Tag: Dawaam

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جی مجھے یاد آیا کچھ عرصے پہلے تک آپ لوگوں سے فیس بک پر طویل مباحثے ہوا کرتے تھے ۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی”۔
    "کہیے یہاں کیسے آنا ہوا ؟؟ "۔۔ارمان نے خوش اخلاقی سے جواب دیا
    "ہم یہاں کنٹیسٹ کے لیے منتہیٰ کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔ فاریہ نے مڑ کر دیکھا منتہیٰ باہر جاچکی تھی ۔۔
    "آج تیری خیر نہیں بچو "۔۔۔ اُس نے اب منتہیٰ کا فل ریکارڈ لگانا تھا ۔۔
    "ہم بھی ارمان کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔۔ "یہ ارحم تنویر تھا "۔۔ فاریہ کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی
    "اوہ ریئلی پھر تو زبردست کنٹسیٹ رہے گا "۔۔فاریہ حسبِ عادت منٹوں میں ایکسائٹڈ ہوئی ۔۔
    "آپ لوگ کیا کپمیٹیشن کے لیے لاہور آ ئی ہیں ۔۔ ارحم نے دریافت کیا ‘ فاریہ کی طرح اسے بھی فرینک ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی”۔ جبکہ ارمان ریزرو تھا۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "نہیں ہم تو اب یہیں پائے جاتے ہیں پنجاب یونیورسٹی میں ۔۔ آپ کے پاپا سر یوسف بہت ہی متاثرکُن شخصیت رکھتے ہیں "۔۔اب کے اُس کا مخاطب ارمان تھا ۔
    "تھینکس ۔اینڈ وش یو بیسٹ آف لک ۔۔ ”
    فاریہ کو ایک دم منتہیٰ یاد آ ئی ۔۔ تیزی سے شکریہ اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے اُس نے باہر دوڑ لگائی ۔
    حسبِ توقع مینا عریب قریب کہیں بھی نہ تھی ۔۔ فل سپیڈ میں بھاگ کر فاریہ مین انٹرینس تک پہنچی ۔منتہی گیٹ سے باہر ایک طرف جاتی نظر آ ئی۔۔
    "ایک تو تم انتہائی فضول لڑکی ہو فاریہ نے پھولی سانس کو بمشکل ہموار کیا ۔۔۔ ”
    "تم سے کم "۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ مختصر جواب آ یا
    "خوش فہمی ہے تمہاری ہونہہ ۔۔۔۔ تم پانچ منٹ انتظار نہیں کر سکتی تھیں ۔۔؟؟”
    "پانچ منٹ انتظار میں نے کیا تھا فاریہ بی بی” ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔۔
    وہ مجھے پتا ہے کہ تم وہاں کیوں رکی تھیں ۔۔ ویسے تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ فاریہ تو ارمان یوسف کو بھول گئی تھی لیکن منتہیٰ دستگیر اُسے سیکنڈوں میں یاد آئی ۔۔فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    کیا۔۔۔ تم نے اُسے میرے بارے میں بتایا ؟؟ منتہیٰ کا پارہ آسمان کو پہنچا
    ہاں تو اِس کیا حرج تھا ۔۔ فیس بک پر تو وہ تمہیں جانتا ہی تھا نہ ۔۔تم فیک نہیں جو میں چھپاتی ۔۔۔
    اُف۔۔ فاریہ تم انتہائی درجے کی احمق اور ڈفر لڑکی ہو ۔۔ مینا کا بس نہیں چل رہا تھا کی فاریہ کو کچا چبا جائے۔۔
    "اچھا چلو غصہ تھوک دو ۔۔۔ آ ؤ تمہیں یہاں مزیدار آئس کریم کھلاتی ہوں "۔۔فاریہ پر مینا کی ڈانٹ پھٹکار کا کچھ خاص
    اثر نہیں ہوتا تھا۔
    سو وہ اسے کھینچتی ہوئی میٹرو سٹیشن کی جانب چل دی

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ویک اینڈ پر شام پانچ بجے وہ الحمرا ء ہال میں پہنچیں تو ہال بھانت بھانت کے لوگوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا ، جن میں سے
    کوئی بھی ان کا شناسا نہ تھا ، سو ایک اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتی ہال کی سیر کرتی رہی۔
    فاریہ بہت ایکسائیٹڈ تھی جبکہ منتہیٰ کو کچھ زیادہ پرامید نہیں تھی ، پینٹنگ ہمیشہ سے اس کا شوق رہا تھا ، مگر وہ بہرحال پروفیشنل پینٹرنہ تھی ، اس لیے جب رزلٹ اناؤنس ہوا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا ۔
    "فرسٹ پرائز "۔ فاریہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ خوشی سے نعرے لگائے ۔۔۔اُس کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر اب منتہیٰ جلدی یہاںسے نکلنے کے چکر میں تھی۔۔۔کہ پیچھے سے آتی آواز نے اُن کے قدم روکے۔
    "ہیلو مس فاریہ ۔۔ یہ ارحم تنویر تھا ۔۔ کیسی ہیں آپ لوگ ؟؟ ”
    "ارے آپ لوگ فرسٹ پرائز جیت کر بھی اتنی جلدی جا رہی ہیں ۔۔غالباٌآپ لوگوں کے علم میں نہیں کہ یہاں لوگ منہ مانگے داموں پینٹنگز خرید لیا کرتے ہیں "۔ اَرحم نے انہیں آگاہ کرنا ضروریسمجھا۔
    اور منتہیٰ کے تو پاؤں کو لگی سر تک جا پہنچی ۔۔
    "مسٹر ایکس وائی زیڈ ۔۔ہمارا اپنی پینٹنگ سیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔”
    "”دنیا میں ہر چیزبکنے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔ کچھ چیزیں اَن مول ہوتی ہیں ۔۔
    درشتی سے اَرحم کو جھڑکتی وہ آگے بڑھ چکی تھی ۔۔
    پلیز آپ مائنڈ مت کیجیے گا یہ میری فرینڈ خاصی بد لحاظ ہے ۔۔ فاریہ نے ایکسکیوز کی ۔
    "اِٹس اُوکے ۔۔ میرے پاس مائنڈ ہی نہیں”۔ اَرحم نے دانت نکالے۔۔
    "اچھا پھر تو آپ ہمارے ہی قبیلے سے ہیں۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔ "آج آ پ کے دوست ساتھ نظر نہیں آ رہے ۔۔؟؟
    "ارمان ۔۔وہ ابھی تو یہیں تھا "۔۔ اَرحم نے اِدھرُ ادھر نظر دوڑائی ۔۔
    ویسے آپکی دوست کی پینٹنگ تھی بہت زبردست اِنھیں پروفیشنلی اِس طرف آنا چا ہیئے ۔۔
    "یہ جو میری دوست منتہیٰ ہے نہ۔۔اللہ نے اِسے ٹھونس ٹھونس کے صلاحیتیں دی ہیں ماشاء اللہ ۔۔”
    اُوہ آئی سی ۔۔
    Then  she  really  deserve  such  flatulence
    اَرحم نے دانت نکالے ۔۔ٹھیک اُسی وقت فاریہ کے سیل پر مینا کا ٹیکسٹ آ یا ۔
    "اب اگر میں اکیلی چلی گئی تو تمہیں ٹریٹ سے ہاتھ دھونے پڑیں گی "۔۔ اور فاریہ نے اللہ حافظ کہتے ہوئے باہر دوڑ لگائی ۔۔
    "اُن کی شرط لگی تھی کہ جیتنے پر مینا ٹریٹ دے گی” ۔ اور اسے پتا تھا دو سیکنڈ بھی لیٹ ہوئی تو منتہیٰ بی بی نے ارادہ بدل دینا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    پہلے سمسٹر میں فور پوائنٹ زیرو جی پی اے کے ساتھ منتہیٰ کی کلاس میں پوزیشن کچھ اور مستحکم ہو چکی تھی ۔۔۔سو ایک نئے جوش کے ساتھ دوسرے سمسٹر کے آغازکے لیے منتہیٰ مستعد تھی ، اس دفعہ کچھ اور لائق اساتذہ نے کلاسز لینی تھیں جن میں ڈاکٹر یوسف بھی شامل تھے۔

