Tag: creativity

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    موسیقی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں معاون

    گو کہ تخلیقی کام کرنے والے افراد کو ایک مخصوص اور پرسکون ماحول اور خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکیں، تاہم حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق تخلیقی کام کرنے کے دوران خوشگوار موسیقی سننا آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    نیدر لینڈز میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کچھ مخصوص قسم کی کلاسیکی لیکن خوشگوار موسیقی آپ کے دماغ کے ان خلیات کو متحرک کرتی ہے جو نت نئے آئیڈیاز پیدا کرتے ہیں۔

    اس ضمن میں ماہرین نے اٹھارویں صدی کے ایک اطالوی موسیقار انٹونیو ووالدی کی موسیقی کو بطور مثال پیش کیا جس کا ایک نمونہ آپ نیچے سن سکتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل آسٹریلوی شہر سڈنی میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر سام فرگوس کا کہنا ہے تخلیقی صلاحیت آج کے جدید دور میں ہر شعبے کے لیے ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تخلیقی صلاحیت کو اجاگر اور اسے مہمیز کرنے کے لیے مختلف تراکیب و تجاویز پر کام کرنا بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے 5 راز

    مذکورہ تحقیق کے لیے ماہرین نے طلبا کو 5 مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور انہیں مختلف تخلیقی ٹاسک دیے گئے۔ اس دوران تمام گروہوں کے لیے مختلف اقسام کی موسیقی بجائی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ مدھم اور نسبتاً اداس موسیقی نے طلبا کی تخلیقی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا اور وہ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔

    ایک پرشور موسیقی نے طلبا میں ہیجان انگیزی کو فروغ دیا اور وہ اپنے کام پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    وہ گروہ جس کو انٹونیو ووالدی اور ان سے مماثلت رکھنے والی دوسری موسیقی سنائی گئی اس نے طلبا پر نہایت خوشگوار تاثر چھوڑا اور انہوں نے اپنی بہترین تخلیقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    ماہرین نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ تخلیقی افراد اور موسیقی کے درمیان تعلق کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے اگر کسی شخص کو موسیقی ناپسند ہو تو ایسے شخص کے لیے یہ ماحول سازگار ثابت نہیں ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تخلیقی سوچ، اب سب کے لئے ممکن

    تخلیقی سوچ، اب سب کے لئے ممکن

    کراچی (ویب ڈیسک) – صدیوں سے انسان اپنے ہی جیسے ان انسانوں کے تصورات سے متاثر چلا آرہا ہے جو کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں لیکن کیا ایسا بھی کوئی طریقہ ہے جن سے کوئی عام آدمی بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخش سکے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ کے مختلف حصے مختلف کام سرانجام دیتے ہیں اورذہن کا ایک حصہ اگر کہیں اورمصروف بھی ہے تب بھی وہ حصہ جو کہ تخلیق کا ذمہ دار ہے کام کرتا رہے گا۔

    یہ جاننے کے لئے کہ تخلیقی صلاحیتوں کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آخر ذہن تخلیقی خیالات کس طرح کشید کرتا ہے۔

    اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دماغ کا کلی طوربائیں حصہ تخلیقی صلاحیتوں کا ذمہ دار ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے حالانکہ ایسا کہا جاتا ہے۔

    درحقیقت تخلیقی عمل دماغ میں جاری تین عوامل کے تعاون سے وجود میں آتا ہے جن میں اول ارتکاز یعنی کہ توجہ کا کسی ایک جانب مبذول ہونا ہے، دوئم تخیل یعنی کہ کسی بھی چیز کو اس کے مروجہ اصول سے ہٹ کر سوچنا اور سوئم جائزہ ہے یعنی کہ کسی بھی شے کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنا۔

    دماغ کے ماہرین کے مطابق اگر یہ تینوں حصے برابر کام کرتے رہیں تو تخلیقی صلاحیت کو ابھرنے کا زیادہ موقع نہیں مل پاتا لیکن اگر کسی بھی ایک عمل میں کمی کی جائے تو دوسرا عمل زیادہ ذہنی توانائی استعمال کرتا ہے جس سے نت نئے اور اچھوتے خیالات ذہن میں پروان چڑھتے ہیں اور ماہرین کے مطابق ایک اوسط ذہنی صلاحیت کا حامل شخص بھی اپنے ذہن کو اسی ڈگر پر تربیت دے کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔

    عمومی طور پر تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں جیسے کہ ان میں سے کچھ ڈرائیونگ نہیں کرسکتے یا سیدھے ہاتھ سے کھانا نہیں کھا پاتے لیکن ان کی یہی کمزوریاں معاشرے کو ایک طاقتور سوچ مہیا کرتی ہیں۔