Tag: death anniversary

  • شہاب نامہ کے خالق’ قدرت اللہ شہاب‘ کو گزرے 32 برس بیت گئے

    شہاب نامہ کے خالق’ قدرت اللہ شہاب‘ کو گزرے 32 برس بیت گئے

    اسلام آباد: پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب کا آج بتیسواں یوم وفات ہے۔ قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986 کو انتقال کر گئے تھے۔

    قدرت اللہ شہاب 26 فروری1917 کو متحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔

    ابتدا میں قدرت اللہ شہاب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سر انجام دیں۔ سنہ 1943 میں بنگال میں متعین ہوگئے۔

    قیام پاکستان کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھراسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔

    پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔

    اس سے قبل پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل قدرت اللہ شہاب کی کاوشوں سے ہی عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلا کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔

    شہاب نامہ

    شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔

    اسے حقیقی طور پر پاکستان کے ابتدائی دنوں کی ایک تاریخ کہا جاسکتا ہے، تاہم اس کتاب کے آخری 2 ابواب نے قدرت اللہ کی شخصیت پر بے شمار سوالات کھڑے کردیے۔

    مذکورہ ابواب میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کئی برس تک ایک خفیہ شخصیت کی جانب سے ہدایات موصول ہوتی رہیں۔ اس شخصیت کو انہوں نے ’نائنٹی‘ کے نام سے پکارا ہے۔

    ان کے مطابق ایوان صدر میں اہم فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی خفیہ روحانی قوت تھی جو ان سے ملک کے مفاد میں بہتر کام کرواتی، جبکہ ایسا کام جس سے ملک کے مفاد کو خطرہ ہوتا اور مستقبل میں اس کے بدترین اثرات رونما ہوسکتے تھے، وہ رکوانے کی ہدایت دیتی۔

    اس باب میں انہوں نے مختلف روحانی شخصیات سے اپنے خصوصی تعلق اور رابطوں کو بھی بیان کیا ہے۔
    بقول ممتاز مفتی، ’ساری کتاب ایک ذہین، عقل مند، متوازن شخص کی روئیداد تھی، جس نے آخری باب میں ایک دم درویش بن کر، مصلہ بچھا کر تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر اللہ اللہ کرنا شروع کردیا اور خلق خدا کو اللہ اللہ کرنے کی تلقین شروع کردی‘۔

    اس وقت مذکورہ ابواب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ یہ باب قدرت اللہ شہاب نے نہیں لکھا بلکہ ان کے حواریوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کردیا ہے۔

    بہرحال اس کے بعد ممتاز مفتی میدان میں آئے اور انہوں نے قدرت اللہ کی شخصیت کے اس پہلو کی وضاحت کرنے کے لیے الکھ نگری لکھ ڈالی۔ الکھ نگری ان کی خود نوشت سوانح حیات ’علی پور کا ایلی‘ کا دوسرا حصہ ہے تاہم یہ صرف قدرت اللہ شہاب کی شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔

    بقول خود ممتاز مفتی کے، اگر قدرت اللہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں ’نائنٹی‘ کا باب شامل نہ کرتے تو وہ کبھی یہ کتاب نہ لکھتے۔

    ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ شہاب نے اس کتاب میں اپنی شخصیت کا راز کھول دیا اور اس کے لیے بھی اسے یقیناً حکم دیا گیا ہوگا۔ اپنی کتاب الکھ نگری میں وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ قدرت اللہ سے ملے بھی نہیں تھے اس وقت سے وہ ان کی زندگی پر اثر انداز ہورہے تھے۔

    اس کے بعد وہ قدرت اللہ کی شخصیت کے پراسرار اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بہرحال، شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی بیورو کریٹ کی یاداشتوں پر مبنی یہ مشہورترین تصنیف ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986 کو اسلام آباد میں وفات پائی اوراسلام آباد کے سیکٹر ایچ 8 کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔

  • استاد اسد امانت علی کو مداحوں سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے

    استاد اسد امانت علی کو مداحوں سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے

    کراچی: کلاسیکی راگوں کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی کو ہم سے بچھڑے گیارہ برس بیت گئے۔

    اسد امانت علی 8 اپریل 2007 کو لندن میں دار فانی سے کوچ کرگئے تھے، اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے، اسد امانت علی استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔

    دس برس کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والی اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر رج کیا، انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے مشہور گیت اور غزلیں گاکر مشہور ہوگئے، اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔

    انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار‘ سے ملی، اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے ان کی شاہکار غزلیں ہیں، انہوں نے بے شمار پاکستانی فلموں کے لیے گیت گائے، ان کے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بے حد پسند کیا جاتا تھا۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، ایوارڈ کے فوری کے بعد ہی ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور وہ علاج کے لیے لندن چلے گئے، 8 اپریل 2007 کو دل کے دورے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

    اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں لیکن ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھولتی ہیں، ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اتفاق رائے کا عدم احترام اور آئین سے کھلواڑ سیاسی تباہی ہوگا: آصف زرداری

    اتفاق رائے کا عدم احترام اور آئین سے کھلواڑ سیاسی تباہی ہوگا: آصف زرداری

    کراچی: سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تبدیلی ووٹوں سے آنی چاہیے گولی سے نہیں، اتفاق رائے کا عدم احترام اور آئین سے کھلواڑ سیاسی تباہی ہوگا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی کے موقع پر اپنے جاری کردہ پیغام میں کیا، آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، ہم ووٹوں کے ذریعے تبدیلی کو مانتے ہیں، گولی کی سیاست کو ہمیشہ رد کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پی پی حکومت نے آئین میں 18 ویں ترمیم متفقہ طور پر کی، یہ یاد رکھا جائے کہ جب ترمیم کی جارہی تھی تو تمام صوبوں کا اتفاق موجود تھا، ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں، تمام صوبوں کے اتفاق رائے سے ترمیم کی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی، سندھ حکومت کا 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان

    سابق صدر کا کہنا تھا کہ شہید بھٹو کا بڑا کارنامہ عوام کو مایوسی کے عالم میں امید دلانا تھا، بھٹو نے اندھیروں میں اپنےخون سے راستے منور کیے، شہید ذوالفقار علی بھٹو امید کے کرن تھے اور رہیں گے، انہوں نے ملک کو متفقہ آئین دیا۔

    خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 39 برسی 4 اپریل کو منائی جائے گی، سندھ حکومت کی جانب سے برسی کے موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکیوں کو ذاتی دوست بنانا نواز شریف کی ترجیح رہی ہے، آصف زرداری

    یاد رہے کہ شہید بھٹو کی 39 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عوام اور کارکنان شرکت کریں گے۔

    ذولفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی، پنجاب سے جیالوں کے قافلے روانہ

    پیپلزپارٹی کی بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی کل منائی جائے گی جس کے لیے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع سے جیالوں کے قافلے ریلوے اسٹیشن سے گڑھی خدا بخش  روانہ ہوگئے ہیں، برسی سے متعلق پیپلز پارٹی کی مرکزی تقریب گھڑی خدا بخش میں ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی برسی، سندھ حکومت کا 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی، سندھ حکومت کا 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر سندھ حکومت نے 4 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جائے گی، سندھ حکومت کی جانب سے برسی کے موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عوام اور کارکنان شرکت کریں گے۔

    مزید پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں‌ دی گئی؟ مقدمہ تھا کیا؟

    واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو 1963 سے 1966 تک ملک کے پہلے فوجی صدر جنرل ایوب کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، جبکہ 1971 سے 1973 تک ملک کے پہلے سویلین صدر اور 1973 سے 5 جولائی 1977 تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔

    پانچ جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا، ان پر ایک شخص کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، جس میں 18 مارچ 1978 کو ان کو ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی۔

    چھ فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے بھی سزا کو برقرار رکھا اور 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گورنر سندھ کے انتقال کو ایک برس بیت گیا

