Tag: Covid-19

  • کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کیا چار دیواری کے اندر فیس ماسک کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے؟

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بند جگہ پر فیس ماسک کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چار دیواری کے اندر فیس ماسک کے استعمال کے بغیر 2 میٹر کی سماجی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔

    میک گل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ چار دیواری کے اندر فیس ماسک کا استعمال ہوا میں موجود وائرل ذرات سے بیمار ہونے کا خطرہ 67 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ فیس ماسک کا استعمال اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام کرونا وائرس کی زیادہ معتدل اقسام کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب موسم سرما کا آغاز ہورہا ہے اور فلو سیزن بھی شروع ہونے والا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ چار دیواری کے اندر 2 میٹر کی دوری کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کافی نہیں اور اس صورت میں جب وہ کوئی دفتر یا ایسا مقام ہو جہاں لوگ کچھ وقت کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مقامات جہاں لوگوں نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا ہوتا وہاں 70 فیصد سے زیادہ وائرل ذرات 30 سیکنڈ کے اندر 2 میٹر سے زیادہ دور پھیل جاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں فیس ماسک کا استعمال کیا گیا تو ایک فیصد سے بھی کم وائرل ذرات 2 میٹر سے زیادہ دور جاتے ہیں۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے سیال اور گیسوں کے بہاؤ کی جانچ پڑتال کے لیے ماڈلز کا استعمال کر کے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا جو چار دیواری کے اندر کھانسی کے دوران خارج ہونے والے ذرات کی دوری کی پیمائش کرسکے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ہوا کی نکاسی، فرد کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا انداز اور فیس ماسک پہننے سے وائرل ذرات کے پھیلاؤ کی روک تھام میں نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔

    کھانسی کو ہوا کے ذریعے پھیلنے والے وائرسز کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے اور محققین کے مطابق تحقیق سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وائرل ذرات کسی ذریعے سے کیسے اپنے ارگرد پھیلتے ہیں اور پالیسی سازوں کو فیس ماسک کے حوالے سے فیصلے کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی اضافہ ہوا، ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی 7 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ڈپریشن کے 5 کروڑ 30 لاکھ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں، بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ملازمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار نہیں رکھ سکے، جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران شائع ہونے والی 48 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔

    اس کے بعد تمام تر تفصیلات کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو دیکھا جا سکے۔

    اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔

    تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ 2020 کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے 24 کروڑ 60 لاکھ جبکہ اینگزائٹی کے 37 کروڑ 40 لاکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں 28 فیصد اور اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے 68 فیصد اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے، بالخصوص 20 سے 24 سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے، ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

  • کرونا وائرس کے بعد معیشت کی بحالی: آئی ایم ایف نے خبردار کردیا

    کرونا وائرس کے بعد معیشت کی بحالی: آئی ایم ایف نے خبردار کردیا

    واشنگٹن: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ عدم مساوات اور مہنگائی کرونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کی بحالی کو متاثر کر رہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے بحران کی بحالی میں رواں سال کمی آئے گی کیونکہ کئی ممالک بڑھتی ہوئی قیمتوں اور قرضوں کے بوجھ سے نمٹ رہے ہیں اور اس وجہ سے غریب ممالک امیر ممالک سے پیچھے جا رہے ہیں۔

    آئی ایم ایف کے پاس اربوں ڈالر وبا سے متاثرہ ممالک کی بحالی میں مدد کر سکتے ہیں تاہم آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے کہا ہے کہ اشیائے خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ویکسین تک رسائی میں کمی ممالک پر بوجھ بن رہی ہے۔

    کرسٹلینا جارجیوا نے کہا کہ وبائی امراض اور اس کے اثرات سے اب بھی معیشت کی بحالی میں مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے ہم ٹھیک طرح سے آگے بڑھ نہیں پا رہے۔

