Tag: Covid-19

  • روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت منظر عام پر

    روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت منظر عام پر

    کرونا وبا کے خلاف روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میڈیکل جرنل میں جاری ٹرائلز کے نتائج کے مطابق روس کی ایک خوراک والی اسپوٹنک لائٹ ویکسین استعمال میں محفوظ اور ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہے بالخصوص ان افراد میں جو پہلے ہی کووڈ نائنٹین کا سامنا کرچکے ہوں۔

    یہ بات اس ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائلز کے نتائج میں سامنے آئی، یہ دو خوراکوں والی اسپوٹنک وی ویکسین کا ایک خوراک والا ورژن ہے جس کو پہلے ہی روس میں استعمال کیا جارہا ہے۔

    گمالیا انسٹیوٹ کے ماہرین نے اس ویکسین کو تیار کیا ہے، مگر پہلی بار کسی معروف طبی جریدے میں اس پر ہونے والی ابتدائی تحقیق کے نتائج شائع ہوئے ہیں جس کا مقصد اسے دیگر ممالک کو فروخت کرنا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    ان ماہرین نے سینٹ پیٹرزبرگ کے 18 سے 59 سال کی عمر کے 110 رضاکاروں کو ٹرائلز کا حصہ بنایا تھا جن کو یہ ویکسین جنوری 2021 میں استعمال کرائی گئی تھی، ان رضاکاروں میں ویکسین کے مضر اثرات اور مدافعتی نظام کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ٹرائل میں دریافت ہوا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی اصل قسم کو ناکارہ بنا دیتی ہے جبکہ الفا اور بیٹا اقسام کے خلاف اس کی افادیت معمولی سی کم ہوتی ہے۔

    روس نے پہلے بتایا تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اسپوٹنک لائٹ کرونا کی قسم ڈیلٹا کے خلاف 70 فیصد تک مؤثر ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپوٹنک لائٹ نہ صرف پرائمری ویکسینیشن کے لیے زیرغور لایا جانا چاہیے بلک یہ بوسٹر ڈوز کے طور پر بھی کارآمد ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔

    حال ہی میں روس کے وزیر صحت نے بھی وزارت صحت کو ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کے مدنظر اسپوٹنک لائٹ کو صرف بوسٹر کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 کی وبا کو 2 سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے، ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔

    انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔

  • امارات میں بچوں کے لیے فائزر ویکسین منظور

    امارات میں بچوں کے لیے فائزر ویکسین منظور

    ابوظبی: متحدہ عرب امارات میں 5 سے 11 برس کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین منظور کر لی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پیر کو یو اے ای وزارت صحت نے پانچ سے گیارہ سالہ بچوں کے لیے فائزر کرونا ویکسین کی منظوری دی ہے۔

    وزارت صحت نے کہا کہ فائزر ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے نتائج بتاتے ہیں کہ یہ ویکسین بچوں میں بھی محفوظ ہے، اور پانچ سے گیارہ سال کی عمر کے بطوں میں اس ویکسین سے مضبوط قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے۔

    وزارت صحت نے شہریوں سے کہا ہے کہ جنھوں نے فائزر یا اسپوتنک ویکسین لگوائی ہے، وہ اب تیسری یعنی بوسٹر ڈوز لگوا سکتے ہیں، واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات میں سائنوفارم ڈوز لینے والوں ہی کو بوسٹر ڈوز لگائی جا رہی تھی۔

    فائزر کرونا ویکسین پانچ سے 11 برس کے بچوں کے لیے محفوظ؟

    یو اے ای میں اس سے قبل تین سال کے بچوں سے لے کر 17 سال کے نوجوانوں کے لیے صرف سائنوفارم ویکسین کی منظوری دی گئی تھی۔

    امارات کی وزارت صحت روس کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین ‘اسپوتنک لائٹ’ کے استعمال کی منظوری بھی دے چکی ہے، اسپوتنک لائٹ کے سنگل ڈوز کو بہ طور بوسٹر ڈوز منظوری دی گئی تھی، جب کہ جنوری 2021 میں 2 ڈوزز پر مبنی اسپوتنک V ویکسین کی منظوری دی گئی تھی۔

