Tag: death anniversary

  • عباسی ملکہ ’زبیدہ ‘ کا 1188 واں یومِ وفات

    عباسی ملکہ ’زبیدہ ‘ کا 1188 واں یومِ وفات

    آج نامور عباسی ملکہ ام جعفر زبیدہ کا یوم وفات ہے، ان کا انتقال 10 جولائی 831 عیسوی کو بغداد میں ہوا تھا، ان کے انتقال کے 1188 برس بعد بھی ان کی سخاوت کے قصے زبان زد عام ہیں۔

    ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصورہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ آپ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد بہن اور بیوی تھیں ان کا نام ” امۃ العزیز “ تھا۔ ان کے دادا منصور بچپن میں ان سے خوب کھیلا کرتے تھے، ان کو ” زبیدہ “ ( دودھ بلونے والی متھانی ) کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ سب اسی نام سے پکارنے لگے اور اصلی نام بھول ہی گئے۔

    آپ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ 165ھ مطابق جولائی 782ء میں ہوئی۔

    ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان میں اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پانچ کروڑ درہم خرچ کیے۔ ہارون الرشید نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔

    نہرزبیدہ کی تعمیر

    زبیدہ بنت جعفر نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ کو پانی کی فراہمی کے لیے نہر بنوائی جسے نہر زبیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    عزیزیہ، مکہ میں نہر زبیدہ کا ایک ٹوٹا ہوا حصہ، اندرونی دیوار کو پلاستر سے بالکل ہموار رکھا گیا تھا۔

    اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال سے نوازتی رہتی تھیں اور حج و عمرہ کے لیے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔

    ایک نہر جس کا پانی ” جبال قرا “ سے ” وادی نعمان “ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب بئر زبیدہ کے نام سے تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، اس سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔

    جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا ،آپ نے جس نہرکا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا اور سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنا پڑے گی تب کہیں جاکر منصوبہ پایہِ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

    یہ سن کر زبیدہ نے انجینئر سے کہا: اس کام کو شروع کرو خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھولے بغیر دریا برد کردیا اور کہنے لگیں: الہٰی! میں نے دنیا میں کوئی حساب نہیں لیا تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔

    نہر زبیدہ عرفات کے قریب

    بہلول سے جنت خریدنا

    مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز ملکہ زبیدہ دریائے فرات کے کنارے چہل قدمی کررہی تھیں تو اس دور کے برگزیدہ بزرگ بہلول دانا ساحل کنارے مٹی کے ڈھیر سے محل تعمیر کررہے تھے ، ملکہ نے حیرت سے پوچھا کہ بہلول ! کیا کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جنت کا محل تعمیر کررہا ہوں۔ ملکہ نے سوال کیا کہ کیا یہ محل مجھے بیچو گے تو بہلول سو دینا ر میں وہ محل فروخت کرگئے۔ ملکہ محل میں واپس آئیں اور ہارون الرشید کو سارا واقعہ گوش گزار کیا تو اس نے مذاق اڑایا کہ ایک دیوانہ بغداد کی ملکہ سے سو دینا اینٹھ کر چلا گیا۔

    رات جب ہارون سویاتو اس نے دیکھا کہ ایک انتہائی حسین و خوشنما باغ میں موجود ہے اور اس کے چہار جانب عظیم الشّان محلّات ہیں اورہر نظّارہ نظارۂ بہشت ہے اتنی حیران کن جگہ دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک جانب کنیزوں اور غلامان جنّت کی صف پر گئی جو ملکہ زبیدہ کی آمد کے منتظر تھے اور ان کے آتے ہی انہوں نے ایک زرنگار کرسی پیش کرتے ہوئے مودّب لہجے میں کہا تشریف رکھیے ۔زبیدہ حیرت کے سمندر میں ڈوبی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی تو ایک کنیز نے آگے بڑھ کر چاندی کی طشتری میں اسے ایک دستاویز پیش ملکہ زبیدہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے وہ دستاویز اٹھا کر کھول کر جو دیکھی تو اس میں سونے کے حرفوں سے لکھا تھا۔

    [bs-quote quote=”یہ قبالہ ہے اس بہشت کا جسے ملکہ نے بہلول سے خریدا ہے” style=”style-3″ align=”center”][/bs-quote]

