Tag: Dangerous disease

  • پُرسکون نیند کی کمی کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے؟

    پُرسکون نیند کی کمی کس خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے؟

    روزانہ مکمل اور پُرسکون نیند انسان کی صحت کے لیے متعدد فوائد کی حامل ہے، ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نیند میں کمی مثبت احساسات میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

    یہ بات یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں کی جانے والی تحقیق میں سامنے آئی جس میں محققین نے گزشتہ 50 سال میں کیے جانے والے 154 مطالعات کا جائزہ لیا۔ یہ تحقیق جرنل سائیکولوجیکل بلٹ ان میں شائع ہوئی۔

    5ہزار سے زائد ہر عمر کے افراد پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کم وقت سونا لوگوں میں مثبت احساس میں کمی کا سبب بن سکتا ہے، ساتھ ہی نیند میں کمی کا تعلق بے چینی اور ڈپریشن کے بلند خطرات کے ساتھ بھی دیکھا گیا۔

    lack of sleep

    مذکورہ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جو بوور کے مطابق جب لوگ دوستوں سے ملنے یا پسندیدہ ٹی وی شو دیکھنے جیسی پُرلطف سرگرمیوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے تو ان کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    Health

    ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد لوگوں میں گھل مل نہیں پاتے لہٰذا ان کے اکیلے پڑ جانے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر جو بوور نے بتایا کہ ہمارے اس نیند کی کمی کے شکار معاشرے میں لوگ اکثر رات دیر تک جاگتے ہیں لیکن یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ کم نیند ان کے مزاج پر اثر ڈال سکتی ہے۔

  • شعیب اختر پیدائشی کس خطرناک بیماری کا شکار تھے؟

    شعیب اختر پیدائشی کس خطرناک بیماری کا شکار تھے؟

    دنیا کے تیز ترین پاکستانی فاسٹ بولر شعیب اختر پیدائشی گھٹنے کی ایسی بیماری کا شکار تھے کہ ڈاکٹرز نے والدہ سے انکے نصف معذور ہونیکا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

    شعیب اختر جنہوں نے اپنے کیریئر کے دوران اپنی تیز رفتار بولنگ سے دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں کے چھکے چھڑائے اور انہیں خوف میں مبتلا رکھا پیدائشی طور پر گھٹنے کی ایسی بیماری کا شکار تھے کہ ڈاکٹروں نے ان کی والدہ سے شعیب کے نصف معذور ہونے کے خدشے کا اظہار کردیا تھا۔

    شعیب اختر نے اپنے دردناک ماضی سے خود پردہ اٹھایا ہے۔

    انہوں نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں پیدائش سے ہی گھٹنے میں پریشانی تھی، بچپن میں ڈاکٹرز نے ان کی والدہ کو وارننگ دے دی تھی کہ وہ نصف معذور ہوجائیں گے۔ وہ 6 سال کی عمر تک چل نہیں پائے تھے اور رینگ رینگ کر چلتے تھے جب کہ ڈاکٹرز نے ان کی والدہ سے کہہ رکھا تھا کہ یہ نصف معذور ہوجائے گا اور کبھی عام لوگوں کی طرح چل نہیں پائے گا۔

    شعیب اخترنے کہا کہ ان ہی تکالیف کے ساتھ میرے کیریئر کا آغاز ہوا اور سال 1999 ہی میرے لیے واحد ایسا سال تھا جو درد سے محفوظ رہا۔

    پنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور بولر نے بتایا کہ میرے گھٹنوں کی ہڈی پر ایک اور ہڈی بن گئی تھی۔ تصور کریں کہ میں کس درد سے گزرا ہونگا، یہ بہت خوفناک لمحات تھے میں آئس باتھ کے دوران سوجاتا تھا، کئی بار ٹیم کے ساتھی مجھے آکر جگاتے تھے اور کہتے تھے کہ صبح کے 4 بج چکے ہیں باہر نکلو اور بستر پر سونے جاؤ۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی چوٹ کو چھپاتا تھا کیونکہ اس وقت بہت زیادہ مقابلہ تھا اور میڈیا کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ آخر کیوں میں مستقل طور پر نہیں کھیلتا۔

    انٹرویو کے دوران شعیب اختر نے انکشاف کیا کہ جلد ہی میلبورن میں ان کے گھٹنے کا دوبارہ آپریشن ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ کیریئر کے دوران 9 سرجری کے ساتھ ساتھ بائیں گھٹنے پر 42 اور دائیں گھٹنے پر 62 انجکشن بھی لگے تھے۔

  • کورونا سے متاثرہ بچوں میں خطرناک بیماری کا خدشہ؟

    کورونا سے متاثرہ بچوں میں خطرناک بیماری کا خدشہ؟

    سائنسدانوں کے مطابق کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خدشہ دیگر بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

    امریکا میں بیماریوں پر قابو اور سدّباب مرکز CDC کے ماہرین نے مارچ 2020 سے جون 2021 کے دوران کووِڈ۔19 کے ذیابیطس پر اثرات کی تحقیق کی ہے۔

    اس تحقیق کے نتیجے میں سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کورونا سے متاثرہ بچوں میں دیگر بچوں کے مقابلے میں ذیابیطس جیسے موذی مرض سے متاثر ہونے کا خدشہ ان بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جنہیں کورونا نے متاثر نہیں کیا۔

    ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ کووِڈ 19 میں مبتلا ہونے والے بچوں میں صحت مند بچوں کے مقابلے میں ذیابیطس کا خطرہ ذیادہ بلند ہے اور اس حوالے سے ہونے والی تحقیق کے مطابق کووِڈ۔19 انسولین پیدا کرنے والے خلیوں کو نقصان پہنچا کر ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

