Tag: Dawaam

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ گزشتہ دس دن سے ایس ٹی ای کے برین ونگ کارکنان کے ساتھ آزاد کشمیر اور جہلم کے درمیانی علاقے میں اپنے نئےپراجیکٹ پر کام کے آغاز کے لیے پوری طرح سر گرم تھی ۔۔ شدید مصروفیات کے باعث پاؤں کا درد سِوا ہو چکا تھا ۔۔ وہ دردسے نڈھال کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی کی سیل تھرتھرایا ۔۔
    تم میڈیسن کب سے نہیں لے رہی ہو۔۔؟؟ کوئی تھا جو اُس کے درد کو بتائے بغیر جاننے لگا تھا ۔۔
    ابھی لی ہیں ۔۔ اُس نے لیٹے لیٹے جواب دیا ۔۔اٹھنے کی ہمت کس میں تھی ۔
    وہ تم نے درد کو انتہا پر پہنچا کر لیں ہیں ۔۔ ارمان کا لہجہ درشت ہوا ۔
    آپ کو کیا پتا ۔۔ آپ کوئی یہاں ہیں۔۔؟؟


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ’’منتہیٰ بی بی ۔۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اِس وضاحت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ‘‘۔۔ اُسکا لہجہ برفیلا تھا ۔۔
    ہم مم۔۔ لمبی سی ہم کر کے منتہیٰ نے ارمان کی نقل اتاری۔
    ملو تم مجھے ۔۔ لیتا ہوں میں تمہاری خبر ۔۔۔
    میں ہفتہ دس دن تک نہیں آنے والی ۔۔ منتہیٰ نے اُسےِ چڑایا ۔
    جی نہیں ۔۔ میں نے ونگ کمانڈر آزر کو کہا ہے ۔۔وہ کل تمہیں یہاں پہنچائے گا ۔۔ایس ٹی ای کی میٹنگ میں تمہاری شرکت
    ضروری ہے ۔
    واٹ ۔۔؟؟ ایسی کیا خاص بات ہے ۔۔؟؟
    خاص ہی ہے ۔۔آؤ گی تو پتا لگ جائے گا ۔۔ اور اب آرام کرو سمجھیں ۔۔ وہ ڈانٹ کر کال کاٹ چکا تھا ۔۔ منتہیٰ نے سکون
    سے آنکھیں موندیں ۔۔ اس کی یہ ڈانٹ کتنی اچھی لگتی تھی ۔
    اگلے روز مصروفیت اور موسم کی خرابی کے باعث ۔۔ وہ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے چھ بجے ہی ایس ٹی ای آفس پہنچ سکی ۔اُسے
    حیرت ہوئی وہاں کسی فنکشن کی تیاریاں تھیں ۔
    منتہیٰ کی نگاہیں ارمان کی متلاشی تھیں کہ کسی نے پیچھے سے نرمی کیساتھ اسکا ہاتھ تھاما۔
    وہ چونک کر مڑی ۔۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ میٹنگ ہے ۔۔ پر یہاں ۔۔اس نے انتظا مات کی طرف اشارہ کیا
    ہاں یہاں ایک چھوٹی سی تعارفی تقریب ہے ۔!!
    واٹ۔۔؟؟ کس چیز کی ۔۔؟؟ اُس نے مڑ کر سٹیج کی طرف دیکھا ۔۔ بینر لگا تھا
    Cosmology in the light of Holy Quran …. By Muntaha Arman
    ’’ایک تعارف ۔۔ایک جائزہ ‘‘
    منتہیٰ نے مڑ کر خوشگوار حیرت سے ارمان کو دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ ایسی ہی سرپرائز دیتا تھا ۔
    تقریب میں ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر عبدالحق کے علاوہ کئی نامور شخصیات نے منتہیٰ کی اِس کاوش کو بھرپور سراہا ۔۔ یہ ایک ایسی معلوماتی کتاب تھی ۔۔ جس پر آج تک کسی عالمِ دین ،کسی مولوی نے قلم نہیں اٹھایا تھا ۔۔ مقامی طور پر اِس کتاب کو سیو دی ارتھ پبلکشن ہاؤس نے شائع کیا تھا ۔۔جبکہ اس کا ایک مسودہ۔ ارمان پینگوئن پبلیکیشنز نیو یارک کو بھی بھیج چکا تھا ۔
    ایس ٹی پبلیکیشنز کے تحت ارمان کی اپنی سات سالہ جدوجہد کی داستان The routes I passed by …. بھی جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی تھی ۔۔
    تقریب کے بعد ۔۔منتہیٰ ایس ٹی ای کے کارکنان کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ بک دیتی رہی ۔
    "آٹو گراف پلیز میم ‘‘۔۔ ارمان نے ایک جلد اُس کی طرف بڑھائی ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے لکھنا شروع کیا ۔۔

    Sitting next
    to you …
    Is like
    Taking a sip of eternity
    The sun , the stars , the sky
    Never tasted so good..!!
    (Christy ann martine )

    ************

    تھر اور چولستان میں سیو دی ارتھ کے پراجیکٹس کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کو تھے ۔۔انہوں نے بہت قلیل مدت اور نا کافی ذرائع کے با وجود وہاں قحط ، خشک سالی او روبائی امراض پر قابو پانے کے لئے ہیلتھ سینٹرز کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈیزاسٹرسینٹر قائم کیے تھے جبکہ اگلا مرحلہ اسی سٹر ٹیجی کو بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں پر لاگو کرنے کا تھا۔ لیکن انھیں علم تھا کہ بلوچستان ایک اپنے وسیع رقبے اور امن و امان کی خرابصورتحال کے باعث ایک شدید کٹھن ٹاسک تھا۔کئی ماہ کی پلاننگ کے بعد وہ بلوچستان میں ایسی تکنیکس کا آغاز کرنے جا رہے تھے جو جنوبی افریقہ ، ایتھوپیا ، چاڈ ، نائجر ،سوڈان اور مالی وغیرہ میں طویل خشک سالی سے نمٹنے میں کافی کارآمد ثابت ہوچکی ہیں ۔
    بلوچستان اور ان افریقی ممالک میں ایک مشابہت یہ بھی ہے وہاں بھی مقامی افراد کی اکثریت نا خواندہ ہے اور ڈیزاسٹر سے از خود نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔صورتحال کو بگاڑنے میں ایک بڑا ہاتھ مقامی باشندوں کابھی ہے ، بارشوں کے موسم میں پانی کو مستقبل کی بدترین حالات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بجائے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔ خشک سالی عارضی ہو یا طویل المدت ، بہرحال ایک
    نہ ایک دن ختم ہو ہی جاتی ہے اور بارشوں کے موسلا دھار برستے ہی ان علاقوں کے رہائشی اپنی زمینوں اور گھروں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں ۔ مگر سالہا سال کی مشقت اور ، کٹھن اورجان لیوا حالات سے گزرنے کے باوجود پرانی عادتیں بھی ساتھ لوٹ آتی ہیں
    اور اسی وجہ سے حکومتی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ اگر کمیونٹی کی سطح پر کوششیں جاری رکھتے ہوئے قابل ِکاشت رقبے کو کم کر کے سیب اور خوبانی کی جگہ انار یا کم پانی استعمال کرنے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔زمینوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ برفباری زیرِ زمین پانی کےذخائر کو بڑھانےکا سبب بنے۔ جنگلات کے کٹاؤ کو روک کر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور دیہات میں لکڑی کی جگہ متبادل بہترایندھن استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بگڑتے حالات کو ابتدائی سٹیج پر ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔
    جبکہ دوسری طرف جہلم کے قریب منتہیٰ کا پراجیکٹ بھی کامیابی کے ساتھ رواں تھا ۔۔ جسے فی الحال پوری طرح خفیہ رکھا گیا تھا۔ کئی ہفتوں کی شدید مصروفیات کے بعد وہ دونوں گھر پر اکھٹے ہوئے تھے ۔۔ رات دیر سے سونے کے باعث ارمان بارہ بجےتک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔۔ اور منتہیٰ کچن میں ممی کے پاس تھی جب ملازم نے اُس کی کسی مہمان کے آنے کی اطلاع
    دی ۔۔ وہ اِس وقت گھر کے سادہ سے کپڑوں میں تھی ۔۔ دوپٹہ درست کرتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے ٹھٹکی ۔
    معقول اسلامی لبادے میں ملبوس وہ لڑکی ۔۔ یقیناًکیلی تھی ۔
    کیلی تم یہاں ۔۔؟؟منتہیٰ خوشگوار حیرت کے ساتھ اُس سے گلے ملی ۔۔
    کیلی نہیں ۔۔’’ آمنہ‘‘ ۔۔ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔۔ اُس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا
    ماشاء اللہ ۔۔ لیکن تم یہاں کب آئیں ۔۔ بتایا کیوں نہیں ۔۔؟؟
    میں ایک ہفتہ پہلے لاہور آئی تھی ۔۔ پچھلے دو ماہ سے میں مکہ میں تھی ۔
    ایم سو ہیپی کیلی۔۔ اُوہ سوری آمنہ ۔۔ منتہیٰ ایک دفعہ پھر اس کے گلے لگی ۔
    یُو نو مینا ۔۔ کہ میں نے اپنے لیے یہ نام اِ س لیے منتخب کیا ہے کہ یہ حضرت محمد ﷺ کی والدہ کا نام تھا ۔۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ
    ہستی جو سراپا محبت اور کرم تھی ۔ اس کی عظیم ماں کیسی ہوگی۔۔؟؟
    آمنہ کے دل میں ماں کی اولین محبت کا خلا آج بھی باقی تھا ۔۔ آنکھوں کی نمی چھپا کر کر وہ مسکرائی ۔۔
    تم کیسی ہو۔۔؟؟ مجھے نینسی سے تمہارے حادثے اور پھر شادی کا پتا لگا تھا ۔۔تم بہت خوش لگ رہی ہو ۔۔ ارمان کیسا ہے ؟؟
    وہ بہت نائس اور خیال کرنے والا شوہر ہے ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں قندیلیں سی روشن تھیں ۔
    تم آرام سے بیٹھو نا ۔۔ میں تمہیں ممی پاپا سے ملواتی ہوں ۔۔ منتہیٰ اٹھی ۔
    پھر دو گھنٹے تک وہ نان سٹاپ باتیں کرتی رہیں ۔۔ منتہیٰ کو ارمان بھی یاد نہیں آیا۔۔ جو سویا پڑا تھا ۔
    تم آج کل کیا کر رہی ہو منتہیٰ ۔۔؟؟ آمنہ نے سرسری اندا ز میں پوچھا ۔۔
    وہ بس ۔۔ارمان کی فاؤنڈیشن کے کچھ پراجیکٹس ہیں ۔۔ اُس نے گول مول جواب دیا
    آمنہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ اتری ۔۔ اُس نے منتہیٰ کے دونوں ہاتھ تھامے ۔یو نوواٹ مینا ۔۔ کہ ہارورڈ میں تمہاری
    بہت ساری سرگرمیوں سے میں واقف تھی ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔اور جو فائلز تم نے میرے لیپ ٹاپ سے کاپی کی تھیں نہ۔ تو وہ میں نے دیکھ لیا تھا ۔۔ منتہیٰ کا رنگ اُڑا ۔اس نے ہاتھ چھڑانے
    کی کوشش کی ۔
    پھر تم مجھ سے دوستی کی کوششیں بڑھاتی گئیں ۔۔ مجھے سب معلوم تھا ۔۔ مگر تم مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔اور اب بھی لگتی ہو ۔۔
    I adore you ..اُس نے مینا کے دونوں ہاتھ ہونٹوں سے لگائے ۔
    تمہارا ساتھ۔۔ تمہاری دوستی نے مجھے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آ شنا کرایا ۔۔میں جو اند رسے ایک مری ہوئی عورت
    تھی ۔ اب دوبارہ جینے لگی ہوں ۔میں جینا چاہتی ہوں ۔۔ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا چاہتی ہوں ۔
    منتہیٰ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔۔ وہ پلکیں تک جھپکانا بھول گئی تھی ۔
    میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کرو ں گی ۔۔ میں اِن کاموں میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گی ۔۔ انشا ء اللہ ہم مل کر بہت کچھ کریں گے۔
    انسانیت کی فلاح کے لیے ۔اپنی زمین کے دوام کے لیے ۔۔ اُس کا لہجہ بہت پُر عزم تھا ۔
    اور ہم م لکر تمہارے لیے ایک پیارا سا محبت کرنے والا دولہا بھی ڈھونڈیں گے انشا ء اللہ ۔۔ ارمان کی آواز پر وہ دونوں چونکیں
    جو نہ جانے کب سے پیچھے کھڑا ۔۔دونوں دوستوں کا رومانس دیکھ رہا تھا ۔
    شیور ۔۔ اور وہ بالکل تمہارے جیسا سمارٹ ۔ محبت اور خیال کرنے والا ہونا چاہئے ۔۔ آمنہ چہکی
    یہ تو مشکل ہو جائیگی آمنہ بی بی ۔۔ کیونکہ میرے جیسا کوئی اور پیس نہیں دنیا میں ۔۔ جس کا مقدر ۔یہ آپکی بد لحاظ اور سر پھری
    دوست تھی ۔ منتہیٰ نے اُسے گھورا
    ڈونٹ وری آمنہ تمہیں اِن سے بہت اچھا آئیڈیل سا۔۔ شوہرملے گا ۔
    یا اللہ ۔۔یہ تیرے نا شکرے بندے ۔۔ ارمان ہاتھ اٹھا کر دہائی دینے لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُسے کھینچ کر کشن مارا ۔
    وہ بہت خوش تھی ۔’’کہتے ہیں کہ آپکی نیکی لوٹ کرواپس آپ کے پاس ہی آتی ہے۔‘‘ اُس نے صدقِ دل سے چاہا تھا کہ کیلی
    اِس فرسٹرشن سے باہر نکل آئے ۔۔جس میں وہ بچپن سے مبتلا تھی۔ ان کی ٹیم میں آمنہ جیسی ذہین و فطین اور تجربہ کار انوائرمینٹل سائنٹسٹ کی شمولیت بلا شبہ ایک سنگِ میل تھا ۔

    ************

    "اگر وقت کی روانی کو سمجھنا ہو تو ۔۔ کبھی کسی اُونچی چٹان پر کھڑے ہوکر ۔نیچے ساحل سے ٹکراتی موجوں کو دیکھنا۔۔ وقت بھی
    اِن موجوں کی طرح انسان کی زندگی میں وارد ہوتا ہے ۔۔ کبھی دبے قدموں مسرتوں اور شادمانیوں کے تازہ جھو نکوں کی طرح ۔۔
    کبھی شوریدہ سر موجوں کی صورت میں ۔۔ انسانی ذات کے اندر اور باہر بہت کچھ توڑتا ۔فنا کرتا ہوا ۔ کبھی بے رحم طوفانوں جیسا
    ہر شے تہس نہس کردینے والا ۔۔لیکن اچھا یا برا ۔۔بہرحال وقت کٹ ہی جاتا ہے ۔۔ ساحل پر کس کے نقشِ پا ہمیشہ رہے ہیں مگر
    داعمی حیات اُنہی کو ملتی ہے جودلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔”
    وہ ایک دفعہ پھر نیویارک میں تھی ۔۔منتہیٰ ارمان یوسف کو یونیسکو کی تقریب میں شرکت کر کے اپنا "وومن اِن سائنس”
    ایوارڈ وصول کرنا تھا ۔۔وہ نہ صرف ایشیا سے یہ اعزاز پانے والی پہلی خاتون تھی ۔۔ بلکہ اب تک ایوارڈ پانے والیوں میں سب
    سے کم عمر بھی تھی ۔
    وہاں موجود شرکاء اُسے ایک ایسی بہادر لڑکی کے طور پر خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔ جو ایک بڑے حادثے سے گزرنے
    اور ایک عالمی اعزاز سے محرومی کے با وجود ہمت نہیں ہاری ۔۔ جس نے اپنی معذوری کو چیلنج سمجھ کے قبول کیا ۔۔اور آج جس کا
    شمار دنیا کے مایہ ناز فزکسٹ اور ٹیکنالوجسٹ میں کیا جا رہا تھا ۔۔ وہ بہت گہری مسکراہٹ کے ساتھ تعریفوں کے یہ سارے ہارگلے میں ڈالتی ہوئی ۔۔ مائیک تک آئی ۔
    "میرا بچپن گورنمنٹ کے طرف سے ملے ہوئے ایک چھوٹے گھر میں گزرا ۔۔ اُس کے کشادہ آنگن میں ایک گھنا نیم کا درخت
    تھا ۔جس پر ایک چڑیا کئی سالوں سے بسیرا کئے ہوئے تھی ۔۔ اُس کے بچوں کی چہچہا ہٹ ہماری زندگی کا ایک حصہ تھی ۔۔ پھر
    یوں ہوا کہ ایک روز بہت زور کی آندھی آئی ۔۔ ایسی کے گھروں کی چھتیں اُڑ گئیں ۔۔اور طوفانی جھکڑ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر
    لے گئے ۔۔ میری دادی مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اپنی گود میں چھپا کر سارا وقت تسبیح کا ورد کرتی رہیں ۔”
    پھر جب طوفان تھما تو میں نے دیکھا کہ ہمارے آنگن کا وہ اکلوتا درخت جڑ سے اکھڑا پڑا تھا ۔۔ اور چڑیا کے گھونسلے کو طوفانی جھکڑ
    اُڑا کر لیجا چکے تھے ۔ میرے ننھے سے ذہن کے لیے یہ زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا ۔۔ میں ساری رات روتی رہی۔۔کئی روز تک
    میں نے کھانا نہیں کھایا ۔پھر میرے ابو مجھے ہاتھ تھام کر ، سڑک کے پار کچی جھگیوں کی بستی لے کر گئے ۔۔ جہاں طوفان ہر شے کو
    فنا کر چکا تھا ۔۔ اور وہ خانہ بدوش اِدھر اُدھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان جمع کر ہے تھے ۔
    "منتہیٰ‘‘۔ تم کئی دن سے روتی رہی ہو کہ تمہاری چڑیا کا گھونسلہ نہیں رہا ۔۔ انہیں دیکھو ۔۔اِن لوگوں کا کُل مال و متاع ۔آندھی اُڑا
    کر لے گئی ہے ۔۔لیکن یہ لوگ رو نہیں رہے ۔۔ کیونکہ ان کا ایمان ہم پکے گھروں میں رہنے والے لوگوں جیسا نہیں ہے ۔
    چڑیا کا آشیانہ ہو ۔۔یا یہ کچی جھگیاں ۔ سب اللہ تعالی کی عطا ہیں انسان کی ملکیت نہیں ۔۔ وہ خدا چڑیا کو دوبارہ گھونسلہ بھی دے گااور اِن خانہ بدوشوں کو بھی کہیں نہ کہیں پناہ مل جائیگی ۔
    میرے ننھے ذہن میں ایک مدت تک کئی سوال کلبلاتے رہے ۔ جب اللہ پاک اتنا رحمن و رحیم ہے تو پھر یہ طوفان آتے ہی کیوں ہیں ۔کیوں زلزلے کی ایک چنگھاڑ شہر کے شہر برباد کر دیتی ہے ۔ کیوں یہ سیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑتے گزرجاتے ہیں ۔؟؟
    مذہب نے مجھے بتایا کہ یہ انسان کے برے اعمال پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتے ہیں ۔۔سائنس کہتی تھی کہ انسانی سرگرمیوں نے آئینو سفیئر ہیٹنگ اور گلوبل وارمنگ جیسے امراض کو جنم دیا ۔ جن سے زمین پر آفات کی شرح روز بروزبڑھتی چلی گئی ۔ یعنی مذہب اور سائنس ایک ہی تھیوری کے دو مختلف اندازِ بیاں تھے ۔
    میری تلاش کا سفر سیو دی ارتھ نامی کمپین سے شروع ہوا ۔۔ میری سوچ تھی کہ جہاں انسان تباہی پھیلانے والی ٹیکنالوجی بنا سکتا ہے تو کہیں نہ کہیں فلاح کی ٹیکنالوجی کا سرا بھی ہوگا ۔۔جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔۔ یہ نیکی اور بدی کا ارتقاء ہی ہے جس نے زمین پر زندگی کے پہیے کو رواں رکھا ہوا ہے ۔۔ لیکن انسان کی رغبت ہمیشہ سے شر کی طرف زیادہ رہی ہے ۔۔ کہیں وہ خود حفاظتی کے نام پر نیو کلیئر اور کیمیائی ہتھیار بناتا ہے ۔۔ تو کہیں با یومیڈیکل انجینئرنگ میں ٹیکنالوجی کی انتہا پر پہنچ کر مصنوعی انسانی تخلیق کے تجربات کرتا ہے۔۔ خدا کے وجود کے منکر وں اور ان زمینی نا خداؤں کو اپنی آخری سانس کے ساتھ یہ یقین ضرور آجاتا ہوگا کہ اِس کائنات کا رکھوالا صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے ۔
    میری جدوجہد کا سفر جاری رہا ۔۔ آج میرا ضمیر مطمئن ہے کہ اپنے ہم وطنوں ہی کے لیے نہیں ۔۔انسانیت کی فلاح کے لیے میں جو کچھ کر سکتی تھی ۔۔ میں نے اُس میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔۔ یونیسکو کا یہ وومن اِن سائنس ایوارڈ اور اِس کے ساتھ ملنے والی لاکھوں ڈالر کی رقم میں اپنے ہم وطنوں کے نام کرتی ہوں ۔۔ پاکستان کی اُن پسماندہ خواتین کے نام کرتی ہوں ۔۔جو اکیسویں صدی میں جی کر بھی ٹیکنالوجی کے نام سے بھی ہنوز نا بلدہیں ۔میرا مشن میری آخری سانس تک انشا ء اللہ جاری رہے گا ۔
    دنیا بھرکی نامور شخصیات نیچے حاضرین میں دم بخود بیٹھی اِس دھان پان سی لڑکی کو سن رہی تھیں ۔ جو عزم اور حوصلے کی ایک چٹان
    تھی ۔ انہی حاضرین کی پہلی صف میں ارمان یوسف بھی تھا ۔۔ جس کی گود میں بیٹھی ایک ننھی پری کی ستارہ آنکھیں بہت دیر سے سٹیج پر
    کھڑی اپنی ماں پر مرکوز تھیں ۔۔ یوں جیسے وہ ماں کا ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہی ہو ۔
    ارمان نے دیکھا ۔۔اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں یوں پیوست کی ہوئی تھیں جیسے وہ ہاتھ کوئی عہد باندھ رہے ہوں،دس ماہ کی ستارہ آنکھوں اور فراخ پیشانی والی اِس ننھی گڑیا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غیرمعمولی صلاحیتوں والی بچی تھی۔جس نے اپنی ماں سے بے پناہ ذہانت اور مضبوط قوتِ ارادی ورثے میں ملی تھی ۔۔ تو باپ سے اُسے وفا ، ایثار اور استقامت جیسی نیک
    صفات پائی تھیں ۔
    "”یہ ننھی پری ۔۔اَمل ارمان تھی۔ بہت جلد عالمی اُفق پر نمودار ہونے والا ۔پاکستان کا ایک درخشندہ ستارا ۔

