Tag: Covid

  • وفاقی وزیر اسد عمر نے کورونا کی پانچویں لہر کے حوالے سے انتباہ دیدیا

    وفاقی وزیر اسد عمر نے کورونا کی پانچویں لہر کے حوالے سے انتباہ دیدیا

    اسد عمر نے کہا  ہے کہ اومی کرون تیزی سے پھیل رہا ہے، اسپتال کے نظام پر ماضی جیسا دباؤ نہیں لیکن عوام احتیاط کریں

    کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اسپتال میں مریضوں کا دباؤ کم ہونے پر پابندیاں نہیں لگائیں تاہم صورتحال مانیٹر کررہے ہیں، ضرورت پڑی تو سخت اقدامات کریں گے۔

    اسد عمر نے اپوزیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تین سال سے اپوزیشن ہمارے جانے کی تاریخیں دے رہی ہے، لگتا ہے یہ لوگ کلینڈر یاد رکھنے کے لیے مارچ کی تاریخیں دیتے ہیں، ہم پہلے بھی ایسی تاریخیں بھگتا چکے ہیں اب بھی یہ گزر جائیں گی۔

    وفاقی وزیر نے بلاول بھٹو کےمارچ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کہیں یہ ستائیس فروری کی تاریخ بدل کر تیس فروری نہ دے دیں۔

  • ‏ ابوظہبی میں سرکاری ملازمین کے لیے نئی شرط عائد

    ‏ ابوظہبی میں سرکاری ملازمین کے لیے نئی شرط عائد

    کورونا کے بڑھتے کیسز کے باعث سرکاری ملازمین کے لیے ویکسین اور بوسٹر ڈوز لازمی قرار دے دی گئی جس کے بغیر  انہیں دفاتر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا

    کورونا کی پانچویں لہر نے یورپ کے بعد خلیجی ممالک میں بھی پنجے گاڑھنے شروع کردیے، متحدہ عرب امارات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ مختلف پابندیاں بھی عائد کی جارہی ہیں۔

    ابوظہبی میں حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے کورونا ویکسین اور بوسٹر ڈوز لگوانا لازم قرار دے دیا ہے اور یہ شرط دس جنوری سے نافذ ہوگی، ویکسین اور بوسٹر ڈوز کے بغیر ملازمین کو دفاتر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

    صرف یہ ہی نہیں بلکہ ملازمین یا کنٹریکٹرز کو ہر ہفتے کورونا پی سی آر ٹیسٹ کی منفی رپورٹ جمع کرانا ہوگی احکامات کی خلاف ورزی پر انہیں دفتر میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

    وزارت صحت کے حکام نے مکمل ویکسین لگوانے والے شہریوں پر بوسٹر شاٹ لگوانے کے لیے زور دیا گیا ہے، وزارت صحت کے مطابق بوسٹر شاٹ کورونا ویکسینیشن مکمل ہونے کے چھ ماہ بعد لگایا جاسکتا ہے۔

    ملاقات کے لیے آنے والے مہمانوں یا غیر مستقل ملازمین کو بھی سرکاری دفاتر میں داخل ہونے کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر کرائے گئے پی سی آر ٹیسٹ کی منفی رپورٹ پیش کرنا ہوگی۔

    حکام کے مطابق کسی بیماری یا طبی مسائل کے باعث ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو اپنی میڈیکل رپورٹس پیش کرنا ہوں گی۔

    حکومت کے سخت اقدامات کا مقصد ابوظہبی میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کی روک تھام اور عوام کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

  • اومیکرون کیا ہے اور کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟ جدید تحقیق

    اومیکرون کیا ہے اور کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟ جدید تحقیق

    یہ معلوم کرنا تو آسان ہے کہ کسی کو کورونا وائرس ہے یا نہیں لیکن اومیکرون وائرس کی شناخت کا عمل کچھ پیچیدہ ہے اور اومیکرون پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔

    کورونا کی نئی قسم اومیکرون جس کو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا اب برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیئم اور ہالینڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ دنیا بھر میں کئی ممالک اس وائرس کے داخلے سے بچنے کے لیے سفری پابندیاں لگا رہے ہیں۔

    اس دوران ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے پھیپھڑوں کی بجائے گلے کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بظاہر اومیکرون قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم جان لیوا ہے۔

