Tag: Covid-19

  • لاطینی ملک میں سائنو ویک کرونا ویکسین انتہائی مؤثر ثابت

    لاطینی ملک میں سائنو ویک کرونا ویکسین انتہائی مؤثر ثابت

    مونٹی ویڈیو: جنوبی امریکی ملک یوراگوئے نے منگل کو ایسا حقیقی ڈیٹا پیش کر دیا ہے جو چینی کرونا ویکسین سائنو ویک اور امریکی و جرمن کمپنیوں فائزر، بائیو این ٹیک کی ویکسین کے شان دار اثرات پر مشتمل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یوراگوئے نے سائنو ویک کی کرونا ویکسین سے متعلق اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ویکسین ان کے لوگوں میں شدید بیماری کی حالت میں اسپتال داخلوں اور اموات کو روکنے میں 90 فی صد مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

    ڈیٹا کے مطابق چینی ویکسین کے ٹیکوں سے اموات میں 95 فی صد کمی اور شدید بیماری کی حالت میں اسپتال داخلوں میں 92 فی صد کمی واقع ہوئی، جب کہ کرونا انفیکشنز ختم کرنے میں بھی اس نے 61 فی صد افادیت دکھائی۔

    جاری رپورٹ کے مطابق ویکسین کی افادیت کے حوالے سے اس حقیقی ڈیٹا کے حصول کے لیے ان لوگوں کا موازنہ جنھیں ویکسین نہیں لگائی گئی، ان لوگوں سے کیا گیا جنھیں ویکسین کے دونوں ڈوز دی گئیں، اور یہ موازنہ دوسری ڈوز سے کم از کم 14 دن بعد کیا گیا، ویکسین حاصل کرنے والوں میں ہیلتھ کیئر ورکرز اور عام لوگ بھی شامل تھے جن کی عمریں 18 برس سے 69 برس کے درمیان تھیں۔

    یوراگوئے حکومت نے فائزر/بائیو این ٹیک ویکسین کا بھی مطالعہ کیا، اس کے لیے 1 لاکھ 62 ہزار ہیلتھ ورکرز اور عام لوگوں کا مشاہدہ کیا گیا، جن کی عمریں 80 سال تک تھیں۔ یہ ویکسین اموات اور شدید بیماری کی حالت میں اسپتال داخلوں کو روکنے میں 94 فی صد تک مؤثر ثابت ہوئی، اور اس کے استعمال سے انفیکشنز ہونے کی تعداد میں 78 فی صد کمی آئی۔

    سرکاری رپورٹ کے مطابق جن شہریوں کی مکمل ویکسینیشن ہوئی، ان میں مجموعی طور پر 90 فی صد سے زائد تک اموات اور شدید بیماری کی حالت میں اسپتال داخلوں میں کمی آئی۔

    واضح رہے کہ اس چھوٹے سے لاطینی ملک کی آبادی 35 لاکھ ہے، اس نے گزشتہ برس سخت لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا کی وبا کو بڑی حد تک قابو میں رکھا، تاہم رواں برس کرونا کیسز میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا اور حالیہ ہفتوں میں یوراگوئے کرونا وائرس سے (فی دس لاکھ آبادی میں) مرنے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے سر فہرست ملکوں کی صف میں جا کھڑا ہو گیا تھا۔

    یوراگوئے میں اب تک 52 فی صد آبادی کو کرونا وائرس کی ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگائی جا چکی ہے، جب کہ ویکسینز میں سائنو ویک، فائزر بائیو این ٹیک، اور آسٹرا زینیکا شامل ہیں، جو کہ اس ملک کو کوویکس کے ذریعے ملی تھیں۔ اب تک صرف 29 فی صد آبادی کی مکمل ویکسینیشن ہوئی ہے۔

  • کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس انسانی جسم کے جس عضو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ پھیپھڑے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے طبی ماہرین نے پہلی بار ایسا تفصیلی ماڈل تیار کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    امریکا کے محکمہ توانائی کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے ماہرین کی تحقیق طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئی۔ تحقیق سے وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور کیسے وہ وہاں سے دیگر اعضا تک پھیل جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ گہرائی میں جاکر تفصیلات سے وضاحت ہوتی ہے کہ اس وائرس سے جسم کو اتنا نقصان کیوں پہنچتا ہے اور اس کی بنیاد پر روک تھام کے ذرائع کی تلاش آسان ہوسکتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک مالیکیولر ماڈل تیار کیا تھا جس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی وائرل پروٹینز کی تحقیق کے لیے بہت زیادہ کارآمد ہے جو دیگر تکنیکوں سے بہت مشکل ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس میں ایسا پروٹین ہوتا ہے جو وائرس کی باہری جھلی میں اسپائیک پروٹین کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ پروٹین ای اس وائرس کو خلیات کے اندر نقول بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے جبکہ انسانی پروٹینز کو ہائی جیک کرکے وائرس کے اخراج اور منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل وائرس کے لیے بہترین ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے بدترین، بالخصوص کووڈ 19 کے معمر اور پہلے سے مختلف امراض کے شکار افراد کے لیے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب پھیپھڑوں کے خلیات میں خلل پیدا ہوتا ہے تو مدافعتی خلیات آ کر نقصان کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے پروٹینز سائٹو کائینز کا اخراج ہوتا ہے، یہ مدافعتی ردعمل ورم کو متحرک کر کے زیادہ بدتر کرتا ہے، جس کو سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے۔

    اس صورتحال میں وائرسز کے لیے پھیپھڑوں سے نکل کر دوران خون کے ذریعے دیگر اعضا بشمول جگر، گردوں اور شریانوں کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس منظر نامے میں مریضوں کو دیگر وائرسز سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا ہے جبکہ زیادہ ای پروٹینز بننے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ایک بار بار ہونے والا سائیکل بن جاتا ہے، یعنی مزید وائرسز ای پروٹٰنز بناتے ہیں اور خلیات کے پروٹینز کو ہائی جیک کرکے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، زیادہ پھیلتے ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم اس تعلقق پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔

    ماہرین نے ای پروٹین اور پھیپھڑوں کے پروٹین پی اے ایل ایس 1 کے درمیان تعلق کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا اور اس کی تصاویر بنائیں اور ان کو علم ہوا کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے، جس کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔

  • متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کیلئے بڑی خبر آگئی

    متحدہ عرب امارات سے پاکستانیوں کیلئے بڑی خبر آگئی

    کراچی : متحدہ عرب امارات نے پاکستان سے آنے والے مسافروں پر پابندی میں مزید توسیع کردی ، پاکستان سمیت7ملکوں سے مسافروں کی آمد پر6 جولائی تک پابندی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق یو اے ای سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کوروناوائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے 7 ملکوں سے مسافروں کی آمد پر پابندی میں توسیع
    کردی ، پاکستان سمیت7ملکوں سے مسافروں کی آمد پر 6 جولائی تک پابندی ہوگی۔

    ایوی ایشن حکام نے پابندی میں 6 جولائی تک توسیع کا ہدایت نامہ جاری کردیا ، جس میں کہا ہے کہ ملکوں میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، نائجیریا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

    ہدایت نامے میں تمام ایئر لائینز کو متعلقہ ملکوں سےمسافروں کوبورڈنگ جاری نہ کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ14دن میں ان ملکوں کے یا ان کا سفر کرنیوالوں اور ایسےمسافروں کودبئی یاٹرانزٹ کے لئے بورڈنگ کارڈ جاری نہ کیا جائے۔

    ایوی ایشن حکام کا کہنا تھا کہ خلاف ورزی پر ایئر لائنز کو جرمانہ یافضائی آپریشن سے متعلق کارروائی کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ کرونا کے بڑھتے کیسز کے باعث متحدہ عرب امارات نے پاکستان سمیت کئی جنوب ایشیائی ممالک کے مسافروں پر پابندی لگا رکھی ہے۔

    گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کی ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پابندی کے شکار ممالک کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے مابین منظور شدہ سفارتی مشن، سرکاری وفود، کاروبار طیارے اور سنہری ریزیڈینسی ہولڈرز کو سخت ایس او پیز کے ساتھ داخلے کی اجازت ہوگی۔