    ختم شد
    ********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیے انتہائی دلچسپی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ ساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہاں آنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔۔ بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی۔۔ جسے شاذو نادر ہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔

    منتہی سے لاتعلق کیلی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی۔۔ منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے پتا تھا۔۔۔ جواب نہیں ملنا۔ کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اس کی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔جوائنٹ وینچر ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہوچکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہیٰ نے وہ فائل کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کے ساتھ کیلی سے قریب ہونے کی اس کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور کیلی کے ساتھ الاسکا میں گزاری  گئی اس کی چھٹیاں یقیناًرائیگاں نہیں گئیں تھی۔

    **********

    ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لے کر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔۔ ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزے سے سوتی رہی تھی۔۔ وہ عادی تھا ۔۔اس کی اِن عادتوں کا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔

    دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا
    میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ۔
    ارمان نے ہنس کر عادتاً اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
    نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو پھر کس سے پوچھتے ۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بنی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
    تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا۔
    جی لیتے ۔۔ منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں۔
    تمہیں میری محبت پر شک ہے۔۔ ارمان نے سختی سے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
    نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا۔ ’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیے کھو جانے پر دنیا تیاگ کر بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپ کا دل ہی نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سے دوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیے جینا شروع کرتا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے‘ ۔۔

    ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اَب اُس کی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئے موڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔
    ارمان نے جھک کراُس کی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔
    پھر اس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات آٹھ آرٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔
    اگر تم ایک سو بیس کا آئی کیو رکھتی ہو تو ایک سو اٹھارہ سے کم میں بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ ہے لیکن تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں بھی دو چار ٹیکنیکل سیکرٹس پر تم نے ہاتھ ضرور صاف کیے ہوں گے ۔۔
    لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔
    وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی
    تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ کا حادثہ۔۔ منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔
    تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔
    منتہیٰ۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔
    کیا یہ حادثہ پہلے سے طے شدہ کوئی منصوبہ تھا ؟؟
    ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُس کی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا۔
    ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اس کے خدشات درست تھے
    اگر ایسا تھا اور تمہاری سرگرمیاں کسی کی نظر میں آچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیوں کر آنے دیا ۔۔ کیا تم اس کی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اس کی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
    ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
    ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ خرابی ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود پیدا کی تھی۔
    اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔
    اور اس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔

    ***********

    رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں
    انہیں گمان تھا کہ وہ اسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر نہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیر سے ان کا اصل تعارف آج ہوا ہے۔۔
    گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دے کر گئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جو اُس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی۔

    اسلام و علیکم پاپا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز منسلک ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیت میری ذ ات سے وابستہ بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دے کر گیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔

    دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوں ڈالرز چاند ، مریخ اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مریخ پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ زحل کے لیے کیسینی جیسے مشن پر دو دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیے۔ ان کا کوئی خاص مشن اب تک سامنے نہیں آسکا۔
    میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیے ایک خاص مشن تشکیل دینے لگے تھے۔۔
    ڈاکٹر یوسف چونک کر سیدھے ہوئے۔۔ ’مجھے پیگی وٹسن کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں ایک طویل عرصہ گزارنا تھا اور ناسا کے ایسٹرو بائیو لوجسٹ میرے ذریعے خلا میں پریگ نینسی ٹیسٹ کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔ اگر میں شرعی شادی پر بضد رہتی تو میرے ساتھ ارمان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ان کے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری ہی نہیں ارمان کی حیثیت بھی ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی۔ یا ایک ایسا آلہ جس پر وہ دل کھول کر تجربات کر سکیں۔۔
    دو چار مشنز کے بعد جن کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یا پھر عمر قید ۔۔ ہمیں ساری عمر اُن کی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ کرنے کا عزم ہم دونوں رکھتے تھے جس کے لیے ارمان ییل یونیورسٹی میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ہمارے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔

    زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔ یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلہ کار بننا میری انا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود ہو چکے تھے۔۔

    پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیے میں اپنے رب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اس کی ان بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
    میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔

    ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو کبھی ان کی شاگرد رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کا ایک انوکھادرس دے گئی تھی۔۔۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آباد آمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔

    دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان ایم آئی ٹی سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔لیکن باہر کی چمک دمک نے انہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی اس نوجوان نسل نے تو ماں باپ کی ان قبروں کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا’۔

    ***********

    ’میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کے بعد اُس کا جسم جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا دوسروں کے لیے وقعت کھو دیگا ۔۔ تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گز نہ آنے دیتی‘۔ کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔

    وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر انداز کیا۔جیسے ہی اس کا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو۔ مینا کہ یہاں امریکہ اور یورپ میں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اور کس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا۔ کیلی نے کسی احساس کے زیرِ اثر نفرت
    سے ادھ بجھا سگریٹ دور اچھالا۔

    منتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان اور ایشیائی بندوں کی اکثریت کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیے گھنی چھاؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِن کی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلے دیس نکالا مل چکا تھا ۔۔

    منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔ کہیں کسی
    دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
    لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
    so tell me where is that meena..??
    کیلی نے تیزی سے اُس کی طرف رخ موڑا ۔
    یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملے گا۔۔ جس میں ہر مضطرب دل اور بے چین روح کے لیے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔

    ***********

    I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
    wound you suffered.. will be soon heal …!!
    وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹری بیوٹ دیا تھا ۔
    تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہوں گی کے سپارکو کی طرح پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو میسرہو۔۔
    ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
    منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابھی پسِ منظر میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔
    ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موزوں جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔
    ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
    سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا نقشہ پھیلایا ۔
    اُن کی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا
    منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
    تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔ وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا
    ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بالکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ وہ جذباتی ہوا
    جی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ
    اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
    تو پھر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔ برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔
    ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھا اور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔ ’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے‘ ۔۔

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راج کماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروں اور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے وہ صرف ایک دفعہ اپنے ییل یونیورسٹی کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اس کی سج دھج ہی نرالی تھی ۔
    رات گھر پہنچ کر وہ منتہیٰ کو سہارا دے کر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اس کی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔
    میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیے اِس بھاری شرارے کے بجائے خلا بازی کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ
    محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اس کی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُس کی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔
    ارمان نے اُس کے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔
    یار۔۔ اپنے لیے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔
    کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اس کی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
    منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور ان کی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
    کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناً اَپ سیٹ تھا ۔
    اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹیسیں بائیں پاؤں سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔
    کتنے دن کے لیے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی
    شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم
    بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
    ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔
    یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔
    اِٹس اُوکے ۔۔خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔
    دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکے
    ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔۔
    اور ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔

    *********

    منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرا
    اجالا پھیلا ہوا تھا۔
    ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔منتہیٰ چھوٹے چھوٹے
    قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔
    آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
    کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔
    ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔
    اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ یہیں بھجواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔
    منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھا۔
    اس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا۔
    پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا
    ہم۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔’’ یعنی بیٹا اور بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے‘‘ ۔۔ وہ مسکرائے ۔
    ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
    جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔
    تم ہارورڈ ۔ ایم آئی ٹی اور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ گنوا آئی ہو۔۔یاتمہارےمنصوبےاور ترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
    نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔
    شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟
    منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔
    دو روز بعد وہ امی کی طرف گئی تو دادی ارمان پر بہت برہم تھیں ۔’’یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلاگیا
    ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلے
    میں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔
    اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُن کی توپوں کا
    رُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔
    ’’دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب‘‘ ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
    اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء االلہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔
    عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔
    منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینے میں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔
    اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔
    ارمان چائنیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔
    کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔
    اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔
    سوری منتہیٰ یار ۔میں رابطہ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراً ایکسکیوز کی۔
    اِٹس اوکے ۔۔۔ میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔
    وقت نے چال بدل لی تھی ۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
    جی بالکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اس کی سج دھج نوٹ کی
    نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
    تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر
    پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
    اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا
    اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا
    اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نے و قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔
    منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔
    اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اس کا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
    سوچوں گی ۔
    واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا
    یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی۔
    کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
    لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔
    لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ
    کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔
    اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں
    ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جو
    جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے نینسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے
    خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ کتنے گُھنے تھے یہ سب ۔
    اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔
    وقت آگیا تھا ۔۔ ۔ پنڈورابکس جلد کھلنے والا تھا ۔

    ***********

    فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدید
    گرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُس کے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اس کی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم
    سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
    میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔
    ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر سستانے کو لیٹا ہی تھا کہ سیل تھرتھرایا
    ہیلو شہری ۔۔ کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اس کا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا
    ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟۔
    بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرا
    میں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔
    ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
    اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی
    ٹھیک ہے ۔۔کل لے کر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
    وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
    ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔
    کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
    اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےڈاکٹر عبدالحق کو اسلام آباد پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی
    ڈاکٹر عبدالحق ۔۔ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔’’ ویلکم بیک مسز ارمان ‘‘۔

    ***********

    ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ اسپتال سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
    ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔
    منتہیٰ گلدان سمیت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا
    اُس کا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
    اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ! پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا ۔
    یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا
    لیجئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا
    تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپ کو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
    تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔
    ’’یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔
    اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔
    کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نہ ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اس طرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
    ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دے کر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔
    پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس کے ہاتھ تھامے ۔ ’’مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس
    کیا ۔۔بے انتہا ۔
    بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔
    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔
    صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اس کا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں
    کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔’’ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ‘‘۔
    پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
    کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
    یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤں گا ۔
    کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟
    کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
    ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اس کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔’’تمہیں لینے ‘‘۔
    موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برف اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرز
    نے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔
    منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا
    کب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اس کے قریب بیٹھا بہت غور سے۔
    اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
    ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی
    منتہیٰ بی بی ۔ کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔میں ایسے دیکھوں یا ویسے۔۔ میری
    پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔ ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
    پھر سوچ لیجئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباًچوٹ کی
    اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُس کی طرف شرارت سے جھکا
    بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
    ہم مم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔
    کس سوچ میں گم ہو گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُس کی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
    کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
    مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم
    واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
    اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
    یار منتہی ٰ ! جذباتی نہ بنو ۔۔کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
    ارمان !بس میں خود بدل گئی ہوں۔۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔۔اپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ ۔۔آپ کےپاس ۔۔اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
    "اوہ آئی سی ‘‘۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ۔۔
    ایسا ہے مسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے آپ پاس آجاؤں گا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی
    اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا
    تب آپ کا یہ مجنوں ‘ یہ قیس‘ یہ رانجھا ۔آ جائے گا ۔انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
    ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہوں گے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا
    منتہیٰ بی بی! جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔
    ویسے آپ فکر مت کریں ۔۔ابھی خلائی مخلوق کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنے
    لگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نے
    شرارت سے اسے چھیڑا ۔
    مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضرور
    دیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا ۔
    مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
    ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل
    چارم تو یہ ہے کہ کوئی آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔
    ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔
    جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔
    آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں ۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
    اُف۔۔ منتہیٰ۔۔ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات
    مانو گی ۔۔ آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔
    لیکن منتہیٰ اُس روز رات سونے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی
    غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کے
    پاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی
    سی تھی ۔
    ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کرے گا
    منتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لے کر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائے
    سامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُس کی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی
    ہونے والی تھی ۔
    منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
    یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا
    یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپ کو دیدے
    کیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائے گا ۔۔؟؟
    نہیں۔ احتیاطً رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔
    اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی
    کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔

    ***********

    ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکا گئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسپی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیے فکر مند تھا ۔
    اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کےاس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔
    ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد تحفہ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔
    پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔’’ سیو دی ارتھ‘‘۔
    اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناًمنتہیٰ نے اس گفٹ باکس
    کا پزل اس لیے بنایا تھاکہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقے سے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟
    یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔
    وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔
    باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔
    کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔
    جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اس کی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔
    کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس ہینڈرائٹنگ سے بخوبی آشنا تھا ۔
    A riddle wrapped in an engima …..
    پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگ رشینز کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
    ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لے کر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِن کی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔ ایک سو بیس آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کی جڑتک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔
    اور پزل تقریباًمکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    یورپ ، امریکہ ، فرانس، دبئی ۔۔ ایک عالم نئے سال کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈا ہوا تھا ۔۔ کہیں آتش بازی کی تیاریاں تھیں توکہیں رات بھر کی ہلڑ بازی ، جشنِ عیش و نشاط کی ۔
    انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔۔ خود فریبی کے نجانے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں ۔۔ ایک ایسے سال کا جشن منایا جا رہا تھا ۔۔ جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ کہ وہ اُن سب کے لیے کیسے دکھ ، کیسی آزمائشیں ۔۔ کیسے خطراتاور کون کون سی آفات اپنے جلو میں لیے وارد ہونے والا ہے۔
    وہ جو آج جشن سالِ نو کی بد مستی میں سب سے آگے تھے۔۔کل اِسی سال کو رخصت کرتے ہوئے۔۔ کوسنے دینے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوں گے ۔۔انسان جب اپنی زندگی سے اعلیٰ مقاصد کو نکال کر صرف اپنے لیے جینا شروع کر دے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    تو پھر ہیپی نیو ایئر اور ہیپی ویلنٹائن ڈے جیسی اصطلا حیں وجود میں آتی ہیں ، جن کا سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔دبئی کےبرج خلیفہ پر دنیا کے سب سے بڑے اور بے مثال آتش بای کے مظاہرے کا انتظام تھا ۔
    کیا دنیا کے اِن کھرب پتیوں کوبھوک اور امراض سے مرتے افریقی قبائل نظر نہیں آتے ۔۔؟؟ کیا ایشیا میں غربت کی سطح سے کہیں نیچے بسنے والے کروڑوں افراد اِن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔۔؟؟؟آنکھوں پر پٹی تو کسی کے بھی نہیں بندھی ہوئی ۔۔۔ ہاںاگر انسان خود ہی نہ دیکھنا چاہے تو الگ بات ہے۔
    اور ان سب ہنگاموں سے لا تعلق اس چھوٹے سے فلیٹ میں دیوار سے لگی بیٹھی منتہیٰ کی دنیا اِس وقت شدید طوفانی جھکڑوں کی زد پر تھی۔۔۔ وہ کیوں رو رہی تھی ۔۔؟؟ اُسے کیا حق تھا ۔اُس شخص پر جسے وہ خود چھوڑ چکی تھی ۔ اپنے روشن مستقبل اور اپنے خوابوںکی تعبیر پانے کے لیے ۔۔۔؟؟
    وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھائیوں میں گری تھی ۔۔۔۔ اور وہ یقیناًخداکی ذاتِ پاک ہی تھی۔۔ جس نے اُس کے  نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔
    غم کی طویل رات ختم ہو چکی تھی اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا ۔ منتہیٰ نے فجر کی نما زکے بعد قرآنِ پاک کھولا ۔


