Tag: Covid-19

  • وزیر اعظم کی ہدایت پر ماس ویکسینیشن مہم کے آغاز پر عمل درآمد

    وزیر اعظم کی ہدایت پر ماس ویکسینیشن مہم کے آغاز پر عمل درآمد

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت ملک بھر میں ماس ویکسینیشن مہم کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے بڑی ویکسینیشن مہم چلانے کی تیاری کر لی، یہ ویکسینیشن مہم سرکاری و نجی اداروں کے اشتراک سے منعقد ہوگی، این سی او سی کا کہنا ہے کہ ماس ویکسینیشن ڈرائیو حکمت عملی پر عمل درآمد جاری ہے۔

    این سی او سی کے مطابق ماس ویکسینیشن مہم کی کامیابی کے لیے ہر ایک کو کردار ادا کرنا ہوگا، میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ویکسینیشن سے متعلق حوصلہ افزائی اور آگاہی دی جا رہی ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال 7 کروڑ آبادی کی ویکسینیشن کا ہدف ہے، جس کے لیے ملک میں ویکسینیشن انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنایا جا رہا ہے، ویکسینیشن کی استعداد بڑھانے کے لیے صوبوں کو بھی آن بورڈ لیا گیا ہے۔

    این سی او سی کے مطابق ماس ویکسینیشن اسٹریٹیجی کے تحت ویکسین کی بلا تعطل سپلائی یقینی بنائی جا رہی ہے، پاکستان میں مقامی سطح پر کرونا ویکسین کی تیاری کا بھی آغاز ہو چکا ہے، قومی ادارہ صحت میں پاک ویک کرونا ویکسین کی تیاری جاری ہے۔

    اس سلسلے میں وفاق ویکسینیشن سے متعلق صوبوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا، این سی او سی نے ہدایت کی ہے کہ صوبے معاشرے کے تمام طبقات کو ماس ویکسینیشن مہم کاحصہ بنائیں، اور نجی سیکٹر، تاجر برادری، علما، میڈیا کو ویکسی نیشن مہم میں شامل کریں۔

  • کرونا ویکسینیشن کے بعد نادرا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا آسان طریقہ

    کرونا ویکسینیشن کے بعد نادرا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا آسان طریقہ

    کراچی: اگر آپ نے کرونا ویکسینیشن کروالی ہے، یعنی آپ کو دونوں ڈوز لگ چکے ہیں، تو آپ نہایت آسانی سے نادرا سے اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

    کرونا وائرس سے بچاؤ کی کوئی بھی ویکسین لگوانے کے بعد نادرا کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اس کی اہمیت یوں ہے کہ اسے آپ کو مختلف جگہوں پر پیش کرنا پڑ سکتا ہے۔

    کرونا ویکسینیشن کروانے والے افراد نادرا کا یہ سرٹیفکیٹ نہایت آسانی سے آن لائن حاصل کر سکتے ہیں، اس کے لیے آپ کو نادرا کے دفتر بھی جانا نہیں پڑتا۔

    اس کے لیے آپ کو امیونائزیشن کے لیے بنائی گئی نادرا کی خصوصی ویب سائٹ پر جانا پڑے گا، جہاں آپ سے قومی شناختی کارڈ نمبر، شناختی کارڈ کی تاریخ کا اجرا اور موبائل نمبر مانگا جائے گا، جسے پُر کر کے آپ اپنا امیونائزیشن سرٹیفکیٹ دیکھ سکیں گے۔

    سب سے پہلے آپ مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر جائیں:

    https://nims.nadra.gov.pk/nims/registration

    یہاں فارم پر درکار معلومات درج کرنے کے بعد آپ کا سرٹیفکیٹ بن جائے گا، جسے نہ صرف آپ ویب سائٹ پر چیک کر کے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں بلکہ اس کا پرنٹ آؤٹ بھی لے سکتے ہیں۔