  • کرونا وبا کے لیے ذمہ دار قرار دیے جانے والے پرندے کو ایوارڈ

    کرونا وبا کے لیے ذمہ دار قرار دیے جانے والے پرندے کو ایوارڈ

    ویلنگٹن: زیادہ تر ماہرین نے کرونا وائرس کی وبا کے آغاز کے سلسلے میں یہی کہا ہے کہ اس کے لیے ذمہ دار پرندہ چمگادڑ ہے، تاہم اس پرندے کو نیوزی لینڈ میں سال کے ’بہترین پرندے‘ کا ایوارڈ دے دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے پھوٹتے ہی جس ایک جاندار کو سب سے زیادہ کوسا جا رہا تھا وہ تھا چمگادڑ، لیکن نیوزی لینڈ میں رواں ماہ چگادڑ کو سال کے بہترین پرندے کے ایوارڈ سے نواز دیا گیا ہے۔

    فوریسٹ اینڈ برڈ نامی ادارہ یہ مقابلہ ہر سال منعقد کراتا ہے، رواں سال چمگادڑ کا نام بھی مقابلے میں شامل کرایا گیا تھا۔

    نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے چمگادڑ کی قِسم پیکا پیکا تُو روا کو مقابلے میں 3 ہزار ووٹوں سے برتری حاصل ہوئی، فوریسٹ اینڈ برڈ کے مطابق مقابلے میں تقریباً 58 ہزار ووٹ تھے اور وہ دنیا بھر سے آئے تھے، یہ اس مقابلے کی 17 برس کی تاریخ میں سب سے زیادہ ڈالے گئے ووٹ تھے۔

    پیکا پیکا توُ روا یا لمبی دُم والے چمگادڑ نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے چمگادڑوں کی 2 اقسام میں سے ایک ہیں، یہ دنیا میں سب سے زیادہ نایاب ممالیہ ہیں، چمگادڑ نیوزی لینڈ کا واحد آبائی زمینی ممالیہ بھی ہے جسے قومی سطح پر اہم سمجھا جاتا ہے۔

    ان کا سائز انگوٹھے جتنا ہوتا ہے اور جب یہ پیدا ہوتے ہیں اس وقت یہ شہد کی بڑی مکھی جتنے چھوٹے ہوتے ہیں، چمگادڑوں کی نسل کو چوہے، پوسمز، سٹوٹس اور بلیوں سے خطرہ ہے۔

    چمگادڑ نے یہ مقابلہ گزشتہ برس کے فاتح پرندے کاکاپو سے جیتا، جو دنیا کا واحد ایسا طوطا ہے جو رات بھر جاگتا ہے اور اڑتا نہیں۔

  • کرونا وائرس کے مقام آغاز سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی نئی رپورٹ

    کرونا وائرس کے مقام آغاز سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی نئی رپورٹ

    واشنگٹن: امریکی خفیہ اداروں نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نئے کرونا وائرس کے مقامِ آغاز کی کبھی نشان دہی نہ ہو سکے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعہ کو امریکی انٹیلیجنس اداروں نے کرونا وائرس کے جانوروں سے انسانوں میں منتقلی یا لیبارٹری سے اخراج کے بارے میں ایک نیا اور تفصیلی مطالعہ جاری کیا ہے۔

    امریکا کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی کرونا وائرس کے مقامِ آغاز کی نشان دہی نہ کر سکیں، کیوں کہ کرونا وائرس کی وبا کا قدرتی ماخذ اور لیبارٹری سے وائرس کا لیک ہونا دونوں قابل فہم مفروضے ہیں۔

    اس رپورٹ میں ان تجاویز کو بھی مسترد کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار (بائیو ویپن) کے طور پر سامنے آیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نظریے کو حامیوں کا ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی تک براہ راست رسائی نہیں تھی، انھوں نے غلط معلومات پھیلائیں۔

    چین نے امریکا کی اس رپورٹ پر تنقید کی ہے، واشنگٹن میں امریکا کے لیے چین کے سفیر لیو پینگیو نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کا کرونا وائرس کے مقامِ آغاز کو معلوم کرنے کے لیے سائنس دانوں کی بجائے انٹیلیجنس اداروں سے کام لینا ایک مکمل سیاسی مذاق ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سائنسی بنیادوں پر مقامِ آغاز کو معلوم کرنے کے مطالعے کو متاثر کرے گا اور وائرس کے ماخذ کو معلوم کرنے کے لیے عالمی کوششوں میں رکاوٹ بنے گا۔