    گورنر سندھ کے انتقال کو ایک برس بیت گیا

    کراچی: سندھ کے اکتسویں گورنر جسٹس سعید الزماں صدیقی کے انتقال کو ایک برس گزر گیا، وہ گزشتہ برس 11 جنوری 2017 کو طویل علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس سعید الزماں صدیقی نے گورنر سندھ کے عہدے کا حلف 11 نومبر 2016 کو اٹھایا تاہم طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرسکے تھے۔

    سعید الزماں صدیقی کو ایک ماہ اسپتال میں داخل رہنے کے بعد گھر منتقل کیا گیا تھا مگر 11 جنوری کو اُن کے سینے میں درد اٹھا اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا تو انہیں کلفٹن میں واقع نجی اسپتال منتقل کیا گیا۔

    اسپتال منتقل کیے جانے کے بعد ڈاکٹرز نے سابق گورنر کو بچانے کی سر توڑ کوشش کیں مگر وہ جانبر نہ ہوسکے، اُن کو سرکاری اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا اور تدفین کراچی کے علاقے گزری قبرستان میں ہوئی۔

    سعید الزماں صدیقی کا نماز جنازہ مفتی تقی عثمانی نے پولو گراؤنڈ میں پڑھایا

    جسٹس سعید الزماں صدیقی 1 دسمبر 1938ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے،انہوں نے ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کی،سال 1954ء میں انہوں نے جامعہ ڈھاکا سے انجنیرنگ میں گریجویشن کیا، جامعہ کراچی سے انہوں نے 1958ء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔

    آپ 5 نومبر 1990ء سے21 نومبر 1992ء تک چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے عہدے پرفائض ہوئے اور اپنے امور بخوبی سرانجام دیے بعد ازاں یکم جولائی 1999ء کو پاکستان کے 15 ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کی مدت 26 جنوری 2000ء کو ختم ہوئی۔

    انہوں نے سال 2008 میں سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر صدارتی انتخاب بھی لڑا جس میں آپ کو شکست کا سامنا رہا، آپ نے مشرف دور میں پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا جس کی پاداش میں نوکری سے برطرف کرتے ہوئے آپ کو اہل خانہ سمیت نظر بند کیا گیا۔

    واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو 9 نومبر کو عشرت العباد کی معزولی کے بعد گورنر کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا، عشرت العباد کو  طویل عرصے تک پاکستان کے پہلے اور ایشیا کےدوسرے گورنر رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔

    موجودہ گورنر سندھ محمد زبیر نے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی پہلی برسی پر اُن کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ سعیدالزمان صدیقی کی بحیثیت جج اور گورنر  خدمات  یادرکھی جائیں گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

    انشا جی اٹھو اب کوچ کرو

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہوں۔ ان ہی میں سے ایک معروف ادیب، شاعر، مترجم و سفارت کار ابن انشا بھی شامل ہیں۔ اردو ادب کے ہر فن مولا ابن انشا کی آج 40 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927 کو پیدا ہونے والے ابن انشا کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیو پاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کیے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنے والے ادیب و شاعر ابن انشا نہ صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنے والی تمام خوبیاں و اصناف موجود تھیں۔

    انشا جی نے اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تاروں کو چھولیتے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشا کے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا تھا، ’بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے‘۔

    ابن انشا کی تصنیفات میں چاند نگر، دل وحشی، اس بستی کے اک کوچے میں، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہیں تو چین کو چلیے، نگری نگری پھرا مسافر، خمار گندم ، اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے شامل ہیں۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ کے خالق بھی ابن انشا تھے۔

    ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ 11 جنوری 1978 کو انشا جی دنیا سے کو چ کر گئے۔ اردو ادب کا یہ عظیم ستارہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی 17ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی 17ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 17ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق برصغیر کی نامورگلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے 17برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے صدا بہار گانوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں،ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار بے بی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘، ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔

    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیوبا: فیڈل کاسترو کی پہلی برسی منائی جارہی ہے

    کیوبا: فیڈل کاسترو کی پہلی برسی منائی جارہی ہے

    ہوانا: کیوبا پرپانچ دہائیوں تک راج کرنے والے فیڈل کاسترو کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے‘ اس موقع پر کیوبا میں تقاریب کا سلسلہ جاری ہے‘ جس میں آنجہانی سابق صدرکو خراجِ تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

