Tag: culture

  • کراچی کی مشہور ’پیتل گلی‘ کی رونقیں ماند کیوں پڑگئیں؟

    کراچی کی مشہور ’پیتل گلی‘ کی رونقیں ماند کیوں پڑگئیں؟

    کراچی کے علاقے گولیمار کی پیتل گلی ہنرمندی میں اپنی مثال آپ ہے، لیکن اب اس کی رونقیں آہستہ آہستہ ماند پڑتی جارہی ہیں۔

    ناظم آباد اور گرو مندر کے درمیان واقع یہ گلی پاکستان میں پیتل کے بہترین کام، برتن اور سجاوٹ کے ٹکڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    براس اسٹریٹ جسے مقامی طور پر پیتل گلی کے نام سے جانا جاتا ہے یہ ایک قدیم گلی ہے جو گولیمار کراچی میں واقع ہے، اس پیتل گلی میں گاہک کم ہوئے تو کاریگر بھی کام چھوڑتے چلے گئے۔

    پیتل گلی کے ماہر کاریگر صدیوں سے ثقافت، ورثہ اور فن کو کسی نہ کسی صورت میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

    کہتے ہیں کہ شہر کی گلیاں اُس کے ماضی کی کتاب ہوتی ہیں، کراچی کی پیتل گلی بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے، یہاں موجود ایک کاریگر محمد عقیل پیتل پر اپنے ہنر اور محنت کے جوہر دکھاتے ہیں۔

    محمد عقیل جو گزشتہ20 سال سے اس روایت اور ہنر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مہنگائی نے اس کاروبار کی رونقیں ختم کردی ہیں, پہلے یہاں 25 کے قریب دکانیں تھیں اب چار پانچ رہ گئی ہیں۔

    مزید پڑھیں : مٹی کے برتن بنانے کا فن قصّہ پارینہ بنتا جارہا ہے

    مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد پیتل کا ایک برتن یا ڈیکوریشن پیس تیار ہوتا ہے، یہ ثقافتی گلیاں شہر کا ایک ورثہ ہیں جو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: شادیوں کے سیزن میں رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ

    ویڈیو رپورٹ: شادیوں کے سیزن میں رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ

    سکھر: رنگین چارپائیاں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافت کا حصہ ہیں، شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی سندھ کے شہر سکھر کی مارکیٹ میں بھی رنگ برنگی چارپائیوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    سکھر کے ہنر مند کاریگر رنگ برنگی چارپائیاں تیار کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، یہ چارپائیاں نہ صرف شادی کے لیے دلہن کے جہیز کا حصہ بنتی ہیں، بلکہ اپنے منفرد ڈیزائن اور خوب صورت رنگوں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بن جاتی ہیں۔

    یہ چارپائیاں مختلف قسم کی لکڑی (جیسا کہ کیکر اور سفیدے کی لکڑی) اور رنگین دھاگوں سے بنائی جاتی ہیں، ہر چارپائی کی تیاری میں کاریگروں کی مہارت اور ذوق شامل ہوتا ہے۔

    مارکیٹ میں ان چارپائیوں کی قیمت کا انحصار ان کے سائز، ڈیزائن، اور استعمال شدہ مواد پر ہوتا ہے، شہر میں رنگ برنگی چارپائیوں کا کاروبار بہتر ہونے پر کاریگر خوشی اور جوش و جذبے سے چارپائیاں بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    خریداروں کا کہنا ہے کہ شادیوں کے اس سیزن میں بیڈ کی قیمتیں چالیس پچاس ہزار تک پہنچی ہیں، کم سے کم قیمت والا بیڈ بھی 20 ہزار میں ملتا ہے، ایسے میں یہ رنگین چارپائی پانچ چھ ہزار روپے میں مل جاتی ہے، اور یہ سندھ کا ثقافتی ورثہ بھی ہے۔

    خریداروں کے مطابق سندھ کی ثقافت کا یہ حصہ ہے کہ مہمانوں کو خوب صورت چارپائیوں پر بٹھا کر ان کی خاطر داری کی جاتی ہے۔ ان چارپائیوں کا استعمال ہوٹلوں پر بھی نظر آتا ہے، کاریگروں کا کہنا ہے کہ خریدار اسے خرید کر گاؤں بھی لے کر جاتے ہیں۔