    آئی ایم ایف اگلے ہفتے شرح نمو کا نیا فورکاسٹ جاری کرے گا تاہم انہوں نے کہا ہے کہ ہم امید کر رہے ہیں کہ رواں سال شرح نمو تھوڑی بہتر ہوگی جس کی جولائی میں پیشین گوئی چھ فیصد پر تھی۔

    جارجیوا کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ابھرتے ہوئے اور ترقی پذیر ممالک کو وبا سے بحال ہونے میں مزید برس لگیں گے، تاہم تاخیر سے بحالی طویل المدتی معاشی نقصانات سے بچنے کو اور بھی مشکل بنا دے گی۔ ملازمتوں کی تاخیر سے بحالی نوجوانوں، خواتین اور مزدوروں کو بالخصوص متاثر کر رہی ہے۔

  • فائزر ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ نئی تحقیق

    فائزر ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ نئی تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فائزر ویکسین کرونا کے شدید حملے سے 6 ماہ تک تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    سائنسی جریدے لانسیٹ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے مریضوں پر تحقیق میں پتا چلا ہے کہ فائزر کی دو ڈوز ڈیلٹا ویرینٹ سمیت وائرس کی شدید اقسام کے خلاف کم از کم چھ ماہ تک بے حد مؤثر رہتی ہیں۔

    کلینیکل ٹرائلز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا میں سامنے آیا ہے کہ ویکسین لگوانے سے کرونا وائرس سے متاثر شخص اسپتال جانے سے بچ سکتا ہے، اس تحقیق کے لیے جنوبی کیلیفورنیا کے 34 لاکھ رہائشیوں کے ریکارڈز دیکھے گئے، ان میں سے ایک تہائی آبادی دسمبر 2020 سے اگست 2021 کے درمیان ویکسین کی مکمل ڈوز لگوا چکی تھی۔

    تین سے چار ماہ کی اوسط مدت کے بعد، ویکسین کی ڈوزز مکمل کرنے والے افراد کرونا وائرس سے 73 فی صد تک محفوظ تھے، جب کہ 90 فی صد اسپتال میں داخل کیے جانے کی صورت حال سے بچے ہوئے تھے۔

    ویکسین کی ڈوزز مکمل کرنے والے افراد کرونا وائرس کے کسی بھی ویرینٹ سے متاثر ہونے کے باوجود تحقیق کے دوران اسپتال داخل کیے جانے سے کافی حد تک محفوظ تھے، تاہم پانچ ماہ کے دوران ڈیلٹا ویرینٹ سے حفاظت 40 فی صد تک کم ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج یہ تجویز کرتے ہیں کہ وائرس سے زیادہ حفاظت کے لیے ویکسین کی بوسٹر ڈوز اہم ہے، واضح رہے کہ اگست میں امریکی حکومت نے کمزور مدافعتی نظام والے افراد کے لیے کرونا وائرس کی اضافی ڈوز کی اجازت دی تھی۔

  • سعودی حکومت نے توکلنا ایپ میں اہم تبدیلیاں کردیں

    سعودی حکومت نے توکلنا ایپ میں اہم تبدیلیاں کردیں

    ریاض : سعودی حکومت نے کورونا ویکسین لگوانے والے افراد کو خصوصی درجہ دے دیا، اس سلسلے میں توکلنا ایپ میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

    سعودی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے کہا ہے کہ دس اکتوبر2021 سے صرف وہی لوگ "محصن” (وائرس سے محفوظ) مانے جائیں گے جو کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لے چکے ہوں گے۔

    توکلنا اور دیگر ایپس میں "محصن” صرف ایسے افراد کے لیے تحریر ہوگا جو دونوں خوراکیں حاصل کرچکے ہوں گے۔

    سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈاکٹر العبدالعالی نے بتایا کہ دس اکتوبر سے صحت حالت کا ریکارڈ اپ ڈیٹ ہوگا۔ توکلنا میں محصن کا لفظ صرف ان لوگوں کے لیے استعمال ہوگا جو فائزر، ایسٹرزینکا یا موڈرنا ویکسینوں کی دونوں خوراکیں لے چکے ہوں گے، دوسری خوراک کی تاریخ ہی سے متعلقہ شخص کو "محصن” مانا جائے گا۔

