Tag: crimea

  • کیا امریکا کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرنے جا رہا ہے؟

    کیا امریکا کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرنے جا رہا ہے؟

    واشنگٹن: امریکا نے کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک معاہدے کے مطابق یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے کریمیا کو روسی سرزمین کے طور پر تسلیم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

    امریکا کریمیا کو روس کا حصہ بنانے کے لیے خود اقوام متحدہ میں مطالبہ کرے گا، اس سلسلے میں اقوام متحدہ پر زور دیا جائے گا کہ وہ اس اقدام کی توثیق کرے، جو خطے سے متعلق امریکی پالیسی کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دیرینہ مؤقف کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں یوکرین جنگ بندی معاہدے سے متعلق زیادہ تر امور پر اتفاق ہو گیا ہے، صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلی فونک رابطے کا منتظر ہوں۔

    یہ ممکنہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ 18 مارچ کو پیوٹن کے ساتھ ایک کال کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں میز پر 30 دن کی جنگ بندی کی تجویز ہے۔ ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ کیا کہ مذاکرات کاروں نے پہلے ہی ’’بعض اثاثوں کی تقسیم‘‘ پر بات چیت کر لی ہے۔


    یوکرینی صدر زیلنسکی نے نیا آرمی چیف مقرر کر دیا


    تاہم وائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک بیان میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کسی قسم کے وعدوں کی تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انتظامیہ میڈیا کے ذریعے بات چیت نہیں کرے گی۔

    واضح رہے کہ امریکی حکام پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے لیے یوکرین کو کچھ علاقائی رعایتیں دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم کیف نے مستقل طور پر کسی بھی علاقائی نقصان کو مسترد کیا ہے۔ کریمیا کو یوکرین کے حصے کے طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے باوجود ماہرین یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا یوکرین اس جزیرہ نما کو فوجی ذرائع سے دوبارہ حاصل کر سکتا ہے؟ صدر ولودیمیر زیلنسکی نے گزشتہ سال اعتراف کیا تھا کہ کریمیا کی واپسی کے لیے ممکنہ طور پر سفارتی کوششوں کی ضرورت ہوگی، جسے روس قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

    ٹرمپ نے اپنی صدارت سے پہلے ہی کریمیا کو روس کا حصہ تسلیم کرنے کا خیال پیش کیا تھا، 2018 کے ایک انٹرویو میں انھوں نے تجویز پیش کی تھی کہ کریمین روسی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہیں۔

  • کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے: روس

    کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے: روس

    ماسکو: روس نے کریمیا پر حملوں کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرا دیا، روسی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق اتوار کو روس کے ساتھ ملحقہ جزیرہ نما کریمیا میں یوکرین کے میزائل حملے میں 2 بچوں سمیت 4 افراد ہلاک اور 151 زخمی ہو گئے تھے، اس حملے میں پانچ امریکی فراہم کردہ میزائل استعمال ہوئے۔

    روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ یوکرین نے حملے میں امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا، حملے میں کلسٹر بموں کا استعمال کیا گیا، وزارت دفاع نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ ملحقہ کریمیا پر مہلک حملے کی ذمہ داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔

    روسی وزارت دفاع نے کہا کہ کلسٹر وار ہیڈز سے لیس امریکا کے فراہم کردہ آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (ATACMS) میزائلوں میں سے چار کو فضائی دفاعی نظام نے مار گرایا تھا لیکن پانچویں میزائل کا گولہ بارود فضا ہی میں پھٹ گیا۔

    روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ لوگ ساحل سمندر سے بھاگ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ کریمیا میں روسی حکام نے بتایا کہ میزائل کے ٹکڑے دوپہر کے بعد سیواستوپول شہر کے شمال کی جانب ایک ساحل کے قریب گرے جہاں مقامی لوگ چھٹیاں منا رہے تھے۔ اس واقعے نے روسی عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کیا۔