    یہ عندیہ حالیہ چھ تحقیقی رپورٹس میں سامنے آیا جن میں سے چار رپورٹس25 دسمبر کے بعد پیش کی گئی اور ان سب میں دریافت ہوا کہ اومیکرون سے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچتا جس طرح ڈیلٹا اور وائرس کی دیگر اقسام پہنچاتی ہیں۔

    اومنیکرون

    یہ سب تحقیقی رپورٹس اب تک کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی مگر لندن کالج یونیورسٹی کے وائرلوجی پروفیسر ڈینان پلائے نے بتایا کہ اومیکرون میں موجود تمام میوٹیشنز سابقہ اقسام سے مختلف ہیں جس کے نیتجے میں اس کی مختلف خلیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت تبدیل ہوئی۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے یعنی حلق کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے مقابلے میں وہاں اپنی نقول زیادہ تیزی سے بناتی ہے۔ یہ سب ابتدائی ہیں مگر سب تحقیقی رپورٹس میں اسی بارے میں توجہ دلائی گئی ہے۔

    اگر وائرس اپنی زیادہ نقول حلق میں بناتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوسکتا ہے جس سے اومیکرون کے بہت تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ وضاحت بھی ہوتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے والا وائرس کم متعدی مگر زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    لیور پول یونیورسٹی کی ایک تحقیق 26 دسمبر کو جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ اومیکرون سے چوہوں میں بیماری کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی۔

    اس تحقیق میں چوہوں کو اومیکرون سے متاثر کیا گیا تو ان کا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر وائرل لوڈ کم تھا جبکہ نمونیا کی شدت بھی کم تھی۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ معمے کا ایک ٹکڑا ہے، یعنی جانوروں کے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا اور اصل وائرس کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، وہ تیزی سے کلیئر ہوتی ہے اور چوہے بہت تیزی سے ریکور ہوئے۔

    اسی طرح دوسری تحقیق بیلجیئم کی لیووین یونیورسٹی کی نیٹس لیب کی تھی جس میں بھی اسی طرح کے نتائج جانوروں میں دریافت ہوئے یعنی وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیپھڑوں میں کم وائرل لوڈ۔

    محققین نے بتایا کہ ممکنہ طور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس جانوروں کی بجائے انسانوں کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے کو ہدف بناتا ہے یا اس سے ہونے والی بیماری کی شدت ہی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔

    امریکا کے محققین کی جانب سے جریدے نیچر میں جمع کرائی گئی ایک پری پرنٹ تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ اومیکرون سے متاثر ہونے پر چوہوں کا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ کم تھا۔

    یونیورسٹی آف گلاسگو کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کی تحقیق میں بھی ایسے شواہد دریافت ہوئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون نے جسم میں داخل ہونے کا طریقہ بدل لیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اومیکرون ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کی مدافعت پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھنے والی قسم ہے مگر بوسٹر ڈز سے مدافعت میں جزوی بحالی ممکن ہے۔

    اس سے قبل ہانگ کانگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ پھیپھڑوں میں اومیکرون سے ہونے والی بیماری شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ویکسنیشن کرانے کے بعد اومیکرون سے متاثر ہونے والے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال میں دریافت ہوا کہ یہ نئی قسم ویکسینز سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور  ہوسکتی ہے مگر پھیپھڑوں کے خلیات میں داخل ہونے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔

    محققین نے بتایا کہ یہ مانا جاتا ہے کہ پھیپھڑوں کے ٹشوز میں گہرائی میں بیماری کے پہنچنے کے نتیجے میں زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ مانا جاتا ہے کہ پھیپھڑوں کے ٹشوز میں گہرائی میں بیماری کے پہنچنے کے نتیجے میں  زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈیلٹا میں موجود میوٹیشنز نے اسے دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے پھیپھڑوں کے خلیات میں داخل ہونے کا موقع ملا۔

    اس کے مقابلے میں اومیکرون کے اسپائیک پروٹین کافی مختلف ہے اور لیبارٹری ٹیسٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا کے مقابلے میں پھیپھڑوں کو زیادہ بری طرح متاثر نہیں کرسکتا۔

    درحقیقت امیکرون سانس کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتا ہے اور اسی وجہ سے ممکنہ طور پر مریضوں میں بیماری کی علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے۔

