Tag: death anniversary

  • خواجہ معین الدین چشتیؒ کا عرس، بھارت کا پاکستانی زائرین کو ویزے دینے سے انکار

    خواجہ معین الدین چشتیؒ کا عرس، بھارت کا پاکستانی زائرین کو ویزے دینے سے انکار

    اسلام آباد : بھارت میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے عرس کی تیاریاں جاری ہیں، بھارت کی جانب سے 400زائرین کو آنے سے روک دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے عرس مبارک میں شرکت کے لیے مخصوص کوٹے میں سے صرف 100 پاکستانی زائرین کو اجمیر شریف کے ویزے جاری کیے ہیں۔

    اس حوالے سے ترجمان وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ عرس کے لیے500پاکستانی زائرین کا کوٹہ مقرر ہے، جس میں سے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے جاری کیے گئے۔

    ترجمان کے مطابق 100پاکستانی زائرین اتوار کے دن واہگہ بارڈر کے راستے اجمیر شریف روانہ ہوں گے۔

    خواجہ خواجگان، خواجہ بزرگ، خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے 813 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات اجمیر شریف میں باتزک و احتشام جاری ہیں۔ مزار مبارک کو دیوان سید زین العابدین نے غسل دیا، یہ تقریبات9 رجب المرجب تک جاری رہیں گی۔

    برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی شمع روشن کرنے میں اولیائے کرام اور بزرگان دین نے لافانی کردار ادا کیا اس سلسلہ میں محافظ لاہور حضرت داتا گنج بخش کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز (اجمیر شریف) کا نام گرامی لیا جاتا ہے۔

    حضرت معین الدین چشتیؒ

    آپ کے دست حق پر نوے لاکھ کفار نے اسلام قبول کیا، حضرت خواجہ غریب نواز، معین الدین چشتی اجمیریؒ سلسلہ چشتیہ کے ماہ تاباں اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے محبوب خلیفہ ہیں، حضرت خواجہ غریب نواز نے دہلی مہرولی میں محو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم، شیخ کبیر، اجودھن کے درویش حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کو خلافت عطا کی۔

    حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے دہلی کے محبوب الٰہی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سر پر وقار پر خلافت کا تاج پہنایا، یوں سلسلہ چشتیہ کے ان چاروں آفتابوں کی ضیا پوش کرنوں نے ظلمت کدہ ہند میں اسلام کی شمع کو فروزاں کیا۔

  • امجد صابری کی بیٹیاں والد کی برسی پر جذباتی ہوگئیں

    امجد صابری کی بیٹیاں والد کی برسی پر جذباتی ہوگئیں

    کراچی: معروف قوال امجد صابری کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی بیٹیاں جذباتی ہوگئیں اور اپنے بچپن کی یادیں شیئر کیں۔

    تفصیلات کے مطابق امجد صابری کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی بیٹیوں حورین اور پریسا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنے والد کی تصاویر شیئر کیں۔

    پریسا صابری نے والد کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بابا! مجھے وہ تمام حسین لمحات یاد ہیں جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔

    انہوں نے لکھا کہ اگر مجھے آپ سے بات کرنے کا ایک موقع ملے تو میں آپ کو بتاؤں گی کہ آپ میرے لیے اور باقی سب کے لیے کس قدر اہم ہیں۔

    دوسری طرف حورین صابری نے بھی اپنے انسٹاگرام پر والد کی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ پانچ سال بعد بھی آپ کے جانے کا یقین نہیں آتا، ہم اپنی زندگی میں بھی جتنا بھی مصروف ہوجائیں آپ کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Hoorain Amjad Sabri (@hoorainn._)

    یاد رہے کہ امجد صابری پانچ سال قبل 16 رمضان کو اپنی گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے تھے، ان کے سر پر گولیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

  • ملکہ جذبات "مینا کماری” کو ہم سے بچھڑے 49 برس بیت گئے

    ملکہ جذبات "مینا کماری” کو ہم سے بچھڑے 49 برس بیت گئے

    ماضی کی نامور اداکارہ مینا کماری کی آج 49ویں برسی ہے، پاکیزہ، صاحب بیوی اور غلام اور کاجل جیسی بہترین فلمیں دینے والی اداکارہ مینا کماری کو اس دنیا سے بچھڑے ہوئے 49 برس بیت گئے۔