    وزارت دفاع نے کہا کہ امریکی ماہرین نے میزائلوں کے ’فلائٹ کوآرڈینیٹس‘ امریکی جاسوس سیٹلائٹ کی معلومات کی بنیاد پر ترتیب دیے تھے، یعنی واشنگٹن اس کے لیے براہ راست ذمہ دار تھا۔ وزارت نے کہا کہ سیواستوپول کے شہریوں پر جان بوجھ کر میزائل حملے کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے جس نے یہ ہتھیار فراہم کیے، اور پھر کیف حکومت پر جس کی سرزمین سے یہ حملہ کیا گیا۔

    واضح رہے کہ دوسری طرف روس کے شہر داغستان میں یہودی اورعیسائی عبادت گاہوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جن میں 17 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے، دہشت گردوں نے 2 گرجا گھروں، یہودی عبادت گاہ کو آگ لگا دی تھی، پولیس کی جوابی کارروائی میں 6 حملہ آور مارے گئے، حملہ آوروں نے داغستان میں پولیس چوکی پر بھی فائرنگ کی۔

  • یوکرین کا روس سے کریمیا واپس لینے کے لیے جنگ کا اعلان

    یوکرین کا روس سے کریمیا واپس لینے کے لیے جنگ کا اعلان

    کیف: یوکرین نے روس سے کریمیا واپس لینے کے لیے جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرین جنگ کے شعلے مزید بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا، یوکرینی صدر نے کریمیا واپس لینے کے لیے روس کے خلاف بھرپور جنگی مشن کا اعلان کر دیا۔

    صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ کریمیا کو طاقت کے ذریعے واپس لے کر 2023 میں خطے کا دورہ کریں گے۔

    ادھر روس پر یوکرینی حملوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، ایک اور حملے میں ایک روسی شہری ہلاک اور 8 زخمی ہو گئے ہیں، بلگورود کے گورنر نے کہا کہ روس کے بلگورود خطے میں حملے کے نتیجے میں 14 گھر اور انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ دوسری جانب نیٹو کے یورپی ملک کوسوو میں موجود مشن نے جنگی مشقیں شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    این بی سی نیوز نے جمعہ کو رپورٹ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہل کار نے گزشتہ ماہ کانگریس کے کئی ارکان کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ یوکرین کے پاس اب کریمیا کو روس سے چھڑانے کی فوجی صلاحیت ہے۔ اہل کار سے مبینہ طور پر پوچھا گیا کہ کیا یوکرین جزیرہ نما کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، جسے روس نے 2014 سے اپنے قبضے میں رکھا ہے، تو جواب دیا گیا کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہے۔

    تاہم، ایک اور امریکی اہل کار نے خبردار کیا کہ کریمیا میں یوکرین کی کوشش پیوٹن کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر مجبور کر سکتی ہے، جیسا کہ وہ پہلے بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ ایک اور امریکی اہل کار نے این بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ کریمیا میں یوکرین کا حملہ قریب ہے۔

    روئٹرز کے مطابق صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز کہا کہ روس اور بیلاروس کے ساتھ ہماری سرحد کی حفاظت کرنا ہماری مستقل ترجیح ہے، اور یوکرین روس اور اس کے اتحادی بیلاروس کے ساتھ تمام ممکنہ دفاعی حالات کے لیے تیار ہے۔

    زیلنسکی نے اپنے خطاب میں مغربی ممالک سے ایک نئی اپیل بھی کی کہ وہ یوکرین کو مؤثر فضائی دفاع فراہم کریں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی فورسز نے مشرقی یوکرین کے قصبے باخموت پر قبضہ کر رکھا ہے، جہاں حال ہی میں شدید ترین لڑائی دیکھی گئی۔

    واضح رہے کہ بیلاروس روس کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک ہے، اس نے ماسکو کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے لیے اپنی سرزمین کو لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم وہ براہ راست لڑائی میں شامل نہیں ہوا، لوکاشینکو بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کا اپنے ملک کی فوجیں یوکرین بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  • روس کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل کریمیا پُل پر تباہی مچ گئی (ویڈیوز)

    روس کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل کریمیا پُل پر تباہی مچ گئی (ویڈیوز)

