Tag: Dawaam by Sadeeqa Khan

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    فاریہ کی انگلیاں کٹھا کھٹ لیپ ٹاپ پر بزی تھیں اور شرارتی چہرے کا اتار چڑھاؤ گواہ تھا کہ محترمہ کوئی کارنامہ سرانجام دینےمیں مصروف ہیں ۔۔۔ منتہی ٰنے ایک آدھ بار گھور کر اسے دیکھا پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی ۔۔۔
    "یاہووووو۔۔ کا نعرہ لگاتے ہوئے فاریہ نے اپنا لیپ ٹاپ بیڈ پر پھینکا اور دوسرےبیڈ پر چھلانگ لگائی ۔۔۔
    اس بلائے ناگہانی پر منتہیٰ کے ہاتھ سے کپ گرتے گرتے بچا ۔۔ اور کافی اس کے کپڑوں پر چھلکی ۔۔
    "فاریہ تم انسان کب بنو گی ؟؟ "۔۔منتہیٰ اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے گرجی
    "پتا نہیں ۔۔۔ فاریہ نے اسی کے سٹائل میں نقل اتاری۔”
    "تو پتا کرو جا کے”۔۔۔ منتہیٰ نے اسے بیڈ سے دکھا دیا
    "تم بھی کمال کرتی ہو لڑکی ۔۔ کیا اپنے بیڈ پر جا کر مجھے پتا لگ جائے گا کہ میں انسان کب بنو گی” ۔۔ فاریہ نے دانت نکالے
    "ہاں گوگل کرلو "۔۔ مینا نے جواباٌ اسے آنکھیں دکھائیں
    اُف۔۔ تم نے مجھے بھلا ہی دیا ۔۔ میں اتنے مزے کی بات بتانے لگی تھی
    "لزانیہ یا لوبسٹر "۔۔؟ جھٹ سوال آیا
    "اُف۔۔ کھانے کی بات نہیں کر رہی ۔۔ پتا ہے ارمان بھائی نے مجھے اور اَرحم تنویر کو سیو دی ارتھ کی سوشل میڈیا کمپین کا ہیڈ بنایاہے "۔۔۔فاریہ خوشی سے چہکی


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "واٹ”۔۔ منتہیٰ چونکی
    "واؤ ۔۔یار کتنا مزا آئے گا نہ”۔۔ ہمیشہ کی طرح فاریہ اوور ایکسائیٹڈ تھی
    "کسی والنٹیر موومنٹ کی سوشل میڈیا کمپین ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے "۔۔تمہیں یقین ہے کہ تم یہ نبھا سکو گی ۔؟؟منتہیٰ ‘ فاریہ کی لا اُبالی طبیعت سے واقف تھی ۔۔
    "ہاں میں اب اتنی بھی نکمی نہیں ہوں "۔۔ فاریہ نے منہ بسورا
    "تم بالکل نکمی نہیں ہو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ساری پاور یوتھ ہوگی ‘ جسے ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بہترینذریعہ سوشل میڈیا ہے ۔۔ ہمیں نئے آ ئیڈیاز اور ریفارمز متعارف کروانا ہوں گے ۔۔”
    "وہ تو ہے ۔۔ ابھی تو آ غاز ہے یقیناٌ ہم سب مل کر بہت کچھ کریں گے ۔۔ نئے لوگ آئیں گے تو نئے آئیڈیاز بھی آتے رہیں گے ۔”
    "اوکے بیسٹ آف لک "۔۔ منتہیٰ نے خلافِ عادت مسکرا کر اسے سراہا ۔۔
    "تھینک یو ۔۔”
    "ہاں یاد آیا ، ارمان بھائی کہہ رہے تھے کے ہر ویک اینڈ پر میٹنگ ہوا کرے گی۔۔ جس میں سب کو شریک ہونا ہوگا ”
    "آئی نو دیٹ” ۔۔ ویسے یہ مسٹر ارمان تمہارے بھائی کب سے ہوئے ؟؟
    "لو اتنے ڈیسنٹ اور گریس فل سے تو ہیں ۔۔ مجھے اتنا اچھا لگا ان کو بھائی کہنا "۔۔ فاریہ نے اسے گھورا
    "تمہاری ڈکشنری میں ڈیسنٹ اور گریس فل کی تعریف کافی مشکوک لگتی ہے "۔۔ مینا نے منہ بنایا
    "میری ڈکشنری بالکل ٹھیک ٹھاک ہے تم اپنی آ نکھیں ٹیسٹ کرواؤ ۔۔ ہونہہ۔۔ فاریہ نے اسے کھینچ کر تکیہ مارا جو بیڈ کے سائڈپر جا کر گرا ۔۔ منتہیٰ آج اسے چڑانے کے موڈ میں تھی ۔۔سو اس نے جھٹ تکیہ اٹھا کر اپنے لیپ ٹاپ کے نیچے رکھا ۔۔۔
    "سو سویٹ آف یو ۔ ۔ ساتھ ہی دلکش مسکراہٹ کے پھول بکھیرے ۔۔”
    فاریہ کو الجھتا دیکھ کر اسے مزا آرہا تھا ۔
    ***********
    "تم ایک انتہائی ڈفر اور کمینی لڑکی ہو "۔۔فاریہ نے اُسے گھورتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا۔۔” ابھی اُسے سیو دی ارتھ کے فیس بک پیج کے لئے بہت سا کام کرنا تھا ۔۔۔”
    اپنے ننھے سے دماغ پر زور ڈالتے ، کچھ مدد ارحم تنویر سے لیتے ہوئے اس نے سیو دی ارتھ فیس بک پیج پر پہلی پوسٹ کی۔
    چلے تھے یار کے مل جائے گی کہیں نہ کہیں
    فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
    سیو دی ارتھ ‘ کا آ غاز انہوں نے کسی فورس کی طرح ونگ بنا کے کیا تھا ۔
    ارمان یوسف کے پاس غازی ونگ کی کمانڈ تھی جس میں شامل کارکنان کو ہر اول دستے میں رہتے ہوئے میدانِ جنگ میں لڑنا تھا ۔
    یعنی سیلاب ، زلزلہ ، طوفان یا کسی بھی طرح کی ناگہانی آفت کی صورت میں بر وقت لوگوں کا انخلا اور بعد کی آباد کاری میں بھر پور معاونت۔
    منتہیٰ دستگیر کے پاس برین ونگ کی کمانڈ تھی جس کا کام ریسرچ اینڈ آئیڈیاز ڈیویلپ کرنا تھا تاکہ نئی ریفارمز تیزی کے ساتھ متعارف کروائی جا سکیں۔
    ریموٹ سینسنگ اور جی آئی ایس ونگ کی کمانڈ شہریار جہانگیر اور لمس کے چند بہترین انجینئرزکے پاس تھی ۔ جن کا کام سسٹم کوپوری طرح ایکٹو اور اپ ڈیٹ رکھنا تھا ۔
    سوشل میڈیاونگ کی کمانڈ فاریہ انعام ، ارحم تنویر اور پنجاب یونیورسٹی کے کچھ سٹوڈنٹس کو سونپ گئی تھی تاکہ مناسب اور تیزرفتار کمپین کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کارکنان کی شمولیت ممکن بنائی جا سکے ۔
    اُن کا سب سے بڑا مسئلہ فنڈز تھے ۔۔ فی الحال سپارکو کے آ فیسرز بھی کچھ انویسٹ کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔۔ اپنے طور پر تھوڑی تھوڑی رقم ڈال کر انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں ایک انیکسی کرائے پر لیکر اپنا آفس بنایا تھا ، اور پہلی ویکلی میٹنگ میں وہ سب سر جوڑے بیٹھے تھے۔
    "تم لوگ اپنی پراگریس بتاؤ۔؟ "۔۔ارمان نے کھسر پھسر کرتے فاریہ اور ارحم کو مخاطب کیا ۔
    باس۔ ہم نے اپنا کام تندہی سے شروع کر دیا ہے، نا صرف سیو دی ارتھ کا فیس بک پیج ایکٹو ہو چکا ہے، بلکہ ٹویٹر اکاؤنٹ
    بھی”۔۔ ارحم نے مودبانہ جواب دیا کیونکہ منتہیٰ اس کے بالکل سامنے والی سیٹ پر تھی۔
    ہونہہ ! ہماری سوشل میڈیا کمپین جتنی مؤثر ہوگی اتنی ہی تیزی سے یوتھ ہمیں جوائن کرے گی۔ آپ کیا کہتی ہیں مس دستگیر ۔؟ ۔۔اس حوالے سے اگر کوئی نیا آئیڈیا آپ کے ذہن میں ہو۔
    "جی بالکل۔ ہمارا اگلا ہدف سیو دی ارتھ کی آفیشل ویب سائٹ ہونا چاہیئے، جو میرے خیال میں ریموٹ سینسنگ ونگ زیادہ اچھےطریقے سے سرانجام دے گا، اور ویب سائٹ کا پیٹرن ہماری کمپین کی طرح بالکل یونیک ہونا چاہیئے۔ منتہیٰ کا جواب ہمیشہ تیار ہوتاتھا "۔ ارمان نے نوٹ کیا ۔
    "لڑکی خشک مزاج تو تھی مگر جس لیول کی اس کی ذہانت تھی اس پر فاریہ جیسا چلبلا پن سوٹ بھی نہیں کرتا تھا۔”
    اسی وقت سب سے معذرت کرتا ہوا صمید اندر داخل ہوا ۔
    "یار۔ پاپا کی وجہ سے کچھ لیٹ ہوگیا ، امید ہے کہ آپ لوگ مائنڈ نہیں کریں گے”۔ اس نے نظر اٹھا کر لیڈیز کو دیکھا ۔
    "اٹس اوکے!یہ بتاؤ کہ کیا رہا ۔؟؟ "۔۔ارمان نے بے چینی سے پوچھا
