Tag: Covid

  • مریض کی آواز بتائے گی کہ اسے کورونا ہے یا نہیں، حیرت انگیز ایجاد

    مریض کی آواز بتائے گی کہ اسے کورونا ہے یا نہیں، حیرت انگیز ایجاد

    آسٹریلوی سائنسدانوں نے کورونا کے مریضوں کی تشخیص کیلئے ایک ایسی ٹیکنا لوجی تیار کی ہے کہ جس سے مریض کی آواز سن کر اس بات کا پتہ لگایا جاسکے گا کہ وہ کورونا زدہ ہے یا نہیں؟

    اس وقت دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کی تشخیص کے لیے کم قیمت اور فوری نتائج فراہم کرنے والے ٹیسٹوں کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے کیونکہ پی سی آر ٹیسٹ مہنگے ہوتے ہیں اور اکثر ممالک کو ان کی قلت کا سامنا ہے۔

    مگر ایسا تو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ کسی فرد کی کھانسی سے ہی کوویڈ 19 کی تشخیص ممکن ہوسکے گی۔ جی ہاں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی اب کوویڈ 19 کی تشخیص میں مدد فراہم کرے گی تاکہ اس وبا سے لڑنے میں مدد مل سکے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا کی ریمٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسا اے آئی ماڈل تیار کیا ہے جو کھانسی سے لوگوں میں کووڈ کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یونیورسٹی کی تحقیق میں اس اے آئی ماڈل کے بارے میں بتایا گیا جو کھانسی کی آواز سے کووڈ کے اثرات کو سن سکے گا چاہے وہ بغیر علامات والے مریض ہی کیوں نہ ہوں۔

    محققین نے بتایا کہ ان کے الگورتھم کو مزید بہتر بناکر بیماری کی تشخیص کرنے والی موبائل فون ایپ کا حصہ بنایا جاسکے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک قابل اعتبار، آسانی سے قابل رسائی اور کووڈ کے ابتدائی تشخیص کے ٹول کی تیاری میں حائل بڑی رکاوٹ پر قابو پالیا ہے، اس سے ان افراد سے وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کو سست کرنے میں مدد مل سکے گی جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک موبائل ایپ سے برادری کی سطح پر بیماری پھیلنے یا کووڈ ٹیسٹ کرانے کی فکر سے نجات مل جائے گی، ایسا ٹول وبا کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایسے خطوں کے لیے بہت اہم ٹول ہوگا جن کو طبی سامان، ٹیسٹنگ کے ماہرین اور ذاتی تحفظ کے سامان کی قلت کا سامنا ہوگا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طریقہ کار کو نظام تنفس کے دیگر امراض کے لیے بھی توسیع دی جاسکے گی۔

    یہ پہلی بار نہیں جب کسی اے آئی الگورتھم کو کھانسی سے کووڈ کی تشخٰص کے لیے تیار کیا گیا مگر آسٹریلین ماڈل نے دیگر ماڈلز کو پیچھے چھوڑ دیا جبکہ یہ مختلف خطوں میں زیادہ عملی بھی ثابت ہوگا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کو تشکیل دینے کی سابقہ کوششیں جیسے ایم آئی ٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی کوششوں میں ڈیٹا کے ذریعے اے آئی ماڈل کو تربیت دینے پر انحصار کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ نظام تنفس کی آوازوں کو شناخت کے لیے ماہرین کی خاص تفصیلات کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے مہنگا اور وقت طلب بناتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس کے مقابلے میں ٹارگٹڈ ڈیٹا جیسے کسی ایک ہسپتال یا خطے کے کھانسی کے نمونوں کو استعمال کرکے الگورتھم کو تربیت دینا لیبارٹری سے باہر محدود کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک حد سے آگے نہ بڑھ پانا اس ٹیکنالوجی کے عملی اطلاق کے لیے اب تک ایک چیلنج تھا، ہمارا کام اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب رہا اور الگورتھم کی تربیت کے لیے ایسا طریقہ کار تشکیل دیا گیا جس میں ان لیبل ساؤنڈ ڈیٹا استعمال کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم نے 2 پلیت فارمز کووڈ 19 ساؤنڈ ایپ اور کوس وارا کے ڈیٹا سیٹس کو استعمال کرکے الگورتھم کو تربیت دی تاکہ وہ خود کو تربیت دینا سیکھ سکے۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کو حتمی شکل دینے اور ایپس تک پہنچانے کے لیے ممکنہ شراکت داروں کو تلاش کیا جارہا ہے۔

