لاہور : کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی اس موقع پر مختلف قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے اسٹیٹ بینک کو ملک بھر میں مشاورتی اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کی موجودگی کو یقینی بنانے کا حکم جاری کردیا۔
کیس کی سماعت جسٹس جواد حسن نے کی، عدالتی حکم پراسٹیٹ بینک کا نمائندہ عدالت کے روبرو پیش ہوا، عدالت نے کہا کہ مشاورتی اجلاس میں تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے اور کرپٹو کرنسی سے متعلق سب نمائندگان کی رائے لی جائے۔
اسٹیٹ بینک کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کاجائزہ لینے کے لئے اب تک تین اجلاس بلائے گئے ہیں۔ عدالتی معاون نے کہا کہ کرپٹو کرنسی کوغیرقانونی نہیں کہا جاسکتا اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
دوران سماعت جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ملکی اداروں کو بچانا ہے، اگر کرپٹو کرنسی کو قانونی قرار دے دیا جائے اور کل کوعوام سے ہاتھ ہوگیا تو کسے پکڑیں گے؟
انہوں نے کہا کہ عوام سے دھوکہ ہونے پر اسٹیٹ بینک کے دروازے ٹوٹیں گے، نجی ہاؤسنگ اسکیمز کوریگولیٹ نہ کرنے کا نقصان بھی سب کے سامنے ہے۔
جسٹس جواد حسن کا کہنا تھا کہ عوامی ڈیپازٹس وصول کرنے والوں پر نظر رکھنے کا میکنزم انتہائی ضروری ہے، عوام سے کسی قسم کا دھوکہ ہوا تو شیشے بھی ٹوٹیں گے۔
نئی دہلی: دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں تیزی آرہی ہے تاہم بھارت میں اس پر پابندی کا بل متعارف کروانے پر غور کیا جارہا ہے۔
بھارتی حکومت نے حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ کرپٹو کرنسیوں پر پابندی کے لیے ایک بل متعارف اور مرکزی بینک کی حمایت یافتہ ڈیجیٹل کرنسی کے لیے ایک فریم ورک بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لوک سبھا میں پیش کیے گئے بل میں کہا گیا کہ مجوزہ بل کا مقصد ہندوستان میں تمام نجی کرپٹو کرنسیوں پر پابندی لگانا ہے۔
یہ اقدام ایک ایسے موقع پر اٹھایا گیا کہ جب گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی نے خبردار کیا تھا کہ بٹ کوائن نوجوان نسلوں کے لیے خطرہ ہے اور اگر یہ غلط ہاتھوں میں لگ گئی تو ہماری نوجوانوں کو خراب کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر میں چین کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے تمام لین دین کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد یہ ایک بڑی ابھرتی ہوئی معیشت کی طرف سے تازہ ترین اقدام ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں بھارتی سپریم کورٹ نے کرپٹو کرنسی پر لگائی گئی سابقہ پابندی کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد بھارت میں کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں تیزی آئی تھی اور اس کی قیمت میں 600 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔
ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت میں ڈیڑھ کروڑ سے 10 کروڑ افراد کے پاس کرپٹو کرنسی ہے جس کی کل مالیت کا تخمینہ اربوں ڈالر لگایا گیا ہے تاہم اس بل کے بعد اس کرنسی میں سرمایہ کاری کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔
بھارت میں نئے قانون ساز اجلاس میں پیش کیے جانے والا بل کرپٹو کرنسی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے کچھ استثنیٰ کی اجازت بھی دے گا البتہ اس کے علاوہ مجوزہ قانون سازی کے بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
