Tag: death anniversary

  • صحرا کی بلبل کو خاموش ہوئے چار برس بیت گئے

    صحرا کی بلبل کو خاموش ہوئے چار برس بیت گئے

     خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف لوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑےچار برس بیت گئے ‘ ان کے مداح آج بھی ان کے بکھیرے سروں پر سر دھن رہے ہیں ۔

    تفصیلات کے مطابق تقسیم ہند کے بعد 1947 میں پیدا ہونے والی اور خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ ریشماں نے 12 برس کی کمر عمر میں ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔

    بعد ازاں انہیں فوک سنگر کے طور پر باقاعدہ پہچان ملی، ریشماں نے اپنے کیرئیر ویسے تو بہت سے گانے گائے تاہم اُن کے مشہور ہونے والے گانوں میں ’’چار دنا دا پیار او ربا، اکھیوں کے آس پاس، بانئیں اور لگ دا دل میرا‘‘ شامل ہیں۔

    غریب اور خانہ بدوش گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گلوکارہ باقاعدہ تعلیم خاصل نہ کرسکیں تاہم وہ بہت کم عمری سے ہی صوفیاء کرام کے مزاروں پر منقبت پڑھتی تھیں۔ ریشماں کو پذیرائی اُس وقت ملی جب انہوں نے معروف صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر ’’ہو لعل میری‘‘ قوالی پیش کی۔ علاوہ ازیں ان کے کئی گانے بھارتی فلموں میں بھی آئے۔

    ریڈیو پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد گلوکارہ کو ٹی وی میں آنے کا موقع ملا یہاں بھی انہوں نے انتھک محنت اور لگن سے پرفارم کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اُن کی پذیرائی اور کلاموں کو دیکھتے ہوئے بھارت کے سابق وزیر اعظم نے ریشماں کو بھارت آنے کی خصوصی دعوت دی تھی۔

    ریشماں کو 1980 میں طبیعت ناساز ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم رپوٹس آنے پر انہیں گلے کے کینسر کا انکشاف سامنے آیا۔ غربت کے باعث گلوکارہ اپنا مناسب علاج نہ کرواسکیں تاہم سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں بھرپور امداد فراہم کی۔

    طویل علالت کے بعد گلوکارہ 3 نومبر 2013 کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئی، اُن کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور ’’بلبلِ صحرا‘‘ کا خطاب عطاء کیا۔


    ‘ریشماں کے یادگارگانے’



    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سرینگر: برہان وانی کی برسی پر احتجاج روکنے کے لیے بھارتی فوج کا کریک ڈاؤن

    سرینگر: برہان وانی کی برسی پر احتجاج روکنے کے لیے بھارتی فوج کا کریک ڈاؤن

    سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں نوجوان حریت لیڈر برہان وانی کی برسی پر احتجاج کو دبانے کے لیے بھارتی فورسز نے کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ مختلف علاقوں میں چھاپے اور گرفتاریاں کا عمل شروع ہوگیا۔ برہان وانی کی برسی پر کل مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک آزادی کشمیر کو اپنے لہو سے نئی زندگی دینے والے برہان وانی کی برسی پر بھارتی فورسز بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا۔

    برسی سے ایک دن قبل بھارتی فورسز نے مختلف علاقوں میں چھاپہ مار کاروائیاں کرتے ہوئے متعدد کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ وادی میں انٹرنیٹ و موبائل سروس بھی بند کردی گئی جس کے بعد مقبوضہ وادی جیل میں تبدیل ہوگئی۔

    وادی میں احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی فوج کے 21 ہزار اضافی اہلکار تعینات کردیے گئے۔

    حریت رہنماؤں کی اپیل پر کل برہان وانی کی برسی پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوگی۔

    یاد رہے کہ بھارتی فوج نے گزشتہ سال کشمیری حریت پسند نوجوان برہان وانی اور ان کے 3 ساتھیوں کو شہید کردیا تھا۔ تینوں حریت پسند بھارتی فوج کو کئی سالوں سے مطلوب تھے جن کی گرفتاری کے لیے بھارتی فوج نے کئی بار کارروائیاں کیں تھیں تاہم ہر بار وہ ناکام رہے۔

    برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی میں نئے سرے سے چنگاری بھڑک اٹھی اور لاکھوں کشمیری بھارتی بربریت کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: اللہ کی رضا بیٹے سے زیادہ اہم ہے، والد برہان وانی

    ہزاروں نوجوان جن میں طالبات بھی شامل تھیں نہتی حالت میں بھارتی فوج کے سامنےچٹان کی مانند کھڑی ہوگئیں۔ آزادی کے حصول کے لیے کشمیریوں کیے اس جذبہ کو دیکھتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ہ اے ایس دلت نے بھی اعتراف کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ماضی میں ایسی نہیں تھی، نئی نسل ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے۔

    بھارتی آرمی چیف نے اپنی حکومت کو کشمیریوں سے مذاکرات کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔


  • فخرِ پاکستان عالم چنہ کو گزرے 19 بر س بیت گئے

    فخرِ پاکستان عالم چنہ کو گزرے 19 بر س بیت گئے

    سیہون: دنیا کے سب سے طویل القامت شخص کا اعزاز رکھنے والے عالم چنہ کی آج 19ویں برسی ہے ‘ وہ دو جولائی 1998 کو نیویارک میں طویل علالت کے سبب انتقال کرگئے تھے۔

    سیہون شریف سے کچھ دور بچل چنہ گاؤں میں عالم چنہ 1953 میں پیدا ہوئے تھے، جہاں سے وہ صرف پرائمری تعلیم حاصل کرسکے۔ عالم چنہ کی عمر 10برس تھی جب ان کا قد تیزی سے بڑھنا شروع ہوا۔

    جب وہ 16 سال کی عمرکو پہنچے تو ان کا قد اور تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا۔ یہاں تک کہ ان کے سونے کے لیے چارپائی کے بجائے ایک لکڑی کا تخت بنوایا گیا جس پر وہ سوتے تھے۔

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عالم چنہ کے ایک رشتے دار ‘ جو ان کا دوست بھی تھا ۔ اس نے پاکستان میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے دفتر سے رابطہ کیا جس نے عالم چنہ کی معلومات لے کر لندن بھیج دیں اب عالم چنہ کا قد 7 فٹ 8 انچ تک پہنچ چکا تھا اور وہ 16 میٹر والی شلوار قمیض بنواتے تھے اور پاؤں کے لیے 22 انچ کا جوتا آرڈر دے کر تیار کرواتے تھے ۔

    طویل القامت ہونے کے سبب نہ صرف ان کا خرچہ بڑھ گیا بلکہ لوگ بھی انہیں بڑی توجہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ سفر کرنے میں بھی دشواری ہوتی تھی۔ جب انہیں سیہون شریف کے مزار پر نوکری ملی تھی تو اس کی تنخواہ صرف 2500 روپے تھی۔

    گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ


    سنہ 1981 میں عالم چنہ کو دنیا کا لمبا ترین شخص قرار دے کر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیاجس کی وجہ سے وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئےاور دنیا کے مختلف ملکوں سے انہیں ا پنے ہاں آنے کی دعوتیں ملنے لگیں۔

    سنہ 1985 میں بنگلہ دیش کے ایک شخص کو دنیا کا لمبا ترین آدمی قرار دے دیا گیا۔ تاہم اس کے انتقال کے بعد پھر دوبارہ عالم چنہ ایک بار پھر دنیا کا لمبا ترین آدمی قرار دے دیا گیا۔

    انہوں نے اپنے لمبے قد کے سبب دنیا کے کئی ممالک دیکھےاور انہیں تقریباً 18 سو سے زیادہ ایوارڈز، شیلڈز اور انعامات مل چکے تھے۔ بہت بڑے قد کی وجہ سے وہ اکثر پبلک ٹرانسپورٹ جس میں بس شامل تھی سفر کرتے تھے یا پھر ٹرین میں آتے جاتے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھ کرسابق ملٹری صدر ضیا الحق نے انھیں ایک خصوصی کار کا تحفہ دیا ۔