    رات ہی اس کی صمید سے چیریٹی کے لیے بات ہوئی تھی ، اس کے ارب پتی ماموں کے لیے سیو دی ارتھ کے نام تھوڑی رقم ڈونیٹ کرنا کچھ مشکل نہ تھا ۔
    صمید نے کوئی جواب دیئے بغیر جیب سے ایک چیک نکال کر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
    "دس لاکھ! یہ انہیں چیریٹی میں ملنے والی پہلی بڑی رقم تھی ۔سو ارمان نے ممنون نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ چیک صمید کی طرف واپس بڑھا دیا ۔۔ فنانشل ونگ کمانڈ تمہارے نام ہوئی۔
    منتہیٰ سمیت سب نے زوردار تالیاں بجا کر صمید کو چئیراپ کیا تھا ۔
    ایک ماہ میں وہ مختلف ذرائع سے بیس لاکھ کی رقم اکھٹی کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔۔ رزلٹ کچھ اتنا برا بھی نہ تھا ۔ سو آگے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ۔۔”اب انہیں بھر پور ریسرچ ، مکمل اعداو شمار اور تیاریوں کے ساتھ بالا کوٹ ، دیر، سوات اور اُن سے ملحقہ علاقوں میں جا کر کمپٔین چلا کر ڈیزاسٹر ٹریننگ سینٹر بنا کر مقامی افراد کی ٹریننگ شروع کرنا تھی ۔”
    جس کے لیے انہیں بڑی تعداد میں کارکنان کی ضرورت تھی ، اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے منتہیٰ سمیت برین ونگ کے کمانڈرزمختلف کالجز اور یو نیورسٹیز میں سیمینارز اور ورکشاپس کے انعقاد کے لیے بھی پوری طرح سرگرمِ عمل تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنی کمپین میں شامل کیا جائے۔
    جس کے لیے سوشل میڈیا ونگ کو پوری طرح فعال رکھا گیا تھا ۔۔کیونکہ آج کی یوتھ کا نصف سے زائد دن یہیں گزرتا ہے ۔۔
    "مگر اِن شب و روز کی کاوشوں کے ساتھ وہ اپنی تعلیم کو اب بھی اولیت دیتے تھے۔”
    "زندگی یک دم بہت مصروف ہو گئی تھی۔ مگر اصل مزا تو یونہی جینے میں تھا ۔ ان کے دل مطمئن اور پرسکون تھے اور عزائم بہت بلند ۔”
    منتہیٰ کو ہاسٹل سے کمپین کی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کچھ دشواری تو تھی مگر اسے ابو کی پوری سپورٹ حاصل تھی۔ وہ اپنی بیٹیوں کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایک عرصے سے پلاننگ میں لگے ہوئے تھے۔
    ***********
    ملک غلام فاروق دستگیر نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گورنمنٹ کی طرف سے ملے ہوئے گھر میں کاٹا تھا ۔۔ لیکن اچھے وقتوں میں انہوں نے لاہور کے فیصل ٹاؤن ایریا میں ایک ۱۲۰گز کے پلاٹ کی زمین خرید لی تھی ۔منتہیٰ کولاہور چھوڑتے وقت انہوں نے وہاں گھر کی تعمیر کا آغاز کیا تھا ۔ جو اب تکمیل کے مراحل میں تھا ۔ اُن کا ارادہ تھا کہ ارسہ کے بی ایس سےفارغ ہوتے ہی وہ فیملی کو لاہور منتقل کر دیں گے۔ ان کی اپنی ریٹائر منٹ میں ابھی چھ ماہ باقی تھے ۔
    گھر کی تکمیل ہوتے ہی منتہیٰ اور رامین نے ہاسٹل کو خیر باد کہنے میں دیر نہیں لگائی ۔ تینوں بہنوں نے مل کر نئے گھر کی سیٹنگ کی۔
    اگرچہ منتہیٰ کو اِس طرح کے کاموں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی باپ کی غیر موجودگی میں اب وہی گھر کی بڑی تھی ۔
    "زندگی کی تھکا دینے والی مصروفیات میں بہت عرصے بعد کچھ سکون کے لمحے ماں، دادی اور پیاری بہنوں کے ساتھ گزارنےکا موقع ملا تھا ، ورنہ سمسٹر کی چھٹیاں بھی ایس ای ٹی کے لیے ریسرچ میں پلک جھپکتے میں گزر جاتی تھیں۔”
    ویک اینڈ پر وہ تینوں ایک ساتھ ایس ٹی ای کی ہفتہ وار میٹنگ میں شریک ہوئی ۔ اُس کی توقع کے بر خلاف ارسہ نے جی آئی ایس اور رامین نے غازی ونگ جوائن کی تھی ۔
    ***********
    ارمان اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ گزشتہ ایک ماہ سے دیر ، کالام کے بعد اب سوات میں زبردست اویئرنیس کمپین چلا رہا تھا ۔ زلزلے سے باعث ان علاقوں کا تباہ شدہ انفرا سٹرکچر اب تک پوری طرح بحال نہیں ہوپایا تھا ۔
    اس کی غیر موجودگی میں ویکلی میٹنگز کو کبھی ڈاکٹر عبدالحق ، کبھی منتہیٰ اور کبھی شہریار ہیڈ کیا کرتے تھے ۔ وہ سب ارمان کی دی ہوئی معلومات پر آگے کی سٹرٹیجی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔۔ "پچھلے ہفتے کی میٹنگ میں جی آئی ایس ونگ کو کچھ نئے ٹاسک دیئےگئے تھے ، جس کی رپورٹ اس روز شہریار نے انہیں دینی تھی ، کہ گذشتہ شب سے پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں طوفانی بارشوں کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔”
    "اور لگاتا رتین چار روز کی شدید بارش کے نتیجے میں آنے والے زبردست سیلاب سے پہلے پہل خیبر پختونخواہ ڈوبا اور پھر یہ شدید سیلابی ریلے آ گے بڑھتے ہوئے چند ہی روز میں پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے ایک وسیع رقبے کو ڈبوتے چلے گئے ۔۔”
    ارمان اور اُس کے ساتھی سیلاب میں بری طرح پھنس چکے تھے ۔۔۔ دو دن بعد ان کا لاہور میں ساتھیوں سے رابطہ بحال ہوا ۔ ۔
    "اُن کو سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے مزید فورس درکار تھی ۔۔”
    "یہ پہلا موقع تھا جب’’ سیو دی ارتھ‘‘ کے کارکنا ن نے پاک آرمی کے جوانوں کے شانہ بشانہ سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کونکالنے، محفوظ مقامات تک پہنچانے اور اشیائے خوردو نوشت کا انتظام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ”
    مختلف ٹی وی چینلز پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد ایس ٹی ای کے تمام کمانڈرز ایک دفعہ پھر میٹنگ روم میں موجود تھے۔۔جس کی سربراہی ڈاکٹر عبدالحق کر رہے تھے۔
    "جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔ ہم یقیناٌ ہونی کو نہیں روک سکتے ۔ مگرمجھے خوشی ہے کہ ارمان یوسف اور باقی کارکنان اِس کڑے وقت میں عوام کی مدد کے لیے وہاں موجود ہیں۔۔ لیکن ہمیں آئندہ ایسی صورتحال کے لیے بہتر پلاننگ اور تیاریاں کرنی ہیں ۔۔ڈاکٹر عبد الحق نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بات کا آغاز کیا ، ڈاکٹر حیدر اور دیگر سینئر افسران کی نسبت وہ سیو دی ارتھ کی سرگرمیوں میں ہر طرح بھرپور معاونت کر رہے تھے۔
    "مزید پلاننگ اور تیاریاں شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنی ہوگی ۔۔پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں ہمارا سسٹم بھی اِن تباہ کن بارشوں کی قبل از وقت وارننگ جاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔”
    منتہیٰ نوٹس پیڈ پر لکھتے لکھتے پہلا انتہائی اہم پوائنٹ سامنے لائی تو ڈاکٹر عبدالحق کے لب بے اختیار مسکرا اٹھے۔ وہ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتی تھی۔
