Tag: Covid-19

  • کیا کورونا وائرس اب پہلے جیسا ہلاکت خیز نہیں رہا؟

    کیا کورونا وائرس اب پہلے جیسا ہلاکت خیز نہیں رہا؟

    واشنگٹن: نئے کرونا وائرس کی دنیا بھر میں زبردست ہلاکت خیزی کے مشاہدات اور مطالعات کے بعد طبی ماہرین نے اب اس سلسلے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ کیا کو وِڈ 19 اب پہلے جیسا ہلاکت خیز نہیں رہا۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا مرکز بننے والے مقامات پر اموات کی شرح میں نمایاں کمی آ چکی ہے حالاں کہ کرونا وبا کی نئی لہر کے دوران انفیکشن کی شرح بھی بڑھ گئی ہے، پھر بھی سائنس دان اس حوالے سے تو پُر اعتماد ہیں کہ یہ تبدیلی حقیقی ہے مگر اس کی وجوہ اور اس کا برقرار رہنا تاحال قابل بحث سمجھا جا رہا ہے۔

    بوسٹن یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا باروکس کا کہنا ہے کہ یہ ایک رجحان ہے یا محض عارضی ٹھہراؤ، کسی کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ اس وبا کے آغاز ہی سے اس کی شرح اموات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

    اس تناظر میں امریکی ریاست مشی گن کے ڈیٹرائٹ میڈیکل سینٹر میں تین ماہ مسلسل کام کرنے والے سید الزین نے دیکھا کیا کہ مئی میں اس سے قبل کے مہینوں میں آنے والے مریضوں کے مقابلے میں اب کرونا وائرس کے مریض زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ یہاں سے 4 ہزار سے زائد میل دور شمالی اٹلی کی خاتون محقق کیارا پی بیلی نے بھی یہی نتیجہ نکالا۔ اسپین کے وبائی امراض کے ماہر رافیل کینٹن نے بھی اس تبدیلی کو واضح طور پر دیکھا۔

    چین سے آنے والی ابتدائی رپورٹس کے مطابق کرونا وائرس کی شرح اموات 7 فی صد تک تھی لیکن یہ شرح زیادہ تر اسپتال داخل مریضوں پر مبنی تھی، جب اس کی لہر امریکا پہنچی، تو وبائی امراض کے ماہرین کا خیال تھا کہ اس کی شرح 2 سے 3 فی صد ہے۔ اب امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے مطابق یہ شرح 0.65 فی صد ہے۔

    جوشوا باروکس کا اصرار ہے کہ کم تخمینے کے باوجود لاکھوں اموات کا امکان ہے، کیوں کہ امریکا میں اس وقت کرونا وائرس کے کیسز کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اموات بھی کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں، یعنی تمام اموات کا 20 فی صد۔

    پبلک ہیلتھ آفیشلز شرح اموات میں کمی کی متعدد وجوہ بتاتے ہیں، جیسا کہ نوجوان اس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں اور ان کی قوت مدافعت صحت یابی میں مدد دیتی ہے۔ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ سے کیسز کی جلد تشخیص ہو رہی ہے اور علاج کی حکمت عملیاں بھی بہتر ہوئی ہیں۔

    ابتدائی تحقیق میں ایک خیال یہ سامنے آیا تھا کہ آبادی کے ایک حصے کو پہلے ہی جزوی طور پر کرونا وائرس کے خلاف مدافعت حاصل ہے، ممکنہ طور پر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز یا بچپن کی ویکسی نیشن یا کسی اور وجہ سے۔ ایک اور اہم امکان یہ ہے کہ ہمارا ماحول تبدیل ہوا ہے یعنی موسم، رویے یا بذات خود وائرس۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بیش تر وائرسز کی ہلاکت خیزی کی صلاحیت بتدریج کم ہونے لگتی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں جیسے میزبانوں کی کمی، وائرس میں تبدیلیاں جو اسے کم جان لیوا بناتی ہیں، نئے طریقہ علاج یا ویکسینز۔ ماہرین کے مطابق نئے کرونا وائرس کے ساتھ بھی ایسا ضرور ہوگا، مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کب تک ہوگا اور جب تک مزید کتنی ہلاکتیں ہو چکی ہوں گی، تاہم اس سلسلے میں سماجی دوری اور فیس ماسک کے کردار کو بھی سراہا گیا۔