    صبح ہوتے ہی ہارون الرشید نہر کنارے گئے جہاں بہلول بیٹھے پھر مٹی کے محل بنا رہے تھے ، ہارون نے پوچھا کہ بہلول یہ محل بیچتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں۔ ہارون نے قیمت پوچھی تو بہلول نے کہا کہ تم اپنی پوری سلطنت دے کر بھی نہیں خرید سکتے ۔ ہارون حیرت سے گویا ہوا کہ کل تو یہ سو دینار کا تھا۔ اس پر بہلول نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اے خلیفہ وقت ! تیری ملکہ نے بغیر دیکھے سودا کیا تھااورتو دیکھنے کے بعد آیا ہے ، آخرت کے سودے ایسے نہیں ہوتے۔

    ہارون الرشید کے انتقال کے بعد ملکہ زبیدہ کا بیٹا امین خلافت عباسیہ پر تخت نشین ہوا ، تاہم اسے زیادہ عرصہ حکومت کا موقع نہ مل سکا اور زبیدہ کے سوتیلے بیٹے مامون نے خانہ جنگی کے بعد مامون سے حکومت چھین لی ۔

    مرقدِ ملکہ زبیدہ

    ملکہ زبیدہ کی وفات بروز پیر 26 جمادی الاول 216ھ بمطابق 10 جولائی 831ء کو بغداد میں ہوئی اور ان کی تدفین مقبرہ خیزران میں کی گئی جو کہ موجودہ ترکی میں واقع ہے۔

  • کشمیریوں کی جدوجہد بھارتی مظالم کے باوجود جاری ہے: دفتر خارجہ

    اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کشمیری مجاہد برہان وانی کی تیسری برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد بھارتی مظالم میں شدت کے باوجود جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری نوجوان برہان وانی کے تیسرے یوم شہادت پر ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ چلے گئے لیکن بھولے نہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ برہان وانی کے یوم شہادت پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے، کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد بھارتی مظالم میں شدت کے باوجود جاری ہے۔

    خیال رہے کہ شہید برہان وانی جنہوں نے صرف 15 سال کی عمر میں بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد آزادی کا آغاز کیا جنہیں 8 جولائی 2016 کو کرناگ قصبے کے بم ڈورہ گاؤں میں شہید کردیا گیا تھا۔

    22 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرنے والا برہان وانی کشمیر میں جاری تحریک کی نئی شمع روشن کر گیا، وانی کے جنازے پر شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    برہان مظفر وانی اور دیگر 126 شہدا سمیت تمام شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج سوموار کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جارہی ہے۔

  • مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    عالمی شہرت یافتہ، کنگ آف پاپ امریکی آنجہانی گلوکار مائیکل جیکسن کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے، مائیکل جیکسن کو تاریخ کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے موسیقار کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    مائیکل جیکسن کو بیسویں صدی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، جیکسن کا فن 40 سالوں تک مرکز نگاہ رہا اور اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایک نہیں کئی حوالوں سے درج ہے۔

    مائیکل جوزف جیکسن 29 اگست سنہ 1958 کو امریکی ریاست انڈیانا میں پیدا ہوئے۔ 6 سال کی عمر میں موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر مائیکل جیکسن نے جو گایا کمال گایا۔ اپنے پہلے ہی البم آئی وانٹ یو بیک سے مائیکل جیکسن کی شہرت کا سفر شروع ہوگیا۔

    سنہ 1982 میں مائیکل جیکسن کا البم ’تھرلر‘ ریلیز ہوا اور دنیائے میوزک میں تہلکہ مچا دیا، اس البم کو آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی میوزک البم کا اعزاز حاصل ہے اور اب تک اس کی ساڑھے 6 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

    تھرلر کو 8 گریمی ایوارڈز ملے جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن نے تھرلر البم کے گیت ’بلی جین‘ پر رقص میں ایک نئی حرکت متعارف کروائی جسے دیکھ کر لوگ ششدر رہ گئے۔ اس حرکت کو بعد ازاں ’مون واک‘ کا نام دیا گیا۔

    تھرلر کے بعد مائیکل جیکسن کا البم ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی 20 ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ بیڈ کے بعد جیکسن کا ایک اور البم ڈینجرس بھی کامیاب ترین البم ثابت ہوا۔