    "ہمارا سسٹم پوری طرح الرٹ تھا اور معمول کی مون سون بارشوں کا امکان ہی تھا ۔۔ ۔مگر پھر اچانک موسم میں تغیر ہوا اور پھرصرف تین چار روز میں اتنی شدید موسلا دھار بارشیں اس سے پہلے کبھی ریکارڈ نہیں کی گئیں” ۔شہریار نے اپنے سسٹم کا دفاع کیا۔
    "موسم میں اچانک رونما ہونے والا یہ تغیر۔۔کیا ہارپ کی کسی آ ئیونو سفیئر ہیٹنگ سرگرمی کی نشان دہی نہیں کرتا۔۔؟؟”
    "بالکل ایسا ہی ہوا ہے مس دستگیر۔۔ لیکن یُو نو واٹ ۔کہ اس معاملے میں سب ممالک بے بس اور خاموش تماشائی ہیں۔۔پاکستان کا یہ سیلاب ہی نہیں چند سال پہلے آ نے والا ہیٹی کا تباہ کن زلزلہ ، جاپان فوکو شیما ،اور نیپال کے وہ زلزلے ۔۔جو وسیع انفرا سٹرکچر کی تباہی کا باعث بننے سب یقیناٌ ہارپ کی سرگرمیوں کا نتیجہ تھے ۔۔۔ لیکن حتمی طور پر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اگر ہو بھی تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔ ڈاکٹر عبدالحق کا جواب خاصہ مدلل تھا ۔۔
    یو آر رائٹ سر !بے شک ہم انہیں روکنے یا پسپا کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتے ۔۔ لیکن ہم ایک ایسا سسٹم ضرور ڈیویلپ کر سکتے ہیں جو ہارپ کی ان یو ایف او کی کسی بھی علاقے میں موجودگی کو نہ صرف فو ری طور پر ڈیٹیکٹ کر کے وارننگ جاری کرے بلکہ اِن کا بھرپور تجزیہ کر کے اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ انکی سرگرمی سے آ نے والی ناگہانی آ فت کیسی اور کس قدر تباہ کن ہوگی ۔۔ تاکہ فوری طور پر سسٹم کے ذریعے ریسکیو آ پریشن کی ایک سٹریٹیجی ڈیویلپ کی جا سکے ۔”
    "منتہیٰ دستگیر بیشک ایس ٹی ای کا ۔۔۔برین تھی ۔”
    دو گھنٹے کی طویل میٹنگ میں بہت سے نئے پوائنٹس سامنے آئے ۔۔ اور کچھ کو ارمان کی واپسی تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا ۔کہ اس وقت ان کے لیے سب سے اہم مسئلہ سیلابی ریلوں کی زد میں آئے ہوئے چاروں صوبوں کی عوام کی مدد اور ان کی آباد کاری تھا۔
    خیبر سے بلوچستان تک، کروڑوں کی کھڑی فصلیں ، اربوں کے مکانات اور اراضی کو روندتا ہوا ۔اپنے پیچھے تباہی کی خون آ شامداستانیں چھوڑتا سیلاب گزر چکا تھا ۔۔۔
    حکومتی عہدیداران بھی آ ٹا ، دال چاول کے تھیلوں اور خیمے بانٹتے ہوئے فوٹو سیشن کروا کر جا چکے تھے اورِ۔ نیرو چین کی بانسری بجاتا رہا ۔۔۔رات گئی بات گئی مٹی پاؤ ۔۔
    ’’ فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں بلکہ احساس کے مرنے پر پڑھنی چاہیئے ۔۔ کیونکہ لوگ مر جائیں تو کسی نا کسی طرح صبر آ ہی جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے ۔۔ اور ہمارے حکمرانوں میں یقیناٌ احساس مر چکا ہے۔۔۔ خدا کا قانون ہے کہ نصیحت سے سبق حاصل کرکے وہی لوگ فلاح پاتے ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہوں ورنہ ۔۔ مردوں کا عبرت سے کوئی یارانہیں ہوتا ۔‘‘‘
    جوں جوں سیلاب کا پانی اترتا گیا ، علاقہ مکین اپنے اپنے لٹے پٹے گھروں کو لوٹنے لگے ، مگر وہ بے خبر تھے کہ وہاں ایک
    نئی آفت اپنا اژدھا سا منہ کھولے ان کی منتظر تھی۔
    شدید گرمی کے باعث وباعی امراض بہت تیزی کے ساتھ پھوٹے تھے، اور ان کی زد میں صرف مقامی افراد ہی نہیں بلکہ ارمان کے کئی ساتھی بھی آگئے تھے، جو گزشتہ ایک ماہ سے گھر بار چھوڑے اس کے ساتھ در در کی خاک چھان رہے تھے۔
    چار و ناچار انہیں واپسی کے لیے رختِ سفر باندھانہ پڑا ۔
    ارمان خو د کئی روز سے شدید بخار میں مبتلا تھا ، مگر اس نے آرام کے بجائے ایس ٹی ای کی میٹنگ میں شرکت کو ترجیح دی تھی۔
    اس کا سنولایا ہوا رنگ اور ستا ہوا چہرہ دیکھ کے ارحم بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
    "تو میرا وہی ہینڈسم یار ارمان یوسف ہی ہے نہ ۔ ”
    "ہاں ۔ کیوں میرے سر پر تجھے سینگ نکلے نظر آرہے ہیں "۔ ارمان خلافِ مزاج جھلایا۔
    "نہ ۔ پر سینگ نکل آتے تو کوئی بارہ سنگی تجھے قبول کر لیتی، مگر اب یونیورسٹی کی اُن تمام حسیناؤں کا کیا ہوگا جو تیرے آسرےپر بیٹھی تھیں”۔ ارحم کو غم کھائے جا رہا تھا۔
    "تو ان کی فکر میں زیادہ مت گھل، ایک آدھ تیرے پاس آجائے گی باقی بھی کہیں نہ کہیں کھپ ہی جائیں گی، لومڑیاں نہ ہوں تو "۔ ارمان کو ایسی لڑکیوں سے شدید چڑ تھی۔
    "وہ تو ٹھیک ہے پیارے۔ پر اپنا خیال کرنا تھا نہ آرام کرتا ۔ ”
    "آرام رات کو ہو جائیگا ، مگر ابھی میری میٹنگ میں شرکت بہت ضروری تھی”۔ ارمان نے انگلیوں کی پوروں سے ماتھا سہلایا۔
    سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر عبد الحق میٹنگ روم میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ منتہیٰ ، رامین اور فاریہ بھی تھیں۔
    ویل بوائے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ سب اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف نے ارمان کی گری گری سی حالت پہلی نظر میں نوٹ کی تھی۔
    "سر اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقے ، خصو صاََ پنجاب اور سندھ کو ادویات اور پیرا میڈیکل سٹاف کی شدید ضرورت ہے۔میرا اندازہ ہے کہ سیلاب سے اتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنا وبائی امراض کے باعث ہونے کا خدشہ ہے۔ اگرچہ پاک آرمی پوری طرح مستعد ہے مگر جتنے بڑے رقبے پر سیلاب نے تباہی پھیلائی ہے ، وہ صرف فوج کے جوانوں کے بس کا کام نہیں ہے۔”
    "رائٹ یو آر ۔ اینڈ یو نو واٹ کے یہ وہ پوائنٹ ہے جو آج تک ہم نظر انداز کرتے آئے تھے۔ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی سہولت فی ایلحال موجود نہیں ہے۔”
    "سر۔ اس سلسلے میں رامین اور میں کئی دنوں سے مصروف تھے۔ ہم نے کنیئرڈ میڈیکل کالج میں پرسوں ایک سیمینار کا انتظام کیا ہے تاکہ میڈیکل سٹوڈنٹس کو دور دراز کے ان علاقوں تک جانے پر آمادہ کیا جاسکے۔”
    منتہیٰ کی تفصیلی مداخلت پر ڈاکٹر عبدالحق اور ارمان کی نگاہیں چند لمحوں کے لیے اس پر ساکت ہوئیں۔
    مگر اُن دونوں کے احساسات مختلف تھے، ڈاکٹر عبدالحق کو ہمیشہ اس کی بھرپور تیاری اور مدلل جواب متاثر کرتا تھا ، تو ارمان کو ہر دفعہ وہ اس کی ایک اور جیت معلوم پڑتی تھی۔
    "اگرچہ وہ مہینوں سے ایک ساتھ ایک بڑے مشن پر دن رات ایک کیے ہوئے تھے مگر ان کا اول روز کا مقابلہ او رآپس کا موازنہ آج بھی جاری تھا۔ جس میں منتہیٰ پلڑا بھاری تھا ،مگر ارمان کو کبھی اس سے جیلیسی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اور منتہیٰ خود کیا احساسات رکھتی تھی ، یہ تو اس کے انتہائی قریبی لوگ بھی جاننے سے قاصر تھے۔”
