Tag: death Valley

  • امریکا کی ’ڈیتھ ویلی‘ میں درجہ حرارت 55 ڈگری کو چھو گیا

    امریکا کی ’ڈیتھ ویلی‘ میں درجہ حرارت 55 ڈگری کو چھو گیا

    امریکا کی کئی ریاستوں میں سورج قہربرسا رہا ہے، لاس ویگاس میں پارہ مسلسل پانچویں دن 46 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، ریاست کیلیفورنیا کی ’’ڈیتھ ویلی‘‘ میں درجہ حرارت 55 ڈگری کو چھو گیا ہے۔

    تاہم شدید گرمی کے باوجود سیاح ڈیتھ ویلی پہنچ گئے، نیشنل پارک کے فرنس کریک وزیٹرز سینٹر کے باہر نصب تھرمامیٹر کے ساتھ سیاح ہائی ٹمپریچر کی یادگار کے طور تصاویر بنواتے اور سیلفیاں لیتے رہے، یہاں گزشتہ روز ایک موٹر سائیکلسٹ شدید گرمی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا اور متعدد بے ہوش ہو گئے تھے۔

    نیشنل ویدرسروس کے مطابق کیلیفورنیا، نیواڈا، ایریزونا، اوریگان، ایڈاہو، الاباما اورمسیسیپی کی ریاستیں شدید گرمی کی زد میں ہیں۔ کیلیفورنیا اور نیواڈا میں آنے والے ہفتے میں روزانہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت دیکھنے کی توقع ہے۔

    حکام کے مطابق مغرب اور بحر الکاہل کے شمال مغرب میں درجنوں مقامات پر گرمی کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹے ہیں، اور رواں ہفتے درجہ حرارت کے مزید 165 سے زیادہ روزانہ کے ریکارڈ ٹوٹنے کا امکان ہے۔

    جو بائیڈن نے یوکرین کو جدید اسٹریٹجک دفاعی نظام فراہم کرنے کا وعدہ کر لیا

    گزشتہ روز متحدہ عرب امارات میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے تجاوز کر گیا تھا، یو اے ای حکام کے مطابق گرمی کی لہر پانچ دن تک جاری رہنے کا امکان ہے، متحدہ عرب امارات میں آج بھی درجہ حرارت 42 ڈگری ہے جب کہ اس کی شدت 50 سینٹی گریڈ تک محسوس کی جا رہی ہے۔

  • دنیا کا پراسرار مقام جہاں پتھر خودبخود حرکت کرتے ہیں

    دنیا کا پراسرار مقام جہاں پتھر خودبخود حرکت کرتے ہیں

    دنیا کے گرم ترین مقام سمجھے جانے والے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ڈیتھ ویلی نیشنل پارک میں پتھر اپنی جگہ سے خود سرکتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

    دنیا کے اس خشک ترین مقام میں ایک جھیل کی خشک تہہ میں ایسا ہوتا ہے جسے ریس ٹریک پلایا کا نام بھی دیا گیا ہے اور وہاں آپ اس نیشنل پارک کے مشہور معروف حرکت کرتے چٹانی پتھروں یا سیلنگ اسٹونز یا کم از کم ان کے سرکنے سے بننے والی لکیروں کو بھی دریافت کرسکتے ہیں۔

    ریس ٹریک کی خشک سطح پہ بے جان پتھر خود بخود سرکتے ہیں جس سے ان کے پیچھے ایک ٹریک بن جاتا ہے۔

    ان چٹانی پتھروں کا وزن کئی بار 200 کلو گرام سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ ایک منٹ میں 15 فٹ سے زیادہ سرک سکتے ہیں، اکثر یہ اپنی جگہ سے کئی کلومیٹر دور تک چلے جاتے ہیں۔

    مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کسی انسان نے ان پتھروں کو حرکت کرتے نہیں دیکھا یعنی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔

    البتہ انہیں 2014 میں ٹائم لیپس فوٹوگرافی کی مدد سے ضرور حرکت کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور اس وقت اس حیران کن معمے کی ممکنہ وجہ بھی سامنے آئی۔

    سنہ 2014 میں 2 سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ کئی بار یہ بھاری اور بڑے پتھر برف کی پتلی مگر شفاف تہہ میں سورج والے دنوں میں سرکتے ہیں، جسے انہوں نے آئس شوو کا نام دیا۔