    "آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ کائنات کی حقیقت کی بارے میں آئن سٹا ئن کا مشہور قول کون سا ہے؟”
    سر یوسف نے ساری کلاس کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا ۔۔ پہلا بلند ہونے والا ہاتھ حسبِ سابق منتہیٰ کا تھا ۔۔ "یس۔ یُو۔ مِس۔”سر نے اُسے اشارہ کیا ۔
    "سر آ ئن سٹائن کا کہنا تھا کہ کائنات کی سب سے بڑی قابلِ فہم حقیقت یہ ہے کہ۔ یہ نا قابلِ فہم ہے ۔۔”
    "رائٹ یو نو واٹ کہ آئن سٹا ئن نے صرف ۲۶ برس کی عمر میں اپنا وہ پہلا ریسرچ پیپر لکھا تھا جو بالاخر کوانٹم فزکس اور آسٹرونامی کی بنیاد بنا ۔۔ حالانکہ اُس وقت نہ تو ٹیکنالوجی کی اتنی سہولیات میسر تھیں نا ہی اُس کے پاس کوئی باقاعدہ لیبارٹری تھی ۔۔ اِس کے با وجودآئن سٹائن کی تھیوریز ا س حد تک درست ہیں کہ آج "ہبل اور کیک "جیسی پاورفل ٹیلی سکوپس کے ذریعے ہونے والی تحقیقات سے اِن تھیوریز کی تصدیق ہو رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال "لیگو پراجیکٹ”ہے جس میں خوش قسمتی سے ہمارے دو ہم وطن بھی شامل تھے۔
    Sir!  Would  you  further  explain  Einstein  Gravitational  waves??
    سر نے منتہیٰ کی پسند کا موضوع چھیڑا تھا سو اُس کی دلچسپی عروج پر تھی ۔
    شیور ۔۔ ایسا ہے کہ لیگو کی ٹیم نے کئی برس کی اَن تھک محنت کے بعد دو انتہائی زیادہ ماس والے بلیک ہولزدریافت کیے جو آپس میں مدغم ہورہے تھے اِس سے جو گریویٹیشنل ویوز ڈیٹیکٹ کی گئی اِن سے نا صرف آئن سٹائن کی تھیوریز کی تصدیق ہوئی بلکہ ِ انہوں نے آسٹرونامی میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔
    "اِن موجوں کے ذریعے پہلی تصدیق تو یہ ہوئی کہ کائنات کی ابتدا سنگولیریٹی یعنی بگ بینگ سے ہوئی ۔۔مزید یہ کہ ہم انِ موجوں کے ذریعے ماضی میں جا سکتے ہیں اور اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں کہ کا ئنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی ؟؟”
    "یہ وہ سوال ہے جس نے ماہرِ فلکیات ہی نہیں ہر اُس شخص کے دماغ کو جکڑا ہوا ہے جو صرف کھانے، پینے ، سونے جاگنے اور ز ندگی سے لطف اٹھانے کے لیے نہیں جیتا بلکہ اُس کا ذہن اپنے ماحول ، خدا کی اِس وسیع کائنات ، اجرامِ فلکی غرض یہ کہ ہر شے کی حقیقتکو سمجھنے کی جستجوکرتا ہے ۔”
    "عموماًسائنس اور مذہب دو بالکل الگ تھلگ ایسے آ پشنز تصور کیے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔حا لانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آ پ قرآن پڑھیے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ جس کائناتی مظہر پر غور و فکر کے بارے میں کہا ہے وہ اجرامِ فلکی ہیں ، بار بار ایک ہی سورت میں ۔۔ کچھ سورتوں بعد لوٹ کر پھر انہی چاند، سورج ، ستاروں کا ذکر آ جا تا ہے۔میں مذ ہبی آدمی ہر گز نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے فزکس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کیو نکہ عموماٌآسٹرونامی کو ما بعد الطبعیات ۔۔حقیقت سے ما وراء علوم میں شمار کیا جاتا ہے ۔۔”
    سر کیا میں مداخلت کر سکتا ہوں ؟؟ یہ فواد تھا
    "یس یو کین "۔۔ سر نے خوش دلی سے اجازت دی
    "سر ایسا ہے کہ جب ہم سائنس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھتے ہیں تو یو نو واٹ کہ یہ مطالعہ ہمیں دہریت کی طرف
    لیکر جاتا ہے کیونکہ آسٹرو فز کس خدا کے وجود کا انکاری ہے ۔۔”
    Good  point  you raise …
    سر کے لہجے میں ستائش تھی ۔۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اِس کا جواب اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آپ لوگ خود سوچیں "یہ آ پ لوگوں کی کل کی اسائنمنٹ ہے انشاء اللہ کل اِس کو ڈسکس کریں گے "۔۔ سر یوسف نے مسکراتے ہوئے پوری کلاس کے فق چہروں کو دیکھا ۔۔”لیکن اِن میں ایک چہرہ بالکل پر سکون تھا ۔۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    چند ماہ بعد۔۔ اُن کا تیسرا ٹا کرہ یونیورسٹی آف پنجاب کے سٹیلائٹ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی ایک ورک شاپ میں ہوا ۔۔”
    سپارکویہ سینٹر پنجاب میں سپیس سے متعلق واحد سورس ہے جو سپارکو کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔۔ چند دن پہلے ان
    کے آفیشل فیس بک پیج پر قدرتی آ فات میں کارگر ریموٹ سینسنگ کی تککنیکس پر ہونے والی ایک ورک شاپ کا ایونٹ منتہی ٰ کی نظر سے گزرا تھا ۔ اس کا ایک بڑا مسئلہ ٹا ئمنگ تھا وہ سب پیریڈز چھوڑ سکتی تھی لیکن سر یوسف کا پیریڈ ۔۔۔ نا ممکن۔۔ ۔۔۔ اب تو کسی صورت بھی نہیں جب سر نے اتنے دلچسپ موضوع پر اسائنمنٹ دی ہوئی تھی ۔
    ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر وہ سب سے الگ بیٹھی اِسی اُدھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی جبکہ فاریہ ، انعم ، سمین او ر باقی کلاس فیلوز فضول گپیں ہانک رہے تھے۔
    "مسٹر فواد۔ کیا آپ ہمیں اپنا پوائنٹ آ ف ویو بتانا پسند کریں گے تاکہ ہم بھی اسائنمنٹ بنا سکیں "۔۔ یہ انعم تھی
    "بالکل نہیں مفت میں تو میں کسی کو پانی بھی نہیں پلاتا "۔۔ فواد نے دانت نکالے
    "چل اوئے! تجھے ہر وقت کھانے پینے کی پڑی رہتی ہے تجھے کہا کس نے تھا سر سے یہ سوال پوچھنے کو؟ "منیب نے فواد کو ایک دھپرسید کی۔۔۔
    "لو کہنا کس نے تھا ۔۔ تم لوگ خود کبھی کورس کے علاوہ فزکس سے متعلق کچھ پڑھ لیا کرو "۔۔ فواد نے برا سا منہ بنایا
    "اُف۔۔ کورس کی بکس کیا کم ہیں دماغ کی چولیں ہلانے کو ۔۔ میں تو اُس وقت کو کوستی ہوں جب بی ایس میں فزکس رکھاتھا ۔۔” بھلا فاریہ کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔
    اور اِن سب کی فضول بکواس سے لا تعلق بیٹھی منتہیٰ جو گوتم بدھ کی طرح گہری سوچ میں غرق تھی یکدم چونک کر اٹھی
    "اے مینا تم کہاں چلیں فاریہ نے پیچھے سے آواز لگائی "۔۔
    "میں ذرا ڈیپارٹمنٹ لائبریری تک جا رہی ہوں تم لوگ باتیں کرو "۔مڑے بغیر جواب دیکر منتہیٰ نے قدم بڑھائے ۔
    یار فاریہ تو منتہیٰ سے پوچھ نہ اُ س کو لازمی جواب کا آتاہوگا ۔۔ سمین نے فاریہ کے کان میں سرگوشی کی
    "پتا تو ضرور ہوگا میری جان پر وہ گھُنی بتائے گی کب ۔۔ ”
    تم رات کو اُس کی اسائنمنٹ پار کرکے نوٹس لے لینا، پھر فرسٹ پیریڈ ڈراپ ۔۔ ہم کچھ نا کچھ بنا ہی لیں گے ۔۔ سمین نے اسےراہ دکھائی ۔۔۔
    "بی بی سمین ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی اتنی جلدی قتل ہونے کا میرا کوئی ارادہ نہیں "۔۔ فاریہ نے صاف انکار کیا ۔۔ وہ منتہیٰ کی رگ رگ سے واقف تھی ۔
    ویسے یار سر یوسف اتنے زِیرک ہیں کہ چیٹنگ پکڑ ہی لیں گے ۔۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے ننھے منے دماغوں پر کچھ زور ڈالیں ۔تھوڑی مدد گوگل انکل کر دیں گے ۔۔ انعم نے جیسے فیصلہ صادر کیا۔
    چلو آ ؤ کچھ پیٹ پوجا کریں تاکہ دماغ کچھ سوچنے کے قابل ہوں اور سب کینٹین کی طرف چل دیں۔۔
    ٹھیک اسی وقت منتہیٰ نے سر یوسف کے آفس میں داخل ہونے کی اجازت مانگی۔
    "سر کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟؟”
    سر یوسف جو اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھے ۔۔ انہوں نے چونک کر سر اٹھایا ۔ "یس پلیز ”
    سر مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔ میں آپ کا زیادہ ٹائم نہیں لوں گی۔۔ جسٹ فائیو منٹس پلیز ۔۔
    ۔۔سر نے خوش دلی سے کہا
    Okay Go ahead
    "سر کل سپارکو کے ریسرچ سینٹر میں ایک ورک شاپ یونیورسٹی ٹائمنگ میں ہے ۔ میں آ پ کا پیریڈ ہر گز مس نہیں کرنا چاہتی اورجو اسائنمنٹ آپ نے دی ہے اُس کے بعد تو کسی صو رت بھی نہیں ۔۔ لیکن میں ورکشاپ بھی اٹینڈ کرنا چاہتی ہوں ۔”
    "اِٹس اے نائس چانس فار می”۔۔وہ ایک لمحے کو توقف کے لیے تھمی اور سر کو دیکھا جو پوری طرح اسی کی طرف متوجہ تھے۔
    "سر کیا آپ یہ ڈسکشن ایک دن کے لیے ملتوی کر سکتے ہیں ؟؟ اب کے لہجے میں قدرے گھبراہٹ تھی۔”
    اور ڈاکٹر یوسف کے لبوں پر بے اختیار ایک گہری مسکراہٹ آئی تھی ۔
    ایسے سٹوڈنٹس ہمیشہ سے اُن کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے تھے جو لرننگ کا ایک چھوٹا سا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتے ۔ایک بہترین استاد جانتا ہے کہ اُس کی کلاس میں کتنے طلبہ ایسے ہیں جو ڈگری کے لیے پڑھ رہے ہیں جن کی تعداد عموماٌزیادہ ہوتی ہے ، اِن سے کچھ کم، شوق اور لگن کے ساتھ اپنے سبجیکٹ سے اٹیجڈ ہو کرپڑھتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ڈگری جو نا صرف ان کے مستقبل کو تابناک بنانے میں کارگو ثابت ہو ،بلکہ جس سے اُن کے دل و دماغ پر آگاہی کے نئے دَر بھی واہوں جبکہ ایسے سر پھرے سٹوڈنٹس کی تعدادآ ٹے میں نمک کے برابرہوتی ہے جو صرف اور صرف اپنی علم کی پیاس بجھانے کےلیے پڑھتے ہیں ۔۔وہ ڈگریوں اورسرٹیفیکیٹس کے انبار میں بھی خود کو بحرِ علم کے کنارے کھڑا پیاسا ہی تصور کرتے ہیں ۔۔اور منتہی ٰکی صورت میں سر یوسف کو بھی ایک ایسا ہی نادر شاگرد نظر آ رہاتھا ۔
    yes, I can but on a condition ..!!
    اُن کی گہری نظریں منتہیٰ کے چہرے پر تھیں ۔۔ اُوکے تھینک یو سر۔ آ ئی ول ٹرائی مائی بیسٹ ۔۔
    سر یوسف نے ایک سادہ کاغذ اور پین اسکے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔۔ آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں آ پ کو اسائنمنٹ کا مختصرلیکن مدلل جواب ابھی یہیں میرے سامنے لکھنا ہے ۔ سر یوسف نے اپنی رسٹ واچ دیکھی۔
    بغیر کسی گھبراہٹ کے منتہیٰ نے کاغذ اپنے سامنے گھسیٹا ۔۔ اور پورے ۴۰ سیکنڈ کے بعد وہ جواب لکھ کر سر کے سامنے رکھ چکی تھی۔
    ’’ "ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں قطعاٌ ضرورت نہیں کہ ہم سائنس کی مدد سے مذہب کی منزل تلاش کریں۔ بلکہ ہمارے پاس قرآن ہے جس کو سمجھ کر ہم سائنس کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ خدا کے وجود سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ "

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    (دوسری قسط)

    "مسز مریم یوسف کا معمول تھا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے گھر کے سارے دروازے چیک کرکے ایک آخری چکر ارمان کے کمرے کا لگایا کرتی تھیں جو دیر سے سونے کا عادی تھا اور عموماٌ لیپ ٹاپ یا اپنے سمارٹ فون پردوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتا تھا "۔ مگر بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ میں آتے ہی ارمان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ، وہ جو باپ کے غصے اور ماں کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا ،اب لیٹ نائٹ سٹڈی کا عادی ہو گیا تھا ۔ "ارمان کا شمار اُن ذہین طالبعلوں میں ہوتا تھا جو سٹڈی کو ٹف ٹائم دیئے بغیر بھی اے گریڈ لاتے ہیں ، یوسف صاحب اپنے بیٹے کی صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے ، اگرچہ اسکا اے گریڈ ہمیشہ انکی ا میدوں پر پانی پھیر دیا کرتا تھا ، مگر وہ ان باپوں میں سےنہیں تھے جوزبردستی اپنے فیصلے بچوں پر ٹھو نس کر انکا مستقبل برباد کر دیتے ہیں "۔

    "آج کل نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی شدت، انتہا پسندی اور مختلف طرح کی ایڈکشنزکی ایک بڑی وجہ والدین کا غیر دوستانہ رویہ،اور ان کے مستقبل کے فیصلوں میں من مانی ہے۔ یہ نئی نسل پابندیاں برداشت نہیں کرتی ، آ پ اِنہیں رسی سے باندھیں یہ اُسے توڑ بھا گیں گے ، اِنہیں زنجیروں میں جکڑیں یہ اِن سے فرار کا وہ راستہ اختیار کریں گے کہ آپ کو جوان اولاد سے عمر بھر کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے” ۔ یہ وہ نوجوان نہیں ہے کہ آرمی یا ائیر فورس کا خواب ، مستقبل کی اپنی منصوبہ بندیوں کو منوں مٹی تلے سلا کر والدین کے فیصلے پر چپ چاپ ان کی پسند کی فیلڈاختیار کر لیا کرتی تھی”۔”آج کی نسل مستقبل کے فیصلوں پر اپنا حق چاہتی ہے” ۔ "سو ایک جہاندیدہ پروفیسر ہونے کے باعث اپنی اکلوتی اولاد کو ایک حد تک آزادی دیکر رسی کا دوسرا سرا بہر حال اپنے ہاتھ ہی میں رکھا تھا "۔ "اب ہر سمیسٹر میں ارمان کا پہلے سے زیادہ جی پی اے اُن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ بیٹاصحیح سمت میں چل پڑا ہے ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


    اسی ناول کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مشرق کی بیٹی چاہی کتنی ہی پڑھ لکھ جائے شادی بیاہ کے معاملے میں براہِ راست باپ سے بات میں ایک حجاب حائل رہتا ہے ، رات جب وہ بلاوے پر ابو کے کمرے میں گئی تو ذہن جیسے کوری سلیٹ تھا "۔ دو دن میں محنت سے تیارکیے تمام دلائل اڑن چُھو ہو چکے تھے ۔”اوپر سے عاصمہ کی تیز برماتی ، آنکھیں بیٹی کی سرکشی کو لگام ڈالنے کو پوری طرح مستعد تھیں” ۔ ملک غلام فاروق دستگیر نے صورتحا ل کی نزاکت کو بھا نپتے ہوئے عاصمہ کو وہاں سے جانے کا کہا تو وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی منتہیٰ کو سرزنش میں آنکھیں دکھاتی، چپل گھسیٹتی وہ کمرے سے نکلی تو ضرور ۔۔مگر باہر جانے کے بجائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو گئیں، ان کے پیچھے لاؤنج کے پردے کے پیچھے چھپی ارسہ اور رامین نے سر پیٹا ۔ "دھت تیرے کی ۔ امی کو بھی یہیں کھڑا ہونا تھا "۔ "منتہیٰ بیٹا آپ یقیناٌ جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے سو بغیر کسی جھجک کے اپنا فیصلہ بتایئے "۔ فاروق صاحب کے دوستانہ لہجے سے منتہیٰ کی ٹوٹتی ہمت کچھ واپس آ ئی ۔۔ کمرے میں کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی ۔ منتہیٰ نظریں جھکائے کارپٹ کے ڈیزائن کی بھول بھلیوں میں اپنا مستقبل تلاش رہی اور بلاآخر اُسے راستہ مل ہی گیا ۔۔ "ابو۔میرے مستقبل کا فیصلہ یقیناٌ آپ ہی نے کرنا ہے لیکن فی الحال میری خواہش ہے کہ مجھے آگے پڑھنے دیا جائے "۔۔ اور فاروق جو بہت دیر سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بے اختیار مسکرا اٹھے ۔ "مجھے اپنی بیٹی سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ،تم میرا فخر بھی ہو اور مان بھی ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے سارے خواب سچ کر دکھا ؤ گی "۔ "تیزی سے امڈتے آ نسوؤں کو پونچھتے ہو ئے وہ باپ کے گلے لگی "۔ "لیکن ابو ۔۔ دادی اور پھپو”۔۔۔۔ بہت سے خدشات نے سر ابھارا ۔۔؟؟ میری جان ۔”تم اُ ن کی فکر مت کرو ، یہ یاد رکھو کہ اگر تم کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی، بہت سے عزیز رشتوں کا دل توڑ کر اُنکی خفگی مول لینا پڑے گی "۔ "لیکن یہ ناراضگیاں عارضی ہوا کرتی ہیں ۔۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی لوگ آپ کی کامیابیوں پر سب سے زیادہ خوش بھی ہوتے ہیں اور دعاگو بھی کیونکہ خون کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹاکرتے”۔ منتہیٰ جو اندیشوں اور خدشوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی تھی شاداں و فرحاں وہاں سے نکلی ، تو عاصمہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سامنے تخت پر موجود تھیں مگر وہ سر جھکائے تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی چلی گئی ۔جبکہ پردے کی پیچھے چھپی ارسہ اور رامین پہلے ہی رفو چکر ہو چکی تھیں "۔ اگلے روز شام کو مہرالنساء کو گھر میں موجود پاکر فاروق صاحب کو صورتحا ل سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔

    صبح جاتے وقت وہ ماں اور بیوی کواپنے فیصلے سے آگاہ کر گئے تھے۔ "فی الحال وہ منتہیٰ کو ماسٹرز کے لیئے لاہور بھیج رہے ہیں "۔ اُنک ا خیال تھا کہ عاصمہ خوش اسلوبی سے بات سنبھال لیں گی مگر یہاں تو الٹا محاذ کھلا ہوا تھا ۔ "بھا ئی مجھے آپ سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی "۔۔ "آخر کیا کمی ہے میرے چاند سے بیٹے میں ماشاء اللہ بینک کی جاب ہے۔۔؟” "جی پھپو”۔”بس آپ کے چاند میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی ہے "۔ رامین نے ارسہ کے کان میں سرگوشی کی جو پور ی توجہ سے دوسری طرف کی بات سننے میں مصروف تھی ۔۔ مہرالنساء۔ "میں نے انکار ہر گز نہیں کیا میں منگنی کرنے کو تیار ہوں لیکن شادی منتہیٰ کے ماسٹرز کے بعد ہی ہوگی "۔

    فاروق صاحب نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی ۔ "بھائی انکار اور کیسا ہوتا ہے ؟ آپ جوان بیٹی کو لاہور ہاسٹل بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔”غضب خدا کا۔ میرا تو پورا سسرال ایسی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کرے گا "۔ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں "۔مہرالنساء کی قینچی جیسی چلتی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔وہ سوچ کر آئی تھیں کہ ہاں کروا کر ہی جائیں گی۔ سو فاروق صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ "آپ سب لوگ سن لیں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ ہر گز نہیں کروں گا جس سے میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے” ۔ پہلے تو میں منگنی کرنے پر تیار تھا لیکن اب میری طرف سے صاف انکار ہے ۔

    "میں اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں قطعاٌ نہیں دوں گا جن کے لیئے اعلیٰ تعلیم باعثِ فخر نہیں بلکہ قابلِ ندامت ہے” ۔ فاروق فیصلہ سنا کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور پورے گھرمیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ "اور منتہیٰ اپنے کمرے میں بیڈ پر سر جھکائے گہری سوچوں میں غرق تھی "۔

    "کاش ہر مشرقی لڑکی کا باپ بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مجبوریاں سامنے رکھ کر کرنا چھوڑ دے ۔۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے دسیوں عیبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے جب ہاں کرتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک یقین ہوتا ہے کہ اُن کی بیٹی ہر دکھ جھیل کر ان کا سر جھکنے نہیں دیگی ۔۔بیٹیاں نہ زحمت ہوتی ہیں نہ بوجھ پھر بھی ناجانے کیوں ماں باپ انکی خواہشوں، امنگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کی صلاحیتوں کے بر خلاف جلد بازی میں فیصلے کر کے اِنہیں عمر بھر کا وہ روگ لگا دیتے ہیں جو لا علاج ہے ۔ وہ سسکتی ، بلکتی ، رلتی کولہو کا بیل بن کر گھر ، شوہر ، اولاد اور سسرال کی خدمتوں میں ساری عمر بتا دیتی ہیں پھر بھی سسرال میں کوئی عزت و قد ر نہیں ہوتی ، شوہر کی محبت اور توجہ کو ترستی بلآخر قبرمیں جا سوتی ہیں”۔ "ہمارے معاشرے کی یہ بے جوڑ شادیاں دراصل وہ پنجر ہ ہیں جن میں ایک دفعہ قید ہوجانے والی معصوم لڑ کی کا پروا نۂ آزادی پھر موت ہی لیکر آ تی ہے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ارمان یوسف کی مردانہ وجاہت اور گریس فل شخصیت اسے ہر جگہ صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز بنا دیتی تھی ۔۔ لیکن اِس حوالے اُس کا کیریئر بے داغ تھا ۔ حسن اُسے اَٹریکٹ ضرور کرتا تھا لیکن اُس سے بڑھ کر اسے مخالف صنف کی ذہانت اور کیریکٹراپیل کرتا تھا ۔ وہ پریوں کے ہجوم میں گھرا ہوا وہ شہزادہ تھا جس کے من کو کوئی بھا تی ہی نہ تھی ۔۔ یونیورسٹی کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں تو اسے چلتا پھرتا شادی کا اشتہار لگا کرتی تھیں جو ہر اُس لڑکے کے ساتھ دوستی ، افیئر اور ڈیٹنگ پر آ مادہ تھیں جس کے پاس وہ نیوماڈل کی کار ، گلیکسی ایس ۷ یا آئی کور ۹ جیسے سیل فونز اور کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئی والٹ دیکھ لیتی تھیں ۔ منتہیٰ کے فیس بک گروپ میں ارمان کو کسی فرینڈ آف فرینڈ نے ایڈ کیا تھا ، اُس کی دوستوں کا خیال تھا کہ جس کسی نے بھی کیا ،،کارِ خیرکیا ۔۔۔

    "اس قدر ڈیشنگ سا بندہ ہے ، یار منتہیٰ تیرے پاس تو دل ہی نہیں ہے۔” "یمنیٰ ڈیئر دل ، گردے ، کلیجی ، پھیپڑے وغیرہ الحمداللہ سب موجود ہیں "۔ "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دل پمپنگ کا وہی مخصوص کام کرتا ہے جس کے لیئے خدا نے اِسے بنایا ہے اور تم دیکھنا کہ اِس کی لائف ٹائم تم سب کے دلوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ یہ فضول کاموں میں پڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرتا "۔ ہمیشہ کی طرح لوجیکل اورٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا۔۔ جس پراُس کی فرینڈز سر پیٹ لیا کرتی تھی ۔۔ "یار مینا بندے کو اتنا بھی پریکٹیکل نہیں ہونا چاہیے کہ عین جوانی میں ساٹھ سال کا کوئی خبطی پروفیسر لگنے لگے "۔۔ ہونہہ

    "یہ فاریہ تھی منتہیٰ کی بیسٹ فرینڈ ۔” ارے ہاں۔ "خبطی پروفیسر سے یاد آیا کہ یہ جو ارمان یوسف ہے نہ اس کے والدِ بزرگوار پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر پروفیسر ہیں "۔ اور منتہی ٰ جو لائبریری جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی چند لمحوں کے لیئے اپنی جگہ منجمد ہوئی۔ "پنجاب یونیورسٹی اُس کی اگلی منزل”ارے واہ۔ "یہ تو کمال ہو گیا” ۔ چلو دیکھیں گے یہ تمہارے شہزادۂ گلفام کتنے پانی میں ہیں ، یہ ڈی پی کسی کی اُڑا کر نہ لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔ منتہیٰ نے مضحکہ اُڑایا۔۔ ۔۔مینا "پہلی بات تو یہ کہ اُس بندے کی پروفائل ہرگز فیک نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمارے گروپ میں جگہ اپنی ذہانت سے بنائی ہے ورنہ تم جیسی خبطی ، سڑیل ایڈمن کب کی اسے کک آ ؤٹ کر چکی ہوتیں "۔۔ فاریہ نے اسے آئینہ دکھا یا ۔۔ لیکن فی الحال وہ کوئی آ ئینہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی سو برے برے منہ بناتی ہوئے لا ئبریری کی طرف قدم بڑھا دیئے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹاپ۔ ۱۲۰ آ ئی کیو رکھنے والی منتہیٰ دستگیر کے لیے کچھ غیر معمولی نہ تھا ۔۔ اگرچہ یہاں گزارے ہوئے چار سال اس کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے ۔۔ یہاں وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو ایک مضبوط عمارت کی بنیاد کے لیئے اشد ضروری ہوتا ہے ۔ "پاکستان کا تعلیمی نظام عموماٌ تنقید کی ضد میں رہتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ کالی بھیڑیں ہیں جو ہر شعبۂ زندگی کی طرح تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ” ۔”جن کا مقصدِ حیات نوجوان نسل کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کے بجائے صرف لوٹو، اور بینک بیلنس بناؤ ہے” ۔اِس کے با وجود دیکھنے میں آ یا ہے کہ "جو جینیئس مائنڈ ز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے ہیں اُن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقے سے تھا "۔۔ "جنھیں ابتدائی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر میسر تھی لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ اور پہچان ہمیشہ خود بناتا ہے۔یہ گدڑی میں چھپے ہوئے وہ لال تھے جنھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ساری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ اور پاکستان کے افق پر طلوع ہونے والے ’’ نیبیولہ‘‘ میں ایک ستارہ منتہیٰ دستگیر بھی تھی "۔ فاریہ کے بر عکس منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی میں بھی وہ پہلے جیسی پر سکون ہی تھی ۔۔ اُسے نہ کلاسز شیڈول دردِ سر لگا تھا نہ لاہور کی شدید گرمی نے اُسم کے اوسان خطا کیئے تھے ۔۔حتیٰ کے ہوسٹل کے میس کا بیکار سا کھانا بھی وہ مطمئن ہوکر کھا لیا کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ فاریہ کی سارا دن کمنٹری جاری رہتی تھی ، کبھی گھر کا کھانا ، کبھی آرام ، کبھی گھر والے حتیٰ کی اپنی پالتو بلی ’’میشا ‘‘بھی اُسے دن میں پچاس دفعہ یاد آتی اورہر دفعہ وفورِ جذ بات سے آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں "۔