    بہترین اداکاری کے لیے انہیں چار بار فلم فیئر کے بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان میں’’بیجو باورا، پرینیتا، صاحب بیوی اور غلام اور ’’کاجل‘‘ شامل ہیں۔

    اداکارہ مینا کماری کا اصل نام مہ جبیں تھا اوروہ یکم اگست انیس سو بتیس کو پیدا ہوئیں۔ مینا کماری نے چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ پہلی اداکارہ تھیں جنہوں نے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا، یہ ایوارڈ انہیں فلم ’بیجو باوارا‘ پرملا تھا اوراس فلم نے مینا کو شہرت اور پہچان عطا کی۔

    مینا کماری کی مشہور فلموں میں بیجو باورا، کوہ نور، آزاد، فٹ پاتھ، دو بیگھہ زمین، آزاد، شاردا، شرارت، زندگی اور خواب، پیار کا ساگر، بے نظیر، چتر لیکھا، بھیگی رات، غزل، نور جہاں، بہو بیگم، پھول اور پتھر، پورنیما، میں چپ رہوں گی ، پاکیزہ، دل اپنا اور پریت پرائی، سانجھ اور سویرا، چراغ کہاں روشنی کہاں،مس میری، ایک ہی راستہ، دل اک مندر، اور منجھلی دیدی کے نام سر فہرست ہیں۔

    ان کی خوب صورت ادکاری کے اعتراف میں انھیں ملکہ جذبات کا خطاب بھی عطا کیا گیا تھا، مینا کماری ادب سے گہرا لگاؤ رکھتی تھیں، انہوں نے مشہور ہدایت کار کمال امروہی سے شادی کی تھی۔

    وہ خود بھی شاعری کرتی تھیں اور ان کا تخلص "ناز” تھا۔ ان کا شعری مجموعہ تنہا چاند کے نام سے شائع ہوا تھا۔ مینا کماری نے اپنی وصیت میں اپنی نظمیں چھپوانے کا ذمہ گلزار کو دیا تھا جسے انہوں نے ’’ناز‘‘ تخلص سے چھپوايا۔ ہمیشہ تنہا رہنے والی مینا کماری نے اپنی مشتمل ایک غزل کے ذریعے اپنی زندگی کا نظریہ پیش کیا۔

    مینا کماری کو جگر کے بڑھنے کی بیماری درپیش تھی اوراکتیس مارچ انیس سو بہتر کو اس وقت بمبئی کہلائے جانے والے ممبئی میں انتقال کرگئی تھیں، ان کی تدفین ممبئی کے رحمت آباد قبرستان میں کی گئی۔

  • بابا گرونانک کی برسی کی تقریبات: انتظامی کمیٹی نے آرمی چیف کو ہیرو قرار دے دیا

    بابا گرونانک کی برسی کی تقریبات: انتظامی کمیٹی نے آرمی چیف کو ہیرو قرار دے دیا

    کرتار پور : گوردوارہ دربار صاحب میں بابا گرونانک کی برسی کی تقریبات کا آج آخری دن ہے،انتظامی کمیٹی نے آرمی چیف سے اظہار تشکر کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور میں بابا گرونانک کا481واں یوم وفات منایا جارہا ہے، گوردوارہ دربار صاحب میں 20 ستمبر سے جاری 3روزہ  تقریبات کا آج آخری دن ہے۔

    سکھوں کی مقدس کتاب سری گروگرنتھ صاحب کے اکھنڈ پاٹھ 20 ستمبرکو رکھےگئے، تقریبات کی انتظامی کمیٹی نے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے اظہار تشکر کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور انہیں ہیرو قرار دیا۔

    انتظامی کمیٹی نے سرحد پار بھارتی حکومت کے زائرین سےناروا سلوک پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت نے بھارت کو خط لکھےلیکن زائرین کوآنے کی اجازت نہ دی گئی۔