    طبی ماہرین نے ایک اور نکتہ یہ دریافت کیا ہے کہ وقت کے ساتھ کرونا کے وائرل لوڈ (جسم میں وائرس کی مقدار کو جانچنے کا پیمانہ) میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، کیلی فورنیا یونی ورسٹی کی وبائی امراض کی محقق مونیکا گاندھی نے اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابتدائی وائرل لوڈ کم ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ لوگوں کے جسم اس سے زیادہ مؤثر طریقے سے لڑنے کے قابل ہوں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وائرل انفیکشن کی روک تھام کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں اس کی شدت کم ہوئی ہے۔

    دوسری لہر

    کرونا وائرس کی شدت میں کمی کی ابتدائی رپورٹس مئی کے آخر میں سامنے آئی تھیں اور ان پر کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔

    اٹلی کے شہر میلان کے سان ریفایلی اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو نے 31 مئی کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا حقیقت تو یہ ہے کہ طبی لحاظ سے یہ وائرس اب اٹلی میں موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 دن کے دوران سویب ٹیسٹ میں جو وائرل لوڈ دیکھا گیا وہ ایک یا 2 ماہ قبل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دوسری لہر 16 مئی سے 7 جولائی تک تھی جس میں پہلے کے مقابلے میں کم تعداد یعنی 20 فی صد کو آئی سی یو کی ضرورت پڑی جب کہ 13 مارچ سے 15 مئی کے دوران پہلی لہر میں 38 فی صد مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا۔

    اسی طرح دوسری لہر کے مریضوں نے کم وقت اسپتال میں گزارا جو کہ 4.8 دن تھا جو پہلی لہر کے مریضوں میں اوسطاً 7.1 دن تھا۔ مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ دوسری لہر کے مریضوں میں اموات کی شرح 5.1 فی صد تھی جب کہ پہلی لہر کے مریضوں میں 12.1 فی صد تھی۔

  • معروف پاکستانی ماڈل کرونا وائرس کا شکار ہوگئیں

    معروف پاکستانی ماڈل کرونا وائرس کا شکار ہوگئیں

    کراچی: پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف ماڈل علیزے گبول کرونا وائرس کا شکار ہوگئیں، انہوں نے خود کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق معروف اداکارہ اور ماڈل علیزے گبول نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ ان کا کوویڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ شروع میں انہیں بخار تھا تاہم اب اس کی علامات کم ہیں۔ وہ ٹھیک ہیں اور انہوں نے خود کو گھر میں قرنطینہ کرلیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ جلد صحت یابی کے لیے پرامید ہیں۔

    اس سے قبل متعدد فنکار کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ 29 ستمبر کو فلم اور ڈراما انڈسٹری کے نامور اور سینئر اداکار مرزا شاہی کرونا وائرس کے باعث چل بسے تھے۔

    علاوہ ازیں اداکارہ سکینہ سموں، ندا یاسر، یاسر نواز، روبینہ اشرف، گلوکار ابرار الحق، بلال مقصود، کامیڈین و میزبان شفاعت علی اور واسع چوہدری بھی وائرس کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہوچکے ہیں۔

    ملک میں اب تک کرونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 3 لاکھ 18 ہزار 932 ہوچکی ہے جن میں سے 8 ہزار 904 فعال کیسز ہیں۔

    کرونا وائرس سے 6 ہزار 570 اموات ہوچکی ہیں جبکہ 3 لاکھ 3 ہزار 458 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    نیویارک: امریکا میں ایک نئی اور نہایت اہم تحقیق سامنے آئی ہے جس میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ کیا کرونا وائرس عام نزلہ زکام والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟

    اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف روچسٹر میڈیکل سینٹر میں کی گئی تحقیق میں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف جسم میں طویل المیعاد قوت مدافعت پیدا ہو سکتی ہے۔

    لوگوں کو بہت زیادہ پریشان کرنے والے موسمی نزلہ زکام سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کو وِڈ نائنٹین سے کسی حد تک تحفظ فراہم کر سکتا۔