  • سندھ اور ملک سے باہر ثقافتی پروگرامز: محکمہ ثقافت سندھ اور آرٹس کونسل کراچی کے لیے عدالتی حکم

    سندھ اور ملک سے باہر ثقافتی پروگرامز: محکمہ ثقافت سندھ اور آرٹس کونسل کراچی کے لیے عدالتی حکم

    کراچی / سکھر: سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ نے محکمہ ثقافت سندھ کو لندن، پیرس اور کینیڈا سمیت بیرون ملک، اور آرٹس کونسل کراچی کو سندھ سے باہر ثقافتی پروگرام کرنے سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ سکھر بینچ میں دائر ایک درخواست کی سماعت ہوئی، دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ سہیل میمن کا کہنا تھا کہ محکمہ ثقافت سندھ کے بجٹ سے، باہر پروگرامز منعقد کر رہا ہے اسے روکا جائے۔

    ایڈووکیٹ سہیل میمن نے کہا کہ سندھ میں ثقافتی ورثہ تباہ ہو رہا ہے اور لائبریریز بند ہو رہی ہیں۔

    درخواست کی سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سندھ کا پیسہ باہر کیوں خرچ کیا جا رہا ہے، اپنے فیصلے میں ہائیکورٹ نے محکمہ ثقافت سندھ کو لندن، پیرس اور کینیڈا سمیت بیرون ملک ثقافتی پروگرامز منعقد کرنے سے روک دیا۔

    عدالت نے آرٹس کونسل کراچی کو بھی سندھ سے باہر پروگرام کرنے سے روک دیا۔

  • کرونا وبا ختم ہوتے ہی شائقین سینما گھروں کا رخ کریں گے: ہمایوں سعید

    کرونا وبا ختم ہوتے ہی شائقین سینما گھروں کا رخ کریں گے: ہمایوں سعید

    کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں فلم انڈسٹری کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً پاکستانی فلم انڈسٹری جو اس وقت اپنی بحالی کے مرحلے میں تھی اس وبا کے دوران خاصی متاثر ہوئی۔

    معروف اداکار و پروڈیوسر ہمایوں سعید نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے کے بعد جب سینما گھر کھلیں گے تو شائقین ضرور واپس آئیں گے۔

    ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سال سے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تعمیر نو جاری تھی، نئے سینما گھر کھل رہے تھے، سرمایہ کار اس طرف راغب ہورہے تھے لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ان کوششوں کو خاصا دھچکا پہنچا۔

    انہوں نے کہا کہ اس پورے عرصے کے دوران لوگوں نے سینما گھروں کو بہت مس کیا ہے لہٰذا سینما کھلتے ہی وہ ضرور واپس آئیں گے۔

    ہمایوں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ فلکس اور امیزون پرائم پر ویب سیریز اور مختلف قسم کا مواد دیکھنے کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، لیکن تب بھی سینما دیکھنے کے لیے فیملی کے ساتھ باہر نکلنا اور درجنوں افراد کے ساتھ بڑی اسکرین پر فلم دیکھنا یہ وہ جادو ہے جو کسی صورت گھر بیٹھے حاصل نہیں ہوسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ ان پلیٹ فارمز کی مقبولیت مزید بڑھتی جائے گی اس کے باوجود سینما کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔

    ہمایوں سعید نے بتایا کہ سینما گھر کھلتے ہی وہ خود بھی بھرپور انداز میں واپسی کریں گے۔ ان کی فلم لندن نہیں جاؤں گا 60 فیصد تیار ہے، اس کی 40 فیصد شوٹنگ لندن میں ہونی تھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے لندن بند ہوگیا۔

    ان کے مطابق جون جولائی تک جیسے ہی لندن میں لاک ڈاؤن ختم ہوگا وہ اس فلم کی شوٹنگ مکمل کریں گے اور ستمبر تک اس فلم کو ریلیز کردیا جائے گا۔

    علاوہ ازیں ان کی مزید فلموں کے اسکرپٹس بھی تیار ہیں جن کی شوٹنگ سال رواں کے وسط میں شروع کردی جائے گی۔