    مشی گن یونیورسٹی موٹ چائلڈ ہسپتال کے ڈاکٹر ایناس تھامس نے کہا ہے کہ اسپتال میں داخل ہونے والے کورونا کے مریض بچوں کے 30 فیصد میں ٹائپ 1 ذیابیطس ظاہر ہوئی ہے جب کہ سان ڈیاگو ریڈی چائلڈ اسپتال نے وبا کے پہلے سال یعنی 2020 میں 2019 کے مقابلے میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووِڈ۔19 میں مبتلا ہونے والے پہلے سے ذیابیطس کے مریض بچوں میں صورتحال اور بھی شدت اختیار کر سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ ٹائپ ون ذیابیطس پِتّے کی انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت کو روکنے یا کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

  • کرونا سے متاثرہ بھارتی بچے نئے اور خطرناک مرض میں مبتلا

    کرونا سے متاثرہ بھارتی بچے نئے اور خطرناک مرض میں مبتلا

     رواں ماہ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں چار بچوں کو سانس لینے میں تکلیف اور بلڈ پریشر کم ہونے کی علامات کے ساتھ ایک ہسپتال لایا گیا۔ ان کی ماں کو ایک مہینہ پہلے کووِڈ-19 ہوا تھا۔ بچوں میں اس مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    شیواگرام کے کستوربا ہسپتال میں ان نو عمر بچوں میں البتہ اینٹی باڈیز کا ضرور پتہ چلایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ماضی میں کووِڈ ہو چکا ہے۔

    اب وہ ایک نایاب اور ممکنہ طور پر زندگی کے لیے خطرناک multi-system inflammatory syndrome یا مختصراً MIS-C نامی ایک مرض سے لڑ رہے ہیں۔ یہ حالت عموماً کووِڈ-19 سے صحت یابی کے بعد چار سے چھ ہفتوں میں بچوں اور نو عمر افراد میں ہوتی ہے۔

    کستوربا ہسپتال میں ان میں سے دو بچوں کی صحت تو بحال ہو چکی ہیں لیکن باقی دو اب بھی انتہائی نگہداشت میں ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں کہ یہ مسئلہ کتنا شدید ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بھارت میں اس مرض کے حوالے سے اعداد و شمار بھی موجود نہیں۔

    ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کرونا وائرس کی دوسری خطرناک لہر کمزور پڑ رہی ہے، بھارت بھر میں بچوں کے امراض کے معالج اس نایاب لیکن سنگین مرض کا سامنا کرنے والے کئی بچوں کی اطلاع دے رہے ہیں۔ فی الحال اندازہ نہیں کہ بھارت میں اب تک کتنے بچے اس سے متاثر ہو چکے ہیں لیکن امریکا میں ایسے 4,000 سے زیادہ کیس سامنے آئے اور اب تک 36 کی اموات ہو چکی ہیں۔

    دلّی کے گنگا رام ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بچوں کے معالج ڈاکٹر دھیرن گپتا مارچ سے اب تک 4 سے 15 سال کے ایسے 75 سے زیادہ مریض دیکھ چکے ہیں۔ ان کے ہسپتال نے 18 بستروں پر مشتمل ایم آئی ایس – سی  وارڈ تشکیل دیا ہے۔ ان کے خیال میں دارالحکومت اور اس کے مضافات میں ایسے 500 سے زیادہ مریض ہیں۔

    تقریباً 1,500 کلومیٹرز دور مغربی شہر پونے میں میں سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی ماہرِ امراضِ اطفال ڈاکٹر آرتی کنیکر نے اپریل سے اب تک ایسے 30 کیس دیکھے ہیں۔ بیمار بچوں میں سے 13، جن کی عمریں 4 سے 12 سال تھیں، اب بھی ہسپتال میں داخل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر myocarditis سے دوچار ہیں، جو ایسا مرض ہے جس میں دل کے پٹھے میں ورم آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر آرتی کے مطابق کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد اس کے مریضوں کی تعداد کافی بڑھی ہے۔

    ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پٹھوں میں ورم آنے عارضہ دراصل وائرس کے خلاف جسم میں مدافعت کے نظام کے شدید ترین رد عمل کی وجہ سے ہوتا ہے، جس سے اہم ترین اعضا میں ورم پیدا ہو جاتا ہے۔

    اس کی علامات ابتداء میں دوسری بیماریوں جیسی ہوتی ہیں، مثلاً تیز یا مستقل بخار، جسم پر لال دانے، پیٹ میں درد، بلڈ پریشر کا کم ہونا، جسم میں درد اور غنودگی طاری ہونا ہیں۔ چند علامات ‘کاواساکی مرض’ جیسی ہیں جو خود ایک نایاب مرض ہے جو پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔

    دلّی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز  میں پیڈیاٹرکس یعنی بچوں کے امراض کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جھوما سنکر کے مطابق یہ مرض واقعی درمیانی شدت کے کاواساکی سے لےکر متعدد اعضا کے کام کرنا چھوڑ دینے جیسی مختلف علامات کا مرکب ہے۔

    ڈاکٹروں کے مطابق ورم بڑھنے سے خطرناک نتائچ نکل سکتے ہیں، مثلاً نظامِ تنفس یعنی سانس لینے کے نظام کا خراب ہو جانا اور دل، گردوں اور جگر جیسے متعدد اعضا کا متاثر ہونا۔ اس مرض کے حامل بچوں میں عصبیاتی مسائل بھی ظاہر ہوتے ہیں۔