  • امریکی ادارے نے 5 سے 11 سالہ بچوں کے لیے فائزر ویکسین کی منظوری دے دی

    امریکی ادارے نے 5 سے 11 سالہ بچوں کے لیے فائزر ویکسین کی منظوری دے دی

    واشنگٹن: امریکی ادارے ایف ڈی اے نے 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں میں فائزر ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق خوراک اور ادویات کے امریکی انتظامی ادارے نے جمعہ کو اعلان کیا کہ پانچ سے گیارہ سالہ بچوں کے لیے فائزر بائیو این ٹیک کی تیارہ کردہ کرونا وائرس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    تاہم ابھی صحت کے امریکی اداروں کے مشیران نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ عمر کے مذکورہ گروپ کے لیے کرونا ویکسین کے استعمال کی سفارش کی جائے یا نہیں، اس سلسلے میں آئندہ جمعرات کو ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ معمر افراد کی طرح بچوں کو بھی پہلے ٹیکے کے 3 ہفتے بعد دوسرا ٹیکا لگانے کی ضرورت ہوگی۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر ڈوز میں 10 مائیکرو گرام ویکسین لگائی جائے گی، جو 12 سال یا اس سے زائدالعمر افراد کو لگائی جانے والی ویکسین کی مقدار کا تیسرا حصہ ہے۔

    امریکی اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے ایک جائزے کے مطابق 14 سے 21 اکتوبر کے دوران ملک میں تقریباً ایک لاکھ 17 ہزار بچے کرونا وائرس سے متاثر ہوئے جو کل تعداد کا ایک چوتھائی ہے۔

    ماہرین صحت اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا چھوٹے بچوں کو ویکسین لگانے سے وبا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد مل سکے گی۔

  • جسم کے ایک اور حصے کا کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا انکشاف

    جسم کے ایک اور حصے کا کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا انکشاف

    کرونا وائرس کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضا پر اثرات سامنے آچکے ہیں اور اب حال ہی میں ایک اور حصے کا اس سے متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے متعدد مریضوں کی جانب سے کانوں سے متعلق علامات بشمول سننے کی حس متاثر ہونے، سر چکرانے، توازن بگڑنے اور گھنٹیاں بجنے کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کان کے اندرونی حصے کے خلیات بشمول بالوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے۔

    یہ تحقیق ایم آئی ٹی اور میسا چوسٹس آئی اینڈ ایئر کی جانب سے کی گئی جس میں اس حوالے سے شواہد فراہم کیے گئے۔ ماہرین نے کووڈ 19 سے متاثر 10 افراد کے کانوں کے اندرونی ٹشوز میں انفیکشن کے رجحان کو دریافت کیا۔

    ماہرین نے کانوں کے اندرونی حصے کے لیے نوول سیلولر ماڈلز کو تشکیل دیا تھا کیونکہ تحقیق کے لیے کان کے ٹشوز کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ماڈلز کا حصول پہلا قدم ہے اور ہمارے کام سے نہ صرف کرونا وائرس بلکہ سننے کی حس کو متاثر کرنے والے دیگر وائرسز کے اثرات کو جاننے کا موقع مل سکے گا۔

    کووڈ کی وبا سے قبل ان ماہرین کی جانب سے انسانی کانوں کے اندرونی حصوں کی بیماریوں کی جانچ پڑتال کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے پر کام کیا جارہا تھا۔

    مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اور دیگر بہرے پن کا باعث بن سکتے ہیں مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اس بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات موجود نہیں۔

    کرونا کی وبا کے بعد میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر میں ایسے کووڈ مریضوں کی تعداد بڑھنے لگے جو سننے کی حس سے محرومی، گھنٹیاں بجنے اور سر چکرانے جیسے مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔

    ماہرین نے کرونا وائرس کے اثرات کو جاننے کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انسانی جلد کے خلیات کے ذریعے ان کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔

    ان ماڈلز کی مدد سے وہ نمونے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دریافت کیا کہ کان کے اندرونی حصے میں مخصوص خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے لیے وہ وائرس ایس 2 ریسیپٹر نامی پروٹین کا سہارا لیتا ہے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس کان کے اندرونی حصے بالخصوص بالوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے، مگر دیگر خلیات کو اس سے خطرہ نہیں ہوتا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے کانوں کے خلیات متاثر ہونے پر مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے مگر کووڈ کے کتنے مریضوں کو کانوں سے متعلق علامات کا سامنا ہوتا ہے، وہ ابھی معلوم نہیں۔