    اور انسان طبعاًانتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے۔۔جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتاہے ۔۔

    لیکن اس کے بعد جب اُسے آسائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ اس کا مسیحا تو کوئی اور بنا ۔۔ 

    سورۂ الازمر


    آیت کیا تھی‘ ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہی ٰ دستگیر کے سینے پر عین وسط میں پیوست ہوئی تھی ۔۔ ’’ اور ارمان یوسف اُس کے صبر کا
    انعام نہیں تھا ۔۔۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا ۔”
    اسی شہر میں کچھ فاصلے پر ارمان فجر کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔ اور موسم کی تمام پیشن گو ئیوں کے بر خلاف ۔۔نئے سال کا
    پہلا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا ۔ کل شام سے گرتی کچی بر ف، سورج کی کرنیں پڑتے ہی ۔۔ چاندی کی طرح
    جگمگانے لگی تھی۔
    رات بھر ۔۔سالِ نو کا جشن منانے والے ۔۔ نشے میں دھت اپنے اپنے بستروں میں مدہوش پڑے تھے ۔
    "اور یہ طلوع ہوتا سورج ، یہ گرتی برف ، ۔یہ پربتوں پر روئی کے گالوں جیسے اُڑتے بادل۔۔، یہ سونا مٹی ۔۔ اور اِس سے
    پھوٹتی ہریالی ۔۔ انسان سے شکوہ کنا ں تھی ۔۔کیا خدا نے یہ سب نعمتیں اِس لیے اتاری تھیں کہ انسان کی زندگی کا مرکز و محور
    صرف اور صرف اُس کی اپنی ذات ٹھہرے ۔۔وہ عیش و مستی میں دن رات خدا کی اِن سب نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے ۔۔ انسانیت کی
    تذلیل کرتا ہے ۔۔ او ر وہ قطعاًبھول بیٹھا ہے کہ اگر کسی روز سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا ۔۔ چاند نے سمندروں پر اپنا فسوں بکھیرنا چھوڑ
    دیا ۔۔ یایہ ہر دم رواں رہنے والی ہوا ۔۔ کسی دن ہمیشہ کے لیئے اُس سے روٹھ گئی ۔۔ تو پھر وہ کہاں جا ئے گا ۔۔۔؟؟؟

    ***********

    تین دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔ آپ پیکنگ کر لیں ۔۔ رات ارمان نے منتہیٰ کو آگاہ کیا ۔
    مگر دوسری طرف ہنوز گمبھیر خاموشی رہی ۔
    میری کسی مدد کی ضرور تو نہیں ۔۔؟؟؟ اُس نے بات کرنے کی ایک اور سعی کی
    نہیں۔۔ مختصر جواب آیا ۔
    میں ذرا امی ابو کو بتا دوں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کا سامنا پتا نہیں آج اتنا دشوار کیوں تھا ۔ منتہیٰ نے پہلو بچایا ۔
    ارمان کچن میں کافی بناتے ہوئے گاہے بگاہے ایک نظر اِس لڑکی پر ڈال لیتا تھا جو ایک ہی رات میں مزید کئی ماہ کی
    بیمار لگنے لگی تھی ۔۔۔لیکن وہ کیا کر سکتا تھا ،، فی الحال تو کچھ بھی نہیں ۔
    منتہیٰ میری جان ۔۔مجھے تمہارے اِس فیصلے سے جتنی خوشی ہوئی ہے میں بتا نہیں سکتا ۔۔ فاروق صاحب کی آواز شدتِ
    جذبات سے بوجھل تھی ۔۔ ہم نے تاریخ رکھ دی ہے آج ہی ۔
    تاریخ۔۔؟؟؟۔۔ اوہ اچھا ابو ‘ رامین کی شادی کی تاریخ کی بات کر رہے ہوں گے ۔۔ اُس نے غائب دماغی سے سوچا
    جی ابو ۔۔ میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔ صبح کا بھولا دیر ہی سے صحیح ۔۔ مگر گھر لوٹنے کو تھا ۔
    کال بند کر کے منتہیٰ بہت دیر تک سیل ہاتھ میں لیے روتی رہی ۔اور سامنے صوفے پر بیٹھے ارمان نے اُسے چپ کرانے کی کوئی
    بھی کوشش نہیں کی تھی ۔۔ وہ مزے سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا ۔ اور پھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
    فلیٹ سے باہرنکلتے ہی سیڑھیوں پر اس کی مڈ بھیڑ نینسی سے ہوئی ۔ جس نے اُسے دیکھتے ہی پہلے دیدے گول گول گھمائےپھر سیٹی بجائی ۔
    so finally you came … I said her..just wait and have faith
    اور جواب دینے کے بجائے ارمان اُسے سیڑھیوں سے نیچے دھکیلتا گیا تھا ۔۔۔
    رات سات بجے کی فلائٹ تھی ۔
    کلیئرنس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ ڈیپارچر لاؤنج پہنچے ۔۔تو ارد گرد کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث منتہیٰ ڈگمگائی ۔ارمان
    اُسے سہارا دینے کے لیے بڑھا ۔ دونوں کی نظریں ملیں ‘ کچھ لمحے بیتے‘ کچھ سا عتیں گزریں اورپھر منتہیٰ نے تیزی
    سے خود کو سنبھال کر اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ ارمان !منتہیٰ سہارے نہیں لیا کرتی ۔
    ارمان نے بمشکل خون کے گھونٹ پیے۔یہ لڑکی بھی نہ ۔’’ خیر منتہیٰ بی بی” ارمان یوسف بھی کم نہیں ۔۔یاد رکھو گی ۔
    ایئرپورٹ پر بہت سارے لوگ اُن کے منتظر تھے ۔۔ امی‘ ابو‘ رامین‘ جبران ۔۔ ارحم ، شہریار ۔۔ وہ آج بھی اُن سب کے
    لیے پہلے جیسی اہم تھی ۔۔۔اور معتبر بھی ۔
    دنیا کی ٹھوکریں کھا کر بالاخر اولاد واپس وہیں پلٹتی ہے ۔ جو ماں باپ بچپن سے سکھا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں لیکن عقل تبھی آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔ذلت ، تنہائی اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی گئی ہوں ۔ تو کیا کیجیے ۔۔ وہ لوٹ تو آئی تھی ۔ ۔ مگر آگے بڑھ کر گلے لگنے کی ہمت نہیں تھی ۔
    اولاد نکمی ہو یا ہونہار ۔۔کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹی ہو۔۔ یا ٹھوکریں کھا کر ۔۔ والدین کے لیے وہ صرف اُن کی
    اولاد اُن کے وجود کا ایک بچھڑا حصہ ہوتی ہے ۔اپنی آخری سانس تک وہ بازو وا کیے ۔ منتظر رہتے ہیں کہ طویل مسافتوں سے تھک کر مسافر اُن کی آغوش میں دم لینے کو ضرور پلٹے گا ۔۔ منتہی ٰ کے لیے بھی بازو و اکیے ماں بھی منتظر تھی اور باپ بھی ۔
    اور پھر آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ ارحم اور شہریار نے بہت دکھ اور حیرت سے ارمان کو
    دیکھا ۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی آنسو بہاتی لڑکی ۔۔ یہ کون تھی ۔۔؟؟۔
    یہ منتہیٰ دستگیر تو نہ تھی ۔۔ جسے ارحم آئرن لیڈی کہا کرتاتھا ۔
    اگرچہ طویل فلائٹ میں منتہیٰ نے صرف آرام ہی کیا تھا ۔۔ جس سے ارمان خاصہ بور ہوا تھا ۔۔ پھر بھی دادی کی گود میں سر رکھتے ہی وہ یوں بے فکر ہو کے سوئی کہ مغرب پر رامین نے اُسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔
    آپی اٹھیے ۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟
    ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ ویسے ہی تھکن ہو رہی تھی ۔۔منتہیٰ نے کیچر میں اپنے لمبے بال سمیٹے ۔
    مینا !اب اٹھ بھی جاؤ ۔ امی کمرے میں چائے کا کپ لے کر داخل ہوئیں ۔۔شادی کا گھر ہے ۔۔ پہلی ہی دسیوں کام ادھورے
    پڑے تھے ۔ اوپر سے تمہارے یہ جلد بازی کے فیصلے ۔۔ امی نے اُسے پیار بھری ڈانٹ سنائی ۔ عا صمہ بہت خوش تھیں
    جی امی! آپ فکر مت کریں میں رامین کے ساتھ سب کروا لوں گی ۔۔ اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔
    اچھا ۔۔ رامین کی شادی کے کارڈ تو چھپ کر آگئے ہیں ۔ اب تمہارے ابو اور دے آئے ہیں ۔تین چار دن میں مل جائیں
    گے ۔۔ امی نے اُسے مطلع کیا ۔
    اور کارڈ کیوں امی ۔۔؟؟؟ منتہیٰ چونکی
    ارے امی ۔۔آپ چولہے پر کچھ رکھ کر آئی ہیں ۔۔ دیکھیں جلنے کی بو آرہی ہے ۔۔ رامین کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے
    مجھے تو نہیں آ رہی ۔۔۔۔ امی نے برا سا منہ بنا یا ۔
    ارے امی جا کر تو دیکھیں ۔۔میں آپی کو شادی کے کپڑے دکھا تی ہوں ۔۔ رامین نے ماں کو راہ دکھائی ۔
    رامین یہ امی کون سے کارڈز کی با ت کر رہی تھیں ۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کی سوئی وہیں اٹکی رہ گئی تھی ۔
    وہ آپی ۔۔ رامین نے سر کجھایا ۔۔ ہاں وہ ۔۔ کارڈز کم پڑ گئے ہیں نہ۔۔ اب آ پ بھی تو اپنے فرینڈز کو انوائٹ کریں گی ۔
    تو ابو اور کارڈ چھپنے دے آئے ہیں ۔
    میں کس کو انوا ئٹ کروں گی ۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ نے غائب دماغی سے سوچا ۔
    آپی میں ذرا ایک کال کر آؤں پھر آکر آپ کو ڈریسز دکھاتی ہوں ۔۔ رامین باہر لان تک آئی اور ارمان کا نمبر پنج کرنے لگی
    امی نے ڈنر پر خاصہ تکلف کیا ہوا تھا ۔ ڈنر سے فارغ ہوکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ ڈور بیل بجی ۔ منتہیٰ چونکی اِس وقت ۔۔کون؟؟۔
    پھر آنے والوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔۔ پتھرائی ۔۔ ڈاکٹر یوسف کاسامنا کرنے کا حوصلہ اب تک اُس
    میں نہیں تھا۔۔ اُن کے ساتھ مریم اور ارمان بھی تھے ۔
    منتہیٰ نے بمشکل خود کو سنبھال کر سلام کیا ۔۔۔ مریم ہی نہیں ڈاکٹر یوسف نے بھی ایک بہت گہری نظر منتہیٰ کی حالت پر ڈالی۔
    اور پھر اپنے دیوانے بیٹے پر ۔
    تھوڑی سی دیر بیٹھ کر وہ اٹھ آئی ۔۔ اور اُس کے پیچھے رامین بھی ۔۔ آپی پھر کل میرے ساتھ چل رہی ہیں نہ شاپنگ پر ۔۔ رامین
    کی اپنی تیاریاں ہی کیا کم تھی کہ اب اُسے بہن کی مدد بھی کرنی تھی ۔

    ***********

    منتہیٰ کے جواب دینے سے پہلے دستک ہوئی۔۔ دروازے کے عین وسط میں ارمان سینے پر ہاتھ باندھے ایستادہ تھا ۔
    رامین لپک کر اُس کے سر پر پہنچی ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟ شرارت سے کمر پر ہاتھ رکھ کر اُس نے ارمان کا راستہ
    روکا ۔
    میں آنٹی اور انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں رامین بی بی ۔۔ ارمان اُسے پرے دھکیلتا ۔۔اندر آیا
    منتہیٰ میں یہ اپنی شادی کا کارڈ آپکو دینے آیا تھا ۔۔ اُس نے قریب آکر ایک گولڈن اور میرون امتزاج کا خوبصورت سا
    کارڈا س کی طرف بڑھایا ۔
    ایک لمحے کو منتہیٰ کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔ صرف ایک لمحہ۔ تھینک یو ۔۔ کب ہے آپکی شادی ۔۔؟ پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔
    وہ آپ خود پڑھ لیں ۔۔ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    ہاں آپی دیکھیں نہ کیسا ہے جناب کی شادی کا کارڈ ۔۔ رامین نے دوبارہ کارڈ اُسے تھمایا ۔۔ جو اَب سائڈ ٹیبل پر دھرا تھا ۔
    کیسا ہونا ہے۔۔؟؟ جیسے ویڈنگ کارڈ ہوتے ہیں ویسا ہی ہو گا ۔۔ انہوں نے کیا اپنا انسائکلو پیڈیا پبلش کروا یا ہوگا ۔؟؟
    منتہیٰ نے برا سا منہ بنا کر کارڈ دوبارہ تھاما۔
    ہاں میں نے سوچا کہ ۔۔ بندہ زندگی میں ایک ہی دفعہ شادی کرتا ہے تو کوئی یونیک سا کارڈ‘ کوئی منفرد ساآئیڈیا ہونا
    چاہیے۔۔ارمان کے لبوں بہت دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔
    اِس دشمنِ جاں کے منہ سے اُس کی شادی کا ذکر اور پھر ۔۔ یہ گہری مسکراہٹیں۔۔ منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار کرکارڈ کھولا ۔
    اور پھر زمین گھومی تھی ۔۔ یا آسمان ۔۔ وہ خواب میں تھی ۔۔ یا جاگتے میں خواب دیکھنے لگی تھی ۔۔ اُس نے ایک دفعہ آنکھیں مسل
    کر بغور کارڈ کو اور پھر حیرت سے ساتھ بیٹھی رامین کو دیکھا ۔
    بہت بہت مبارک ہو آپی ۔ ارمان بھائی آپ کے تھے اور آپ کے ہی رہیں گے ۔ رامین نے اُس کے گال چومے۔۔ کمرے
    سے رفو چکر ہوتے وقت وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی گئی تھی ۔
    ارمان آہستہ آہستہ کارپٹ پر قدم دھرتا اُس کے پاس بیڈ تک آیا ۔۔لیکن منتہیٰ ابھی تک گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا تھا ۔۔ ارمان سمیت اُن تمام نعمتوں کی نا شکری پر جو وہ آج تک کرتی چلی آئی تھی ۔
    نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور نیک عورتیں ، نیک مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں وہ نیک نہیں تھی پھر بھی نوازی جارہی تھی ۔
    "منتہیٰ”۔ ارمان نے بہت نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر اسے پکارا ۔۔۔ اور منتہیٰ کو لگا تھا کہ اُ سے ارمان نے نہیں ۔۔ زندگی
    نے پکارا تھا ۔۔ وہ اُس کے روٹھے نصیب کی پکار تھی ۔۔آنسو کا ایک سیلاب تھا جو اُس کی کجراری آنکھوں سے نکل کر ارمان کے
    شرٹ کو بھگوتا چلا گیا ۔
    دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک ۔۔ جیسے دونوں کو حال میں واپس لائی ۔۔منتہیٰ، ارمان کے بازوؤں سے تیزی سے نکل کر
    پیچھے ہٹی ۔۔ اورارمان بھی جیسے کسی خواب سے جاگا ۔
    رامین ہاتھ میں کافی کی ٹرے لیے اندر آئی ۔۔ تب تک وہ دونوں خودکو سنبھال چکے تھے ۔
    شکر کریں ۔۔ عین وقت پر میں نے امی کو روک لیا ۔۔ وہ کافی لے کر آرہی تھیں ۔۔ رامین نے ساری سچویشن سمجھتے ہوئے دونوں
    کو چھیڑا ۔۔منتہیٰ کے گال شہابی ہوئے۔
    شکر کیوں کریں۔۔ ہمیں پتا تھا باڈی گارڈ باہر ہی ہوگا ۔۔ ارمان کچھ کم ڈھیٹ نہیں تھا،
    اچھا زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔ جلدی سے کافی ختم کر کے یہاں سے نکلیں ۔۔ دادی ناراض ہو رہی ہیں آپ کے آنے پر ۔۔
    شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔۔؟؟
    رامین بی بی۔میں سب بڑوں کو بتا کر آیا تھا کہ منتہیٰ سے بک کے فائل لینی ہے ۔۔ تاکہ پبلشر سے بات کر سکوں ۔
    وہ تو ٹھیک ہے ۔۔ لیکن اگر اُن کو پتا لگ جائے نہ کہ آپ نے اُن کی لاڈلی کو کیسے ستایا ہے ۔۔ تو آپ کی خیر نہیں۔
    اُن کی لاڈلی نے بھی دوسروں کو کچھ کم دکھ نہیں دیئے سو تھوڑا حق میرا بھی بنتا تھا ۔ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مگ
    کے کناروں کو گھورا ۔۔کمرے میں یکدم گمبھیر خاموشی چھا گئی۔
    ارمان نے تیزی سے کافی ختم کر کے مگ رامین کو تھمایا ۔۔پھر چند قدم چل کر منتہیٰ کے بیڈ تک آیا ۔ جس کا سر ندامت سے جھکا
    ہوا تھا ۔۔ ارمان نے اُس کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا۔
    تو پھر آپ آ رہی ہیں نہ میری شادی پر ۔۔؟؟ اس کی آوا زہی نہیں ۔۔ نگاہوں میں بھی بے پناہ شرارت تھی ۔
    کمرے میں رامین کا اونچا قہقہہ گونجا ۔۔ بہت سی آزمائشوں ، کٹھن اور طویل انتظار کے بعد وہ ایک ہونے کو تھے۔۔’’کیونکہ
    وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے ۔”