    امریکی قانون سازوں نےبھی 2دن قبل، بھارت کو”مخصوص خدشات والا ملک” قراردیا ، امریکا کے14 سینیٹرز نے بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے بدترین مجرم گردانا جبکہ امریکی وزیر خارجہ کورواں ماہ 10ریپبلکن، 4ڈیموکریٹ سینیٹرزنےدستخط شدہ خط بھیجا۔

    3روزہ تقریبات کی اختتامی تقریب میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ہزاروں یاتریوں نے شرکت کی اور گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور کمپلیکس میں انتظامات کو سراہا۔

  • آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے

    آج اردو کے عظیم شاعرفراق گورکھپوری کا یوم وفات ہے

    اردو زبان کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہر قانون اور اچھے شاعر تھے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد آئی سی ا یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفا دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس کے بعد وہ الہٰ اآباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے لکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    یہیں پر انہوں نے بہت زیادہ اردو شاعری کی جس میں آپ کی شہر آفاق کتاب گل نغمہ بھی شامل ہے۔ جس کو ہندوستان کا اعلی معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔ اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔

    بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔

    ان کے متعدد شاعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گل نغمہ کے نام سرفہرست ہیں۔ حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔

    فراق کا انتقال طویل علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہوا۔ میت الہ آباد لے جائی ۔گئی جہاں دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

  • در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔

    13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘

    مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘

    سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔

    انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔

    خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔

  • تاجِ برطانیہ کا غرورخاک میں ملادینے والی فاطمہ صغرا کی برسی

    تاجِ برطانیہ کا غرورخاک میں ملادینے والی فاطمہ صغرا کی برسی

    لاہور: تحریک پاکستان کی نامور خاتون کارکن فاطمہ صغریٰ کو گزرے دو برس بیت گئے ، آپ 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئیں تھیں۔

    تحریک پاکستان کے دوران اس ملت کی بے مثال بیٹی فاطمہ صغریٰ کا کردار ناقابل فراموش ہے، فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کی اُن نامور کارکنوں میں شامل تھیں، جنہوں نے زمانہ کمسنی ہی میں اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور اپنا ایک مقام پیدا کیا۔

    فاطمہ صغرا کی جوانی کی تصویر

    جب تحریک پاکستان کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی، آپ اس وقت دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں، محترمہ فاطمہ صغراء نے انیس سو چھیالیس میں تحریک کے دوران لاہور سول سیکرٹریٹ سے برطانیہ کا جھنڈا یونین جیک اُتار کر اپنے دوپٹے سے بنا ہوا مسلم لیگ کا پرچم لہرایا تھا۔

    اس کارنامے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں قومی اعزاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    دو سال قبل آج ہی کے دن ان کی اچانک طبعیت خراب ہوئی اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ ان کی تدفین لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں کی گئی جہاں اس ملک کے کئی نامور نام آسودہ خاک ہیں۔ مرحومہ کے سوگواروں میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

  • مولوی عبد الحق سے بابائے اردو تک

    مولوی عبد الحق سے بابائے اردو تک

    اردو زبان کے محسن اور پاکستان کے نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی کو گزرے 58 برس بیت گئے ہیں، آپ برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات، معلم، بانی انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے بانی تھے، آپ کو بابائے اردو کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق 20 اپریل،1870ء کوبرطانوی ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ہاپوڑ نامی قصبے میں پیدا ہوئے، مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ کے ہندو کائستھ تھے، جنہوں نے عہدِ مغلیہ میں اسلام کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اور ان کے سپرد محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں (مولوی عبدالحق کے خاندان کو) وہ مراعات و معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئیں تھیں۔ ان مراعات کو انگریز حکومت نے بھی بحال رکھا۔

    مولوی عبدالحق نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر میرٹھ میں پڑھتے رہے۔ 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کی صحبت میسر رہی۔ جن کی آزاد خیالی اور روشن دماغی کا مولوی عبدالحق کے مزاج پر گہرا اثر پڑا۔ 1895ء میں حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت کی اس کے بعد صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ ملازمت ترک کرکے عثمانیہ اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    بابائے اُردومولوی عبدالحقؒ کو ابتدا ءہی میں ریاضی سے گہرا لگاؤ تھا جس نے اُنہیں غور و فکر اور مشاہدے کا عادی بنا دیا ۔اس کے علاوہ انہیں فارسی اور اُردو شاعری، نثرنگاری ،تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنے کا بھی شوق تھا ان علوم اور ادب کے مطالعے نے مولوی عبدالحقؒ کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کئے انہیں اپنے اطراف سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ۔