    ***********
    کینیئرڈ میڈیکل کالج میں ایک کامیاب سیمینار کے بعد ایس ٹی ای کا برین اور سوشل میڈیا ونگ لاہور اور کراچی کے کئی اورمیڈیکل کالجز میں سٹوڈنٹس کو کنوینس کرنے کے لیئے سر گرم تھا، مگر شدید گرمی میں ان وبا ء زدہ علاقوں میں جانے کے لیے بہت کم ڈاکٹرز آمادہ تھے۔
    "کیا یہ لوگ میڈیکل جیسے مقدس پیشے کو اس لیئے اختیار کرتے ہیں کہ بے بس و لاچار ، مجبور لوگ گاجر مولی کی طرح ان کی نگاہوں کے سامنے کٹ کر مرتے رہیں ، اِن کے پنجر وجود سے وبائی امراج کا تعفن اٹھ کر اپنے ساتھ سینکڑوں کو لپیٹ میں لیتا رہے،اور مستقبل کے معمار ، یہ انسانیت کے مسیحا اِن موٹی موٹی کتابوں میں سر گھسائے ہر شے سے بیگانہ اپنی دنیا میں مگن جیتے رہیں؟؟
    ارمان نے پراگریس دیکھ کر شدید طیش میں بہت غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔
    مگر اس کے سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا ، حتیٰ کہ ہمیشہ الرٹ رہنے والی منتہیٰ بھی اس روز نظریں جھکائے خاموش بیٹھی رہی ۔۔”اُس کا اپنا دل بجھ سا گیا تھا۔”

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "ابے تو نے زارش جیسی حسینہ کو ناراض کردیا” ۔۔ صمید کا صدمے سے برا حال تھا ۔
    "میری اُن سے کبھی دوستی ہی نہیں تھی تو ناراضی کا کیا سوال ۔۔ ؟؟ "۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی
    "اف۔ میرے شہزادے ۔۔ اُس نے رامش بھائی سے خود اشاروں کہا تھا کہ اس کا کپل تمہارے ساتھ بنائیں "۔صمید کی
    وضاحت پر ارمان کا حلق کچھ اور کڑوا ہوا ۔
    "سو واٹ! مجھے اُن کی کسی بھی طرح کی آفر سے کچھ فرق نہیں پڑتا ” "مجھے نا ڈانس کا شوق ہے نا کپلز بنانے کا ۔۔ "ہونہہ”۔۔
    "ابے تو تیرے لیے کوئی سپیشل پری آسمان سے اترے گی "۔۔ صمید نے اسے دھپ رسید کی
    "ہاں بالکل ۔۔ملے کوئی ایسی جو مجھے چیلنج کرے ۔۔ جسے پانے کی مجھے جستجو کرنی پڑی ۔۔ اِن کٹی پتنگوں کی طرح نہیں کہ خود ہی جھولی میں آ گریں”۔۔ ارمان نے ناگواری سے سامنے سجی سنوری اپنی کزنز کی فوج کو دیکھا۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "اچھا پھر چل تو آج اپنی نا معلوم حسینہ کے نام پر کو کو ۔۔ کورینا ۔۔ہی سنا دے "۔۔ صمید کب جان چھوڑنے والا تھا
    ارمان کوئی باقاعدہ سنگر نہیں تھا ۔۔ کبھی کبھار یونیورسٹی یا دوستوں کی محفل میں کچھ سنا دیا کرتا تھا ۔۔ اے لیول میں عاطف اسلم سے متاثر ہوکر اس پر سنگر بننے کا بھوت سوار ہوا تھا ۔۔مگر پھر انجینئرنگ یوں چیلنج بن کر سامنے آئی تھی کہ وہ گلوکاری، پینٹنگ سمیت اپنے سارے شوق بھول گیا تھا ۔
    ’’ زندگی میں بارہا ایسے مقامات آتے ہیں جو انسان کو ایک نئے راستے پر ڈالنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سالوں سے ایک ہی ڈھب پر چلتی ہوئی زندگی اچانک یوں راستہ بد ل لیتی ہے کہ انسان خود ششدرہ رہ جاتا ہے ۔‘‘
    آج بہت عرصے بعد اس کا دل چاہا تھا کہ وہ کچھ سنائے سو وہ صمید کے پیچھے سٹیج کی طرف بڑھ گیا ۔
    "بول دو نہ ذرا دل میں جو ہے چھپا
    میں کہوں گا کسی سے نہیں
    ہماری کمی تم کو محسوس ہوگی بھگو دیں گی جب بارشیں
    میں بھر کر لایا ہوں آنکھوں میں اپنی ۔۔ ادھوری سی کچھ خواہشیں
    بول دو نا ذرا دل میں جو ہے چھپا۔۔ میں کہوں گا کسی سے نہیں ۔۔”
    آج واقعی ارمان وَجد میں تھا سو اپنی دھن میں گاتا چلا گیا اِس بات سے بے خبر کہ زارش نے اس گانے کا کیا مطلب لیا ہے؟؟
    دو روز بعد رات کو ارمان لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔۔ کہ سیل تھر تھرایا ۔۔ "صمید کالنگ”۔۔
    اُس نے کام جاری رکھتے ہوئے کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو صمید ”
    "کل برات سے کیوں غائب تھا تو ۔۔چھوٹتے ہی شکوہ حاضر ۔۔؟؟”
    "یار بس ایک اسائنمنٹ میں دوستوں کے ساتھ ایسا پھنسا کہ رات گیارہ بجے فارغ ہوئے ۔۔ ممی سے ڈانٹ کھا چکا ہوں اب تیر ی میں کچھ نہیں سنوں گا "۔۔ ارمان نے سیدھی ہری جھنڈی دکھائی۔
    "بے شک مت سن ۔۔ پھر اپنی خیر خود ہی منانا "۔۔ صمید نے منہ بنایا
    "واٹ؟؟ از ایوری تھنگ اُوکے؟؟ "۔۔ارمان الرٹ ہوا
    "بالکل بھی نہیں ! مہندی والے دن تو نا جانے کس دُھن میں تھا ۔ زارش نے سارے کزنز میں پھیلا دی ہے کہ وہ گانا تو نے اُس کے لیے ایکسکیوز میں گایا تھا "۔۔۔ صمید نے دانت نکالے ۔
    "واٹ؟؟ اپنی شکل دیکھی ہے اُس بھوتنی نے ۔۔۔ہونہہ
    "خیر شکل کی تو کافی پیاری ہے ۔۔ ”
    "تجھے ہی لگتی ہوں گی ایسی ماڈلز گرلزپیاری "۔۔۔ ۔ "خیر سمجھتی رہے مجھے کیا ۔۔ مائی فٹ ۔۔”
    "ہاں تجھے کیا پر پیارے ولیمے میں آکر اُس کی غلط فہمی دور کر دے ۔۔ ورنہ یہ بلا تیرے گلے پڑ جائے گی ۔۔ وہ آ نٹی کےبھی گلے لگ کر یوں شرما رہی تھی ۔۔جیسی اُن کی بہو اناؤنس ہو گئی ہو” ۔۔۔ صمید نے گویا بم پھوڑا
    "اوہ مائی گاڈَ ۔۔ کیا مصیبت ہے ؟؟ دیکھ لوں گا میں ڈونٹ یو وری ۔۔”
    اُس نے غصے میں سیل بیڈ پر پھینکا ۔۔ کمرے کے چار پانچ چکرکاٹے ۔۔ پانی کا جگ خالی تھا ۔۔ کچن میں جا کر پوری بوتل غٹاغٹ منہ سے لگا کر خالی کی ۔
    "ارمان! پیچھے سے ممی کی غصیلی آ واز پر وہ چونک کر پلٹا ۔۔
    "ہزار دفعہ منع کیا ہے کہ بوتل کو منہ لگا کر پانی مت پیا کرو "۔۔ انہوں نے بوتل اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر گلاس سامنے پٹخا لیکن وہ اِس وقت ممی کا کوئی لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔
    گلا س کو نظر اندازکر کے فریج سے دوسری بوتل نکالی ۔۔ اور منہ کو لگاتا ہوا لاؤنج کی طرف بڑھ گیا ۔وہ غصے میں تھا ۔ مریم کو یہ جاننےمیں ایک منٹ بھی نہیں لگا ۔۔
    وہ کچھ سوچتے ہوئے اُس کے پیچھے آ ئیں ۔۔
    "ارمان کیا بات ہے؟؟ "۔۔وہ ٹی وی آن کیے غائب دماغی سے چینل پر چینل بدلتا رہا۔
    "ارمان۔۔ مریم نے لاڈ سے اُس کے بال سنوارے ۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ میرا کُول بیٹا اتنے غصے میں کیوں ہے؟؟”
    "ممی پلیز ۔۔ اپنی اِن سٹوپڈ بھانجیوں، بھتیجیوں کو مجھ سے دور رکھا کریں۔۔ زہر لگتی ہیں یہ مجھے ۔۔ وہ جیسے پھٹ پڑا
    "کیا زارش سے لڑائی ہوئی ہے تمہاری ۔۔ ؟؟”
    "میری اس سے کبھی کوئی دوستی ہی نہیں تھی تو لڑائی کا کیا سوال "۔۔ اس نے ناک سے مکھی اڑائی
    "لیکن وہ تو ۔۔۔ وہ تو کہہ رہی تھی ۔۔”
    جی وہ فرما رہی تھیں کہ "میں نے کزنز کی فوج میں اُن کا انتخاب کر لیا ہے ۔۔ یہی نہ۔۔۔ تو آ پ سن لیں کہ۔ یہ اُن کے دماغ کا فتورہے ۔ آ ئی ایم ناٹ انٹرسٹڈ اِن ہر ریئلی ۔”