  • سعودی عرب میں سندھی کلچر ڈے کی مناسبت سے رنگارنگ تقریب کا اہتمام

    سعودی عرب میں سندھی کلچر ڈے کی مناسبت سے رنگارنگ تقریب کا اہتمام

    ریاض: سعودی عرب میں سندھی کلچر ڈے کی مناسبت سے رنگارنگ تقریب کا اہتمام ہوا جس میں سندھ کی ثقافت کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں سندھی کلچرل ڈے کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں لوک گیتوں نے سندھی کلچر کا خوب رنگا جمایا۔

    سعودی دارالحکومت ریاض میں انڈس کلچرل اینڈ سوشل فورم کی جانب سندھی کلچر ڈے کی تقریب منعقد ہوئی، رنگا رنگ کلچرل ڈے میں بچوں نے سندھی لباس پہن کر کلچرل ڈے کے معروف گانے پر رقص کیا۔

    تقریب میں نامور سندھی فوک گلوکار طفیل سنجرانی نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا اور سندھی اردو اور پنجابی گانے گا کر جہاں لوگوں کے دلوں کو موہ لیا وہیں منچلوں نے بھی خوب رقص کیا۔

    فورم کے صدر ذیشان قاضی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً وہ قومیں ہمیشہ زندہ جاوید رہتی ہیں جو اپنی ثقافت کے ساتھ جڑی رہتی ہیں۔

    دوسری جانب سفارت خانہ پاکستان کے ویلفئیر اتاشی عبدالشکور شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ کا کلچر پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح کی تقریبات دنیا بھر کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔

    علاوہ ازیں تقریب سے رشید سرکی، عبدالقادر ملاح اور دیگر نے بھی سندھ کلچر ڈے پر روشنی ڈالی۔

  • قوم کو ثقافتی پالیسی کا نفاذ دے کر جا رہے ہیں، مریم اورنگ زیب

    قوم کو ثقافتی پالیسی کا نفاذ دے کر جا رہے ہیں، مریم اورنگ زیب

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ ہم قوم کو ثقافتی پالیسی کا نفاذ دے کر جا رہے ہیں، اسی پالیسی کے ذریعے پاکستان کو جوڑا جاسکتا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ حکومت نے ملک میں تھیٹر بحال کرنے کے لیے پالیسی متعین کی ہے۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کے دور میں پاکستان میں حیران کن تبدیلی ہوئی ہے لیکن بہت سے کام اور چیلنجز ابھی بھی باقی ہیں جنھیں اکٹھے حل کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے بھی پالیسی تشکیل دی گئی ہے، ثقافت کے ذریعے اگر اپنا تشخص اجاگر کرنا شروع کردیں تو ہم اپنا کھویا مقام حاصل کرسکتےہیں۔

    مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ فلم بنانے والوں کے لیے فنڈ مختص کیا گیا ہے جب کہ فلم سنسرفیس بھی معاف کردی گئی ہے، فلم پروڈکشن پر ٹیکس بھی معاف کیا گیا ہے۔

    وفاقی وزیر نے ثقافتی شعبے میں ہونے والے کاموں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ فنانس بل میں لوکل سینما کی تعمیر پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، اب پاکستان کی فلموں اور ڈراموں کو چین میں بھی دکھایا جا رہا ہے۔

    احتساب کے دعوے داروں نے کے پی میں احتساب کا ادارہ ہی بند کر دیا: مریم اورنگزیب


    مریم اورنگ زیب نے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردی نے امن تباہ کر دیا تھا، ہم اس میں 52 فیصد کمی لائے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ عوام جسے مینڈیٹ دیں اسے ملک کو آگے لے جانا چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرنے کی کوشش کی، پارلیمان کے باہر اختلاف رائے ملک کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

    پی ٹی آئی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ جلد بازی کی، پہلے کے پی کے نگراں وزیراعلیٰ کا نام واپس لیا، اب پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کا نام بھی واپس لے لیا، انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت چلانا گڈے گڈی کا کھیل نہیں ہوتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • اقوام متحدہ کا چار مسلم ممالک کے لیےنئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان

    اقوام متحدہ کا چار مسلم ممالک کے لیےنئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان

    نیویارک : اقوام متحدہ نے براعظم افریقہ کے چار مسلم ممالک اردن، تیونس، مراکش، اور لیبیا کے نوجوانوں  کے لیے تعلیم، سانئس، ثقافت اور میڈیا میں معاونت کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے بر اعظم افریقہ میں تعلیم، سانئس، ثقافت اور میڈیا پر کام کرنے والے نوجوانوں کی تربیت کا منصوبہ متعارف کروایا ہے۔

    اقوام متحدہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولادی میر ورونکو کی یو این کی ثقافتی ایجنسی کے سربراہ اودرے زولے سے جمعرات کے روز پیرس میں ملاقات کے بعد مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے جاری اعلامیے میں ولادی میر ورنوکو کا کہنا ہے کہ  نوجوانوں کو بااختیار  بنانے کے بعد ہی اردن، لیبیا، موروکو اور تیونس میں تشدد اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کے ساتھ مل کر مقامی سطح پر کام کرنے سے ہی تشدد اور انتہا پسندی کو روک کر عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ منصوبے کے تحت ذمہ دار مرد و خواتین کو مدد فراہم کی جائے۔ جو انتہا پسندی، تشدد اور بد سلوکی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوں۔

    ولادی میر ورنوکو نے نوجوان قیادت میں چلنے والے امن پروگرامز اور دنیا کو بہتر بنانے کے لیے ان کے آئیڈیاز کی قدر کرنے پر زور دیا۔

    اقوام متحدہ کے شعبہ تعلیم، سانئس اور ثقافت کے ڈائریکٹر ازولے کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ نوجوانوں کے ساتھ کام کرکے ہی امن کے مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سیاہ کمان- پانچ سو سال قدیم کھیل

    سیاہ کمان- پانچ سو سال قدیم کھیل

    چترال: ملک کے بالائی علاقے چترال میں سیاہ کمان نامی مقامی شوٹنگ کمپٹیشن ہرسال منعقد کیا جاتا ہے، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے سبب اب یہ حسین ثقافت دم توڑرہی ہے۔

    پانچ سو سال پرانے بندوقوں میں بارود ڈال کر لوہے کے چھرے بطور گولی رکھ کر اسے آگ کے پُلتے سے جلاتے ہوئے نشانہ باز ی کی جاتی ہے اس کھیل کو مقامی زبان میں سیاہ کمان کا مقابلہ کہا جاتا ہے۔جسے انگریزی میں شوٹنگ کمپٹیشن بھی کہتے ہیں۔ سیاہ کمان کا مقابلہ صرف چترال کے بالائی علاقوں میں ہوتا ہے۔

    حسین ذرین رضاکارانہ طور پر اس کھیل میں ہر سال حصہ لے رہے ہیں، وہ 2013 میں اس کھیل کا ڈسٹرکٹ ونر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس پرانی تلوار بھی ہے اور جانور کے چمڑے سے بناہواجوتا بھی پاؤں کی زینت ہے یعنی تمام تر لوازمات مکمل ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خصوصی طور پر وہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے چترالی چوغہ بھی پہنتا ہے ۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا اصل ثقافت ہے ہمارے بزرگ جب آج سے پانچ سو سال پہلے شکار کیلئے جایا کرتے تھے تو یہ لباس پہن کر اس بندوق سے شکار کیا کرتے تھے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جو بندوق ہے وہ تین سو سال پرانا ہے جو ان کے پر دادا درانی نے بنایا تھا۔ ان کا شکوہ ہے کہ چترال میں فٹ بال، کرکٹ، پولو ، ہاکی کو اہمیت تو دی جاتی ہے جو ملک میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے مگر سیاہ کمان کا مقابلہ صرف اور صرف چترال کی حصوصیت ہے اور صرف یہاں کھیلا جاتا ہے مگر آج تک اس کو سرکار کی طرف سے پذیرا ئی نہیں ملی۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب شہزادہ سکندر الملک تحصیل ناظم تھے تو انہوں نے مجھے ایوارڈ دیا تھا اور بریگیڈئیر نعیم اقبال جو یہاں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے انہوں نے میر ی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نقد انعام بھی دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے یہ روایتی لباس پہنا پڑتا ہے اور اس میں ہوتا یوں ہے کہ اس بندوق میں پہلے لوہے کے چھرے یا گولی نما سکہ ڈالا جاتا ہے اس کے بعد اس میں بارود ڈالا جاتا ہے اور ماچس سے ایک رسی کو جلاکر اس کے مخصوص حصے کے اوپر رکھا جاتا ہے جونہی بارود گرم ہوتا ہے اس میں دھماکہ سا ہوتا ہے اور اس دھماکے سے وہ گولہ باہر کی طرف نکلتا ہے جو سیدھا جاکر اپنے نشانے پر پڑتا ہے اس میں پچاس میٹر اور سو میٹر کے فاصلے تک نشانہ مارا جاتا ہے ۔