    ماسکو: روس کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل کریمیا پُل پر دھماکے سے تباہی مچ گئی، دھماکے اور پل کے ایک حصے کے جلنے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روس اور کریمیا کو ملانے والے واحد اہم ترین پل (Kerch bridge) پر ہفتے کی صبح ایندھن سے بھری مال گاڑی میں اچانک دھماکا ہو گیا، جس کی وجہ سے پل پر تباہی پھیل گئی، اور پل کا ایک حصہ ٹوٹ کر پانی میں گر گیا۔

    روس اور یوکرین کو ملانے والے اس طویل پل پر ٹرین بھی چلتی ہے، یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے یہ پل روس کے لیے جنگی سامان کی ترسیل کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

    یہ پل یوکرین میں برسر پیکار روسی فوجیوں کو فوجی اور دوسرا سامان مہیا کرنے کا اہم ذریعہ ہے، جب کہ فوجی دستے بھی یہیں سے گزرتے ہیں، پل کی حفاظت کے لیے روس نے یوکرین کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ کریمیا کو 2014 میں روس میں شامل کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ یوکرین کا حصہ تھا، جب کہ مذکورہ پُل روسی صدر ولادیمیر کے حکم پر بنایا گیا تھا اور 2018 میں صدر پیوٹن نے اس کا افتتاح کیا تھا۔

    روسی خبر رساں اداروں کے مطابق کریملن نے کہا ہے کہ روس نے دھماکے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا حکم دے دیا ہے، تحقیقاتی کمیٹی نے دھماکے کی مجرمانہ تحقیقات کے لیے جائے وقوعہ پر جاسوسوں کو بھیج دیا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق کریمیا پل کی تباہی سے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں جشن کی کیفیت دیکھی گئی ہے۔ یوکرین کے ایک صدارتی مشیر نے ٹوئٹر پر کہا کہ اس پل کو تباہ کر دیا جانا چاہیے، انھوں نے اس واقعے کو ’آغاز‘ قرار دیا، تاہم انھوں نے دھماکے کے سلسلے میں براہ راست یوکرین کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

  • ’نیٹو کی کریمیا میں کارروائی تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے‘

    ’نیٹو کی کریمیا میں کارروائی تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے‘

    ماسکو: روس کے سابق صدر نے کہا ہے کہ نیٹو کا کریمیا پر حملہ روس کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگا۔

    روئیٹرز کے مطابق سابق روسی صدر دیمتری میدویدیف نے کہا ہے کہ نیٹو کی کریمیا میں کارروائی تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔

    انھوں نے پیر کو کہا نیٹو کے کسی رکن ملک کی طرف سے جزیرہ نما کریمیا پر کوئی بھی تجاوز روس کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے، جو تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

    ایک نیوز ویب سائٹ سے گفتگو می میدویدیف نے کہا ہمارے لیے کریمیا روس کا ایک حصہ ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے کریمیا پر قبضہ کرنے کی کوئی بھی کوشش ہمارے ملک کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

    انھوں نے کہا ‘اور اگر یہ نیٹو کے ایک رکن ملک کی طرف سے کیا جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے پورے شمالی بحر اوقیانوس کے اتحاد کے ساتھ تصادم؛ تیسری عالمی جنگ، یعنی ایک مکمل تباہی۔”

    کریمیا کا مسئلہ پھر کھڑا ہوگیا: روس کی کینیڈا کو جوابی حملے کی دھمکی

    روس کی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین میدویدیف نے مزید کہا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو میں شامل ہوتے ہیں، تو روس اپنی سرحدوں کو مضبوط کرے گا اور جوابی اقدامات کے لیے تیار ہو جائے گا، روس اسکندر ہائپرسونک میزائل بھی نصب کر سکتا ہے۔

  • کریمیا:‌ بحیرہ اسود میں تیل بردار جہازوں میں آتشزدگی، 11 افراد ہلاک

    کریمیا:‌ بحیرہ اسود میں تیل بردار جہازوں میں آتشزدگی، 11 افراد ہلاک

    ماسکو : کریمیا کے قریب سمندر میں تنزانیہ کے دو تیل بردار جہازوں میں دھماکے کے بعد خوفناک آتشزدگی کے باعث 11 افراد ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے زیر انتظام ریاست کریمیا کے قریب بحیرہ اسود میں تیل بردار جہازوں میں آتشزدگی کے باعث ہلاک ہونے والے 11 افراد کی لاشیں سمندر سے نکال لی ہیں جبکہ تین افراد ریسکیو حکام کے پہنچنے سے قبل ہی ڈوب گئے تھے۔