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ایک ہفتے بعد وہ پوری طرح ہوش میں آئی تھی۔۔ اُس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں تھیں۔۔ جنھیں وہ جنبش دے سکتی تھی اور باقی سارا جسم جیسے بے جان تھا ۔۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کئی روز تک ۔۔منتہیٰ کے پاس آکر اسے جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دیکرجاتے رہے ۔۔ دس دن بعد اپنے پاس جو پہلا شناسا چہرہ اُسے نظر آیا ۔۔۔ وہ ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ بڑھی ہوئی شیو ۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔ اور سرخ متورم آنکھیں اُس کے رت جگوں کی گواہ تھیں ۔۔۔ منتہیٰ اُس سے نظر ملانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی ۔۔ سرابوںکے تعاقب میں جس شخص کو اُس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا ۔۔۔ وہ آج کڑے وقت پر سب سے پہلے آیا تھا ۔
    جس کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کے لیئے آج منتہیٰ دستگیر کو کسی عدسے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی ۔۔ کامیابیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ بھول گئی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے ۔۔ اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔’’ یقیناًیہ بد نصیبی کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان اپنے در پر آئی اللہ پاک کی رحمت کو ٹھکرا دے ۔۔ سچی محبت اور نیک جیون ساتھی عورت کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹیوں کو سر کرنے والی ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں ۔۔ کئی مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔فاروق صاحب۔ ڈاکٹر یوسف اور پھر ارمان ۔۔ خدا نے اُسے یہ تین مضبوط ستون عطا کیے تھے ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    مگر سارا کریڈٹ خود بٹورنے کی دُھن میں منتہیٰ نے منہ کی کھائی تھی ۔‘‘
    زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سا واقعہ یا حادثہ آپ کو کسی بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا ۔۔جہاں اسے ایک بے مصرف زندگی گزارنی پڑے گی۔۔ ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پر کیا کچھ بیت جاتی ہے ۔۔یہ وہی جان سکتا ہے جو اِن حالات سے گزرے۔۔ تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کااصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔
    پہلے اُس کے پاس زندگی کو سمجھنے کا وقت نہیں تھا ۔۔ اور اَب ۔۔ جب وقت ملا تھا ۔۔ تو زندگی اُس سے روٹھ گئی تھی ۔

    ***********

    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ۔۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے۔۔

    دو ماہ پہلے پیل لیک کے کنارے کاٹی ایک رات اُس کی زندگی کی کھٹن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔اور آج پھر ارمان کو ایک ایسی ہی رات کا سامنا تھا ۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔اُس رات ۔۔ جس دشمنِ جاں نے رلایا تھا اور آج اُسی کے دکھ میں آنسو چھلکے تھے ۔۔
    صبح اُس کی منتہیٰ کے ڈاکٹرز کے ساتھ فائنل میٹنگ تھی ۔۔ ڈاکٹرز کو سپائنل چورڈ کی ایم آر آ ئی رپورٹ کا انتظار تھا کیا وہ عمر بھر کے لیے معذور ہوجا ئیگی ۔۔۔ ؟؟ یہ سوال ۔۔ عجیب دیوانگی اور وحشت میں وہ شدید ٹھنڈ میں اسپتال سے نکلا تھا ۔۔یونہی سڑکوں پر دھول اُڑاتے اُس نے ساری شام کاٹی ۔۔ یہ دُھول تو شاید اب اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔

    زہر ملتا رہا ‘ زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے۔۔
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے ۔۔

    بے د ھیانی میں زور سے ٹھوکر لگنے پر ارمان منہ کے بل گرا ۔۔ اُس نے گرد آلود آنکھوں کو مسل کر دیکھا۔۔ سامنے ہاسٹن کا اِسلامک سینٹر تھا ۔۔ وہ آیا نہیں تھا ۔۔ لایا گیا تھا ۔۔ وضو کر کے وہ چپ چاپ امام صاحب کے گردلوگوں کے گروپ میں جا بیٹھا ۔۔جن کی شیریں آواز سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی ۔۔۔

    ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںُ ان کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے ، دل شکستہ نہ ہو ۔۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں ۔۔ تم پر یہ وقت اِس لیئے لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ۔۔ ‘‘ ( سورۂ الِ عمران) ۔

    خدا کی اِس وسیع و عریض کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے۔۔ ہر رات کہ بعد سحر اگر خدا کا قانون ہے ، تو ہر آسائش کے بعد تکلیف اور ہرُ دکھ کے بعدُ سکھ کی گھڑی بھی اِسی اللہ کے حکم سے میسر آتی ہے زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ ہر وہ شخص جس نے اچھا وقت دیکھا ہو ۔۔ اُسے کبھی نہ کبھی بدترین حالات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے اعمال سے کچھ لینا د ینا نہیں ۔۔ وہ ہر شے سے بہت بلند ہے ۔
    امام صاحب ایک لمحے توقف کو رکے ۔۔

    ”آپ کی زندگی میں آنا والا برا وقت خدا نخواستہ آپکے اعمال پر اللہ کا عذاب نہیں ہوتا ۔کبھی یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھٹک کر کہیں اور نکلنے لگے ہیں ۔۔ تو اپنی اوقات، اپنی اصل پر واپس آجائیے ۔کبھی یہ آزمائش ہوتی ہے ۔ جس طرح لوہا آگ میں تپ کر اور موتی سیپ میں ایک متعین وقت گزار کر باہر آتا ہے ۔اِسی طرح ہر انسان کے اندر چھپی اُس کی ہیرا صفت خصلتیں آزمائشوں کی کھٹالی سے گزر کر کچھ اور نکھر کر سامنے آتی ہیں اور اِس کھٹالی سے یقیناًوہی کندن بن کر نکلتے ہیں ۔جن کا ایمان اورتوکل خالص اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ "وقت کبھی رکتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن کچھ گھڑیاں ، کچھ ساعتیں ، کچھ آزمائشیں اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اور یقیناً فلاح وہی پاتے ہیں جو صرف اپنے رب سے مانگتے ہیں اور وہ اپنے ہر بندے کی یکساں سنتا ہے ۔۔”بے اختیار ارمان کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھے تھے ۔۔ اور ۔۔ دل کی گہرائیوں سے اَوروں کے لیئے مانگی جانے والی دعائیں اللہ تعالیٰ کے دربار سے کبھی رَد نہیں ہوا کرتیں ۔

    ***********

    منتہیٰ کے پاس سے کچھ دیر پہلے نینسی گئی تھی ۔۔ اُس نے کسلمندی سے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا۔۔ اور ارمان داخل ہوا ۔۔ اُس کے ہاتھ میں خوبصورت سا بُوکے تھا ۔
    آل اِز ویل ہر گز نہیں تھا ۔ مگر منتہیٰ کی ایم آر آئی حیرت انگیزطور پر کلیئر آئی تھی ۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی کا سلامت رہنا یقیناً ایک معجزہ تھا ۔لیکن اُس کی بائیں ٹانگ میں دورانِ خون بند تھا ۔۔ وقتی یا عمر بھر کی معذوری تلوار ہنوز سر پر لٹکی تھی ۔۔ لیکن ہمت توکرنا تھی ۔ ارمان ۔ آپ کو ڈاکٹرز نے ایم آر آئی رپورٹ دیکھ کر کیا بتایا ہے ۔۔؟؟ آئرن لیڈی ہر نا گہانی کے لیے خود کو تیار کیے بیٹھی تھی ۔ ارمان کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور منتہیٰ کی طرف اُس کی پشت تھی ۔۔ وہ مڑا ۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کے بیڈ تک آیا ۔۔
    ڈونٹ وری منتہیٰ ۔۔ آپ کی ایم آر آئی بالکل ٹھیک آئی ہے ۔۔ اور باقی باڈی انجریز سے صحت یاب ہونے میں آپ کو چارسے چھ ماہ کا عرصہ لگے گا۔۔ وہ آدھا سچ بتا کر آدھا چھپا گیا ۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے اُسے دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ کا گُھنا تھا ۔۔ اندر کا حال پتا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ۔ وہ گھنٹوں اسپتال میں اُس کے پاس یوں گزارتا ۔۔ جیسے سارے کاموں سے فارغ بیٹھا ہو ۔۔نیوز پڑھ کے سناتا ۔۔ کبھی ایس ٹی ای کے پراجیکٹس کی تفصیلات بتاتا ۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتا اور ایسٹرانامی پر اس کی پسند کے آرٹیکلز سرچ کرتا۔۔
    منتہیٰ کو ہاسپٹل میں دو ماہ ہونے کو آئے تھے ۔۔ اُس کے فریکچرز تیزی کے ساتھ بہترہو رہے تھے لیکن ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک اُسے ایکسر سائز اور ٹریٹمنٹس کی ضرورت تھی ۔۔جس کے لیے اس کے پاس کسی کا موجود ہونا ضروری تھا ۔ منتہیٰ فی الحال سفر کے قابل نہیں تھی اِس لیے فاروق صاحب ، رامین کو اس کے پاس ہاسٹن بھیج رہے تھے۔۔ رامین کی چند ماہ بعد رخصتی طے تھی ۔۔۔ مگر فی الحال اُن سب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ منتہیٰ کی صحت یابی تھی ۔

    ***********

    اُن کا ہیلی کاپٹر تقریباً۲۱ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا ۔ اِس سے پہلے منتہیٰ کی ساتھی ٹرینر مارلین ۔ نندا اور ربیکا اِسی بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھیں اور نیچے اُن کے پیرا شوٹ چھتریوں کی طرح گول گول گھومتے نظر آ رہے تھے ۔’’ون ۔۔ ٹو۔ ۔ تھری ‘‘۔۔
    اور پھر انسٹرکٹر کے ا شارے پر منتہیٰ نے جمپ لگائی ۔۔۔ بچپن سے امی اور دادی کی ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی ہدایت آج بھی اُس کے ساتھ تھی ۔
    تقریباًپندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر آکر انہیں پیرا شوٹ کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔۔ ایک ، دو ، تین ۔۔۔ ہر دفعہ بٹن دبانے پر صرف کلک کی آواز آئی ۔۔۔ شدید گھبراہٹ میں اُس نے نیچے چودہ ہزار فٹ کی گہرائی کو دیکھا ۔۔
    ’’ہیلپ می اللہ ۔۔ ہیلپ می اللہ۔۔۔‘‘
    دو مہینے میں یہ خواب شاید اُسے دسویں بار نظر آیا تھا ۔۔ وہ دوپہر کی سوئی تھی ۔۔اوراب مغرب کا وقت تھا۔۔ اُس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر۔۔ ارمان جانما ز پر دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔ منتہیٰ یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔۔۔ دو ۔۔ پانچ ۔۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر جا نماز لپیٹی اور پلٹا۔۔ منتہیٰ کو یوں اپنی جانب دیکھتا پاکر چونکا ۔۔۔
    آپ کب جاگیں منتہیٰ۔۔؟؟۔۔ وہ آج بھی پہلے کی طرح احترام سے اُس کا نام لیتا تھا ۔ لیکن منتہیٰ کچھ کہے بغیر چپ چاپ چھت کو گھورتی رہی ۔۔ وہ کچھ قریب آیا
    کیا بات ہے منتہیٰ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ ٹمپریچر تو نہیں ۔۔؟؟
    اور پیشانی پرُ اس کے لمس نے جیسے منتہیٰ کی ساری حسیات بیدار کردی تھیں ۔۔ بہت دنوں سے ۔۔ بہت سے رکے ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔
    اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا ۔۔۔ یہ آنسو ۔۔ اُس کے لیے اجنبی تھے ۔۔ آئرن لیڈی کبھی روئی ہی نہ تھی ۔۔ منتہیٰ۔۔ کیا بات ہے ۔۔ درد بڑھ گیا ہے کیا ۔۔؟؟ ۔۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
    ار۔۔ارمان۔۔وہ اَٹکی اندر بہت کچھ۔ بہت پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا ۔۔ بس ایک اعتراف ۔ایک معافی ۔۔
    ’’ارمان مجھے معاف کر دیں ‘‘۔۔۔ہچکیوں کے درمیان بہ مشکل ارمان کو اُس کے الفاظ سمجھ میں آئے۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔۔ منتہیٰ کو یوں روتے دیکھنا ۔۔ اُس کے لیے دو بھر تھا ۔۔
    آنسو نہ کسی کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں ۔۔ نہ کم ہمتی کی ۔۔ اشک بہہ جائیں تو من شانت ہو جاتا ہے ۔۔ رکے رہیں تو اندر کسی ناسور کی طرح پلتے رہتے ہیں ۔۔ پانی اگر ایک لمبے عرصے تک کسی جوہڑ یا تالاب میں رکا رہے تو گدلا اور بد بو دارہو جاتا ہے ۔
    ارمان نے اُسے رونے دیا ۔۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ اپنے سیل کی مدہم سی بیپ پر وہ کمرے سے باہر آیا ۔۔

