Tag: DEATH CEREMONY

  • ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے

    ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے، جب ہم نہیں ہوں گے

    لازوال گیتوں کے شاعر سرور بارہ بنکوی کی انتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے سدابہار نغمات آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 30 جنوری 1919 کو بارہ بنکی، اتر پردیش میں پیدا ہونے والے باکمال شاعر نے پاکستانی انڈسٹری کو خوب صورت گیتوں‌ سے نوازا۔

    ان کا شمار اردو کے ممتاز شعرا اور مستند فلم سازوں میں‌ ہوتا تھا، انھوں نے مشہور پاکستانی فلم "آخری اسٹیشن” بنائی۔

    سروربارہ بنکوی نے شائقین فن کو تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے، ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے، کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں جیسے لازوال گیت تخلیق کیے۔

    اس منفرد شاعر کے ہاں جذبات کا اظہار اپنے اوج پر دکھائی دیتا، الفاظ موتیوں کی طرح پروے جاتے، خیالات نغمگی کے حامل ہوتے اور یوں ان  کے مصرعے دلوں میں گھر کر جاتے۔

    ان کا اصل نام سعید الرحمن تھا، انھوں نےعملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھ کر کیا، بعد ازاں فلم ساز ی اور ہدایت کار ی کے میدان میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔ 3 اپریل 1980 کو ان کا ڈھاکا، بنگلا دیش میں انتقال ہوا۔

  • لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لیجنڈ اداکار محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    لاہور: مفرد انداز اور مخصوص لب ولہجے کے مالک اداکار محمد علی کی 13ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

    محمد علی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا، محمدعلی کو فلمساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم چراغ جلتا رہا میں بطور ہیرو کاسٹ کیا، اس زمانہ میں لالہ سدھیر، سنتوش کمار، درپن اور رحمٰن کے ستارے عروج پر تھے۔

    فلم بینوں کی اکثریت نے محمدعلی کو پہلی ہی فلم میں بطور ہیرومقبولیت کی سند بخشی، محمدعلی کے ساتھ زیبا بطورہیروئن آئیں تو یہ جوڑی نہ صرف فلمی برانڈبن گئی بلکہ فلم کی کامیابی کی ضمانت بھی بنی۔

    اداکارمحمد علی 10 نومبر 1938ء کو ہندوستان کے شہر رامپور کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ محمد علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے کیا اور 1962ء میں ان کی پہلی فلم ‘چراغ جلتارہا’ ریلیز کی گئی جبکہ محمد علی کی اور مقبول فلم ‘شرارت’ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔

    انہوں نے چار دہائیوں تک سلوراسکرین پر حکمرانی کرکے کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا، محمد علی نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔ منفرد انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ پر مکمل دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری نے محمد علی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    محمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان‘خاموش رہو‘ ٹیپو سلطان‘ جیسے جانتے نہیں‘آ گ‘ گھرانہ‘ میرا گھر میری جنت‘ بہاریں پھر بھی آئیں گی‘ محبت‘ تم ملے پیار ملا اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیں۔

    محمد علی نے جس اداکارہ کے ساتھ بھی کام کیا ان کی جوڑی خوب سجی، محمد علی کا شمار ورسٹائل اداکاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی کریکٹر رول اور منفی رول بھی بڑی کامیابی سے پرفارم کئے۔

    انیس مارچ سنہ دوہزارچھ کو محمدعلی لاہور میں وفات پاگئے، محمدعلی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری پر اپنی اداکاری کے گہرے نقوش چھوڑے۔

  • سریلی گلوکارہ ملکہ پکھراج کو مداحوں سے بچھڑے 15 برس بیت گئے

    سریلی گلوکارہ ملکہ پکھراج کو مداحوں سے بچھڑے 15 برس بیت گئے

    لاہور: برصغیر کی لیجنڈ غزل گائیکہ ملکہ پکھراج کو مداحوں سے بچھڑے پندرہ برس بیت گئے۔

    سریلی گلوکارہ ملکہ پکھراج جموں کشمیر میں پیدا ہوئیں، قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئیں اور لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔

    ملکہ پکھراج کو ٹھمری، غزل، بھجن اور ڈوگری لوک گیتوں پر عبور حاصل تھا، انہیں حفیظ جالندھری کا مشہور کلام ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ گا کر بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔

    انہیں راجہ ہری سنگھ کا دربارہنگامی طورپراس لیے چھوڑنا پڑا کہ ان پرراجہ کو زہردے کرمارنے کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ وہ جموں سے پہلے دہلی گئیں اورپھر پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئیں جہاں انہیں پکھراج جموں والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    لاہور میں ان کی شادی شبیر حسین شاہ سے ہوئی جنہوں نے پاکستان ٹی وی کا مشہور اردو ڈرامہ سیریل جھوک سیال بنایا تھا۔

    ملکہ پکھراج نے حفیظ جالندھری کی بہت سی غزلیں اور نظمیں گائیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئیں، خاص طور پر: ’ابھی تو میں جوان ہوں‘۔ ریڈیو پاکستان کے موسیقی کے پروڈیوسر کالے خان نے زیادہ تر ان کے لیے دھنیں بنائیں۔