    جریدے ایم بائیو میں شائع تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر ایسے بی سیلز بنتے ہیں جو طویل عرصے تک جراثیموں کو شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی ان کو یاد رکھتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔

    بی سیلز کے بارے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عموماً کئی عشروں تک برقرار رہتے ہیں، تحقیق میں پہلی بار بی سیلز کی کراس ری ایکٹیویٹی کو بھی رپورٹ کیا گیا، یعنی عام نزلہ زکام پر حملہ کرنے والے بی سیلز بظاہر نئے کرونا وائرس کو بھی پہچان سکتے ہیں۔

    ریسرچرز کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان افراد میں کو وِڈ 19 کے خلاف بھی کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے جو عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز سے متاثر ہوتے ہیں۔

    یونی ورسٹی آف روچسٹر کے ریسرچ پروفیسر اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف مارک سینگسٹر نے بتایا کہ اس سلسلے میں کو وِڈ نائنٹین سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون کی جانچ کی گئی تھی، جن میں سے متعدد نمونوں میں وہ بی سیلز پائے گئے جو نئے کرونا وائرس کو شناخت کر کے ان کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔

    سینگسٹر کی تحقیق کے نتائج کی بنیاد معمولی اور درمیانے درجے کے کو وِڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے 26 مریضوں اور ایسے 21 صحت مند ڈونرز کے خون کے نمونوں کے موازنے پر مبنی تھی جن کے خون کے نمونے 6 سے 10 سال قبل اکٹھے کیے گئے تھے یعنی نئے کرونا وائرس کے سامنے آنے سے بہت عرصہ قبل۔ ان نمونوں میں میموری بی سیلز اور اینٹی باڈیز کی سطح ناپی گئی جو اسپائیک پروٹین کے مخصوص حصوں کو ہدف بناتے ہیں، یہ اسپائیک پروٹین تمام کرونا وائرسز میں پائے جاتے ہیں اور خلیات کو متاثر کرنے کے لیے وائرسز کی مدد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    یہ اسپائیک پروٹین ہر کرونا وائرس میں اگرچہ کچھ مختلف انداز سے کام کرتا ہے، مگر اس کا ایک جز ایس 2 تمام وائرسز میں لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ میموری بی سیلز (بی سیل کی ذیلی قسم جو طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں) مختلف کرونا وائرسز کے اسپائیک ایس 2 کے درمیان تفریق نہیں کر پاتے اس لیے بلا امتیاز حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

    ریسرچ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ بی سیلز کس حد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور یہ کس طرح مریض کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

    ماہرین کو اب یہ دیکھنا ہے کہ ان بی سیلز کا نئے کرونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی کم شدت کی علامات اور کم مدت کی بیماری سے بھی کوئی تعلق ہے یانہیں۔ اور کیا یہ کرونا ویکسین کی افادیت میں بھی کوئی مدد کر سکتے ہیں یا نہیں۔

  • عام افراد کو کرونا ویکسین کب دستیاب ہوگی؟ ماہرین کا نیا انکشاف

    عام افراد کو کرونا ویکسین کب دستیاب ہوگی؟ ماہرین کا نیا انکشاف

    اوٹاوا: طبی ماہرین نے اب ایک نیا انکشاف کر دیا ہے کہ کو وِڈ ویکسین کی دستیابی 2021 کی آخری سہ ماہی سے قبل ممکن نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا میں ہونے والی ایک میڈیکل ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک مؤثر ویکسین کی عام افراد کے لیے دستیابی 2021 کی چوتھی سہ ماہی تک ممکن نہیں ہے۔

    میک گل یونی ورسٹی کی اس سروے نما تحقیق میں ویکسینولوجی کے شعبے کے 28 ماہرین سے رائے لی گئی تھی، متعدد ماہرین کا ماننا تھا کہ کسی مؤثر ویکسین کی دستیابی سے قبل ممکن ہے کہ کسی قسم کا خراب آغاز بھی ہو، اگر اگلے سال موسم گرما تک بھی ویکسین دستیاب ہو تو یہ خوش آئند امر ہوگا۔

    اپنے شعبے میں پچیس سال سے سرگرم کینیڈا اور امریکا سے تعلق رکھنے والے ان طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ کوئی کرونا ویکسین 2021 کے آغاز میں لوگوں کے لیے دستیاب ہو سکتی ہے۔

