Tag: Covid19

  • آئندہ سال ایئر لائنز کے منافع میں اضافہ ہوگا، ایاٹا

    آئندہ سال ایئر لائنز کے منافع میں اضافہ ہوگا، ایاٹا

    مونٹریال : انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن ’ایاٹا‘ نے کہا ہے کہ سال 2019 کے بعد اس سال ایئر لائنز کے منافع میں بہتری کی قوی امید ہے، جسے کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے اب تک تباہی کی صورتحال کا سامنا تھا۔

    ایاٹا کے مطابق اس سال خسارے میں کمی کے بعد ایئر لائنز کو 2023 میں 4.7 بلین ڈالر کا منافع ہونے کی امید ہے تاہم یہ منافع ابھی بھی 26.4 بلین ڈالر کے اس منافع سے بہت دور ہے جس کی اطلاع صنعت نے 2019 میں دی تھی، جن دنوں کوویڈ 19کی وجہ سے کئی ممالک نے سفری پابندیاں نافذ کر رکھی تھیں۔

    آئی اے ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل ولی والش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کوویڈ 19 کے بحران کے ایام میں کچھ ایئر لائنز لچکدار رویہ اختیار کیے ہوئے تھیں لیکن اب قوی امید ہے کہ سال 2023 میں یہ صنعت پہلے کے مقابلے میں زیادہ منافع بخش رہے گی،
    ایئر لائنز سے 2023 میں 779 بلین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔

    والش نے کہا کہ سست معاشی حالات اور چین میں کورونا پابندیوں کی وجہ سے ایئر لائنز میں مسافروں کی آمدورفت سال 2022 میں پیش گوئی سے قدرے کم تھی لیکن ایاٹا کو توقع ہے کہ 2023 میں مسافروں کی آمدورفت کورونا بحران سے پہلے کی سطح پر واپس آجائے گی۔

  • وزیراعظم کا این سی او سی کی قیادت اور ٹیم کو خراج تحسین

    وزیراعظم کا این سی او سی کی قیادت اور ٹیم کو خراج تحسین

    اسلام آباد: بہترین حکمت عملی وضع کرنے اور جامع ویکسی نیشن کی مدد سے عالمی وبا کرونا کے خلاف کامیابیاں سمیٹنے والے ادارے این سی او سی کو وزیراعظم عمران خان نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ آج نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو ختم کیا جارہا ہے، اس موقع پر این سی او سی کی قیادت اور ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

    وزیراعظم نے لکھا کہ عالمی وبا کرونا کے دوران لگائی جانے والی پابندیوں کے دوران این سی او سی کی خدمات قابل تعریف رہیں، این سی او سی نے قومی اتحاد سے وبا کا کامیابی سے سامنا کیا اور عالمی اداروں نےپاکستان کی بہترین حکمت عملی کااعتراف کیا۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا سے بچاؤ کے لئے جو اقدامات کیے گئے تھے انہیں دنیا بھر میں خوش آئند قرار دیا گیا تھا۔

    سربراہ این سی او سی کا ٹوئٹ

    آج اپنے ٹوئٹ میں سربراہ این سی او سی اسد عمر نے بتایا کہ ‏آج این سی او سی آپریشن کا آخری روز ہے، اس وقت کرونا کے کیسز انتہائی کم اور ویکسی نیشن سب سے زیادہ ہے۔

    اسد عمر نے کہا کہ گذشتہ دو سالوں کے دوران این سی او سی کی سربراہی کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے، اللہ کی رحمت اور پوری قوم کے تعاون سے ہم بڑے چیلنج پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔

    انہوں نے مزیش کہا کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے بے حد فخر ہے کہ پاکستان کو عالمی ایجنسیوں اور شخصیات کی جانب سے دنیا کے کامیاب ترین افراد میں سے ایک کے طور پر اس ادارے کے کووڈ۔19 رسپانس کی تعریف ملی۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ اب ذمہ داری وزارت صحت کو دی جا رہی ہے۔

