Tag: Covid-19

  • اومیکرون سے تحفظ کے لیے ویکسین کی کتنی ڈوز ضروری ہیں؟ نئی تحقیق

    اومیکرون سے تحفظ کے لیے ویکسین کی کتنی ڈوز ضروری ہیں؟ نئی تحقیق

    طبی محققین نے ایک ریسرچ کے بعد نتائج دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ سے تحفظ کے لیے کووڈ ویکسین کی 3 ڈوز ضروری ہیں۔

    طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع تحقیق کے مطابق کووڈ ویکسین کی 3 ڈوز اومیکرون سے بیمار ہونے سے بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، محققین نے بتایا کہ فائزر اور موڈرنا ویکسینز کا بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون ویرینٹ سے مناسب تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے مارچ 2021 سے جنوری 2022 کے دوران امریکا کے 21 اسپتالوں کے لگ بھگ 12 ہزار افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیا  جن میں سے 5700 سے زیادہ افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔محققین نے ان افراد میں کرونا وائرس کی مختلف اقسام جیسے ایلفا، ڈیلٹا یا اومیکرون کے خلاف ویکسینیشن کی افادیت کی جانچ پڑتال کی۔

    نتائج میں دیکھا گیا کہ کسی ایم آر این اے ویکسین کی 2 ڈوز سے کرونا کی علامات کے باعث اسپتال میں داخلے کے خطرے سے 65 فیصد تک کمی آئی، جب کہ ویکسین کی 3 ڈوز  سے یہ خطرہ 85 فیصد تک کم ہو گیا۔محققین نے کہا ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز سے کرونا وائرس کی اقسام سے بیماری کی صورت میں اسپتال میں داخلے کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

    نتائج کو دیکھتے ہوئے محققین نے کہا کہ بوسٹر ڈوز آبادی کی سطح میں کووڈ سے شدید بیماری اور اموات کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 جسم کے تمام اعضا کو بری طرح متاثر کرتا ہے لیکن دماغ پر اس کے بدترین اثرات سامنے آتے جارہے ہیں، حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے حجم کو سکیڑ سکتی ہے، ان حصوں کا حجم کم کرسکتی ہے جو جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ ان حصوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جو سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    اس موازنے سے ابتدائی بیماری کے کئی ماہ بعد دماغی حجم سکڑنے اور ان ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا جو سونگھنے کی حس اور دماغی صلاحیتوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 51 سے 81 سال کی عمر کے 785 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے دماغی اسکینز کرونا وائرس کی وبا سے قبل اور اس کے دوران لیے گئے تھے۔

    ان میں سے نصف سے زیادہ میں ان اسکینز کے درمیان کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 384 افراد کے اسکینز کا موازنہ ان افراد سے کیا گیا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے دماغ اور گرے میٹر کے کچھ حصے سکڑ گئے، بالخصوص وہ حصے جو سونگھے کی حس سے منسلک ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر کووڈ کے شکار افراد میں اس سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں سونگھنے کی حس سے منسلک اہم دماغی حصے parahippocampal gyrus کا حجم 1.8 فیصد جبکہ cerebellum کا حجم 0.8 فیصد تک سکڑ گیا۔

    ان حصوں کے سگنلز کے عمل میں مداخلت کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مختلف علامات جیسے سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے، اسی طرح کووڈ سے متاثر افراد کا ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹوں میں اسکور اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم تھا۔

    یہ کم اسکور ذہنی صلاحیتون سے جڑے دماغی حصے cerebellum کے ٹشوز کے نقصان کا عندیہ بھی دیتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اثرات معمر افراد اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والوں میں زیادہ نمایاں تھے مگر معمولی بیمار یا بغیر علامات کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ان کا مشاہدہ ہوا۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ دماغی تبدیلیاں مستقل ہیں یا جزوی طور پر ریورس کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو کووڈ سے دماغی صحت پر مرتب ہونے والے بدترین اثرات کا عندیہ دیتے ہیں۔

    یہاں تک کہ معمولی بیمار افراد کے دماغی افعال جیسے توجہ مرکوز کرنے اور چیزیں منظم کرنے کی صلاحیت بدتر ہوگئی اور اوسطاً دماغی حجم میں 0.2 سے 2 فیصد کمی آئی۔

    ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ ویکسی نیشن سے ان اثرات کی روک تھام پر کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں مگر حال ہی میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 15 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا تھا کہ ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

  • کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے متعدد جینز دریافت

    اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے ایسے 16 جینز کو شناخت کیا ہے جو لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ایسے جینز ہوتے ہیں جو مختلف مسائل جیسے وائرس کے نقول بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنے، شدید ورم یا بلڈ کلاٹس کی روک تھام نہیں کرپاتے۔