    اس امیونائزیشن سرٹیفکیٹ میں آپ کی تاریخ پیدائش، قومی شناختی کارڈ نمبر اور قومیت لکھی ہوگی، اسی طرح آپ کو دونوں ڈوزز کس اسپتال یا ویکسینیشن سینٹر میں لگی ہیں، اس کی معلومات بھی درج ہوگی۔

    نیشنل امیونائزیشن منجمنٹ سسٹم (این آئی ایم ایس) اور نادرا کے اشتراک سے کرونا ویکسینیشن کی دونوں ڈوز لگوانے والے افراد اپنا ڈیٹا اوپر دیے گئے لنک سے چیک کر سکتے ہیں۔

    امیونائزیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی فیس 100 روپے ہے، جو افراد آن لائن فیس جمع نہیں کرا سکتے وہ نادرا دفاتر سے جا کر سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

  • پاکستان کو اب تک کتنی کرونا ویکسین ڈوز ملیں؟ رپورٹ اے آر وائی نیوز پر

    پاکستان کو اب تک کتنی کرونا ویکسین ڈوز ملیں؟ رپورٹ اے آر وائی نیوز پر

    اسلام آباد: پاکستان کو کرونا ویکسین کی اب تک 1 کروڑ 14 لاکھ 75 ہزار 300 ڈوز موصول ہو چکی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان کو موصول شدہ کرونا ویکسین ڈوزز کے اعداد و شمار کچھ یوں ہے کہ اب تک پاکستان کو 3 ممالک کی 5 کمپنیوں کی تیار کردہ کرونا ویکسینز موصول ہوئی ہیں، ان ویکسینز کی ڈوزز کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 14 لاکھ 75 ہزار سے زائد ہے۔

    پاکستان کو جو ویکسینز ملی ہیں، ان میں سائینوفارم، کین سائینو، سائینوویک، فائزر اور آسٹرا زینیکا کرونا ویکسینز شامل ہیں، پاکستان کو کرونا ویکسین کی پہلی کھیپ 2 فروری کو چین سے ملی تھی۔

    ذرائع کے مطابق چین پاکستان کو سائینوفارم کی 17 لاکھ 20 ہزار ڈوز تحفہ دے چکا ہے، کوویکس سے پاکستان کو 2 ویکسینز کی مجموعی طور پر 13 لاکھ 39 ہزار ڈوز مل چکی ہیں، جن میں آسٹرا زینیکا ویکسین کی 12 لاکھ 38 ہزار 400 ڈوز جب کہ فائزر کرونا ویکسین کی 1 لاکھ 620 ڈوزز شامل ہیں۔

    پاکستان کو کین سائینو ویکسین کی 4 لاکھ 16 ہزار 280 ڈوز، سائینوویک ویکسین کی 50 لاکھ ڈوز، جب کہ سائنوفارم ویکسین کی 47 لاکھ 20 ہزار ڈوز موصول ہو چکی ہیں۔

  • عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس اقسام کو نئے نام دے دیے

    عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس اقسام کو نئے نام دے دیے

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے دنیا بھر میں پائی جانے والی کورونا وائرس کی اقسام کو مختلف نام دیئے ہیں۔ یہ فیصلہ کورونا اقسام سے منسلک ممالک کے منفی تاثر کو زائل کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔

    گزشتہ برس دسمبر سے اب تک کورونا وائرس کی کئی نئی اقسام سامنے آ چکی ہیں، جو سب سے  پہلے سامنے آنے والے کورونا وائرس کے مقابلے میں کئی زیادہ متعدی ہیں۔

    کورونا وائرس کی تیسری لہر سابقہ لہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک کلیدی وجہ کورونا وائرس کی وہ نئی اقسام ہیں جو بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق برطانیہ میں پائی جانے والی کورونا وائرس کی قسم کو "ایلفا” کا نام دیا گیا، جبکہ جنوبی افریقہ کی کورونا قسم کو "بی ٹا” کا نام دیا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے برازیل میں پھیلنے والی مہلک اور جان لیوا کورونا قسم کو "گاما” کا نام دیا ہے جبکہ بھارت کی مہلک کورونا وائرس قسم کو’ڈیلٹا‘کا نام دیا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بھارت کی مودی حکومت نے بھارت میں پائی جانے والی اس بھیانک کورونا وائرس کی قسم کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