    دنیا بھرمیں انقلابی جدوجہد کی نمایاں علامت سمجھے جانے والے کیوبا کے سابق صدراور کیوبن کمیونسٹ پارٹی کے سابق فیڈل کاسترو90 برس کی عمر میں گزشتہ برس ہوانا میں انتقال کرگئے تھے۔

    castro

    فیڈل کاسترونے1959 میں کیوبن انقلاب کی قیادت کی۔بتیس سال کی عمرمیں صدارت سنبھالنے والے فیڈل کاسترولاطینی امریکا کے سب سے کم عمررہنما تھے۔

    فیڈل کاستروجاگیرداری نظام کے خلاف تھے انہوں نےسب سے پہلے اپنی سینکڑوں ایکڑزمین کسانوں میں تقسیم کردی۔کاسترو50 برس تک کیوبن انقلاب کی سربراہی کرتے رہے۔وہ زندگی کی آخری سانس تک امریکی پالیسیوں کے نا قد رہے۔

    کاسترو کےمخالف بھی ان کی جدوجہد وایمانداری کے معترف رہے‘ فیڈل کاستروکمیونسٹ پارٹی کے لیے مضامین بھی لکھاکرتے تھے۔

    castro-13

    یاد رہے کہ 2006 میں صحت سے جڑے مسائل کی وجہ سے کاسترو نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ملک کی باگ ڈور اپنے بھائی راؤل کاسترو کے حوالے کر دی تھی۔ فیڈل کاسترو کو 21ویں صدی کی عالمی سیاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔

    سوشلسٹ انقلابی رہنما کے اقتدار کو ختم کرنے کی کوشش میں امریکہ کے دس صدر آئے اور چلے گئے، فیدل کاسترو پچاس برس تک امریکہ کے لیے درد سر بنے رہے۔

    castro-3

    فیدل کاسترو آخری رسومات نو روزہ قومی سوگ کے بعد ادا کی گئیں، جن کی سربراہی کیوبا کے صدر اور فیڈل کے بھائی راول کاسترو نے کی، آخری رسومات میں ہزاروں افراد کے ساتھ دنیا بھر سے آنے والے رہنماؤں نے شرکت کی تھی، آخری رسومات میں شریک ہونے والے افرادآہوں اور سسکیوں میں ہم آواز تھے کہ ” کاسترو‘ ان کا باپ تھا‘‘۔

  • برف پوش پہاڑوں کو شکست دینے والے حسن سدپارہ کی پہلی برسی

    برف پوش پہاڑوں کو شکست دینے والے حسن سدپارہ کی پہلی برسی

    راولپنڈی: دنیا کی بلند ترین اور قاتل برفانی چوٹیوں کو اپنے عزم و ہمت سے شکست دینے والے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما حسن سد پارہ کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے۔

    کوہ پیمائی کی دنیا میں تین حیرت انگیز عالمی ریکارڈ بنانے والے حسن سدپارہ گزشتہ سال خون کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد موت سے شکست کھا گئے۔

    حسن سدپارہ کے عالمی ریکارڈ

    hussain-post-2

    حسن سد پارہ کا منفرد اعزاز دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو بغیر مصنوعی آکسیجن کے سر کرنا تھا، وہ اسکردو میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی کوہ پیمائی کا باقاعدہ آغاز سنہ 1999 میں نانگا پربت کو سر کر کے کیا تھا۔

    hussain-post-1

    سنہ 2004 میں انہوں نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کی۔

    hussain-post-3

    حسن سد پارہ پہلے پاکستانی ہیں‘ جنہوں نے 8 ہزار میٹر سے بلند 6 چوٹیوں کو سر کیا ہے ۔جن میں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو سمیت براڈ پیک، گشابرم ون، ٹو اور نانگا پربت شامل ہیں۔

    hassan-1

    حسن سدپارا گزشتہ سال سرطان کے موضی مرض سے لڑنے کے بعد تریپن برس کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 33 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