    پہلی شادی پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک پٹھان خاندان کی لڑکی سے ہوئی تاہم ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکنے کے سبب کچھ عرصے بعد طلاق ہوگئی‘ سنہ 1989 میں ان کی شادی نسیم عرف نصیبو سے ہوگئی جسن کی کوکھ سے ایک بیٹے کی ولادت 14 جولائی 1990 میں ہوئی جس کا نام عابد رکھا گیا۔

    عالم چنہ کو حکومت کی جانب سے ایک خصوصی مکان بنا کے دیا گیا تھا جس کے دروازے کی لمبائی دس فٹ تھی اور جس پلنگ پر وہ سوتے تھے وہ بھی 10 فٹ کا تھا۔

    عالم چنہ کی بیماری


    عالم چنہ کے پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کا وہ بڑا خیال رکھتے تھے اور ان سب کے قد نارمل تھے۔ شادی کے چار سال بعد ایک روڈ حادثے میں اس کی کولہے اور ریڑھ کی ہڈی کو بڑا نقصان ہوا تھا جس کی وجہ سے انھیں چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگی تھی۔

    دنیا کے سب سے طویل القامت شخص گردے کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اورپاکستان میں ڈاکٹروں نے انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا علاج باہر ممالک کے کسی بڑے اسپتال میں کروائیں جہاں پر جدید سہولتیں موجود ہوں۔ اس سلسلے میں عالم چنہ نے حکومت کو علاج کے لیے اپیل کی جسے منظور ہونے میں 6 مہینے لگ گئے اور جب وہ امریکہ کے اسپتال میں پہنچےتودیر ہوچکی تھی۔

    ہائی بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی جب کہ زیر علاج رہتے ہوئےانہیں چار ہارٹ اٹیک ہوئے، بالاخر 2 جولائی 1998 میں نیویارک کے اسپتال میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ ان کی موت سے پاکستان د نیا کے لمبا ترین قد رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ شخص سے محروم ہوگیا۔

    پاکستانی کے اس مایہ ناز شخص کی میت 10 جولائی کو امریکہ سے کراچی لائی گئی جہاں سے ان کے لیئے بنائے گئے خصوصی تابوت کو سڑک کے ذریعے سیہون پہنچایا گیا اور انہیں لعل شہباز قلندر کے احاطے میں بنی مسجد کے برابر میں دفن کیا گیا۔


    عالم چنہ کی نایاب اوریادگار تصاویر


    عالم چنہ کا بیٹا عابد چنہ
    دبئی ایئرپورٹ پر
    پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے
    جاپانی بچے سے ہاتھ ملاتے ہوئے
    گنیز ورلڈ ریکارڈ کے موقع پر
    سیہون کی یادگار تصویر‘ جو شہرت کا سبب بنی

    امریکہ کے دورے پر
    العماات ائیر لائن کے جہاز کے ہمراہ

    فریضۂ حج کی ادائیگی کے موقع پر
  • سکندر صنم کو بچھڑے چار برس گزر گئے

    سکندر صنم کو بچھڑے چار برس گزر گئے

    کراچی: خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف پاکستانی کامیڈین سکندر صنم کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے آج 5 نومبر کو اُن کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔

    غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے سکندر صنم نے گھریلو حالات کے باعث بہت کم عمری میں ایک فیکٹری میں مزدوری شروع کی تاہم بعد ازاں انہیں اپنے اندر چھپی صلاحیتیں دکھیں اور انہوں نے شوبز کا انتخاب کیا۔

    کراچی کے علاقے کھارادر میں 1960ء میں پیدا ہونے والے سکندر صنم نے 1981ء میں اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر آخری ایام تک اُسی سے وابستہ رہے، آپ نے کیرئیر کا آغاز بطور گلوکار کیا تاہم عمر شریف سے دوستی ہونے کے بعد دونوں فنکاروں نے مختلف تقریبات میں اسٹیج کامیڈی کا آغاز کیا۔