    سروے میں ماہرین کی رائے تھی کہ اس بات کا ایک تہائی امکان ہے کہ منظوری کے بعد ویکسین کے حوالے سے حفاظتی وارننگ جاری ہو سکتی ہے، اس بات کا 40 فی صد امکان ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی پہلی تحقیق میں ویکسین کی افادیت ہی سامنے نہ آ سکے۔

    خیال رہے کہ سروے کے لیے ماہرین سے پوچھے گئے سوالات کے ذریعے ویکسین کی تیاری پر پیش گوئی کا کہا گیا تھا، خاص طور پر ان سے یہ پوچھا گیا کہ جلد از جلد کب تک ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے اور کتنی تاخیر ہو سکتی ہے۔

    اس سوال کہ کم از کم 5 ہزار افراد پر مشتمل تحقیق کے نتائج کب تک جاری ہو سکتے ہیں؟ کا جواب دیا گیا کہ بہترین تخمینہ مارچ 2021 (اوسطاً)، جلد از جلد دسمبر 2020 (اوسطاً)، زیادہ سے زیادہ جولائی 2021 (اوسطاً) ہے۔

    اس سروے کے دوران رکاوٹوں پر نگاہ رکھی گئی، ایسی رکاوٹیں نشان زد کی گئیں کرونا ویکسین کو جن کا سامنا ہو سکتا ہے، اس سلسلے میں ایک تہائی ماہرین نے رکاوٹوں کا ذکر کیا، سب سے بڑی رکاوٹ یہ بتائی گئی کہ امریکا اور کینیڈا میں تیار ہونے والی پہلی ویکسین کے بارے میں ایف ڈی اے کی جانب سے وارننگ جاری ہو سکتی ہے کہ اس کے جان لیوا مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • کتنے فی صد افراد میں کرونا علامات ظاہر نہیں ہوتیں، ماہرین نے معلوم کر لیا

    کتنے فی صد افراد میں کرونا علامات ظاہر نہیں ہوتیں، ماہرین نے معلوم کر لیا

    برن: سویٹزر لینڈ میں کی جانے والی ایک طبی تحقیق میں ماہرین نے یہ بات معلوم کر لی ہے کہ ایسے کتنے فی صد افراد ہوتے ہیں جنھیں کرونا وائرس لگنے کے بعد بھی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    طبی جریدے پلوس میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق مارچ سے جون کے دوران کی جانے والی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس کے شکار ہر 10 میں سے 2 افراد میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سوئٹزر لینڈ کی برن یونی ورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 20 فی صد مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن طبی ماہرین نے کہا ہے کہ وہ پھر بھی اس بیماری کو دیگر افراد تک منتقل کر سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مریض میں علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں، وہ وائرس کو دیگر افراد تک منتقل کر سکتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کچھ افراد میں علامات ہوتی ہیں مگر انھیں یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہ کو وِڈ 19 کی علامات ہیں۔

    دوسری طرف ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک پروفیسر نے انکشاف کیا ہے کہ بغیر علامات والے کچھ افراد میں یہ وائرس ان کی جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتا رہتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ علامات کے بغیر بھی بیماری کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے اس لیے ہاتھوں کی صفائی، سماجی دوری جیسی احتیاطی تدابیر اہمیت کے حامل ہیں۔

    یاد رہے کہ اگست میں جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ بغیر علامات والے کرونا مریض وائرس کو اتنا ہی زیادہ آگے پھیلا سکتے ہیں جتنا علامات والے مریض۔ اس سے قبل اس حوالے سے شواہد محض مشاہدے پر مبنی تھے، مگر جنوبی کوریا والی تحقیق میں ٹھوس ثبوت سامنے آئے۔ معلوم ہوا کہ بغیر علامات والے مریضوں کی ناک، حلق اور پھیپھڑوں میں اتنا ہی وائرل لوڈ ہوتا ہے جتنا علامات والے مریضوں میں۔