  • کرونا وائرس: ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس: ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کووڈ 19 کی اہم علامت سونگھنے اور ذائقے کی حس سے عارضی محرومی ہے اور اب اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق اگر آپ سے مختلف غذاؤں کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو آپ ممکنہ طور پر سپر ٹیسٹر ہیں اور اس سے کووڈ 19 سے کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔

    سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ 1 کی علامات اوسطاً محض 5 دن تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطاً 23 دن تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی 2 آر 38 زبان کے ذائقہ کا احساس دلانے والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک آکسائیڈ بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔

    یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کرونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دلانے والے ریسیپٹرز سے کووڈ 19 و بالائی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

    اس تحقیق میں 2 ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی آزمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔ ان لوگوں کو 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک نان ٹیسٹرز، دوسرا سپر ٹیسٹرز اور تیسرا ٹیسٹرز۔

    نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کر پاتے، سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی اسے شناخت کرلیتے ہیں، جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔

    تحقیق کے دوران 266 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت معمولی سے معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

  • کرونا وبا: پائلٹس ریل گاڑیاں چلانے پر مجبور

    کرونا وبا: پائلٹس ریل گاڑیاں چلانے پر مجبور

    برلن: کرونا وبا نے جہاں ایک طرف دنیا بھر میں ہوابازی صنعت کو شدید طور پر متاثر کیا، وہاں جہاز اڑانے والے پائلٹس بھی اس بحران سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھیں فضا سے اتر کر زمین پر پروفیشنل ڈرائیونگ شروع کرنی پڑی۔

    تفصیلات کے مطابق متعدد ممالک میں سیکڑوں پائلٹس اپنی پسندیدہ ترین ملازمت سے محرومی کے بعد ریل گاڑی چلانے پر مجبور ہو چکے ہیں، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں ریلوے کمپنیاں، ہانگ کانگ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور آسٹریلیا میں چارٹر بس آپریٹر پروفیشنل ڈرائیورز کی شدت سے تلاش میں ہیں، جسے دیکھتے ہوئے ایئر لائن پائلٹ اپنا پیشہ تبدیل کر رہے ہیں۔

    جرمن میڈیا رپورٹ کے مطابق جرمن ریلوے کمپنی ڈوئچے بان کو کرونا وبا سے قبل ہی ٹرین ڈرائیورز کی کمی کا سامنا تھا، بتایا جا رہا ہے کہ اب شاید یہ بے روزگار ایئر لائن پائلٹس ریلوے کمپنیوں میں ٹرین ڈرائیورز کی کمی کو پورا کر سکیں گے۔

    اس سلسلے میں ریلوے کمپنی نے بتایا کہ ان کو اب تک 1500 پائلٹس اور فضائی عملے کے اراکین کی طرف سے ملازمت کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جن میں سے اب تک 280 افراد کو ملازمت فراہم کی جا چکی ہے، جن میں 55 پائلٹس ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پائلٹس عام طور پر تربیت یافتہ اور قابل اعتماد ہوتے ہیں، اس لیے ٹرین ڈرائیور شعبے کے لیے بھی ایسی ہی پیشہ وارانہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔

    تاہم ایئر لائن پائلٹ اور ٹرین ڈرائیور کی آمدن میں فرق بھی ہوتا ہے، جرمن ریلوے کمپنی کے مطابق ایک تربیت یافتہ ٹرین ڈرائیور کی سالالہ آمدن 44 سے 52 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) ہوتی ہے، جس میں اضافی بونس بھی شامل ہوتے ہیں، جب کہ لفتھانزا کا ایک پائلٹ اپنی ملازمت کے پہلے سال کے دوران 65 ہزار یورو تک (ٹیکس کی کٹوتی کے بغیر) کماتا تھا۔