تاہم اس اعلان کے باوجود بٹ کوائن کی مارکیٹ کی قیمت غیر متاثر نظر آتی ہے اور منگل کو بھارت میں کرنسی کی قیمت مزید 1.6فیصد بڑھ گئی لیکن مقامی تاجروں اور خریدار اس اعلان کے بعد پریشان نظر آرہے ہیں۔
بھارت میں حالیہ مہینوں میں ٹیلی ویژن چینلز، آن لائن اسٹریمنگ سروسز اور سوشل میڈیا پر کوائن ڈی سی ایکس، کوائن سوئچ کوبر سمیت دیگر گھریلو کرپٹو ایکسچینجز کے اشتہارات بھارتی میڈیا پر بہت زیادہ زیر گردش ہیں۔
ان پلیٹ فارمز نے حال ہی میں ختم ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے دوران اشتہارات کی مد میں 50 کروڑ بھارتی روپے سے زیادہ خرچ کیے اور اوسطاً ایک میچ پر کرپٹو کرنسی کے 51 اشتہارات نشر کیے گئے۔
کولمبیا کے تاجر نے اپنی کرپٹو کرنسی وضع کردی ہے، مگر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حیرت انگیز وجہ جانئے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کولمبیا کا ایک تاجر نے لمبے سینگوں والے سیاہ بھنوروں (بیٹلز) کی تجارت کررہا ہے، جس نے بین الاقوامی تجارت میں بھاری کمیشن سے بچنے کے لیے اپنی کرپٹو کرنسی وضع کی ہے۔
کولمبیئن کمپنی ٹیرا وائیوا ایک عرصے سے بھنوروں کو جاپانی بازاروں میں فروخت کرتی چلی آرہی ہے، یہ کمپنی بالخصوص ہرکولیس، نیپچونس اور ایلیفینٹ بھنوروں کی تجارت کرتی ہے۔
کمپنی سے وابستہ کارمیلو کیمپوس کا کہنا ہے کہ یہ ایک متبادل طریقہ کار ہے جس کی بدولت جاپان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بڑے کمیشن اور فیس کو کم کیا جاسکتا ہے۔
جاپان میں لمبے سینگوں والا بھنورے کے ایک جوڑے کی قیمت 300 ڈاکر تک ہوتی ہے، اس دوران کئی افراد کے ہاتھوں کمیشن جاتا ہے جن میں سیلزمین کا حصہ 10 فیصد تک ہوتا ہے۔
بھنورا کرنسی
کولمبیا والوں نے لمبے سینگ والے بھنورے ’کابوٹومیوشی‘ کے نام پر اس کرنسی کا نام کے میوشی کوئن رکھا گیا ہے۔ صرف کولمبیا میں ہی اسے 220 کمپنیاں اور تاجر استعمال کررہے ہیں، ان میں لباس، ضروری آلات کی دکانیں اور کیفے شامل ہیں، اس ضمن میں کمپنی کوئن کی دوبارہ فروخت پر اپنا حصہ وصول کرتی ہیں۔دو ہزار انیس میں اس کرپٹو کرنسی کی قدر30 امریکی سینٹ تھی جو اب بڑھ کر 1.84 ڈالر ہوچکی ہے، اب وہ اس کرنسی کو پورے ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس سے اپنے گھریلو بِل بھی اداکرسکیں۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ لمبے سینگوں والا بھنورا 17 ماہ تک زندہ رہتا ہے جس کی جسامت انسانی ہتھیلی تک ہوسکتی ہے، جاپان میں اسے پالتو بنا کر رکھا جاتا ہے اور مرنے پر محفوظ کرکے لاکٹ کی صورت میں بھی پہنا جاسکتا ہے۔
کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیےکمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی کاپہلااجلاس 25 اکتوبر کوکراچی میں اسٹیٹ بینک کےدفتر میں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے ڈیجیٹل کرنسی کرپٹو پر پابندی سے متعلق درخواست پر سماعت سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
جس میں عدالت نے کرپٹو کرنسی کا جائزہ لینے کے لیےکمیٹی تشکیل دے دی اور کہا کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل کریں گی جبکہ ایس ای سی پی،خزانہ،آئی ٹی،ڈی جی فنانشل مانٹرنگ یونٹ اور درخواست گزار بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی مذکورہ اداروں کے سربراہاں یا اعلیٰ افسران پرشامل ہوگی، کمیٹی کاپہلااجلاس 25 اکتوبر کوکراچی میں اسٹیٹ بینک کےدفتر میں ہوگا، پہلے اجلاس کےبعد کمیٹی کا اجلاس ہر 15دن بعد ہوگا۔
