Tag: death row

  • دوسرے ملک کی موسیقی کیوں سنی؟ نوجوان کو سرعام سزائے موت

    دوسرے ملک کی موسیقی کیوں سنی؟ نوجوان کو سرعام سزائے موت

    پیانگ یانگ:شمالی کوریا میں ’کے پوپ‘ موسیقی سننے اور تقسیم کرنے پر نوجوان کو سر عام تختہ دار پر لٹکائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی یونی فکیشن منسٹری کے تحت جاری کی جانے والی انسانی حقوق کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 22 سالہ نوجوان کو ’کے پوپ‘ میوزک اور فلمیں دیکھنے اور تقسیم کرنے پر سرعام سزائے موت دی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے ایک جنوبی صوبے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو 2022 میں 70 جنوبی کوریائی گانے سننے اور 3 فلمیں دیکھنے اور انہیں تقسیم کرنے کے جرم میں سرعام سزائے موت دی گئی۔

    سزا پانے والے نوجوان پر 2020 میں نافذ ہونے والے ایک قانون کی خلاف ورزی کا الزام تھا جس کے تحت جنوبی کوریا میں تیار مواد دیکھنے یا سننے پر سخت پابندی لگادی گئی تھی۔

    اس پابندی کا مقصدشمالی کوریائی باشندوں کو مغربی اثرات سے بچانے کی اس مہم کا حصہ ہے جو سابق صدر کم جونگ ال کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ موجودہ صدر کے دور میں اس مہم کو مزید زوروں سے شروع کیا گیا ہے۔

    کچرے سے بھرے مزید 350 بالون جنوبی کوریا پہنچ گئے

    واضح رہے کہ ’کے پوپ‘ اور ’کے ڈرامہ‘ سے مراد جنوبی کوریا میں تیار ہونے والی موسیقی اور فلمیں ہیں، جنہیں دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔

  • سعودی عرب : باپ کو قتل کرنے والا امریکی بیٹا انجام کو پہنچ گیا

    سعودی عرب : باپ کو قتل کرنے والا امریکی بیٹا انجام کو پہنچ گیا

    ریاض : سعودی عدالت کے حکم پر اپنے باپ کو بے دردی سے قتل کرنے والے سفاک بیٹے کو سزائے موت دے دی گئی، مجرم کا تعلق امریکا سے ہے۔

    مقدمے کی سماعت کے دوران مجرم نے اعتراف جرم کرلیا تھا، امریکی بیٹے نے اپنے مصری والد کے چہرے پر متعدد مرتبہ مکے مارے اور گلا گھونٹ کر موت کے منہ دھکیل دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزارت داخلہ نے اپنے والد کو قتل کرنے والے امریکی شخص کی سزائے موت پر عمل درآمد کروادیا۔ وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ امریکی مجرم بیشوئی شریف ناجی نصیف نے اپنے مصری والد کو متعدد بار چہرے پر مکے مارے اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے ہاتھوں سے کا گلا گھونٹ کر والد کو ابدی نیند سلا دیا۔

    سعودی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ قتل کرنے کے بعد قاتل نے اپنے باپ کی لاش کو ثبوت مٹانے کیلئے مسخ کر ڈالا۔ اس نے پھر ایک دوسرے شخص کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی مجرم بھنگ اور نشہ آور گولیوں کے استعمال میں بھی ملوث ہے۔

    وزارت داخلہ نے کہا کہ سکیورٹی حکام نے مجرم کو گرفتار کیا اور اس سے تفتیش کے نتیجے میں اس پر اپنے جرم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا اسے مجاز عدالت میں بھیج دیا گیا جہاں اس پر جرم ثابت ہوگیا۔

  • "چڑیل” کو ساڑھے تین صدیوں بعد انصاف مل گیا، لیکن کیسے ؟

    "چڑیل” کو ساڑھے تین صدیوں بعد انصاف مل گیا، لیکن کیسے ؟

    نیویارک : امریکی ریاست میساچیوسٹس میں ایک خاتون کو ساڑھے تین صدیاں قبل قائم کیے گئے مقدمے سے بری کردیا گیا، خاتون کو چڑیل ہونے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

    امریکی قانون سازوں نے ایک منفرد قانون بنا کر تقریباً ساڑھے تین صدیاں قبل "چڑیل” ہونے کے الزام میں موت کی سزا پانی خاتون کو بری کردیا۔

    برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق1693میں ایلزبتھ جانسن پر دیگر پانچ خواتین سمیت جادو ٹونے کے مقدمات درج ہوئے اور ان کو سزائے موت سنائی گئی لیکن ان کو نہ تو معاف کیا گیا اور نہ ہی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔

    قانون کے تحت جادو ٹونے اور عملیات کرنے والے لوگوں کو چڑیل کا نام دیا گیا تھا، مذکورہ خاتون کو اس وقت کے قانون کے مطابق میساچوسٹس کی ریاست میں "چڑیل” ہونے کے شبے میں دیگر خواتین کے ہمراہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔

    مذکورہ کیس "سلیم وِچ ٹرائل” کے نام سے مشہور ہے، جس میں کم از کم اس وقت 100 کے قریب مرد و خواتین کو "چڑیل” ہونے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔

    اس وقت کے دور میں بدصورت لوگوں کو ’چڑیل‘ سمجھا جاتا تھا اور یورپ سمیت امریکا میں ایسے لوگوں کو الزامات لگاکر عدالتوں یا بادشاہوں سے سزائیں دلوائے جانے کا عمل عام تھا۔

    اسی رواج کے تحت میساچوسٹس کی بادشاہت نے اس وقت 1692 سے 1693 تک 100 افراد کو سزائیں سنائی تھیں، جن میں سے 3 درجن کے قریب افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

    اسی ٹرائل کے تحت کم از کم ڈیڑھ درجن خواتین اور مرد حضرات کو اجتماعی سزائے موت بھی دی گئی تھی اور میساچوسٹس میں آج بھی ’سلیم وچ‘ کی یادگار موجود ہے، جہاں بیک وقت نصف درجن خواتین کو پھانسی پر لٹکایا بھی گیا تھا۔

    تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ’چڑیل‘ ہونے کے الزام میں سزا پانی والی خواتین میں الزبتھ جانسن جونیئر بھی  شامل تھیں جو اس وقت 22 سال کی تھیں اور انہیں بھی ’چڑیل‘ قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

    تاہم الزبتھ جانسن جونیئر کو اس وقت نہ تو سزائے موت دی گئی تھی اور نہ ہی ان کی اپیلوں کے باوجود انہیں معاف کیا گیا تھا بلکہ وہ مرتے دم تک مجرم رہی تھیں۔

    مگر انہیں حال ہی میں ایک طالب علم کی جانب سے ’سلیم وچ ٹرائل‘ پر تحقیق کیے جانے کے بعد خصوصی قانون سازی کے ذریعے معاف کردیا گیا۔

    اے پی کے مطابق امریکی ریاست میساچوسٹس کےمقامی علاقے کے ریاستی قانون ساز نے الزبتھ جانسن کو بےقصور ثابت کرنے اور انہیں معاف کروانے کے لیے خصوصی قانون سازی کروائی، جس میں 1692 کے فیصلوں کو غلط قرار دیا گیا اور یوں خاتون کو تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد مقدمے سے بریت ملی۔

  • سعودی عرب : بیوی کے ٹکڑے کرنے والا قاتل شوہر انجام کو پہنچ گیا

    سعودی عرب : بیوی کے ٹکڑے کرنے والا قاتل شوہر انجام کو پہنچ گیا

    ریاض : سعودی عدالت نے اہلیہ کو قتل کرنے والے شخص کو سخت سزا سنادی جس کے بعد مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی ریجن میں مقامی حکام نے بیوی کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے کا الزام ثابت ہوجانے پر سعودی شہری کو موت کی سزا دی ہے۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق وزارت داخلہ نے بیان میں کہا ہے کہ سعودی شہری مھند بن علی بن ابراہیم العسیری نے لیبیا سے تعلق رکھنے والی اپنی بیوی رحاب علی محمد الھمالی کو کو قتل کرکے اس کے ٹکڑے کردیے تھے۔

    ملزم واردات کے بعد فرار ہوگیا تھا۔ پولیس نے گرفتارکرکے اسے دمام کی فوجداری عدالت کے حوالے کیا تھا۔

    مزید پڑھیں : شوہر کی اہلیہ کو سفاکانہ طریقے سے قتل کرنے کی کوشش، ویڈیو وائرل

    عدالت نے قتل کا الزام ثابت ہوجانے پر موت کی سزا سنادی تھی جس کی توثیق پہلے اپیل کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی تھی۔

    ایوان شاہی نےعدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا شاہی فرمان جاری کیا جس کے بعد فیصلے پر عملدرآمد کردیا گیا۔