    ماہرین نے کہا کہ ان نتائج کی بنیاد پر ایسے علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی جو مریضوں کو سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے یہ پیش گوئی کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ کون سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران برطانیہ میں کووڈ کے باعث آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے مریضوں کے 56 ہزار کے لگ بھگ نمونوں کا جینیاتی تجزیہ کیا گیا تھا۔

    جب ان کا موازنہ بیماری سے محفوظ رہنے والے یا معمولی بیمار ہونے والے گروپس سے کیا گیا تو ایسے 16 جینز کی شناخت ہوئی جن کا پہلے علم نہیں تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نئی دریافت سے ماہرین کو اس وقت دستیاب ادویات کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی جو کووڈ 19 کے علاج میں ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    مثال کے طور پر ماہرین نے دریافت کیا کہ ایسے بنیادی جینز میں بیماری کے دوران تبدیلیاں آتی ہیں جو ایک پروٹین فیکٹر VIII کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بلڈ کلاٹس بننے کے عمل کا حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلڈ کلاٹس ان چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے کووڈ کے مریضوں کو آکسیجن کی کمی کا سامان ہوتا ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ ایسے حصوں کو ہدف بنایا جائے جس سے بلڈ کلاٹس کو بننے سے روکا جاسکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہم ٹرائلز کے بغیر یہ نہیں جان سکتے کہ یہ ادویات کام کریں گی یا نہیں۔

  • پاکستان میں کورونا کے مزید 758 کیسز اور 6 اموات ریکارڈ

    پاکستان میں کورونا کے مزید 758 کیسز اور 6 اموات ریکارڈ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کی شرح میں کمی کا سلسلہ جاری ہے، ایک روز میں 700سے زائد کیسز اور 6 اموات ریکارڈ کی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کورونا وبا کے تازہ ترین اعدادو شمار جاری کردیئے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹے  میں کورونا سے مزید 6 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا سے انتقال کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد 30 ہزار 287 ہوگئی ہے۔

    این سی اوسی کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں کورونا کے 36 ہزار 579 ٹیسٹ کیے گئے، جس میں مزید 758 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی ، اس دوران ملک میں کورونا کے کیسز مثبت آنے کی شرح 2.07 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈ ایںڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک میں کورونا کے 778 مریض انتہائی نگہداشت میں زیرعلاج ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ 16 ہزار 150 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد پانچ لاکھ 70 ہزار688 ، پنجاب میں 5 لاکھ 03 ہزار 128 ، خیبرپختونخوا میں 2 لاکھ 17 ہزار503 اور بلوچستان میں 35 ہزار 399 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 34 ہزار 700 ، گلگت بلتستان میں 11 ہزار 592 اور آزاد کشمیر میں 43 ہزار 140 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • سعودی عرب سے بڑی خوشخبری، عمرے کے لئے آسانیاں

    سعودی عرب سے بڑی خوشخبری، عمرے کے لئے آسانیاں

    ریاض: رمضان المبارک کی آمد سے قبل سعودی عرب نے عمرہ زائرین سمیت دیگر افراد کو بڑی خوشخبری سنادی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے کرونا پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کیلئے پی سی آر ٹیسٹ ، قرنطینہ کی شرط ختم کردی ہے۔

    سعودی خبررساں ادارے ایس پی اے کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کرونا ایس اوپیز کے حوالے سے عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے، مملکت آنے والوں کے لیے پی سی آر ٹیسٹ اور قرنطینہ کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے۔

    مملکت میں آنے کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کی شرط ختم کردی گئی ہے جبکہ کسی بھی نوعیت کے وزٹ ویزے پرآنے والوں کے لیے میڈیکل انشورنس حاصل کرنا لازمی ہوگا جس میں کرونا کے علاج کی مکمل سہولت فراہم کی گئی ہو۔

    حرمین شریفین اور تمام مساجد میں نماز باجماعت کے لیے سماجی فاصلے کی پابندی ختم کردی گئی ہے تاہم ماسک کے استعمال کی شرط بدستور عائد رہے گی۔

    اسکے علاوہ تمام مقامات پر(بند اور کھلے ) سماجی فاصلے کی پابندی بھی ختم کردی گئی ہے، کھلے مقامات پر ماسک کی پابندی ختم کردی گئی ہے جبکہ بند مقامات پر ماسک استعمال کیاجائے گا۔