  • رواں سال انڈونیشیا کے شہری حج کرسکیں گے یا نہیں؟ اعلان ہوگیا

    رواں سال انڈونیشیا کے شہری حج کرسکیں گے یا نہیں؟ اعلان ہوگیا

    جکارتا: سب سے زیادہ حج کوٹہ پانے والے انڈونیشیا نے حج دو ہزار اکیس سے متعلق بڑا فیصلہ کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کی حکومت نے اس سال بھی اپنے شہریوں کو مناسک حج کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے، گذشتہ سال بھی انڈونیشیا کی حکومت نے اپنے شہریوں کو حج کی اجازت نہیں دی تھی۔

    انڈونیشیا کے وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سعودی حکومت نے حج کے حوالے سے کوٹہ ارسال نہیں کیا اور نہ ہی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرائے ہیں، اس لئے یہ فیصلہ کیا، انہوں نے واضح کیا کہ جن شہریوں نے حج کے لیے رقم جمع کرائی ہے انہیں اگلے سال حج پر بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور معمول کے دنوں میں حج کے لیے انڈونیشیا کا کوٹہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔۔

    یاد رہے کہ دو ہزار بیس میں سعودی حکومت نے کرونا وبا کے سبب غیر ملکی عازمین حج کی آمد پر پابندی عائد کی تھی، تاہم سعودی شہریوں اور ملک میں پہلے سے موجود غیر ملکیوں کو فریضہ حج کی اجازت دی گئی تھی، پچھلے سال صرف ایک ہزار افراد مناسک حج ادا کیا تھا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو فروری سے اپریل 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی، جبکہ سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100 فیصد تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں 6 ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90 فیصد تک تھی۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی، ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6 بعد گھٹ کر 85 فیصد اور ایک سال بعد 79 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا، ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    تحقیق میں صرف 3 مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کورونا کا تیزی سے پھیلاؤ، کراچی کے شہریوں کیلئے پابندیوں کا نیا حکم نامہ جاری

    کورونا کا تیزی سے پھیلاؤ، کراچی کے شہریوں کیلئے پابندیوں کا نیا حکم نامہ جاری

    کراچی : محکمہ داخلہ نے شہریوں کیلئے پابندیوں کے نئے حکم نامے میں کہا ہے کہ کورونا ایس اوپیز کےتحت 9سے 16مئی تک نئی پابندیاں عائد رہیں گی جبکہ عید بازار، چاند رات پر لگائے جانے والے تمام بازار بند ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے شہریوں کیلئے پابندیوں کا نیا حکم نامہ جاری کردیا ، جس میں کہا ہے کہ کورونا ایس اوپیز کےتحت 9سے 16مئی تک نئی پابندیاں عائد رہیں گی اور تمام سیاحتی تفریحی مقامات عید تعطیلات میں بند رہیں گے۔

    محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ 9تا 16مئی شہریوں کی نقل وحرکت محدود اور اندرون شہر ،انٹر سٹی سمیت بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹ19مئی تک بند رہے گی جبکہ شہریوں کے لئے ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ زیادہ رش والے علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے، سندھ میں کاروبار، مارکیٹس اور شاپنگ پلازہ 9 تا 16 مئی بند رہیں گے تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ کی دکانوں پر پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔

    محکمہ داخلہ سندھ کا کہنا ہے کہ جانوروں کی خرید وفروخت کی دکانیں ویٹرنری اسٹورز پرپابندی کااطلاق نہیں ہوگا جبکہ ریسٹورنٹس صبح 5 سے شام 7بجے تک کھلے رکھے جا سکیں گے اور ریسٹورنٹس ہوٹلز صرف ہوم ڈیلیوری اور ٹیک اوے سروس کرسکیں گے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق عید بازار، چاند رات پر لگائے جانے والے تمام بازار بند ہوں گے اور بیکری، کریانہ، دوددھ، گوشت سبزی کی دکانیں شام 7بجے تک کھولی جاسکتی ہیں جبکہ نجی گاڑیوں، ٹیکسی اور کیب میں نصف نشستیں خالی رکھنا ہوں گی۔