    جنھیں اب مینا مینڈک کے آ نسو ؤ ں سے تشبیہ دیاکرتی تھی، ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی فاریہ کسی مینڈک سے کم بھی نہ تھی ۔۔ سکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے گھر والوں سے مستقل رابطہ رہتا تھا ۔ منتہیٰ ہمیشہ سے کم گو رہی تھی مگر پہلی دفعہ گھر سے دوری پر اسے سب ہی بہت یاد آیا کرتے تھے۔ رات میں ابو بھی اُس سے تفصیلاٌ حال چال پوچھا کرتے تھے ۔۔ نئی جگہ پر جو بھی مسائل پیش آرہے تھے ابو کے پاس اُن کا فوری حل موجود ہوتا تھا ۔۔ فاروق صاحب نے اُسے ہاسٹل چھوڑتے وقت کوئی بہت لمبے لیکچرز نہیں دیئے تھے۔ مگر کچھ باتیں انہیں نے اس کے ذہن میں بٹھانا ضروری سمجھا تھا ۔

    "بیٹیاں ماں باپ کا مان بھی ہوتی ہیں اور فخر بھی ۔۔ یہی بیٹی اپنی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قدموں کو بہکنے سے بچاتی ہے” ۔۔ "ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ عورت کردار کے بغیر باسی روٹی کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی چھان بورے میں ڈال دیتا ہے ہر لڑکی کے لیے سب سے اہم اُسکا وقار ہے "۔ "عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس اتنی تیز دی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کی نظروں سے اپنے بارے میں اس کی نیت کو جان لیتی ہے یہ صلاحیت اللہ نے اُسے اِس لیے دی ہے کہ وہ جان سکے کہ کون اس کے لیے اچھا ہے اور کون برا ۔میں تمہارا باپ اپنی معصوم کلیوں کے لیے آخری حد تک حساس ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری منزل بہت آگے ہے۔ا ب تمہیں اپنی اور اپنے باپ کی عزت کی حفاظت اَز خود کرنی ہے ۔بہت سی رکاوٹیں تمہارے راستے میں آ ئیں گی، قدم قدم پر بھیڑیے تمہیں راستہ روکے ملیں گے ۔ لیکن ” میری جان ۔ "جو صرف اللہ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو میرا رب اس کی ہر مشکل کو آسانی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "صدیوں پہلے جب نیوٹن نے یہ ثابت کیا تھا کہ حسابی مساواتوں کو حیرت انگیزطور پر اجسام کے زمین اور خلا میں باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں کسی نئی سپیشل تھیوری اور انتہائی طاقتور اعداد و شمار کی صلاحیت کے ذریعے کائنات کے مستقبل کو آشکار کرنا ممکن ہوگا ۔وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ نئی تھیوریز سامنے آتی چلی گئیں اور آج انسان ٹیکنالوجیکل میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے "نا نو ٹیکنالوجی "اور "آرٹیفیشل انٹیلیجنس” نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں قید کر دیا ہے "۔۔۔ اچانک منتہیٰ کی آواز آئی ’’ سر کیا میں بیچ میں بول سکتی ہوں؟؟‘‘ سر انور نے اپنی ناک پر ٹکی عینک کے پیچھے سے منتہیٰ کو گھورا۔۔ اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ سر ہٹلر کے نام سے مشہورتھے کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران مداخلت کرے، "مگر وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کا رعب قبول کر لے”۔۔

    "وہ تم پہلے ہی کرچکی ہو ، آگے بولو "۔ انور سر کا پارہ بس چڑھنے کو تھا ۔ مگر منتہی ٰپر ان کی ناگواری کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔ سر جیسا کہ آپ نے کہا۔ "کہ نئی تھیوریز اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی بھی حتمی طور پر انسان کو اُس کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے "۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ۔ "کیا ہم نے اپنا ماضی کو پوری طرح کھوج لیا ہے؟ ؟کیا انسان نے اپنے حال کو مکمل محفوظ اور پائیدار بنا لیا ہے؟؟ "

    "کیونکہ مستقبل پر کمندیں ڈالنے کا حق تو وہی رکھتے ہیں جن کی بھرپور نظراور گرفت اپنے ماضی وحال پر ہو” ۔۔ سر انور نے کچھ غور سے اِس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ "یس آج کا انسان اپنے ماضی سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں تک کے وہ اُس سادہ ترین خلیے کی سا خت تک سے واقف ہے جس سے زمین پر زندگی کی ابتد ہوئی "۔۔ منتہا پھر بولی ۔۔ اور حال کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی اور مستقبل کو جاننے کی جستجو میں انسان اپنے حال سے غافل ہو گیا ہے؟؟؟ "اسے اپنے ارد گردبھوک ، جہالت اور پسماندگی کی نچلی ترین سطح پر جیتے زمین کے باسی نظر نہیں آ تے ۔۔وہ اربوں ڈالراُس ماضی کی کھوج لگانے پر اُڑا رہا ہے۔۔ جس کی ایک جھلک وہ افریقہ میں ٹیکنالوجی کے نام سے نا بلد وحشی قبائل میں با آسانی دیکھ سکتا ہے "۔۔ "اِس سے پہلے کے ڈسکشن آگے بڑھتی پیریڈ ختم ہو چکا تھا "۔۔ لیکن کلاس سے جاتے ہوئے سر انور نے ایک گہری ستائشی نظر منتہیٰ پر ڈالی تھی ۔۔ ایک سو بیس کا آئی کیو رکھنے والی یہ لڑ کی ابتدا ہی سے سب اساتذہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی ۔جس طرح وہ لیکچر روم میں ہی نہیں مختلف سیمینارز اور ورک شاپس میں پوائنٹ اٹھایا کرتی تھی وہ سبجیکٹس پر اسکی گہری دسترس کی غماز تھی، ورنہ عموما ََ عسٹوڈنٹس اہم موضوعات کو سطحی طور پر سمجھ لیا کرتے ہیں لیکن منتہیٰ ہر چیز کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کے لیے بلا جھجک سوال کیاکرتی تھی۔ "یار مینا کبھی اِن کتابوں کی بھی جان چھوڑ دیا کر”۔۔ "یہ دیکھ الحمراء میں سٹوڈنٹس کے آرٹس اور پینٹنگ کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔اورانرولمنٹمیں صرف دو دن باقی ہیں "۔ لیکن جواب ندارد منتہیٰ اُسی تندہی سے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔۔ سو فاریہ کے پاس پلان ٹو تیار تھا ، مینا کی یونیورسٹی اور پرسنل ای میلز اُسکے علم میں تھیں۔۔ "چند ہی منٹ میں وہ منتہیٰ کی انرولمنٹ کروا کر چپس ٹھونگتے ہوئے الحمراء ایڈونچر کے تھرل کے بارے میں سوچ رہی تھی "۔۔ دو دن بعد ہاسٹل واپسی پر بڑا سا پارسل منتہیٰ کا منتظر تھا ۔