    مائیکل کی زندگی زندگی دکھوں اور تنازعات سے بھرپور رہی۔ مائیکل نے اپنا بچپن والد کے ہاتھوں تشدد برداشت کرتے اور غربت سہتے ہوئے گزارا تھا۔ یہ کٹھن وقت مائیکل کو ہمیشہ کے لیے ذہنی عارضوں اور نفسیاتی پییدگیوں کا تحفہ دے گیا۔

    وہ اپنے گانوں میں سیاہ فاموں سے کیے جانے والے سلوک کے خلاف آواز تو اٹھاتا رہا تاہم اس احساس کمتری سے نجات نہ پا سکا جو اس کمتر اور ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے اس کے اندر پیدا ہوا جو مغرب میں تمام سیاہ فاموں کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے بعد مائیکل نے پلاسٹک سرجری کا سہارا لیا اور اپنی سیاہ جلد کو سفید سے بدل ڈالا۔

    جیکسن ساری زندگی طبی مسائل اور مختلف بیماریوں کا بھی شکار رہا جس کی وجہ سے اکثر وہ اپنا منہ ڈھانپ کر باہر نکلتا تھا۔ اس پر بچوں سے بدسلوکی کے الزامات بھی لگے اور ان کی وجہ سے اسے عدالتوں میں بھی پیش ہونا پڑا۔

    اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ فلاحی کاموں پر خرچ کیا، گنیز بک میں اس کا نام ’سب سے زیادہ فلاحی منصوبوں کی معاونت کرنے والے اسٹار‘ کے طور پر بھی درج ہے۔

    مائیکل نے سنہ 1994 میں آنجہانی امریکی گلوکار ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کی، جو صرف 19 ماہ چل سکی۔ بعد ازاں اس نے ایک نرس ڈیبی رو سے بھی شادی کی جو 3 سال بعد اختتام پذیر ہوگئی۔

    وہ 3 بچوں کا والد بھی بنا جن میں سے سب سے بڑی بیٹی پیرس جیکسن اس وقت ماڈلنگ کی دنیا میں اپنا نام بنا رہی ہے۔

    10 برس قبل سنہ 2009 میں مائیکل جیکسن 25 اور 26 جون کی درمیانی شب حرکت قلب بند ہونے سے اس دنیا کو چھوڑ گیا۔ ہر مشہور شخصیت کی طرح اس کی موت پر بھی طرح طرح کی قیاس آرئیاں کی گئی۔ اس کی موت کو قتل قرار دیا گیا۔

    یہ بھی کہا گیا کہ وہ معاشی مشکلات کا شکار ہوگیا تھا لہٰذا اس نے خودکشی کی، تاہم اس کے ڈاکٹر کے بیان کے مطابق جیکسن نے مرنے سے قبل دوائیوں کی بھاری مقدار لی تھی جس کی وجہ اسے ہونے والی مختلف تکالیف تھیں۔

    مائیکل جیکسن کی موت کی خبر منظر عام پر آتے ہی کروڑوں افراد نے گوگل کا رخ کیا اور گوگل کا سرچ انجن بیٹھ گیا، دنیا بھر کی بڑی نیوز ویب سائٹس بھی بھاری ٹریفک کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوگئیں۔

    7 جولائی کو ادا کی جانے والی مائیکل جیکسن کی آخری رسومات کو 1 ارب افراد نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا۔

    موت کے بعد آنجہانی گلوگار کے البمز ایک بار پھر دھڑا دھڑ فروخت ہونے لگے۔ مائیکل جیکسن کی موت سے قبل ریکارڈ کیا گیا گانا دس از اٹ ان کی موت کے بعد ریلیز کیا گیا جس نے مائیکل کی ساری زندگی کمائی گئی دولت کا ریکارڈ توڑ دیا۔

    مرنے کے بعد بھی مائیکل جیکسن کا نام سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والے گلوکاروں میں سرفہرست ہے۔ ان کے مداحوں کی تعداد ان کی موت کے بعد بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

  • ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    آج ایشیا کے نپولین نادرشاہ افشار کا یومِ وفات ہے، مغل سلطنت ، روس ، افغانیہ اور عثمانی ترکوں کو مسلسل شکست دینے والا یہ جرنیل اپنے ہی محافظ دستے کے سپاہیوں کے ہاتھوں آج کے دن یعنی 19 جون 1747 کو قتل ہوا تھا۔