    غور و فکر ،مطالعے اور مشاہدے کا ذوق مزید گہرا ہوا ان کی فکر میں وسعت ،تخیل میں بلندی اور زبان و بیان کی باریکیاں واضح ہوئیں ۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے بے شمار کارنامے ہیں طلبِ آگہی نے انہیں مزید متحرک اور مضطرب بنا دیا تھا۔ پہلی بار مولوی عبدالحقؒ کی کا وشوں سے دکنی زبان کے علمی اور ادبی شہ پارے سامنے آئے انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے اس گوشہ ادب کی علمی اور لسانی اہمیت کو اُجاگر کیا۔

    قدیم دہلی کالج کے حوالے سے بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ نے اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ”مرحوم دہلی کالج“ لکھ کر اس ادارے کی ادبی اور تعلیمی کاوشوں کو نمایاں کیا۔فورٹ ولیم کالج کی طرز سے ذرا ہٹ کر دوبارہ دہلی کالج قائم کیا جس سے بلاشبہ اُردو میں بیشتر مغربی ادب اور علوم سے آگہی کا موقع میسر آیا ۔

    دہلی کالج نے اس دور کے طلبہ کی شخصیت اور ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے نہ صرف اُردو میں تنقید نگاری، مقدمہ نگاری اور معنویت عطا کی بلکہ اُردو میں پہلی بار حقیقی تبصرہ، جائزہ اور لسانی اکتساب صرف بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ کی مقدمہ نگاری میں میسر آیا انہوں نے اُردو میں تبصرہ نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے جنھوں نے بہت جلد انجمن ترقی اردو کو ایک فعال ترین علمی ادارہ بنا دیا۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے ،وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔

    انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔

    انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔ اس انجمن کے تحت لسانیات، لغت اور جدید علوم پر دو سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعدانہوں نے اسی انجمن کے زیرِاہتمام کراچی، پاکستان اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لاء کالج جیسے ادارے قائم کیے۔ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔

    سنہ 1935ء میں جامعہ عثمانیہ کے ایک طالب علم محمد یوسف نے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا جس کے بعد یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ 23 مارچ، 1959ء کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق کی ویسے تو بے شمار تصانیف ہیں تاہم ان میں مخزنِ شعرا،اردو صرف ونحو، افکارِ حالی، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ،سرسیداحمد خان، اور دیگر مقبولِ عالم ہیں۔

    بابائے اردو مولوی عبدالحق 16 اگست، 1961ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ آپ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں، حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

  • پاپ موسیقی کی ملکہ نازیہ حسن کو ڈسکو دیوانے یاد کررہے ہیں

    پاپ موسیقی کی ملکہ نازیہ حسن کو ڈسکو دیوانے یاد کررہے ہیں

    برصغیر میں پاپ میوزک انڈسٹری کو نئی جہت فراہم کرنے والی پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نازیہ حسن کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔

    معروف گلوکارہ نازیہ حسن 3 اپریل1965 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن سے کیا، تعلیم لندن میں مکمل کی، نازیہ حسن کا شمار برصغیر میں پاپ موسیقی کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔

    نازیہ حسن نے جو گایا خوب گایا، ان کے بہترین گانوں میں دوستی، ڈسکو دیوانے، آنکھیں ملانے والے، بوم بوم اور دل کی لگی شامل ہیں۔

    انہوں نے کم سنی میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا، عالمی سطح پر نازیہ حسن کو اس وقت شہرت ملی، جب انہوں نے بھارتی موسیقار بدو کی موسیقی میں فلم قربانی کا مشہور نغمہ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے ریکارڈ کروایا، جس پرانہیں بھارت کے مشہور فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    گیت آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے نے نازیہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے وسطی ایشیا میں پاپ موسیقی کی ملکہ بنا دیا، نازیہ کی زندگی کے سب سے اہم جزو ان کے بھائی زوہیب حسن تھے، جنھوں نے نازیہ کی پوری زندگی ان کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں نازیہ کے کئی البم اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ جاری ہوئے۔