    روس کی میری ٹائم ایجنسی کے گرجمان الیکسی کراوچینکو کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا ایک جہاز گیس ٹینکر تھا، دونوں جہازوں میں آتشزدگی کے بعد دھماکا اس وقت ہوا جب ایک جہاز سے دوسرے جہاز میں ایندھن سپلائی کیا جارہا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کے بعد عملے سے جان بچانے کےلیے سمندر میں چھلانگ لگادی۔

    روسی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ حادثے میں 12 افراد زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ 5 افراد تاحال لاپتہ ہیں جن کی تلاش کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

    روسی میری ٹائم کے ترجمان نے بتایا کہ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کیلئے حکام کی جانب سے کریمیا کے کریچ شہر میں انتظامات کردئیے گئے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ نذر آتش ہونے والے جہاز کینڈی پر 17 افراد سوار تھے جن کا تعلق بھارت اور ترکی سے تھا جبکہ مائیسترو کے عملے کی تعداد 14 تھی۔

    مزید پڑھیں : روس کا یوکرائنی جنگی جہازوں و کشتی پر قبضہ، حالات کشیدہ

    خیال رہے کہ کریمیا کا شہر کریچ وہ مقام ہے جہاں گزشتہ برس نومبر میں روس اور یوکرائن کے درمیان دوبارہ کشیدگی کا آغاز ہوا تھا۔

    روسی افواج نے کریچ شہر کے قریب بحیرہ اسود سے گزرنے کی کوشش کرنے والی یوکرائنی بحریہ کے دو جنگی کشتیوں سمیت تین جہازوں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر قبضے میں لیا گیا تھا۔

  • روس یوکرائن کشیدگی: روس نے کریمیا میں ایس 400 میزائل نصب کرنے کا فیصلہ کرلیا

    روس یوکرائن کشیدگی: روس نے کریمیا میں ایس 400 میزائل نصب کرنے کا فیصلہ کرلیا

    کیو : روس نے یوکرائنی کے شمالی علاقوں میں کرفیوں نافذ ہونے کے بعد کریمیا میں ایس 400 میزائل سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی حکومت نے پڑوسی ملک سے کشیدگی میں اضافے کے بعد یوکرائن سے ملحقہ سابقہ ریاست کریمیا میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم نصب کرے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کی جانب سے جارحابہ اقدامات یوکرائنی حکومت کی جانب سے روس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں کرفیوں کے نفاذ کا رد عمل ہے۔

    یوکرائنی حکومت کا کہنا ہے کہ کریمیا میں زمین سے فضا میں نشانہ بنانے والے ایس 400 میزائلوں کا نصب ہونا بحیرہ اسوو اور نیٹو ممالک کے انتہائی خطرناک ہوگا۔

    یوکرائنی حکومت کا کہنا ہے کہ روس خطے میں جنگی جنون بڑھا رہا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔،

    دوسری جانب یوکرائنی صدر پیٹرو نے نیٹو سے بحیرہ ازوف میں جنگی جہاز بھیجنے کی درخواست کردی تاکہ روس سے محاز آرائی میں مدد فراہم ہوسکے اور نیٹو حکام نے بھی یوکرائن کو نیٹو کا رکن نہ ہونے کے باوجود بھرپور حمایت کرنے کا اظہار کیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یوکرائنی صدر نے روس کے ساتھ حالیہ دنوں کشیدگی میں اضافہ ہونے کے بعد حالات سے نمٹنے کے لیے روس سے ملحقہ علاقوں میں 30 دنوں کے لیے مارشل لاء نافذ کردیا ہے۔

    صدر پیٹرو کا کہنا تھا کہ روس کی جارحانہ پالیسی انتہائی ناپسند ہے، پہلے روس نے کریمیا پھر مشرقی یوکرائن اور اب بحیرہ ازوف میں جارحیت دکھا رہا ہے۔