    واضح رہے کہ حالیہ تحقیق کے دوران محققین نے 6 سے 26 مارچ کے دوران بغیر علامات والے 193 مریضوں اور 110 علامات والے مریضوں کے لیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا تھا، تحقیق میں شامل بیش تر افراد نوجوان تھے اور ان کی اوسط عمر 25 سال تھی، ابتدائی طور پر 89 میں سے 30 فی صد کبھی بیمار نہیں ہوئے جب کہ 21 فی صد میں علامات نظر آئیں۔

  • امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ آ گیا

    امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ آ گیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کا کروناوائرس ٹیسٹ مثبت آ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کر کے بتایا ہے کہ ان کا اور ان کی بیوی میلانیہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے۔

    کرونا پازیٹیو ہونے کے بعد امریکی صدر اور ان کی اہلیہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں، ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ہم اب اس بیماری سے ایک ساتھ نمٹیں گے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کی قریبی معاون ہوپ ہکس میں کرونا کی تصدیق ہوئی تھی، جس کے بعد ٹرمپ نے اہلیہ سمیت قرنطینہ میں جانے کا اعلان کیا تھا۔

    مشیر کا ٹیسٹ پازیٹو آنے پر دونوں کا ٹیسٹ بھی کرایا گیا تھا جس کا نتیجہ ٹرمپ نے آج ٹویٹ میں بتا دیا۔ خیال رہے کہ ہوپ ہکس نے رواں ہفتے ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مہم میں کافی وقت گزارا تھا۔

    امریکی صدر نے ایک ٹویٹ میں مشیر سے متعلق کرونا مثبت آنے کی خبر دیتے ہوئے ان کی تعریف بھی کی تھی، انھوں نے لکھا میری مشیر جو بہت محنتی ہیں ان میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے، جس کے باعث میں اور میری اہلیہ میلانیا ٹرمپ قرنطینہ میں چلےگئے ہیں، کرونا ٹیسٹ کے نتائج آنے تک قرنطینہ میں رہیں گے۔

    میلانیا ٹرمپ نے بھی اس حوالے سے ٹویٹ کیا اور لکھا کہ کرونا پازیٹو آنے کے بعد لاکھوں امریکیوں کی طرح ہم بھی قرنطینہ ہو گئے ہیں، ہم بہتر محسوس کر رہے ہیں، میں نے اپنی ساری سرگرمیاں معطل کر دی ہیں، آپ لوگ بھی احتیاط کریں اور گھروں میں رہیں، ہم سب مل کر اس وبا سے نمٹیں گے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ٹرمپ کرونا ٹیسٹ کر چکے ہیں، 15 مارچ کو ان کا ٹیسٹ منفی آیا تھا، اس سے چند دن قبل برازیل کے صدر کے مشیر نے ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جس کے بعد فیبیو ونگرٹرن میں کرونا کی تصدیق ہوئی تھی، برازیلین عہدے دار نے ٹرمپ سے ملاقات کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔

  • کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرگئی

    کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرگئی

    شنگھائی: دنیا میں کرونا وائرس انفکیشن سے اموات کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

    شنگھائی کی نجی سافٹ ویئر سلوشن کمپنی کی ریفرنس ویب سائٹ ورلڈومیٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں نئے کرونا وائرس کو وِڈ نائنٹین سے ہلاکتیں 10 لاکھ 2 ہزار 400 ہو گئی ہیں۔

    یہ مہلک وائرس اب تک دنیا کے 213 ممالک اور علاقوں میں 3 کروڑ اور ساڑھے 33 لاکھ انسانوں کو متاثر کر چکا ہے، دوسری طرف وائرس سے لگنے والی بیماری سے اب تک 2 کروڑ 46 لاکھ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    چین سے نمودار ہونے والے اس وائرس نے سب سے زیادہ تباہی امریکا میں پھیلائی، اب تک وائرس سے امریکا میں 2 لاکھ 9 ہزار 400 افراد جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 73 لاکھ 21 ہزار ہے، جن میں 45 لاکھ 60 ہزار مریض صحت یاب ہو گئے ہیں۔

    ادھر پڑوسی ممالک سے ہر وقت الجھنے والے ملک بھارت میں مودی سرکار کرونا وائرس پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے، کرونا وائرس کیسز کی تعداد کے لحاظ سے بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جب کہ اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔

    بھارت میں کرونا سے متاثرین کی تعداد 60 لاکھ 74 ہزار ہوگئی ہے، گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران مزید 82 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 95 ہزار 574 ہوگئی ہے۔

    برازیل میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں بڑھ کر 1 لاکھ 41 ہزار 700 ہو گئی ہیں اور متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 47 لاکھ 32 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ روس میں وائرس سے اموات 20 ہزار 300 سے زائد ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 11 لاکھ 51 ہزار ہو چکی ہے۔

    ادھر فرانس کرونا وائرس وبا کی دوسری لہر کی زد میں آ گیا ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران فرانس میں مزید 7 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ فرانس میں ہلاکتیں 31 ہزار 700 سے زائد ہیں۔

  • کرونا وبا کے ایک اور پریشان کن اثر کا انکشاف، وائرس سے محفوظ رہنے والے بھی شکار

    کرونا وبا کے ایک اور پریشان کن اثر کا انکشاف، وائرس سے محفوظ رہنے والے بھی شکار

    انڈیایا: طبی ماہرین نے کرونا وائرس کے ایک ایسے پریشان کن اثر کا انکشاف کیا ہے جو نہ صرف وائرس سے متاثرہ مریض پر مرتب ہوتا ہے بلکہ یہ ان لوگوں میں بھی دیکھا گیا جنھیں سرے سے کرونا وائرس لاحق ہی نہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین نے بالوں سے محرومی کو کرونا کی وبا کا ایک اور اثر قرار دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسے مریض دیکھے گئے ہیں جنھیں کرونا انفیکشن کے چند ماہ بعد بالوں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔

    ماہرین نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ اس مسئلے کا شکار وہ لوگ بھی ہو رہے ہیں جنھیں سرے سے کرونا وائرس لاحق ہی نہیں ہوا تھا۔حالیہ ہفتوں میں ایسے مریض سامنے آئے جو بہت تیزی سے بالوں سے محروم ہو رہے تھے، ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وبا کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کی زد میں وائرس سے محفوظ رہنے والے لوگ بھی آ رہے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ وائرس نہیں ہے بلکہ وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والا نفسیاتی تناؤ ہے، عام طور پر بھی تناؤ والے حالات میں لوگوں کو تیزی سے بال گرنے کا سامنا ہوتا ہے۔

    کلیولینڈ کلینک کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شلپی کھترپال کے مطابق کرونا وبا سے قبل اکثر کئی ہفتوں تک ان کے پاس بال جھڑنے کا ایک بھی مریض نہیں آتا تھا لیکن اب ہر ہفتے کم از کم 20 مریض آ رہے ہیں۔

    امریکی ریاست انڈیانا کی تحقیقی یونی ورسٹی میں جولائی میں ایک سروے کیا گیا، اس سروے کے مطابق کرونا سے صحت یاب 1567 مریضوں میں سے 423 کو کئی ماہ بعد بال جھڑنے کا مسئلہ لاحق ہوا۔ نیویارک کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی جلدی امراض کی ماہر ڈاکٹر ایما گیوٹ مین یاسکی نے بتایا کہ انھوں نے متعدد طبی ورکرز کے بالوں سے محرومی کا علاج کیا ہے، جن میں سے کچھ کو وِڈ سے متاثر تھے اور باقی نہیں تھے، یہ صورت حال کا تناؤ تھا جو ان کو بالوں سے محروم کرنے لگا تھا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیش تر مریضوں میں یہ مسئلہ عارضی ہوگا جو کئی ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق بعض لوگوں میں تناؤ والے تجربے کے کئی ماہ بعد معمول سے زیادہ بال جھڑنے کا مسئلہ شروع ہوتا ہے، اس میں بالوں کی نشوونما کا نظام متاثر ہوتا ہے، اس طرح کا تجربہ کچھ خواتین کو زچگی کے بعد بھی ہوتا ہے، جو 6 ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے، تاہم مسئلہ دائمی بھی ہو سکتا ہے۔

    جب بہت زیادہ نفسیاتی تناؤ لاحق ہو تو پھر مدافعتی نظام بالوں کی جڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور سر کے درمیان سے بال غائب ہونے لگتے ہیں، ایسے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ کرونا سے متاثرہ مریضوں کے پلکوں سمیت پورے جسم سے بال جھڑنے کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔ اس مسئلے کا شکار مرد و خواتین دونوں ہو رہے ہیں۔