    تو کیا برائی ہے اس میں خوبصورت ہے ، اچھی تعلیم یافتہ فیملی ہے ۔۔۔میں تو اُسے پسند کر چکی ہوں۔۔
    ممی ! وہ تڑپ کر کھڑا ہوا ۔۔۔ خدا کے لیے مجھے بخش دیں ۔۔ زہر لگتی ہیں مجھے ایسی لڑکیاں ۔۔ پھر پاؤں پٹختے ہوئے لاؤنج نکلا ۔
    مریم نے غصے سے اُسے جاتے دیکھا اور پھر پیچھے کھڑے ڈاکٹر یوسف کو جن کے لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی ۔۔ وہ جل ہی تو گئیں ۔
    "جی ۔۔ بس آ پ کی کمی تھی ۔۔ اڑا لیں آپ مذاق ۔”
    "کول ڈاؤن مریم ۔۔ یہ ایسا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے ابھی وہ پڑھ رہا ہے اس کی شادی میں بہت ٹائم ہے۔۔ انہوں مریم کو کندھوں سے تھام کر پر سکون کرنے کی سعی کی ۔”
    "ٹھیک ہے تم دونوں باپ بیٹا کوئی افلاطون بہو ڈھونڈ کر لے آنا میری بھانجیاں بھتیجیاں تو اِسے زہر لگتی ہیں "۔ ۔ مریم کی سوئی اب تک وہیں اَٹکی ہوئی تھی ۔
    "نہیں ہم تمہیں بھی ساتھ لے کر جائیں گے "۔۔ڈاکٹر یوسف نے اُنہیں چھیڑا ۔۔
    *****************

    پاکستان میں توانائی کا بحران اور متبادل ذرائع پر سیمینار تھا اور منتہیٰ نے اپنے ریسرچ پیپر کے لیے ونڈ پاورکا موضوع منتخب کیا تھا ۔”پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے پنجاب اور سندھ ہی کیا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے وہ علاقے جو پہلے اپنے معتدل موسم کی وجہ سے جنت سمجھے جاتے تھے اب اپریل مئی سے سورج وہاں بھی آگ اگلنا شروع کردیتاہے، جس کے ساتھ طویل لوڈشیڈنگ کے تو عوام عادی ہو ہی چکے ہیں ۔ ہماری گورنمنٹ توانائی کے اِس بحران سے نمٹنے کےلیے نہ تو مناسب منصوبہ بندی کرتی ہے، نہ ہی اُس کا دھیان اِن متبادل ذرائع کی طرف جاتا ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں مفت دستیاب ہیں ۔

    "خدا کی کا ئنات جتنی وسیع ہے اُس کا ظرف بھی اتنا ہی بڑا ہے ، اگر ہم کائنات کے آ فاقی نظام پر غور کریں تو ہمیں اِس کی ہر چیز ایک دوسرے سے تعاون کرتی نظر آ ئے گی ۔۔ اگر سورج اپنی روشنی روک کر چاند اور زمین پر ٹیکس لگا دے تو دنیا کی ایسی کون سی طاقت ہے جو سورج کی یہ روشنی ہمیں فراہم کر سکے ۔ جو زمین پر انسانی بقا کے لیئے لازمی ہے ۔ زمین کے سارے سمندر ، دریا ، جھیلیںاپنے پانی پر انسانوں سے بل وصول نہیں کرتے ۔ لیکن صد حیف کہ خدا کی ہر نعمت سے مفت لطف اندوز ہو کر انسان زمین کےایک ٹکڑے پر اپنی کم ظرفی دکھاتا ہے ۔۔ زن، زر اور زمین یہ سب نعمتیں اللہ پاک نے اسے عطا کی تھیں۔۔ لیکن انہیں اپنی پراپرٹی سمجھ کر وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے اور عزتیں اچھالنے میں مصروف ہے ۔۔”ہم نے اپنا سوسائٹی سسٹم کچھ ایسا بنا لیا ہے کہ یہاں کھیتی صرف اُسی کی پروان چڑھتی ہے جو دوسروں کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنے کھیت سیراب کرتا ہے ۔
    ’’جبکہ قرآن کا آ فاقی پیغام یہ ہے کہ کھیتی اسی کی سر سبز رہتی ہے جو دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتا ہے ۔۔‘‘
    ہوا بھی خدا کی ایک ایسی ہی نعمت ہے جو مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ لا محدود توانائی کا ذریعہ بنائی جا سکتی ہے۔۔ وائنڈپلانٹس کی لاگت ، پیداوار اور پاکستان بھر میں وہ تمام مقامات جو ایسے پلانٹس کے لیئے موزوں ترین ہیں ان کی سب تفصیلات منتہیٰ کے ریسرچ پیپر میں موجود تھیں ۔۔
    اس کے ٹیچرز نے ہی نہیں سیمینار کے شرکاء نے بھی ریسرچ پیپر کو بھرپور سراہاتھا۔

    "پاکستان میں نہ تو ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ ہی وسائل کی ، ایک سے بڑھ کر ایک ذہین نوجوان جب یہاں سے باہر کی یونیورسٹیز میں جاتا ہے تو اُس کی یہ صلاحیتیں کچھ اور نکھر کر سامنے آ تی ہیں ۔۔لیکن پھر باہر کی چمک دمک اور اپنی اولاد کا روشن مستقبل اُسے بہت حد تک خود غرض بنا دیتا ہے ۔ اور پیاری دھرتی کہیں پسِ پشت چلی جاتی ہے۔۔ انڈیا آ ج آئی ٹی کے میدان میں ہم سے کئی گُناآ گے اس لیے ہے، کہ ا نہوں نے با صلاحیت نوجوان نسل کو اپنے وطن میں باہر کے ممالک سے بڑھ کر نہیں تو اِن کے ہم پلہ سہو لیات و ذرائع ضرور فراہم کیے ہیں ۔۔ اگر آج پاکستان میں بھی یہ سہولیات دستیاب ہوں تو ہزاروں محبِ وطن نوجوان اپنی دھرتی لوٹ آ ئیں جنھیں موجودہ حالات میں مستقبل کے اندیشے دیارِ غیر کو خیر باد نہیں کہنے دیتے۔

    جاری ہے

    *****************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سر یوسف کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی ا نہیں یہی امیدتھی۔ ٹھیک ہے میں آ پ کو کانٹیکٹ نمبر دے رہا ہوں مزید تفصیلات آپ خود طے کر لیں اگرچہ آپ انفرادی طور پر اِس ڈسکشن میں شریک ہوں گی لیکن میری خواہش ہے کہ آ پ مجھے اس کی اوورآل پروگریس سے آ گاہ کریں "۔۔۔ سر نے خوش دلی سے کہ
    وہ میں نہ بھی کروں تو سر آ پ کا سپوتِ نامدار آ پ کو سب خود ہی بتا دے گا ۔ مینا نے جل کر سوچا ۔
    "اوکے شیور آئی ول سر "۔۔ سنجیدگی سے جواب دے کر وہ جانے کے لیے اٹھی۔
    "یہ پیج مس فاریہ کو واپس کر دیجئے گا "۔۔ سر نے ایک فولڈ پیج اس کی طرف بڑھایا۔ اب وہ اپنے سیل کی طرف متوجہ تھے۔
    منتہیٰ نے آفس سے باہر آکر پیج کھولا سر کی ہینڈ رائیٹنگ میں اوپر ہی ایک نوٹ لکھا تھا
    Really appreciating !! Miss Faria your sense of humor is quite impressive…I Hope your assignment on Aliens will be more amusing…


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اور منتہیٰ جو بہت کم کھلکھلا کر ہنسا کرتی تھی ، اس نے اپنااونچا قہقہہ بمشکل ضبط کیا ۔
    "تم نے بتایا نہیں سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟؟”۔۔ رات تک فاریہ کا تجسس عروج پر پہنچ چکا تھا
    "تمہارے رائٹنگ پیڈ کا پیج واپس کرنے کے لئے”۔۔ منتہیٰ نے پرس سے کاغذ نکال کر اُس کے سامنے پھینکا
    حیرت سے دیدے گھماتے ہوئے فاریہ نے پیج کھولا ۔۔۔ سامنے ہی سر کا نوٹ تھا۔۔ اور پھر پیٹ پکڑ کر وہ کافی دیر تک ہنستی رہی ۔
    یہ سر یوسف کتنے کیوٹ ہیں نہ۔۔۔ بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پا یا
    فاریہ بی بی! صبح تک سر آ پ کو ڈفر بلکہ اوورکوٹ لگا کرتے تھے ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔
    وہ تو اب بھی لگتے ہیں اور لگتے رہیں گے فاریہ جیسے ڈھیٹ پیس کم ہی تھے ۔ اچھا تم مجھے چکر مت دو شرافت سے بتاؤ کہ سر نے تمہیں کیوں بلایا تھا ۔۔؟؟