  • کون سی ویکسینز کرونا وائرس کا خطرہ 91 فی صد تک کم کر دیتی ہے؟

    کون سی ویکسینز کرونا وائرس کا خطرہ 91 فی صد تک کم کر دیتی ہے؟

    واشنگٹن: امریکی محققین کا کہنا ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز مکمل ویکسی نیشن کروانے والوں میں کرونا وائرس کا خطرہ بہت کم کر دیتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی ریسرچ اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ Messenger RNA (mRNA) ویکسینز کو وِڈ 19 کا خطرہ 91 فی صد تک کم کر دیتی ہیں، جب کہ امریکا میں ایف ڈی اے نے ایم آر این اے کی 2 ویکسینز منظور کی ہیں۔

    ایف ڈی اے کی جانب سے کرونا وائرس کی منظور شدہ 2 ویکسینز میں فائزر – بائیو این ٹیک اور موڈرنا ویکسینز شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں امریکی ادارے سی ڈی سی نے تحقیق شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایم آر این اے ویکسینیشن ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جو مکمل طور پر یا جزوی طور پر ویکسینیشن کے باوجود کرونا وائرس کا شکار ہو گئے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ مکمل ویکسینیشن کا مطلب دوسری خوراک کے 14 یا زیادہ دن بعد کوئی شخص وائرس کا شکار ہوا، اور جزوی ویکسینیشن کا مطلب پہلی خوراک کے 14 یا زیادہ دن سے لے کر دوسری خوراک کے بعد 13 روز تک ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں طبی کارکنوں، اور ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کا زیادہ امکان رکھتے تھے، ان کا 4 ہفتے تک مطالعہ کیا گیا اور پھر ڈیٹا حاصل کیا گیا۔

  • بھارت: کووڈ 19 کی خطرناک لہر کے بعد نئے کیسز میں کمی

    بھارت: کووڈ 19 کی خطرناک لہر کے بعد نئے کیسز میں کمی

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی خوفناک لہر کے بعد کووڈ کیسز میں کمی آنے لگی، 2 ماہ کے دوران پہلی بار یومیہ کیسز کی شرح 1 لاکھ سے کم ہوگئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں کرونا کیسز میں بتدریج کمی دیکھی جارہی ہے، بھارت میں 2 ماہ کے دوران پہلی بار 1 لاکھ سے کم کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 86 ہزار سے زائد کرونا کیسز رپورٹ ہوئے، ایک دن میں کووڈ سے 2 ہزار 123 افراد ہلاک ہوئے۔

    اس سے قبل بھارت میں کرونا کیسز کی یومیہ شرح 2 سے 3 لاکھ تک جا پہنچی تھی۔

    اس وقت بھارت میں کرونا وائرس کے مجموعی مریضوں کی تعداد 2 کروڑ 89 لاکھ 96 ہزار 949 ہوچکی ہے جن میں سے فعال کیسز کی تعداد 13 لاکھ 4 ہزار 143 ہے۔

    بھارت میں کرونا وائرس سے اب تک 3 لاکھ 51 ہزار 344 اموات ہوچکی ہیں، جبکہ 2 کروڑ 73 لاکھ 41 ہزار 462 افراد اس مرض سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • خیبر پختون خوا: کرونا کیسز کے حوالے سے اچھی خبر

    خیبر پختون خوا: کرونا کیسز کے حوالے سے اچھی خبر

    پشاور: خیبر پختون خوا میں مثبت کیسز کی شرح 3 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے میں مثبت کیسز کی شرح 3.1 ریکارڈ کی گئی ہے۔

    محکمہ صحت خیبر پختون خوا کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 30 اضلاع ایسے ہیں جہاں پر کرونا وائرس کیسز کی شرح 1 سے 4 فی صد کے درمیان ہے، جب کہ اس وقت دیر اپر 8 فی صد کے ساتھ پہلے، پشاور شہر 7 فی صد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مثبت کیسز زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔

    محکمہ صحت کے مطابق کے پی میں کرونا وائرس ایکٹیو کیسز میں بھی مسلسل کمی آ رہی ہے، اس وقت صوبے میں فعال کیسز کی تعداد 4 ہزار 365 ہے، اسپتالوں پر بھی مریضوں کا بوجھ کم ہو گیا ہے، صوبے کے مختلف اسپتالوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ 825 مریض داخل ہیں، جن میں 32 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔

    صوبائی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس سے 14 افراد جاں بحق ہوئے، اور 237 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ وائرس سے متاثرہ 176 مریض صحت یاب ہوئے۔

    اب تک صوبے میں کرونا وائرس سے 1 لاکھ 34 ہزار 558 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 4 ہزار 158 ہیں، پشاور ڈویژن میں اب تک 2 ہزار 218 اموات ہوئے ہیں، ملاکنڈ ڈویژن دوسرے نمبر پر ہے جہاں اب تک 610 افراد، جب کہ مردان ڈویژن تیسرے نمبر پر ہے، جہاں 561 افراد کرونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، ہزارہ ڈویژن 375، کوہاٹ ڈویژن 200، بنوں 97 اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں 96 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

    کرونا وائرس کیسز میں کمی آنے کے بعد کاروبار کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں اور صوبے میں یونی ورسٹیز، کالجز کھل گئے ہیں، جب کہ پرائمری اسکول بھی آج سے کھل گئے ہیں۔ حکومت نے اساتذہ اور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دینے والے اسٹاف کے لیے ویکسین لازمی قرار دیا ہے۔

    صوبے میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کا عمل بھی جاری ہے، عام شہریوں کے لیے اسپتالوں کے علاوہ ویکسینیشن سینٹرز بھی قائم کیے گئے ہیں، جہاں 18 سال کی عمر سے زائد شہری اپنی باری پر جا کر ویکسین لگا سکتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور اچھی خبر

    کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور اچھی خبر

    لندن: حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو کووڈ 19 سے متاثر ہوچکے ہوں، اگلے 10 ماہ تک وہ اس مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ایک بار کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں اگلے 10 ماہ تک کووڈ 19 سے دوبارہ بیمار ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اکتوبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران کیئر ہوم کے عملے اور وہاں رہنے والے 2 ہزار سے زیادہ افراد میں کووڈ 19 کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ان افراد کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں سے ایک کو 10 ماہ پہلے کووڈ 19 کی تشخیص ہوچکی تھی جبکہ دوسرا اس وبائی بیماری سے محفوظ رہا تھا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ جن افراد کو ماضی میں کووڈ 10 کا سامنا ہوچکا ہوتا ہے ان میں صحت یابی کے بعد اگلے 4 ماہ میں دوبارہ بیمار ہونے کا امکان اس کا شکار نہ ہونے والے کے مقابلے میں 85 فیصد کم ہوتا ہے۔

    اسی طرح کیئر ہومز کے کووڈ سے متاثر ہونے والے عملے کے افراد میں یہ خطرہ اس عرصے میں 60 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس میں بیماری سے دوبارہ متاثر ہونے سے ٹھوس تحفظ کو دریافت کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی خبر ہے کہ قدرتی بیماری سے دوبارہ بیمار ہونے سے کافی عرصے تک تحفظ ملتا ہے، آسان الفاظ میں ایک بار بیماری کے بعد ری انفیکشن کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے سے کیئر ہوم کے رہنے والوں کو ٹھوس تحفظ ملتا ہے حالانکہ معمر ہونے کی وجہ سے ان میں مضبوط مدافعتی ردعمل کا امکان ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ کووڈ سے زیادہ خطرے سے دوچار اس عمر کے گروپ میں اب تک زیادہ تحقیقی کام نہیں ہوا۔

    اس تحقیق میں شامل کیئر ہوم کے 682 رہائشیوں کی اوسط عمر 86 سال تھی جبکہ عملے کے 14 سو 29 افراد کے اینٹی باڈی بلڈ ٹیسٹس گزشتہ سال جون اور جولائی میں لیے گئے تھے، بعد ازاں عملے کے ہر ہفتے جبکہ رہائشیوں کے ہر مہینے پی سی آر ٹیسٹ ہوئے۔

    ری انفیکشن کے لیے پی سی آر کے مثبت ٹیسٹ کو اسی وقت مدنظر رکھا گیا جب وہ پہلی بیماری کو شکست دینے کے 90 دن سے زیادہ دن کے بعد سامنے آیا ہو۔