    نادر شاہ کا ابتدائی نام نادر قلی تھا ، وہ خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں 22 اکتوبر 1688ء کو پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

    افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیے۔ اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میں رکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کر دیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔

    نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خود مختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہو گیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔

    باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر نے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کیے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کر دیا۔

    نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان میں صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہو گئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

    اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کر لیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کر لیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لیے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔

    نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پزیر رہا۔

    ہنوز دلی دور است؟؟

    نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارا اور خیوہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

    اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان میں نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہو گیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔

    ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہو گئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ آخر کار19 جون 1747ء کو اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کر دیا۔

  • صوفی شاعرسچل سرمست کےعرس کی تقریبات کاآغاز

    صوفی شاعرسچل سرمست کےعرس کی تقریبات کاآغاز

    آج سندھ کے عظیم صوفی شاعر سچل سرمست کے عرس کی تقریبات آج سے شروع ہوگئی ہیں، اس موقع پر زائرین کی آمد کاسلسلہ جاری ہے اور سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔

    سندھ کی سوہنی دھرتی میں جانے کیا دلکشی ہے کہ انگنت صوفیوں اور شاعروں نے ناصرف یہاں جنم لیا بلکہ متعدد بزرگ تو ایسے تھے جو صدیوں پہلے یہاں کھنچے چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حضرت سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔

    انہی بزرگوں میں سے ایک امن و محبت کے پیامبر سچل سرمست بھی ہے۔ حضرت سچل کی روحانیت غضب کی تھی۔ اسی روحانیت، سوز اور جذبے کے سبب وہ سرمستی اور بے خودی میں رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آپ ’سرمست‘ کہلائے۔‘

    سندھی زبان کے مشہور شاعر جو عرف عام میں شاعر ہفت زبان کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے جن میں عربی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، اردو، فارسی اور بلوچی شامل ہیں۔

    سچل سرمست کی پیدائش 1739ء میں سابق ریاست خیرپور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی۔ان کا اصل نام تو عبدالوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔

    حالات زندگی اور وجہٴ شہرت

    سچل سرمست کئی زبانوں کے شاعر تھے۔ اردو، فارسی، سرائیکی اور ہندی میں ان کا کلام آج بھی موجود ہے۔ سندھی روایات کے مطابق انہیں ’سچل سائیں‘ بھی کہا جاتا ہے، حالانکہ ان کا اصل نام خواجہ حافظ عبدالوہاب فاروقی تھا۔ آپ کا سنہ پیدائش 1739ء ہے۔

    سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے ان کی پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔

    عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے۔ شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ اس لئے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔

    سچل سرمست کے عرس میں صرف سندھ کے علاقائی باشندے ہی شرکت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے باقی علاقوں کے علاوہ بھارت سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

  • لعل شہبازقلندرکون ہیں اوران کا عرس کیوں منایا جاتا ہے؟

    لعل شہبازقلندرکون ہیں اوران کا عرس کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج معروف صوفی بزرگ حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ کا 767یوم وفات ہے، آپ 21 شعبان 673 ہجری میں وصال فرما گئے تھے، آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے اورہرسال شعبان کے مہینے میں عرس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔

    متفرد تواریخ کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندرؒ1177 عیسوی بمطابق 573ہجری میں مروند کے مقام پرپیدا ہوئے، مورخین کے مطابق یہ افغانستان کا علاقہ ہے، تاہم کچھ مورخین اسے آذربائجان کا علاقہ میوند بھی تصور کرتے ہیں۔

    سلسلہ نسب

    خاندانی مراتب کی بات کی جائےتو آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ نسبتوں سے ہوکر حضرت امام جعفر صادق تک جا پہنچتا ہے جو کہ آلِ رسول ہیں اور از خود فقیہہ اور امام بھی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔۔۔ سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حسین بن علی بن علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے۔

    آپ ایک اعلیٰ پائے کے مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ آپ کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
    ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

    القاب

    ایک روایت کے مطابق آپ کے چہرہ انور سے لال رنگ کے قیمتی پتھر ’لعل‘ کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی ، جس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے عالم رویا میں ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے “شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کا خرقہ تابدار یاقوتی رنگ کا ہوا کرتا تھا اس لیے انہیں’لعل‘، ان کی خدا پرستی اور شرافت کی بنا پر’شہباز‘ اور قلندرانہ مزاج و انداز کی بنا پر’قلندر‘ کہا جانے لگا۔