    فاریہ کو یقین تھا کہ ارمان یوسف کے پاس اپنے سارے بدلے چکانے کا یہ بہتر ین موقع تھا ۔
    اور منتہیٰ نے اسے مختصراٌ ڈسکشن سیشن کی تفصیلات بتائیں۔۔ شام میری سنٹر بات ہوئی تھی انہوں نے ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ رکھی ہے اور فاریہ کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
    "اف! تم نے ڈیٹ تک فائنل کرلی ۔۔یار منتہیٰ کچھ عقل کے ناخن لو وہ انجینئرز ہیں اپنے پراجیکٹ کے بارے میں ہم سے کہیں زیادہ نالج رکھتے ہیں ۔”
    "تمہارا خیال ہےکہ میں نے محض تفریحاًسوال کیا تھا ؟؟ ”
    "تو اور کیا ! یہ کیسے ممکن ہے کہ گھنٹہ دو گھنٹہ کی عمومی تفصیلات سے تم خامیاں ڈھونڈ لو "۔۔ فاریہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔۔
    "فاریہ بی بی”۔ "ہم پچھلے پانچ‘ چھ سال سے ایک ساتھ ہیں اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ منتہیٰ ہارنا نہیں جانتی ۔۔ میں نے آج تک کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کیا "۔۔ مینا کا اعتماد دیدنی تھا ۔
    "یہ پراجیکٹ کچھ عرصے پہلے انٹرنیٹ پر میری نظر سے گزرا تھا اور میں انتہائی گہرائی تک اِس کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوں ۔”
    "پھر تم چل رہی ہو نا میرے ساتھ؟؟ تمہارے نئے سوٹ کل ہی ٹیلر کے پاس سے آ ئے ہیں "۔۔ مینا نے شرارت سے اسے آفر کی ۔
    "کمینی ۔۔تم اکیلی بھگتو اپنے پنگے۔۔ فالتو میں مجھے مت گھسیٹو "۔۔فاریہ نے اسے کھینچ کر تکیہ مارا ۔
    فاریہ کو سو فیصد یقین تھا ارمان یوسف نے منتہیٰ کو بری طرح گھیرا تھا چانسز کم تھے۔ کہ وہ اِس بار بھی فاتح لَوٹے گی۔۔
    ***************************
    دوسری طرف ارحم کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔ ۔۔ "اب آ ئی بکری چھری تلے۔۔”
    "تم مجھے تو ساتھ لے کر جا رہے ہونہ ؟؟ "سارے بدلے چکانے کا اس سے بہتر موقع بھلا ارحم کو اور کب ملنا تھا ۔
    "ہر گز نہیں ،،میرے ساتھ صرف شہریار جائے گا "۔ ارمان نے اپنے بیسٹ فرینڈ کا نام لیا جس کا پورے پراجیکٹ میں بھرپورتعاون تھا ۔
    "اگر وہ لڑکی اتنی آسانی سے ایک ڈسکشن سیشن پر آمادہ ہے تو لازمی اس کے پوائنٹس میں وزن ہوگا۔ ہمیں ایک دفعہ پھر سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لینا ہوگا "۔۔ ارمان نے شہریار کو مخا طب کیا جو منتہیٰ کی ہسٹری سے نا واقفیت کے سبب ہونقوں کی طرح دونوں کی شکل دیکھ رہا تھا ۔۔
    "ارے یار تو اِس کو اتنا سیریس کیوں لے رہا ہے ۔۔ وہ لڑکی فزکس میں تھوڑی بہت نالج کی بنا پر اَکڑ رہی ہے "۔ ہونہہ
    وہ بھلا ہم انجینئرز کا مقابلہ کر سکتی ہے، وہ بھی جب سپارکو کے آفیشلز ہمارے پراجیکٹ کو کلیئر کر چکے ہیں ۔
    ارحم نے ناک سے مکھی اڑائی۔
    لیکن ارمان فیس بک کی طویل ڈسکشنز میں بارہا دیکھ چکا تھا کہ۔” منتہیٰ دستگیر صرف اسی موضوع پر بولتی ہے جس پر اسے مکمل عبورہوتا ہے ۔۔”
    ***************************
    پیر کے روز وہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ سپارکو ریسرچ سینٹر پہنچے ۔۔ سپارکو کے دو آفیسرز ڈسکشنز روم میں موجود تھے۔۔ اور منتہیٰ ٹھیک وقت پر پہنچی تھی ۔ بلیک عبایہ اور سکارف میں ملبوس اِس دھان پان سی لڑکی کو شہریار نے بہت غور سے دیکھا ۔ گرمی کے باعث جس کا سپید چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا ۔
    "بیوٹی وِد برین "۔کیا دونوں اکھٹی ہو سکتی ہیں ؟؟ ابھی لگ پتا جائےگا محترمہ کتنے پانی میں ہیں ۔؟؟
    شہریار کو ارحم ‘ منتہیٰ کی ساری ہسٹری اَزبر کروا چکا تھا جبکہ شہریا ر کے بغور جائزے کے برعکس ابتدائی تعارف کے بعد ارمان نے ایک اُچٹتی نظر بھی منتہیٰ پر نہیں ڈالی تھی۔ وہ اپنے رائٹنگ پیڈ پر کچھ نوٹس لینے میں مصروف تھا ۔
    مس دستگیر! پانچ روز پہلے پراجیکٹ کی تمام تفصیلات آپ کو اِس وارننگ کے ساتھ میل کی گئی تھیں کہ یہ کانفیڈینشل رہنی چاہئے۔
    آپ یقیناٌ ان کا جائزہ لے چکی ہوں گی؟؟ سینئر آفیسر نے بات کا آغاز کیا ۔
    منتہیٰ نے اثبات میں سر ہلایا وہ محتاط تھی یہ فیس بک کا کوئی ڈسکشن گروپ نہیں تھا‘ ایک حساس جگہ تھی ۔سپارکو کی اِس پراجیکٹ میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شرح اور اُن سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی تھی جنسے نمٹنے میں ہماری اتھارٹیز تقریباٌ ناکام ہو چکی تھیں۔
    مس دستگیر !آپ نے سوال و جواب سیشن میں ہارپ کی یو ایف او سے متعلق پوائنٹ اٹھایا تھا ہم نے اِس پر ایک ہفتے تک کافی تحقیق کی ہے۔
    "یہ بے انتہا طاقتور الیکٹرومیگنیٹک ویو ز زمین کے اندر گہرائی تک جذب ہوکر اندرونی درجۂ حرارت کو آ خری حد تک بڑھاکر اِس کی ٹیکٹونک پلیٹس کوچند منٹوں میں متحرک کر دیتی ہیں ۔۔ جتنی طاقتور یہ لہریں ہوں گی اتنی ہی شدت کا زلزلہ آ ئے گا ۔ دوسری صورت میں اگر اِن کا اینگل آف پروجیکشن ۱۸۰ ڈگری کی حد میں ہو تو یہ سیدھا سفر کرتی ہوئی ایٹماس فیئر میں جذب ہوکر فوری طور پر سٹرینج کلاؤڈ ز ڈیویلپ کرتی ہیں‘ جس سے اِس علاقے کے موسم میں اچانک بڑی تبدیلی رونما ہوکر کبھی طوفان یا سائیکلون، کبھی ٹورناڈو یا موسلا دھار بارشوں کا سبب بنتی ہیں ۔ کچھ علاقوں میں اِن کے باعث بارش کی قلت اور خشک سالی بھی نوٹ کی گئی ہے۔”
    لیکن اِن سب تفصیلات سے قطعہ نظر اب تک کسی بھی ملک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کے ذریعے اِن موجوں کو روکا یاپسپا کیا جا سکے ۔
    کیونکہ بظا ہر یہ ا مریکہ کا ہائی فیکوئینسی اورورل ریسرچ پروگرام ہے جس کا تعلق آئینو سفیئر کی سٹڈی سے ہے۔
    ارمان نے تمام تفصیلات بتا کر بات ختم کی ۔
    یہ سب مجھے معلوم ہے ۔ منتہیٰ نے ناک سکیڑی ۔
    "یہ شعاعیں براہِ راست اوزون پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس کے باعث پوری دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے ،
    اِن کے لئے صرف جیو سینسنگ کافی نہیں ہوگی بلکہ ہمیں سٹیلائٹ یا راڈار سےایسا سسٹم متعارف کروانا ہوگا جو بر وقت اِن برقی مقناطیسی موجوں کو ڈیٹیکٹ کرے ۔”
    "جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔یہ لوگ آج انسانیت کے خدا بنے بیٹھے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہم صرف ا یک خدا کی ذاتِ پاک پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ۔ہمیں میں سے کسی نے آگے بڑ ھ کر زمین کے اِن خداؤں کو چیلنج کرنا ہے ۔۔”