    واضح رہے 20 سالہ تجربہ رکھنے والے پائلٹ کی سالانہ آمدن اس سے دوگنی ہوتی ہے، جب کہ کرونا وبا کے بحران کے سبب بہت ساری ایئر لائن کمپنیوں نے پائلٹس کی تنخواہوں میں بھی کمی کی تھی۔

    جرمن پائلٹس کی یونین ’کاک پٹ‘ کے ترجمان یانسی شمٹ کا کہنا تھا کرونا بحران کے دوران ہمارا عام طور پر سب کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ اپنے ’پلان بی‘ پر غور کریں، اور ایسا لگتا ہے کہ پائلٹس کے لیے پلان بی کا مطلب ریل گاڑی، ٹرام یا پھر بس چلانا ہی رہ گیا ہے۔

  • یورپ میں 12 تا 15 برس کے بچوں کے لیے کس ویکسین کی اجازت دی گئی؟

    یورپ میں 12 تا 15 برس کے بچوں کے لیے کس ویکسین کی اجازت دی گئی؟

    برسلز: یورپی میڈیسن ایجنسی نے بچوں کے لیے کرونا ویکسی نیشن کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) نے کہا ہے کہ اس نے 12 تا 15 برس کی عمر کے بچوں کو ویکسین لگانے کی اجازت دے دی ہے، تاہم اس کی حتمی منظوری کا فیصلہ یورپی یونین کمیشن کرے گا۔

    ای ایم اے کے مطابق بچوں کے لیے جس ویکسین کی اجازت دی گئی ہے وہ بائیو این ٹیک اور فائزر کی تیار کردہ کرونا ویکسین ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل یورپی یونین نے کرونا ویکسین 16 سال سے زائد عمر کے افراد کو لگانے کی اجازت دی تھی۔

    یہ یورپ میں بارہ سے پندرہ برس کی عمر کے بچوں کے لیے پہلی منظور شدہ کرونا ویکسین ہے، یورپی ممالک اب اپنے لیے اس کے استعمال کا فیصلہ خود کریں گے، جرمن حکام نے جمعرات کو اس سلسلے میں آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

    امریکا اور کینیڈا بھی رواں ماہ کے شروع میں نو عمروں کے لیے فائزر ویکسین کی منظوری دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے یورپ کو گزشتہ دنوں خبردار کیا تھا کہ ویکسین لگانے کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کرونا وبا تب تک ختم نہیں ہوگی جب کہ 70 فی صد آبادی کو ویکسین نہیں لگ پائے گا۔

    ای ایم اے کے ویکسین کی حکمت عملی کے سربراہ مارکو کیولری نے کہا ہے کہ 12سے 15 سال کی عمر کے گروپ کو کم از کم 3 ہفتوں کے وقفے کے ساتھ 2 ڈوزز کی ضرورت ہوگی۔

  • بھارت: ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کو بھی کرونا مریض دیکھنے کی اجازت مل گئی، لیکن کن شرائط کے ساتھ؟

    بھارت: ہومیو پیتھک ڈاکٹرز کو بھی کرونا مریض دیکھنے کی اجازت مل گئی، لیکن کن شرائط کے ساتھ؟

    نئی دہلی: بھارت میں اب ہومیو پیتھک ڈاکٹرز بھی کرونا وائرس کے مریضوں کو دیکھ سکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث صورت حال بے قابو ہو چکی ہے، اسپتال کرونا مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، اور مریضوں کو بستر نہیں مل رہے، جس کے باعث اموات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

    ایسے میں حکومت نے سرکاری طور پر کرونا مریض دیکھنے کے لیے ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کو بھی اجازت دے دی ہے، تاہم اس سلسلے میں ان کے لیے سخت گائیڈ لائنز بھی جاری کیے گئے ہیں۔

    وزارت آیوش وزارت کی ہدایات کے مطابق ہومیو ڈاکٹرز کو بغیر علامات اور ابتدائی علامات والے کرونا مریضوں ہی کو دیکھنا ہے، جب کہ ان پر لازم ہوگا کہ وہ سنگین نوعیت کے مریضوں کو بڑے اسپتالوں میں بھیجیں۔