    تعلیم

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ آپ کے اجداد نے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں حضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کرلی۔

    کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
    گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

    سیہون میں قیام

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔سندھ کے علاقے سیوستان ( سیہون شریف )میں آکر آپ جس محلے میں مقیم ہوئے، وہ بازاری عورتوں کا تھا۔ اس عارف باللہ کے قدوم میمنت لزوم کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑ گیا، نیکی اور پرہیزگاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور زانیہ عورتوں نے آپ کے دستِ حق پر توبہ کی۔

    لعل شہباز قلندر نے سیوستان میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا۔ ان کے اخلاق کو سنوارا، انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا سکھایا۔ آپ تقریباً چھ سال تک سیوستان میں رہ کر اسلام کا نور سندھ میں پھیلاتے رہے۔ ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ سے ہدایت پائی اور بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ اللہ سے جوڑا۔

    تاریخ وصال

    آپ کا وصال 21 شعبان المعظم 673ھ میں ہوا۔لیکن ان کے وصال کو لے کر اختلاف پایا جاتا ہے مختلف کتب میں مختلف تاریخ وصال درج ہیں۔ کسی میں 590ھ کسی میں 669ھ، 670ھ لکھا ہے۔ مگر مستند تواریخ میں حضرت شہباز قلندرعثمان مروندی کا سنہ وصال 673ھ ہے۔

    چوں رفتہ سری جفاں آں شیخ کو زہدہ آل و پاک نام است
    از ھاتف غیبت شنید ند عثمان بہ دروازہ امام است

    آپ کے روضے کے دروازے پر یہ قطعہ وفات درج ہے جس کے اعداد نکالے جائیں تو بھی وصال کا سال 673 ہی بنتا ہے، لہذا اسی تاریخ کو مستند تصور کیا جاتا ہے۔ ہرسال 18 سے 21شعبان کو آپ کا عرس منعقد کیا جاتا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں زائرین شریک ہوتے ہیں۔

    روضہ مبارک

    لعل قلندر کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ عمارت کاشی کی سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں اس کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گزکے قریب ہے۔

    فیروز شاہ کی حکومت کے زمانے میں ملک رکن الدین عرف اختار الدین والی سیوستان نے آپ کا روضہ تعمیر کروایا۔ اس کے بعد 993ھ میں ترخانی خاندان کے آخری بادشاہ مرزا جانی بیگ ترخان نے آپ کے روضہ کی توسیع و ترمیم کرائی۔ اس کے بعد 1009ھ میں مرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے مرزا غازی بیگ نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اس میں دوبارہ تر میم کرائی۔موجودہ دور میں بھی روضے کے اطراف میں تعمیر و ترقی کا کام جاری ہے۔

    مزارپردھماکا

    دو سال قبل 16 فروری، 2017ء کو شام کے وقت آپ کے مزار کے احاطے میں ایک خود کش دھماکا ہوا تھا۔ اس حملے میں 123 سے زیادہ افراد ہلاک اور 550 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔

    دھماکہ عین اس وقت ہوا تھا جب مزار میں دھمال ڈالی جارہی تھی، جاں بحق ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

    دھماکے کے باوجود بھی مزار اور صاحبِ مزار سے لوگوں کی عقیدت کسی طور کم نہ ہوسکی اور آنے والے سالوں میں یہاں رش کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا جس سے زائرین کے عقیدے کومزید تقویت ملتی ہے۔

    تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
    من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

  • ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن آہنی عزم کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ 12 فروری 1809 کو امریکا میں ایک جوتے بنانے والے شخص کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر نکلا۔

    ابراہم لنکن نے اپنی زندگی کی ابتدا سے لےکر آخری لمحے تک جاں توڑ محنت کی تھی ، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ امریکی امراء کے لیےجوتے بھی تیار کیے، بطور ڈاکیا اور کلرک انتھک محنت کی، اپنی ذاتی کاوشوں سے قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

    آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ابراہم لنکن ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ سنہ 1856ء میں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور سنہ 1860ء میں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے ۔ ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر آیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، 1864ء میں وہ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ، تاہم 15 اپریل سنہ 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

    اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔

    امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کےبعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔

    ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن نے حبشیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں ، اور بالاخر سنہ 1863 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں آزاد قرارد یا۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کا اپنےجیسے انسان کی غلامی میں ہونا غیر فطری ہے۔

    ان کے کارناموں میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ شامل ہےبلکہ انہوں نے امریکی تاریخ کےمشکل ترین دور یعنی خانہ جنگی کے دور میں مرکز کو سنبھالے رکھا اور خانہ جنگی کو خاتمے کی جانب لے کر گئے، یاد رہے کہ اس جنگ کا شمار تاریخ کے خونی ترین خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔

    دریں اثناء جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئینی اور سیاسی بحرانوں کا بھی سامنا کیا اور مدبرانہ انداز میں ان کا حل نکالا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت کے سبب امریکی یونین ( ریاست ہائے متحدہ امریکا) اپنا وجود برقرار رکھ سکی، غلامی کا خاتمہ ہوا اور وفاق کو استحکام ملا۔

    بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ امریکا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا، جن کی مدد سےامریکا آنے والی چند دہائیوں میں سپر پاور کے رتبے پر فائز ہوگیا، اور آج تک اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

    15 اپریل 1865 ، امریکی صدر ابراہم لنکن کو واشنگٹن میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ایک تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گئے اور امریکہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔

    غالب امکان یہی کیا گیا کہ صدر کا قاتل ایک امریکی اداکار جان بوتھ تھا جس نے یہ حرکت اکیلے ہی کی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش کے تحت کیا گیا تھا جس میں 8 افراد شامل تھے اور صرف صدر ہی نہیں بلکہ نائب صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

    کوہ رشمور پر تراشا گیا ابراہم لنکن کا مجسمہ

    ابراہم لنکن ان چارامریکی صدورمیں شامل ہیں جنہیں اپنے عہدہ صدارت کے دوران قتل کردیا گیاتھا۔ ابراہم لنکن کے قاتل جان ولکس بوتھ نامی کواس قتل کے بارہ روز بعد امریکی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔

    اس سازش میں شریک افراد میں سے چار کو سزائے موت اور دوسرے چار افراد کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں۔لنکن کے قتل کی سازش پر ایک فلم’دی کانسپریٹر‘ کے نام سے بنائی گئی تھی جس کا افتتاحی شو اسی تھیٹر میں منعقد کیا گیا جہاں ابراہم کا قتل ہوا تھا۔ لنکن ان چند افراد میں شامل ہیں جن پر بلاشبہ ہزار سے زائد کتب تحریر کی گئی ہیں۔

  • گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

    معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم “عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں “بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی۔رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔ ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد بھی احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکا ہے۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے۔پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ان کے انتقال کے بیس سال بعد رُشدی کو ستاره ا متيا ز کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طورپرآیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

    انہوں نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت شریف النفس انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

    آپ کی تدفین کراچی میں ہی کی گئی۔احمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی اپنے فن کے سبب عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

  • خلاؤں میں نئےجہاں تلاشنے والے اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی برسی

    خلاؤں میں نئےجہاں تلاشنے والے اسٹیفن ہاکنگ کی پہلی برسی

    شہرہ آفاق سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کو آج ہم سے جدا ہوئے ایک برس بیت گیا، طبیعات کے میدان میں ان کی تھیوریز کو انقلابی حیثیت حاصل ہے۔

    سٹیفن ولیم ہاکنگ ۸ جنوری ۱۹۴۲ کو فرینک ہاکنگ اور آئزوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا ۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ تین سو سال قبل مشہورِز مانہ ماہرِ طبیعات “گلیلیو گلیلی “کی وفات ہوئی تھی ۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تحقیق اور قوانین سے کائنات کے سر بستہ راز وں کے پردے چاک کرنے کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔

    برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ ایک طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔ وہ اپنی نوجوانی میں ہی ایک نہایت نایاب مرض کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    اکیس برس کی عمر میں ان پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بے بسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتے تھے ۔

    خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    ان کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکیں گے؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اس بالشت بھر کے انسان نے جس کی کل کائنات ایک ویل چیئر اور اس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین تھی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔

    اس کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ “زمان و مکاں” اور “ٹائم ٹریول “کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے،اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے ہیں۔