    حقیقی دنیا کا ڈیٹا اس دریافت کو سپورٹ کرتا ہے اور ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر بہت کم افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پڑی ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    کووڈ 19 سے متاثر ہونے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟

    اکثر افراد کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار ہوجانے والوں کو ویکسی نیشن کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آگئی ہے۔

    امریکا کی پٹسبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اسے شکست دینے والے افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح لوگوں میں نمایاں حد تک مختلف ہوسکتی ہے اور اکثر کیسز میں یہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی جو لوگوں کو دوبارہ بیمار ہونے سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    تحقیق میں کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا کرنے والے بالغ افراد میں صحت یابی کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30 سال سے کم عمر افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہر ایک بالخصوص 30 سال سے کم عمر افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی ویکسینیشن کروا لینی چاہیئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم ایسے متعدد افراد کو جانتے ہیں جو سوچتے ہیں کہ ہمیں کووڈ کا سامنا ہوچکا ہے تو اب ویکسین کی ضرورت نہیں، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں بالخصوص جوان افراد میں بیماری کے بعد اینٹی باڈی یادداشت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔

    اس تحقیق میں 19 سے 79 سال کی عمر کے 173 افراد کے مدافعتی ردعمل کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

    اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی گئی اور محققین نے دریافت کیا کہ کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ جبکہ کچھ میں بہت کم تھی۔

    زیادہ اینٹی باڈیز والے نمونے کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جبکہ کم سطح والے نمونے ایسا نہیں کرسکے۔

    مگر تحقیق میں اس سطح کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی تھی جو کووڈ 19 سے دوبارہ بچانے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس میں یہ دیکھا گیا کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی میں بیماری کا امکان ہوتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد ایسے افراد کو دیکھا ہے جو ایک بار بیمار ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر کو چھوڑ دیتے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 اور قدرتی مدافعت کے حوالے سے ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں جیسے کچھ افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ اور دیگر میں کم کیوں ہوتی ہے، ری انفیکشن سے بچانے کے لیے اینٹی باڈیز کی سطح کتنی ہونی چاہیئے یا قدرتی مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔

  • کورونا وائرس : فائزر کمپنی کو ٹیبلٹس تیار کرنے کی اجازت

    کورونا وائرس : فائزر کمپنی کو ٹیبلٹس تیار کرنے کی اجازت

    امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے بتایا ہے کہ وہ اپنی تجرباتی اینٹی وائرل کوویڈ 19 دوا کو95 غریب اور متوسط ممالک میں تیار کرنے کی اجازت دے گی۔

    کمپنی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ ممالک اس دوا کو انٹرنیشنل پبلک ہیلتھ گروپ میڈیسینز پیشنٹ پول (ایم پی پی) کے ساتھ لائسنسنگ معاہدے کے تحت تیار کرسکیں گے۔

    فائزر اور ایم پی پی کے درمیان اس معاہدے سے اقوام متحدہ کے زیرتحت اس گروپ کی جانب سے اہل دوا ساز کمپنیوں کو سب لائسنس فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے طور پر پی ایف07321332 تیار کرسکیں۔

    فائزر کی جانب سے ان گولیوں کو پیکسلویڈ برانڈ کے نام سے فروخت کیا جائے گا۔ فائزر کے مطابق کلینکل ٹرائل میں اس کی تیار کردہ دوا کووڈ سے متاثر ہونے پر بالغ افراد میں ہسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ 89 فیصد تک مؤثر دریافت ہوئی تھی۔

    اس دوا میں ایک ایچ آئی وی دوا ریٹوناویر کے ساتھ استعمال کیا جائے گا جو پہلے ہی عام دستیاب ہے۔فائزر کی جانب سے لائسنسنگ معاہدہ اس وقت کیا گیا جب مرک این کو کی جانب سے اس کی تیار کردہ اینٹی وائرل کووڈ دوا کے حوالے سے اسی طرح کا معاہدہ کیا گیا۔

    دونوں کمپنیوں کے معاہدے غیرمعمولی ہیں جو کووڈ کے حوالے سے مؤثر علاج سست داموں فراہم کرنے کی ضرورت کی اہمیت بھی ظاہر کرتے ہیں۔

    ایم پی پی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر چارلس گور نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنے اسلحہ خانے میں ایک اور ہتھیار کی شمولیت پر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ فائزر دوا کا جنرک ورژن آئندہ چند ماہ میں دستیاب ہوگا۔