    وزارت کی گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ جو مریض ہوم آئسولیشن میں زیر علاج ہیں، انھیں ہومیوپیتھک ڈاکٹر دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان مریضوں کو کرونا کے پورے پروٹوکول پر عمل کرنا ہوگا، ہومیو ڈاکٹرز انھیں 2 گز فاصلے، ماسک پہننے، اور ہاتھوں کو دھونے کی تلقین کریں گے۔

    ڈسٹرکٹ ہومیو پیتھک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر للت موہن جوہری نے بتایا کہ گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ بغیر علامات والے کرونا مثبت مریضوں کو 7 دن کے لیے دن میں 2 بار آرسینیکم البم 30c کی چار گولیاں ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کو دینی چاہیے۔

    گائیڈ لائن کے مطابق ہلکی علامات کے مریضوں کو ایکونائٹم نیپولس، آرسینیکم البم، بیلاڈونا، بیرونیا ایلبا، یوپیٹوریم پرولیئٹیم ، فیرم فاسفوریکم، گلاسیم فاسفورس، راس ٹیکسکوڈینڈرم کی دوائیں تجویز کی جائیں گی، نیز ڈاکٹر مریض کی حالت دیکھ کر دوا کی مقدار کا تعین کرے گا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مرض سے صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم 3 ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    شیفیلڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت یابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان عام سی ٹی اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں آتا۔

    ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔

    مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو اسپتال میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ان کے پھیپھڑوں کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں 3 ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا، کچھ کیسز میں اسپتال سے نکلنے کے 8 ماہ بعد بھی مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ شی ایم آر آئی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں آکسیجن کے استعمال کی صلاحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی، حالانکہ سی ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی متعارف کروائی جائے گی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے حالانکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کرتے نظر آتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے والا یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا جبکہ اس سے دوران خون میں آکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر لانگ کووڈ کے شکار 70 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کا نقصان پہنچا ہوگا، مگر اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے۔

  • انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    کو وِڈ 19 کی مہلک ترین وبا کے باعث جہاں بڑی تعداد میں لوگ مرے ہیں، اور معاشی نقصانات بھی نہایت وسیع سطح پر مرتب ہوئے ہیں، وہاں یہ بیماری انسانی دماغی صحت کے لیے بھی نہایت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟ اس حوالے سے ایک ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر تامر المری بتاتی ہیں کہ ذہنی صحت پر کرونا وائرس کے متعدد اثرات ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

    بے چینی کی کیفیت، ذہنی تناؤ اور زیادہ غصہ محسوس کرنا، نیند میں مشکل ہونا یا خلل، روزمرہ کے معمول میں عدم توازن وغیرہ۔

    محققین نے کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی ذہنی صحت پر بھی اس کے اثرات کو نوٹ کیا ہے، آکسفورڈ یونی ورسٹی کے محققین کی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شفایاب ہونے والوں میں سے 18 فی صد افراد صحت یابی کے 3 ماہ کے اندر ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحت یاب ہونے والوں کو مختلف نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً بے خوابی، افسردگی اور اضطراب اس کی سب سے عام علامات ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں دماغی کم زوری جیسے دماغی نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جب کہ پہلے سے موجود نفسیاتی عارضے میں مبتلا افراد میں ذہنی بیماریوں کی سنجیدہ علامات دیکھی گئیں، اور صحت مند افراد کے مقابلے میں انھیں کرونا وائرس ہونے کا 65 فی صد زیادہ امکان دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا بیماری کی وجہ سے لوگوں میں مختلف نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، اور ذہنی تناؤ، اضطراب، افسردگی عدم یقین جیسی کیفیات میں دن بدن اضافہ دیکھا گیا، اس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ ٹینشن، دماغی بیماریاں اور اسٹروک وغیرہ کا شکار ہوئے ہیں۔

    جو لوگ پہلے سے اعصابی مسائل کا شکار تھے انھیں بیماری سے مزید متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے ان کا نقصان بعض اوقات موت کا سبب بنتا ہے۔