    وزارت صحت کے ترجمان نے کہا کہ جانسن اینڈ جانسن کی ایک خوراک لینے والے کو بھی محصن مانا جائے گا۔ جانسن ویکسین کی پہلی خوراک لینے کے14 روز بعد توکلنا ایپ میں ریکارڈ پر آئے گی۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی منظور شدہ ویکسینوں میں سے کسی ایک ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے کو بھی توکلنا ایپ میں ’محصن‘ ظاہر کیا جائے گا۔

    فی الوقت عالمی ادارہ صحت سینو فارم اور سینووک کی منظوری دیے ہوئے ہے۔ اس کی شرط یہ ہوگی کہ دونوں ویکسینوں میں سے کسی ایک ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے کے بعد مملکت میں منظور کردہ ویکسینوں فائزر، ایسٹرازینکا یا موڈرنا میں سے کسی ایک کا بوسٹر بھی لگواچکا ہو۔

    وزارت کے مطابق اس کا اعتبار مملکت منظور شدہ ویکسینوں میں سے کسی ایک سے بوسٹر لگوانے کی تاریخ سے شروع ہوگا۔

  • این سی او سی نے ہائی ویکسینیٹڈ 8 اضلاع میں پابندیاں نرم کر دیں

    این سی او سی نے ہائی ویکسینیٹڈ 8 اضلاع میں پابندیاں نرم کر دیں

    اسلام آباد: این سی او سی نے ہائی ویکسینیٹڈ 8 اضلاع میں کرونا پابندیاں نرم کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق این سی او سی نے کرونا پابندیوں میں نرمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے تحت اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، اور میرپور سمیت آٹھ اضلاع میں کرونا پابندیاں نرم کر دی گئیں۔

    اس سلسلے میں این سی او سی نے وزارت صحت، وزارت داخلہ، تعلیم، ریلوے، وزارت اطلاعات، مذہبی امور، اور سول ایوی ایشن کو مراسلہ جاری کر دیا ہے، این سی او سی کرونا پابندیوں پر نظر ثانی 13 اکتوبر کو کرے گی۔

    مراسلے کے مطابق 8 اضلاع میں ان ڈور تقریبات کی مشروط اجازت ہوگی، اور ان میں صرف 200 افراد شریک ہو سکیں گے، جو ویکسینیٹڈ ہوں گے، جب کہ آؤٹ ڈور تقریبات میں 400 افراد شریک ہو سکیں گے۔

    نرم پابندیوں والے ان آٹھ اضلاع میں سینما ہالز بدستور بند رہیں گے، کراٹے، باکسنگ، مارشل آرٹس، واٹر پولو، کبڈی، ریسلنگ پر پابندی ہوگی۔

    ان اضلاع میں فوڈ کورٹس رات 12 بجے تک کھلی رہ سکیں گی، اور صرف 50 فی صد افراد داخل ہو سکیں گے، جو ویکسینیٹڈ ہوں گے، ویکسینیٹڈ افراد کو آؤٹ ڈور ڈائننگ کی اجازت ہوگی، ان اضلاع میں ٹیک اوے کی سہولت 24 گھنٹے دستیاب ہوگی۔

    این سی او سی کے مطابق ان اضلاع میں ان ڈور شادی تقریبات کی مشروط اجازت ہوگی، جس میں صرف 200 ویکسینیٹڈ افراد شریک ہو سکیں گے، جب کہ آؤٹ ڈور شادی میں 400 افراد شریک ہو سکیں گے۔

    ان اضلاع میں مزارات کھولنے کا فیصلہ صوبائی حکومتیں کریں گی، ہفتہ وار ایک تعطیل کا فیصلہ بھی صوبائی حکومت کرے گی، کاروباری سرگرمیاں رات 10 بجے تک جاری رہیں گی، دفاتر کو 100 فی صد عملے کے ساتھ کام کی اجازت ہو گی۔