  • شدید خطرے سے دوچار کرونا مریضوں کے لیے مرک کمپنی کی ٹیبلٹ تجویز

    شدید خطرے سے دوچار کرونا مریضوں کے لیے مرک کمپنی کی ٹیبلٹ تجویز

    شدید خطرے سے دوچار کرونا مریضوں کے لیے عالمی ادارۂ صحت نے مرک کمپنی کی ٹیبلٹ تجویز کر دی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے ایک پینل نے بدھ کے روز کووِڈ 19 کے زیادہ خطرے سے دوچار مریضوں کے علاج کے لیے امریکی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی مرک کی تیار کردہ اینٹی وائرل گولی مولنوپِراویر (molnupiravir) کے استعمال کی حمایت کی ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت کے ماہر پینل نے کم شدید کرونا والے مریضوں کے لیے اس گولی کے استعمال کی تجویز مشروط طور پر دی ہے، وہ مریض جن کے اسپتال میں داخل ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، یعنی مدافعتی نظام سے محروم، جنھیں ویکسین نہیں لگی، بوڑھے اور دائمی امراض میں مبتلا افراد۔

    یہ سفارش 6 کلینیکل ٹرائلز کے نئے ڈیٹا پر مبنی ہے، جس میں 4,796 مریض شامل تھے۔ دسمبر میں جب امریکا میں مولنوپِراویر کے استعمال کی اجازت ملی، تب سے، کرونا مریضوں میں اس گولی کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے، اگرچہ بعض گروپس میں اس کی نسبتاً کم افادیت سامنے آئی اور کچھ دیگر مسائل بھی دیکھے گئے۔

    ڈبلیو ایچ او کے پینل نے کہا کہ وہ حریف کمپنی فائزر کی تیار کردہ اینٹی وائرل ٹیبلٹ پیکسلووِڈ (Paxlovid) کے لیے بھی سفارشات تیار کر رہا ہے۔ فائزر کی گولی کووڈ-19 سے اسپتال میں داخل ہونے اور اموات کو روکنے میں تقریباً 90 فی صد کارگر ثابت ہوئی ہے، جب کہ مولنوپِراویر کی یہ افادیت 30 فی صد ہے۔

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کے گائیڈ لائن ڈویلپمنٹ گروپ (جی ڈی جی) کی سفارشات کا مقصد ڈاکٹروں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے حالات جیسا کہ کرونا کے وبائی مرض میں مریضوں کی بہترین دیکھ بھال فراہم کرنے میں مدد کرنا ہے۔

    پینل نے خبردار کیا کہ نوجوانوں اور صحت مند مریضوں، بشمول بچے، اور حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کو ممکنہ خطرات جیسا کہ بڑھتے ہوئے جنین میں نقائص کی وجہ سے مولنوپِراویر نہیں دی جانی چاہیے، یہ احتیاط جانوروں میں اس ٹیبلٹ کے مطالعے کے بعد جاری کی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ یہ دوا زیادہ خطرے سے دوچار مریضوں کے لیے تجویز کی گئی ہے، شدید یا سنگین کرونا بیماری میں مبتلا مریضوں کے لیے نہیں۔

  • پاکستان میں کورونا کی شرح 2 فیصد پر آگئی ،  ایک روز میں 768 کیسز رپورٹ

    پاکستان میں کورونا کی شرح 2 فیصد پر آگئی ، ایک روز میں 768 کیسز رپورٹ

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا کی صورتحال بہتر ہوگئی ہے ، ایک روز میں 700 سے زائد کیسز اور 19 اموات رپورٹ ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں جاری کورونا وبا کے تازہ ترین اعدادو شمار جاری کردیئے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹے میں کورونا سے مزید19 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد کورونا سے انتقال کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد 30 ہزار 237 ہوگئی ہے۔

    این سی اوسی کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں کورونا کے 35 ہزار 281 ٹیسٹ کیے گئے، جس میں مزید 768 افراد میں کورونا مثبت نکلا ، اس دوران ملک میں کورونا کے کیسز مثبت آنے کی شرح 2.17 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈ ایںڈ آپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک میں کورونا کے 908 مریض انتہائی نگہداشت میں زیرعلاج ہیں جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ 11 ہزار 754 تک پہنچ گئی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد پانچ لاکھ 68 ہزار 928 ، پنجاب میں 5 لاکھ 02 ہزار012 ، خیبرپختونخوا میں 2 لاکھ 16 ہزار 386 اور بلوچستان میں 35 ہزار 357 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ 34 ہزار 496 ، گلگت بلتستان میں 11 ہزار531 اور آزاد کشمیر میں 43 ہزار 044 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • ہرن سے انسان میں منتقلی کا کرونا وائرس کیس