    بالوں کے ان مسائل سے بچنے کے لیے طبی ماہرین نے اچھی غذا، وٹامنز کے استعمال، یوگا اور سر کی مالش کا مشورہ دیا ہے۔

  • دنیا میں کرونا سے اموات کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی

    دنیا میں کرونا سے اموات کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی

    شنگھائی: دنیا میں کرونا وائرس کی وجہ سے اموات کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔

    شنگھائی کی نجی سافٹ ویئر سلوشن کمپنی کی ریفرنس ویب سائٹ ورلڈومیٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں نئے کرونا وائرس کو وِڈ نائنٹین سے ہلاکتیں 9 لاکھ 99 ہزار ہو گئی ہیں۔

    یہ مہلک وائرس اب تک دنیا کے 213 ممالک اور علاقوں میں 3 کروڑ اور ساڑھے 30 لاکھ انسانوں کو متاثر کر چکا ہے، دوسری طرف وائرس سے لگنے والی بیماری سے اب تک 2 کروڑ 44 لاکھ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    چین سے نمودار ہونے والے اس وائرس نے سب سے زیادہ تباہی امریکا میں پھیلائی، اب تک وائرس سے امریکا میں 2 لاکھ 9 ہزار افراد جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 72 لاکھ 87 ہزار ہے، جن میں 45 لاکھ 24 ہزار مریض صحت یاب ہو گئے ہیں۔

    ادھر پڑوسی ممالک سے ہر وقت الجھنے والے ملک بھارت میں مودی سرکار کرونا وائرس پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے، کرونا وائرس کیسز کی تعداد کے لحاظ سے بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جب کہ اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔

    بھارت میں کرونا سے متاثرین کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہوگئی ہے، گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران مزید 80 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 94 ہزار 534 ہوگئی ہے۔

    برازیل میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں بڑھ کر 1 لاکھ 41 ہزار ہو گئی ہیں اور متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 47 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ روس میں وائرس سے اموات 20 ہزار سے زائد ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 11 لاکھ 43 ہزار ہو چکی ہے۔

  • کرونا ویکسین کی تیاری، عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا

    کرونا ویکسین کی تیاری، عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا ہے کہ جب تک کرونا وائرس کی ویکسین تیار ہوگی تب تک یہ موذی وائرس 20 لاکھ انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ ویکسین تیار ہونے تک کو وِڈ 19 سے 2 ملین انسان موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، اس وقت کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں 10 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں، ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ عالم گیر وبا کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

    صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ جب تک ایک کام یاب اور مؤثر ویکسین تیار ہو کر وسیع سطح پر اس کا استعمال شروع ہوگا، بہت امکان ہے کہ موجودہ ہلاکتیں دگنی ہو چکی ہوں، اور اگر ٹھوس ایکشن نہیں لیا گیا تو تعداد دو ملین سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

    جمعے کو یو این ایجنسی کے ایمرجنسیز پروگرام کے سربراہ مائیک ریان نے ایک بریفنگ میں کہا کہ 20 لاکھ اموات محض ایک تصور نہیں ہے بلکہ افسوس ناک طور پر اس کا امکان موجود ہے۔

    چین نے تین ممالک کو کرونا ویکسین فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی

    واضح رہے کہ چین میں نمودار ہونے والے نئے کرونا وائرس کے آغاز سے اب تک کے 9 مہینوں میں عالمی سطح پر مصدقہ اموات کی تعداد 9 لاکھ 95 ہزار ہو چکی ہے، وائرس سے اب تک مجموعی طور پر 3 کروڑ 28 لاکھ لوگ متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ 2 کروڑ 42 لاکھ مریض کرونا کی بیماری سے صحت یاب ہوئے ہیں۔

    ریان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک ملین بہت خوف ناک تعداد ہے، اور اس سے قبل کہ ہم دوسرے ملین کو سوچنے لگ جائیں ضرورت ہے کہ موجودہ تعداد پر غور کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کی یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہو نے والے ملک امریکا میں کرونا کیسز کی تعداد 7 ملین سے بھی بڑھ گئی۔