    وارڈن سے پارسل لیکر وہ یہ سوچ کر کمرے میں اٹھا لائی کے ارسہ اور رامین نے شائد کوئی گفٹ بھیجا ہو ۔ لیکن ۔ "اندر تو اس کی کچھ پینٹنگز تھیں جو وہ گھر پر فارغ وقت میں بنا یا کرتی تھی”۔ اگلے لمحے وہ تکیہ اٹھا کر فاریہ پر پل پڑی ۔۔” کمینی مجھے بتائے بغیر۔۔” "لینگویج پلیز میڈم "۔۔ فاریہ بگڑی ۔۔ "آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ما بدولت نے آپ کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے یہ کارخیر سر انجام دیا "۔۔۔ہونہہ "ما بدولت کی بچی "۔۔ ‘اب تم الحمراء جانے کا کارِ خیر بھی خود ہی کر لینا سمجھیں ‘۔۔ میناکا تھکن سے برا حال تھا ۔۔ چند ہی منٹ بعد وہ گہری نیند میں تھی ۔ اور فاریہ پارسل کھول کر پینٹنگز کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔ ایگزیبیشن کے لیے پینٹنگ جمع کروانے کا اگلے روز آخری دن تھا ۔۔ وہ پیریڈڈراپ کر کے الحمراء پہنچی۔۔ تو اُن کی توقع کے عین مطابق ریسیپشن پر خاصہ رش تھا ۔۔۔ مینا کو کوفت ہوئی۔ "فاریہ بس واپس چلتے ہیں بھاڑ میں جائے کمپی ٹیشن "۔۔ "اُف منتہیٰ تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔” کوئی آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد خیر سے اُن کی باری آئی ۔۔ پینٹنگ جمع کروا کر مینا اب تیزی سے نکلنے کو تھی کہ فاریہ کے قدم کچھ فاصلے پر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ کر تھمے۔ منتہیٰ نے اُسے غصے سے کھینچا ۔۔”فاریہ جلدی نکلو یہاں سے ۔۔” "مینا یار رک "۔۔وہ دیکھ سامنے جو بوائز کھڑے ہیں اُن میں سے ایک ارمان یوسف لگتا ہے ۔۔۔؟؟ "شٹ اپ "فاریہ ایک تو تم سارے مینرز بھلا کر بوائز کو اِس طرح گھور رہی ہو ۔۔ ارمان یا جاپان یوسف جو بھی ہو ۔ "جہنم میں ڈالو اور نکلو یہاں سے” ۔۔۔ مینا نے اُسے بری طرح گھرکا ۔۔

    منتہیٰ بی بی آ پ کو یاد ہے ایک دفعہ یو نیورسٹی میں آ پ نے کہا تھا ، "اگر یہ ڈی پی اِس نے کسی کی اڑا کر نا لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا” ۔ مینا نے فاریہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔” ایک تو تمہیں پتا نہیں کب کب کی باتیں یاد رہتی ہیں ۔۔ ہونہہ ۔۔”تم چل رہی ہو یا میں اکیلی چلی جاؤں ۔۔؟؟ "تم باہر پانچ منٹ میرا انتظار کرو میں آتی ہوں”۔۔ اِس سے پہلی کہ منتہیٰ اُسے مزید گُھرکتی۔۔ فاریہ اعتماد سے قدم اٹھاتی اُن دولڑکوں کی طرف بڑھ چکی تھی جو اُن سے بے نیاز گفتگو میں مصروف تھے ۔۔ اور منتہی سینے پر ہاتھ باندھے محوِ تماشہ تھی۔۔ "اُسے سو فیصد یقین تھا کہ فاریہ کے ساتھ بہت بری ہونے والی ہے "۔۔۔ "ایکسکیوز می "۔۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ارمان یوسف ہیں ؟؟ کچھ حیرت سے فاریہ کو دیکھتے ہوئے اُس لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا "جی میں ارمان ہی ہوں”۔ سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟؟ "ہم”۔۔۔ لمبی سی ہم کرتے ہوئے فاریہ نے دور کھڑی محوِ تماشہ مینا کو معنی خیز مسکراہٹ سے نوازا۔۔ ایکچولی۔ بالواستہ تو یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن فیس بک پر ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں ۔۔”میں فاریہ انعام ہوں”۔۔ ارمان نے دماغ پر زور ڈالا ۔۔ "یہ نام۔۔ فاریہ انعام "۔۔؟؟ "اور وہ جو کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے نہ وہ میری بیسٹ فرینڈ منتہیٰ دستگیر ہے "۔ اُسے سوچتا دیکھ کر فاریہ نے تیر چھوڑا۔ اور پھر لمحے ہی تو لگے تھے ارمان کو بوجھنے میں۔۔ اُس نے تیزی سے مڑ کراِس لڑکی کو دیکھا جو بظاہر دوسری طرف متوجہ تھی۔۔

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

     ( پہلی قسط )

    میں نے اِس چھوٹی سی دنیا میں رہ کر یہ جانا کہ لوگ روحانی اذیت میں ہیں اور بہت دل گرفتہ بھی لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ میں نے جانا کہ ایک دن سب نے مرنا ہے۔

    لیکن جو اوروں کے لئے جیتے ہیں وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں میں نے جانا کہ جنت بھی کچھ ایسی جگہ ہوگی جہاں کچھ نئے اصول ہوں گے لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اور انسان طبعاٌ بڑا ہی نا شکرا ہے جب اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کیساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ، لیکن جب اِس”۔“کے بعد اُسے آ سائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ میرا مسیحا تو کوئی اور بنا (سورۃ الزمر ۔ القرآن) قرآن کی آیت کیا تھی ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہیٰ دستگیر کے سینے میں عین وسط پر پیوست ہوئی تھی ۔ "وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھا ئیوں میں گری تھی ۔یقیناٌ وہ اُس کا رب ہی تھا جس نے اُس کے نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔” "اور ارمان یوسف اس کی آزمائش تھا یا صبر کا انعام یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اُس کے بکھرے کمرے میں اپنے اصل مقام پر موجودواحد شے وال کلا ک تھی شاید اِس لیئے کہ جب سے سیل فون ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں وال کلاک سے سب کا سلوک سوتن جیسا ہو گیا ہے ۔ اُسکا عقیدہ تھا کہ” ممی کی ڈانٹ پھٹکار کا اثر جن لڑکوں پر ہونے لگے اُن میں ضرور قبلِ مسیح کی کوئی روح حلول کر جاتی ہے "۔

    لیکن پاپا کے لیے یہ سب عقائد دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے ۔ اللہ سے ہمیشہ ایک ہی شکوہ کیا کرتا تھا کہ یا "تو اس کے پاپا سینئر پروفیسر نہ ہوتے یا وہ اُنکی اکلوتی اولاد نہ ہوتا، اُس کے نزدیک پروفیسرکی اولاد ہونا دنیا کی سب سے بڑی بد نصیبی تھی”۔ جن کی سوئی سٹڈیز ، رولز اور شیڈول پر ہی اٹکی رہتی تھی اور چار و ناچار ارمان کوبھی کئی بنکس ، مکس گیدرنگز اور میوزک کنسرٹس چھوڑ کر صرف اُن کتابوں میں سر کھپانا پڑتا تھا جو اسے اپنی جانی دشمن لگا کرتی تھیں۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    عموماً سٹوڈنٹس میتھ میٹکس اور فزکس سے سب سے زیادہ خار کھاتے ہیں ، "کوانٹم فزکس کے متعلق تو اُس کی کلاس کی متفقہ رائے تھی کہ یہ دنیا کا ذلیل ترین سبجیکٹ ہے "،جس کے پیریڈ سے سب ہی کی جان جاتی تھی ، لیکن پوری کلاس میں اگر کوئی سٹوڈنٹ مکمل دلچسپی اور دلجمعی سے لیکچر اٹینڈ کرتا تھا تو وہ "منتہیٰ "تھی ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ’’ کوانٹم فزکس انسانی خواص سے ماوراء کسی اور سیارے کسی اور دنیا کا مضمون ہے‘‘۔ لیکن منتہیٰ کو اشیاء ہی نہیں اپنے اِرد گرد کی دنیا اور رویئے بھی کوانٹم فزکس کے اُصولوں کی مدد سے سمجھ میں آنے لگے تھے اُس کے پاس ذہانت تھی، کچھ کر دکھا نے کا جنون اور ٹیلنٹ تھا جس کے بل بوتے پر وہ آگےبڑھتی چلی گئی ۔۔ ‘‘وہ منتہیٰ دستگیر جو ہر شے کو کامیابی کے پیمانے پر پرکھنے لگی تھی ،نہیں جانتی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔’’

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ابے خبیث توضرور کسی دن مجھے پاپاکے ہاتھوں پٹوائے گا ،”دس ہزار دفعہ منع کیاہے کہ پی ٹی سی ایل پر وقت بے وقت کال مت کیا کر” ۔۔ "پر تیرے کان پر جوں نہیں رینگتی "۔

