Tag: Delay in construction of dams

  • کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    "وطن عزیز کو تقریباً ہر سال تباہ کن سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوجاتے ہیں جس کی بڑی وجہ ڈیموں کی تعمیر نہ ہونا ہے، حالانکہ بھارت میں ان کی تعداد 6 ہزار ہے۔

    دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں ایسی مشکلات سے محفوظ رہنے کیلیے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں، اگر پاکستان میں بھی اس طرح کے اقدامات اٹھاتے ہوئے ڈیموں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا جاتا تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں آبی ماہر ارشد ایچ عباسی نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ میں گزشتہ 30 سال سے بھارتی آبی ماہرین سے رابطے میں ہوں، وہ لوگ اس انڈس واٹر ٹریٹی کے اس جملے ’پانی کا بہترین استعمال‘ پر عمل کرتے ہوئے مزید ڈیم بنانے کی کوششوں میں ہیں۔

    ارشد ایچ عباسی نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے سال 2004 میں ٹیلی میٹری کو متحرک کرلیا تھا، وہ پہلے 6 ماہ تو بہت اچھے سے چلی لیکن بدقسمتی سے ارسا نے بعد ازاں وہ ٹیلی میٹری ہی ختم کردی۔

    اس طرح کے تجربات بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے بھارت میں 6 ہزار سے زائد ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، کالا باغ ڈیم کو تو چھوڑیں، 1976 سے چنیوٹ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک ہم وہ ڈیم بھی نہیں بنا سکے حالانکہ اس پر تو کسی قسم کا کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے۔

    آبی ماہر نے کہا کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل مشرف نے سال2006 میں بھاشا ڈیم کا آغاز کیا تھا اور وہ بھی اب تک زیر تعمیر ہے 19 سال میں صرف 40 فیصد کام ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے، توانائی پیدا کرنے اور سیلاب پر قابو پانے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس میں دریائے سندھ پر تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم موجود ہیں تاہم دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا عمل بھی جاری ہے۔

    پاکستان میں کم و بیش 15 میٹر سے بلند 73 ڈیم اور آبی ذخائر موجود ہیں، جن میں سے بیشتر دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

  • ملک میں لاکھوں ایکڑ ملین پانی ضائع، صورتحال تشویشناک ہوگئی

    ملک میں لاکھوں ایکڑ ملین پانی ضائع، صورتحال تشویشناک ہوگئی

    پاکستان میں رواں سال بارشیں کم ہونے کے باعث ملک میں کاشتکاری کیلیے درکار پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ سالانہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’اعتراض ہے‘ میں میزبان انیقہ نثار نے مذکورہ تشویشناک صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہر سال کی طرح پاکستان اس سال بھی صاف پانی ضائع ہونے سے بچانے میں ناکام رہا، ارسا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک کروڑ 80 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ملک میں واپڈا کے زیرانتظام پانی اسٹور کرنے کے چار بڑے منصوبے تاحال التوا کا شکار ہیں، ان منصوبوں میں دیامیر، بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے بڑے پراجیکٹس شامل ہیں جو نہ صرف پانی کو اسٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان کے50 فیصد سے زائد شہری پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔

    دنیا بھر کے دو ارب لوگوں کا انحصار گلیشیئرز کے پانی پر ہی ہے جو اس کو پینے، توانائی کے پیدا کرنے اور انڈسٹریز کیلیے استعمال کرتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث پوری دنیا میں جس تیزی سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں ان کی وجہ سے کرۂ ارض پر پانی کی قلت کے خطرات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

    اس حوالے سے پاکستان تو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے زیر اثر ہے اور متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جس تیزی سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اسی تیزی کے ساتھ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے حوالے سے بھی ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    اس کے ساتھ ہی پینے کے صاف پانی کے ضیاع کو روکنے کیلیے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا کیونکہ آنے والی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