سندھ ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ کمیٹی سب سےپہلے درخواست گزار کو سنے گی ، درخواست گزار کی سفارشات پر غور کرے گی تاہم درخواست گزار صرف کمیٹی کی معاونت کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 18 کاروبار کرنے کی آزادی دیتا ہے،ایف آئی اےکرپٹو کرنسی کا کاروبار کرنے والوں سےقانون کےمطابق سلوک کرے اور کرپٹوکرنسی پراسٹیٹ بینک سے رہنمائی لے۔
عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 12 جنوری 2022 تک ملتوی کردی۔
کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو کرپٹو کرنسی کے خلاف کارروائی سے روک دیا اور اسٹیٹ بینک،ایس ای سی پی،پی ٹی اے،آئی ٹی اور وزارت خزانہ کو تین ماہ میں کوئی حل نکالنے کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کرپٹو کرنسی پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک، سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن ، نمائندہ سیکریٹری فنانس ، ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ کرپٹو کرنسی سے متعلق پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کرنسی ہےیا کچھ اور، کرپٹوکرنسی ایک سافٹ وئیر ہے، جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جاپان نے 2017میں کرپٹو کولیگل قرار دیا، جوائنٹ سیکرٹری فنانس نے بتایا کہ جاپان کے اپنے ریگولیشنز ہیں۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہمارے پاس لیگل مینڈیٹ نہیں اس کا، وفاقی حکومت معاملے کا تجزیاتی جائزہ لیکر فیصلہ کرے گی ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیاوفاقی حکومت نےکرپٹو کرنسی کوغیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔
جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ایف آئی اے سوموٹو کی طرح مقدمات درج کررہی ہے، ایف آئی اے کہتی ہے اسٹیٹ بینک نے 2017 میں غیر قانونی قراردیا۔
عدالت کرپٹو کرنسی کیلئے ہائی پاور کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تمام لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر 3ماہ میں کوئی حل نکالیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کومعاونت کےلیےطلب کیا تھا ، اسٹیٹ بینک،ایس ای سی پی،پی ٹی اے،آئی ٹی،منسٹری آف فنانس شامل ہوں گے جبکہ درخواست گزار کمیٹی کوپریزنٹیشن دیں گے اور معاونت کریں گے۔
درخواست گزار کی جانب سے وائس چانسلر کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ، عدالت نے حکم دیا کہ کمیٹی کسی بھی فرد کو طلب کرسکے گی، کمیٹی کا پہلااجلاس 25 اکتوبر کو ہوگی ، کمیٹی کا اجلاس ہر 2ہفتے میں ایک بار ہونا لازمی ہوگا۔
کمیٹی کا ایجنڈا3روز قبل ارکان سے شئیرکیا جائے، کمیٹی کا کوئی رکن پریس ریلیز یا سوشل میڈیا پر بات نہیں کرے گا اور اگر کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو کام کو نہ روکا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے درخواست پرمزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کمیٹی ارکان آئندہ سماعت پر رپورٹس کے ساتھ پیش ہوں اور ڈائریکٹرایف آئی اےکریپٹوکرنسی کاروبار کےخلاف کارروائی نہ کریں۔