    اسد عمر اور دیگر احباب کو بہت مبارک

    وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی عالمی وبا کرونا کے خلاف حکمت اور عملی اقدامات پر وزیراعظم اور انکی ٹیم کو مبارکباد پیش کی ہے۔

     

    فواد چوہدری نے ٹوئٹ کیا کہ کرونا کا کنٹرول بہت اہم مگر مشکل ٹاسک تھا جو وزیر اعظم اور انکی ٹیم نے کردکھایا، کرونا کیخلاف اقدامات حکومت کے بڑے کارناموں میں شمار رہیں گے۔

    اپنے ٹوئٹ میں فوادچوہدری نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اسد عمر اور دیگر احباب کو بھی بہت مبارک۔

  • کورونا کےعلاج کیلیے پہلی مؤثر دوا سامنے آگئی، استعمال کی اجازت

    کورونا کےعلاج کیلیے پہلی مؤثر دوا سامنے آگئی، استعمال کی اجازت

    واشنگٹن : امریکی ایف ڈی اے نے کورونا وائرس کے علاج کیلئے پہلی ٹیبلٹ کی منظوری دے دی ہے، کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ دوا بیماری شدید ہونے کے خطرے کو90 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔

    اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے اعلامیہ کے مطابق فائزر کی تیار کردہ پہلی گولی استعمال کرنے کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ہے۔

    ایف ڈی اے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ گولی صرف کورونا کی شدید بیماری کے شکارافراد کو ہی دی جائے گی، کورونا کی یہ دوا صرف ڈاکٹر کے لکھے گئے نسخے پر مریض کو فراہم کی جائے گی۔

    فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق کورونا کے خلاف جدوجہد میں آج یہ بڑا قدم ہے، نئی دوا کو "پیکس لوویڈ” کا نام دیا گیا ہے، نئی دوا کورونا وائرس کے بڑھتے خطرے کو روکے گی، اس کے علاوہ لوگوں سے اپیل ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین ضرور لگوائیں۔

    مذکورہ گولی 12 سال کے بچے اور اس سے زائد عمر کے افراد استعمال کرسکتے ہیں۔ فائزر کی گولی پیکسلوویڈ کورونا وائرس کے مریض کو دن میں 2 مرتبہ 5 روز تک استعمال کرنی ہو گی۔ امریکا نے اس دوا کے لیے دوا ساز کمپنی فائزر سے 5 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔

  • کرونا وبا: مثبت کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری، مزید 11 اموات

    کرونا وبا: مثبت کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری، مزید 11 اموات

    اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا مثبت کیسز کی شرح میں کمی کا سلسلہ برقرار ہے، عالمی وبا سے مزید 11 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 11 مریض انتقال کر گئے جس کے بعد کرونا وائرس سے مجموعی اموات کی تعداد 28 ہزار 606 ہوگئی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 263 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 12 لاکھ 79 ہزار 636 ہوگئی۔

    یہ بھی پڑھیں: ڈینگی بخار میں کن غذاؤں کا استعمال کیا جائے؟

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 33 ہزار 767 ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے 263 مثبت نکلے، 24گھنٹےمیں کرونا کےٹیسٹ مثبت آنےکی شرح0.77فیصد رہی۔

    این سی او سی کے مطابق گزشتہ ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 11 سو 14 کیسز تشویشناک حالت میں ہیں۔

  • کورونا مریض کے جسم پر عجیب سے نشانات کیوں پڑتے ہیں؟

    کورونا مریض کے جسم پر عجیب سے نشانات کیوں پڑتے ہیں؟

    کوویڈ19 کے مریضوں میں جلد کا ایک عام مسئلہ ممکنہ طور پر وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔

    متاثرہ مریض کے ہاتھوں اور پیروں پر سرخ اور سوجن کی شکار (کوویڈ ٹو) جلد کے ایسے حصے ہوتے ہیں جن میں خارش محسوس ہوتی ہے اور کئی بار یہ مسئلہ مہینوں تک برقرار رہتا ہے۔