    غلام نبی جو بونی آوی لشٹ کا باشندہ ہے اس کا کہنا ہے کہ اس سیاہ کمان سے ہم نے ماضی میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے مگر حکومت پاکستان نے پچھلے چالیس سال سے اس پر پابندی لگادی ہے جو ہم نے رضاکارانہ طور پر جمع کی مگر اس کے بدلے ہمیں کوئی مراعات نہیں ملی۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباو اجداء نے اسی سیاہ کمان سے سکردو کو بھی فتح کیا ہے اور ریاست چترال کی طرف سے ارندو کے مقام پر افغان فورس کا مقابلہ کیا ہے ۔شاہ سلیم اوربدخشاں سے آئے ہوئے فوجیوں کا مقابلہ اسی سیاہ کمان سے کیا گیا ہے اور اسی طرح بروغل میں واخان اور تاجکستان وغیرہ سے آنے والے حملہ آوروں کو اس کی مدد سے پسپا کیا ہے۔

    عبد الباقی کی عمر 70 سال ہے جو پچھلے چالیس سالوں سے سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لے رہے ہیں اور اس کھیل کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ان کھلاڑیوں کا شکوہ ہے کہ پہلے جب چترال کے انتظامیہ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا وہ رضاکارانہ طورپر اس کھیل کو یہاں آکر کھیلتے اور اس مقابلہ میں حصہ لیتے ہوئے سیاحوں کو محظوظ کراتے ۔مگر اس سال انتظامیہ کے پاس کافی فنڈ آیا ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی نہ تو ان کی کوئی حوصلہ افزائی کی گئی نہ کوئی نقد انعام دیا گیا اور نہ ہی ان کے ساتھ مالی مدد کی گئی۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس بندوق کی دیکھ بال بھی نہایت مشکل ہے مگر حکومت کی طر ف سے اس کی مرمت کیلئے بھی ان کو کوئی فنڈ نہیں دی جاتی۔ سیاہ کمان چترال کا نہایت مقبول اور پسندیدہ کھیل ہے جو اب حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور مستقبل میں اس کے قصے صرف کتابوں میں ملیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • بلوچستان کے زرخیر، قدیم اور رنگا رنگ کلچر کی چند نمایاں خصوصیات

    بلوچستان کے زرخیر، قدیم اور رنگا رنگ کلچر کی چند نمایاں خصوصیات

    کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔

    اسی مناسبت سے آج بلوچ یوم ثقافت منایا جارہا ہے۔ اس تحریر میں مہرگڑھ جیسے عظیم تاریخی ورثے کی حامل  کئی صدیوں پر محیط بلوچ تہذیب کے ہمہ جہت اور اثر انگیز پہلوئوں پر نظر ڈالی گئی ہے، جو اپنے اندر دل چسپی  کا سامان رکھتی ہیں۔

    بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا ہے۔

    بلوچستان کے ساحل پر تھری ڈی آرٹ کے شاہکار

    بلوچ عوام اپنے باہمی تنازعات کے حل کے لیے سرداروں کی جانب سے لگائی گئی ’کچہری‘ کا رخ کرتے ہیں جہاں بیٹھے قبائلی افراد معاملات کے حل کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ اس کے لیے حال احوال کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ان کے مخصوص کھیل کا نام ’ہشتی‘ ہے جو گروہ کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے۔

    کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔

    پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

     

    بلوچستان میں سردی کا 31 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    بلوچ ثقافت میں ’ماری کٹ‘ بلوچی سینڈل کا بڑا عمل دخل ہے جو گھیر والی شلوار کے ساتھ خوب ججتی ہے، اس کے علاوہ خواتین کے لباس پر ہاتھ سے یا پھر مشین سے تیار کردہ پھلوں والی کڑھائی موجود ہوتی ہے،جو بلوچ تہذیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