گذشتہ سماعت میں جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا تھا کہ کرپٹو کرنسی پر پابندی کس نے لگائی ہے؟ کیا اسٹیٹ بینک نے پابندی لگائی ہے؟ کیوں پابندی لگائی ہے؟ جس پر اسٹیٹ بینک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈیجیٹل کرنسی غلط طریقے سے استمال ہوسکتی ہے، اس لیے پابندی لگائی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ قانون سازی کس کا کام ہے؟ غلط کاموں میں استعمال کی روک تھام کرنا کس کا کام ہے؟ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کئی افراد کا زریعہ معاش کرپٹو کرنسی سے وابستہ ہے، پاکستان میں کئی غیر رجسٹرڈ کمپنیاں ڈیجیٹل کرنسی میں کام کررہی ہیں، کئی ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی میں کاروبار کرنے کی اجازت ہے، اسٹیٹ بینک بٹ کوائن کا اکاونٹ نہیں کھول رہا۔
خیال رہے ڈیجیٹل کرنسی پر پابندی کے خلاف شہری نے درخواست دائر کررکھی ہے۔
بیجنگ: چین کے ریگولیٹرز نے کرپٹو کرنسی کی تجارت اور اس کی کان کنی پر پابندی لگا دی ہے، جس سے بٹ کوائن کو ایک بڑا جھٹکا لگ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چین نے تمام کرپٹو کرنسی لین دین کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، یہ اقدام چینی حکومت کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن کے دوران آیا ہے۔
پیپلز بینک آف چائنا نے جمعہ کو کہا کہ یہ اقدام قومی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے، تاہم چین کئی مہینوں سے ڈیجیٹل ٹوکنز کے ساتھ اپنے مقابلے میں کمی لانے کے لیے قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں لا رہا ہے۔
بیجنگ نے کہا کہ کرپٹو کرنسیوں کے لیے تجارت کی پیش کش کرنے والی آن لائن سروسز پر اب سختی سے پابندی عائد ہے، اور بیرون ملک کرپٹو کرنسی ایکسچینج کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، نیز ملک بھر میں کرپٹو کرنسی کی کان کنی کو بھی روکا جا رہا ہے۔
چینی حکومت کے اس بڑے قدم نے مارکیٹوں میں ابتدائی خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے، اور ہر بڑا ڈیجیٹل اثاثہ یکایک سر کے بل نیچے گرنے لگا ہے۔
بروکریج ایوا ٹریڈ کے چیف مارکیٹ تجزیہ کار نعیم اسلم نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ آج کا پیغام بہت مضبوط تھا، وہ واقعی کہہ رہے ہیں کہ کوئی بھی اب کرپٹو کرنسی سے کوئی تعلق نہیں جوڑ سکتا۔
اس خبر کے سامنے آنے کے بعد بٹ کوائن 6 فی صد سے زیادہ گر گیا ہے، یہ گراؤ تقریباً 41 ہزار ڈالر تک ہے۔ کرپٹو کرنسیوں کو خلاف قانون قرار دینے کا اعلان پیپلز بینک آف چین کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔
اس اعلان کے مطابق ڈیجیٹل کرنسیز کی تجارتی سرگرمیوں میں شریک ہونا مجرمانہ سرگرمی تصور کی جائے گی۔
لندن: کرپٹو کرنسی کی 60 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ چوری کا معاملہ سامنے آ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز ایک ایسی سائبر ڈکیتی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جس میں کرپٹو کرنسی کے ایک پلیٹ فارم پولی نیٹ ورک کو 60 کروڑ ڈالر لاگت کی کرپٹو کرنسی سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں، یہ اس سیکٹر کا اب تک کی سب سے بڑا ہیکنگ حملہ ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق پولی نیٹ ورک نامی متعلقہ کمپنی نے کرپٹو کرنسی جمع کرنے کے ’والٹس‘ کا کام کرنے والے تاجروں سے درخواست کی ہے کہ ایتھیریم، بائنینس چین اور اوکس پولی گون ٹوکنز کو لینے سے گریز کیا جائے۔
So far, we have received a total value of $4,772,297.675 assets returned by the hacker.