    عام طور پر یہ نشانی کوویڈ سے متاثر ہونے کے بعد ایک سے چار ہفتوں کے دوران ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں یا ان کی رنگت بدل جاتی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کوویڈ کے مریضوں کی اس علامت کی وجہ کیا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق پر اس کی وجہ سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے برٹش جرنل آف ڈرماٹولوجی میں شائع تحقیق میں اس مسئلے کے شکار 50 مریضوں کے ساتھ اس وبا سے قبل اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے13 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ اس مسئلے کے پیچھے جسم کا مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جس کے دوران بہت زیادہ مقدار میں مخصوص اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وائرس کے ساتھ ساتھ مریض کے خلیات اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کی شریانوں میں موجود مدافعتی خلیات کوویڈ ٹو میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ محققین نے کہا کہ کوویڈ کے مریضوں کے اس مسئلے کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا مگر ہماری تحقیق میں نئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

    اس سے پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کوویڈ کی غیر تصدیق شدہ علامات میں سے ایک ہے جس کے شکار افراد کے ہاتھوں یا پیروں میں سرخ یا جامنی رنگ کے نشانات ابھر آتے ہیں۔

    مگر اب محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اور پیروں میں یہ نشانات اکثر بغیر علامات والے مریض بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسئلے کی وجہ معلوم ہونے کے بعد اس کے علاج کے لیے زیادہ مؤثر حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اس سے قبل مئی میں نگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا تھا کہ ناخنوں میں عجیب نشان بن جانا کچھ عرصے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔

    پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ انہوں نے نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں صحت یابی کے بعد چند ماہ کے اندر ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں پر افقی لکیریں ابھر سکتی ہیں۔

    پروفیسر ٹم نے بتایا کہ انہیں متعدد افراد سے کوویڈ نیلز کی رپورٹس زوئی کوویڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ میں موصول ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناخنوں پر اس طرح کے اثرات غیرمعمولی نہیں کیونکہ دیگر بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کسی بیماری کے خلاف نگ کے دوران پیدا ہونے والا تناؤ ناخنوں پر اس طرح کی لکیروں کا باعث بنتا ہے۔ اس عرصے میں ناخن بڑھتے نہیں اور پروفیسر ٹم کے مطابق یہ نشان ایک درخت کی طرح کسی ایونٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔

    برٹش ایسوسی آف ڈرماٹولوجسٹ کی صدر ڈاکٹر تانیہ بیکر نے بتایا کہ جلدی امراض کے ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں کے ناخنوں میں افقی لکیروں کو دیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی بار یہ تمام ناخنوں میں ہوتی ہے اور کئی بار یہ اثر صرف پیروں کے انگوٹھوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس طرح کی لکیریں بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتیں اور عموماً بیماری کے کئی ماہ بعد ابھرتی ہیں۔ پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ یہ تو واضح نہیں کہ ناخنوں میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق بیماری کی شدت سے ہے۔

    عموماً دیگر امراض میں بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے، ناخنوں پر نشان کا امکان اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ناخنوں میں تبدیلیاں کووڈ 19 کی سنگین شدت کا اشارہ ہوں، مگر ابھی کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ناخنوں کی تبدیلیاں ماضی میں کورونا سے متاثر ہونے کی نشانی ہے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ لوگ ماضی میں اس بیماری کا شکار ہوئے تھے یا نہیں۔

  • کیا ویکسین لگوانے والے کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں؟

    کیا ویکسین لگوانے والے کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں؟

    کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اس وقت ویکسین ہی سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ ہے، ویکسین کے حوالے سے لوگوں میں اب بھی بہت سی منفی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

    لوگ اکثر یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا کورونا ویکسینیشن کے بعد کوویڈ19 سے متاثر ہونے والا شخص اس انفیکشن کو آگے پھیلا سکتا ہے؟

    اس حوالے سے نیدرلینڈز میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویکسین استعمال کرنے کے بعد اگر کوئی شخص کوویڈ19 سے متاثر ہوتا ہے (ایسے افراد کے لیے بریک تھرو انفیکشن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے) تو اس سے وائرس آگے پھیلنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ بریک تھرو انفیکشن سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ تو ویکسین استعمال نہ کرنے والے مریضوں جتنا ہوتا ہے مگر ان کے جسم سے وائرل ذرات کا اخراج کم ہوتا ہے۔