    مس آپ کے دلائل کافی خوبصورت ہیں لیکن یو نو واٹ کہ باتیں تو سب ہی بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے آسان کام ہوتاہے ۔شہریار نے چوٹ کی ۔
    "ایگز یکٹلی !”۔۔ منتہیٰ اِس طنز سے بالکل بھی متاثر نہیں تھی ۔۔
    "ایسا ہے کہ کسی بھی تعمیری کام کی بنیاد ڈسکشن پر ہی رکھی جاتی ہے دو چار افراد بیٹھ کر ایک عمارت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو سالوں بعد ایک تعمیری شاہکار وجود میں آتا ہے ۔ ہم اشاروں سے کام نہیں چلا سکتے ۔اپنا اپنا مؤقف ہمیں باتوں کے ذ ریعے ہی واضح کرناہے” ۔۔ منتہیٰ کی جوابی چوٹ مزید سخت تھی۔
    "اُوکے تو پھر آپ ٹو دی پوائنٹ رہتے ہوئے اِن خامیوں کا ذکر کریں جو آپ کو ہمارے پراجیکٹ میں نظر آ رہی ہیں ۔۔” شہریار کا خیال تھا کہ لڑکی باتوں میں اصل موضوع کو گھما رہی ہے ۔
    "جی اگر آپ تھوڑا صبر کر لیتے تو میں اسی طرف آ رہی تھی "۔ منتہیٰ نے تیکھی نظروں سے شہریار کو گھورا ۔۔ ایئر کنڈیشن کمرے میں بھی باہر کی سی گرمی در آئی تھی ۔
    "ایسا ہے کہ جو سسٹم آپ نے ڈیویلپ کیا ہے وہ ابتدائی وارننگ بھی دے گا ،دور دراز علاقوں کی بھر پور معلومات وغیرہ بھی ۔ سب آپشنز اس میں موجود ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ۔۔”
    منتہیٰ نے ایک لمحے رک کر شہریار اور ارمان پر گہری نظر ڈالی۔
    "کہ یہ صرف تخمینے فراہم کرے گا ۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ یو ایس یا یو این او‘ دوکے بجائے پانچ کروڑ کی امداددے دیں گے ۔۔ لیکن یو نو واٹ کے ہماری اتھارٹیز نا اہل ہیں ۔’’صرف تخمینے اُن المیوں کا سدِ باب نہیں کر سکتے جو کسی بھی طرح کے ڈیسازٹرسے جنم لیتے ہیں۔”
    "مِس ۔ڈیسازٹرز سے نمٹنا اور ریلیف فراہم کرنا ۔۔۔ہم انجینئرز کا نہیں گورنمنٹ کا کام ہے”۔ اب کہ ارمان نے مداخلت کی ۔۔
    تو پھر آپ یہ لکھ لیں کہ "اِس پراجیکٹ کو سپارکو بو سٹ اپ کرے یا ناسا ۔انجینئرنگ لیول پر آپ کو کتنے ہی واہ واہ یا
    ا یوارڈ مل جائیں۔۔۔یہ قدرتی آ فات سے لڑتے نہتے عوام کے کسی کام کا نہیں ہے "۔ منتہیٰ کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
    "سر آ پ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟؟ "۔ارمان نے سینئر ریسرچ آفیسرز کو مخاطب کیا ۔جو کافی دیر سے خاموش تھے۔
    مس دستگیر کی بات میں وزن ہے۔ ۔”ہم اِس سے پہلے بھی گورنمنٹ کو اِس طرح کی کئی سہولیات فراہم کر چکے ہیں لیکن ہماری بیورو کریسی کسی بھی طرح کے فلاحی کام کو آ گے بڑھنے نہیں دیتی ،اگر سسٹم کے فوری تخمینوں کے مطابق بھرپور ریلیف آپریشن کیا جائے ، جو گائڈ لائنز یہ سسٹم دیتا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کرتے ہوئے ایک سٹریٹیجی ڈیولپ کی جائے تو عوام کو بھر پور ریلیف ملے گا ۔۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہو اِس کے چانسز ۵۰فیصد بھی نہیں ۔
    "اور سر آپ کیا کہتے ہیں ؟؟”۔۔ شہریار نے دوسرے آفیسر سے پوچھا ۔۔ اسے ڈاکٹر عبدالحق کا تجزیہ ایک آنکھ نہیں بھایاتھا۔۔
    "میرا خیال ہے کہ اس ڈسکشن کو کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہیں ۔۔ سب کو سوچنے کے لیئے وقت چاہئے ۔”اگر صرف ایک سسٹم بنا کر اتھاریٹیز کو دینا ہے تو میں اس میں چھوٹے موٹے نقائص ہی دیکھ رہا ہوں جو زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔”
    "لیکن اگر ہم بڑے پیمانے پر عوام خصوصاٌ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے قدرتی آفات سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں،تو ہمیں ابھی بہت کچھ اپ ڈیٹ کرنا ہوگا بہت سی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔”
    "سیشن کی اگلے ڈیٹ سے آپ لوگوں کو جلد مطلع کر دیا جائے گا ۔”
    شہریار وہاں سے کافی بد دل ا ٹھا تھا ،جبکہ ارمان کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔۔
    ’’یہ لڑکی واقعی کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہیں کرتی ۔‘‘
    ***************************
    رامین نے پری میڈیکل فیصل آباد ڈیویژن میں ٹاپ کیا تو سب سے پہلے یہ خبر منتہیٰ کو دی ۔
    سمسٹر کے امتحانات نزدیک ہونے کے باعث فوری طور پر گھر جانا ممکن نہیں تھا اور سر انور نے اُسے ریسرچ پیپر کا چیلنج بھی دیا ہوا تھا۔آہستہ آہستہ منتہیٰ کی مخفی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آ رہی تھیں۔ وہ بری طرح اپنے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ مگر چھوٹی بہن کی اتنی بڑی کامیابی پر تحفہ تو بنتا تھا سو اگلے دن وہ یونیورسٹی سے سیدھی لبرٹی مارکیٹ گئیں ۔
    رامین کے لیے اس کی پسند کے کچھ سوٹس لے کر ٹی سی ایس کئے اور پھر کافی دیر تک اِدھر اُدھر ونڈو شاپنگ کرتی رہیں
    فاریہ کا ارادہ اس روز لاہور کی فوڈ اسٹریٹ سے سیخ کباب اور کڑاہی اڑانے کا تھا، دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے مزیدار کھانا کھایا ۔
    اگرچہ فاریہ کی خوش خوراکی سے مینا ہمیشہ سے چڑتی تھی۔۔ مگر کبھی کبھار کی یہ تفریح اب اُسے اچھی لگنے لگی تھی سٹڈیز اور سیمینارکے پیپر کا جو بوجھ ہفتوں سے وہ کندھوں پر لیے پھر رہی تھی آج گھنٹوں میں اس سے نجات ملی تھی ۔
    انسان اگر صرف کتابوں میں گھِراجینے لگے تو اُسے بہت جلد کسی سائیکاٹرسٹ کی خدمات درکار ہوتی ہیں ۔ فاریہ نے منتہیٰ کو جتایا۔
    تم ہر بات میں آئن سٹائن، فائن مین اور سٹیفن ہاکنگ کے حوالے دیتی ہو ۔ یو نوواٹ کہ آئن سٹا ئن کہتا تھا ’’انتہائی ذہین افراد کی زندگی میں سب سے بڑا فقدان خوشیوں کا ہوتا ہے ۔‘‘ ہزاروں دلوں پر راج کرنے والوں کے اپنے دل سونے کیوں رہ جاتے ہیں ؟ اِس لیے کہ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ہیرے کو کہیں کوئی ایسا نہیں ملتا جو اُسے چھُو کرپارس کردے۔
    فاریہ کبھی کبھار فلسفہ بھی جھاڑا کرتی تھی ۔
    "اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِیسے لوگوں کا وجدان مختلف اور عام آدمی کی سطح سے بہت بلند ہوتا ہے ۔۔ اُنہیں ہجوم میں بھی کوئی اِیسا نہیں ملتاجس سے وہ برابری کی سطح پر دل کی بات کر سکیں اور وہ اُسے سمجھ بھی سکے”۔ مینا نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    "اُوہ اچھا ۔۔ تو آپ لوگوں کے پاس دل نام کی کوئی شے بھی ہوتی ہے ؟؟”
    "بالکل ہوتی ہے کیوں ہم انسان نہیں ہوتے "۔۔ مینا نے باقاعدہ برا منایا