ETH address: $2,654,946.051
BSC address: $1,107,870.815
Polygon address: $1,009,480.809 pic.twitter.com/bPFAQk4mvS
کرپٹو کرنسی کے ٹرانسفر میں مہارت رکھنے والی کمپنی پولی نیٹ ورک نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر چوروں کو بھی مخاطب کیا، اس نے لکھا کہ جو رقم انھوں نے ہیک کی ہے وہ ڈیفی کی تاریخ کی سب سے بڑی رقم ہے۔ واضح رہے کہ ڈیفی ایک مالی نظام ہے جو کہ بلاک چین ٹیکنالوجی پر منحصر ہے اور اس کا تعلق کرپٹو کرنسی سے ہے۔
پولی نیٹ ورک نے ہیکرز کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ پولیس کو بھی اس میں شامل کر سکتے ہیں، جس کے بعد وہ اتنی رقم کہیں اور ٹرانسفر نہیں کر سکیں گے، اس لیے ان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ رقم واپس کر دیں۔ پولی نیٹ ورک نے ہیکرز کی طرف سے استعمال کیے جانے والے اکاؤنٹس کے ایڈریس بھی جاری کیے۔
پولی نیٹ ورک کی جانب سے ہیکرز کو کی گئی درخواست کے بعد ہیکرز نے رقم واپس کرنا شروع کر دی ہے، کمپنی نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ 48 لاکھ ڈالرز مالیت کی رقم واپس کی گئی ہے۔
کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا اور اس کی وجہ ٹیسلا کے بانی ایلن مسک کا ایک بیان ہے، ان کے بیان نے ایک بار پھر اس کرنسی کی قدر میں اضافہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق ایلون مسک کے یہ کہنے کے بعد کہ ٹیسلا دوبارہ بٹ کوائن کو ادائیگی کے طور پر قبول کرنا شروع کر دے گا، بٹ کوائن 30ہزار ڈالر کی حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
برقی کار بنانے والی والی کمپنی ٹیسلا نے مئی میں کہا تھا کہ وہ اب خریداریوں کے لیے کرپٹو کرنسی قبول نہیں کرے گی۔ اس نے بٹ کوائن کی مائننگ کو وجہ بتاتے ہوئے اس کے ماحولیاتی اثرات پر خدشات کا حوالہ دیا تھا کیونکہ اس عمل میں بجلی کی بڑی مقدار استعمال ہوتی ہے۔
ایسا اس وقت کہا گیا تھا جب ابھی دو ماہ پہلے ہی کمپنی نے دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن میں ادائیگی قبول کرنا شروع کی تھی۔ ایلون مسک نے بی ورڈ کرپٹوکرنسی کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ کافی امکان ہے کہ کہ ٹیسلا بٹ کوائن کو دوبارہ قبول کرنا شروع کر دے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بٹ کوائن کی مائننگ میں فوسل فیول یا زمین میں دبے ہوئے ایندھن کے استعمال کی تحقیقات کر رہے ہیں میں اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے تھوڑا سی زیادہ مستعدی چاہتا تھا کہ قابل تجدید توانائی کے استعمال کا سب سے زیادہ امکان 50 فیصد تک یا اس سے زیادہ ہے اور اس نمبر میں اضافے کی طرف رجحان دیکھا گیا ہے اور اگر ایسا ہے تو ٹیسلا بٹ کوائن کو قبول کرنا دوبارہ شروع کر دے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ٹیسلا کے کچھ سرمایہ کاروں اور ماحولیات کے ماہرین نے اس سال کے شروع میں بٹ کوائن کو ادائیگی کے طور پر قبول کرنے کے ٹیسلا کے فیصلے پر شدید تنقید کی تھی۔
اس تنازع کو اس طرح دیکھا گیا کہ ماحول دوست بجلی کی گاڑیاں توانائی کا بہت زیادہ استعمال کرنے والی کرپٹو کارنسی کے ذریعے خریدی جا رہی ہیں۔ اگرچہ بٹ کوائن کی مائننگ میں بڑی مقدار میں بجلی استعمال ہوتی ہے لیکن تشویش اس بات پر بھی ظاہر کی گئی کہ آیا توانائی فوسل فیول سے حاصل کی جاتی ہے یا قابل تجدید ذرائع سے۔
ایلون مسک پر اس وجہ سے بھی تنقید کی گئی کہ وہ اپنی مقبولیت اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے کرپٹو کرنسیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
بی ورڈ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ٹیسلا اور ان کی راکٹ کمپنی سپیس ایکس کی ملکیت میں تو بٹ کوائن ہیں ہی، لیکن ان کے پاس ذاتی طور پر بھی بٹ کوائن، ایتھریئم اور ڈوجکوئن جیسی کریپٹو کرنسیاں ہیں۔