    آسان الفاظ میں ویکسنیشن مکمل کرانے والے افراد سے وائرس آگے پھیلنے کا امکان ویکسین استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ان کو پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔ اس تحقیق میں 24 ہزار سے زیادہ طبی ورکرز کا ڈیٹا دیکھا گیا تھا جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی۔

    ان میں سے 161 میں کووڈ کی تشخیص ہوئی اور زیادہ تر اس بیماری سے ڈیلٹا قسم کے باعث متاثر ہوئے۔اگرچہ یہ اچھی خبر ہے مگر تحقیق میں 68 فیصد مریضوں کے نمونوں کو متعدی دریافت کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ محققین نے کہا کہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    اس سے قبل حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے تحفظ کے لیے ویکسینیشن کی افادیت ڈیلٹا قسم کے خلاف 3 ماہ کے اندر کم ہوجاتی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں استعمال ہونے والی 2 عام ویکسینز کی افادیت کورونا کی قسم ڈیلٹا کے سامنے گھٹ گئی۔

    30 لاکھ سے زیادہ ناک اور حلق کے سواب ٹیسٹ کے نمونوں کے تجزیے پر مبنی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف فائزر/بائیو این ٹیک کی ایم آر این اے ویکسین اور ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت میں ویکسینیشن کے ابتدائی 90 دن کے بعد کمی آئی۔

    تحقیق کے مطابق ویکسینیشن مکمل کرنے والے بالغ افراد میں بھی کورونا کی قسم ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر وائرس کی مقدار اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ویکسین استعمال نہ کرنے والے مریضوں میں مگر تحقیق میں واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے والے ایسے افراد کس حد تک وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اسے آگے پھیلاتے ہیں۔

    محققین نے اس حوالے سے بتایا کہ زیادہ وائرل لوڈ سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کے خلاف کسی آبادی میں اجتماعی مدافت کا حصول بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد نیا خطرہ سامنے آگیا

    ویسے تو شوگر کو کووڈ 19 کے حوالے سے اہم خطرہ سمجھا جاتا رہا اور یہ مانا گیا کہ شوگر یا ذیابیطس کا مریض کووڈ 19 کے خطرے اور اس کی شدت کو بڑھا سکتا ہے، تاہم اب نئی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد شوگر کا مرض لاحق ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

    طبی جریدے ڈائبٹیز، اوبیسٹی اینڈ میٹابولزم میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک سے زائد کرونا وائرس کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد ہوئی۔

    اس تحقیق میں 8 مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار 711 کرونا وائرس کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں اس وبائی مرض کے باعث ہونے والا ورم اور انسولین مسائل ذیابیطس کے نئے کیسز کی وجہ ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کم از کم ان میں سے کچھ کیسز میں ہوسکتا ہے کچھ مریض پہلے سے ذیابیطس کے شکار ہوں مگر اس کا علم کووڈ کے باعث اسپتال پہنچنے کے بعد ہوا ہو۔

    شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 میٹابولک صحت کے مسائل کو اس حد تک بدتر کرسکتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص ہوجائے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی تناؤ ان ریگولیٹری ہارمونز کی سطح کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے جس سے بلڈ شوگر لیول بڑھتا ہے تاکہ جسم درپیش مسئلے کا مقابلہ کرسکے، تو ایسے افراد جو پہلے ہی ہائی بلڈ شوگر کے مسئلے سے دوچار ہوں، ان میں ذیابیطس کا مرض تشکیل پاجاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ان مسائل کے نتیجے میں انسولین کے حوالے سے جسمانی ردعمل کمزور ہوتا ہے اور بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ آٹو امیون امراض کے شکار یا مدافعتی مسائل کا سامنا کرنے والے بزرگ افراد میں کووڈ کے نتیجے میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

  • بلاول بھٹو زرداری بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    بلاول بھٹو زرداری بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، ان کا کوویڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آگیا جس کے بعد انہوں نے خود کو قرنطینہ کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ میرا کوویڈ 19 کا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے۔