    سائنسدان جیمز نورس نے اس موقع پر بتایا تھا کہ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے کہ دنیا کا وہ مقام جہاں سال بھر میں اوسطاً محض 2 انچ بارش ہوتی ہے، چٹانی پتھر اس طرح سرکتے ہیں جیسے عموماً آرکٹک کے خطے میں نظر آتا ہے۔

    انہوں نے یہ دریافت حادثاتی طور پر کی تھی، ویسے یہ ان پتھروں کی حرکت کی ہی جانچ پڑتال کررہے تھے مگر انہوں نے ان چٹانوں کو دسمبر میں اس وقت متحرک دیکھا جب وہ وہاں موجود اپنے ٹائم لیپس کیمروں کو چیک کرنے گئے۔

    انہوں نے 60 چٹانی پتھروں کو آہستگی سے سرکتے دیکھا، یہ چٹانیں اکثر بے جان ہی رہتی ہیں اور سرکنے پر بھی یہ عمل چند منٹ تک ہی جاری رہتا ہے ، جس کی وجہ سے اکثر افراد پہلے اس کا نوٹس نہیں لے سکے۔

    ڈیتھ ویلی نیشنل پارک کے نمائندگان کے مطابق یہ پراسرار حرکت سردیوں میں اس وقت ہوتی ہے جب یہاں بارش ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کے بعد ریس ٹریک پر بہت زیادہ پھسلن والی برف کی پتلی تہہ بن جاتی ہے جبکہ تند و تیز ہواؤں سے بھاری پتھر سطح پر حرکت کرنے لگتے ہیں اور اپنے پیچھے مٹی پر ٹریک چھوڑ جاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اگر اس جگہ پر مناسب حد تک بارش نہ ہو تو یہ پتھر مزید ایک سال تک اپنی جگہ جمے رہتے ہیں اور چونکہ ڈیتھ ویلی بہت زیادہ خشک مقام ہے تو پتھروں کو حرکت کرتے پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    ناسا کی جانب سے بھی اس مقام کے معمے کے حوالے سے وضاحت جاری کی گئی، ناسا کے مطابق یہ خشک جھیل کی تہہ لگ بھگ مثالی حد تک سپاٹ ہے اور وہاں چند بڑے چٹانی پتھر موجود ہیں۔

    بیان میں کہا گیا کہ ان پتھروں کی حرکت مسحور کن ہے مگر اب سائنسی طور پر معمہ نہیں، پہلے خیال کیا جاتا تھا ایسا شدید بارش کے بعد مٹی کے بہنے، خشک ہونے اور ان میں دراڑوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    مگر اب معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا سردیوں میں برف کی پتلی تہہ بننے کے نتیجے میں ہوتا ہے اور تیز ہوا اس برفانی حصے پر بھاری چٹانوں کو اس وقت متحرک کردیتی ہیں جب سورج کی روشنی سے برف پگھل جاتی ہے۔

  • زمین پر سب سے زیادہ گرمی اس وقت کہاں پڑ رہی ہے؟

    زمین پر سب سے زیادہ گرمی اس وقت کہاں پڑ رہی ہے؟

    کلائمٹ چینج کی وجہ سے موسم گرما میں گرمی کے نئے نئے ریکارڈز قائم ہو رہے ہیں، ماہرین نے زمین پر اب تک کے سب سے گرم مقام کی نشاندہی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کی وادی موت (ڈیتھ ویلی) میں گزشتہ دنوں زمین پر اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔

    یو ایس نیشنل ویدر سروس نے سدرن کیلیفورنیا میں واقع وادی موت کے مقام فرنس کریک میں زمین کی تاریخ کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا ہے۔

    10 جولائی کو اس مقام پر 54.4 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا اور اس کی تصدیق ہوگئی تو وہ گزشتہ سال اسی مقام پر بننے والے ریکارڈ کے برابر ہوگا اور گزشتہ سو برسوں میں ریکارڈ کیے جانے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی ہوگا۔

    امریکی محکمہ موسمیات کے مطابق اگر اس کی تصدیق ہوئی تو یہ جولائی 1913 کے بعد سب سے زیادہ ریکارڈ ہونے والے درجہ حرارت ہوگا۔

    اب تک سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ جولائی 1913 ڈیتھ ویلی میں 56.7 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا مگر موجودہ دور کے ماہرین موسمیات اس پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیتے ہیں کہ اس دور کے آلات میں غلطیوں کا امکان بہت زیادہ تھا۔

    ان کے مطابق جب یہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تو قریبی علاقے اتنے گرم نہیں تھے۔

    کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2013 میں وادی موت میں 54.88، 2016 میں کویت میں 54 سینٹی گریڈ اور 2017 میں پاکستان کے شہر تربت میں 53.5 سینٹی گریڈ اب تک زمین پر درست طریقے سے ریکارڈ ہونے والے سب سے زیادہ 3 درجہ حرارت والے مقام ہیں۔

    اس مقام پر گرمی کی اس شدت کو کئی روز سے دیکھا جارہا تھا اور مسلسل 3 دن تک فرنس کریک میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 53.3 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو رات کو 32 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔

    اس گرم موسم نے کافی بڑے خطے کو متاثرکیا، کیلیفورنیا کے متعدد علاقوں میں گرمی کے نئے ریکارڈ بن چکے ہیں جبکہ شدید قحط سالی کا بھی سامنا ہوا۔

  • موت کی وادی : جہاں پتھر پراسرار طور پر میلوں کا سفر طے کرتے ہیں

    موت کی وادی : جہاں پتھر پراسرار طور پر میلوں کا سفر طے کرتے ہیں

    آپ نے دنیا میں عجائبات فطرت تو بہت دیکھے ہوں گے لیکن قدرت کے شاہکاروں میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جس کا تصور بھی انسان کیلئے ناممکنات میں سے ہے اور انہیں دیکھ کر آنکھ پلک جھپکنا بھول جاتی ہے۔

    ایک ایسا ہی مقام امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع ہے جسے ڈیتھ ویلی یا موت کی وادی کہا جاتا ہے، یہ وادی متحرک پتھروں کی وادی کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔

    وادی موت امریکی ریاست کیلیفورنیا کے "صحرائے موجاوی” میں واقع ہے۔ یہ مقام اپنے انتہائی گرم اور انتہائی سرد درجہ حرارت کی وجہ سے معروف ہے،۔

    یہاں کا درجہ حرارت 56 ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ اور گر سکتا ہے۔ یہ وادی شمالی امریکہ کا زیریں ترین مقام ہے۔

    ویسے تو ڈیتھ ویلی میں 15 کے قریب دیکھنے لائق مقامات موجود ہیں جن میں رنگ برنگی مٹی والے پہاڑ، بیڈ واٹر بیسن نامی منفرد جھیل، ڈیولز گالف کورس نامی میدان، بہار میں تاحد نگاہ اگنے والے زرد ہھولوں کے میدان، پتھر سے بنے قدرتی پل اور ناقابل یقین سخت حالات میں رہنے والی ” ڈیتھ ویلی فش” نامی مچھلی کے تالاب وغیرہ۔۔

    تاہم اس کی سب سے مشہور چیز یہاں موجود سینکڑوں ایسے پتھر ہیں جو مسلسل سست رفتاری سے متحرک رہتے ہیں۔ یہ پتھر انتہائی بھاری ہونے کے باوجود زمیں پر دراڑیں ڈالتے ہوئے بیسیوں میل کا سفر طے کرنے کے بعد راستہ بدل کر دوبارہ سفر شروع کردیتے ہیں اور ایسا صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔

    پتھروں کی یہ حرکت انسان اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ سکتا ہے اور کیمرے سے فلمایا بھی جاسکتا ہے۔ یہاں 700 پاؤنڈ وزن کے حامل پتھروں کو 1500 میٹر کا سفر طے کرتے ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔

    آخر بے جان پتھر کا طرح حرکت کرسکتے ہیں؟

    اس معمہ پر جیولوجی کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جب بارش کے بعد وادی کی کھردری مٹی کی بالائی تہہ کے نیچے پانی جمع ہوتا ہے اور شدید ٹھنڈ کی وجہ سے اندر ہی جم جاتا ہے دن نکلنے کے بعد جب دھوپ کی تمازت بڑھتی ہے تو مٹی کی تہہ کے نیچے برف پگھلنے لگتی ہے جس سے وادی کا پورا فرش اوپر سے نارمل لیکن اندر سے چکنا اور پھسلنے والا ہوجاتا ہے۔

    ایسے میں جب تیز ہوا چلتی ہے تو زمین کے اندر کی پھسلن سے پتھر ایک طرف کو حرکت کرنے لگتے ہیں۔ تاہم اس بات کی وضاحت ابھی تک باقی ہے کہ آخر ہوا سے کئی کلو یا بعض اوقات کئی ٹن وزنی پتھر جیسے اتنا لمبا فاصلہ طے کرسکتے ہیں؟

    اس راز سے ابھی تک مکمل طور پے پردہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں یہ عقدہ بھی کھل جائے گا۔