  • کرونا مریضوں کے لیے بستروں میں اضافہ کیا جا رہا ہے: یاسمین راشد

    کرونا مریضوں کے لیے بستروں میں اضافہ کیا جا رہا ہے: یاسمین راشد

    لاہور: صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن صوبے کے نجی اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے علاج کو مسلسل مانیٹر کر رہا ہے، کرونا مریضوں کے لیے ایچ ڈی یو وارڈز کے بستروں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ نجی اسپتالوں میں کرونا وائرس کے شکار مریضوں کا مکمل ڈیٹا مرتب کیا جا رہا ہے، نجی اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے ایچ ڈی یو وارڈز کے بستروں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ نجی لیبز میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، ہیلتھ کیئر ورکرز کی ویکسی نیشن کو بھی مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن نجی اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے علاج کو مسلسل مانیٹر کر رہا ہے، پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے قواعد و ضوابط کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

    اس سے قبل ایک موقع پر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے صوبے میں 5 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں، عوام میں ایس او پیز پر عملدر آمد کا شعور بیدار کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ 22 نئی لیبز قائم کی ہیں، کووڈ ٹیسٹنگ کی تعداد بھی بڑھا دی ہیں۔ پنجاب میں کرونا ویکسی نیشن کے 114 مراکز قائم ہیں۔ سول اسپتال میں ویکسی نیٹرز کی تعداد بھی بڑھا دی جائے گی۔

  • ہوائی جہاز میں بھی کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنا ممکن، لیکن کیسے؟

    ہوائی جہاز میں بھی کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرنا ممکن، لیکن کیسے؟

    واشنگٹن: امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر ہوائی جہاز کے مسافروں کے درمیان ایک نشست کا فاصلہ رکھا جائے تو کووڈ 19 کا خطرہ 50 فیصد سے بھی زائد کم ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٖضائی سفر کے دوران طیاروں کی درمیانی نشستوں یا مڈل سیٹس کو خالی رکھ کر مسافروں کو کرونا وائرس سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ طیارے میں مڈل سیٹس کو خالی رکھ کر کرونا سے متاثر کسی فرد سے وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ 23 سے 57 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں فضائی کمپنیوں پر زور دیا گیا کہ وہ طیاروں میں محدود تعداد میں مسافروں کی موجودگی کی حکمت عملی پر عملدر آمد جاری رکھیں، تاہم امریکا میں فضائی کمپنیوں میں اب تمام نشستوں پر بکنگ کی جارہی ہے۔

    ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ فلٹرز اور ہوا کے بہاؤ کے نظام مسافروں کے فیس ماسکس پہننے پر طیاروں کو وائرس کے پھیلاؤ سے روکتے ہیں۔

    یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) اور کنسس اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ہوا سے وائرس کے ذرات طیارے کے اندر کس حد تک پھیل سکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے طیارے کے کیبن جیسے ماحول میں پتلوں کا استعمال کرکے وائرل ذرات کے پھیلاؤ کی جانچ پڑتال کی۔

    تاہم اس تحقیق میں فیس ماسک کے استعمال کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا اور نہ ہی مسافروں کی ویکسی نیشن کے پہلو کو زیر غور رکھا گیا۔

    سی ڈی سی نے کچھ دن پہلے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے تاہم انہیں غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ طیارے میں مسافروں کے درمیان سماجی دوری لوگوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم کرتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ 57 فیصد خطرہ اس صورت میں کم ہوتا ہے جب کووڈ کے مریض اور صحت مند فرد کے درمیان 3 نشستوں کا فاصلہ ہو۔

  • کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو خطرناک سمجھا جارہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس کی نفی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع شدہ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    تحقیق میں 496 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے اسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیر علاج رہے تھے۔

    ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کرونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔

    بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔ جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔

    اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • لاہور میں کورونا کی تشویشناک صورتحال، کورونا مریضوں کیلئے مختص تمام بیڈزبھرگئے