    ہرن سے انسان میں منتقلی کا کرونا وائرس کیس

    کینیڈا میں ہرن سے انسان تک منتقل ہونے والا کرونا وائرس کیس سامنے آگیا جس نے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ وہ بہت حد تک پروثوق ہیں کہ انہوں نے ہرن سے انسان تک منتقل ہونے والا پہلا کووڈ 19 کیس دریافت کرلیا ہے۔

    ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جنگلی حیات کی آمد و رفت اور ان کی سرگرمیوں کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے، اس سے نہ صرف انسانوں کو بچانا ممکن ہوگا بلکہ جانوروں کے اپنے جسم میں کرونا وائرس کو مزید ان دیکھی تبدیلیوں سے بچانے میں بھی مدد ملے گی۔

    اس ضمن میں ایک تحقیقی مقالہ بھی شائع کیا گیا ہے، اس ٹیم نے ایک مردہ ہرن میں کورونا وائرس دریافت کیا ہے۔

    دوسری جانب امریکا کے جنگلات میں بھی سفید دم والے ہرن کو اسی وائرس سے متاثر دیکھا گیا ہے۔ ماہرین حیوانات کا اصرار ہے کہ عموماً ہرنوں کے جراثیم اور وائرس انسانوں تک پہنچنا ایک کمیاب اور بہت ہی انوکھا معاملہ ہے۔

    اس کی تحقیق کوئی آسان نہیں تھی کیونکہ سائنسدانوں نے کینیڈا بھر میں شکار کے حکومتی اجازت یافتہ سیزن میں مارے جانے والے سینکڑوں ہرنوں کی ناک اور لمفی غدود سے مائع نمونے لیے، اس طرح 300 ہرنوں میں سے 17 میں وائرس پایا گیا۔

    اگلے مرحلے میں اطراف میں موجود کرونا مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو ایک فرد اور ہرن کے وائرس کی ترکیب اور جینیاتی کیفیت بالکل یکساں تھی۔

    اس طرح کا وائرس دیگر متاثرہ افراد میں موجود نہ تھا، ماہرین اس پر مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔

  • کیا ویکسین سے طویل کووِڈ کا امکان کم ہو جاتا ہے؟

    کیا ویکسین سے طویل کووِڈ کا امکان کم ہو جاتا ہے؟

    کیا ویکسین سے طویل کووِڈ کا امکان کم ہو جاتا ہے؟ متعدد تحقیقی مطالعات نے اس اہم سوال کا جواب فراہم کر دیا ہے۔

    برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے ایک جائزے سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگائی گئی ہے، ان میں طویل کووِڈ ہونے کا امکان کم ہوتا ہے چاہے وہ وائرس سے متاثر ہی کیوں نہ ہوں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل کووِڈ (Long COVID) ایک اصطلاح ہے، جب کرونا انفیکشن کی علامات سارس کووِڈ 2 انفیکشن کے ابتدائی مرحلے کے بعد بھی برقرار رہتی ہیں، تو یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے دوران دنیا بھر میں 15 اسٹڈیز سے آج تک دستیاب شواہد کا جائزہ لیا گیا، نتائج بتاتے ہیں کہ ویکسین انفیکشن کے خطرے اور بیماری کو کم کرتی ہے، بشمول تھکاوٹ جیسی علامات، جب کہ وہ لوگ جنھیں ویکسین نہیں لگی، انھیں جب کووِڈ لاحق ہوتا ہے، تو ان میں طویل کووِڈ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

    برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا تھا کہ وہ افراد جنھوں نے فائزر، آسٹرازینیکا یا موڈرنا ویکسین کی 2 ڈوز یا سنگل شاٹ جانسن اینڈ جانسن کی ایک ڈوز لگوائی ہو، ان میں طویل مدت کووِڈ کی علامات پنپنے کے امکانات غیر ویکسین شدہ لوگوں کی نسبت کم ہوتے ہیں۔

    ادارے کی ہیڈ آف امیونائزیشن ڈاکٹر میری رامسے کا کہنا تھا کہ یہ مطالعے کووڈ-19 ویکسینیشن کا مکمل کورس کروانے کے ممکنہ فوائد میں اضافہ کرتے ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر لوگوں میں طویل مدت کووِڈ والی علامات تھوڑے عرصے کے لیے ہوتی ہیں، اور پھر ختم ہوجاتی ہیں، لیکن کچھ لوگوں میں یہ علامات شدید ہو سکتی ہیں اور روز مرّہ کی زندگی میں خلل ڈال سکتی ہیں۔

    ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر آپ غیر معمولی علامات کو انفیکشن کے چار ہفتے بعد بھی محسوس کر رہے ہوں تو آپ کو اپنے جنرل فزیشن سے رابطہ کرنا چاہیے۔