    ***********

    یار تجھے اپنی جاب کی کوئی فکر ہے یا نہیں ۔۔؟؟ ۔۔دوسری طرف اَرحم ۔۔ چھوٹتے ہی برحم ہوا ۔۔۔ آج فائنل نوٹس آ گیا ہے ۔ اگر تو نے ایک ہفتے تک آفس جوائن نہیں کیا تو ۔۔ تیری چھٹی ہے سمجھا تو ۔۔
    ارمان نے گہری سانس لیکر دیوار سے ٹیک لگایا ۔۔ وہ مجنوں تھا نہ رانجھا ۔ کہ اپنی ہیر کے لیے بن باس لے کر بیٹھا رہتا ۔۔
    پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک بہترین جاب ۔۔ ہر نوجوان کا خواب تھی ۔۔
    میں اِسی ہفتے پاکستان آجاؤں گا ۔۔ ارمان نے اَرحم کو مطلع کیا
    دیٹس گڈ ۔۔ پر تیری ہیر کا کیا ہوگا ۔۔؟؟
    منتہیٰ کے پاس چند روز تک رامین آجائے گی ۔
    چل یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔ یہ بتا کہ وہ پاکستان کب تک آسکیں گی ۔۔۔؟؟
    پاکستان وہ کیوں آئیں گی ۔۔ صحت یاب ہوکر وہ واپس ناسا کے مشن پر جائیں گی ۔۔ اُن کو اپنے خواب جو پورے کرنے ہیں
    نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوا ۔۔
    اور تیرا کیا ہوگا پیارے ۔۔؟؟۔۔ تو جو دو ماہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاسپٹل کا ہوا بیٹھا ہے ۔۔۔ اُ ن کی زندگی میں تیری جگہ ۔۔
    کدھر ہے۔۔۔؟؟؟
    اَرحم ۔۔۔کلوز دس ٹا پک پلیز۔۔ وہ برحم ہوا ۔۔ یہ اس کی دھکتی رگ تھی ۔۔ ہر زخم تازہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی تو مند مل نہیں ہوا تھا ۔۔
    مگر وہ دشمنِ جاں شدید اذیت میں تھی ۔۔۔اور اب ۔۔ ایک گہری چوٹ کھا کر نادم بھی ۔۔۔
    ہر فیصلہ وقت کے ہاتھوں چھوڑ کر وہ ہاسپٹل سے فلیٹ چلا آیا ۔۔ ۔ جو اس نے ایس-ٹی-ای کے کچھ امریکی سپانسرز کی مدد سے حاصل کیا تھا ۔۔۔اُسے اب پیکنگ کرنا تھی ۔۔ اِس فلیٹ میں چند دن بعد منتہیٰ نے رامین کے ساتھ منتقل ہوجانا تھا۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    رامین سیو دی ارتھ کی ہفتہ وار میٹنگ میں تھی جب اسے سیل پر امی کی کال موصول ہوئی ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ اپنی فائلزسمیٹتی ہوئی وہ باہر لپکی تھی کہ پیچھے سے آتی ارمان کی آواز نے قدم روکے ۔
    "رامین کیا بات ہے ۔۔ سب خیریت ہے نہ "۔۔؟؟
    "ارمان بھائی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں مجھے جلدی گھر پہنچنا ہے” ۔۔ اُس نے تیزی سے قدم بڑھائے۔۔۔
    "میرے ساتھ آؤ وہ پارکنگ میں اپنی کار کی جانب بڑھا "۔۔۔ دو گھنٹے بعد وہ ہاسپٹل میں تھے ۔۔ فاروق صاحب کو ہلکا سا انجا ئناکا درد ہوا تھا ۔ارمان نے اپنے گھر اطلاع دے دی تھی ۔۔ سو ٹریٹمنٹ اور ٹیسٹس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب رات نوبج وہ گھرپہنچے ۔
    تو ڈاکٹر یوسف اور مریم پہلی ہی وہاں موجود تھے ۔
    ارمان ، رامین کو ڈھونڈتا ہوا اُس کے کمرے تک آیا ۔۔ پھر ٹھٹکا ۔۔
    منتہیٰ بھی سکائپ پر رامین کے عقب میں ارمان کو دیکھ کر اُچھلی ۔۔ وہ ہاتھ میں برگر لیے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔”اور باہر اولڈ کیمبرج پر بادل ٹوٹ کر برس رہے تھے”۔۔رامین کب کی رفو چکر ہو چکی تھی ۔
    "ارمان آپ یہاں ۔۔ رامین کے روم میں "۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔ اور ارمان اس کی آواز پر جیسے خواب سےجاگا تھا ۔۔ "آج کتنے ماہ بعد ۔۔ دیدارِ یار نصیب ہوا تھا "۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "منتہیٰ ایکچولی "۔۔ "فاروق انکل کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو میں ۔۔ ممی پاپا کے ساتھ ابھی آیا تھا "۔۔
    کیا ہوا ابو کو ۔۔؟؟
    "کچھ نہیں بس ہلکا سا درد تھا انہیں ۔۔ اب ٹھیک ہیں وہ "۔۔
    "میں ابو سے بات کرتی ہوں "۔۔
    "منتہیٰ سب ٹھیک ہے” ۔۔ ارمان اسے روکتا ہی رہ گیا مگر وہ سکائپ آف کرکے گھر کے نمبر پر کال ملا چکی تھی ۔۔
    "امی، ابو کو کیا ہوا ہے”۔۔؟؟اس کی آوا ز میں بے پناہ تفکر تھا۔۔ عاصمہ کی آنکھیں بھیگیں ۔۔ان کی مرد بیٹی جب تک اُن کے پاس تھی ۔۔وہ کبھی ایسی تشویش سے نہیں گزری تھیں ‘ جس کا سامنا انہیں آج ہوا تھا۔
    ۔۔””ہر گھر میں بڑی بیٹی ماں کے سب سے زیادہ قریب ہی نہیں ہوتی ۔۔ ماں کے حالِ دل کی سب سے بڑی گواہ بھی ہوتی ہےاور اُس کے رازوں کی امین بھی
    "کچھ نہیں بس تھوڑی طبیعت خراب ہوئی تھی ۔۔ ٹیسٹ ہوئے ہیں کچھ ۔۔تم پریشان مت ہو "۔۔ وہ اپنی پریشانی چھپا گئیں
    "اچھا رپورٹس کب آئیں گی "۔۔؟؟ ۔”آپ پلیز اپنا خیال رکھنا پریشان نہیں ہونا "۔۔
    "رپورٹس ارمان کل لے آئے گا۔۔ بہت خیال کرتا ہے ۔۔ ابھی بھی تمہاری دادی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا رہا ہے "۔۔ عاصمہ نے سامنے دیکھاجہاں دادی اپنی پوتی کے منگیتر سے ناز اٹھوا رہی تھیں ۔۔
    اور منتہیٰ نے سکون کی سانس لے کر کال بند کی ۔
    اگلے روز شام کو ارمان آفس میں تھا جب واٹس ایپ پر منتہیٰ کا مسیج آیا ۔۔۔ مجھے ابو کی رپورٹس سینڈ کریں ۔۔
    "رپورٹس کلیئر ہیں ۔۔ ڈونٹ وری "۔۔ اُس نے کام میں مصروف وائس مسیج کیا ۔۔
    "میں نے کہا ،مجھے رپورٹس کی امیج سینڈ کریں "۔۔۔ جواب آیا
    ارمان کو غصہ چڑھا ۔۔۔” آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے "۔۔؟؟
    "نہیں "۔۔
    "رامین کا یقین کریں گی آپ”۔۔؟؟
    "نہیں”۔۔
    "پھر آپ کس کا یقین کرتی ہیں "۔۔؟؟
    "صرف اور صرف اپنی آنکھوں کا "۔۔ سمائل ایموجی کے ساتھ جواب آیا
    ارمان نے بھنا کر موبائل سکرین دیکھی ۔۔۔” منتہیٰ بی بی "۔۔ "اگر گِن گِن کے سارے بدلے نہیں لئے نہ ۔۔ تو میرا نام بھی ارمان یوسف نہیں "۔
    ****************
    وقت کا دھارا بہتا رہا۔۔سات ماہ یوں پلک جھپکتے میں گزرے کہ پتا ہی نہیں چل سکا۔۔اور اب منتہیٰ کے بعد ارمان کی روانگی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
    "سیو دی ارتھ فاؤنڈیشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ فردِ واحد یا مخصوص شخصیات پر ہر گز انحصار نہیں کرتی ۔۔ ہم نے شروع ہی سے اس کا نیٹ ورک کچھ ایسا رکھا ہے کہ نئے لوگ تیزی سے آگے آکر پرانے قابل لوگوں کی جگہ کور کرتے
    رہیں ۔ہم ہر چھ ماہ بعد ونگ کمانڈرز اسی لیے تبدیل کرتے رہے کہ کسی بھی کڑے وقت میں ہمارے پاس قیادت کا بحران نہیں ہو ۔۔ مجھے امید ہے کہ میری غیر موجودگی میں سارے پراجیکٹس ، میٹنگز سب کچھ اسی طرح جوش و خروش سے
    چلتا رہے گا "۔۔
    ارمان یوسف کی سکالر شپ پر "ییل یونیورسٹی "کے ٹیلی کام کورس کے لیے روانگی سے پہلے یہ اس کی آخری میٹنگ تھی۔منتہیٰ برین ونگ کی کمان کے لئے جانے سے پہلے ہی بہترین لوگ نامزد کر گئی تھی۔۔ اور پچھلے کچھ عرصے سے سٹڈیز کی
    کی بے پناہ مصروفیات کے باعث وہ ایس ٹی ای سے تقریباٌ لاتعلق تھی ۔۔۔ لیکن ارمان سمیت ۔۔ منتہیٰ کو قریب سے جاننےوالوں کو علم تھا ۔۔ "وہ لا تعلق ہو کہ بھی لا تعلق نہیں تھی ۔۔ وہ کچھ نا کچھ کر ہی رہی ہوگی "۔
    ارمان کو نا جانے کیوں یہ یقین سا تھا کہ سٹڈیز کے لیے بیرونِ ملک اُس کا یہ قیام ۔۔۔فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا۔۔ "اور ہمیشہ کی طرح اپنے اندازوں میں ایک دفعہ پھر وہ سو فیصد درست تھا "۔۔
    ائیرپورٹ پر اسے سی آف کرنے دوستوں اور ایس ٹی ای کارکنان کا ایک جمِ غفیر آیا ہوا تھا ۔۔ وہ یوتھ کا ہیرو تھا ،جس نے اپنی دن رات کی انتھک محنت سے ایک وسیع علاقے کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کر کے ان کی تقدیر بدل دی تھی ۔۔۔ کوہاٹ سے
    سکھرتک اب لاکھوں کارکنان اِس قافلے کا حصہ تھے”۔۔
    اُس نے پاکستان سے ڈائریکٹ نیو ہاوان کے بجائے میسا چوسٹس کی فلائٹ لی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی موسلا دھار بارش تھمی تھی ۔
    منتہیٰ سائنس سینٹر سے باہر نکلی ہی تھی کہ اُس کا سیل تھرتھرایا ۔۔ "ارمان کالنگ "۔
    "ہیلومنتہیٰ”۔۔ "میں یہاں ہارورڈ کیمپس پر ہوں ۔۔ آپ اس وقت کہاں ہیں "۔۔؟؟ارمان کی آواز بہت پُرجوش تھی۔۔۔ کئی ماہ سے ان کی سلام دعا کے علاوہ بات ہی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ منتہیٰ کو سٹڈیز اور اس کی ریسرچ نے اَدھ مواکیا ہوا تھا تو ارمان جاب اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے درمیان گھن چکر بنا ہوا تھا۔
    منتہیٰ نے سیل کو حیرت سے گھورا ۔۔ "ارمان اور یہاں کیمپس میں” ۔۔؟؟
    ٹھیک بیس منٹ بعد وہ سائنس سینٹر پر تھا ۔۔ "بلیو جینزگرے شرٹ کے ساتھ براؤن جیکٹ اورآنکھوں پر گلاسز ۔۔بہت سی لڑکیوں نے اُسے مڑ کر دیکھا ۔۔ وہ اِس توجہ کا عادی تھا "۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "آنکھیں حالِ دل چھپانے سے قاصر تھیں ۔مگر نگاہوں کی زبان سمجھ کسے آتی تھی”۔۔؟؟
    منتہیٰ کے ساتھ اس کی کلاس فیلو نینسی تھی ۔۔۔”اوہ سو ہینڈسم ۔۔ ُ ہو اِز ہی مینا ۔۔”۔۔؟؟
    I am Arman Yousaf .. Her fiancé…
    ارمان نے اَزخود تعارف کروایا ۔۔
    OH! Meena why didn’t you tell me before… he is so graceful…
    نینسی نے دل تھام کر دیدے نچائے ۔۔۔ نینسی کی نان سٹاپ چلتی زبان پر منتہیٰ کو اکثر فاریہ یاد آجایا کرتی تھی ۔
    "ہیپی برتھ ڈے منتہیٰ "۔۔۔ ارمان نے خوبصورت سا ٹیولپ بُو کے اس کی جانب بڑھایا ۔ اس کے شولڈر پر ایک بیگ تھا ۔۔ اور ہاتھ میں کیک کا پیکٹ ۔۔۔
    "اوہ ۔برتھ ڈے پارٹی”۔۔ نینسی نے خوشی سے نعرہ لگایا اور چھلانگیں لگاتی ہو ئی ایک سمت غائب ہو گئی ۔
    ارمان نے خاصی دلچسپی سے اِس نمونے کو دیکھا ۔۔ "میں تو سمجھا تھا ، فاریہ زمین پر ایک ہی پیس ہے ۔۔ مگر اُس کی تو اور کاپیز بھی موجود ہیں "۔۔وہ ہنسا ۔۔ تو منتہیٰ چونکی ۔۔ "اُن دونوں کا تجزیہ ایک جیسا تھا "۔۔
    "آئیں چلیں کہیں بیٹھ کے پہلے کیک کاٹتے ہیں "۔۔ ارمان نےِ ادھر اُدھر کسی پر سکون گوشے کی تلاش میں نظر دوڑائی۔۔ "وہ اولڈکیمبرج سے قطعاٌ فینٹی سائز نہیں تھا "۔۔
    سینڈرز تھیٹر کی طویل سیڑھیوں پر ایک جانب جاکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ نینسی کوئی درجن بھر کلاس فیلوز کے ساتھ سر پر آدھمکی ۔۔
    وہ سب ارمان سے بہت خوش دلی سے ملے تھے ۔۔ نینسی کے نائف سے ہیپی برتھ ڈے کے شور میں منتہیٰ نے کیک کاٹا ۔دس منٹ بعد وہ ساری جنجال پارٹی کیک کا صفایا کر کے رفو چکر ہو چکی تھی ۔۔۔
    "آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ آرہے ہیں "۔۔؟؟ منتہیٰ کو یکدم یاد آیا
    "منتہیٰ بی بی”۔”کچھ یاد ہے ۔۔ آخری دفعہ آپ کی مجھ سے کب بات ہوئی تھی "۔۔؟؟ ۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی
    "وہ بس میں بہت مصروف تھی‘ وقت نہیں ملتا "۔۔۔ منتہیٰ نے ٹالا
    "جی ۔۔ میں بھی بزی تھا ۔۔ مجھے بھی ٹائم نہیں ملا بتانے کا "۔۔۔ جواب حاضر تھا ۔۔ منتہیٰ نے نوٹ کیا وہ بدل گیا تھا ۔۔ لیکن اس کا ایک سو بیس آئی کیو اِس معاملے میں ہمیشہ غلط نتیجہ ہی نکالتا تھا ۔
    ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں ” ییل یونیورسٹی ” جا رہا ہوں۔ ٹیلی کام کورس کے لیے ۔۔ فلائٹ میں نے میسا چوسٹس کی لی تھی تاکہ آپ سے ملاقات ہو جائے۔ یہ سب نے آپ کے لیے گفٹ بھیجے ہیں ۔ اس نے ایک بیگ منتہیٰ کی طرف بڑ ھایا
    لیکن منتہیٰ کی سوئی کہیں اور اٹکی رہ گئی تھی ۔۔”ارمان ۔ییل یونیورسٹی۔۔ پھر تیزی سے خود کو سنبھال کر ۔ اُس کے ہاتھ سے بیگ لیا۔”
    وہ بہت دیر تک ارمان سے پاکستان میں ایک ایک کے بارے میں پوچھتی رہی ۔۔ وہ اسے سیو دی ارتھ کی پروگریس کےمتعلق بتاتا رہا ۔
    اُنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایک ساتھ بیٹھ کے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے لنچ کیا ۔۔ شام ڈھلے جب ارمان منتہیٰ کو ہولسیارڈ(ڈورم) چھوڑ کر پلٹا تو دل بہت مسرور تھا۔۔ "اگر اَرحم آج یہاں ہوتا تو مارے حیرت کے بے ہوش ہی ہو جاتا "۔۔
    "آئرن لیڈی نے چنے چبانا چھوڑ دیئے تھے ۔۔ یا ۔۔یہ بہت دنوں کی تنہائی کا اثر تھا "۔۔؟؟
    ارمان کو تیزی سے ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔۔ اس کی رات دو بجے نیو ہاوان کی فلائٹ تھی ۔۔
    ڈورم پہنچ کر منتہیٰ نے بیگ اپنے بیڈ پر رکھ کر کھولا ۔ امی نے اس کے کئی من پسند کھانے اپنے ہاتھوں سے پکا کر ٹن پیک میں بھیجے تھے ۔۔۔”مونگ کی دال ، آلو کے پراٹھے اور لہسن کا اچار ، مولی کی بھاجی”۔
    ۔۔””ماں کی محبت کا تو اِس دنیا میں کوئی مول ہی نہیں
    رامین نے نے اس کے پسندیدہ ایمبرائیڈری والے کرتے اور سکارف بھیجے تھے ۔ابو نے پرفیوم اور یوسف انکل نے کچھ اسلا می کتابیں بھیجی تھیں ۔ او ر سب سے نیچے ایک مخروطی چھوٹے سے ڈبے کے اندر ایک نازک سا گولڈ بریسلٹ تھا ۔منتہیٰ
    نے انگلی کی پوروں سے اسے چھوا۔ ارمان نے اسے پہلی دفعہ کوئی تحفہ دیا تھا۔۔ "مگر اسے تو جیولری کا کبھی کوئی شوق ہی نہیں رہا تھا”۔
    اس نے ڈبہ بند کر کے رکھنا چاہا ۔تو ایک لمحے کو پیچھے لکھے الفاظ پر نگاہیں ٹہریں۔
    "forever yours, Armaan”
    اگلے رو ز منتہیٰ نے نینسی کو وہ سارے مزیدار کھانے کھلائے ۔۔ جو امی نے اُسے بھیجے تھے ۔۔
    Meena! your Mom is really an excellent chef .. .. By the way, what
    did Armaan present you??
    نینسی نے منٹوں میں سب چَٹ کرتے ہی شرارت سے دیدے نچائے ‘ بہت کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے اُسے بریسلٹ دکھایا ۔۔ واؤ ۔۔ نائس چوائس ۔
    "He really loves you”

    جاری ہے
    ****************

     

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "فاریہ انعام سے میری پہلی ملاقات الحمراء آرٹس کونسل میں ہوئی تھی جو کچھ وجوہات کی بنا پر زیادہ خوشگوار نہیں تھی "۔اَرحم تنویر نے ایک شریر سی نظر منتہیٰ پر ڈالی ۔جو اُس کی طرف متوجہ نہیں تھی ۔
    "پھر اِس کے ہم جب جب ملے ، جہاں جہاں ملے ‘ وہ ملاقاتیں یقیناٌ میری زندگی کی کتاب میں سنہری یادوں کی طرح ہمیشہ محفوظ رہیں گی ” پھر وہ ایک لمحے کو رکا ۔
    "ویسے فاریہ”۔۔”یہ اتنے خوبصورت الفاظ میں صرف اپنی تقریر کو پُر اثر بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہوں ۔۔ آپ اسے سچ مت سمجھ لینا "۔۔ سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا ۔
    "میری ساری دعائیں اس مظلوم بندے کے ساتھ ہیں جس کے پلے آپ بندھنے جا رہی ہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ اُسے ہمت ، حوصلہ اور صبرِ جمیل عطا فرمائے "۔۔۔”آمین "۔۔ کسی مولانا کی طرح دعائیہ کلمات ادا کر کے ارحم اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا ۔
    یہ فاریہ کے لیے ایس ای ٹی کی جانب سے دی جانے والی فیئر ویل تھی ۔ ارحم کے بعد ارمان اور دیگر ونگ کمانڈر ز نے فاریہ کو فُل ٹریبیوٹ دیا تھا ۔ اُن سب کی خواہش تھی کہ وہ شادی کے بعد بھی فاؤنڈیشن کا ایک سر گرم حصہ رہے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ریفریشمنٹ شروع ہوتے ہی حسبِ عادت منتہیٰ ہال سے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھی ‘ ارمان کوک کے دو کین لے کر اُس سےکچھ فاصلے پر آکر بیٹھا اور ایک کین اس کی طرف بڑھایا ۔
    منتہیٰ کو اِس وقت واقعی طلب تھی ۔بنا پس و پیش کین لے کر کھولا اور دو تین لمبے لمبے گھونٹ لیے۔
    ارمان نے ایک گہری ترچھی نظر اس پر ڈالی ۔۔ "تو اب آپ بھی ہارورڈ سدھارنے کو ہیں”۔۔؟؟
    منتہیٰ نے ایک سِپ لے کر اثبات میں سر ہلایا ۔
    "کب تک روانگی ہے "۔۔؟؟؟۔۔ارمان کا دل بجھا
    "یہی کوئی ایک ڈیڑھ ماہ "۔۔
    اسی وقت منتہیٰ کا سیل تھر تھرایا ۔۔ وہ سکرین دیکھ کر ایکسکیوز کرتی ہوئی اٹھی ۔
    اور ارمان نے بہت پھرتی کے ساتھ اپنے کین سے اُس کا کین سے بدل لیا ۔ منتہیٰ کے کین سے سپ لیتے ہوئے اسے لگاتھا۔۔آج سے پہلے اتنا لذیذ کولڈرنک اس نے نہیں پیا ۔۔ وہ گھونٹ گھونٹ کر کےُ سرور اندر انڈیلتا گیا ۔
    پانچ منٹ بعد آکر منتہیٰ نے اپنا کین اٹھایا ۔۔ بہت تیزی کے ساتھ تین چار لمبے سپ لے کر خالی کین ایک جانب اچھال دیا ۔
    اور ارمان کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا ۔ ’’ منتہیٰ دستگیر کا ایک سو بیس آئی کیو ‘محبت کے ذائقے سے ہنوز نا آشنا تھا "۔

    *************

    وہ کہیں بہت بلند چوٹی پر کھڑی تھی کہ یکدم اُسکا پاؤں رِپٹا اور پھر ہزاروں فٹ کی بلندی سے گہری کھائی میں گرتی چلی گئی ۔ منتہیٰ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اورسا ئڈ لیمپ آن کیا ۔ گزشتہ ایک سال میں یہ خواب وہ کئی دفعہ دیکھ چکی تھی۔
    فجر کی اذان پر وہ چونک کر اٹھی ۔
    نماز پڑھ کر منتہی ٰ کمرے سے باہر آئی تو افق پر پُو پھٹنے کو تھی ۔ امی کچن میں چائے بنا رہی تھیں اور دادی قرآن پاک کی تلاوت شروع کر چکی تھیں ۔وہ دادی کی جا نماز کے پاس دوزانوں بیٹھ کر سنتی گئی ۔
    ٌ ’’کائنات میں ہر جگہ خدا کا قانونِ ربوبیت کارفرما ہے اور تمام ستا ئش صرف اُسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے ، اگر تم ذرا بھی غور و فکر سے کام لو ‘تو یہ حقیقت’ سمجھنے تمہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کہ زندگی صرف سانس کی آمد و شد کا نام نہیں ہے ، جب انسان کی زندگی کا مقصد محض جسم کی پرورش اور حفاظت رہ جائے تو اُس کے سامنے کسی بلند مقصد یا محکم اصول کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔اگر سانس کے بند ہو جانے کے ساتھ ز ندگی کاخاتمہ ہو جاتا ۔۔ تو پھر انسان کے سامنے کوئی بلندمقصد ہی نہ رہے‘‘۔