    لاہور میں کورونا کی تشویشناک صورتحال، کورونا مریضوں کیلئے مختص تمام بیڈزبھرگئے

    لاہور : پنجاب میں کورونا کی تیسری لہر میں شدت آگئی ہے ، سب سے زیادہ کورونا کیسز لاہورسے رپورٹ ہوئے جبکہ اسپتال میں کورونا مریضوں کیلئے مختص تمام بیڈزبھرگئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کی شدت میں تیزی آنے لگی ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سب سے زیادہ کورونا کیسز لاہورسے رپورٹ ہوئے، صوبے میں مجموعی کورونا کیسز میں سے 60 فیصد لاہور سے سامنے آئے۔

    اسپتال ذرائع کا کہنا تھا کہ میو اسپتال میں کورونا مریضوں کیلئے مختص تمام بیڈزبھرگئے اور تمام 90 وینٹی لیٹرز پر مریض موجود ہیں۔

    محکمہ صحت پنجاب کے مطابق 24 گھنٹےمیں پنجاب میں 1137 کیسز سامنے آئے، اس دوران صرف لاہور میں 671 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    خیال رہے 24 گھنٹے میں ملک میں کورونا کے 61 مریض انتقال کرگئے ، جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 13 ہزار 717 ہوگئی۔

    این سی او سی کا کہنا تھا کہ ایک دن میں مزید تین ہزار چار 95 کرونا کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد کورونا کے مثبت کیسز کی تعداد 6 لاکھ 15 ہزار 810 ہوگئی۔

  • اداکارہ صنم جنگ نے اپنے مداحوں کو اچھی خبر دے دی

    اداکارہ صنم جنگ نے اپنے مداحوں کو اچھی خبر دے دی

    کراچی : مارننگ شو کی میزبان ، ٹی وی اداکارہ صنم جنگ اور ان کی ننھی صاحبزادی کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہوگئیں، ان کا کہنا ہے کہ مداحوں کا شکریہ جن کی دعاؤں کی بدولت میں نے بیماری کو شکست دی۔

    اس حوالے سے فوٹوشیئرنگ ایپ انسٹاگرام کی اسٹوری پر اپنی صحت یابی کی خبر دیتے ہوئے صنم جنگ نے اپنی11سالہ بیٹی کے ساتھ تصاویر بھی شیئر کیں جن میں دونوں ماں بیٹی خوشگوار موڈ میں نظر آرہی ہیں۔

    انسٹاپوسٹ پرصنم نے اپنے فالوورز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی اور بیٹی کی صحت کے حوالے سے بتاتے ہوئے لکھا کہ الحمداللہ میں اور الایا کوویڈ 19 سے صحت یاب ہوچکے ہیں اور دعاؤں پیار کیلئے آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

    صنم جنگ نے لکھا کہ یہ پوسٹ آپ سب کو بتانے کیلئے ہے کہ ہم صحت مند ہیں، اس تمام عرصے میں مجھے بہت سی کالز

    اور پیغامات موصول ہوئے میں ہمارے لیے دعا کرنے اور ساتھ دینے پر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

    اداکارہ اور ان کی بیٹی کی صحت یابی کی پوسٹ پر ان کے کئی مداحوں نے کمنٹس میں ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

    واضح رہے کہ اداکارہ صنم جنگ نے رواں ماہ 14دسمبر کورونا وائرس میں مبتلا ہونے سے متعلق انسٹاگرام اسٹوری پر اپنے کوویڈ19ٹیسٹ کے مثبت آنے کی خبر دی تھی۔

    صنم کا کہنا تھا کہ میں اپنے چاہنے والوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کورونا کی کوئی سنگین علامات ظاہر نہیں ہوئیں، اس کے باوجود میں نے خود کو بیٹی کے ہمراہ قرنطینہ کرلیا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل بھی متعدد شوبز سے وابستہ فنکار کورونا وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں اور بعد ازاں صحت یاب بھی ہوئے ان میں اداکارہ نیلم منیر، اداکار بہروز سبزواری، اداکار عثمان مختار، ماڈل و اداکارہ صحیفہ جبار، ندا یاسر، یاسر نواز، عامر لیاقت حسین، ان کی اہلیہ اداکارہ طوبیٰ عامر اور دیگر اداکار بھی کورونا سے 2 سے تین ہفتوں کے درمیان صحت یاب ہوچکے ہیں۔