    اس عرصے میں ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے 14 افراد میں ری انفیکشن کی تصدیق ہوئی جبکہ کبھی بیمار نہ ہونے والے افراد میں یہ 2 سو سے کچھ زیادہ تھی۔

    تحقیق میں ان افراد کو نکال دیا گیا تھا جن کو ویکسین استعمال کروائی گئی تھی اور ان پر ویکسینیشن کی افادیت کے لیے ایک الگ تحقیق کی جارہی ہے۔

  • کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کیوں کم ہو جاتی ہے؟

    کینیڈا: سائنس دانوں نے کرونا مریضوں میں آکسیجن کی سطح کی کم ہونے کی وجہ معلوم کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا کے مریضوں میں آکسیجن کی سطح کم کیوں ہو جاتی ہے؟ اس سلسلے میں نئی طبی تحقیق سامنے آ گئی ہے، ایرانی نژاد مسلمان سائنس دان نے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

    جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع شدہ نئے طبی مطالعے میں مرکزی مصنف ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی کا کہنا ہے کہ خون میں آکسیجن کی کمی کو وِڈ 19 کے مریضوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارے نزدیک اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم میں خون کے سرخ خلیات کی پیدوار کو متاثر کرتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران طبی ماہرین کی ٹیم نے کرونا وائرس سے متاثرہ 128 مریضوں کا معائنہ کیا، ان میں شدید بیمار، کم بیمار اور معمولی علامات والے افراد سب شامل تھے۔

    ایسوسی ایٹ پروفیسر شکر اللہ الہٰی

    محققین نے دیکھا کہ جیسے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، خون میں اُن سرخ خلیات کا سیلاب امڈ آتا ہے جو ابھی پوری طرح سے بنے نہیں ہوتے، اور بعض اوقات خون میں موجود خلیوں کی کُل تعداد میں ان کا تناسب 60% تک پہنچ جاتا ہے، جب کہ صحت مند آدمی کے خون میں اس کا تناسب 1 فی صد یا بالکل نہیں ہوتا۔

    شکر اللہ کا کہنا تھا کہ خون کے یہ خام خلیے آکسیجن منتقل نہیں کرتے، اور انھیں کرونا وائرس کا شدید خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے، جب کرونا وائرس خون کے ان خام سرخ خلیوں کو حملے میں تباہ کر دیتا ہے، تو جسم ان کی جگہ خون کے مکمل سرخ خلیے (جن کی عمر 120 روز سے زیادہ نہیں ہوتی) نہیں لا پاتا، اس طرح خون میں آکسیجن منتقل کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے۔

    شکر اللہ الہٰی کے مطابق ان کی ٹیم کی تحقیق سے 2 اہم نتائج سامنے آئے ہیں، پہلا یہ کہ کرونا وائرس سے خون کے نامکمل سرخ خلیے متاثر ہوتے ہیں، جب وائرس ان خلیوں کو مار دیتا ہے تو پھر انسانی جسم ہڈیوں کے مغز سے مزید نامکمل سرخ خلیوں کو کھینچ کر مطلوبہ آکسیجن کی رسد پوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تاہم اس سے محض وائرس کے لیے مزید اہداف ہی جنم لیتے ہیں۔

    دوسرا یہ کہ خون میں نامکمل سرخ خلیے درحقیقت طاقت ور ’امیونو سپریسیو سیلز‘ ہوتے ہیں، جو انسانی جسم میں اینٹی باڈیز کی تیاری کو دبا دیتے ہیں اور کرونا وائرس کے خلاف خلیوں کی مدافعت کو بھی کچل دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں انسان کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوزش کے خاتمے کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ڈیکسا میتھاسون‘ کرونا وائرس کے علاج میں کیوں مؤثر ہے؟

  • ویتنام نے چینی ویکسینز میں سے ایک کی منظوری دے دی

    ویتنام نے چینی ویکسینز میں سے ایک کی منظوری دے دی

    ہنوئی: ویتنام نے بھی چین کی سائنوفارم کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی۔

    چینی میڈیا کے مطابق وزارت صحت ویتنام نے اعلان کیا ہے کہ اس نے چین کی سائنوفارم ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے، یہ ویتنام میں منظور شدہ تیسری کرونا ویکسین ہے۔