انھوں نے ان الزامات پر بھی بات کی کہ وہ مصنوعی طور پر کرپٹو کرنسیوں کی قیمتیں بڑھا کر پھر انھیں بیچ دیتے ہیں، میں شاید پمپ کروں لیکن میں ڈمپ نہیں کرتا۔ میں یقینی طور پر قیمت میں اضافہ کرنے کے بعد اس کی فروخت پر یقین نہیں رکھتا۔ میں بٹ کوائن کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔
بی ورڈ کانفرنس کے دیگر مقررین میں ٹویٹر کے چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسے اور اے آر کے انویسٹمنٹ مینجمنٹ کی باس کیتھی ووڈ بھی شامل تھیں۔
کوائن ڈسک ویب سائٹ کے مطابق ان کے بیان کے بعد بٹ کوائن کی قیمت میں چھ فیصد اضافہ دیکھا گیا اور وہ 31 ہزار 952 ڈالر تک پہنچ گیا، جبکہ ایتھیریئم 10 اعشاریہ چھ فیصد اضافے کے ساتھ ایک ہزار 979 ڈالر پر آ گیا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں گھریلو خواتین کی ایک معقول تعداد سائیڈ بزنس کے طور پر بٹ کوائن یا ایسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیز میں سرمایہ کاری کرنے کی متمنی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق آن لائن ڈیجیٹل کرنسیاں پاکستان میں غیر قانونی نہیں ہیں، عالمی سطح پر ان کی مانگ اور مقبولیت میں روز اضافہ ہونے کے باوجود زیادہ تر لوگ اس سے متعلق کم ہی جانتے ہیں، دوسری طرف کچھ لوگوں کی کوششوں سے پاکستان میں یہ ورچوئل کرنسیاں مقبول ہوتی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں آن لائن ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار سے وابستہ 38 سالہ غلام احمد ہفتے میں ایک مرتبہ لوگوں کو کرپٹوکرنسی کی ٹریڈنگ اور اس کے شئیرز کی خرید و فروخت کے حوالے سے مفت مشورے دیتے ہیں۔
اسلام آباد کے رہائشی غلام احمد نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے، جس کے ممبران کی تعداد سینکڑوں میں ہے، ڈیجیٹل کرنسیوں کے ماہر احمد ایک ہفتے میں ایک بار اس گروپ میں شریک ہوتے ہیں اور لوگ ان سے آن لائن کرنسیوں کے استعمال اور تجارت کے بارے میں مشورے لیتے ہیں۔
احمد کے واٹس ایپ گروپ میں گھریلو خواتین کی ایک معقول تعداد ہے، جو سائیڈ بزنس کے طور پر بٹ کوائن یا ایسی دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، تاہم بہت سی ممبران روایتی اسٹاک مارکیٹ کی پیچیدگیوں سے لاعلم ہیں لیکن عالمی بُوم کی وجہ سے اب وہ اس کاروبار میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ گروپ میں لوگ کرپٹوکرنسی کے بارے میں بے تحاشا سوالات کرتے ہیں، لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اور وہ کئی گھنٹوں تک لوگوں کو بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ مفید مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
غلام احمد نے 2014 میں ملازمت کو خیرباد کہہ دیا تھا اور آن لائن ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت میں قدم رکھا تھا، ان کو یقین تھا کی یہ ایک منافع بخش کاروبار ثابت ہوگا اور ہوا بھی ایسے ہی، آج وہ فخر کے ساتھ اپنے اس فیصلے کو اپنی زندگی کا ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں بھی تیزی کے ساتھ ڈیجیٹل کرنسیز مقبول ہوتی جا رہی ہیں، ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹریڈنگ اور مائننگ کے حوالے سے بنائی گئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہزاروں بار دیکھی جاتی ہیں۔
ڈیجیٹل کرنسی اور دہشت گردی