    دو مسخروں کی اس جوڑی سے لوگ اتنا محظوظ ہوئے کہ اگر کسی ڈرامے میں کوئی ایک فرد کم ہوتا تو عوام کی دلچسپی اُس میں کم ہی ہوتی۔ سکندر صنم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے فن کی وجہ سے پہچانے جانے لگے۔

    sikandar1

    سکندر صنم کو اُس وقت زیادہ پذیرائی ملی جب انہوں نے بھارتی فلموں کی پیروڈی کو مزاحیہ انداز میں تیار کیا جن میں کھل نائیک، تیرے نام 2، گجنی 2، منا بھائی وغیرہ جیسی فلمیں بنائیں اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔

    دنیا بھر میں غموں کو دور اور اُن میں مسکراہٹیں بانٹنے والا یہ فنکار جگر کے کینسر میں مبتلا ہوا اور 5 نومبر 2012 کو مداحوں کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ گیا۔

    اسٹیج ڈراموں میں آج بھی سکندر صنم کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔

  • شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کی آجآٹھویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔


    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے


    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کو مداحوں سے بچھڑے 38برس بیت گئے

    ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کو مداحوں سے بچھڑے 38برس بیت گئے

    بیسویں صدی کے چند ہی ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کے اشعار اور جملے زبان زد عام ہو ں انہی میں معروف ادیب، شاعر،مترجم و سفارتکار ابن انشا بھی شامل ہیں، ابن انشا کو بچھڑے اڑتیس برس بیت گئے۔

    بھارتی شہر جالندھر کے ایک گاؤں میں 15 جون 1927ء کو پیدا ہونے والے ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ ریڈیوپاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور اس دوران کئی یورپی و ایشیائی ممالک کے دورے کئے۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    انشاء جی نے جہاں اردو نظم ، غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کے تار کو چھولیتے۔

    استاد امانت علی کی گائی ہوئی معروف غزل ( انشا جی اٹھو اب کو چ کرو) کے خالق ابن انشا تھے، ابھی ادب و فن کے متلاشی ان کی صلا حیتوں سے پوری طرح استفادہ بھی نہ کرسکے تھے کہ گیارہ جنوری انیس سو اٹھتر کو انشا جی کو دنیا سے کو چ کرگئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا یومِ وفات آج منایا جارہا ہے

    معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا یومِ وفات آج منایا جارہا ہے

    معروف شاعر اکبر الہ آبادی کا آج یوم وفات منایا جارہا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی 16 نومبر 1846ء کو الٰہ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اکبر حسین تھا اور تخلص اکبر تھا۔

    ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہوگئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں‌وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر منصف مقرر ہوئے، 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہوگئے، 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔

    وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی، انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ ان کے متعدد اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کے سخت خلاف تھے۔ اُن کے کُچھ مشہور شعر جو زبان زد عام ہیں۔ مثلاََ

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ

    جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

    ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

    ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

    وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

    مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا، مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا، اکبر الٰہ آبادی کی تصانیف میں چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر ، گاندھی نامہ، بزمِ اکبر اور گنج پنہاں کے نام سرِفہرست ہیں۔

    آپ کا انتقال 9 ستمبر 1921ء کو الہٰ آباد میں ہوا۔

  • نامورناول نگار قرۃ العین حیدر کو بچھڑے8برس بیت گئے

    نامورناول نگار قرۃ العین حیدر کو بچھڑے8برس بیت گئے

    ادیب، افسانہ نگار، مترجم اور سب سے بڑھ کر ناول نگاری کو نئی جہت سے آشنا کرنے والی قرہ العین حیدر کو بچھڑے آٹھ برس بیت گئے۔

    انیس سو ستائیس میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہو نے والی قرۃ العین حیدر کا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستان آیا لیکن بعد میں انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں شہرت کی بلندیو ں پر پہنچانے والے نا ول "آگ کا دریا” کو اردو ادب میں کلا سیکی حیثیت حا صل ہے۔

    قرۃ العین حیدر نہ صرف ناول نگاری بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔

    ان کے مشہور ناولوں میں میرے بھی صنم خانے، سفینۂ غمِ دل، آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر، گردشِ رنگِ چمن، کارِ جہاں دراز ہے اور چاندنی بیگم شامل ہیں، ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف دکھتا ہے۔

    انہوں نے جدید ناول کو کہانی بیان کرنے کا جو انداز دیا اس نے جدید ناول کو کلاسیکی مقام پر پہنچا دیا۔