    "ہم "۔۔۔ حسبِ عادت لمبی سے ہم کرتے ہوئے فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    "چلو کچھ لوگوں سے ملاقاتوں نے تمہیں یہ باور تو کرایا کہ تمہارے پاس دل بھی ہے ورنہ۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ صرف بلڈ پمپنگ ہی کیا کرتا تھا ۔”
    "اگر اُس وقت وہ میٹرو میں نہ ہوتیں تو آج فاریہ نے مینا کے ہاتھوں قتل ہی ہوجانا تھا "۔۔ میٹرو عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔۔سو منتہیٰ خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی ۔
    ***************************
    ایک ہفتے بعد منتہیٰ کو صبح صبح امی کی کال موصول ہوئی ۔
    "تمہارے ابو کل لاہور آ رہے ہیں رامین کے ایڈمیشن کے سلسلے میں ۔۔”
    حالانکہ منتہیٰ کو رامین کی پلاننگ کے بارے میں کئی ماہ سے علم تھا ۔ پوزیشن کے بعد اب اس کا سکالرشپ ڈیو تھا ، سو حسبِ خواہش کنیئرڈ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کچھ مشکل نہ تھا۔
    ہر روز صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے اور آ نے کے بعد وہ سب سے پہلے امی کو کال کیا کرتی تھی۔ کہ جب تک دن میں وہ چار دفعہ اس سے بات نہ کرلیتی تھیں ان کا دل ہولتا رہتا تھا۔
    ’’ "ماں کا دل بھی خدا نے ناجانے کس مٹی سے بنایا ہے کہ اس کی ہر دھڑکن اپنی اولاد کی سلامتی سے وابستہ ہوتی ہے ۔ کسی مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو پروں میں چھپائے وہ مطمئن رہتی ہے، لیکن جب اُن میں سے کوئی دور چلا جائے تو جیسےُ اس کی روح کا ایک حصہ بھی کہیں بہت دور چلا جاتا ہے ۔ہر آ تی جاتی سانس کے ساتھ فکر اور اندیشے ۔ ”
    پتا نہیں ناشتہ کر کے گئی ہوگی، کینٹین کی کیا الا بلا کھا لی ہوگی ۔ ہاسٹل کے مینو پر تو اُنہیں بہت ہی تاؤ آتا تھا ۔۔ گرمی نے میری پھول سی بچی کا کیا حا ل کر دیا ہے ،سکائپ پر انہیں منتہیٰ کا رنگ ہر روزکچھ اور سنولایا ہوا محسوس ہوتا کہ منتہی ٰ کی سرخ و سفید رنگت والی لڑکی ان کے میکے یا سسرال دونوں میں نہ تھی ۔
    اور اب تو رامین بھی رختِ سفر باندھنے کو تھی ۔۔ عاصمہ کے دل کو جیسے کسی نے مُٹھی میں لے رکھا تھا مگر کچھ کہنا فضول تھا وہ جانتی تھیں
    فاروق ہی نہیں ان کی اولاد بھی جب ایک فیصلہ کر لے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔
    اُن کی ہونہار بیٹیاں سکالر شپ پر میڈیکل ، انجینئر نگ میں جا رہی تھیں ۔ وہ اب بہت فخر سے اپنے حلقۂ احباب میں بتایا کرتی تھیں۔”یہ مائیں بھی نہ بس۔”
    ***************************
    "میری جان”۔”کبھی اپنی ان سٹڈیز سے باہر بھی نکل آیا کرو "۔۔ ممی نے لاڈ سے ارمان کے بال سنوارے جو ایک ہاتھ میں کافی کامگ لیے لیپ ٹاپ پر بزی تھا ۔
    "ممی بس پراجیکٹ کی وجہ سے مصروفیات کچھ بڑھ گئی ہیں” ۔۔ اس نے ماں کو گول مول جواب دیا ۔
    "ٹھیک ہے لیکن اب تمہیں ہر صورت ٹائم نکالنا ہے ۔ اگلے ہفتے تمہارے کزن رامش کی شادی ہے سارے کزنز ہلے گلے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں اور ایک تم ہو کہ پڑھائی سے فرصت نہیں۔”
    ممی نے پیار سے اُسے ڈانٹا ۔۔ یہ وہی ارمان تھا جسے وہ کبھی سٹڈی کے لیے گھُرکا کرتی تھیں ۔۔
    "اُوکے ممی! ڈونٹ وری میں فنکشن اور کوئی بھی امیوسمنٹ مِس نہیں کروں گا ۔۔ میں خود تھو ڑی چینج کے موڈ میں تھا ۔” آپ کب جا رہی ہیں ماموں کی طرف ؟؟؟
    میں اِسی لیے تو آئی تھی کل تمہاری خالہ نیو جرسی سے آ ئی ہیں میں اور تمہارے پاپا ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔ اِس وقت وہ کہیں بھی جانے کے موڈ میں نہیں تھا پر ممی اُس سے بہت کم اِصرار کرتی تھیں سو پندرہ منٹ بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔
    ماموں کے گھر فکنشنز کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ سب بڑے لان میں جبکہ کزنز پارٹی کا ڈیرہ لاؤنج میں تھا ۔ ماموں ، خالہ اور خاندان کے باقی بڑوں کو سلام کرتا ہوا ارمان اندر پہنچا ۔
    ارمان کا ماموں زاد را مش ایم بی اے کے بعد اپنے باپ کا وسیع بزنس سنبھالتا تھا جبکہ اُس سے چھوٹا ارمان کا ہم عمر صمید ابھی بی بی اے میں تھا ۔۔ اندر آتے ارمان پر پہلی نظر صمید ہی کی پڑی تھی۔
    "ارے واہ۔۔ آ ج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔ کہاں ہوتا ہے یار تو ؟؟ "۔گلے ملتے ہی ساتھ شکوہ بھی حاضر تھا
    "بس یار سٹڈیز اور پراجیکٹس سے ہی فرصت نہیں ملتی سب کزن سے مل کر ارمان کاؤچ پر بیٹھا ہی تھا کہپیچھے سے آتی آواز نے چونکایا۔
    گلیڈ ٹو میٹ یو ارمان ۔۔ یہ زارش تھی ارمان کی خالہ زاد جو کل ہی نیو جرسی سے آ ئے تھے ۔
    ارمان کچھ زیادہ مذہبی یا بیک ورڈ تو نہ تھا پھر بھی فیمیلز سے ہاتھ ملانے سے اجتناب ہی کیا کرتا تھا ،مگر زارش کا سپید نازک سا ہاتھ سامنے تھا سو اسے ہاتھ ملاتے ہی بنی ۔
    سب کزنز کا مشترکہ انٹرسٹ مہندی فنکشن تھا ۔۔ ارمان کے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈانسر موجود تھا ۔۔ بہت سے پیئرز مقابلے کے لئے تیار تھے ۔
    "ارمان تم ایسا کر و ۔۔زارش کے ساتھ اپنا پیئر بنا لو "۔۔ رامش نے صلاح دی ۔
    "نہیں یار تم لوگ انجوائے کرو۔۔ میری تو کوئی پریکٹس ہی نہیں "۔۔ارمان نے جان چھڑائی
    "لو پریکٹس ابھی ہو جائے گی تم میرے ساتھ دو سٹیپ تو لو ۔۔ ردھم بن گئی تو دیکھنا ہم ان سب کو ہرا دیں گے”۔ زارش کی ایکسائٹمنٹ عروج پر تھی ۔ "بے شک سب میں ان کا کپل تھا بھی لا جواب۔۔”
    "ایسا ہے کہ میں ابھی پراجیکٹ کا کام ادھورا چھوڑ کر آیا تھا ۔۔ پھر کل فرصت میں ملتے ہیں "۔۔ اس سے پہلے کہ وہ بلا دوبارہ گلے پڑتی ارمان باہر لان میں تھا ۔۔
    "اور کل ۔ کس نے دیکھی ہے زارش بی بی "۔۔ وہ خاصہ بد مزہ ہوا تھا
    اور پھر دو دن بعد وہ ممی کے ساتھ مہندی فنکشن پر ہی پہنچا تھا ۔۔۔ یار تو کدھر تھا میں اور زارش تجھے کال کر کر کے تھک گئے۔۔رامش چھوٹتے ہی ناراض ہوا ۔
    "یار وہ بس پراجیکٹ ڈسکشن کے لیے سپارکو جانا پڑا "۔۔ ارمان نے ہفتوں پہلی کی ڈسکشن کا بہانا بنایا ۔
    زار ش اب کسی اور کزن کے ساتھ پیئر بنا چکی تھی اُس کا خیال تھا کہ ارمان کچھ سپیشل ایکسکیوز کرے گا۔ لیکن اس نے تو ایک کے بعد۔اُس پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔۔ حالانکہ سب ہی کزن کا خیال تھا ،کہ سی گرین شرارہ، سلیو لیس اور کھلے گلے کے بلاؤز ، فُل میک اپ اورڈھیر ساری چوڑیوں کے ساتھ‘ وہ قیامت ہی تو ڈھا رہی تھی ۔
    "ہونہہ! خود کو سمجھتا کیا ہے؟؟ "۔۔اس نے نخوت سے ارمان کو دیکھا ۔۔” اِسے اپنے قدموں میں نہ جھکایا تو میرا نام بھی زارش نہیں ۔”

    جاری ہے
    **********