    *************

    عاصمہ نے منتہیٰ کو آواز دی وہ چونک کر کچن کی طرف بڑھی ۔چائے لےکر پلٹنے لگی تھی جب عاصمہ نے اُسے ہاتھ پکڑ کراپنے سامنے چیئر پر بٹھایا ۔
    مینا ‘ تم میری سب سے لائق اولاد ہو اِس لیے میں نے تمہیں کبھی کسی کام سے نہیں روکا لیکن اِس دفعہ پتا نہیں میرا دل کیوں ہول رہا ہے !۔ مینا میری جان مت جا ‘ میرے دل کو قرار نہیں ۔ عاصمہ کی آوازآنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی ۔
    منتہیٰ نے چونک کر ماں کو دیکھا اور پھر دیکھتی ہی گئی ۔’’نجانے خدا نے ماؤں کو کیسی حسیات اور کتنی آنکھیں دی ہیں ۔ جو کچھ کہے بغیر بھی اولاد کے اندرکا حال ہی نہیں مستقبل میں آنے والے اِن خطرات کو بھی بھانپ لیتی ہیں جن سے اولاد گزرنے والی ہو ۔”
    "ارے امی”۔۔ "اِرسہ بھی تو اتنا دور لندن چلی گئی ہے ۔۔ میں کون سا مستقل جا رہی ہوں ۔۔ بس سال دو سال ہی کی تو بات ہے "۔اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر دلاسہ دیا پھر ان کی پیشانی چومی ۔۔ مگر عاصمہ اسے کیا بتاتیں کہ ان کے دل کو قرارکیوں نہیں تھا ۔۔؟؟؟۔
    اور ایک عاصمہ ہی کیا ۔۔ ایئر پورٹ پر ہر کسی نے اُسے بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا تھا ۔
    رامین اور فاروق صا حب کی آنکھیں پر نم تھیں تو ڈاکٹر یوسف کی پیشانی پر گہرا تفکر تھا ۔ اِس کشیدہ سی صورتحال کوتوڑنے کے لیے ارحم تنویر آگے بڑھا ۔
    "یہ ٹیڈی بیئر آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ پاکستان میں آپ کا ایک بھائی تھا جو آپ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا "۔۔اس نے منتہیٰ کی طرف ایک ریڈ چھوٹا ٹیڈی بیئر بڑھایا ۔ منتہیٰ نے بیئر تھام کر پرس سے سے ایک سلور پین نکال کر ارحم کوتھمایا ۔
    "اور یہ پین آپ کو یاد دلاتا رہے گا کہ میں نے انشا ء اللہ واپس یہیں آنا ہے "۔ ارحم نے حسبِ عادت قہقہہ لگا کر شکریہ ادا کیا ۔
    پھر شہریار نے منتہیٰ کی طرف ایک بُوکے بڑھا کر آہستہ سے کہا ۔”آئی ول مس یو "۔۔
    "می ٹو”۔۔ ارمان کے دوستوں میں ایک شہریار ہی تھا جس سے منتہیٰ کی بنتی تھی ۔۔ کیو نکہ وہ اُسی کی طرح صلح جوتھا۔۔
    "میم”۔۔کیا یہ ڈائیلاگ ارمان تک پہنچا نا ہے ۔۔؟؟ ارحم کب باز آنے والا تھا ۔۔
    ارمان کی غیر موجودگی سب نے ہی محسوس کی تھی ۔۔جو اِن دنوں ڈاکٹر عبدالحق کے ساتھ جاپان کے ٹرپ پر تھا ۔۔
    "جی نہیں” ۔۔ انتہائی خشکی سے جواب دیکر منتہیٰ پلٹی
    "آپی تو اُن کے لیے بھی کچھ چھوڑتی جا ئیں نہ "۔۔ اب کہ رامین نے اُسے چھیڑا ۔
    رامین کو ٹھینگا دکھاتی ہوئی منتہیٰ تیزی سے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاؤنج کی طرف بڑ ھتی گئی ۔ اُس کا دل بہت بھاری اور آنکھیںپر نم تھیں ۔ "وہ ہارورڈ کی ڈریم لینڈ میں قدم رکھنے جا رہی تھی "۔

    *************

    اور سنا! کیا پروگریس ہے پراجیکٹ کی ۔۔ صہیب میر تفصیلات جاننے کے لیے اوور ایکسا ئیٹڈ تھا ۔
    "زبردست یار "۔۔ "ریسپانس ہماری توقع سے بڑھ کر رہا "۔۔ ارمان کی آنکھوں میں جیسے قندیلیں سی روشن تھیں ، وہ ایک روزپہلے ہی جاپان سے واپس آیا تھا ۔
    کچھ عرصے پہلے جاپان کی ایک کمپنی نے زلزلے کے لیے سٹیلائٹ سگنلز کے پراجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور سپارکو کی معاونت سے ارمان اِس پراجیکٹ کا ایم او یو سائن کر کے آیا تھا ۔۔” دنیا بھر میں رات میں آنے والے زلزلے بہتزیادہ جانی نقصان کا
    سبب بنتے ہیں کیونکہ گہری نیند میں ہو نے کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد سوتی رہ جاتی ہے "۔
    ٹی وی انٹینا کی طرز پر بنایا گیا یہ سگنل سسٹم نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسزکے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے ایس ٹی ای کے جی آئی ایس ونگ نے تیار کیا تھا جسے ابتدائی طور پر چترال ، دیر بالاکوٹ اور اُن سے ملحقہ ان علاقوں میں لگایا جانا
    تھا جہاں رات کے وقت زلزلے کے جھٹکے معمول تھے ۔
    "یار ۔بلاآخر ہماری دن رات کی محنتیں رنگ لے ہی آئیں ۔۔آج ہمارے پاس سپارکو اور پاک آرمی کے علاوہ انٹرنیشنل سپورٹ بھی ہے” ۔۔۔ شہریار اپنے پراجیکٹ کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہا تھا ۔
    "بالکل "۔۔ "پاک آرمی گزشتہ کئی سال سے ہماری ہر طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔ ہماری نیت صاف تھی ۔۔ سونہ صرف ہمیں کلیئرنس ملی بلکہ انٹر نیشنل سپورٹ بھی "۔ صہیب نے سیو دی ارتھ کو بھرپور ٹری بیوٹ دیا ۔
    "یہ تیرا کیوں منہ لٹکا ہوا ہے "۔۔؟؟۔۔ ارمان نے اَرحم کو چپ چپ دیکھ کر پوچھا
    "یار۔۔۔ آئی ایم مسنگ مائی آئرن لیڈی”۔۔۔ اَرحم نے منہ بسورا
    "اگر تیرا کڑوی کسیلی باتیں اور ڈانٹ کھانے کو دل کر رہا ہے ۔۔ تو انہیں فون کر کے بلا لے پیارے "۔۔ عاصم نے منہ بنایا
    "لو وہ تو کب کی ہارورڈ چلی بھی گئیں ۔ تمہیں نہیں پتا ۔۔لاسٹ ٹائم آئی تھیں ملنے "۔۔ شہریار نے عاصم کو مطلع کیا ۔
    "اچھا منتہیٰ کب آئی تھیں "۔۔؟؟؟۔۔ ارمان چونکا
    "جانے سے کچھ دن پہلے آئی تھیں ۔۔ اور خلافِ مزاج ۔۔لوہے کے چنوں کی جگہ پاپ کارن چبا رہی تھیں "۔۔ اَرحم نے دانت نکالے۔
    ارمان نے ہنستے ہوئے چیئر کی پشت سے ٹیک لگاکر آنکھیں موندیں۔وہ دشمنِ جاں اتنی دور چلی گئی ۔۔ اور وہ مل بھی نہیں سکا۔۔
    "ویسے میں اور ارحم ائیر پورٹ سی آف کرنے گئے تھے انہیں "۔۔ شہریار نے اُسے آگاہ کیا
    "مجھے ایک پین گفٹ ملا اور شہری کو ۔۔ مِس یُو ٹو ۔۔۔ لیکن تیرے لیے وہ صرف یہ ۔۔چھوڑ کے گئی ہیں "۔۔ ارحم نے شرارت سے ارمان کے سامنے ٹھینگا نچایا۔
    "مجھے انہوں نے بہت جلد اپنا سب کچھ سونپنا ہے تو زیادہ فکر مت کر "۔ ارمان نے اسے ایک زوردار دھپ لگائی ۔پھر کچھ سوچتا ہوا اپنا سیل اٹھاتا باہر آیا۔ اور منتہی ٰ کا نمبر ڈائل کیا جو انٹرنیشنل رومنگ پر تھا۔
    بیل جاتی رہی۔۔وہ منتہیٰ کی عادتوں سے واقف تھا ۔۔ مگر عین ممکن تھا کہ نئی جگہ پر وہ واقعی اس وقت مصروف ہو ۔۔ سو کال کاٹ کراس نے رامین کا نمبر ملایا تاکہ منتہیٰ کی ٹائمنگ معلوم کر سکے۔
    اگلے روز رات کو منتہیٰ بستر میں گھسی گہری سوچوں میں غرق تھی۔
    "پابندیاں انسان کو کبھی کبھی بوجھ کیوں لگنے لگتی ہیں "۔؟؟؟ اس نے انتہائی کوفت سے چھت کو گھورا۔۔ ڈورم لا ئٹس رات ٹھیک ٹائم پر آف ہو جایا کرتی تھیں ۔ جبکہ وہ لیٹ نائٹ سٹڈی کی عادت تھی ۔
    ہارورڈ میں سٹوڈنٹس کے ڈورمز یارڈ کہلاتے ہیں ۔۔جو ایک وسیع ایریا پر پہلی ہوئی مختلف بلڈنگز ہیں جن میں سے کچھ سترویں صدی کی ہیں ۔۔آئی وی یارڈ میں کینڈی بلڈنگ میں دو سو پچیس سٹوڈنٹس کی رہائش کی گنجائش ہے جبکہ منتہیٰ کو رہائش "ہولس یارڈ”
    میں ملی تھی جو ہارورڈ کا سینٹر کہلاتا ہے ۔ سائنس سینٹر ہی نہیں ‘ رابنسن اور اَمرسن لیکچر ہالز یہاں سے چند منٹوں کے فاصلے پر تھے ۔یارڈ میں چار چار سٹوڈنٹس کا مشترکہ بیڈ روم اور باتھ روم تھا ۔۔ منتہیٰ کے ساتھ لوزیانا کی میری‘ ہوائی کی باربرا ‘ او ر
    الاسکا کی کیلی رہائش پزیر تھیں ۔
    منتہیٰ کی ٹو دی پوائنٹ بولنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت یہاں بھی بر قرار تھی ۔ دیگر فارن سٹوڈنٹس کی طرح اس نے نہ تو پورا ہارورڈ گھومنے کی زحمت کی تھی نہ ہی ۔۔یا "سینڈرز تھیٹر "یا "جان ہارورڈ سٹیٹیو "میں اپنی سیلفیز بنا کر فیس بک یا انسٹا گرام پر اَپ لوڈ کی تھیں ۔ اس کی واحد تفریح ہارورڈ سکوائر سے کچھ فاصلے پر واقع دنیا کی وہ ٹاپ ٹین لائبریریتھیں جہاں وہ کچھ کھائے پیے بغیر بھی پورا دن گزار سکتی تھی ۔ اِن میں کیمبرج پبلک لائبریری اپنے وسیع رقبے اور قدیم تاریخ کے باعث اُس کے لیے سب سے زیادہُ پر کشش تھی ۔
    کمبل منہ تک لپیٹے منتہیٰ جانے کن سوچوں میں گم تھی جب موبائل تھر تھرایا ۔۔۔ "ارمان کالنگ "۔۔
    اُس نے کال ریسیو کر کے بہت آہستہ سے ’ہیلو‘کی مبادہ اس کی کوئی ڈورم میٹ جاگ نا جائے ۔”تینوں میں سے کوئی بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھائی تھیں”۔
    "ہیلو منتہیٰ کیسی ہیں آپ "۔۔؟؟
    "ٹھیک ہوں "۔۔ ہمیشہ کی طرح مختصر جواب آیا
    "سوری میں لاسٹ ٹائم آپ سے مل نہیں سکا ۔۔ شہریار نے بتایا آپ ملنے آئی تھیں” ۔۔۔
    "میں صرف آپ سے ملنے نہیں گئی تھی "۔۔۔
    "جی۔۔ آئی نو ڈیٹ "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "یو نوواٹ کہ ایس ٹی ای کو بہت بڑی ریسیپشن ملی ہے ۔۔جاپان میں سائن کیے گئے ایم او یو کی تفصیلات بتاتے ہوئے ارمان کی آنکھوں میں دیئے سے روشن تھے”۔ مگردوسری طرف خاموشی رہی ۔۔
    "آپ کو خوشی نہیں ہوئی”۔۔؟؟
    ہوئی!!۔
    "لگ تو نہیں رہا "۔۔ ارمان کو مایوسی ہوئی
    "خوش کیسے ہوا جاتا ہے "۔۔؟؟ سوال آیا
    "خوش "۔۔ ارمان ایک لمحے کو روکا ۔۔”خوش ہوا جاتا ہے اچھی اچھی باتیں کر کے ۔۔ مستقبل کی سہانے سپنے دیکھ کے "۔۔۔
    اُس کی آواز میں کچھ تھا ۔۔ منتہیٰ جل ہی تو گئی ۔۔
    "بائی دی وے” ۔۔”یہ خیالی پلاؤ پکانا کہلاتا ہے "۔۔۔
    "تو کیا حرج ہے کبھی کبھی خیالی پلاؤ پکانے میں "۔۔۔ ارمان ہنسا
    "تو آپ پکائیے میں نے آپ کو کب روکا ہے "۔۔ جواب حاضر تھا
    "منتہیٰ”۔۔” کیا ہم کچھ دیر اچھے دوستوں کی طرح بات نہیں کر سکتے "۔۔ ؟؟ ۔۔ اب کہ ارمان کے لہجے میں سختی تھی
    "جی کہیے "۔۔۔ خلافِ توقع مثبت جواب آیا
    "ہم”۔۔ دوسری طرف ارمان نے گہری سانس لیکرسے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔۔ "کیسی لگی آپ کو یونیورسٹی ۔۔ڈورم میٹس کیسی ہیں”۔۔؟
    "ہارورڈ اِز اے ونڈر لینڈ” ۔۔” ڈورم میٹس بس گزارا ہیں "۔۔۔ منتہیٰ نے منہ بنا کر سوتی ہوئی تینوں بلاؤں کو دیکھا
    ارمان ہنسا ۔۔۔ "وہ جانتا تھا ۔۔ منتہیٰ کو نئے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں وقت لگتا ہے "۔۔۔
    "اچھا سب کو کتنا مِس کرتی ہیں آپ”۔۔۔؟؟
    "جتنا کرنا چاہئے "۔۔۔ ٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا ۔
    "ہمم۔۔۔ شکریہ” ۔۔
    "آئی مِس یُو ٹو "۔۔ شرارت سے کہہ کر ارمان کال کاٹ چکا تھا ۔۔
    منتہیٰ نے غصے سے سکرین کو گھورا ۔۔”خوش فہمی ۔۔ ہو نہہ