  • روسی افواج کی کریمیا کے علاقے میں بڑے پیمانے پرجنگی مشقیں

    روسی افواج کی کریمیا کے علاقے میں بڑے پیمانے پرجنگی مشقیں

    کریمیا : روس کی افواج نے کریمیا کے علاقے میں جنگی مشقیں کیں۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ان مشقوں میں زمینی فضائی اور سمندری افواج شریک ہوئیں۔

    ان جنگی مشقوں میں ساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں، نو سو ملٹری گاڑیوں اور دو سو جنگی جہازوں نے شرکت کی۔ ساحلوں پر گولہ باری کی مشق کی گئی۔

    جس کے بعد جنگی بحری جہازوں نے سمندورں پر حکمرانی کے جوہر دکھائے۔ جدید ملٹری ہیلی کاپٹروں نے بھی مشقوں میں شرکت کی۔

    جوانوں نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دشمن کے علاقے میں اترنے کی مشق کی۔ جدید جیٹ طیاروں کے ذریعے پائلٹس نے اپنی مہارت کے جوہر دکھائے۔

    جنگی مشقیں روس کی جانب سے فوج کو ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کا حصہ ہیں۔

  • امریکا مشرقی یورپ میں 5ہزار فوجی تعینات کرےگا، نیویارک ٹائمز

    امریکا مشرقی یورپ میں 5ہزار فوجی تعینات کرےگا، نیویارک ٹائمز

    نیویارک: نیویارک ٹائمز کےمطابق پینٹاگون متعدد بالٹک اورمشرقی یورپی ممالک میں روسی پیش قدمی کوروکنے کے لئے جنگی ٹینکس، فوجی گاڑیاں اوردیگربھاری ہتھیاروں سمیت پانچ ہزارفوجی تعینات کو تیار ہے۔

    سردجنگ کےبعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ واشنگٹن بھاری فوجی سازوسامان کےساتھ مشرقی یورپ میں سابقہ سوویت اثرورسوخ والے ممالک میں موجود ہوگا۔

    گزشتہ سال کریمیا کے روس کے الحاق کے تناظر میں یہ تجویزیورپی اتحادیوں کے اعتماد کی بحالی میں کارگر ثابت ہوگی۔

    اعلیٰ حکام کا حوالے دیتے ہوئے اخبارکا کہناہے کہ رواں ماہ نیٹو وزرائےدفاع کی برسیلز میں ملاقات سے قبل یہ تجویز امریکی سیکریٹری دفاع ایش کارکٹر اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے منظور کیےجانے کی توقع ہے۔

  • روسی صدر نے کریمیا میں خفیہ آپریشن کا اعتراف کرلیا

    روسی صدر نے کریمیا میں خفیہ آپریشن کا اعتراف کرلیا

    ماسکو:روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح ان کے خفیہ حکم پرروسی افواج نےکریمیہ میں داخل ہوکرروس نوازسابق صدرکو بچایا۔

    روس کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے تیار کردہ خصوصی ڈاکیومنٹری کے ٹریلرمیں روسی صدر کریمیہ پرقبضے کے تنازعے پرکھل کرگفتگو کرتے نظر آئے ہیں۔

    پیوٹن نے اس رات کا بھی تذکرہ کیا جب خفیہ اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ساری رات میٹنگ جاری رہی جس میں طے کیا گیا کہ کریمیا کے صدر کو بچانے کے لئے کیا لائحہ عمل طے کیا جائے۔۔

    ان کا کہنا تھا کہ’’ہم صبح سات بجے تک گفتگو کرتے رہے اورجب ہم رخصت ہونے لگے تو میں اپنے ساتھیوں سے کہاکہ اب ہمیں کریمیا کو واپس روس کا حصہ بنانے کے لئے کام شروع کردینا چاہیئے‘‘۔

    اس میٹنگ کے چاردن بعد نامعلوم فوجیوں نے کریمیا کی مقامی پارلیمنٹ پر قبضہ کیا اور انتہائی عجلت میں نئی حکومت منتخب کی گئی، بعد ازاں 18 مارچ کو ماسکو نے باضابطہ طورکریمیا پراپنے تسلط کا اعلان کیا جس کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