    عصر حاضر کا یہ مشہور سائنسداں 76 سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا ۔ طبیعات کے میدان میں انقلابی نظریات پیش کرنے والے ہاکنگ کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی ہولناکی کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ کئی بار دنیا کو اس سے خبردار کر چکے تھے۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کی ایک تحقیق کے مطابق زمین سے قریب سیارہ زہرہ (وینس) پر ساڑھے 4 کھرب سال قبل پانی ہوا کرتا تھا۔ مگر اس سیارے کا درجہ حرارت اس قدر گرم ہوگیا کہ اب یہ سیارہ ناقابل رہائش اور گرمی کے تپتے گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    ہاکنگ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے موسمیاتی تغیرات کو روکنے کے لیے کام نہ کیا تو بہت جلد ہماری زمین بھی وینس کی طرح ہوجائے گی جس پر زندگی کا وجود ناممکن ہوجائے گا۔

    وہ کہتے تھے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کلائمٹ چینج صرف ایک تصور ہے انہیں زہرہ سیارے پر بھیجا جائے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ کس طرح سیارہ زہرہ ایک آتش فشانی گولے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ’اس سفر کے تمام اخراجات میں اٹھاؤں گا‘۔

    یاد رہے کہ زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے مختلف مشنز کے مطابق زہرہ کی سطح پر متحرک آتش فشاں ہیں جن سے لاوا ابلتا رہتا ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انسان اب اس زمین پر صرف اگلے 100 برس تک رہ سکیں گے۔ اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ وقت آجائے جسے مختلف مذاہب میں روز قیامت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ اگر انسان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ 100 سال مکمل ہونے سے قبل زمین کو چھوڑ کر کوئی اور سیارہ ڈھونڈ لیں جہاں وہ رہائش اختیار کرسکتے ہوں۔

    اسٹیفن ہاکنگ اس کی وجہ کلائمٹ چینج اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف وبائی امراض کا پھیلاؤ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، دنیا کے مختلف حصوں میں کیمیائی حملے، مستقبل قریب میں ہونے والی ایٹمی جنگوں، اور خلا سے آنے والے سیارچوں یا بڑی جسامت کے شہاب ثاقب کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ قرار دیتے تھے۔

    ہاکنگ کو امریکی صدر ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں سے بھی اختلاف تھا اور ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے یہ اقدام دنیا کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔

  • میڈا عشق وی توُ۔۔ میڈا یار وی توُ

    میڈا عشق وی توُ۔۔ میڈا یار وی توُ

    معروف لوک گلوکار پٹھانے خان کی کی آج انیس ویں برسی منائی جارہی ہے، آپ 9 مارچ 2000 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ، لیکن اپنے عارفانہ کلام میں آج بھی زندہ ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکار پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔پٹھانے خان سنہ 1926کو تمبو والی بستی کوٹ ادو میں پیدا ہوئے۔

    انہیں غزل، کافی، لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا، پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا اور خواجہ غلام فرید ، بابا بلھے شاہ ، مہر علی شاہ سمیت کئی شاعروں کے عارفانہ کلام کو گایا، جس پر حکومت نے اس نامور گلوکار کو 1979 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔

    پٹھانے خان کا مشہور و معروف صوفیانہ کلام ’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ قارئین کی نذر

    پٹھانے خان نے 79 مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی لوک گلوکار کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے۔ پٹھانے خان کی آواز میں درد کے ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی اور اسی لیے ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔

    ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں، الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔

    ان کا ایک اور شاہکار کلام ’’الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو‘‘ قارئین کے ذوقِ سماعت کے لیے

    اس کے علاوہ جندڑی لئی تاں یار سجن، کدی موڑ مہاراں تے ول آوطناں، آ مل آج کل سوہنا سائیں، وجے اللہ والی تار، کیا حال سناواں، میرا رنجھنا میں کوئی ہور، اور دیگر ان کے مشہور گیتوں میں شامل ہیں۔

    پٹھانے خان 74سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد سنہ 2000میں انتقال کرگئے ۔ان کے فن کے سحر میں مبتلا مداحوں نے کوٹ ادو کے تاریخی بازار کو ان کے نام سے منسوب کر دیا اور اب وہ پٹھانے خان بازار کہلاتا ہے۔

    مرحوم کی برسی کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پٹھانے کی فن لوک موسیقی کیلئے نمایاں خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