اور یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کے دوران ہماری خون کی شریانوں نالیوں کی طرح ہوجاتی ہیں اور بلڈ کلاٹنگ کا عمل بڑھ جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 29 پروٹینز میں سے ایک ہر ایک کے اثرات کا جائزہ لیا اور 5 مخصوص پروٹینز کوشناخت کرنے میں کامیاب رہے جو خون کے خلیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے استحکام اورافعال کو متاثر کرتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے ایک کمیوٹیشنل ماڈل بھی تیار کیا تاکہ کورونا وائرس پروٹینز کا تجزیہ اور شناخت کرسکیں جو دیگر ٹشوز پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان پروٹینز کی شناخت سے ممکنہ طو رپر ایسی دوا کو دریافت کرنے میں مدد مل سکے گی جو وائرس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوسکے گی یا خون کی شریانوں کے نقصان کو کم از کم کرسکیں گے۔

  • پاکستان میں کورونا مثبت کیسز کی شرح 1.16 فیصد پر آگئی ، مزید 11 اموات ریکارڈ

    پاکستان میں کورونا مثبت کیسز کی شرح 1.16 فیصد پر آگئی ، مزید 11 اموات ریکارڈ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا سے ایک دن میں مزید 11 اموات اور 515 کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 28ہزار507 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے ملک میں کورونا وبا کی صورتحال کے تازہ اعدادو شمار جاری کردیئے گئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹے میں کورونا کے مزید 11 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28ہزار507 ہوگئیں۔

    این سی اوسی کا کہنا تھا کہ ملک میں 24 گھنٹوں کے دوران 44ہزار148 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جس میں سے 515 مثبت نکلے، اس دوران کورونا ٹیسٹ مثبت نکلنے کی شرح 1.16 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک بھر میں کوروناسے متاثرہ ایک ہزار 229 زیرعلاج مریض انتہائی نگہداشت میں ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 75 ہزار 673 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعدادچار لاکھ 71 ہزار 205 ، پنجاب میں 4 لاکھ 40 ہزار 788 ،خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 78 ہزار 427 اور بلوچستان میں 33 ہزار 307 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 7 ہزار 063، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 392، اور آزاد کشمیر میں 34 ہزار 491 کیسز سامنے آچکے ہیں۔