    فائزر اور ایم پی پی نے بتایا کہ معاہدے کے تحت جن 95 ممالک کو اس حصہ بنایا گیا ہے وہ دنیا کی 53 فیصدآبادی پر مشتمل ہے اور ان میں غریب، کم آمدنی والے متوسط اور کچھ زیادہ آمدنی والے متوسط ممالک شامل ہیں۔

    فائزر کے چیف ایگزیکٹیو البرٹ بورلا نے بتایا کہ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ لوگ چاہے جیسے بھی حالات میں زندگی گزار رہے ہوں، انہیں بریک تھرو علاج تک رسائی حاصل ہو۔

    فائزر کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک سے دوا کی فروخت میں رائلٹی نہیں لی جائے گی اور معاہدے میں شامل دیگر ممالک کو بھی یہ سہولت اس وقت تک دستیاب ہوگی جب تک کووڈ 19 عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا جائے گا۔

    فائزر کی اس دوا کی طلب کافی زیادہ ہے اور کمپنی کے مطابق وہ دسمبر 2021 کے آخر تک ایک لاکھ 80 ہزار کورس تیار کرنے کی توقع کررہی ہے جبکہ 2022 کے آخر تک کم از کم 5 کروڑ کورس تیار کیے جائیں گے۔

    کمپنی کے مطابق اس کی جانب سے ہر ملک سے دوا کے کورس کی قیمت اس کی آمدنی کو مدنظر رکھ کرلی جائے گی، امریکا میں اس کی قیمت 700 ڈالرز کے قریب ہوگی۔

  • پاکستان میں کورونا مثبت کیسز میں مسلسل کمی، شرح 2.11 فیصد پر آگئی

    پاکستان میں کورونا مثبت کیسز میں مسلسل کمی، شرح 2.11 فیصد پر آگئی

    اسلام آباد : پاکستان میں کورونا سے اموات اور کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری ہے ، ایک دن میں مزید 28 مریض جاں بحق اور ایک ہزار16 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں کورونا وبا کے تازہ اعدادو شمار جاری کردیئے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 24 گھنٹےمیں کورونا کے مزید 28 مریض انتقال کرگئے، جس کے بعد کورونا سے اموات کی مجموعی تعداد 28ہزار201
    ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران 47 ہزار 934 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جس میں سے ایک ہزار16 افراد میں کورونا کی تصدیق ہوئی، اس دوران کوروناٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 2.11 فیصد رہی۔

    نیشنل کمانڈاینڈآپریشن سینٹر نے بتایا کہ ملک میں اس وقت کورونا کے تشویشناک کیسزکی تعداد2ہزار195 ہے جبکہ ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 12 لاکھ 61 ہزار 685 تک پہنچ گئی ہے۔

    صوبوں میں کورونا کیسز کے اعدادو شمار کے مطابق سندھ میں کورونا کیسز کی تعداد چار لاکھ 64 ہزار 142 ، پنجاب میں 4 لاکھ 37 ہزار 302 ،خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 76 ہزار 366 اور بلوچستان میں33 ہزار 100 ہے جبکہ اسلام آباد میں ایک لاکھ چار ہزار 764 ، گلگت بلتستان میں 10 ہزار 361، اور آزاد کشمیر میں34 ہزار 372 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

  • ٹوکیو پیرالمپکس شائقین کی موجودگی میں ہوگا یا نہیں؟ فیصلہ ہوگیا

    ٹوکیو پیرالمپکس شائقین کی موجودگی میں ہوگا یا نہیں؟ فیصلہ ہوگیا

    ٹوکیو: ٹوکیو پیرالمپکس شائقین کی گراؤنڈ میں موجودگی میں ہوگا یا نہیں؟ فیصلہ ہوگیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹوکیو پیرا اولمپکس کے منتظمین نے شائقین کے بغیر مقابلے کرانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ پیرالمپکس انتظامی کمیٹی، ٹوکیو بلدیہ عظمیٰ، حکومت جاپان اور بین الاقوامی پیرالمپک کمیٹی، آئی پی سی کے نمائندوں کے اجلاس میں کیا گیا۔