    ارمان اپنے یارِ غار ارحم پر بری طرح برحم تھا ، لیکن وہ ارحم ہی کیا جو کسی کی سنتا ہو ۔ ابے۔ "یہ گندی اشیاء تیرے اپنے سر میں پائی جاتی ہوں گی میرے نہیں "۔۔ ہونہہ ! تیرا سیل دو گھنٹے سے بزی تھا ۔۔ "اب بتا کس حسینہ سے گفتگو میں مصروف تھا میرا شہزادہ ۔۔؟؟” ابے بھوتنی کے۔ "پاپا گھر میں تھے میری مجال کے میں سٹڈیز چھوڑ کر سیل اٹھاتا "۔۔ "ویسے اپنے نصیب میں کو ئی حسینہ ہے بھی نہیں ایک سرد آہ کے ساتھ جواب حاضر تھا ۔۔” ٹھیک ہے چھپا لے بیٹا ۔۔ "تیرے سارے راز پوری کلاس کے سامنے نہ کھولے تو میرا نام بھی اَرحم تنویر نہیں ۔۔” اس سے پہلے کہ ارمان اسے ایکُ مکا جڑتا اَرحم رفو چکر ہو چکا تھا ۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ، کوئی نہیں جانتا کہ کب کونسا واقعہ یا حادثہ اُسے ایک بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا جہاں اسے ایک بے مقصد اور بے مصرف زندگی گزارنا پڑیگی "۔ "ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پرکیا کچھ بیت جاتی ہے یہ وہی جان سکتا ہے ۔جوِ ان حالات سے گزرے ، تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کا اصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے "۔

    "ایک پُر امید کبھی مایوس نہ ہونے والا شخص کیونکر صرف موت کا انتظار کرنے لگتا ہے، وہ کیسے دکھ ہوتے ہیں جو ہر حال میں خوش رہنے والے کو موت کی چوکھٹ پر شب و روز دستک کے لیئے لا بٹھا تے ہیں ۔ "دنیا نے نا کبھی سمجھا ہے نا کبھی سمجھ پائیگی کیونکہ دنیا صرف چڑھتے سورج کی پوجا کیا کرتی ہے ۔۔ ڈوبتا سورج یا ٹوٹتے تارے دنیا والوں کے لئے بے معنی ہوا کرتے ہیں "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "سائنس میں جو ماڈلز ہم بناتے ہیں اُن کا اطلاق صرف سائنسی نمونوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اِن ماڈلز پر بھی یکساں طور پر ہوتا ہے جو ہم سب نے زندگی کو سمجھنے اور روزمرہ کے واقعات کی تشریح کے لیے اپنے اپنے تحت الشعور میں بنائے ہوئے ہیں "۔اور یہی ہمیں دنیا سے باخبر رکھتے ہیں ۔ "آج تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہو سکا جس کے ذریعے دنیا کے متعلق ہمارے نظریات میں سے آبزرور یعنی انسان کو منہا کیا جا سکے کیونکہ تصورات ہمارے اعصابی نظام کی تخلیق ہوتے ہیں "۔

    "اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے کسی شخص کی مناظری حِس کے نیچے لگاتار سگنلز موصول ہوتے ہیں ، لیکن یہ ڈیٹا ایک خراب کھینچی ہوئی تصویر کی طرح ہوتا ہے اور انسانی دماغ اُس کو کامیابی کے ساتھ پروسس کر کے ایک مکمل تصویر پیش کرتا ہے ۔ جس کے مطابق ہم کائنات کی ہر شے کے بارے میں اپنی اپنی ذہنی سطح تک تصوارات تشکیل دیتے ہیں ۔” منتہیٰ سمیت پوری کلاس جیسے سحر زدہ تھی اور پروفیسر یوسف اپنے لیکچر کا فسوں بکھیر کر جا چکے تھے ۔۔ "پروفیسر ڈاکٹر یوسف رضا کا شمار پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فزکس کے مایہ ناز اساتذہ میں ہوتا تھا ، اپنے پیشے سے ان کی جذباتی وابستگی ، لگن اور ان تھک محنت کا ثمر تھا کہ جلد ہی وہ ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کے عہدے پر فائز ہونے والے تھے” ۔ فزکس عموماٌ خشک مضمون سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے برعکس پروفیسر یوسف انتہائی ہنس مکھ اور ملنسار واقع ہوئے تھے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ہمارے معاشرے میں اَنا کا حق صرف مرد رکھتا ہے عورت کو ماں ، بہن، بیٹی یا بیوی ہر روپ میں ، زندگی کے ہر نئے موڑ پر ، ہر رشتے کو نبھانے کے لیئے اپنی اَنا اور خود داری کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔اپنے اندر کی عورت، اُس کی اُمنگوں اور جذبوں کو دبا کر صرف مرد کی خواہش کے مطابق جینا ہی عورت کی اصل زندگی ہے "۔”لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے ہر مرد عورت کو مٹی کی مورتی یا پلاسٹک کا کھلونا نہیں سمجھتا "۔”بے نظیر ، حنا ربانی ، نرگس ماول والا اور فضا فرحان جیسی خواتین بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں "، فرق صرف اتنا ہے کہِ "انھیں خوش قسمتی سے ایسے مرد حضرات کا ساتھ میسر آیا جنھوں نے اُن کی صلاحیتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اُن کا بھرپور ساتھ دیا” ۔ آج جب نرگس کالیگوپراجیکٹ سارے عالم میں دھوم مچاتا ہے ، شرمین آسکرایوارڈ جیتتی ہے یا فضا اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل میں شامل کی جاتی ہے "تو گویا دنیا اس عورت کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے جسے عموماٌ ہانڈی، روٹی اور ڈائیپرز کا ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا "۔ "بلا شبہ کسی معاشرے میں عورت کا ایک با عزت مقام ہی اس قوم کی عظمت کا نشان ہے ۔

    عالمی یومِ خواتین کے موقع پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا آڈیٹوریم سٹوڈنٹس سے کچھا کچھ بھرا تھا اور منتہیٰ کا جوشِ خطا بت دیدنی تھا ۔ اُس کے اکثر اساتذہ کے ریمارکس تھے کہ "اس جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹس باعثِ فخر ہوتے ہیں اور اگر انھیں سازگار ماحول میسر آئے تو وہ ضرور بین الاقوامی سطح پر اپنی قوم کی پہچان بنتے ہیں ۔” بی ایس فزکس میں یہ منتہیٰ کا آخری سیمسٹر تھا اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے کا خواب جلد ہی شرمندۂ تعبیر ہونے والا تھا ، اور پھر اس کی اگلی منزل پنجاب یونیورسٹی تھی، "اس کا بے پناہ ٹیلنٹ اسے کسی کل چین سے نا بیٹھنے دیتا تھا ، یقیناٌ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی ، وہ کچھ غیر معمولی کر دکھانے کے لیے ہی پیدا کی گئی تھی۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "یار تو دن بدن پکا بک وارم بنتا جا رہا ہے مجھے تو تیرے ساتھ بیٹھتے ہوئے ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں کوئی چھوٹا موٹا سا تیرا سایہ مجھ پر نہ پڑ جائے ۔” اَرحم اسے ہر جگہ تلاش کرتے ہوئے لا ئبریری تک آیا تھا اور ارمان کے سامنے پھیلی موٹی موٹی کتابوں کو دیکھ کر کہے بنا نہیں رہ سکا ۔۔۔ "لیکن جواب ندارد "۔۔ "ارمان پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے نوٹس مکمل کرنے میں مصروف تھا ۔” کچھ دیر تک منہ بسورے ارمان کو گھورتے رہنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اَرحم کی توجہ سامنے کھلی بکس پر چلی گئی ۔ "بی ، پی لیتھی کمیونیکیشن سسٹمز "کے انتہائی اہم ٹاپکس سامنے کھلے پڑے تھے جو لیکچرز میں اُن کے سر کے اوپر سے گزر گئے تھے ۔ ایک تو پیریڈ بھی پہلا جس میں آدھی کلاس عموماٌ اونگھ رہی ہوتی ہے اوپر سے افضال سر جیسے سخت مزاج ٹیچر ، کسی کے کچھ بمشکل ہی پلے پڑتا تھا ۔ اللہ بھلا کرے سمارٹ فونز بنانے والی تمام کمپنیوں کا جن کی بدولت اب سٹوڈنٹس کے کئی مسائل چٹکی بجاتے میں حل ہو جاتے ہیں ۔ سو اَرحم بھی اپنا آئی فون سیون نکال کر تندہی سے نوٹس کی پکچرز بنانے لگا ۔۔ ارمان نے دو تین دفعہ اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا "مگر اَرحم جیسے ڈھیٹ پیس دنیا میں کم ہی پائے جاتے تھے "۔ البتہ اندر وہ بمشکل اپنی ہنسی دبائے ہوئے تھا ۔ "تھوڑی دیر پہلے اُس کے سائے سے بچنے کی باتیں کرنے والا اَرحم پکا نہیں تو نو زائیدہ بک ورم بن ہی گیا تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    بی ایس کے لاسٹ سیمسٹر کاآخری پیپر دیکر آتے ہی منتہیٰ یوں گھوڑے ،گدھے، ہاتھی ببر شیر بیچ کر سوئی کہ پھر رات کو ہی شدید بھوک سے آنکھ کھلی ۔۔ وہ بھی شدید  بھوک پیٹ میں چوہے نہ دوڑ رہے ہوتے تو اس کا پکا ارادہ اگلی صبح جاگنے کا ہی تھا۔