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    کووڈ 19 کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے مختلف دواؤں کا استعمال کروایا جارہا ہے، اب حال ہی میں ایک اور دوا اس وبائی مرض کے خلاف مددگار ثابت ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور اضطراب وغیرہ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک سستی دوا کووڈ 19 کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد میں اسپتال میں داخلے اور سنگین پیچیدگیوں کا امکان کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    ایک بڑے کلینکل ٹرائل کے نتائج میں پتہ چلا کہ فلوووکسامائن نامی دوا اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی) کے علاج کے لیے لگ بھگ 30 سال سے تجویز کی جارہی ہے، مگر ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس دوا کے انتخاب کی وجہ اس دوا کی ورم کم کرنے کی صلاحیت ہے۔

    کینیڈا، امریکا اور برازیل کے ماہرین کے گروپ کی اس تحقیق کے نتائج یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سے شیئر کیے گئے اور عالمی ادارہ صحت سے بھی اسے تجویز کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے اس دوا کو تجویز کیا تو اس کا زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکے گا۔

    کووڈ 19 کے علاج کے لیے اس کے ایک کورس کی لاگت 4 ڈالرز ہوگی جبکہ اینٹی باڈی 4 ٹریٹ منٹس کی لاگت 2 ہزار ڈالرز جبکہ مرسک کی تجرباتی اینٹی وائرل دوا کا ایک کورس 700 ڈالرز کا ہوگا۔

    فلوووکسامائن کی آزمائش لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برازیلین افراد پر کی گئی تھی جن میں حال ہی میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس کے باعث ان میں بیماری کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ تھا۔

    ان میں سے نصف کو گھر میں 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا جبکہ باقی افراد کو ڈمی دوا کھلائی گئی۔ ان کا جائزہ 4 ہفتوں تک لیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کن مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا یا ایمرجنسی روم کا رخ کرنا پڑا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال کرنے والے گروپ کے 11 فیصد افراد کو اسپتال یا ایمرجنسی روم میں قیام کرنا پڑا جبکہ یہ شرح ڈمی دوا استعمال کرنے والوں میں 16 فیصد تھی۔

    نتائج اتنے ٹھوس تھے کہ اس تحقیق سے منسلک خودم ختار ماہرین نے اس پر کام جلد روکنے کا مشورہ دیا کیونکہ نتائج واضح تھے۔ ابھی خوراک کی مقدار کے تعین، کوووڈ کی پیچیدگیوں کے کم خطرے سے دو چار افراد کے لیے اس کے فوائد جیسے سوالات ابھی باقی ہیں۔

    اس ٹرائل میں 8 موجودہ ادویات کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی جن میں سے ہیپاٹائٹس سی کی ایک دوا پر کام ابھی بھی جاری ہے، اس ٹرائل کے نتائج طبی جریدے جرنل لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

  • ویسٹ انڈیز سے سیریز، قومی ویمن ٹیم کو بڑا دھچکا

    ویسٹ انڈیز سے سیریز، قومی ویمن ٹیم کو بڑا دھچکا

    کراچی: ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز سے قبل ویمن کرکٹ ٹیم بڑی مشکل سے دو چار ہوگئی ہے۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں شامل خواتین اسکواڈ کے تین ارکان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے۔

    پی سی بی کے مطابق گذشتہ روز معمول کی کرونا ٹیسٹنگ کے دوران تین کھلاڑیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا حالانکہ کھلاڑی قرنطینہ میں ہیں جس کی معیاد چھ نومبر کو ختم ہونا تھی، ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کھلاڑیوں کو آئسولیٹ کردیا گیا ہے۔

    کھلاڑیوں میں پاکستانی ویمن ٹیم کی کپتان جویریہ ،ڈیانابیگ اورعمیمہ سہیل ہے۔

    پریس ریلیز کے مطابق اسکواڈ کے دیگر ارکان دو نومبر تک آئسولیشن میں رہیں گے اور وائرس کے کسی بھی ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے  ہر متبادل دن ٹیسٹ کرائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی کرکٹر قومی ویمنز ٹیم کے ہیڈ کوچ مقرر

    پی سی بی کے مطابق ویمن اسکواڈ کے تمام ارکان دو منفی ٹیسٹ کے بعد بائیو سیکیور ببل میں داخل ہوئے تھے تمام اسکواڈ نے مئی میں کرونا سے بچاؤ کی مکمل ویکسی نیشن بھی کرائی تھی۔

    میزبان ٹیم نے سیریز کیلئے یکم نومبر کو کراچی آنا ہے،پاکستان اور ویسٹ انڈیز ویمن ٹیموں کے درمیان تین ون ڈے میچز 8، 11 اور 14 نومبر کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے جائیں گے۔

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