    چھوٹی بیٹی مشہور گلوکارہ طاہرہ سید ہیں جو اپنی والدہ کی طرح ڈوگری اور پہاڑی انداز کی گائیکی میں مہارت رکھتی ہیں۔

    ملکہ پکھراج کا تعلق جموں سے تھا اوروہ انیس سو چودہ میں پیدا ہوئیں اورگیارہ فروری دو ہزارچارکو یہ عظیم مغنیہ جہان فانی سے کو چ کرگئیں۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    لاہور: اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعر اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی چھتیس ویں برسی عقیدت واحترام کے ساتھ آج منائی جارہی ہے۔

    قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری نے شہرت دوام پائی، ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر امر کردیا، آپ 82 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامور شاعر اور نثرنگار ہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہور منتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو شاعرِاسلام اور شاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات میں انہیں ہلال امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں

    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لیے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتا تھے، 1925 میں ’نغمہ زار‘ کے نام سے حفیظ کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کا گایا ہوا شہرہ آفاق گیت ابھی ’تو میں جوان ہوں‘ بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی

    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اور بزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف

    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئے تھے ‘ اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے

    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

  • مشہور و معروف قوال عزیز میاں کو بچھڑے 18 برس بیت گئے

    مشہور و معروف قوال عزیز میاں کو بچھڑے 18 برس بیت گئے

    کراچی: مشہورو معروف قوال عزیز میاں کو اپنے مداحوں سے بچھڑے اٹھارہ برس بیت گئے، ان کی گائی ہوئی قوالیاں آج بھی مقبول ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال عزیز میاں اپنی قوالی کے ذریعے ایسا سما باندھتے کے سامعین اور حاضرین جھوم جاتے، انہیں اپنے مداحوں سے بچھڑے 18 برس بیت گئے۔

    عزیز میاں قوال کو ” اللہ ہی جانے کون بشر ہے “ اور ” یا نبی یا نبی جیسی قوالیوں نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، حکومت نے انہیں انیس سو نواسی میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔

    انہیں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا، عزیز میاں قوال چھ دسمبرسن دوہزار کو علالت کے باعث اٹھاون برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

    بھارت کے شہر دہلی میں 17 اپریل 1942 کو پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ انہوں نے قوالی میں ایسے ایسے مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے‘ اس جدت کے سبب انہیں قوال حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

    عزیز میاں قوال نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے‘ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی، تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔

  • پاپ میوزک کی شہزادی سنگر نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 18 برس بیت گئے

    پاپ میوزک کی شہزادی سنگر نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 18 برس بیت گئے

    کراچی : پاکستان کی پاپ انڈسٹری کو چار چاند لگانے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 18 برس بیت گئے لیکن اپنے مداحوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔

    نازیہ حسن تین اپریل انیس سو پینسٹھ ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن سے کیا، تعلیم لندن میں مکمل کی، نازیہ حسن کا شمار برصغیر میں پاپ موسیقی کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔

    نازیہ نے کم سنی میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا، عالمی سطح پر نازیہ حسن کو اس وقت شہرت ملی، جب انہوں نے بھارتی موسیقار بدو کی موسیقی میں فلم قربانی کا مشہور نغمہ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے ریکارڈ کروایا، جس پرانہیں بھارت کے مشہور فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    گیت آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے نے نازیہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے وسطی ایشیا میں پاپ موسیقی کی ملکہ بنا دیا، نازیہ کی زندگی کے سب سے اہم جزو ان کے بھائی زوہیب حسن تھے، جنھوں نے نازیہ کی پوری زندگی ان کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں نازیہ کے کئی البم اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ جاری ہوئے۔

    نازیہ کا پہلا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ 1982ء میں ریلیز ہوا۔ جس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، اس البم میں ان کے بھائی زوہیب حسن نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا، نازیہ حسن کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    نازیہ صرف گلوکارہ ہی نہیں سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر اقوام متحدہ سے وابستہ رہیں، انیس سو اکانوے میں انہیں پاکستان کے ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا۔

    نازیہ حسن پہلی پاکستانی ہیں، جنہوں نے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا اور بیسٹ فیمیل پلے بیک سنگر کی کیٹیگری میں کم عمر ایوارڈ جیتنے والی گلوکارہ قرار پائیں۔

    نازیہ حسن کی وفات کے بعد 2002 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا اعزاز پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا جبکہ دو ہزار تین میں ان کی یاد میں نازیہ حسن فاوٴنڈیشن قائم کی گئی۔

    سرطان کے موذی مرض میں مبتلا نازیہ حسن تیرہ اگست سن دو ہزار میں لندن کے اسپتال میں انتقال کر گئیں مگر ان کی سریلی آواز میں گائے گیت آج بھی دل دماغ کو ترو تازہ کر دیتے ہیں۔ تیرہ اگست دو ہزار میں لندن کے اسپتال میں انتقال کر گئیں۔