    بلاول کا کہنا تھا کہ انہیں معمولی علامات ہیں اور انہوں نے خود کو قرنطینہ کرلیا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ وہ گھر سے کام جاری رکھیں گے اور پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کریں گے۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے ہدایت کی کہ سب افراد ماسک ضرور پہنیں۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر جمیل سومرو میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد بلاول نے بھی خود کو آئسولیٹ کرلیا تھا۔

    بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول نے کہا تھا کہ بلاول کا کوویڈ ٹیسٹ منفی آیا ہے، تاہم اب بلاول نے خود اپنے مثبت ٹیسٹ اور کرونا وائرس کی تشخیص کی تصدیق کردی ہے۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی کی کوویڈ 19 ویکسین کے مثبت نتائج آنا شروع

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی کوویڈ 19 ویکسین کے مثبت نتائج آنا شروع

    لندن : ایسٹرا، زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کوویڈ19 کی ویکسین کی آزمائش کا مرحلہ کچھ عرصے توقف کے بعد دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔

    اس ویکسین کو برطانیہ میں ایک رضاکار میں منفی اثرات سامنے آنے کے بعد روک دیا گیا تھا، اس حوالے سے مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کورونا ویکسین کامل طور پر کام کرتی ہے اور وائرس کا مقابلہ مؤثر انداز میں کرتی ہے، محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ انفیکشن کی شدت کو کافی حد تک کم کرسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی کورونا ویکسین سے وائرس کو پہچاننے اور اس سے لڑنے کے لیے اس شخص کے مدافعتی نظام کو فروغ ملتا ہے اگرچہ اس وقت دنیا اس کے آزمائشی نتائج کی منتظر ہے کہ یہ ویکسین کام کرتی ہے یا نہیں؟ اس بات کا پتہ آزمائش کے مراحل مکمل ہونے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے فعال مدافعتی نظام کا مقصد یہ ہے کہ وہ بیماری کو پہچانے اور بغیر کسی بیماری کے اس کا مقابلہ کرے۔

    اس ویکسین کی آزمائش پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں اور عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ مغربی ممالک میں آکسفورڈ اور آسٹرازینیکا کے اشتراک سے ہونے والی آزمائش عالمی طور پر استعمال ہونے والی ویکسین کے لیے ایک مضبوط امید ہے۔

    برسٹل اسکول آف سیلولر اینڈ مالیکیولر میڈیسن (سی ایم ایم) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز جو تحقیق کی رہنمائی کرتے ہیں نے کہا کہ اب تک ٹیکنالوجی اس طرح کے وضاحت کے ساتھ جوابات فراہم نہیں کر سکی ہے لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ ویکسین وہ سب کچھ کر رہی ہے جس کی ہمیں توقع تھی اور وہ بیماری کے خلاف ہماری لڑائی میں کامیابی کی خوشخبری ہے۔

  • کورونا وائرس : سائنسدان سو سال پرانی ویکسین سے پر امید

    کورونا وائرس : سائنسدان سو سال پرانی ویکسین سے پر امید

    دنیا بھر میں پھیلی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے طبی ماہرین پر امید ہیں ان کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ایک صدی پرانی ویکسین مریضوں کی صحتیابی کیلئے کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔

    طبی ماہرین کو لگتا ہے کہ سو سال قبل بنائی گئی ویکسین نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ19سے کچھ تحفظ فراہم کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے سائنسدانوں نے 1921 میں تیار ہونے والی بی سی جی ویکسین کی آزمائش شروع کردی ہے۔

    برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی کے اس ٹی رائل میں ایک ہزار افراد کو شامل کیا جارہا ہے جن میں اکثریت طبی عملے کی ہوگی۔ بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ویکسین اب بھی ترقی پذیر ممالک میں عام استعمال ہوتی ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ٹی بی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یہ دیگر امراض کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہورہی ہے۔

    یہ ویکسین نومولود بچوں کی اموات کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی روک تھام میں بھی مدد دے رہی ہے اور اس سے نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔

    عام طر پر ویکسینز کو کسی مخصوص بیماری سے تحفظ کے لیے مدافعتی نظام کو ایک مخصوص انداز سے تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

    مگر اس عمل کے نتیجے میں مدافعتی نظام میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور وہ دیگر بیماریوں کے خلاف بھی کردار ادا کرنے لگتی ہیں اور سائنسدانوں کو توقع ہے ایک صدی پرانی یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف جسم کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    2011میں مغربی افریقی ملک گنی بساؤ میں ڈھائی ہزار بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس ویکسین کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق اس ویکسین کے نتیجے میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح میں ڈرامائی طور پر نمایاں کمی آئی۔

    اس کی فالو اپ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں وبائی امراض سے اموات کی شرح 40 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی۔

    ایکسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر جان کیمبل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویکسین عالمی سطح پر اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

    اہوں نے کہا ‘اگرچہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، مگر یہ کسی حد تک اس بیمااری سے بچا کر کووڈ ویکسینز اور علاج کی تیاری تک لوگوں کی مدد کرسکتی ہے۔

    برطانیہ میں اس ویکسین پر ٹرائل بین الاقوامی تحقیق کا حصہ ہے جو آسٹریلیا، نیدرلینڈز، اسپین اور برازیل میں جاری ہے جس کے لیے 10 ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

    تحقیق میں طبی ورکرز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ وہ کورونا وائرس کا زیادہ سامنا کرتے ہیں تو محققین کو جلد علم ہوجائے گا کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔

    ڈاکٹر سام ہلٹن برطانوی ٹرائل میں شامل ہونے والے رضاکاروں میں سےس ایک ہیں اور ان کا کہنا تھا ‘یہ ایک اچھا خیال ہے کہ بی سی جی کووڈ 19 کے شکار ہونے پر آپ کو زیادہ بیمار نہیں ہونے دے گی، تو میں اسے اپنے لیے تحفظ کا ذریعہ سمجھتا ہوں، کیونکہ مجھے سردیوں میں بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔

    حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ متعدد اقسام کے انفیکشنز کے خلاف اس ویکسین کے اثرات پر مزید ٹرائلز ہونے چاہیے تاہم بی سی جی ویکسین طویل المعیاد حل نہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں اس ویکسین کا استعمال برسوں سے نہیں ہورہا جبکہ بچپن میں جن لوگوں کو اس کا استعمال کرایا جاتا ہے، اس کا اثر ایک مخصوص عمر میں کم ہوجاتا ہے۔

    مزید براں یہ ویکسین مدافعتی نظام کو تربیت دے کر ایسے اینٹی باڈیز اور خون کے سفید خلیاات تیار کرنے میں مدد نہیں دیتی جو کورونا وائرس کو شناخت کرکے اس کے خلاف لڑسکیں۔

    اس وقت دنیا بھر میں 10 کورونا ویکسینز انسانی آزمائش کے حتمی مرحلے سے گزر رہی ہیں مگر ان کی عام دستیابی کب تک ممکن ہوسکے گی، یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔

    مارچ میں میں ایک تحقیق میں متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک میں نئے کورونا وائرس کے اثرات اور بی سی بی ویکسین کے

    درمیان ایک تعلق کو دریافت کیا گیا۔

    یعنی ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال نہیں ہورہا، وہاں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح زیادہ ہے، کم آمدنی والے ممالک کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ کووڈ 19 کے ناقابل اعتبار ڈیٹا اور ناقص طبی نظام قرار دی گئی۔

    ڈاکٹر ڈینس کا کہنا ہے ‘آپ ایک نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں، ہم واقعی اسمارٹ ہیں اورر ہم ایسا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے 2سال لگ سکتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ ان 2 برسوں میں بہت تاخیر ہوجائے۔

    ان کا کہنا تھا ‘اگر ہمارے دنیا بھر میں دستیاب ایک چیز موجود ہو جسے استعمال کرکے ہم انسانوں کو مضبوط بناسکتے ہیں، تو یہ ہر ایک کی ہی کامیابی ہوگی۔