  • اپنی جان وطن پر قربان کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا آج یوم شہادت منایا جا رہا ہے

    اپنی جان وطن پر قربان کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا آج یوم شہادت منایا جا رہا ہے

    اپنی جان وطن پر قربان کر کے مثال قائم کرنے والے پائلٹ آفیسر راشد منہاس کا آج 44 واں یوم شہادت منایا جا رہا ہے۔

    پاک فضائیہ کے آفیسر پائلٹ راشد منہاس سترہ فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے، راشد منہاس کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا، انہوں نے جامعہ کراچی سے ملٹری ہسٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔

    راشد منہاس نے تیرہ مارچ 1971 کو پاک فضائیہ میں بطور کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ شمولیت اختیار کی، راشد منہاس شہید ابتداء ہی سے ایوی ایشن کی تاریخ اور ٹیکنالوجی سے متاثر تھے، ان کو مختلف طیاروں اور جنگی جہازوں کے ماڈلز جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔

    راشد منہاس شہید نے اپنی جان اس وقت وطن پر قربان کی جب وہ اپنی پہلی سولو فلائٹ پر روانہ ہو رہے تھے کہ اچانک انکے انسٹرکٹر مطیع الرحمان  طیارے کو رن وے پر روک کر سوار ہوگئے اور طیارے کو بھارت لے جانا چاہا لیکن بیس سالہ راشد منہاس نے دشمن کی اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے انڈین بارڈر سے بتیس میل کے فاصلے پر جہاز گرا دیا اور اس دشمن کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

    راشد منہاس نے اپنی جان دے کر وطن کی عزت کو بچا لیا،  راشد منہاس کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا، کم عمری میں نشان حیدر حاصل کرنے کے باعث انہیں کمسن شہید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

    اٹک میں قائم کامرہ ایئر بیس کو ان کے نام سے منسوب کردیا، قوم کوعظیم سپوت کی قربانی اور کارنامے پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

    راشد منہاس شہید کراچی کے فوجی قبرستان میں آسودہ ء خاک ہیں۔

  • نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر طفیل شہید کی برسی آج منائی جارہی ہے

    نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر طفیل شہید کی برسی آج منائی جارہی ہے

    افواج پاکستان کے بہادر جوانوں نے ملک کیلئے شجاعت کی بے نظیر مثالیں قائم کیں ہیں، سات اگست انیس سو اٹھاون کو جام شہادت نوش کرنے والے میجر طفیل محمد شہید کی برسی آج عقیدت واحترام سے منائی جارہی ہے۔

    پاک فوج کے جوانوں نے جرت اور بہادری کی لاتعداد داستانیں رقم کیں، ایسی ہی ایک داستان رقم کرنے والے میجر طفیل محمد شہید نے 22جولائی1914 میں ہوشیار پور میں آنکھ کھولی، انہوں نے انیس سو تینتالیس میں پنجاب ریجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب وہ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے، وہ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔

    اگست 1958 کی ابتدا میں انہیں چند بھارتی دستوں کا صفایا کرنے کا مشن سونپا گیا جو کہ لکشمی پور میں مورچہ بند تھے، میجر طفیل محمد نے اپنی کارروائی کے لیے ایک منصوبہ بنایا اور 7اگست 1958ء کو دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔

    دشمن نے بھی جوابی کارروائی کی اور مشین گن سے فائرنگ شروع کردی۔ میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنا دیا، جلد ہی دشمن سے دست بدست مقابلہ شروع ہوگیا۔ یہ مقابلہ اس وقت تک جاری رہا جب تکٹڈی دل بھارتی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا،  دشمن اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ گیا، میجر طفیل محمد شہید نے گھمسان کی جنگ کے بعد اسی دن ملک کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے کرشہادت کا درجہ حاصل کیا۔

    میجر طفیل محمد شہید کی لازوال قربانی کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا۔

    میجر طفیل محمد کو فاتح لکشمی پور بھی کہا جاتا ہے ۔ 5 نومبر 1959ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والے ایک خاص دربار میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔ میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