    نازیہ حسن کی یاد تازہ کرتے مشہور اور خوبصورت گانے

    نازیہ کا پہلا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ 1982ء میں ریلیز ہوا۔ جس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، اس البم میں ان کے بھائی زوہیب حسن نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا، نازیہ حسن کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    نازیہ صرف گلوکارہ ہی نہیں سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر اقوام متحدہ سے وابستہ رہیں،1991 میں انہیں پاکستان کا ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا۔

    نازیہ حسن پہلی پاکستانی ہیں، جنہوں نے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا اور بیسٹ فی میل پلے بیک سنگر کی کیٹیگری میں ایوارڈ جیتنے والی سب سے کم عمر گلوکارہ قرار پائیں۔

    نازیہ حسن کی وفات کے بعد 2002 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا اعزاز پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا جبکہ 2003 میں ان کی یاد میں نازیہ حسن فاوٴنڈیشن قائم کی گئی۔

    سرطان کے موذی مرض میں مبتلا نازیہ حسن 13 اگست 2000 کو لندن کے اسپتال میں انتقال کر گئیں تھیں، مگر ان کی سریلی آواز میں گائے گیت آج بھی دل دماغ کو ترو تازہ کر دیتے ہیں۔

  • برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم گلوکار محمد رفیع کو گزرے39 برس بیت گئے

    برصغیر پاک وہند کےعظیم گلوکار محمد رفیع کا 39 واں یوم وفات آج منایا جارہا ہے، رفیع کے گائے سینکڑوں گیت آج بھی بے انتہا مقبول ہیں، ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے۔

    موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی کا ایسا ہنرلے کر پیدا ہوئے تھے، جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے، سروں کے شہنشاہ محمد رفیع 24 دسمبر1924 کو امرتسر کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور ریڈیو سے پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتداء کی، موسیقی کا شوق انہیں ممبئی لے آیا اور پھر فلم انمول گھڑی کے گانے سے کیرئیر کا اغاز کیا۔

    انہوں نے گیتوں کے علاوہ غزل ، قوالی اوربھجن گا کربھی لوگوں کومحظوظ کیا، ان کو کلاسیکی ، شوخ اور چنچل ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت تھی، محمد رفیع نے چالیس ہزار سے زائد گانے گائے۔

    محمد رفیع نے ہندی فلموں کے 4516، نان ہندی 112 اور 328 پرائیویٹ گانے ریکارڈ کرائے ، ان کے مشہور گانوں میں چودھویں کا چاند ہو، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، میرے محبوب تجھے، کیا ہوا تیرا وعدہ ، بہارو پھول برساؤ، کھلونا جان کرتم تو، میں نے پوچھا چاند سے، یہ دل تم بن لگتا نہیں، آج پرانی راہوں سے ، لکھے جوخط ، احسان تیرا ہوگا ،یہ ریشمی زلفیں اوردل جو نہ کہہ سکا کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔

    دلوں پر راج کرنے والے رفیع نے نہ صرف اردو اور ہندی بلکہ میراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اور تامل کے علاوہ کئی زبانوں میں بھی ہزاروں گیت گائے۔

    محمد رفیع نے اپنے کیرئیر میں بطور پلے بیک سنگر متعد ایوارڈز حاصل کیے، جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، 6 بارفلم فیئرایوارڈ اور حکومت انڈیا کا سرکاری اعزاز پدم شری شامل ہیں جو انہیں 1967ء میں دیا گیا جبکہ ان کے انتقال کے 20 برس بعد 2000ء میں انہیں بہترین سنگرآف میلینیم کا اعزاز سے نوازا گیا۔

    محمدرفیع 31جولائی 1980ء کوجہان فانی سے کوچ کرگئے، ان کی گائیکی آج بھی برصغیر میں مقبول ہے، آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہوگئے مگر وہ اپنی آواز کے ذریعے آج بھی اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