    مراسلے کے مطابق ان اضلاع میں ویکسینیٹڈ افراد کو ان ڈور جم میں جانے کی اجازت ہوگی، تعلیمی ادارے نصف حاضری، 3 دن پالیسی پر عمل درآمد کریں گے، ان باوئنڈ پیسنجر پالیسی جاری رہےگی، اندرون ملک پرواز میں کھانا، مشروبات دینے کی اجازت ہوگی، لیکن مسافروں کے لیے ماسک پہننا لازم ہوگا۔

    این سی او سی کے مطابق 8 اضلاع میں سوئمنگ پولز، پارک 50 فی صد تعداد کے ساتھ کھل سکیں گے، ماسک کے استعمال کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ 70 روز چلنے کی اجازت ہوگی، صرف ویکسینیٹڈ افراد انٹر سٹی ٹرانسپورٹ استعمال کر سکیں گے، پبلک ٹرانسپورٹ میں مسافروں کو کھانا پیش کرنے پر پابندی برقرار رہے گی، جب کہ ریل گاڑی میں 70 فی صد مسافروں کو بٹھانے کی اجازت ہوگی۔

  • کرونا وبا: جنوبی افریقا نے بڑی کامیابی حاصل کرلی

    کرونا وبا: جنوبی افریقا نے بڑی کامیابی حاصل کرلی

    کیپ ٹاؤن: کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے جنوبی افریقا نے عالمی وبا کے خلاف اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    جنوبی افریقا کے نیشنل انفیکشن ڈیزیز انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں یومیہ کرونا کیسسز میں گراوٹ کا عمل جاری ہے اور اسوقت ٹیسٹ پازیٹو آنے والے افراد کا شرح تناسب چار فیصد کے قریب ہے،موجودہ اعداد و شمار کے مطابق وبا کی تیسری لہر سے نجات پا گئے ہیں۔

    وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 578 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ عالمی وبا کے باعث مزید 164 اموات ہوئی، جس کے بعد کرونا سے ہلاک افراد کی تعداد 87 ہزار 216 تک جاپہنچی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی نئی قسم “ایلفا” تیزی سے کیوں پھیلتی ہے؟ ہوشربا تحقیق

    واضح رہے کہ گذشتہ سال اگست میں جنوبی افریقا میں سائنسدانوں نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا تھا، جس میں متعدد تشویشناک میوٹیشنز موجود تھیں، 1.2 نامی اس نئی قسم کو سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقا کے دو صوبوں ماپومالانگا اور خاؤٹنگ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سی 1.2 جنوبی افریقا میں دو ہزار بیس کی وسط میں کرونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی قسم سی 1 میں تبدیلیوں سے ابھری۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل جنوبی افریقا میں دو ہزار بیس کے آخر میں بیٹا ورژن کو بھی دریافت کیا گیا تھا۔

  • کرونا وائرس: سگریٹ پینے والوں کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس: سگریٹ پینے والوں کے لیے بری خبر

    لندن: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والوں میں کرونا وائرس سے اسپتال داخل ہونے کا خطرہ 80 فی صد زائد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والے افراد میں کرونا سے اسپتال داخل ہونے کا خطرہ 80 فی صد تک بڑھ جاتا ہے، یہ نتیجہ کرونا کے 4 لاکھ 21 ہزار مریضوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔

    تھیورکس میں شائع ہونے والی اس ریسرچ اسٹڈی کے محققین نے خبردار کیا کہ تمباکو نوشی سے پھیپھڑے پہلی ہی سو فی صد کارکردگی دکھانے سے قاصر ہوتے ہیں، کرونا کا وار انھیں اسپتال پہنچا سکتا ہے۔

    ماہرین نے اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ ہر سگریٹ پینے والے 14 ہزار کرونا سے متاثر افراد میں سے 51 افراد کو اسپتال داخل ہونا پڑا، یہ تعداد ہر 241 افراد میں ایک بنتی ہے۔