    دادی کی ڈانٹ پھٹکارکچن تک اُس کا پیچھا کرتی رہی ۔۔ "اے لو "یہ کوئی وقت ہے جاگنے کا "دنیا جب سونے لیٹی تو یہ نواب زادی جاگی ہیں ، نا سونے جاگنے کا سلیقہ نا نماز کی قضا کا ہوش "۔ ارے دادی آپ کو کیا معلوم کہ "یہ امتحان کیا بلا ہوتے ہیں ، مہینوں کی تیاری جیسے اپنا آپ بھلا دیتی ہے” ۔ کچن سے دو پلیٹوں میں کھانا لے کر وہ دادی پاس ہی تخت پر آبیٹھی کہ” دادی کی میٹھی میٹھی ڈانٹ ہی تو تھی جو اس کا ہاضمہ درست رکھتی تھی”۔ اے ہے ۔”یہ اپنی موٹی موٹی کتابوں کے فلسفے اپنے پاس ہی رکھو ۔ ہم نے ساری زندگی امتحان سمجھ کے کاٹی ہے "۔کیسے کیسے دکھ جھیل کے تیرے باپ اور اس کے بہن بھائیوں کو پالا ، "تم آج کل کی لڑکیاں کیا جانو کہ ماں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے اولاد کو پالتی ہے اور پھر فجر سے اُسے شوہر اور سسرال کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتنا پڑتا ہے "۔ ” میری بچی زندگی کو ہر لمحہ امتحان سمجھوگی تو تمہیں زیادہ تیاریاں نہیں کرنی پڑیں گی ۔ جب اپنی ناؤ اللہ پاک کے ہاتھ میں دیدو تو پھر ہرآزمائش سہل ہو جاتی ہے "۔۔ "وہ جو قادر بھی ہے اور قدیر بھی وہ اپنے پیاروں کو آگ کے دریا بھی پار کرا دیتا ہے اس لیے کہ اُس کے پیارے امتحانوں سے گزرنے کی تیاریاں نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی حیاتی خدا اور اُس کے قوانینِ فطرت کے حوالے کر کے خود ہر فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں "۔سر جھکائے چھوٹے چھوٹے نوالے ٹھونگتی دادی کی نصیحتیں سنتی رہی ، "مگر اس کا دھیان کہیں اورتھا "، ایسا نہ تھا کہ وہ اپنے بڑوں کی نا فرمان بچی تھی مگر” اس کی حد سے بڑھی ہوئی ذہانت ہر شے کو اپنے پیمانوں پر پرکھنے پر اکساتی تھی "۔ اس کے چند دن گھر میں خالی بیٹھ کر گزارنا دوبھر تھا ،بی ایس کے رزلٹ میں کچھ ٹائم تھا سو اس کا سارا وقت اب لیپ ٹاپ پر سرچنگ اور سرفنگ پر گزرتا تھا ، "گھر بار کے بکھیڑوں سے اسے کبھی بھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی "۔ چند روز بعد منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی ایڈمیشن فارم ڈاؤن لوڈ کر رہی تھی کہِ ارسہ سر پر نازل ہوئی ۔وہ کچھ جز بز تو ہوئی لیکن اپنی دونوں چھوٹی بہنیں اُسے جان سے زیادہ عزیز تھیں ۔ "ملک غلام فاروق دستگیر کا چھ افراد پر مشتمل یہ کنبہ فیصل آباد سول لائنز ایریا میں برسو ں سے آباد تھا ۔ ملک صاحب پنجاب حکومت کےایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں سترہ گریڈ کے آ فیسر اور پیشے کے لحاظ سے کیمیکل انجینئر تھے”۔ اُن کی وفا شعار بیوی عاصمہ ، بوڑھی والدہ اور تین بیٹیاں منتہیٰ، اِرسہ اور رامین ہی ان کی کل کائنات تھیں ۔ "وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلی ذہنیت والے انسان تھے، سو انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی بیٹوں کی طرح کی تھی "، خصو صاٌ سب سے بڑی منتہیٰ سے انھیں بے شمار توقعات وا بستہ تھیں ۔” سکول سے یونیورسٹی تک ٹاپ پوزیشن کے ساتھ وہ ایک بہترین مقررہ ، رائٹر اور پینٹر تھی "۔

    ان کی باقی دونوں بیٹیاں بھی ما شاء اللہ بہت با صلا حیت تھیں ۔۔ "اِرسہ کمپیوٹر انجینئرنگ میں اور رامین ابھی پری میڈیکل میں تھی” وہ ان باپوں میں سےہرگز  نہ تھے "جو بیٹیوں سے جلد از جلد جان چھڑانے کے چکر میں انھیں غلط ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں اور یہ معصوم کلیاں کھلنے سے پہلی ہی مرجھا جاتی ہیں "۔ اسی لیے بی ایس سے فارغ ہوتے ہی جب ان کی اکلوتی بہن اپنے بیٹے کا رشتہ منتہیٰ کے لیے لائی تو انہوں نے بیٹی کی مرضی معلوم کرنے کا کہہ کر کچھ وقت مانگا تھا۔

    ” ذاتی طور پر وہ چھوٹی عمر کی شادی کی حق میں بلکل نہیں تھے ، اس لیے انہیں کوئی خاص جلدی نہیں تھی ، مگر ان کی والدہ اور بیوی عاصمہ کو تین بیٹیاں پہاڑ جیسا بوجھ نظر آتی تھیں "۔ "جن کے خیال میں لڑکیاں تو بس کولہو کا بیل ہوتی ہیں ، جدھر ہانک دو چل دیں گی ، جس کھونٹے سے باندھ دو ساری عمر وہیں بتا دیں گی مگر حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائیں گی”۔ "اور اب یہی مژدۂ لے کر ارسہ منتہیٰ کے سر پر سوار تھی "۔ اپنے مستقبل کی پلاننگ میں اس غیر متوقع آپشن کی آمد پر منتہیٰ کا سر چکرایا ۔ امی اور دادی سے بات کرنے کا مطلب آ بیل مجھے مار تھا "سو دونوں بہنیں سر جوڑ کے بیٹھ گئیں کہ اِس بلائے  نا گہانی سے کس طرح جان چھڑائی جائے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ارمان یوسف سے اُس کا پہلا تعارف سوشل میڈیا کے توسط سے ہوا "۔ فیس بک پر منتہیٰ نے کئی جرنل نالج گروپس، کوئز اور معلوماتی تقاریر کی وجہ سے جوائن کیے ہوئے تھے اِنہی میں سے ایک گروپ میں "انسان کا چاند پر پہلا قدم اور نیل آرم سٹرونگ کی صداقت "پر ایک دھواں دھار ڈیبیٹ جاری تھی ۔

    اِس طویل ترین پوسٹ پرکمنٹس کی تعداد ہزاروں میں جا چکی تھی لیکن منتہیٰ سمیت کوئی بھی اپنے مؤ قف سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا ۔ منتہیٰ کا اِستدلال یہ تھا "کہ اپالو ۱۱ کی جو نشریات براہِ راست دکھائی گئی تھیں وہ فیک یا پکچرائز ہر گز نہیں تھیں”۔ جبکہ مخالف پارٹی سے ارمان یوسف اپنی بات پر اڑا ہوا تھا،کہ” ناسا جو دنیا بھر میں خلا سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ، امریکی فیڈرل بجٹ اور مختلف سپانسر کی مد میں تقریباٌ ۲۰ بلین ڈالرکی خطیر رقم اس مشن پر جھونک چکا تھا "۔ "اگر یہ چاند پر لینڈنگ کی یہ ویڈیو یوں ٹیلی کاسٹ نہ کی جاتی تو ناسا کے سارے سپانسرز بند ہو جاتے "۔ جبکہ انہیں فوری طور پر "مارس مشن کے لیے اس سے بڑی رقم درکار تھی "۔”اس کے علاوہ سوویت یونین خلائی دوڑ میں امریکہ سے برتری حاصل کر چکا تھا ، ناصرف خلا میں پہلا قدم رکھنے والے انسان کا اعزاز روس کے پاس تھا ، بلکہ جلد ہی وہ چاند پر بھی کمندیں ڈالنے والے تھے”۔ "سو اپنے سب سے بڑے حریف کو مات دینے کا یہ ایک بہترین طریقہ تھا جو ناسا کے تھنک ٹینکس نے یوں مؤثر طور پر ڈیزائن کیا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا” ۔ مگر بہرحال یہ سب کچھ اب تک قیاسات ہی ہیں ۔

    ” ہفتوں جاری رہنے والی یہ ڈبیٹ منتہیٰ کے ارمان سے تعارف کا سبب بنی "۔”کو ئی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم سے شروع ہونے والا یہ تعارف وفا اور ایثار کی ایک لازوال داستان کو جنم دینے والا ہے”۔

    مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