  • سعودی عرب : سیکیورٹی اہلکار کے قتل میں ملوث دہشت گرد کو سزائے موت

    سعودی عرب : سیکیورٹی اہلکار کے قتل میں ملوث دہشت گرد کو سزائے موت

    ریاض : سعودی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جدہ میں گزشتہ سال  ایک سیکیورٹی اہلکار کے قتل کا الزام ثابت ہوجانے پر داعش سے تعلق رکھنے والے  ایک دہشت گرد کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارت داخلہ نے بیان میں کہا ہے کہ مصری شہری ولید سامی الزھیری نے 12 نومبر 2020کو جدہ میں سیکیورٹی اہلکار ھادی بن مسفر القحطانی کو ہلاک کردیا تھا۔ سیکیورٹی اہلکار پر نماز فجر کے دوران چھری سے حملہ کیا گیا تھا۔

    سیکیورٹی اہلکار ھادی بن مسفر القحطانی ڈیوٹی پر تھے اور نماز کے لیے پٹرول اسٹیشن پر رکے تھے۔ بیان کے مطابق سیکیورٹی فورس نے ملزم کو گرفتار کیا۔ پوچھ گچھ کے دوران اقبال جرم کرتے ہوئے کہا کہ اس کا کوئی نجی جھگڑا نہیں تھا۔ دہشت گرد تنظیم داعش سے وابستگی کی بنا پر حملہ کیا تھا۔

    ولید سامی الزھیری پر قتل اور دہشت گردانہ تنظیم سے وابستگی کی فرد جرم عائد کرکے اسپیشل فوجداری کی عدالت کے حوالے کیا گیا تھا۔
    اپیل کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی سزا کی توثیق کردی تھی جبکہ ایوان شاہی نے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد کا فرمان جاری کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کے ایک ادارے کے مطابق گذشتہ سال ملک میں موت کی سزا پانے والے افراد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

    سعودی ہیومن رائٹس کمیشن (ایس ایچ آر سی) نے بتایا ہے کہ سال 2020 میں 27 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔ ادارے کے مطابق یہ تعداد سال2019 کے مقابلے 85 فیصد کم ہے۔

    اس رپورٹ میں کہا گیا کہ منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت دیے جانے میں غیر اعلانیہ طور پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس طرح کم سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو دوسرا موقع دیا جا رہا ہے۔

  • سعودی عرب : تین غدار فوجی اہلکاروں کو سزائے موت دے دی گئی

    سعودی عرب : تین غدار فوجی اہلکاروں کو سزائے موت دے دی گئی

    ریاض : سعودی عرب میں فوج کے تین اہلکاروں کو سزائے موت دے دی گئی، مذکورہ مجرمان پر مملکت کے ساتھ غداری کا الزام ثابت ہوا تھا۔

    سعودی وزارت دفاع کے تین فوجی اہلکاروں کو غداری کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت دے دی گئی ہے۔

    سعودی پریس ایجنسی کے مطابق وزارت دفاع نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے ساتھ غداری کا الزام ثابت ہونے پر مذکورہ افراد کو ان کی عسکری حیثیت کی بنا پر اور شرعی و قانونی تقاضے کی بنیاد پر سزائے موت دے دی گئی ہے۔

    وزارت نے کہا ہے کہ عسکری حلف وفاداری سے خیانت کرتے ہوئے فرسٹ سولجر محمد بن احمد بن یحییٰ عکام، فرسٹ سولجر شاہر بن عیسیٰ بن قاسم حقوی اور فرسٹ سولجر حمود بن ابراہیم بن علی الحازمی نے عسکری حیثیت میں ملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔

    مذکورہ افراد نے وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کے ساتھ تعاون کا سنگین جرم کیا ہے، ملزمان کی جانب سے عدالت کے سامنے جرم کا اقرار کرنے کے علاوہ دیگر شواہد سے بھی ان پر الزام ثابت ہوا ہے۔

    شرعی عدالت نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد اور جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔

    بعد ازاں ایوان شاہی نے مذکورہ افراد کے خلاف عدالتی فیصلہ نافذ کرنے کی منظوری دی ہے۔ وزارت نے کہا ہے کہ مذکورہ افراد کو آج ہفتہ کے دن جنوبی علاقے کی چھاؤنی میں سزائے موت دی گئی ہے۔

    وزارت نے فیصلے کے نفاذ کے ساتھ مسلح افواج سے وابستہ افراد کی وفاداری اور وطن کے لیے جان کی قربانی دینے کے جذبے کو سراہا ہے۔

  • ملازمہ کا قتل، سعودی خاتون کو سزائے موت

    ملازمہ کا قتل، سعودی خاتون کو سزائے موت

    ریاض : سعودی عرب میں ایک بنگلہ دیشی ملازمہ کو قتل کرنے کے جرم میں ایک سعودی خاتون کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ شوہر کو تین برس اور بیٹے کو بھی سات ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    بنگلہ دیش کے ایک عہدے دار کے مطابق سعودی عدالت نے مارچ سنہ 2019 میں بنگلہ دیشی ملازمہ ابیرون بیگم کے قتل کے جرم میں عائشہ الجزانی کو سزائے موت سنائی ہے۔