    جاری ہے
    *************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "لاسٹ سمیسٹر میں منتہیٰ کی مصروفیات بہت بڑھ چکی تھیں ۔۔”
    ایک تو کوا نٹم میکینیکل ویوز جیسے مشکل موضوع پر تھیسس کا چیلنج ۔ اور پھر ایس ٹی ای کے برین ونگ کی کمانڈ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ وہ ویکلی میٹنگ میں نہیں جا پاتی ۔ لیکن اپنی ویکلی ریسرچ ،کوئی نیا آئیڈیا ، یا پریسنٹیشن وہ ارسہ اور رامین کے ہاتھ بھیج دیا کرتی تھی۔
    سوات میں کامیابی کے ساتھ اپنے پہلے ڈیزاسٹر سینٹر کا افتتاح کرنے کے بعد اب ارمان اور اس کے ساتھی دیراور بالا کوٹ میں سینٹرز کے قیام کے لیے متحرک تھے۔
    اگلے مرحلے میں انہیں ٹریننگ کے لیے مقامی افراد بھرتی کرنے تھے تاکہ سینٹر کے معاملات کی وہ ازخود دیکھ بھال کر سکیں ۔ چونکہ زلزلے سے انفرا سٹرکچر کی مکمل تباہی کے باعث مقامی باشندوں کی اکثریت بے روزگار تھی اور ان کے گھروں میں
    فاقوں کی نوبت آچکی تھی ۔
    اس روز ان کی اسی سلسلے میں ویکلی میٹنگ تھی ۔ وہ لیکچرز کے بعد کینٹین کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ارمان کا سیل تھرتھرایا
    "خوشحال خان کالنگ۔۔”
    ارمان نے نے سکرین دیکھی اور دوستوں سے ایکسکیوز کرتا ہوا ایک جانب بڑھا ۔۔ وہ مسلسل تین روز سے اس شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "آ ئی ایم سوری ۔۔۔ آپ کو زحمت ہوئی ۔۔ایکچولی میں ایک ہفتے سے ملک سے باہر ہوں "۔۔ ابتدائی سلام دعا کے بعدخوشحال نے معذرت کی۔
    "اٹ از اوکے "۔۔ "سر مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی تھی۔۔ ہم سوات کے بعد دیر اور کالام میں بھی ڈیزاسٹر سینٹرزقائم کرنے جا رہے ہیں ۔ اینڈ یو نو واٹ کہ ان علاقوں کے زیادہ تر نوجوان بے روزگار ہیں۔۔ ہمارے پاس فی الحال اتنے
    وسائل نہیں کہ ٹریننگ کے ساتھ انھیں معقول تنخواہ بھی دے سکیں "۔۔ ارمان نے مختصر الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا۔
    "جی میں اس حوالے سے آپ کی تفصیلی ای میل دیکھ چکا ہوں ۔۔ اور میرا بھرپور تعاون آپ کے ساتھ ہے۔۔ میرا سیکرٹری اس سلسلے میں کل آپ سے ملاقات کرے گا ۔”
    اور دو سری طرف ارمان کو یوں لگا تھا کہ ہفتوں سے جو بھاری بوجھ وہ اپنے کندھوں پر لیے پھر رہا تھا ‘ اسے لمحوں میں اس سےنجات ملی تھی ۔۔
    "خدا بے شک سب سے بڑا کارساز ہے وہ نیتوں کا اخلاص جانچتا ہے اور جب کوئی ایک دفعہ اس کی کسوٹی پر پورا اتر تا ہے تو پھر غیب سے یوں مدد ہونے لگتی ہے کہ بعض اوقات عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ مہینوں سے کتنوں کے سامنے اپنا یہ مسئلہ بیان کر چکا تھا۔کتنوں کے در پر مالی امداد کے لیے دستک دی تھی ۔ان میں کئی اس کے اپنے خونی رشتے بھی تھے ۔لیکن جب بات مال کی ہو اورو ہ بھی خلقِ خدا کے نام پر دینے کی ہو تو ہر کوئی یوں اعلیٰ درجے کا بخیل بن بیٹھتا ہے جیسے یہ دولت اسکی اپنی ملکیت ہے ۔راہِ خدا میں دو لاکھ کیا دو ہزار دینے سے بھی ہر کسی کی جان جاتی ہے۔۔ تب ہم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ وہ ذاتِ پاک جو ہم سب کو نواز رہی ہے اگر کسی روز اس نے یونہی ہم پر اپنی رحمتوں کے در بند کر دیئے تو پھر کون ہے جو ہماری ناؤ کو پار لگا سکے۔ہم قطعاَ فراموش کر بیٹھتے ہیں کے مال دینے سے گھٹتا نہیں بڑھتا ہے۔”
    ارمان بات ختم کر کے دوستوں کی طرف لوٹا توخوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔ ارحم نے بغور اس کی کیفیت نوٹ کی ۔وہ اسکی رگ رگ سے واقف تھا۔
    "خیر تو ہے کس کی کال تھی ؟”
    "کچھ خاص نہیں ۔۔ تم لوگوں نے کچھ منگوایا نہیں کھانے کے لیئے۔۔؟ "۔ارمان نے بات گول کی ۔وہ یہ’’ بڑا دھماکہ‘‘ شام کو میٹنگ میں ہی کرنے کا رادہ رکھتا تھا۔
    اس کے گول مول سے جواب پر ۔۔ارحم نے شہریار کو آنکھ مار کر متوجہ کیا ۔۔ "دال میں کچھ کالا ہے ۔”
    "لگتا ہے تجھے آج مس منتہی ٰ نے کال کر لی ہے جو تیری بانچھیں یوں کھلی پڑ رہی ہیں ۔۔”
    "جسٹ شٹ اپ ارحم ! مذاق ایک حد میں اچھا لگتا ہے ۔۔ وہ مجھے کیوں کال کریں گی "۔ خلافِ توقع ارمان ہ بھنایا۔
    "شاید شام کی میٹنگ کے بارے میں کچھ بات کرنا ہو "۔۔ اس کے کڑے تیور دیکھ کر ارحم نے بات سنبھالی
    "اول تو ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔ان کو جو بات کرنی ہو وہ براہِ راست میٹنگ میں ہی کرتی ہیں۔۔ اور اگر کبھی ضرورت پڑی بھی تو اس میں خوش ہونے والی بات کوئی نہیں "۔۔ درشتی سے اپنی بات مکمل کرتا ۔۔چیئر پیچھے دھکیلتا ۔۔ارمان کینٹین سے نکلتا چلا گیا۔
    "ابے یار ۔ اس کو کیا ہوا ۔۔ ارحم نے بے یقینی سے شہریار کو دیکھا۔۔؟”
    "ڈفر آ دمی ۔۔تجھے کہا کس نے تھا اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کو "۔۔؟؟ شہریار اسے گھورا
    "دکھتی رگ "۔۔ہا ہا ہاہا ۔۔ ارحم لگاتار قہقہے لگاتا گیا ۔۔
    "بڑا شوق تھا نہ جناب کو یو نیک سی لڑکی کا ۔۔ ملے کوئی ایسی جو مجھے چیلنج کرے۔۔ سو اب بھگتے ۔۔ کرے جستجو اسے پانے کی”۔۔ارحم نے ہنستے ہوئے پورا سموسہ منہ میں ٹھونسا ۔
    خبیث ۔۔ چپ کر جا ۔۔ شہریار نے ارد گرد سے سٹوڈنٹس کو اس طرف متوجہ دیکھ کر اسے ایک دھپ رسید کی ۔۔ یونیورسٹی میں ایسی باتیں پھیلتے دیر نہیں لگتی ۔۔اور ارمان تو تھا بھی لڑکیوں کا فیورٹ۔۔ نہ جانے کتنے دل ایک ساتھ ٹوٹتے۔۔
    **********
    "میں یہ بات آپ سب کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ مسئلہ جس کے باعث کئی ماہ سے ہماری جدوجہد کافی سست ہوگئی تھی کسی حد تک حل ہو گیا ہے”۔ ارمان نے شام کو میٹنگ میں ایک لمحے کے لیئے رک کر سب کے چہروں کو ٹٹولا ۔
    منتہی ٰ کے علاوہ سب ہی اس کی متوجہ تھے۔۔
    صبح کینٹین کی بدمزگی وہ بھولا نہیں تھا ۔۔۔ اس پر میڈم کی یہ لا تعلقی ۔۔ اس کا حلق تک کڑوا ہوا۔۔ خود کو سنبھال کر ۔۔اس نےبات کا سلسلہ جوڑا۔
    "جی۔۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ’’معاشی امداد ‘‘ ۔۔ ہمارے ایک خیر خواہ خوشحال خان کی طرف سے مکمل مالی امداد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور کل اس سلسلے میں میری ان کے بندے سے میٹنگ ہے۔” ارمان نے اپنی بات مکمل کی تو
    ڈاکٹر عبد الحق نے اپنی چیئر سے اٹھ کر اس سے گرم جوشی ہاتھ ملایا ۔۔ باقی سب ساتھی بھی بہت دیر تک ٹیبل بجا کر چیئر اپ کرتے رہے۔
    ارمان نے تند نظروں سے ارحم کو گھورا ۔۔ "اب پتا لگا کس کی کال تھی ۔۔”
    "پھر اب ہمیں اپنی بھرپور تیاریوں کے ساتھ دیر اور کالام کا رخ کرنا ہے ۔۔ارحم نے تیزی سے بات کا رخ پلٹا ۔۔ اس جیسے ڈھیٹ پیس کم ہی تھے ۔
    "سر ۔ میں یہاں ایک پوائنٹ سامنے لانا چاہوں گی "۔۔ منتہی ٰ نے مداخلت کی ۔
    "یس منتہی ٰ "۔۔سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔”سوائے ارمان کے” ۔۔
    "میرا خیال ہے کہ جو افراد ہماری مکمل مالی معاونت کر رہے ہیں ہمیں انہیں اپنی ویکلی یا ماہانہ میٹنگ میں مدعو کرنا چاہیے ۔اس سے ایک طرف تو وہ ہمارے مستقبل کے منصوبوں سے پوری طرح آگاہ ہو کر ان میں بھی بھرپور معاونت کریں گے دوسری طرف ہمیں ان کے سوشل سرکل سے بھی مالی یا فنی مدد حاصل ہو سکے گی کیونکہ خوشحال خان جیسے افراد کے ہر شعبے میں وسیع تعلقا ت ہوتے ہیں” ۔ ہمیشہ کی طرح منتہی ٰ آج بھی الرٹ تھی۔۔
    ارمان جو لا تعلق سا بنا سامنے دیوارکو گھور رہا تھا ۔۔ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔۔ یہ کتنا اہم پوائنٹ اس نے نظر انداز کیا تھا ۔۔
    "اگر وہ اکڑتی تھی ۔ تو یقیناًاس میں ایسا کچھ تھا بھی جس پر اکڑا جائے۔۔ مگر ارمان جانتا تھا۔۔’’ وہ مغرور نہیں تھی ۔‘‘۔۔وہ درد مند دل رکھنے والی ایک بہادر لڑکی تھی ۔۔طوفانوں سے لڑ جانے والی‘‘۔۔ "اور اچھے مرد ایسی باکردار لڑکیوں کو جھکا کر
    انھیں توڑانہیں کرتے ۔وہ ان کے لیئے خود جھک جاتے ہیں ۔۔ارمان کے دل میں منتہی ٰ کی عزت اس روز کچھ اور بڑھ گئی تھی۔”
    **********
    مختلف شہروں میں ڈیزاسٹر اور کمپیوٹر ٹریننگ سینٹرز قائم کرنے سے کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی تھی ۔انہوں نے ہر علاقے میں کچھ ایسا سلسلہ رکھا تھا کہ پہلے سے موجود مقامی افراد نئے آنے والے
    لوگوں تربیت دے کر آگے بڑھائیں ۔۔تا کہ ونگ کمانڈرز کو مسلسل ایک علاقے میں رکنے کی زحمت نہ کرنی پڑی ۔
    کارکنان کی تعداد بڑھنے سے بہت سے نئے پر عزم اور جفا کش اور محنتی ساتھی انہیں ملے تھے مگر اس بات کا اعتراف تو ڈاکٹرعبدالحق بھی برملا کرتے تھے کہ ارمان اور منتہیٰ کا نعم البدل اب تک ان کے پاس نہ تھا ۔ ۔ جس طرح ان دونوں نے اپنے اپنے
    ونگ میں مسلسل متحرک رہتے ہوئے بہت تھوڑے عرصے میں کمپین کو ایک مضبوط فاؤنڈیشن میں ڈھالا تھا ۔وہ ان کی اپنے ہموطنوں سے سچی محبت کا غماز تھا۔
    َ َ لیکن صرف منتہیٰ اور ارمان ہی نہیں کئی اور بہت سے ارکان بھی اَنتھک محنت کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والی اس کمپین کی کامیابی اور استحکام کے لیئے دن رات متحرک تھے ایک طرف شہریار جہانگیر اپنے چند ساتھیوں کے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز کے ریموٹ سینسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اپنے جی آئی ایس سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے میں جان لڑائے ہوئے تھا۔ تو دوسری طرف فاریہ ، ارحم اور دیگر اراکین کی زبردست سوشل میڈیا کپمین نے ایس ٹی ای کو بہت کم عرصے میں یوتھ کی ایک ہر دل عزیز تحریک میں ڈھالا تھا ۔
    اِس کے لوگوز والے شرٹس،کیپس یہاں تک کے بیگز اور مگزتک مارکیٹ میں آ چکے تھے جنہیں نوجوان ہاتھوں ہاتھ خریدا کرتے تھےاور یہ سب رقم چیریٹی میں جاتی تھی جس کی ایک ایک پائی کا حساب فنانشیل ونگ کے پاس تھا اور وہ کسی بھی طرح کے آ ڈٹ کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔
    آہستہ آ ہستہ پاک آ رمی سمیت کئی اور اداروں کی سپورٹ انہیں حاصل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔اپنی سچی لگن اور بلند عزائم کے ساتھ وہ سب ہی اپنے اپنے ونگ کو پوری طرح متحرک رکھنے کے ساتھ سٹڈیز کو بھی بھرپور ٹا ئم دے رہے تھے۔
    **********
    انہی دنوں لاہور میں ملیریا کی وباء پھوٹی جس کا زیادہ تر شکار بچے اور عمر رسیدہ فراد ہوئے۔
    ارمان سمیسٹر امتحانات کی وجہ سے کئی ہفتوں سے ویکلی میٹنگ سے غائب تھا ۔ مگر منتہی ٰ نے رامین اور اور اس کے بیچ میٹ میڈیکل سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر ملیریا اٹیک ، حفاظتی تدابیر اور بچاؤ سے متعلق بھرپور آگاہی مہم چلائی ۔ جس سے مرض
    کے پھیلاؤ کو روکنے میں کافی مدد ملی ۔
    بد قسمتی سے پروفیسر ڈاکٹر یوسف بھی ملیریا کا شکار ہوگئے۔ وہ کئی روز سے ہاسپٹل میں ایڈ مٹ تھے ۔۔مگر منتہی ٰ ملیریا مہم اور ایم فل ایڈ میشن کے چکر میں کچھ ایسی پھنسی ہوئی تھی کہ فاریہ لوگوں کے ساتھ ہاسپٹل جانا ممکن نہیں ہوا ۔۔
    سو وہ شام میں ابو کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی ۔
    سر کو پھول دے کر وہ پیچھے ہٹی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور ارمان اندر داخل ہوا ۔۔۔
    ایک لمحے کو ٹھٹکا ۔۔ "آج کافی عرصے بعد اِس دشمنِ جاں کا دیدار نصیب ہوا تھا ۔۔”
    "یہ میرا بیٹا ہے ارمان "۔۔ سر یوسف نے فاروق صاحب سے ارمان کا تعارف کروایا۔ تو انہوں نے اٹھ کر کافی گرمجوشی کے ساتھ ا س سے معانقہ کیا۔
    "ماشااللہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی بیٹا، ارسہ اور رامین سے آپ کی بہت تعریفیں سنی تھیں ۔۔ خدا آپکو آپ کے مقصد میں کامیاب کرے "۔۔ آمین
    "اس ڈائریکٹ تعریف پر ارمان تھوڑا خجل ہوا ۔ بس انکل جو بھی ہے سب آپ بزرگوں کی دعاؤں سے ہے "۔۔ اس نے جھک کر عاجزی سے جواب دیا ۔۔۔
    اور مینا کا پارہ آسمان پر پہنچا ۔
    "ابو بھی بس کمال کرتے ہیں کیا ضرورت تھی اِسکی اتنی تعریف کرنے کی "۔۔غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوا
    ارمان نے اُسے کنکھیوں سے دیکھا ۔۔ پھر مسکرایا ۔۔ "وہ جیلس تھی”
    "منتہیٰ آ پ کے ایم فل ایڈمیشن کا کیا ہوا ؟؟”۔سر یوسف نے پوچھا
    "پاپا پلیز فی الحال آپ صرف آرام کریں اپنے دماغ کو پر سکون رکھیں” ۔۔ منتہی ٰ کے جواب دینے سے پہلے ہی ارمان باپ پر بگڑا
    "ارے یار۔میں نے صرف پوچھا ہی تو ہے میں کون سا پڑھانے بیٹھ گیا ہوں ۔۔ تم تو مجھے ڈاکٹر لگنے لگے ہو ۔۔”
    سر نے منہ بسورا تو ارمان مسکرایا ۔۔ "شکر کریں ابھی میں یہاں ہوں۔۔ ممی ہوتی تو آ پ کو لگ پتا جانا تھا ۔۔”
    "وہ ہوتیں تو پھر کس کی زبان میں دم ہوتا ۔ ویسے خیر آنے ہی والی ہوں گی” ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے گھڑی دیکھی۔
    "یہ لڑکا مجھے بہت اچھا لگا ۔۔ ویری امپریسیو ۔ اِس کی آ نکھوں ا ور ماتھے کی چمک بتاتی ہے یہ کچھ غیر معمولی کر دکھا ئے گا "۔۔۔ ابو کی سوئی باہر پارکنگ آنے تک وہیں اَٹکی ہوئی تھی ۔۔۔
    اور منتہیٰ کا پارہ بس اب پھٹنے کو تھا ۔۔ پہلے فاریہ، رامین اورارسہ ہی اِس کے گُن گاتی تھیں اب ابو بھی ۔۔
    "میرا کنٹری بیوشن کسی کو کیوں نظر نہیں آتا۔۔ ہونہہ ۔۔”
    ارمان کی تعریف اور منتہی ٰ کو ہضم ہو جائے نا ممکن ۔ "پتا نہیں وہ اُس سے اتنا کیوں چڑتی تھی ۔۔۔ ؟؟؟”