    اس طرح سگریٹ نوشی نہ کرنے والے 25 ہزار کرونا مریضوں کا ڈیٹا بھی دیکھا گیا، ان میں سے 400 مریضوں کو اسپتال داخل ہونا پڑا، یہ تعداد ہر 600 میں سے ایک بنتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں 9 تک سگریٹ پینے والے افراد میں کرونا سے مرنے کا خطرہ سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے دگنا ہوتا ہے، 9 سے 19 سگریٹ روزانہ پینے والوں میں یہ خطرہ 5گنا تک زیادہ ہوتا ہے، جب کہ 19 سے زیادہ سگریٹ روزانہ پینے والوں میں خطرہ 6 سے 10 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔

    ٹھیک ایک برس قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ تمباکو نوشی پھیپھڑوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے، انفیکشن کے خلاف جسم کے ردعمل کو روکتی ہے ، اور قوت مدافعت کو دبا دیتی ہے۔

  • کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    کووڈ ویکسی نیشن کے بعد مضر اثرات ظاہر نہ ہونے کے حوالے سے اہم تحقیق

    حال ہی امریکا میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا کہ ویکسی نیشن کے بعد کسی قسم کا مضر اثر نظر نہ آئے تو کچھ لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ ویکسین کام نہیں کررہی مگر یہ تصور غلط ہے۔

    جونز ہوپکنز میڈیسین کی اس تحقیق میں تصدیق کی گئی کہ فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا ویکسینز کے استعمال سے بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے چاہے لوگوں میں مضر اثرات ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔

    ماہرین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ فائزر یا موڈرنا کی ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اینٹی باڈی ردعمل زیادہ طاقتور نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم نے اپنے اسپتال کے عملے میں دستیاب گروپ پر تحقیق کا فیصلہ کیا تاکہ اس حوالے سے جانچ پڑتال کی جاسکے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ویکسی نیشن کرانے والے 99.9 فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں چاہے مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں۔

    اس تحقیق میں 954 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا جن کو فائزر یا موڈرنا ویکسین استعمال کرائی گئی تھی جبکہ کچھ پہلے کووڈ 19 کا شکار بھی رہ چکے تھے۔ محققین نے ان افراد کو ہدایت کی تھی کہ وہ ویکسین کی پہلی اور دوسری خوراک کے بعد ظاہر ہونے والے مضر اثرات کو رپورٹ کریں۔

    زیادہ تر میں یہ مضر اثرات معمولی تھے جن میں انجیکشن کے مقام پر تکلیف، سر درد اور معمولی تھکاوٹ قابل ذکر تھے جبکہ کچھ کو بخار، ٹھنڈ لگنے اور زیادہ تھکاوٹ کا بھی سامنا ہوا۔

    صرف 5 فیصد افراد نے ویکسین کی پہی خوراک کے بعد مضر اثرات کو رپورٹ کیا جبکہ 43 فیصد نے دوسری خوراک کے بعد مضر اثرات کے تجربے کو رپورٹ کیا۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں کلینکلی علامات کی شرح پہلی یا دوسری خوراک کے موقع پر فائزر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں تھیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مضر اثرات کا سامنا ہوا یا نہیں مگر 954 میں سے 953 میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد آئی جی جی اینٹی باڈیز بن گئیں۔ جس ایک فرد میں ایسا نہیں ہوا اس کی وجہ مدافعتی نظام دبانے والی ادویات تھیں۔

    کچھ افراد میں آئی جی جی اینٹی باڈیز کی شرح دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ مضر اثرات کا باعث بننے والے کچھ عناصر قابل ذکر تھے جیسے خاتون ہونا، 60 سال سے کم عمر، موڈرنا ویکسین کا استعمال یا پہلے سے کووڈ 19 کا سامنا ہونا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں، بیماری کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے، جس سے لوگوں کے ان خدشات کو کم کرنے میں مدد ملے گی کہ اثرات ظاہر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