عالمی سطح پر ایسے متعدد کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں بڑے جرائم میں کرپٹوکرنسی کا کردار بھی موجود تھا، بالخصوص ہیکرز کے گروہوں نے بٹ کوائنز میں تاوان کی ادائیگی کروائی، ڈیجیٹل کرنسی ایک طرف مقبول ہو رہی ہے، دوسری طرف ایسے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ ان ورچوئل رقوم کو غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے منی لانڈرنگ کے واچ ڈاگ ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ اس صنعت کو بہتر طریقے سے ریگولیٹ کرے تاکہ کوئی بھی انتہا پسند دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال نہ کر سکے۔
حکومت پاکستان نے اس کرنسی کی ریگولیشن کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس میں ایف اے ٹی ایف کے ماہرین اور کچھ وفاقی وزرا کے علاوہ ملکی خفیہ ایجنسیوں کے چیف بھی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کو بھرپور طریقے سے ریگولیٹ کرنے میں وقت درکار ہوگا، چوں کہ اس کی مانیٹرنگ کا طریقہ کار ابھی تک وضع نہیں کیا جا سکا ہے، اس لیے پاکستان میں کئی ادارے اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
غلام احمد کا کہنا ہے کہ ملک کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے دو مرتبہ انھیں گرفتار کیا اور ان پر الزامات عائد کیے کہ وہ منی لانڈرنگ اور الیکٹرانک فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم عدالت میں یہ الزامات ثابت نہ ہو سکے۔
یو ٹیوب پر دس لاکھ فالوورز رکھنے والے سابق ٹی وی اینکر وقار ذکا کئی برسوں سے حکام کو راغب کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف ڈیجیٹل کرنسی کی صنعت کو قانونی قرار دے، بلکہ حکومت خود بھی اس میں سرمایہ کاری کرے، جیسا کہ غلام احمد نے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پر چلنے والا کرپٹو کرنسی مائننگ فارم بنایا ہوا ہے۔
غلام احمد کا اصرار ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی مقبولیت اور کاروبار کو روکا نہیں جا سکتا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اس صنعت کی ریگولیشن کے لیے قواعد و ضوابط طے کرے اور دنیا کے ساتھ ہی چلے۔
آن لائن کرپٹو کرنسی ایکسچینجز، جو اکثر پاکستان سے باہر کے ہیں، جیسا کہ Localbitcoins.com، اس میں سیکڑوں پاکستان تاجر لسٹڈ ہیں، جن میں سے چند ہزاروں ٹرانزیکشنز والے ہیں۔
لندن: برطانوی پولیس نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں 18 کروڑ پاؤنڈ کی غیر قانونی کرپٹو کرنسی برآمد کر لی ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانوی پولیس نے ریکارڈ 18 کروڑ پاؤنڈ کی کرپٹو کرنسی برآمد کی ہے جس کے بارے میں خدشات ہیں کہ اسے مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران یہ بڑی چوری پکڑی گئی ہے، اور اس چوری کا تعلق گزشتہ مہینے ہونے والے واقعے سے ہے۔
میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک مہینہ قبل انھوں نے 11.4 کروڑ پاؤنڈ کی کرپٹو کرنسی برآمد کی تھی، تب سے منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات پیچیدہ اور بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں، محکمے نے اس رقم اور اس سے ممکنہ طور پر جڑے جرم کا پتہ لگانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔
کرپٹو کرنسی برآمد ہونے کے بعد پولیس نے 24 جون کو منی لانڈرنگ کے خدشات پر ایک 39 سالہ خاتون کو گرفتار کیا تھا، جنھیں بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
نائب اسسٹنٹ کمشنر گراہم میک نلٹی کا کہنا تھا کہ جرم کی دنیا میں کیش اب بھی بادشاہ ہے، لیکن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بننے کے بعد ہم مجرموں کو منی لانڈرنگ کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
گراہم میک نے بتایا کہ پہلے اس کے خلاف کارروائی کرنا مشکل تھا لیکن اب پولیس کو اس کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