    جاری ہے
    **********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جنت شاید کوئی ایسی ہی جگہ ہوگی ۔۔۔”
    سوات اور کالام میں ہر سو بکھرے حسن کو دیکھ کر فاریہ بے اختیار بول اٹھی ۔۔
    "لیکن اس جنتِ ارضی کو انسان کس طرح جہنم بنا رہا ہے ۔۔ اِس پر بھی غور کرو”۔۔ منتہیٰ کا مدلل جواب حاضر تھا۔
    "پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ”۔۔ فاریہ نے کسی فلاسفر کی طرح سر ہلایا ۔۔
    وہ گزشتہ ایک ہفتے سے دیر ، سوات ، بالا کوٹ اور ملحقہ علاقوں کی خواتین میں اویئرنیس کمپین ( شعور و آ گہی کی مہم )چلانے کے لیےرامین ، پلوشہ ،سنبل غازی ونگ کی کئی اور لڑکیوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں ۔
    اگرچہ وہ غازی ونگ میں نہیں تھیں پر ارمان اور ڈاکٹر عبدالحق کے اسرار پر منتہیٰ کو ساتھ آن پڑا تھا کیونکہ ایس ٹی ای کے خواتین ونگ کی شمالی علاقہ جات کے دور دراز علاقوں میں یہ پہلی کمپٔین تھی۔ان علاقوں کی خواتین شرحِ خواندگی کم ہونے کے باعث زلزلے یا سیلاب کی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے لا علم تھیں،منتہیٰ اور برین ونگ کے چند دیگر کمانڈرزکا آئیڈیا تھا کہ خواتین ممبرز گھر گھر جا کر ان میں آفات سے ازخود نمٹنے کا شعور پیدا کرنےکی کوشش کریں تاکہ وہ بروقت اپنی اور بچوں کی جان بچا سکیں۔ پچھلے تباہ کن زلزلے کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں بچوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    وہ گروپس کی صورت میں مختلف علاقوں میں علی الصبح نکل جاتیں اور سارا دن در در کی خاک چھان کر واپس کیمپس لوٹ آتیں۔
    "ہم ایک لا حاصل مقصد کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں "۔۔ کمپین کے چھٹے روز تھکی ہاری کیمپ پہنچ کر فاریہ پھٹ پڑی
    "خیریت کیا ہوا ؟؟ "۔ارمان قریب ہی ایک اونچے پتھر پر بیٹھا چائے پی رہا تھا
    "کیا ہوا ؟۔۔یہ پوچھیے کہ کیا نہیں ہوا ۔۔”
    "ہم سارا دن بمشکل پانچ خواتین سے ملاقات کر پائے ۔۔ جس گھر پر دستک دو، وہاں خونخوار سے بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی نکل کر ہمیں یوں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں۔۔ جیسے ہم داعش کی نمائندہ ہوں "۔رامین بہت اَپ سیٹ تھی
    "اور جن خواتین سے ہمیں کسی نہ کسی طرح شرفِ ملاقات نصیب ہوا ۔۔ اُن کے پلے ہماری بات نہیں پڑ تی ۔۔۔ پلوشہ نےانہیں مقامی زبان میں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر ہماری باتیں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں "۔۔ سنبل نے بھی بھڑاس نکالی
    "تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟”۔۔ ارمان نے باری باری اِن سب کے ستے ہوئے چہروں کو دیکھا
    "بس ہم کل سے کمپین پر نہیں جائیں گے "۔۔ رامین نے جیسے فیصلہ صادر کیا
    "گرلز اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھی، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں”۔ ارحم نے دانت نکالے
    "ٹھیک ہے پھر کل سے آپ خود جائیے گا ، دیکھتے ہیں کتنے پانی میں ہیں آپ”۔۔ ہونہہ ۔ فاریہ کا چہرہ غصے اور تھکن سے سرخ تھا۔
    "میں اس وقت گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ہوں آپ لوگ چاہیں تو پیمائش کر سکتی ہیں۔ ارحم نے جو چشمے کے کنارے پانی میں پاؤںمیں ڈالے بیٹھا تھا "۔۔۔ فاریہ اور رامین کو مزید طیش دلایا ۔
    "ہاں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں ، سارا دن گرمی میں خوار ہونے پڑے گا نہ تو نانی یاد آجا ئے گی ۔”
    "نانی اماں میری کب کی جنت کو سدھار چکی ہیں ، مگر یاد کرنے کے لیے کچھ اور لوگ بھی ہیں میری زندگی میں ۔ ارحم نے ایک سردآہ بھری”۔۔ "اس دشت پیمائی میں یونیورسٹی کی’’ راحتیں ‘‘اسے بہت یاد آرہی تھیں۔”
    "بے فکر رہ ! جب تو واپس لوٹے گا نہ تو وہ ساری ۔ کہیں اور بندوبست کر چکی ہوں گی”۔ ارمان نے اس کے قریب جاکر ایک دھپرسید کی۔ اگرچہ منتہیٰ ان سے کچھ فاصلے پر تھی، مگر ان کی نوک جھونک اس تک پہنچ رہی تھی۔
    "تو بھی کچھ لوگوں کی زیادہ فکر مت کیا کر ۔ اب ہم ان کی وجہ سے سقراط تو بننے سے رہے”۔ ارحم نے جھک کر سرگوشی کی۔تو ارمان نےکھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔
    "میم منتہیٰ”۔ "آپ کیا کہتی ہیں اس بارے میں ، کیا اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھنا عقل مندوں کا کام ہے”۔ ارحم نے منتہیٰ کو قدرے اونچی آواز میں مخاطب کیا ۔فاریہ کا بس نا چلتا تھا کہ ارحم کا قتل کردے۔اسے معلوم تھا منتہیٰ ہارتی نہیں ہے وہ آخری حد تک جانے والوں میں سے تھی۔
    "ہمارا ٹاسک لا حا صل ہر گز نہیں ہے لیکن قبل از وقت ضرور ہے ‘‘ ۔۔’’یہاں کی عورتوں میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے سےپہلے ہمیں اِن کے مردوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔۔ ورنہ غالب امکان یہ ہے کہ ۔۔ اِس طرح کی کوششوں سے ہم دوست کے بجائے اِنہیں اپنا دشمن بنا لیں گے ۔۔ کیونکہ یہاں کے لوگ بیوی ہی نہیں ماں ، بہن اور بیٹی کی گردنیں بھی گاجر،مولی کی نسبت زیادہ آسانی سے کاٹتا ہے‘‘۔ فاریہ کی توقع کے بر عکس منتہیٰ کا جواب خاصہ مدلل تھا۔
    رامین ، سنبل وغیرہ نے باقاعدہ تالیاں بجا کر منتہیٰ کا پوائنٹ سیلبریٹ کیا ۔
    "چلیں جی ۔ کل سے ایس ٹی ای کے میل کمپین شروع ہوگی اور ہم چشمے کے ٹھنڈے پانیوں کو ناپا کریں گے”۔ فاریہ نے حساب چکتا کیا۔
    ان کی نوک جھونک اب رات تک یونہی چلتی رہنی تھی، سو انہیں نظر انداز کرتا ہوا ارمان، چائے کا مگ ہاتھ میں لیئے منتہیٰ سے کچھفا صلے پر جا کر بیٹھا ۔
    میرے خیال میں ہمیں کچھ دن میل اور فی میل کی مشترکہ مہم چلانی چاہیئے، اس سے ناصرف آپ لوگوں کو تحفظ اور سپورٹ ملے گی بلکہ ہمیں مستقبل میں کمپین کے لیے صحیح آئیڈیا بھی ہو سکے گا ۔
    "جی ۔ لیکن میرے خیال میں اس کے ساتھ یہاں اپنے پہلے ڈیسازٹر سینٹر کا بھی آغاز کر دینا چاہیئے ۔ اس سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا ہم پر اعتماد بڑھے گا ، اور دوسرے مقامی افراد کی بھرتی سے ہم گھر گھر جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ لوگوں
    کو ایک جگہ جمع کرکے کینوینس کرنا زیادہ آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی” ۔
    ارمان نے اسکی بات ختم ہوتے ہی اثبات میں سر ہلایا ۔
    ************
    ان کے پاس وقت کم تھا کیونکہ خواتین ممبران کا زیادہ عرصے تک ان علاقوں میں قیام ممکن نہیں تھا ، سو ارمان نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اگلے تین روز میں کرائے پر ایک نیم خستہ گھر لے کر آفس بنانے کی تیاریاں شروع کیں ۔
    پہلے مرحلے میں انھیں لوگوں کو یہاں جمع کرکے اپنے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا جس کے لیے زیادہ دفتری لوازمات کی ضرورت نہیں تھی ۔
    اگلے روز ارمان ناشتے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ لیے بیٹھا پریزینٹیشن بنا رہا تھا ۔۔کہ بھاری بھرکم جسامت والا ایک شخص اچانک وارد ہوا ۔ ان کے کچھ ساتھی گروپس کی صورت میں گھر گھر مہم پر روانہ ہوچکے تھے جبکہ باقی ابھی کیمپس میں تھے۔
    "اسلام و علیکم ‘‘۔ "میرا نام خوشحال ہے "۔۔نو وارد نے تعارف کروا کر خوشدلی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ ارمان نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے بغوردیکھااس کا صاف اردو لہجہ چونکا نے والا تھا ۔ کیونکہ وہ دیکھنے میں مقامی لگتا تھا۔
    "کیا مجھے آپ کے اس آفس کے قیام اور مقاصد کے متعلق کچھ معلومات مل سکتی ہیں ؟؟”
    ارمان نے کافی دیر تک پوسٹرز اور لیپ ٹاپ پر سلائیڈز کی مدد سے خوشحال خان کو مکمل بریف کیا ۔ اس کی چھٹی حس جو ہمیشہ سےبہت تیز رہی تھی، ایک دفعہ پھر کہتی تھی یہ بندہ مستقبل میں ان کے بہت کام آنے والا ہے ۔
    "میں اسی علاقے کا رہائشی ہوں لیکن تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں قیام رہا ہے۔۔گذشتہ ہولناک زلزلے کے بعد میں یہاں لوٹا تو میرے آبائی گھر سمیت سب کچھ فنا ہو چکا تھا ۔ تب سے میں وقتاَ فوقتاَ یہاں آ کر آفت زدہ لٹے پٹے اپنے رشتہ داروں کی کچھ مدد کر جایا کرتا ہوں ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ جو کام ہماری حکومت کرنے میں ناکام رہی ۔ اسےکرنے کا بیڑہ اب عوام نے اٹھایا ہے‘‘۔
    "میرا بھر پور تعاون آپ کے ساتھ ہے”۔۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ ارمان کو تھماتا ہوا وہ شخص جا چکا تھا ۔
    ارمان نے کرسی واپس سنبھالتے ہوئے ایک نظر کارڈ پر ڈالی، پھر زور سے اچھلا ۔
    "خوشحال خان‘‘ ۔ "وہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا ایک معروف تاجر تھا ۔”
    ************
    شام ڈھلے جب سارے ساتھی تھکے ہارے کیمپس واپس لوٹے تو اس روز چائے کے ساتھ کچھ ہلکے پھلکے لوازمات بھی ان کے تھے ۔
    "یاہو۔۔ ٹریٹ۔۔ "۔فاریہ اور ارحم نے ایک ساتھ نعرہ لگایا
    "ارمان بھائی زندہ باد "۔۔ رامین کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔ جب سے گھر کے عیش و آسائش چھوڑ کر نکلے تھے سادہ کھاناہی مل رہا تھا۔
    "ویسے یہ ٹریٹ ہے کس خوشی میں ۔۔؟؟”۔ صہیب نے پورا سموسہ منہ میں ٹھونستے ہوئے دیدے نچائے، بھوک سے سب کا برا حال تھا ۔
    "یہ ہمارے ایک نئے خیر خواہ کی طرف سے دی گئی ٹریٹ ہے ۔آج رات کے کھانے پر ہم ان کے گھر پر مدعو ہیں "۔ ارمان نے ان کو ساری تفصیل بتائی۔
    فاریہ، رامین اور پلوشہ نے ایک ساتھ زوردار نعرہ لگایا۔ چلو یہاں کوئی کام کا بندہ تو ملا ۔
    "تم لوگوں نے اگر یہی حرکتیں کرنی ہیں تو ہم تمہیں ہر گز ساتھ نہیں لے کر جائیں گے "۔منتہیٰ نے تنبیہی نظروں سے انہیں گھورتے ہوئے ڈانٹا۔
    ارحم اور شہریار نے بمشکل اپنا اونچا قہقہہ ضبط کیا۔۔ ورنہ خدشہ تھا کہ ان کو بھی بین کر دیا جاتا ۔
    "آپی۔ اب کیا ہم خوش بھی نہیں ہوسکتے۔؟ "۔رامین نے منہ بسورا ۔
    "خوش ہونے کا یہ کونسا انداز ہے؟؟ "۔۔”تم لوگ اپنے گھر کے بیڈروم میں نہیں بیٹھی ہوئیں ۔ سمجھیں۔۔”
    ارمان نے دلچسپی سے ساری لڑکیوں کے اترے چہروں کو دیکھا ۔پھر ایک گہری نظر منتہیٰ پر ڈالی۔
    وہ کیمپس کے قریب پہاڑی جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں اپنے دود ھیا پاؤں ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔ دن بھر کی کوفت اور تھکن سے اُس کا سپید چہرہ قدرے سرخ تھا ۔۔۔ ارمان اُسے دم بخود دیکھے گیا ۔
    "اور زندگی میں کچھ لمحے آتے نہیں۔۔ بلکہ دلوں پر وارد ہوتے ہیں ۔۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس روز ارمان یوسف کی زندگی میں بھی آیا تھا ۔ وہ جھرنے سے کچھ فاصلے پر ایک اونچے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا پھر بھی کوئی پھوار سی اُسے شرابور کرتی چلی گئی تھی۔”
    "وہ بے خبر تھا ۔۔آج جو بیڑیاں اُس نے با خوشی اپنے پاؤں میں بندھوائی ہیں اب اُسے تا عمر ان کا اسیر رہنا تھا ۔”

    تم نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال
    پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دُھول اڑتی ہے

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    بہت سارے دلوں کو توڑتا
    بہت سے اَشکوں کو بہاتا
    لاکھوں گھروں کو تباہ کرتا ۔۔
    ہزاورں جانوں سے کھیلنے کے بعد۔۔
    طوفان تھم چکا ہے ۔۔
    خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا۔۔
    کہ اُس مقام پر جا ؤ۔۔
    اور۔۔
    مصیبت میں گھرے لوگوں کو
    اپنے مضبوط پروں کی پناہ میں لے لو
    تاکہ آفت سے لڑتے لڑتے
    وہ تنہا نہ رہ جائیں ۔۔
    ****************


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    نیا سمسٹر ، نئے سبجیکٹ ،نئے چیلنجز! منتہیٰ اِن سب سے نمٹنے کے لئے بھرپور توانائی کے ساتھ تیار تھی ۔۔ ۔جس کی ابتداریسرچ سینٹر کے ڈسکشن پارٹ ٹو سے ہوئی تھی۔
    ایک دفعہ پھر وہ سب کیل کانٹوں سے لیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ۔سپار کو سینئرز نے بات کا آغاز کرتے ہوئے بال ارمان کے کورٹ میں ڈالی۔ مسٹر ارمان آپ لوگوں کے سمسٹر امتحانات کے باعث یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا ۔ "میرا خیال ہےکہ اب تک اپنے پراجیکٹ کے متعلق آپ کوئی حتمی فیصلہ کر چکے ہوں گے۔۔؟؟؟۔”
    ارمان نے کھنکار کر گلا صاف کیا ، جی سر ہم نے دو ماہ میں ہر زاویئے سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اُس کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارمان نے ایک لمحے کو رک کر سب کے چہروں کو باری باری دیکھا ۔
    "اگر ہم واقعی قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے طور پر ایک کیمپئین کا آغاز کرنا ہوگا ”
    "جہاں حکومتیں نا اہل ہوں وہاں پھر عوام ہی میں سے کچھ لوگ اٹھ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ہم کوئی نئی این جی او بنانے نہیں جا رہے بلکہ ہم ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو آج بہت سوں کو ایک دیوانے کی بَڑ معلوم ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری لگن سچی ہے۔ توہم بہت کچھ نہ سہی اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے ‘ ارمان کا لہجہ دھیما مگرپُر عزم تھا ۔
    ڈسکشن روم کے پن ڈراپ سائیلنس کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر حیدر خان کی مدہم سی تالیوں کی آواز نے توڑا ۔
    "ویل ڈن بوائے! مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آج کا ہر نوجوان اگر انفرادی طور پر اِسی جذبے سے سرشار ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم گورنمنٹ کے تعاون کے بغیر اپنے ہم وطنوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں "۔ ڈاکٹر عبدالحق کے لہجے میں ارمان کے لئے ستائش تھی
    شہریار نے گردن اُونچی کر کے منتہیٰ کو دیکھا ۔۔جو بدستور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں میں ڈیٹا ٹر یولر گھما رہی تھی ۔
    "مس دستگیر ۔اب تو آ پ کو ہمارے پراجیکٹ پر کوئی خاص اعتراض نہیں رہا ہوگا ؟؟ "۔۔وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا
    "یو نو واٹ مسٹر ، کہ اِس دنیا میں پرفیکٹ صرف خدا کی ذات ہے۔۔ باقی ہر شے میں خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی، پہلے بھی میرا مقصد آپ کے پراجیکٹ میں کیڑے نکالنا یا رخنے ڈالنا ہر گز نہیں تھا ۔میں صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک مکمل ریموٹ سینسنگ سسٹم اِس طرز پر تیار کیا گیا ہے تو اِ س سے عوام کو ریلیف بھی ملے "۔۔ منتہیٰ کا لہجہ سخت تھا
    "سر میں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی ہے میں آ پ لوگوں کو دکھانا چاہوں گی۔۔ اُس نے اجازت طلب کی
    سیکنڈ سمسٹر کے امتحانات کے بعد منتہیٰ کا سارا ٹائم اسی ریسرچ میں گزر ا تھا ۔ کپمین کے لئے کئی ہفتوں کی محنت سے تیار کی گئی اس کی پریزینٹیشن کا پہلا بنیادی نکتہ تھا ‘ سسٹم کے ذریعے سائنٹیفک بنیادوں پر قدرتی آفات کی زد پر رہنےوالے علاقوں کا مکمل سروے ۔
    نمبردو۔ اِن علاقوں کو لاحق خطرات کی بروقت تشخیص ۔
    نمبر تین ۔ایک ایسی باقاعدہ مہم جس کے ذریعے اِن علاقوں کی عوام کو خطرات سے آگاہ کر کے ڈیسازٹر سے اَزخود نمٹنے کی ٹریننگ دی جائے ۔
    نمبر چار۔ ریسکیو سینٹر ز کا قیام اور ان میں ٹریننگ کے لئے مقامی افراد کی بھرتی۔ جس سے انہیں بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔
    نمبر پانچ۔ اِن علاقوں خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں بڑ ھتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو۔ کیونکہ ڈیسازسٹر سے نفسیاتی طور پر متاثربے روزگار نوجوانوں کو پاکستانی اور افغان طالبان گروپ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
    تقریباٌ آدھے گھنٹے کی پریزینٹیشن نے کانفرنس روم میں موجود ہر شخص کو متاثر کیا تھا ۔۔ حتیٰ کے تھوڑی دیر پہلے اُس سے چڑےبیٹھے شہریار نے بھی تالیاں بجا کر بھرپور داد دی تھی ۔
    ویل مس دستگیر۔میں چاہوں گا کہ آپ اِس پریزینٹیشن کی ایک کاپی مجھے اور سپارکو آفیسرز کو بھی دیں ،ارمان نے بات کرنے میں پہل کی ۔
    جی ضرور !مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ منتہیٰ نے بنا پس و پیش ڈیٹا ٹریولر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
    ۔۔۔Guys you are playing well
    ایک ہفتے بعد پھر میٹنگ رکھتے ہیں ۔۔ آفیسرز کو کسی کام سے جانا تھا ۔۔سو وہ تیزی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے جا چکے
    تھے۔۔ ان کے پیچھے منتہیٰ بھی ۔۔اور فاریہ اور ارحم کی توقع کے بر خلاف ۔
    ’’ وہ آج بھی فاتح لوٹی تھی ۔۔۔‘‘
    ****************

    مکمل تیاریوں کے ساتھ ٹھیک دو ہفتے بعد وہ سپارکو کے ریسرچ سینٹر کے پلیٹ فارم سے زمین کو بچاؤ تحریک (Save the earth) کا آ غاز کر رہے تھے جس کا ایجنڈہ اور مقاصد ارمان یوسف نے منتہیٰ کی پریزینٹیشن کی مدد سے خود تحریر کئے تھے ۔
    ابتدائی طور پر اس کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ریسرچ سینٹر کے آفیسرز اور عملہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز شامل تھے ۔۔
    کمپین ہیڈ ارمان یوسف کی ابتدائی تقریر مختصر لیکن مدلل تھی ۔ بے شک وہ ایک اچھا مقرر تھا ۔
    ’’لگ بھگ چھ ماہ پہلے جب ہم نے ریموٹ سینسنگ پر اپنے پرا جیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔۔تو ہمارا مقصد صرف اور صرف سمیسٹر کاپراجیکٹ پورا کرنا تھا ۔۔ ۔لیکن اس دوران اکتوبر میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے نے ہماری توجہ ڈیسازسٹر مینجمنٹ کے طرف مبذول کروائی ۔”
    "کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کی نیت صاف ہو تو پھر راستے کے پتھر کچھ معنی نہیں رکھتے "۔ اللہ پاک کی بھر پور مدد ہمارے ساتھ تھی سو چند ہی ماہ میں ہمارے پراجیکٹ کو لمس سے سپارکو تک بوسٹ ملا ۔۔میں سپارکو کے سینئر آفیسرزاور مس منتہیٰ دستگیر کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک رفاحی تحریک کی جانب ہماری راہنمائی کی ۔
    "ہمیں بخوبی علم ہے کہ جو کام ہم شروع کرنے جا رہے ہیں وہ قطعاٌ آسان نہیں ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مسائل بے پناہ ۔۔
    "لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جن کی ابتداء چھوٹے پیمانے پر بہت کم وسائل کے ساتھ کی گئی ۔۔فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں اور بزنس مینز کے آشیرواد سے جنم لینے والی این جی اوز صرف فائلوں یا بینک اکاؤنٹس تک محدود رہتی ہیں۔۔ جن کے اکاؤنٹس میں جمع کی جانے والی چیریٹی دراصل وہ کالا دھن ہے جو ہمارے سیا ستدان عوام کا خون چوس کر حا صل کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کے سائے تلے جو گھناؤنے کھیل ۔۔کھیلے جارہے ہیں وہ اب عوام کی نظروںسے پوشیدہ نہیں رہے ۔”
    "کسی بھی ڈیساسٹر سے نمٹنے کے لئے اپنی شرائط پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی گرانٹ دراصل بھیک کے وہ ٹکڑے ہیں جو عیاش اپنی من مانیاں جاری رکھنے کے لیے انہیں مہیا کی جاتی ہیں ۔ اور ہمارے بے ضمیر ، ننگِ انسانیت حکمران اسے من و سلویٰ سمجھ کے قبول کرتے ہیں۔”
    ارمان کی تقریر کے بعد ریسرچ سینٹر کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی مختصر تقریر میں پچھلے دو تین ماہ میں ان سب، خاص کر ارمان اور منتہیٰ کی کارکردگی کو بھرپور سراہتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
    "ہمیں یقین ہے کہ آپ نوجوان نیک نیتی سے جو بیج بو رہے ہیں وہ چند برس یا ایک عشرے بعد تناور درخت بن چکے ہونگے، جن کی گھنی ، میٹھی چھاؤں سے آنے والی نسل مستفید ہوگی”۔
    میں سیو دی ارتھ کے بورڈ آف گورنرز کے لیے ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر عقیل احمدکے نام تجویز کرہا ہوں۔ جبکہ باقی عہدیداروں کے انتخاب کے لیے آپ سٹوڈنٹس آزاد ہیں ۔ مگر کچھ پوائنٹس میں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
    رفاحی کاموں کو تیزی سے زیادہ نیک نیتی ، ان تھک محنت اور استقامت کامیاب بناتی ہے۔بے شک آپ کو آگے بڑھنے کے لیئے ایک کثیر سرمائے کی ضرورت ہوگی، مگر خدمتِ خلق سے وابستہ افراد تب ہی آپ کی مالی مدد کریں گے جب آپ شب و روز محنت سے اپنا ایک معیار بنائیں گے۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ یوتھ آپ کے ساتھ شامل ہوتی جائے گی ۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی اصل قوت اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔”

    جاری ہے
    ****************