    آئی پی سی کے صدر اینڈریو پارسنز نے اجلاس میں خصوصی شرکت کی، اس سے پہلے منعقدہ اولمپک گیمز کے بیشتر مقابلے شائقین کے بغیر کرائے گئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: چینی کھلاڑیوں کو ٹوکیو اولمپکس میں شاندار کارکردگی کا صلہ مل گیا

    منتظمین کے مطابق پیرالمپک کے دوران کھیلوں کے مقابلے چار پریفیکچروں میں کرائے جائیں گے، ان میں ٹوکیو، سائی تاما، اور ٹوکیو شامل ہے، مگر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث یہاں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ چوتھے پریفیکچر شیزواوکا میں بھی آئندہ ایک دو روز میں اسی قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

    مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ایک خصوصی پروگرام کے تحت دیگر اقدامات کے علاوہ چاروں میں سے ہر ایک پریفیکچر میں اسکول بچوں کو کھیلوں کے مقام انعقاد پر منتخب مقابلے دیکھنے کی اجازت دی جائے گی، حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انفیکشن کی روک تھام کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں گے،پیرالمپک گیمز کا آغاز چوبیس اگست سے ہوگا۔

  • کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے اپنی سفارشات اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاملہ خواتین کو کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروانی چاہیئے۔

    اس سے قبل امریکی طبی ادارے نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ اگر آپ حاملہ ہیں تو کووڈ ویکسین لگوا سکتے ہیں، مگر اب سی ڈی سی نے سفارشات میں حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ضرور ویکسین کا استعمال کریں۔

    یہ سفارشات نئے ڈیٹا کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کی گئی ہیں۔

    نئی سفارشات میں کہا گیا کہ کووڈ 19 ویکسی نیشن 12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد بشمول حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، اولاد کے لیے کوشش کرنے والی یا مستقبل میں اولاد کے حصول کی خواہشمند خواتین کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔

    سی ڈی سی کے مطابق شواہد سے حمل کے دوران کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کا محفوظ اور مؤثر ہونا ثابت ہوتا ہے، ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ویکسین کے فوائد ممکنہ نقصانات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    سی ڈی سی کے ڈویژن آف ری پروڈکٹو ہیلتھ کی سربراہ ساشا ایلنگٹن نے کہا کہ ہم نے حمل کے دوران ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق کوئی ایک خدشہ بھی نہیں دیکھا۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ سے حاملہ خواتین کے سنگین حد تک بیمار ہونے اور دیگر پیچیدگیوں جیسے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، ویکسین سے کووڈ کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور یہ اس کا بنیادی فائدہ ہے۔

    امریکی طبی ادارے نے کہا کہ اس کے وی سیف ڈیٹا سیف کے نئے تجزیے میں ویکسین کے مضر اثرات اور محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس تجزیے میں حمل کے 20 ہفتے سے قبل فائزر / بائیو این ٹیک یا موڈرنا ویکسینز استعمال کرنے والی خواتین میں اسقاط حمل کے خطرے میں کوئی اضافہ دریافت نہیں ہوا۔

    اسی طرح حمل کی آخری سہ ماہی میں بھی ویکسی نیشن سے خواتین یا ان کے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات دریافت نہیں ہوئے۔ ویکسی نیشن کروانے والی خواتین میں اسقاط حمل کی شرح 13 فیصد رہی جو کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والی خواتین کے برابر تھی۔

    ساشا ایلنگٹن نے اس افواہ کو مسترد کردیا کہ ویکسین سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اب تک ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ویکسین بانجھ پن کا باعث بن سکتی ہیں۔

    سی ڈی سی کی ویب سائٹ میں بھی بتایا گیا کہ کسی بھی ویکسین بشمول کووڈ 19 ویکسینز کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں، جو مردوں یا خواتین میں بانجھ پن کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوں۔

  • کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس کے مریضوں کو اکثر خون میں لوتھڑے بننے کی شکایت ہونے لگتی ہے تاہم ماہرین نے اب اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیر ضروری پلیٹ لیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔

    طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کس طرح کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز جان لیوا بلڈ کلاٹس کا باعث بن جاتی ہیں۔

    پلیٹ لیٹس خون کے وہ ننھے خلیات ہیں جو جریان خون کو روکنے یا اس کی روک تھام کے لیے کلاٹس بنانے کا کام کرتے ہیں، مگر جب ان خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں، تو سنگین طبی اثرات جیسے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے لیے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے لڑنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز کے نمونے حاصل کیے گئے اور لیبارٹری میں ان کے کلون تیار کیے گئے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں۔

    جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹ لیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیقی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ مختلف ادویات کے متحرک اجزا کی مدد سے ایسا ممکن ہے کہ پلیٹ لیٹس کو ردعمل سے روک کر یا اس کی سطح میں کمی لائی جاسکے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے خلیات کو بہت زیادہ متحرک پلیٹلیٹس ردعمل کو کم یا روکا جاسکے۔

    امپرئیل کالج لندن اور امپرئیل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ نے اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں پر ان ادویات کے کلینیکل ٹرائلز شروع کردیے ہیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان سے کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس نئی تحقیق سے برطانیہ میں جاری ٹرائلز کو سائنسی بنیادوں پر سپورٹ ملتی ہے، ابھی ٹرائل کے نتائج تو سامنے نہیں آئے مگر دونوں ٹیموں کی جانب سے اکٹھے مل کر کام کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ اب تک یہ صرف ہمارا خیال تھا کہ پلیٹ لیٹس ممکنہ طور پر کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا باعث بنتے ہیں مگر اب اس حوالے سے شواہد سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم لیبارٹری میں پلیٹ لیٹس پر اپنی تحقیق کے نتائج پر بہت پرجوش ہیں، کیونکہ اس سے اہم میکنزمز کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے اور کیوں کووڈ کے بہت زیادہ بیمار افراد کو خطرناک بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے اور سب سے اہم کہ کس طرح اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ کرونا کی وبا کے آغاز میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس بیماری سے مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جس سے مختلف پیچیدگیوں بشمول بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت آسانی سے دستیاب ادویات سے کووڈ کی اس پیچیدگی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے، ہم ابھی تک اپنے ٹرائل کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں، اس لیے ابھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان ادویات سے مریضوں کو کس حد تک مدد مل سکتی ہے، مگر ہمیں توقع ہے کہ ایسا ممکن ہوگا۔

    خیال رہے کہ بلڈ کلاٹس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور شریانوں میں اس کا بہاؤ سست ہوجاتا ہے، ایسا عام طور پر ہاتھوں اور پیروں میں ہوتا ہے مگر پھیپھڑوں، دل یا دماغ کی شریانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

    سنگین کیسز میں یہ مسئلہ جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ اس سے فالج، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کی رگوں میں خون رک جانا اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کراچی میں 12 روز میں مثبت کیسز کی شرح 23 فیصد تک پہنچ گئی: مرتضیٰ وہاب

    کراچی میں 12 روز میں مثبت کیسز کی شرح 23 فیصد تک پہنچ گئی: مرتضیٰ وہاب

    کراچی: ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی میں 12 روز میں مثبت کیسز کی شرح 23 فیصد تک پہنچ گئی، اگلے چند دن ایس او پیز کی پابندی نہ ہوئی تو صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کرونا صورتحال میں حکومت نے بندشوں کے اوپر نرمی کی، ایس او پیز کی شرائط کے ساتھ بندشوں میں نرمی کی گئی، بدقسمتی سے کراچی میں ایس او پیز پر عملدر آمد نہیں کیا گیا۔

    مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کراچی میں ایس او پیز پر عملدر آمد نہیں کیا گیا، کراچی میں 12 روز میں مثبت کیسز کی شرح 23 فیصد تک پہنچ گئی۔ شہریوں سے گزارش کرتا ہوں ایس او پیز کو نظر انداز نہ کریں۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسین لگائیں تاکہ ہمیں سخت فیصلے نہ کرنا پڑیں، اگلے چند دن ایس او پیز کی پابندی نہ ہوئی تو صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔

    مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ضلع سینٹرل اور کورنگی میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا معاہدہ ہوگیا، اگست میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کام کرنا شروع کرے گا۔

    ترجمان سندھ حکومت نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ترجمان یہ کہتے تھکتے نہیں کہ خان نے معیشت کو کھڑا کردیا، جب عوام کو ریلیف دینے کا وقت آتا ہے تو پیٹرول مہنگا کر دیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گیس کی بندش پر صنعت کار شور مچا رہا ہے رو رہا ہے، تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بنیادی چیزیں مہنگی ہوگئیں۔ معیشت ٹھیک ہے تو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