    ویکسین کی منظوری کے لیے ویتنام کے نائب وزیر صحت ٹرونگ چھوک کونگ نے دستخط کیے، اس سے قبل ویتنام میں آسٹرا زیینکا اور روسی ویکسین اسپوتنک V کی منظوری بھی دی جا چکی ہے۔

    ویتنام میں اب تک مجموعی طور پر تین ویکسینز منظور کی جا چکی ہیں۔

    ویتنام: ہوا میں تیزی سے پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کا انکشاف

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ویتنام میں کو وِڈ 19 کی نئی ہائبرڈ قسم کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا، یہ نئی ہائبرڈ قسم برطانوی اور بھارتی اقسام کی خصوصیات کی بھی حامل ہے، جس کی وجہ سے یہ انتہائی متعدی ہے۔

    ویت ناک کے وزیر صحت نگوین تھان لونگ نے ہفتے کو بتایا تھا کہ اس وائرس میں برطانوی اور بھارتی اقسام کی خواص موجود ہیں، اس وائرس کی یہ ہائبرڈ قسم ہوا میں بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے، جلد وزارت کی جانب سے ورلڈ جِین میپ پر اس نئی قسم کا اعلان کر دیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے نئے مریضوں میں جین سیکوئسنگ کے دوران اس ہائبرڈ قسم کا انکشاف ہوا، یعنی یہ دراصل بھارتی قسم ہے جس میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، اور اس کی اصلی قسم برطانوی تھی۔

  • کرونا وائرس سے جسم کو ایک اور تباہ کن نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس سے جسم کو ایک اور تباہ کن نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے انسانی جسم پر تباہ کن اثرات کے بارے میں تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

    کئی ماہ سے دنیا بھر کے طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بنا ہوا تھا جسے سائلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

    ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

    اب ایک تحقیق میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ آخر کیوں کووڈ کے متعدد مریضوں کے خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے چاہے انہیں اسپتال میں داخل ہونا نہ بھی پڑے۔

    کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں آکسیجن کی کمی کی سطح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ سے ہمارا خیال تھا کہ کووڈ 19 سے خون کے سرخ خلیات بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

    اس کی جانچ پڑتال کے دوران محققین نے کووڈ 19 کے 128 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔

    ان میں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے اور آئی سی یو میں داخل ہونے والے افراد میں سات ایسے مریض بھی تھے جن میں بیماری کی شدت معتدل تھی مگر انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا جبکہ کچھ ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور انہیں چند گھنٹوں کے لیے اسپتال جانا پڑا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ بیماری کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ خون کے ناپختہ سرخ خلیات، دوران خون میں بھرنے لگتے ہیں، کئی بار تو ان کی تعداد مجموعی خلیات کے 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں صحت مند افراد کے خون میں ان ناپختہ خلیات کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ خلیات بون میرو میں رہتے ہیں اور خون کی گردش میں نظر نہیں آتے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس ان خلیات کے ماخذ پر اثرانداز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون میں ان ناپختہ خلیات کی تعداد نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ناپختہ خلیات آکسیجن فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف میچور خلیات کرتے ہیں، ان ناپختہ خلیات کے کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    وائرس کے حملے سے یہ خلیات تباہ ہوتے ہیں اور جسم کی دوران خون سے آکسیجن فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    محققین نے کہا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس کے ساتھ 2 اہم نتائج کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ ناپختہ خون کے سرخ خلیات وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور جب وائرس ان کو ختم کرتا ہے تو جسم آکسیجن کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مزید ایسے خلیات بون میرو سے خارج کرتا ہے، مگر وہ بھی وائرس کا ہدف بن جاتے ہیں۔

    دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خون کے یہ سرخ خلیات ایسے مدافعتی خلیات کو دبا دیتے ہیں جو اینٹی باڈیز بناتے ہیں اور وہ وائرس کے خلاف ٹی سیلز کی مدافعت بھی کچلتے ہیں، جس سے صورتحال بدتر ہوجاتی ہے۔

    آسان الفاظ میں خون میں ان سرخ خلیات کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل اتنا ہی کمزور ہوگا۔