    سعودی عرب کی فوجداری عدالت نے ایک بنگلہ دیشی نوکرانی کو قتل کرنے کے جرم میں ایک سعودی خاتون کو سزائے موت سنائی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے ملک میں کسی تارک وطن ملازم یا ملازمہ کے ساتھ بدسلوکی اور حیوانیت کرنے کا یہ قصور ثابت ہوگیا ہے۔

    ابیرون بیگم کے لواحقین نے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان دلالوں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے 40سالہ ابیرون بیگم کو چار برس قبل سعودی عرب میں ملازمت کے لیے بھیجا تھا۔ ان کے ساتھ ‘دھوکہ’ ہوا تھا۔

    مقتولہ کے بہنوئی ایوب علی نے بتایا کہ وہ زیادہ پیسہ کمانے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی تھیں تاکہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو پیسہ بھیج سکیں اور وہ بڑھاپے میں اچھی زندگی گزار سکیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ابیرون بیگم کے سعودی عرب جانے کے دو ہفتوں بعد اس پر تشدد کیا جانے لگا۔ وہ ہمیں کال کرکے بتاتی تھی اور روتی تھی، ہم یہاں کے ایجنٹوں سے التجا کرتے تھے کہ اسے واپس لاؤ، لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی’۔

    بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار احمد منیرس صالحین نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عائشہ الجزانی کے شوہر کو بیوی کا طبی علاج نہ کرانے اور گھر سے باہر کام کرانے کے جرم میں تین برس قید  جبکہ  الجزانی کے بیٹے کو بھی سات ماہ کی سزا سنائی گئی ہے۔

  • بیس سال پہلے بچوں کو اغوا کرنے خاتون کا عبرتناک انجام

    بیس سال پہلے بچوں کو اغوا کرنے خاتون کا عبرتناک انجام

    سعودی عرب دمام میں فوجداری کی عدالت نے بچوں کو اغوا کرنے والے گروہ کی سرغنہ خاتون کو موت کی سزا سنائی ہے، سعودی میڈیا میں خاتون خاطفۃ الدمام (دمام کی اغواکنندہ) کے لقب سے مشہور ہے۔

    خاتون نے تین عشرے قبل مشرقی سعودی عرب کے معروف شہر دمام میں تین شیرخوار اغوا کیے تھے۔ عدالت نے یمنی اغوا کار کو 25 برس قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

    العربیہ نیٹ کے مطابق پبلک پراسیکیوشن نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے پہلے، دوسرے اور تیسرے ملزمان کے خلاف حد الحرابہ کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔

    اسلامی قانون میں حد الحرابہ کی سزا ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے جو علاقے میں انارکی پھیلا رہے ہوں اور طاقت کے بل پر قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہوں۔

    پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بیان جاری کرکے کہا تھا کہ دمام کی اغوا کار خاتون نے اپنے زیر کفالت دو بچوں کی شناخت کی دستاویزات حاصل کرنے کے لیے یہ کہہ کر درخواست دی تھی کہ اسے بیس برس سے زیادہ پہلے یہ دونوں بچے لاوارث ملے تھے۔اسے نہیں معلوم کہ یہ کس کے بچے ہیں۔

    پبلک پراسیکیوٹر شیخ سعود المعجب نے واقعہ کی اطلاع ملنے پر متعلقہ اداروں کو حقائق دریافت کرنے کی ہدایت جاری کردی تھی۔اس سلسلے میں متعدد اداروں نے مل کر کام کیا تھا۔

    ڈی این اے رپورٹ سے پتہ چلا کہ مبینہ بچوں کا ملزم خاتون سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ان سعودی خاندانوں سے ان بچوں کا نسب ثابت ہوگیا جو دو عشرے قبل بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کرائے ہوئے تھے۔

    پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 21 ملزمان اور گواہان سے 40 میٹنگیں کیں۔ اس حوالے سے 247 عدالتی کارروائیاں کیں۔ آخر میں پانچ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی- ان میں سے ایک مملکت سے فرار ہے۔ پبلک پراسیکیوشن نے انٹرپول سے اسے مملکت واپس لانے کی درخواست کردی ہے۔

    پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بتایا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اغوا کیس کی کلیدی ملزم سعودی خاتون ہے۔ اس نے جان بوجھ کر زچہ بچہ ہسپتال سے تین شیرخوار اغوا کیے۔ اس نے مغوی بچوں کو ذہنی، مالی اور معنوی دکھ دیے۔ ان کے رشتہ داروں کو بیس برس سے زیادہ مدت تک اپنے بچوں سے محروم رکھا۔

    خاتون نے دوسرے اور چوتھے ملزمان کے ساتھ ساز باز کرکے سرکاری اداروں کے سامنے جھوٹے بیانات دلوائے۔ ان کے خلاف جادو ٹونے کے الزماات بھی ہیں جبکہ ان پر بچوں کو تعلیم، قومی شناخت، شہری و نجی حقوق سے محروم کرنے اور انویسٹی گیشن بورڈ کو گمراہ کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

    پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بتایا کہ ملزم ثانی بھی سعودی شہری ہے- اس پر زچہ بچہ ہسپتال سے نومولود کے اغوا، سرکاری اداروں کے سامنے غلط بیانی سے کام لینے، جھوٹا دعوی کرکے بچے کا شناختی کارڈ نکلوانے، دو بچوں کی اغوا کار خاتون کے جرم پر پردہ ڈالنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔

    تیسرے ملزم کا تعلق یمن سے ہے اس پر تیسرے بچے کے اغوا میں شریک پارٹی بننے کا الزام ہے- دوسرا الزام یہ ہے کہ اس نے اغوا کا رخاتون کے جرم پر پردہ ڈالا اور اس سے جو کچھ بچوں کو جانی و مالی و ذہنی اور اخلاقی نقصان پہنچا اس کا بھی اسے ذمہ دار تسلیم کیا گیا۔

    چوتھا ملزم سعودی ہے۔ اس پر بچوں کی پیدائش سے متعلق جھوٹا بیان دینے، بچوں کے جھوٹے نسب نامے میں حصہ لینے اور انہیں جانی و مالی اور ذہنی نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ پانچواں ملزم بھی سعودی شہری ہے اور مملکت سے مفرور ہے۔ اس پر غلط بیانی کا الزام ہے۔

  • لاہور : سزائے موت کے دو مجرموں کی سزا کالعدم، بری کردیا

    لاہور : سزائے موت کے دو مجرموں کی سزا کالعدم، بری کردیا

    لاہور : سزائے موت کے دو قیدیوں کو نئی زندگی مل گئی، لاہور ہائی کورٹ نے بری کردیا، ملزمان کے وکیل کا مؤقف تھا کہ سابقہ عدالت نے میرٹ سے ہٹ کر مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں پھانسی کے دو سزا یافتہ مجرموں کی سزائے موت کو ختم کرکے انہیں بری کردیا، سزائے موت کیخلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے جج جسٹس سردار نعیم اور جسٹس شہرام سرور چوہدری نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سزائے موت کے قیدی مطلوب احمد اور محمد رشید کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت مدعیان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ قصور نے میرٹ سے ہٹ کر موت کی سزا سنائی، وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو گواہ پیش کیے ان کی موقع پر موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ گواہوں کی موقع پر موجودگی ثابت نہ ہونے پر لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کے 2 قیدیوں کو بری کر دیا۔

    جسٹس سردار نعیم اور جسٹس شہرام سرور چوہدری نے فیصلہ سناتے ہوئے موت کے قیدیوں مطلوب احمد اور محمد رشید کو بری کرنے کا حکم دیا۔

  • حاملہ خاتون کے قاتل کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کا حکم

    حاملہ خاتون کے قاتل کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کا حکم

    اسلام آباد : عدالت نے جرم ثابت ہونے پر حاملہ خاتون قتل کے مجرم کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔ ملزم نے پانچ سال قبل خاتون کو قتل کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی ماڈل عدالت میں حاملہ خاتون کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ آصف محمود نے حاملہ خاتون کو قتل کرنے کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔

    جس کے مطابق قتل میں ملوث ملزم محبوب الرحمن کو سزائے موت اور جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ملزم کو تین لاکھ روپے جرمانہ ادائیگی کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق تین لاکھ روپے جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرم محبوب الرحمن کو مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ ملزم محبوب الرحمن پر الزام تھا کہ اس نے 5سال قبل تھانہ کورال کے علاقہ میں وقاص شفیق کی اہلیہ کو قتل کردیا تھا۔

    مقتولہ چھ ماہ کی حاملہ تھی جس کے قتل کا مقدمہ اس کے شوہر وقاص شفیق کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، وکلاء کے دلائل اور پیش کیے جانے والے شواہد کی روشنی میں جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت سنائی گئی۔